مسئلہ:-
ہمبستری کے بعد غسل کیوں واجب ہوتا ہے جبکہ دوسری نجاستیں صرف مقام مخصوص کو دھونے سے پاک ہو جاتی ہیں۔ دلیل کے ساتھ تحریر فرمائیں ؟
الجواب-
قرآن مجید میں جنب کے متعلق مبالغہ کا صیفہ آیا ہے جیسا کہ پ6 رکوع 6 میں ہے”
ان كنتم جنبا فاطھروا. اگر تم جنبی ہو تو خوب طہارت حاصل کرو۔
اعلی حضرت نے یوں ترجمہ فرمایا اگر تمہیں نہانے کی حاجت ہو تو خوب ستھرے ہو لو۔
اور اس میں طہارت کے لئے حکم کو وضو کی طرح بعض اعضاء کے ساتھ خاص نہیں کیا گیا جس سے واضح طور پہ معلوم ہوا کہ پورے بدن کی طہارت مطلوب ہے
اس کی عقلی وجہیں تین ہیں۔
۔ اول۔ یہ کہ انزال منی کیساتھ قضائے شہوت میں ایسی لذت کا حصول ہوتا ہے کہ جس سے پورا بدن متمتع ہوتا ہے{فایدہ حاصل کرتا ہے} اس لئے اس نعمت کے شکریہ میں پورے بدن کے دھونے کا حکم ہوا۔ اسی سبب سے وجوب غسل کے لئے علی وجه الدفق الشهوة کی قید ہے کہ بغیر ان کےلذت کا حصول نہیں ہوتا۔ اسی لئے کہ اس صورت میں{اگر شہوت کے ساتھ منی اپنے ظرف سے جدا نہ ہوئی بلکہ بوجھ اٹھانے یا بلندی سے گرنے کے سبب نکلی تو غسل واجب نہیں ہاں وضو جاتا رہے گا} وضو واجب ہوتا ہے نہ کہ غسل ۔
دوسری۔ وجہ یہ ہے کہ جنابت پورے بدن کی قوت سے حاصل ہوتی ہے اسی لئے اس کی زیادتی کا اثر پورے جسم سے ظاہر ہوتا ہے۔ لہذاجنابت سے پورا بدن ظاہر وباطن بقدر امکان دھونے کا حکم ہوا اور یہ باتیں پیشاب وغیرہ میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ ۔
۔تیسری۔ وجہ یہ ہے کہ بارگاہ الہی میں حاضری کے لئے کمال نظافت چاہیئے اور کمال نظافت پورے بدن کے غسل ہی سے حاصل ہو گی مگر پیشاب وغیرہ جس کاوقوع کثیر ہے اس میں خدائے تعالی نے اپنے فضل وکرم سے بندوں کی آسانی کے لئے وضو کو غسل کے قائم مقام کر دیااور جنابت کا وقوع چونکہ کم ہے اس لئے اس میں پورے بدن کا دھونا لازم قرار دیا.
جیسا کہ تفسیر روح البیان جلد دوم صفحہ 355 پر اور بدائع الصنائع جلد اول صفحہ 36 پر ہے۔
انما وجب غسل جميع البدن بخروج المني ولم يجب بخروج البول والغائط وانما وجب غسل الاعضاء المخصوصة لا غير بوجوه۔ احدها ان قضاء الشهوة بانزال المني استمتاع بنعمة يظهر اثرها في جميع البدن وهو اللذة فامر بغسل جميع البدن شكرا لهذه النعمة وهذا لا يتقرر في البول فالغائط۔
والثاني ان الجنابه تاخذ جميع البدن ظاهره وباطنه لان الوطي الذي هو سببه لا يكون الا باستعمال لجميع ما في البدن من القوة حتى يضعف الانسان بالاكثار منه ويقوى بالامتناع فاذا اخذت الجنابة جميع البدن الظاهر والباطن وجب غسل جميع البدن الظاهر والباطن بقدر الامكان ولا كذلك الحدث فانه لا ياخذ الا الظاهر من الاطراف لان سببه يكون بظواهر الاطراف من الاكل والشرب ولا يكونان باستعمال جميع البدن فاوجب غسل ظواهر الاطراف لجميع البدن .
والثالث ۔ ان غسل الكل اوالبعض وجب وسيلة الى الصلاه التي هي خدمة الرب سبحانه وتعالى والقيام بين يديه وتعظيمه فيجب ان يكون المصلي على اطهر الاحوال وانظفها ليكون اقرب الى التعظيم واكمل في الخدمة و كمال النظافه يحصل بغسل جميع البدن وهذا هو العزيمة في الحدث ايضا الا ان ذلك مما يكثر وجوده فاكتفى فيه باليسر النظافة وهى تنقية الاطراف التي تنكشف كثيرا وتقع عليه الابصار ابد واقيم ذلك مقام غسل كل البدن دفعا للحرج وتيسيرا وفضلا من الله ونعمة ولا حرج في الجنابة لانها لا تكثر فبقي الامر فيها على العزيمة هذا ما عندي والعلم بالحق عند الله تعالى ورسوله وجل جلاله وصلى الله تعالى عليه واله باصحابه وازواجه وبارك وسلم.
بحوالہ:- فتوی فیض الرسول
ص:-180۔