طلاق کا بیان, ی۔دینیات

حمل میں دی گئی طلاق کا حکم

استفتاء نمبر 29 :

کیا دورانِ حمل دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے؟


جواب :
جی ہاں! شرع مطھرہ کی روشنی میں حاملہ عورت پر طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہے:
وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّؕ
ترجمہ :اور حمل والیوں کی میعاد یہ ہے کہ وہ اپنا حمل جَن لیں ۔
(الطلاق :65، آیت 4)
قرآن پاک کی ذکر کردہ آیت میں حاملہ عورت کی عدت وضعِ حمل بیان کرنا حالت حمل میں طلاق واقع ہونے کی واضح دلیل ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
“طلاق الحامل یجوز”
ترجمہ :حاملہ عورت کو طلاق دینا جائز ہے ۔
(فتاویٰ عالمگیری، جلد 2،صفحہ 46)
فقیہ اعظم مفتی محمد نور اللہ نعیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
بلا شک وشبہ و گنجائشِ ریب یقیناً حاملہ عورت پر طلاق واقع ہوجاتی ہے، تمام کتب فقہ میں یہی ہے، چاروں اماموں کا مذہب ہے کہ حاملہ پر طلاق واقع ہوجاتی ہے کسی کا اس میں اختلاف نہیں۔
(فتاویٰ نوریہ، جلد 3،صفحہ 149،دار العلوم حنفیہ فریدیہ، اوکاڑہ)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب