حج احساس گناہ کا علاج بھی ہے ، حاجی کو رسول ﷺ کا یہ ارشاد معلوم ہوتا ہے کہ حج مقبول کا ثواب گناہوں سے مغفرت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمرہ دوسرے عمرہ تک دونوں صادر ہوئے گناہوں کا کفارہ ہے حج مقبول کا جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ۔“
حضرت ابو ہریرہ کی دوسری روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کیلیے حج کیا ، دوران حج نہ بخش گوئی کی اور نہ ہی کوئی گناہ کیا تو وہ حج کر کے اس طرح ( گناہوں سے پاک ہو کر لوٹتا ہے جس طرح پیدا ہونے کے دن تھا)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کرو کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح دورکر دیتے ہیں ۔ جس طرح بھٹی لو ہے ، سونے ، چاندی کے زنگ اور کھوٹ کو دور کر دیتی ہے، حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔“
حج کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحیم اور دعا کی قبولیت اور گناہوں کی مغفرت کی امید رکھتا ہے، اسی لیے وہ حج کر کے اس حال میں لوٹتا ہے کہ احساسات گناہ اور قلق و اضطراب کے آلام سے رہائی پاچکا ہوتا ہے ۔ سکینت اور طمانیت کا احساس اسےڈھانپ لیتا ہے اور اس کا سینہ سرور و دانش اور راحت اور خوش بختی کے احساس سےمعمور ہو جاتا ہے
ہر ماہ مطب میں درجنوں ایسے مریض آتے ہیں جو کافی لمبی مدت تک جگر کی درستی ، ہاتھ پاؤں اور پوٹوں کی ورم اور بھر بھراہٹ دور کرنے کے لیے ہزاروں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں ۔ ادھر ادھر ملک کے طول و عرض میں ڈاکٹروں ، حکیموں اور سرکاری ہسپتالوں کے چکر کاٹنے کے بعد چلنے پھرنے سے معذور ، بدن پھول کر کپا ، چہرہ سوجا ہوا ، بد شکل پاؤں پنڈلیاں پولی ، سوجن چڑھ کر بھاری ، کسی کو پیشاب اور کسی کو پسینہ مشکل سے آتا ہے ۔ پیٹ بڑھنے سے بھوک میں کمی اور طبیعت ہر وقت بے چین رہتی ہے ۔ گیس اور تبخیر کی مرض ہمارے ملک میں کیا دنیا بھر میں گھر گھر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ میرے مشاہدے میں ہر سال سینکڑوں ایسے مریض آتے ہیں جو اپنی کمائی کا بیشتر حصہ حکیموں اور ڈاکٹروں کی نذر کر دیتے ہیں ۔ ہمارے مہربان خدا نے حج ہمارے اوپر فرض کر دیا ہے ۔ خدا کے گھر جا کر صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر کاٹنے کو اور چکر کاٹتے وقت سینہ تان کر جلد جلد قدم اٹھانا اس مبارک سفر کے لیے شرط قرار دے دیا گیا ہے ۔ ان چکروں کے درمیان خدا کا ذکر زبان سے کرنا اور بلند آواز میں مالک حقیقی کے سامنے اس امر کا اظہار کرنا کہ میں گناہ گار بندہ ہوں ، تیرے اس پاک شہر میں تیرے حکم سے حاضر ہو گیا ہوں ۔ اے خدا میں اپنے گذشتہ زمانے کی ڈراؤنی اور سراسر نافرمانی اور سرکشی کی روداد اپنے روبرو پیش کر کے شرمندہ ہوں اور اپنی کی ہوئی زیادتیوں کے نقشے سے کانپتا ہوں ۔ اے اللہ تجھ سے بڑا کوئی دربار نہیں اور تو نے ازل سے ابد تک اپنے حضور میں حاضر ہونے والوں کی معافی کا وعدہ فرمایا ہوا ہے ۔ ان دونوں پہاڑیوں یعنی صفا اور مروہ کے میدان میں جہاں تیرے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور ان کی زوجہ محترمہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام دوڑتے پھرتے تھے ۔ آج میں بھی تیرے حضور بخشش کی بھیک مانگنے حاضر ہوا ہوں اور سب کچھ ہوتےہوئے آج کفن پہنے تیرے مقدس گھر میں ڈیرہ جمالیا ہے۔طبی نقطہ نگاہ سے یہ سات چکر ، پھر تیز رفتاری اور سینہ تان کر اور دائیں بائیں آگے پیچھے بچے بوڑھے ، مرد عورت ، کھاتے پیتے اور کنگال سب اسی دھن میں کوئی زبانی اپنی لغزشوں کا رونا رو رہا ہے تو کوئی دعاؤں کی کتاب پڑھ کر آنسوؤں کی گرم گرم لہریں بہا رہا ہے ۔ اس ماحول سے گرمی اور بجلی پیدا ہوتی ہے اور چلنے والوں کا گوشت ، زہر بھرا خون ، گیس ، چربی ، پانی اور جگہ جگہ رکی اور جمی ہوئی بادی اس گناہوں کے پتلے کے بھاری بھر کم بدن کو ہلکا پھلکا بنا کر رکھ دیتی ہے ۔ یہ چکر کاٹ کر پھر کھڑے ہو کر کعبۃ اللہ کی طرف منہ کر کے خود چاہ زمزم کے میدان میں حاضر ہونا اور خوب سیر ہو کر زیادہ سے زیادہ اس با برکت پانی کو پینا اور پھر پانی خوب غٹ غٹ کر کے اپنے خا کی جسم میں انڈیلنے کے بعد یہ دعا کہ اے اللہ میں تجھ سے ایمان کامل ، رزق حلال وافر اور ہر مرض سے شفا کی بھیک مانگتا ہوں ۔ حکیم صاحبان اور علم طب کے ماہر آپ کو بتانے پر مجبور ہیں کہ سعی کے سات چکروں کی محنت شاقہ جو عمرہ اور حج کرنے والے نے ادا کی ہے اس کے بدن کے دور نزدیک جوڑوں ، گلٹیوں ، اعضاء کے میدانوں اور اتھاء گہرائیوں میں جمے ہوئے اور فاسد فضلات اور گندے مواد نرم ہو کر اپنی اپنی جگہ چھوڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں ۔ اس تیاری کے بعد جب خوب پیٹ بھر کر آب زمزم پیا جاتا ہے تو وہ ان بدن ناکارہ بنانے والے مادوں کو موسم کے مطابق پسینہ اور پیشاب کے راستے خارج کر دیتا ہے ۔ اس بدنی صفائی اور تنقیہ کے بعد پھر دو نفل پڑھ کر آہ وزاری سے اس لاکھوں کفن بردار افراد کے اجتماع میں دعا مانگنے سے رہے سہے گندے مادے ہمارے تن خاکی سے جدا ہو کر ہمیں دولت صحت سے مالا مال کر دیتے ہیں ۔ ان چکروں کےخاتمے پر حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے آگے بڑھ بڑھ کر نبی آخر الزمان کے حکم اور سنت کے مطابق ادب و نیاز سے باری باری اپنا زنگ آلود چہرہ اس چوکھٹ پر تسلیم و رضا کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر کے ماہرین طب کو اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس روحانی اور جسمانی ورزش سے بڑھ کر بیماریوں کے بوجھ میں جکڑے ہوئے بدن کوزہروں سے پاک کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا ۔ دنیا بھر میں کروڑوں حکیم ڈاکٹر بیماروں سے بھاری فیس اور دواؤں کی رقم وصول کر کے کھانے کی دواؤں اور انجکشنوں سے بدن میں خونی نہروں کے بچھے ہوئے جال اور اعضائے ہضم کے فضلات ، جراثیم اور وائرس نکالتے نکالتے تھک جاتے ہیں اور بیمار اکتا جاتے ہیں پھر بھی بیماریاں سو فیصد دور نہیں ہوتیں ۔ کیوں نہ ہم خدا کے بتائے ہوئے اس نسخہ کیمیا کو آزمائیں ۔ ہمارے نبی حضور ﷺ ( ہم سب ان پر قربان جائیں ) نے تریسٹھ سال کی عمر میں آخری حج جیسے حجتہ الوداع کہتے ہیں ادا کر کے دنیا کے سامنے یہ حقیقت آشکارا کر دی تھی کہ حج اور عمرہ ادا کرنے سے آدمی روحانی اور جسمانی بیماریوں سے پاک صاف ہو کر تندرستی کا لطف حاصل کرتا ہے ۔ میں اپنے کھاتے پیتے مسلمان بھائیوں سے اپیل کروں گا کہ وہ بیماریوں کے علاج معالجہ پر دھڑا دھڑ روپے خرچ کرنے کی جگہ حج اور عمرہ کی سعادت حاصل کر کے صحت حاصل کریں
مکہ المکرمہ میں دوران طواف بصارت سے محروم خاتون کی آنکھوں کی روشنی واپس آگئی تفصیلات کے مطابق یہ 27 سالہ خاتون گھر میں گر جانے سے اپنی آنکھوں کی روشنی سے محروم ہو گئی تھی ۔ گزشتہ دنوں یہ خاتون اپنے رشتہ داروں کے ہمراہ عمرہ ادا کر نے مکہ پہنچی اور طواف کعبہ کے دوران اسے چکر آنے لگے اور اس پر غشی کی کیفیت طاری ہوگئی خاتون جب ہوش میں آئی تو اس کی دنیا روشن ہوگئی تھی اور وہ اب پہلے کی طرح ہر چیز دیکھ سکتی تھی ۔ بتایا جاتا ہے کہ آنکھوں کی روشنی چلے جانے کے بعد خاتون نے اپنی آنکھوں کا بہت علاج کرایا اور ڈاکٹر اس خاتون کی آنکھوں کی روشنی بحال کرنے میں نا کام ہو گئے تھے ۔ ماہرین بصارت نے اسے ایک حقیقی معجزہ قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ اس خاتون کی بینائی کی از سر نو بحالی خدا کی طرف سے ہے
مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ میں نے کب اور کیوں اسلام قبول کیا ؟ میرا واحد جواب ہے کہ مجھے ان خاص لمحات کا تو علم نہیں ۔ جب میرا دل اسلام کی کرنوں سے منور ہوا ۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں ہمیشہ ہی سے مسلمان تھی ۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں ۔ خاص کر جب آپ کو معلوم ہو کہ اسلام ایک فطری مذہب ہے یعنی اگر ایک بچے کو اپنےآپ پر چھوڑ دیا جائے تو وہ اسلام کو ہی بطور مذہب اپنائے گا۔ ایک مغربی نقاد نے خوب کہا ہے ” اسلام وہ مذہب ہے جو ہر سمجھدار شخص کو متاثر کرتا ہے میں نے جتنا مطالعہ کیا اتنا ہی زیادہ مجھے یقین ہوتا گیا کہ اسلام سب سے زیادہ قابل عمل مذہب ہے اور اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر الجھے ہوئے مسائل کو حل کر کے نوع انسان کو امن اور مسرت بہم پہنچائے ۔ آج تک اس بارے میں میرا یقین کبھی متزلزل نہیں ہوا کہ صرف ایک ہی خدا ہے اور موسیٰ علیہ السلام عیسی علیہ السلام اور جناب محمد رسول اللہ علیہ اور ان سے پہلے آنے والے انبیاء اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے پیغام لے کر آتے رہے ۔ ہر قوم کے پاس ایک نبی بھیجا گیا اور یہ کہ ہماری پیدائش گناہ میں نہیں ہوئی ( جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے ) نہ ہمیں کسی کفارہ کی ضرورت ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے اور ہمارے درمیان تعلق قائم کرنے کے لیے کسی درمیانی شخص کی ضرورت ہے ۔ ہم خود ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں اور کوئی ہمارے لیے سفارشی نہیں بن سکتا اور یہ کہ ہماری نجات کا دارو مدار ہمارے اپنے اعمال پر ہے۔
لفظ اسلام کا مطلب اللہ تعالیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کاطرز عمل اس کائنات کے خالق کے احکام کے ساتھ دلی مطابقت رکھتا ہو اور جو اللہ تعالی اور اس کے بندوں کے ساتھ امن و سلامتی قائم کر چکا ہو۔اسلام دو بنیادی سچائیوں پر قائم ہے :
ا۔ اللہ تعالیٰ کا ہونا۔
۲-انسانی اخوت
اسلام پیچیدہ اور الجھے ہوئے مذہبی نظریات سے بالکل آزاد ہے۔ اسلام ایک مثبت دین ہے۔ مثلاً اسلام کے ایک بنیادی رکن حج کے اثرات اتنے دور رہیں اور گہرے ہیں کہ ان کے بارے میں جتنا بھی مبالغہ کیا جائے کم ہے۔
اس مبارک موقع پر اس مقدس مقام میں انسانوں کے اس عظیم الشان اجتماع میں بصد عجز و نیاز شامل ہونا اور مل کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا ایک ایسا تجربہ ہے جسے کوئی شخص فراموش نہیں کر سکتا ۔ اس فریضہ کی ادائیگی ہی سے شعور انسانی پر اسلامی آدرش کا پورا مفہوم کھلتا ہے اور یہ ایک ایسا نایاب تجربہ ہے جو انسانوں کو شاذ و نادر ہی میسر آتا ہے۔ یہ انسانی روح کو زندہ کر دینے والا تجربہ ہے ۔ اس ملک میں جانا جہاں اسلام نے جنم لیا ، اس مقدس سرزمین پر چلنا جہاں حضور ﷺ گناہ گار انسانوں کو واپس اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے رہے۔ جناب رسول پاک ﷺ کی شاندار زندگی کے مسلسل مصائب اور قربانیوں کی یاد سے اپنے دلوں کو از سر نو آباد کرنا ایسا تجربہ ہے جو انسانی روح کو اس آسمان نور سے منور کر دیتا ہے جس سے ساری دنیا جگمگا اٹھتی ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ حج کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں اتحاد و یگانگت کا جذبہ بھر دیتا ہے ۔ حج وہ فریضہ ہے جو پوری دنیا کی بکھری ہوئی اسلامی قوموں کو مجتمع کر دیتا ہے اور دلوں میں باہمی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر دیتا ہے ۔ یہ ایک ایسا مرکز مہیا کرتا ہے جہاں دنیا کے ہر کونے کے مسلمان آکر پناہ لیتے ہیں ۔ یہ ان کے لیے ایسا موقع مہیا کرتا ہے جہاں وہ ہر سال آپس میں مل کر ایک دوسرے کو جان سکتے ہیں ، ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیال کر سکتے ہیں ، اپنے مشاہدات کا مواز نہ کر سکتےہیں اور باہمی بھلائی کے لیے اپنی مختلف کوششوں کو یکجا کر سکتے ہیں ۔ اس وقت فاصلے ختم ہو جاتے ہیں، فرقہ وارانہ اختلافات ایک طرف رکھ دیئے جاتے ہیں۔ نسلوں اور رنگوں کے امتیازات مٹ جاتے ہیں ۔ دین کا یہ رشتہ تمام مسلمانوں کو اخوت میں منسلک کر دیتا ہے اور ان سب کو یہ احساس دلاتا ہے کہ وہ عظیم الشان ماضی کے وارث ہیں ۔“
مسلمانوں کا مذہبی عقیدہ ہے کہ عمرہ و حج کی سعادت اور آب زمزم کے پینے سے انہیں طبی امراض، معاشرتی ، اور نفسیاتی مسائل کے علاج میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد ملتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں ان کی صحت بہتر ہو جاتی ہے اور وہ مخصوص ذہنی سکون و مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں مسلمانوں کے اس عقیدہ کی صحت جانچنے کیلیے برطانیہ سے کئی افراد پر مشتمل ایک گروپ جس میں مسلمان معذور افراد اور ان کے لواحقین کے علادہ طبی ماہرین جن میں ڈاکٹر احمد علی خان ، اور دیگر افراد شامل تھے گورنمنٹ کی طرف سے سعودی عرب پہنچے۔مسلمان معذور افراد اور ان کے لواحقین نے عمرہ کی سعادت حاصل کی طبی ماہرین نے منظم سائنسی طریقہ کار سے عمرہ اور آب زمزم کا معذوروں کی صحت پر اثرات کا مطالعہ کیا معلومات حاصل کرنے کیلیے ویڈیوفلم ریکارڈنگ کو بحیثیت ٹول استعمال کیا گیا علاوہ از یں معذور افراد اور ان کے لواحقین سے انٹرویو بھی لیے گئے ۔سعودی عرب روانگی سے قبل ہمیلٹن ڈپریشن ریٹنگ اسکیل کے استعمال سے مریضوں کے لواحقین کی ذہنی حالت کا جائزہ لیا گیا اسکیل کے نتائج کے مطابق ۳۰ فیصد قدرے مایوس تھے دس فیصد پریشان تھے معذور افراد وہیل چیئر پر تھے ۔ ۱۰ فیصد افراد کو مرگی کا عارضہ تھا ۔ ۲۵ فیصد کا رویہ غیر معمولی تھا اور ۷۵ فیصد پریشان (Anxious)تھے۔
مدینہ کے سفر کے بعد فروری ۱۹۹۱ ء کو پھر دوبارہ ہملٹن ریٹنگ اسکیل کے ذریعےلواحقین کی ذہنی حالت کا مطالعہ کیا گیا جسکے مطابق ۴۰ فیصد پریشانی ختم ہوگئی۔ مارچ کوعمرہ کی ادائیگی اور آب زمزم کے استعمال کے بعد حتمی جائزہ لیا گیا۔ 10 افراد کی حالت قدرے بہتر ہوگئی ۔ 15 کی حالت درمیانہ حد تک بہتر ہوئی اور دو فراد کی حالت میں زبردست افاقہ ہوا ۔ احمد دین نامی ایک شخص کو %80 افاقہ ہوا اور پولیو کے ایک مریض محمد حنیف کو بھی افاقہ ہو گیا ۔ مجموعی طور پر %80 کو بڑی حد تک افاقہ ہوا اور %20 کو درمیانہ حد تک ۔ انہیں دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ان افراد کے اندر یقین اور قوت ارادی کو تقویت ملی ہے
کائنات کی ہر چیز میں ایک مقررہ اندازہ اور خاص نظم و ضبط پایا جاتا ہے چنانچہ
قرآن مجید میں ہے :” إِنَّا كُلَّ شَيْ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ “ (قمر (۴۹)ترجمہ: بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک خاص انداز ( نظم و ضبط ) سے پیدا کیا
چنانچہ آج کی سائنس نے تحقیق کے بعد یہ بات ثابت کر دی ہے کہ کا ئنات کی تمام بڑی سے بڑی تخلیق سے لے کر چھوٹی سے چھوٹی تخلیق تک خلاف گھڑی وار کی سمت حرکت کر رہی ہے ۔ مثلاً تمام لوگ خانہ کعبہ کا طواف مخالف گھڑی وارسمت میں کرتے ہیں ، اسی طرح سورج ، چاند، ستارے سب کے سب مخالف گھڑی وارسمت میں حرکت کر رہے ہیں ۔ ایک ایٹم کے ارد گرد گردش کرنے والے الیکٹران سب مخالف گھڑی وار حرکت کر رہے ہیں ۔ لہذا کائنات کی ہر چیز میں خواہ وہ بڑی ہو یا چھوٹی ، ہر ایک میں ایک مربوط نظام پایا جاتا ہے اور ان کا ایک خاص اندازہ مقرر ہے۔
تمام انبیاء علیہم السلام کے معجزات صرف ان کی حیات تک معجزہ ہوئے لیکن قرآن کا معجزه بعد وفات رسول کریم ﷺ بھی اسی طرح معجزہ کی حیثیت میں باقی ہے۔ آج بھی ایک ادنیٰ مسلمان ساری دنیا کے اہل علم و دانش کو للکار کر دعوی کر سکتا ہے کہ اس کی مثال نہ کوئی پہلے لا سکا نہ آج لاسکتا ہے اور جس کو ہمت ہو پیش کر کے دکھلائے ۔
شیخ جلال الدین سیوطی مفسر ” جلالین نے اپنی کتاب خصائص کبری میں رسول اللہ ﷺ کے دو معجزوں کے متعلق بحوالہ احادیث لکھا ہے کہ وہ قیامت تک باقی رہیں گے ایک قرآن کا معجزہ، دوسرے یہ کہ رسول کریم ﷺ سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ایام حج میں تینوں جمرات پر لاکھوں آدمی تین روز تک مسلسل کنکریاں پھینکتے ہیں ۔ پھر کوئی ان کنکریوں کے ڈھیر کو یہاں سے اٹھاتا بھی نظر نہیں آتا اور ایک مرتبہ پھینکی ہوئی کنکری کو دوبارہ استعمال کرنا بھی ممنوع ہے اس لیے ہر حاجی اپنے لیے مزدلفہ سے کنکریاں نئی لے کر آتا ہے ۔ اس کا مقتضی تو یہ تھا کہ جمرات کے گرد ایک ہی سال میں ٹیلہ لگ جاتا جس میں جمرات چھپ جاتے اور چند سال میں تو پہاڑ ہو جاتا ۔ آنحضرتﷺ اللہ نے فرمایا کہ ہاں ، مگر اللہ تعالی نے اپنے فرشتوں کو مقرر کر رکھا ہے کہ جس جس کا حج قبول ہو اس کی کنکریاں اٹھالی جائیں ۔ اب اس جگہ صرف ان کم نصیبوں کی کنکریاں باقی رہ جاتی ہیں ۔ جن کا حج قبول نہیں ہوا۔
(1) وسطی فریقہ کا رہنے والا برہنہ وحشی حج کی سادہ چادر اور قمیص پہنے ہوتا ہندوستانی شہزادہ بھی اپنے ریشمی کپڑوں کو چھوڑ کر وہی سادہ لباس زیب تن کرتا ہے ۔ اس طرح وہ دونوں خدا کی نظر میں برابر ہو جاتے ہیں ۔ مکہ میں وہ خالصتا محمدی اخوت کے مطابق ایک دوسرے سے ملتے ہیں ۔ وہاں وہ تبادلہ خیالات کرتے ہیں اور ان واقعات کو زیر بحث لاتے ہیں جو ان کے دور تک پھیلے ہوئے ملکوں میں رونما ہوئے ہیں۔ جب وہ حج کے بعد آخر کار اپنے اصلی ملک کو لوٹتے ہیں تو ان کے رشتہ دار اور احباب ان کو گھیر لیتے ہیں تا کہ وہ حاجیوں سے ان کے تجربات و واردات کی کہانیاں سن سکیں ۔ خیالات کی اس عظیم اشاعت کے مقابلے میں یورپی پریس کا بہت زیادہ منظم پروپیگنڈا کچھ اہمیت نہیں رکھتا ہے ۔
(2) حج کے موقع پر حاجی حضرات جو سادہ اور بغیر سلا ہوا لباس یعنی احرام کی دو چادریں پہنتے ہیں وہ مسلمانوں کی ظاہری مساوات کا واضح ثبوت ہے ۔ لباس کی یہ یکسانیت اور سادگی دراصل اسلامی تعلیمات اور پیغام محمدی ﷺ کی مساوات اور سادگی کی علامت ہیں۔ علاوہ ازیں احرام کا اجلا اور سفید لباس اس امر کی بھی دلیل ہے کہ جس طرح یہ لباس صاف ہے اسی طرح حج کرنے والوں کا باطن بھی باہمی بغض و عناد اور گناہ کی سیاہی سے پاک ہونا چاہئیے ۔ امیر و غریب ، ادنیٰ و اعلیٰ ، کالا و گورا ایک جیسا لباس پہنچ کر خدا کی بارگاہ میں حاضری دینے کے لیے ایک ہی ترانہ حمد باری پڑھتےہیں ان سب کی زبان پر یہی کلمات ہوتے ہیں:
لبیک الهم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ، ان الحمد و النعمته لك و الملك لا شریک لک ” میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں ۔ میں حاضر ہوں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں ۔ بے شک حمد ، نعمت اور بادشاہی تیرے لیے ہیں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔
مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی یہ عالمگیر اخوت اور محبت کی آفاقیت دل و دماغ کو متاثر کئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ اپنوں کےعلاوہ غیر بھی محمدی اخوت پر مبنی اس اجتماع عظیم کی مدح سرائی پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ اگر تعصب کی عینک اتار کر بغور دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری یہ خصوصیت نبی اکرم کی بعثت کا ہی صدقہ ہے۔
(3) حج بلا مبالغہ مسلمانان عالم کا سب سے بڑا بین الاقوامی سالانہ اجتماع ہوتاہے جس میں مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے اور مختلف زبانیں بولنے والے حجاج کرام ہوتے ہیں ۔ رنگ ، نسل ، زبان اور جغرافیائی اختلافات کے بغیر وہ یہاں اسلامی وحدت ، مساوات اور اخوت کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اس لحاظ سے اسلام وطنیت ، قومیت نسل پرستی اور دیگر مصنوعی حد بندیوں سے بالا تر ہے ۔ این ۔ این ۔ برے حج کے عالمگیر اسلامی اجتماع کی ایک اور خصوصیت کا ذکر کرتا ہے جس کا تعلق خیالات کی وسعت علم کی اشاعت اور اضافہ معلومات سے ہے۔ حج کی محض مذہبی اہمیت نہیں بلکہ اس میں سیاسی ، معاشرتی اور علمی فوائد بھی شامل ہیں ۔ حج کے مبارک موقع پر مسلمان اپنے باہمی امور اور مسائل کو بھی زیر بحث لاتے ہیں تا کہ وہ کفر و باطل کی طاقتوں کا موثر انداز میں مقابلہ کر سکیں اور دنیا میں امن کے قیام اور خدائی حاکمیت کے غلبہ و نفاذ کا باعث بن سکیں ۔ جب مختلف ممالک کے مسلمان آپس میں تبادلہ خیالات کرتے ہیں تو بلا شبہ ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ واپس جا کر اپنے ملکوں میں ان کی اشاعت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ اسلام کوئی انفرادی مذہب نہیں بلکہ اسلام اور اجتماعیت لازم و ملزوم ہیں ۔ اس نقطہ نظر سے اس کی شان ہی اجتماعیت سے واضح ہوتی ہے۔
(4) اس میں کوئی شک نہیں کہ دور جدید میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعے بے شمار انسانوں کے خیالات کو متاثر کیا جاتا ہے ۔ یہ بھی اشاعت علم اور خیالات کی تبدیلی کے اہم اور موثر ذرائع ہیں مگر این ۔ این۔ برے ان پر حج کو زیادہ ترجیح دیتا ہے ۔ اس کی رائے میں حج کے ذریعے خیالات کی زیادہ وسیع پیمانے پر اشاعت وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس سال یعنی 1994ء میں تقریباً 35 لاکھ مسلمانوں نے فریضہ حج ادا کیا تھا جس کا آنکھوں دیکھا حال اور پروگرام نہ صرف سعودی عرب بلکہ پاکستان اور چند دیگر مسلم ممالک میں بھی پیش کیا گیا تھا اس طرح کروڑوں مسلمانوں تک اس کی اشاعت ہو گئی علاوہ ازیں حاجی حضرات جب اپنے اپنے ملکوں کو واپس گئے تو ان سے ملنے والوں تک بھی معلومات کا دائرہ پھیلتا گیا ۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اوراخبارات تو اس زمانے کی پیداوار ہیں لیکن حج تو آج سے کئی صدیاں قبل شروع ہوا تھا۔ انسان کی عقل نے جسے آج کل معجزہ قرار دیا ہے، وحی خداوندی نے اس حقیقت کو مدتوں پیشتر فریضہ بنا دیا تھا۔ عقل بلا شبہ خدا کا عطا کردہ نور ہے مگر یہ وحی والہام سےآگے بڑھ نہیں سکتی ۔