عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَ إِنَّمَا لِإِمْرِئٍ مَا نَوٰى فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلَی اللهِ وَ رَسُولِهٖ فَهِجْرَتُهٗ إِلَى اللهِ وَرَسُولِهٖ وَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهٗ إِلٰى دُنْيَا يُصِيْبُهَا أَوْإِمْرَأَةٍ يَتَزَوَّجُهَا فَهِجْرَتُهٗ إِلٰى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ» (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)
ترجمہ حدیث
روایت ہے عمر ابن خطاب (راضی ہو اللہ ان پر )سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے: کہ اعمال نیّتوں سے ہیں ۲؎ ہرشخص کے لئے وُہ ہی ہے جو نیّت کرے ۳؎ بس جس کی ہجرت اللہ و رسول کی طرف ہو تو اُس کی ہجرت اللہ ورسول ہی کی طرف ہوگی ۴؎ اور جس کی ہجرت دنیاحاصل کرنے یا عورت سے نکاح کرنے کے لئے ہو ۵؎ اس کی ہجرت اس طرف ہوگی جس کے لئے کی ۶؎
شرح حدیث
۱؎ آپ کا نام شریف عمر ابن خطاب ابن نفیل ہے،کنیت ابو حفص،لقب فاروق اعظم،خطا ب امیر المؤمنین۔آپ قرشی عدوی ہیں،کعب ابن لوی میں حضور سے مل جاتے ہیں،آپ کے فضائل بے حد و بیشمار ہیں۔جلیل القدر صحابی،قدیم الاسلام مؤمن ہیں،آپ کے ایمان سے مسلمانوں کا چالیس کا عدد پورا ہوا،آپ کے ایمان لانے پر فرشتوں میں مبارکباد کی دھوم مچی اور یہ آیت اُتری:”یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ الله وَمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیۡنَ“ابوبکر صدیق کے بعد ۱۳ ھ میں آپ کی بیعت کی گئی،آپ کے زمانہ میں اسلام بہت پھیلا،بہت ممالک فتح ہوئے،قرآن کریم کی بہت سی آیتیں آپ کی رائے کے مطابق اتریں،دس سال چھ مہینے خلافت کی تریسٹھ سال عمر شریف ہوئی،۲۶ذوالحجہ ۲۳ ھ بدھ کے دن مسجد نبوی محراب النبی میں مصلاءمصطفی پر نماز فجر پڑھاتے ہوئے شہید کیئے گئے،مغیرہ ابن شعبہ کے یہودی غلام ابو لؤلؤ نے خنجر کا وار کیا،آپ کی شہادت پر درو دیوار سے اسلام کے رونے کی آواز آتی تھی کہ آج اسلام و مسلمین یتیم ہوگئے،حضرت صہیب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی،گنبد خضری میں پہلوئے مصطفےٰ میں دفن ہوئے،آپ کی روایتیں پانچ سوسینتیس ۵۳۷ ہیں۔رضی اللہ تعالٰی عنہ
۲؎ نیت ارادۂ عمل کو بھی کہتے ہیں اور اخلاص کو بھی،یعنی الله رسول کو راضی کرنے کا ارادہ،یہاں دوسرے معنی میں ہے یعنی اعمال کا ثواب اخلاص سے ہے،جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے،اس صورت میں یہ حدیث اپنے عموم پر ہے،کوئی عمل اخلاص کے بغیر ثواب کا باعث نہیں،خواہ عبادات محضہ ہوں جیسے نماز،روزہ وغیرہ یا عبادات غیر مقصودہ جیسے وضو،غسل،کپڑا،جگہ،بدن کا پاک کرنا وغیرہ کہ ان پر ثواب اخلاص سے ہی ملے گا۔صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ اخلاص اور نیتِ خیر ایسی نعمتیں ہیں کہ ان کے بغیر عبادات محض عادتیں بن جاتی ہیں،اور اس کی بر کت سے کفر شکر بن جاتا ہے،اور گناہ و معصیت اطاعت۔حضرت ابوامیہ ضمیری نے ایک موقعہ پر کفریہ الفاظ بول لیئے،حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہجرت کی رات غار ثور میں ایک قسم کی خودکشی کرلی،سیدنا علی المرتضی نے خندق میں عمدًا نماز عصر چھوڑ دی،مگر چونکہ نیتیں خیرتھیں،اس لیئے ان حضرات کے یہ کام ثواب کا باعث بنے۔مولانا فرماتے ہیں۔شعر؎
ہرچہ گیرد عِلَّتی عِلّت شودکفر گیر د مِلَّتی مِلّت شود
شوافع کہتے ہیں کہ یہاں نیت پہلے معنی میں ہے،یعنی ارادۂ فعل ان کے نزدیک جو بغیر ارادہ وضو اعضاء دھولے تو اس سے وضو نہ ہوگا جیسے بلا ارادہ نماز نہیں ہوتی مگر یہ تفسیر مقصد حدیث کے خلاف ہے اور پھر حدیث کا عموم باقی نہیں رہتاکیونکہ آگے ہجرت کا ذکر ہے۔جو دنیوی غرض سے ہجرت کرے شرعًا مہاجر ہوگا اگرچہ ثواب نہ ہوگا۔نیز جو بغیر ارادہ جو از نماز،گندا کپڑا،گندا جسم،گندی زمین دھو ڈالے تو ان کے ہاں بھی یہ چیزیں پاک ہوجاتی ہیں،اور نماز اس سے جائز ہوتی ہے یہ معنی ان کے بھی خلاف ہیں۔خیال رہے کہ ارکان اسلام یعنی کلمہ،نماز،روزہ،حج،زکوۃ میں نیت یعنی ارادہ فعل فرض ہے،باقی جہاد،ہجرت وضوء وغیرہ میں یہ نیت فرض نہیں۔ہاں اخلاص کے بغیر ان میں ثواب نہ ملے گا۔لہذا احناف کے معنی نہایت صحیح ہیں اور حدیث نہایت جامع۔نماز میں زبان سے نیت کے الفاظ کہنا بدعت حسنہ ہے کیونکہ حضور نے کل ۳۰ ہزار نمازیں پڑھیں ہیں مگر کبھی زبان سے نیت نہ کی،بعض علماء نے نماز کو حج پر قیاس کیا اور فرمایا کہ جیسے احرام کے وقت زبان سے حج کی نیت کی جاتی ہے ایسے ہی نماز میں کرنی چاہیئے مگر یہ صحیح نہیں۔دیکھو مرقات۔
۳؎ ہجرت کے لغوی معنی ہیں چھوڑنا۔شریعت میں رب کو راضی کرنے کے لیئے وطن چھوڑنے کا نام ہجرت ہے۔ہجرت بوقت ضرورت اعلٰی درجہ کی عبادت ہے،اسلامی سنہ حضور کی ہجرت کی یادگار ہے۔
۴؎ یعنی جو ہجرت میں اللہ رسول کی خوشنودی کی نیت کرے،اس کی ہجرت واقعی اللہ رسول کی طرف ہی ہوگی لہذا حدیث میں دور نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ عبادات میں رضاءِ رب کے ساتھ حضور کی رضا کی نیت شرک نہیں بلکہ عبادت کو کامل کرتی ہے۔دیکھو ہجرت عبادت ہے،مگر فرمایا گیا:”اِلیَ اللّٰہِ ِوَرَسُوْلِہٖ”۔یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور کے پاس جانا اللہ کے دربار میں حاضری ہے کہ مہاجرین مدینہ جاتے تھے،جہاں حضور تشریف فرما تھے،وہاں جانے کو اللہ کے پاس جانا قرار دیا۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ہر جگہ حضور ہی کے دم کی بہار ہے،ان کے بغیر اجڑا دیا رہے۔دیکھو مکہ معظمہ میں رہنا عبادت ہے،مگر جب حضور وہاں سے مدینہ منورہ چلے گئے تو اگرچہ وہاں کعبہ وغیرہ سب کچھ رہا مگر وہاں رہنا گناہ قرار پایا،وہاں سے ہجرت ضروری ہوگئی،پھر جب وہاں حضور کی تجلی ہوگئی،پھر وہاں رہنا عبادت قرار پایا۔۵؎ انصارِ مدینہ نے مہاجرین کی ایسی دائمی شاندار مہمانی کی سبحان الله!انہیں اپنے گھروں،باغوں،زمینوں میں برابر کا حصہ دار بنالیا،حتی کہ اگر کسی انصار ی کی دو بیویاں تھیں تو ایک کو طلاق دے کر مہاجر بھائی کے نکاح میں دے دی،اندیشہ تھا کہ کوئی زمین،مکان یا عورت کی لالچ میں ہجر ت کرے اسی لیئے حضورنے یہ ارشاد فرمایا۔اس مضمون سے معلوم ہوا کہ یہاںاَلنِّیَّا ت میں نیت بمعنی ارادہ فعل نہیں ہے بلکہ بمعنی اخلاص ہے۔ریا کار مہاجر بھی مہاجر کہلائے گا مگر ثواب نہ پائے گا جیسا کہ ھِجرَتُہٗ سے معلوم ہورہا ہے۔
۶؎ صاحب ِ مشکوٰۃ ولی الدین محمد علیہ الرحمۃ نے شروع کتاب میں یہ حدیث ہم کو سمجھانے کے لیئے لکھی کہ میری کتاب اخلاص سے پڑھنا،محض دنیا کمانے کے لیے نہ پڑھنا،اپنی دلی کیفیت پر ہم کو مطلع فرمایا کہ میں نے یہ کتاب اخلاص سے لکھی ہے،شہرت یامال مقصود نہ تھا،یہ حدیث میرے پیش نظرتھی
مآخذ و مراجع
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:1