(۱)۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل قرآنِ مجیدمیں ارشادفرماتاہے:
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَاخَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ
ترجمہ کنزالایمان:سن لوبے شک اللہ کے ولیوں پرنہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ایک اورجگہ ارشادفرماتاہے:
قُلْ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللہِ ۚ یُؤْتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ
ترجمہ کنزالایمان:تم فرمادوکہ فضل تواللہ ہی کے ہاتھ ہے جسے چاہے دے۔(پ۳،آل عمران:۷۳)
(۳)۔۔۔۔۔۔سرکارمدینہ،قرارِقلب وسینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمانِ عالیشان ہے: ”اُطْلبُوْا الْخَیْرَ وَالْحَوَائِجَ مِنْ حِسَانِ الْوُجُوْہِ یعنی بھلائی اور اپنی حاجتیں خوبصورت چہرے والوں سے طلب کرو۔”
(المعجم الکبیر،رقم۱۱۱۱۰،ج۱۱،ص۶۷)
(۴)۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کے محبوب،دانائے غیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کافرمان ذیشان ہے:
”مَنْ عَادٰی ِللہِ وَلِیًّا فَقَدْ بَارَزَاللہَ بِالْمُحَارَبَۃِ یعنی جواللہ عزوجل کے کسی دوست سے دشمنی رکھے تحقیق اس نے اللہ عزوجل سے اعلانِ جنگ کردیا۔”
(سنن ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب من ترجی لہ السلامۃ من الفتن،رقم۳۹۸۹،ج۴،ص۳۵۰)
(۵)۔۔۔۔۔۔حضوراکرم،نورمجسم،سرکاردوعالم،شہنشاہ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے ارشادفرمایا:”کوئی بندہ میرے فرائض کی ادائیگی سے بڑھ کرکسی اور چیزسے میراتقرب حاصل نہیں کرسکتا(فرائض کے بعدپھروہ)نوافل سے مزیدمیراقرب حاصل کرتاجاتاہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتاہوں اور میں اس کا کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگے تو میں اس کو ضرور دوں گا اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں اسے ضرور پناہ دوں گا ۔” (صحیح بخاری،کتاب الرقاق ،رقم ۶۵۰۲،ج۴،ص۲۴۸)
- (۶)۔۔۔۔۔۔امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ الباری اپنی معرکۃالآراتفسیر ”تفسیرِکبیر”میں ایک روایت نقل فرماتے ہیں: ” اَوْلِیَاءُ اللہِ لَایَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْقِلُوْنَ مِنْ دَارٍاِلٰی دَارٍ‘ یعنی بے شک اللہ عزوجل کے اولیاء مرتے نہیں بلکہ ایک گھرسے دوسرے گھرمنتقل ہوجاتے ہیں۔”
(التفسیرالکبیر،پ۴،آل عمران:۱۶۹،ج۳،ص۴۲۷)
سرکارِبغدارحضورِغوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کااسم مبارک”عبدالقادر”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کنیت ”ابومحمد”اورالقابات ”محی الدین،محبوبِ سبحانی،غوثُ الثقلین،غوثُ الاعظم”وغیرہ ہیں،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ۴۷۰ھ میں بغدادشریف کے قریب قصبہ جیلان میں پیدا ہوئے اور۵۶۱ھ میں بغدادشریف ہی میں وصال فرمایا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مزارِپُراَنوارعراق کے مشہورشہربغدادشریف میں ہے۔
(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرنسبہ وصفتہ، ص۱۷۱،الطبقات الکبرٰی للشعرانی،ابو صالح سیدی عبدالقادرالجیلی،ج۱،ص۱۷۸)
”غوثیت”بزرگی کاایک خاص درجہ ہے،لفظِ”غوث”کے لغوی معنی ہیں ”فریادرس یعنی فریادکوپہنچنے والا”چونکہ حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ غریبوں،بے کسوں اورحاجت مندوں کے مددگارہیں اسی لئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو ”غوث ِاعظم”کے خطاب سے سرفرازکیاگیا،اوربعض عقیدت مندآپ کو”پیران پیردستگیر”کے لقب سے بھی یادکرتے ہیں۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ والدماجدکی نسبت سے حسنی ہیں سلسلہ نسب یوں ہے سیّد محی الدین ابومحمدعبدالقادربن سیّدابوصالح موسیٰ جنگی دوست بن سیّدابوعبداللہ بن سیّد یحییٰ بن سیدمحمدبن سیّدداؤدبن سیّدموسیٰ ثانی بن سیّدعبداللہ بن سیّدموسیٰ جون بن سیّد عبداللہ محض بن سیّدامام حسن مثنیٰ بن سیّدامام حسن بن سیّدناعلی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کی نسبت سے حسینی سیّد ہیں۔(بہجۃالاسرار،معدن الانوار،ذکرنسبہ،ص۱۷۱)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا خاندان صالحین کاگھراناتھاآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان،داداجان،والدماجد، والدہ محترمہ،پھوپھی جان،بھائی اورصاحبزادگان سب متقی وپرہیزگارتھے،اسی وجہ سے لوگ آپ کے خاندان کواشراف کا خاندان کہتے تھے۔
سیدوعالی نسب دراولیاء است
نورِچشم مصطفےٰ ومرتضےٰ است
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدمحترم حضرت ابوصالح سیّدموسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھے، آپ کا اسم گرامی ”سیّدموسیٰ”کنیت ”ابوصالح”اورلقب ”جنگی دوست” تھا،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے اکابر مشائخ کرام رحمہم اللہ میں سے تھے۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کالقب جنگی دوست اس لئے ہواکہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خالصۃًاللہ عزوجل کی رضاکے لئے نفس کشی اورریاضتِ شرعی میں یکتائے زمانہ تھے، نیکی کے کاموں کا حکم کرنے اوربرائی سے روکنے کے لئے مشہورتھے،اس معاملہ میں اپنی جان تک کی بھی پروا نہ کرتے تھے،چنانچہ
ایک دن آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جامع مسجدکوجارہے تھے کہ خلیفہ وقت کے چندملازم شراب کے مٹکے نہایت ہی احتیاط سے سروں پراٹھائے جارہے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جب ان کی طرف دیکھاتوجلال میں آگئے اوران مٹکوں کوتوڑدیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے رعب اوربزرگی کے سامنے کسی ملازم کودم مارنے کی جرأت نہ ہوئی توانہوں نے خلیفہ وقت کے سامنے واقعہ کااظہارکیااورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلاف خلیفہ کوابھارا،توخلیفہ نے کہا:”سیّدموسیٰ(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)کوفوراًمیرے دربارمیں پیش کرو۔”چنانچہ حضرت سیّدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دربارمیں تشریف لے آئے خلیفہ اس وقت غیظ وغضب سے کرسی پربیٹھاتھا،خلیفہ نے للکارکرکہا:”آپ کون تھے جنہوں نے میرے ملازمین کی محنت کورائیگاں کردیا؟”حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:”میں محتسب ہوں اورمیں نے اپنافرض منصبی اداکیاہے۔”خلیفہ نے کہا:”آپ کس کے حکم سے محتسب مقررکئے گئے ہیں؟”حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے رعب دارلہجہ میں جواب دیا:”جس کے حکم سے تم حکومت کررہے ہو۔”
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے اس ارشادپرخلیفہ پرایسی رقّت طاری ہوئی کہ سربزانو ہوگیا(یعنی گھٹنوں پرسررکھ کر بیٹھ گیا)اورتھوڑی دیرکے بعدسرکواٹھاکرعرض کیا: ”حضوروالا! امربالمعروفاورنہی عن المنکرکے علاوہ مٹکوں کو توڑنے میں کیا حکمت ہے؟”حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایا:”تمہارے حال پرشفقت کرتے ہوئے نیزتجھ کودنیااورآخرت کی رسوائی اورذلت سے بچانے کی خاطر۔”خلیفہ پرآپ کی اس حکمت بھری گفتگوکابہت اثرہوااورمتاثرہوکرآپ کی خدمت اقدس میں عرض گزارہوا:”عالیجاہ!آپ میری طرف سے بھی محتسب کے عہدہ پرمامورہیں۔”
حضرت سیدموسیٰ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے متوکلانہ اندازمیں فرمایا:”جب میں حق تعالیٰ کی طرف سے مامورہوں توپھرمجھے خَلْق کی طرف سے مامورہونے کی کیا حاجت ہے ۔”اُسی دن سے آپ”جنگی دوست”کے لقب سے مشہورہوگئے۔(سیرت غوث ا لثقلین،ص۵۲)
حضورسیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ناناجان حضرت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جیلان شریف کے مشائخ میں سے تھے،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نہایت زاہداور پرہیزگارہونے کے علاوہ صاحب فضل وکمال بھی تھے،بڑے بڑے مشائخ کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شرف ملاقات حاصل کیا۔
شیخ ابو محمدالداربانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:”حضرت عبد اللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مستجاب الدعوات تھے (یعنی آپ کی دعائیں قبول ہوتی تھیں)۔اگر آپ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اللہ عزوجل اس شخص سے بدلہ لیتا اور جس سے آپ خوش ہوتے تو اللہ عزوجل اس کو انعام و اکرام سے نوازتا، ضعیف الجسم اور نحیف البدن ہونے کے باوجود آپ نوافل کی کثرت کیا کرتے اور ذکر واذکار میں مصروف رہتے تھے۔آپ اکثر امور کے واقع ہونے سے پہلے اُن کی خبر دے دیا کرتے تھے اور جس طرح آپ ان کے رونما ہونے کی اطلاع دیتے تھے اسی طرح ہی واقعات روپذیر ہوتے تھے۔”
( بہجۃالاسرار،ذکر نسبہ،وصفتہ،رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۷۲)
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی شہرہ آفاق تصنیف “عوارف المعارف”میں تحریر فرماتے ہیں:
”ایک شخص نے حضور سیدناغوثُ الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پوچھا:”یاسیدی! آپ نے نکاح کیوں کیا؟”سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا:” بے شک میں نکاح کرنا نہیں چاہتا تھا کہ اس سے میرے دوسرے کاموں میں خلل پیدا ہو جائے گا مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ ”عبدالقادر! تم نکاح کر لو، اللہ عزوجل کے ہاں ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے۔”پھرجب یہ وقت آیاتواللہ عزوجل نے مجھے چار بیویاں عطافرمائیں، جن میں سے ہر ایک مجھ سے کامل محبت رکھتی ہے۔”
(عوارف المعا رف،الباب الحادی والعشرون فی شرح حال المتجردوالمتاھل من الصوفیۃ…الخ،ص۱۰۱،ملخصاً)
حضورسیدی غوثِ اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بیویاں بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روحانی کمالات سے فیض یاب تھیں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے صاحبزادے حضرت شیخ عبدالجباررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ ماجدہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ ”جب بھی والدہ محترمہ کسی اندھیرے مکان میں تشریف لے جاتی تھیں تو وہاں چراغ کی طرح روشنی ہو جاتی تھیں۔ایک موقع پر میرے والدمحترم غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بھی وہاں تشریف لے آئے ،جیسے ہی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نظر اس روشنی پرپڑی تووہ روشنی فوراًغائب ہوگئی،توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشادفرمایاکہ ”یہ شیطان تھا جو تیری خدمت کرتاتھااسی لئے میں نے اسے ختم کر دیا، اب میں اس روشنی کو رحمانی نورمیں تبدیل کئے دیتا ہوں۔” اس کے بعد والدہ محترمہ جب بھی کسی تاریک مکان میں جاتی تھیں تو وہاں ایسا نور ہوتا جوچاند کی روشنی کی طرح معلوم ہوتا تھا۔”
(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکرفضل اصحابہ…الخ،ص۱۹۶)
ایک دفعہ جیلان میں قحط سالی ہوگئی لوگوں نے نماز استسقاء پڑھی لیکن بارش نہ ہوئی تولوگ آپ کی پھوپھی جان حضرت سیدہ اُم عائشہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکے گھر آئے اور آپ سے بارش کے لئے دعا کی درخواست کی وہ اپنے گھر کے صحن کی طرف تشریف لائیں اورزمین پرجھاڑودے کردعامانگی :” اے رب العالمین! میں نے تو جھاڑو دے دیا اور اب تو چھڑکاؤفرما دے۔” کچھ ہی دیر میں آسمان سے اس قدر بارش ہوئی جیسے مشک کا منہ کھول دیاجائے، لوگ اپنے گھروں کو ایسے حال میں لوٹے کہ تمام کے تمام پانی سے تر تھے اور جیلان خوشحال ہوگیا۔”(بہجۃالاسرار،ذکرنسبہ وصفتہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ص۱۷۳)
آپ کی ولادت کی بشارتیں
محبوبِ سبحانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد ماجد حضرت ابو صالح سید موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت کی رات مشاہدہ فرمایا کہ سرور کائنات، فخر موجودات، منبع کمالات ،باعث تخلیق کائنات، احمد مجتبےٰ، محمد مصطفےٰصلی للہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بمع صحابہ کرام آئمۃالہدیٰ اور اولیاء عظام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اِن کے گھر جلوہ افروز ہیں اوران الفاظ مبارکہ سے ان کو خطاب فرماکر بشارت سے نوازا: ”یَااَبَاصَالِح اَعْطَاکَ اللہُ اِبْنًاوَھُوَوَلِیٌّ وَمَحْبُوْبِیْ وَمَحْبُوْبُ اللہِ تَعَالٰی وَسَیَکُوْنُ لَہٗ شَانٌ فِی الْاَوْلِیَآءِ وَالْاَقْطَابِ کَشَانِیْ بَیْنَ الْاَنْبِیَاءِ وَالرُّسُلِ یعنی اے ابو صالح !اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے اوروہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں ویسی شان ہوگی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔”
(سیرت غوث الثقلین،ص۵۵بحوالہ تفریح الخاطر)
غوث اعظم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ درمیان اولیاء
چوں محمدصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم درمیان انبیاء
حضرت ابو صالح موسیٰ جنگی دوست رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خواب میں شہنشاہ عرب و عجم ،سرکار دو عالم، محمد مصطفےٰصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ جملہ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام نے یہ بشارت دی کہ” تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر ان کا قدم مبارک ہوگا۔”(سیرت غوث الثقلین،ص۵۵بحوالہ تفریح الخاطر)
جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
جن مشائخ نے حضرت سیدناغوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی قطبیت کے مرتبہ کی گواہی دی ہے” روضۃ النواظر” اور” نزہۃ الخواطر”میں صاحب ِکتاب ان مشائخ کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے پہلے اللہ عزوجل کے اولیاء میں سے کوئی بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا منکر نہ تھا بلکہ انہوں نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی آمد کی بشارت دی،چنانچہ حضرت سیدناحسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے زمانہ مبارک سے لے کر حضرت شیخ محی الدین سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے زمانہ مبارک تک تفصیل سے خبردی کہ جتنے بھی اللہ عزوجل کے اولیاء گزرے ہیں سب نے شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خبر دی ہے۔(سیرت غوث الثقلین،ص۵۸)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ” مجھے عالم غیب سے معلوم ہوا ہے کہ پانچویں صدی کے وسط میں سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِاطہار میں سے ایک قطبِ عالم ہوگا، جن کا لقب محی الدین اور اسم مبارک سید عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہے اور وہ غوث اعظم ہوگا اورجیلان میں پیدائش ہوگی ان کو خاتم النبیین،رحمۃٌ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اولادِ اطہار میں سے ائمہ کرام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کے علاوہ اولین و آخرین کے ”ہر ولی اور ولیہ کی گردن پر میرا قدم ہے۔” کہنے کا حکم ہوگا۔”
( سیرت غوث الثقلین، ص ۵۷)
شیخ ابوبکربن ہوارارحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک روزاپنے مریدین سے فرمایا کہ ”عنقریب عراق میں ایک عجمی شخص جو کہ اللہ عزوجل اور لوگوں کے نزدیک عالی مرتبت ہوگا اُس کا نام عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہوگااور بغداد شریف میں سکونت اختیار کریگا، قَدَمِیْ ھٰذِہٖ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللہِ (یعنی میرایہ قدم ہرولی کی گردن پرہے) کا اعلان فرمائے گا اور زمانہ کے تمام اولیاء کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اس کے فرمانبردارہوں گے۔” (بہجۃالاسرار،ذکراخبارالمشایخ عنہ بذالک،ص۱۴)
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن ہی سے روزہ رکھا۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی والدہ محترمہ کا دودھ نہ پیتے تھے،چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ” جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ پیتا تھا۔”(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکر نسبہ وصفتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ص۱۷۲)
غوث اعظم متقی ہرآن میں
چھوڑاماں کادودھ بھی رمضان میں
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدتنا ام الخیر فاطمہ بنت عبداللہ صومعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما فرمایا کرتی تھیں:” جب میں نے اپنے صاحبزادے عبدالقادر کو جنا تو وہ رمضان المبارک میں دن کے وقت میرا دودھ نہیں پیتا تھااگلے سال رمضان کا چاند غبار کی وجہ سے نظر نہ آیا تو لوگ میرے پاس دریافت کرنے کے لئے آئے تو میں نے کہا کہ” میرے بچے نے دودھ نہیں پیا۔”پھر معلوم ہوا کہ آج رمضان کا دن ہے اور ہمارے شہر میں یہ بات مشہور ہوگئی کہ سیّدوں میں ایک بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان المبارک میں دن کے وقت دودھ نہیں پیتا۔”
(بہجۃالاسرار،ذکرنسبہ وصفتہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۷۲)
حضرت شیخ ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ مقدسی فرماتے ہیں کہ ہمارے امام شیخ الاسلام محی الدین سید عبدالقادر جیلانی،قطب ربانی،غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ضعیف البدن،میانہ قد،فراخ سینہ،چوڑی داڑھی اوردرازگردن،رنگ گندمی،ملے ہوئے ابرو، سیاہ آنکھیں،بلند آواز،اوروافر علم و فضل تھے۔
(بہجۃالاسرار،ذکرنسبہ وصفتہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۷۴)
شیخ ابو عبداللہ محمد بن علی سنجاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدفرماتے ہیں کہ ”حضرت سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی،غوث صمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دنیا کے سرداروں میں سے منفرد ہیں،اولیاء اللہ میں سے ایک فرد ہیں،اللہ عزوجل کی طرف سے مخلوق کے لئے ہدیہ ہیں، وہ شخص نہایت نیک بخت ہے جس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو دیکھا، وہ شخص ہمیشہ شاد رہے جس نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی صحبت اختیار کی، وہ شخص ہمیشہ خوش رہے جس نے حضرت سیدناشیخ عبدالقادر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دل میں رات بسرکی ۔”
(بہجۃالاسرار،ذکراحترام المشایخ والعلماء لہ وثنا ئہم علیہ،ص۴۳۲)
شیخ محمد بن قائدا لأوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیان کرتے ہیں کہ” حضرت محبوب سبحانی غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ہم سے فرمایا کہ” حج کے دن بچپن میں مجھے ایک مرتبہ جنگل کی طرف جانے کا اتفاق ہوا اورمیں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا کہ اس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا: ”یَاعَبْدَالْقَادِرِمَا لِھٰذَا خُلِقْتَ یعنی اے عبدالقادررحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ!تم کو اس قسم کے کاموں کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا ۔”میں گھبرا کر گھر لوٹا اور اپنے گھر کی چھت پر چڑھ گیاتوکیادیکھتاہوں کہ میدان عرفات میں لوگ کھڑے ہیں،اس کے بعد میں نے اپنی والدہ ماجدہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا:”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مجھے راہ ِخداعزوجل میں وقف فرمادیں اور مجھے بغداد جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تا کہ میں وہاں جاکر علم دین حاصل کروں۔”
والدہ ماجدہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے مجھ سے اس کا سبب دریافت کیا میں نے بیل والا واقعہ عرض کردیا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہاکی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ ۸۰ دینار جو میرے والد ماجد کی وراثت تھے میرے پاس لے آئیں تو میں نے ان میں سے۴۰دینار لے لئے اور ۴۰ دینار اپنے بھائی سید ابو احمدرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے لئے چھوڑ دیئے،والدہ ماجدہ نے میرے چالیس دینار میری گدڑی میں سی دیئے اور مجھے بغداد جانے کی اجازت عنایت فرما دی۔
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہانے مجھے ہر حال میں راست گوئی اور سچائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جیلان کے باہر تک مجھے الوداع کہنے کے لئے تشریف لائیں اور فرمایا: ”اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عزوجل کی رضا اور خوشنودی کی خاطر اپنے پاس سے جدا کرتی ہوں اور اب مجھے تمہارا منہ قیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔” (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۱۶۷)
حضور پرنور،محبوب سبحانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے کسی نے پوچھا:” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے آپ کو ولی کب سے جانا؟” ارشاد فرمایا کہ” میری عمر دس برس کی تھی میں مکتب میں پڑھنے جاتا تو فرشتے مجھ کو پہنچانے کے لئے میرے ساتھ جاتے اور جب میں مکتب میں پہنچتا تو وہ فرشتے لڑکوں سے فرماتے کہ” اللہ عزوجل کے ولی کے بیٹھنے کے لیے جگہ فراخ کر دو۔”
(بہجۃالاسرار،ذکرکلمات اخبربھا۔۔۔۔۔۔الخ،ص۴۸)
فرشتے مدرسے تک ساتھ پہنچانے کو جاتے تھے
یہ دربارِ الٰہی میں ہے رتبہ غوث اعظم کا
اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی جَدِّہِ الْکَرِیْمِ وَعَلَیْہٖ
حضرت شیخ امام موقف الدین بن قدامہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ”ہم ۵۶۱ہجری میں بغداد شریف گئے تو ہم نے دیکھا کہ شیخ سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی اُن میں سے ہیں کہ جن کو وہاں پر علم، عمل اورحال وفتوی نویسی کی بادشاہت دی گئی ہے، کوئی طالب علم یہاں کے علاوہ کسی اور جگہ کا ارادہ اس لئے نہیں کرتا تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ میں تمام علوم جمع ہیں اورجو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علم حاصل کرتے تھے آپ ان تمام طلبہ کے پڑھانے میں صبر فرماتے تھے، آپ کا سینہ فراخ تھا اور آپ سیر چشم تھے، اللہ عزوجل نے آپ میں اوصاف جمیلہ اور احوال عزیزہ جمع فرمادیئے تھے۔ ”
(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵)
امام ربانی شیخ عبدالوہاب شعرانی اورشیخ المحدثین عبدالحق محدث دہلوی اور علامہ محمد بن یحیی حلبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم تحریر فرماتے ہیں کہ ” حضرت سیدناشیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تیرہ علوم میں تقریر فرمایا کرتے تھے۔”
ایک جگہ علامہ شعرانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ”حضورِغوثِ پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مدرسہ عالیہ میں لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے تفسیر، حدیث، فقہ اورعلم الکلام پڑھتے تھے، دوپہر سے پہلے اور بعد دونوں وقت لوگوں کوتفسیر، حدیث، فقہ، کلام ، اصول اور نحو پڑھاتے تھے اور ظہر کے بعد قرأتوں کے ساتھ قرآن مجید پڑھاتے تھے۔” (بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہرحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۵)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ آپ کے علمی کمالات کے متعلق ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ” ایک روز کسی قاری نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس شریف میں قرآن مجید کی ایک آیت تلاوت کی تو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں پہلے ایک معنی پھر دو اس کے بعد تین یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق آپ نے اس آیت کے گیارہ معانی بیان فرمادیئے اورپھر دیگر وجوہات بیان فرمائیں جن کی تعداد چالیس تھی اور ہر وجہ کی تائید میں علمی دلائل بیان فرمائے اور ہر معنی کے ساتھ سند بیان فرمائی، آپ کے علمی دلائل کی تفصیل سے سب حاضرین متعجب ہوئے۔”(اخبارالاخیار،ص۱۱)
حافظ ابوا لعباس احمد بن احمد بغداری بندلجی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے صاحب بہجۃالاسرارسے فرمایا:”میں اورتمہارے والد ایک دن حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی مجلس میں حاضر ہوئے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک آیت کی تفسیر میں ایک معنی بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والدسے کہا:” یہ معنی آپ جانتے ہیں؟” آپ نے فرمایا:”ہاں۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک دوسرا معنی بیان فرمایا تومیں نے دوبارہ تمہارے والد سے پوچھاکہ کیا آپ اس معنی کو جانتے ہیں؟تو انہوں نے فرمایا” ہاں۔” پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک اور معنی بیان فرمایاتو میں نے تمہارے والد سے پھرپوچھا کہ آپ اس کا معنی جانتے ہیں۔اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے گیارہ معانی بیان کئے اور میں ہربارتمہارے والد سے پوچھتا تھا” کیاآپ ان معانی سے واقف ہیں؟” تو وہ یہی کہتے کہ ان معنوں سے واقف ہوں۔” یہاں تک کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پورے چالیس معنی بیان کئے جو نہایت عمدہ اور عزیز تھے ۔ گیارہ کے بعد ہر معنی کے بارے میں تمہارے والد کہتے تھے: ”میں ان معنوں سے واقف نہیں ہوں۔”
(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص۲۲۴)
حضرت شیخ امام ابوالحسن علی بن الہیتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ” میں نے حضرت سیدناشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور شیخ بقابن بطو کے ساتھ حضرت سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے روضہ اقدس کی زیارت کی، میں نے دیکھا کہ حضرت سیدنا امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قبر سے باہرتشریف لائے اورحضورسیدی غوث پاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کواپنے سینے سے لگالیااور انہیں خلعت پہناکرارشاد فرمایا: ”اے شیخ عبدالقادر !بے شک میں علم شریعت ،علم حقیقت، علم حال اور فعل حال میں تمہارا محتاج ہوں۔”
(بہجۃالاسرار،ذکرعلمہ وتسمیۃبعض شیوخہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ،ص،۲۲۶)
بلاد ِعجم سے ایک سوال آیا کہ” ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کریگاکہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہاہو،اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہے؟” اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کیاتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ” وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔” اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے۔”(المرجع السابق)
بلاد ِعجم سے ایک سوال آیا کہ” ایک شخص نے تین طلاقوں کی قسم اس طور پر کھائی ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی ایسی عبادت کریگاکہ جس وقت وہ عبادت میں مشغول ہو تو لوگوں میں سے کوئی شخص بھی وہ عبادت نہ کررہاہو،اگر وہ ایسا نہ کرسکا تو اس کی بیوی کو تین طلاقیں ہو جائیں گی، تو اس صورت میں کون سی عبادت کرنی چاہے؟” اس سوال سے علماء عراق حیران اور ششدر رہ گئے ۔ اور اس مسئلہ کو انہوں نے حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت اقدس میں پیش کیاتو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فوراً اس کا جواب ارشاد فرمایا کہ” وہ شخص مکہ مکرمہ چلا جائے اور طواف کی جگہ صرف اپنے لئے خالی کرائے اور تنہا سات مرتبہ طواف کر کے اپنی قسم کو پورا کرے ۔” اس شافی جواب سے علماء عراق کو نہایت ہی تعجب ہوا کیوں کہ وہ اس سوال کے جواب سے عاجز ہوگئے تھے۔”(المرجع السابق)