ایمان و کفر کا بیان, حقوق العباد کے مسائل, عقائد اہل سنت, کافر اور مرتد کے احکام

غیر مسلموں کو سلام کہنا چاہیے یا نہیں؟

الاستفتاء ۔
غیر مسلموں کو سلام کہنا چاہیے یا نہیں؟
الحمد لله والصلوة والسلام على رسول الله کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا ہم کفار کو سلام کر سکتے ہیں کیونکہ عموماً آفس وغیرہ میں ان سے پالا پڑتا ہے اور اگر یہ سلام کریں تو جواب کیسے دینا چاہیے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّوْرَ وَالصَّوَاب کفار کو بغیر ضرورت سلام کرنے میں ابتداء کرنا ناجائز ہے۔ اگر کسی حاجت وضرورت کی وجہ سے ان کو سلام کرنا پڑے تو ہرگز ہر گز تعظیم کا قصد نہ کرے بلکہ بلا قصد تعظیم سلام کرے مگر ایسی حالت میں بھی اولی واحسن یہی ہے کہ کسی کافر کو سلام نہ کرے۔ یہاں انگلینڈ میں انگریزوں کو لفظ سلام سے (Greeting) کرنے میں کسی ضرورت میں بھی کوئی حاجت نہیں کیونکہ ان کے ہاں یہ رائج ہی نہیں لہذا ان کو سلام کرنے کی ضرورت پیش آئے بھی تو انگلش میں (Greeting) وغیرہ الفاظ سے گزارہ کرلے۔ اور جہاں تک جواب کا تعلق ہے تو اگر کافر (Greet) یا کسی اور لفظ سے سلام کریں تو جواب میں اسی طرح کے الفاظ بولے جائیں اور اگر وہ لفظ سلام سے سلام کریں تو جواب دے سکتا ہے مگر جواب میں صرف علیکم ہی کہے۔ اگر وہ اس کو استہزاء خیال کرے تو لفظ السلام سے بھی جواب دے سکتا ہے۔
کفار کو سلام میں ابتداء کرنا نا جائز ہے۔
جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ کافر کو بے ضرورت ابتداء بالسلام نا جائز ہے اور ہندوستان میں وہ طرق تحیت جاری ہیں کہ بضرورت بھی انھیں سلام شرعی کرنے کی حاجت نہیں مثلا یہی کافی کہ
لاله صاحب، بابو صاحب، منشی صاحب، یا بغیر سر جھکائے سر پر ہاتھ رکھ لینا وغیر ذلک۔
فتاوی رضویه ج ۲۲ ص ۳۱۶]
اگر وہ لفظ سلام کے علاوہ کسی اور لفظ سے سلام کریں تو جواب بھی انہیں الفاظ میں دیا جائے یعنی Greetوغیرہ میں جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ کافر اگر بے لفظ سلام سلام کرے تو ایسے ہی الفاظ رائجہ جواب میں بس ہیں۔
فتاوی رضویه ج ۲۲ ص ۳۱۶]
اور اگر وہ کافر لفظ سلام کے ساتھ سلام کرے تو جواب میں وعلیکم کہے جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں ہے کہ “ولا بَأْسَ بِرَد السَّلَامِ عَلَى أَهْلِ الذِمَّةِ ، وَلَكِنْ لَا يُزَادُ عَلَى قَوْلِهِ وَعَلَيْكُمْ ” ہاں اگر ذمی سلام کریں تو اس کا جواب دینے میں حرج نہیں مگر و علیکم سے زیادہ نہ کہے۔ ”
اگر وہ وعلیکم کے لفظ کو مذاق و استہزاء سمجھتا ہے تو جو مناسب سمجھے ان الفاظ میں جواب دے اگرچہ لفظ السلام سے دے۔ جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ اور وہ کافر بھی اسے جواب سلام نہ سمجھے گا بلکہ اپنے ساتھ استہزاء خیال کرے گا تو جس لفظ سے مناسب جانے جواب دے لے اگرچہ سلام کے جواب میں سلام ہی کہہ کر ۔
[فتاوی رضویہ ج ۲۲ ص ۳۱۶]
کافر کو تعظیم کی وجہ سے سلام کرنا کفر ہے جیسا کہ درمختار میں ہے۔
وَلَوْ سَلَّمَ عَلَى الذِمِّيِ تَبْجِيلًا يَكْفُرُ لِأَنَّ تَبْجِيلَ الْكَافِرِ کُفرٌ ” اگر کسی مسلمان نے تعظیم کی نیت سے کافر کو سلام کیا تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ کافر کی تعظیم کفر ہے۔
“الدر المختار ” ، كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، ج ۹، ص ۲۸۱]
اور بہار شریعت میں ہے کہ کافر کو اگر حاجت کی وجہ سے سلام کیا ، مثلاً سلام نہ کرنے میں اس سے اندیشہ ہے تو حرج نہیں اور بقصد تعظیم کافر کو ہرگز ہرگز سلام نہ کرے کہ کافر کی تعظیم کفر ہے۔
بهار شریعت ج ۳ حصه ۶ ۱ مسئله ۱۶ ص ۴۶۲]
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم
فتاوی یورپ وبرطانیہ
(صفحہ نمبر 69)