مسئلہ :کیا مذہب حنفی میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا پڑھانا جائز ہے؟
الجواب: بعون الملك العزيز الوهاب مذہب حنفی میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا اور پڑھانا ناجائز وگناہ ہے کہ حضور پر نور شافع یوم النشور صلی الله تعالی علیہ وسلم صحابہ کرام کی نماز جنازہ کا بہت اہتمام فرماتے تھے یہاں تک کہ اگر کسی وقت اندھیری رات یا دوپہر کی گرمی کے سبب صحابہ کرام حضور کو اطلاع نہ دیتے اور دفن کر دیتے تو حضور ان پر غائبانہ نماز جنازہ نہ پڑھتے بلکہ فرماتے لا تفعلو ادعونی لجنائزکم یعنی ایسا نہ کیا کرو مجھے اپنے جنازہ کے لئے بلا لیا کرو (ابن ماجہ)، یہانتک کہ صحابہ کرام میں سے کئی علماء صحابہ کو کفار نے فریب سے شہید کر دیا تو حضور کو اس واقعے کا سخت رنج ہوا کہ ایک مہینہ تک ان کافروں پر خاص کر نماز میں لعنت فرماتے رہے مگر ان محبوبوں پر حضور کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ہرگز منقول نہیں ۔اس لئے کہ جنازہ کا نمازی کے سامنے ہونا شرائط نمازجنازہ میں سے ہے۔ جیسا که تنویر الابصار میں ہے شرطها وضعه امام المصلی ۔
اور در مختار میں ہے شرطها حضوره فلا تصح على غائب۔ یعنی جنازہ کا حاضر ہونا نماز کی شرط ہے لہذا کسی غائب پر نماز جنازہ صحیح نہیں۔اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے میں عموماً نماز جنازہ کی تکرار بھی پائی جاتی ہے جس کے ناجائز وگناہ ہونے پر مذہب حنفی کا اجماع قطعی ہے جیسا کہ در مختار وغیرہ میں ہے تکرارھا غیر مشروع ۔ یعنی نماز جنازہ کی تکرار جائز نہیں ۔اور حضور سید عالم صلی الله تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت نجاشی رضی الله تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھی تو اس لئے کہ ان کا انتقال دارالکفر میں ہوا تھا وہاں ان پر نماز جنازہ نہ ہوئی تھی.
(فتاوی رضويه)
وهو تعالى أعلم
بحوالہ -فتاوی فیض الرسول
ص:447 جلد 1۔
الحمد لله والصلوة والسلام على رسول الله
کیا غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے۔؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جائز ہے۔؟
کیونکہ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا گیا۔
مسئلہ کا جواب مدلل درکار ہے۔
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بعون المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَابُ
غائبانہ نماز جنازہ ناجائز ہے اس پر سب احناف کا اجماع ہے۔ اگرچہ وہ جنازہ جنرل ضیاء الحق کا ہو یا کسی اور کا۔ نماز جنازہ پڑھنے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں ان میں اسے ایک شرط یہ ہے کہ میت کا موجود ہونا ( اگر نصف بدن مع سرمل جائے تو بھی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے ) اور میت کا امام و مصلی ( جنازہ پڑھنے ) کے آگے ہونا (اگر میت مصلی کے پیچھے ہو گی نماز نہ ہوگی )
غائبانہ نماز جنازہ کی صورت میں میت یا تو موجود ہی نہیں ہوتی جب جسم مکمل جل جائے ۔یا مصلی کے آگے نہیں ہوتی ۔ اسی لیے دونوں صورتوں میں نماز جنازہ پڑھنا نا جائز ہے۔ (رد المحتار کتاب الصلوة جلد 3 ص (121)
جیسا کہ فتح القدیر میں ہے۔ وَ شَرْطُ صِحَتِهَا وَضْعُهُ أَمَامَ الْمُصَلِّي فَلِهَذَا الْقَيْدِ لَا تَجُوزُ عَلَى
غائب نماز جنازہ کے صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ میت نمازی کے آگے ہو۔ اس شرط کے عدم کیوجہ سے غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ۔
(فتح القدير جلد 2 ص 80) اور در مختار میں ہے ۔ فَلَا تَصِحُ عَلَى غَائِبِ ۔ترجمه کسی غائب پر نماز جنازہ صحیح نہیں۔۔(در مختار جلد 1 ص (121) اور ملتقی الابحر میں ہے .لا يُصَلَّى عُضو وَلَا غَائب میت کا کوئی عضو کسی جگہ سے ملے اور غائب پر نماز جنازہ جائز نہیں. اس کے علاوہ ایک سو سے زائد کتب کی واضح عبارات موجود ہیں کہ غائبانہ نماز جنازہ نا جائز ہے۔سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ساری زندگی سرکار مدینہ صلی الله علیه واله وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی ۔ آپ صلی الله علیه واله وسلم نے قصدا غائبانہ نماز جنازہ کو ترک فرمایا۔ نبی صلی الله علیه واله وسلم جو عمل قصدا ترک فرمائیں اس پر عمل ضروری ہے. جیسا کہ امام اہل سنت ارشاد امام احمد رضا خاں علیه رحمة الرحمن کا فرماتے ہیں۔ اگر حضور صلی الله علیه واله وسلم قصداً کسی کام سے باز رہے تو اس میں ان کی پیروی ضروری ہے ( یعنی اس سے باز رہنا ضروری ہے ) اور یوں کوئی کام سرکار مدینہ صلی الله علیه واله وسلم کے عمل میں نہ آیا تو وہ ممنوع نہ ہو گا اور نہ اس سے بچنا ضروری ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد 9 ص 344) اس فرمان ذیشان سے پتہ چل گیا کہ اگر حضور صلی الله علیه واله وسلم نے قصداً کسی کام کو ترک کیا ہو تو امت کو بھی اس سے باز رہنا ضروری ہے۔ کتب تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ بہت سے صحابہ کرام علیہم الرضوان ایسے ہیں جنہوں نے بلاد غیر میں وفات پائی اور سرکار اقدس صلی الله علیه واله وسلم ان کی فرقت میں روئے بھی مگر پھر بھی آپ صلی الله علیه واله وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ نہ کروائی۔ واقعہ بئر معونہ کو دیکھئے جب مدینہ پاک کے ستر 70 جگر پاروں، محمد رسول اللہ صلی الله علیه وسلم کے خاص پیاروں، اجله علمائے کرام کو کفار نے دھوکے سے بلا کر بے دردی سے شہید کر دیا۔ حضور صلی الله علیه واله وسلم کو ان کا شدید غم ہوا۔ ایک پورا مہینہ نماز فجر کے اندر کفار ناہنجار پر لعنت فرماتے رہے۔ مگر یہ کہیں منقول نہیں کہ حضور صلی الله علیه واله وسلم نے ان پیارے محبوبوں پر نماز پڑھی ہو۔ان کے علاوہ بہت سی جنگوں میں صحابه کرام دوسرے شہروں میں شہید ہوئے۔ حضور صلی الله علیه واله وسلم نے مدینہ پاک میں ان کے لیے نماز نہ پڑھی ، کیونکہ ان کی میتیں حاضر نہ تھیں اور نہ ہی ان کو مدینہ میں لایا گیا۔ سرکار مدینہ صلی الله علیه واله وسلم کا غائبانہ نماز جنازہ سے باز رہنا اس بات پر دلیل ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں ہے حالانکہ حضور پاک صلی الله علیه واله وسلم۔ اپنے تمام صحابہ پر مشفق اور حریص علیکم کی صفت عظیمه کے مالک ہیں اور حضور پاک صلی الله علیه واله وسلم اپنے صحابه کے جنازے میں شرکت کا کمال کا اہتمام فرماتے تھے۔ اگر کسی وقت رات کی تاریکی یا دوپہر کی گرمی یا حضور صلی الله علیه واله وسلم کے آرام فرمانے کے سبب صحابه کرام نماز جنازہ کروا دیتے اور دفن کر دیتے تو سر کار مدینه صلی الله علیه واله وسلم کو اطلاع نہ کرتے تو حضور صلی الله علیه واله وسلم ارشادفرماتے:
لا تَفْعَلُوا لَا يَمُوتَنَّ فِيكُمْ مَيْتٌ مَا كُنْتُ بَيْنَ أَظْهُرِ كُمْ أَلَّا أَذَنْتُمُونِي بِهِ، فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ لَهُ رَحْمَةٌ
ایسا نہ کرو جب تک میں تم میں تشریف فرما ہوں ہر گز کوئی میت تم میں نہ مرے جس کی اطلاع مجھے نہ دو ( یعنی ہر میت کی اطلاع مجھے دو ) کہ اس پر میری نماز موجب رحمت ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 388 ).صحیح مسلم شریف کی حدیث پاک ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا:
إِنَّ هَذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُوةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا، وَإِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ
بے شک یہ قبریں اپنے ساکنوں پر تاریکی سے بھری ہیں اور میں ان پر نماز پڑھ کر ان کو روشن کر دیتا ہوں ۔“ یہ (صحیح مسلم باب الصلوة على القبر جلد 1 ص 310 رقم الحديث (956).مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو گیا کہ غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے اگرچہ وہ جنازہ جنرل ضیاء الحق کا ہو۔ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ حضور صلی الله علیه واله وسلم نے نجاشی بادشاہ ( جو اپنے ملک میں فوت ہوا) کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھائی لہٰذا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب نجاشی بادشاہ کا حبشہ میں انتقال ہوا تو حضور صلی الله علیه واله وسلم اس وقت مدینہ منورہ میں موجود تھے تو نجاشی کا جنازہ حضور صلى الله علیه واله وسلم کے سامنے ظاہر کر دیا گیا۔ حضور صلی الله علیه واله وسلم نے مصلی کے اندر چار تکبیروں سے نجاشی کا جنازہ پڑھایا۔ اس کے علاوہ امام واحدی نے اسباب نزول قرآن میں حضرت عبدالله بن عباس سے ذکر کی کہ فرمایا :
كشِفَ لِلنَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ سَرِيرِ النَّجَاشِي حَتَّى رَآهُ وَصَلَّى عَلَيْهِ ترجمہ: نجاشی کا جنازہ حضور پاک صاحب لولاک صلی الله علیه واله وسلم کے لیے ظاہر کر دیا گیا تھا۔ حضور صلی الله علیه واله وسلم نے اسے دیکھا اور اس پر نماز پڑھی۔
شرح زرقانی على المواهب جلد 8 ص 87 / فتاوی رضویہ جلد 9 ص (348)
خود صحابہ کرام کا یہی گمان تھا۔ جیسا کہ فتح الباری میں ہے۔ فصَلَّيْنَا خَلْفَهُ وَنَحْنُ لا نرى الا ان الجنازة قدامُنا. ترجمہ: “ہم نے حضور صلی الله علیه واله وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور ہم یہی اعتقاد کرتے تھے کہ جنازہ ہمارے آگے موجود ہے۔“ (فتح الباري جلد 3 ص (432)
مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو گیا کہ نجاشی کی نماز جنازہ غائبانہ نہیں ہوئی بلکہ ان کی میت حضور صلی الله علیه واله وسلم کے سامنے حاضر تھی۔ لہذا اس واقعہ سے غیر مقلدین ( وہابیوں ) کا دلیل پکڑنا درست نہیں ہے۔
اس حوالے سے ایک اور اعتراض کیا جاتا کہ ہے کہ جب حضور صلی الله علیه واله وسلم مدینہ میں نہیں تھے تو معاویہ بن معاویہ لیثی نے مدینہ میں انتقال کیا۔ حضور صلی الله علیه واله وسلم نے اپنی جگہ پر ہی معاویہ لیثی کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھا۔
ایک جواب تو اس کا یہی ہے کہ اس صحابی کی میت بھی حضور صلی الله علیه واله وسلم کے سامنے حاضر کر دی گئی تھی۔جیسے کہ حدیث ابی امامہ میں ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ اسلام نے حاضر ہو کر عرض کی۔ یا رسول الله معاویہ بن معاویہ رضی الله عنہ نے مدینہ میں انتقال کیا۔ أَتُحِبُّ أَنْ أَهْوِي لَكَ الْأَرْضَ فَتُصَلِّي عَلَيْهِ قَالَ: نَعَمْ.
فَضَرَبَ بِجَنَاحِهِ عَلَى الْأَرْضِ فَرَفَعَ لَهُ سَرِيرَهُ ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، وَخَلْفَهُ صَفَانِ مِنَ الْمَلَائِكَةِ فِي كُلِّ
صَفٍ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَکْ “ کیا حضور صلى الله عليه واله وسلم چاہتے ہیں کہ حضور صلی الله علیه واله وسلم کے لیے زمین لپیٹ دی جائے تا کہ حضور صلى الله علیه واله وسلم ان پر نماز جنازہ پڑھیں اور جبرائیل نے فرمایا ہاں اور پھر اپنا پر زمین پر مارا۔۔جنازہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے ہوگیا اس وقت حضور صلی الله علیه واله وسلم نے ان پرنماز پڑھی اورفرشتوں کی دو صفیں حضور علیه الصلوۃ والسلام کے پیچھے تھیں اور ہر صف میں 70 ہزار فرشتے تھے۔“(مرقاة شرح مشكوة جلد 4 ص (46)
پتا چلا کہ حضرت معاویه بن معاویه لیثی کا جنازہ بھی حضور صلی الله علیه واله وسلم سامنے کر دیا گیا۔ جب میت امام کے سامنے ہو تو نماز حاضر پر ہوئی ہے نہ کہ غائب پر۔ لہذا معلوم ہوا کہ اس واقعہ سے بھی غیر مقلدین کا غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرنا غلط و باطل ہے اور غائب پر نماز جنازہ جائز نہیں۔
دوسرا جواب:
اس واقعہ ( معاویہ پر نماز غائب پڑھنے ) کی اسناد میں بہت اضطراب ہے۔ امام نووی یہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ کی روایت کے ضعیف ہونے پر سب محدثین کا اجماع ہے۔ جب یہ روایت ہی ضعیف ہے تو اس سے استدلال کر کے غائبانہ نماز جنازہ کا جواز ثابت کرنا ہی غلط و باطل ہے۔ اس سے استدلال درست نہیں ہے۔
والله تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم۔۔۔۔
فتاوی یورپ و برطانیہ ص218