رسالہ
فوزِمبین دررَدِّ حرکتِ زمین
(زمین کی حرکت کے رَد میں کھُلی کامیابی)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، الحمدﷲ الذی یمسک السمٰوٰت والارض ان تزولا oولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعدہ انہ کان حلیما غفورا oوسخرلکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخرلکم الانھٰر oوسخر لکم الشمس والقمر دائبین و سخرلکم الّیل والنہار وسخّر الشمس والقمر کل یجری لاجل مسمّی الاھو العزیز الغفار o ربنا ما خلقت ھٰذا باطلا سبحٰنک فقنا عذاب النار قلت و قولک الحق والشمس تجری لمستقرلہا ذٰلک تقدیر العزیز العلیم oوالقمرقدرنہٰ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم فصلّ وسلمّ وبارک علٰی شمس اقمار النبوۃ و الرسالۃ oمارج معارج اوج القرب والجلالۃ oبحیث لم یبق لاحد مرمٰی oان الٰی ربک المنتھٰی oوعلٰی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحرز ماطلعت شمس وکان الیوم بین غدٍوامسٍ oامین
اﷲ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اس کے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کےلیے ہیں جو روکے ہوئے ہیں آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں، اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اﷲ کے سوا ، بے شک وہ حلم والا بخشنے والا ہے اور اس نے تمہارے لیے کشتی کومسخر کیا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور تمہارے لیے ندیاں مسخر کیں اور تمہارے لیے سورج اور چاند مسخر کیے جو برابر چل رہے ہیں، اور تمہارے لیے رات اور دن مسخر کئے اور اس نے سورج اور چاند کو کام پرلگایا ہر ایک ایک ٹھہرائی ہوئی معیاد کے لیے چلتا ہے، سنتا ہے وہی صاحب عزت بخشنے والا ہے۔ اے رب ہمارے تو نے یہ بے کار نہ بنایا۔ پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے تو نے فرمایا اور تیرا فرمان حق ہے اور سوج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراؤ کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ پھر ہوگیا جیسے کھجور کی پرانی ڈال۔درودو سلام اور برکت نازل فرما نبوت رسالت کے چاندوں کے سورج پر جو قرب بزرگی کی بلندی کی سیڑھیون کا روشن چمکدار شعلہ ہے اس طور پر کہ کسی کے لیے تیر پھینکنے کی جگہ نہ رہے۔ بے شک تمہارے رب ہی طرف انتہا ہے۔، اور آپ کی آل ، آپ کے اصحاب اور آپ کے بیٹے پر ۔ اور حفاظت فرما جب تک سورج طلوع ہوتا رہے اور گزشتہ کل اور آئندہ کل کے درمیان آج رہے۔ امین۔
الحمدﷲ وہ نور کہ طورِ سینا سے آیا اور جبل ساعیر سے چمکا اورفاران مکہ معظمہ کے پہاڑوں سے فائض الانوار
وعالم آشکارہوا۔ شمس و قمر کا چلنا اور زمین کا سکون روشن طور پر لایا آج جس کا خلاف سکھایا جاتا ہے اور مسلمان ناواقف نادان لڑکوں کے ذہن میں جگہ پاتا اور ان کے ایمان و اسلام پر حرف لاتا ہے۔والعیاذ باﷲ تعالٰی فلسفہ قدیمہ بھی اس کا قائل نہ تھا اس نے اجمالاً اس پر ناکافی بحث کی جو اس کے اپنے اصول پر مبنی اور اصول مخالفین سے اجنبی تھی۔ فقیر بارگاہِ عالم پناہ مصطفوی عبدالمصطفی احمد رضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی غفراﷲ لہ وحقق املہ کے دل میں ملک الہام نے ڈالا کہ اس بارے میں باذنہ تعالٰی ایک شافی و کافی رسالہ لکھے اور اس میں ہیأتِ جدیدہ ہی کے اصول پر بنائے کار رکھے کہ اُسی کے اقراروں سے اس کا زعم زائل اور حرکتِ زمین و سکون شمس بداہۃباطل ہو، و باﷲ التوفیق( اور توفیق اﷲ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے۔ت)
یہ رسالہ مسمی بنام تاریخ فوزِ مبین درددِّ حرکت زمین (۱۳۳۸ھ) ایک مقدمہ اور چار فصل اور ایک خاتمہ پر مشمل ۔
مقدمہ: میں مقررات ہیأت جدیدہ کا بیان جن سے اس رسالہ میں کا م لیا جائے گا۔ فصل اول : میں نافریت پر بحث اور اُس سے ابطالِ حرکت زمین پر بارہ دلیلیں۔ فصل دوم میں جاذبیت پر کلام اورا س سے بطلان حرکت زمین پر پچاس دلیلیں۔ فصل سوم میں خود حرکت زمین کے ابطال پر اور تینتالیس دلیلیں یہ بحمدہ تعالٰی بطلان حرکت زمین پر ایک سو پانچ دلیلیں ہوئیں جن میں پندرہ اگلی کتابوں کی ہیں جن کی ہم نے اصلاح و تصحیح کی، اور پورے نوے دلائل نہایت روشن و کامل بفضلہ تعالٰی خاص ہمار ے ایجاد ہیں۔
فصل چہارم میں ان شبہات کا رد جو ہیات جدیدہ اثبات حرکت زمین میں پیش کرتی ہے۔خاتمہ میں کتبِ الہیہ سے گردش ِ آفتاب و سکونِ زمین کا ثبوت والحمدﷲ مالکِ الملکِ والملکوت۔
اقول۱۸: اولاً یہ کہنا تھا کہ دونوں ثقل مطلق میں برابر ہیں یعنی میل بمرکز زمین دونوں کی طبیعت میں ہے مطلق میں موازنہ کی گنجائش کہاں۔
ثانیا ۱۹: اسی وجہ سے مطلق کو مقدار مادے کے مساوی ماننا جہل ہے کیا مقدار مادہ کی کمی بیشی سے مطلق بدلے گا۔
ثالثا ۲۰: یہ جو تفاوت مادے سے کم بیش ہوتا ہے محال ہے کہ لوہے اور لکڑی میں مساوی ہو۔ جسم جتنا کثیف تر اس میں مادہ یعنی وہی اجزائے دیمقر اطیسیہ کما سیأتی۔ ( جیسا کہ آگے آئے گا۔ت) بیشتر لوہے کی کثافت لکڑی کہاں سے لائے گی۔ یہ لوگ جب اس میدان میں آتے ہیں ایسی ہی ٹھوکریں کھاتے ہیں، پھر کہا دوسرا ثقل مضاف یعنی ایک جسم کو دوسرے کی نسبت سے یہ باختلافِ انواع مختلف ہوتا ہے، ایک ہی حجم کی دو چیزوں میں اُن کے مادوں کی نسبت سے مختلف ہوتا ہے۔
ایک انگل مکعب لوہا بھی لو اور لکڑی بھی، لوہا زیادہ بھاری ہوگا کہ مساوی جسامت کے لوہے میں لکڑی سے مادہ زائد ہے۔
اقول ۲۱: فرق کیا ہوا، ثقل مطلق بھی موافق مقدار مادہ تھا جس کے یہی معنی کہ مادے کی کمی بیشتی سے بدلے گا، یہی مضاف میں ہے کمی بیشی کا لحاظ وہاں بھی بے لحاظ تعددو نسبت دو شے ممکن نہیں، اگر یہ فرض کرلو کہ شے واحد میں مادہ اس سے کم ہوجائے تو ثقل کم ہوگا اور زائد تو زائد تو کیا یہ دو چیزوں اور ان کی نسبت کا اعتبار نہ ہوا۔ بالجملہ ان کے یہاں مدار ثقل کثرت اجزاء پر ہے کم اجزا میں کم زائد میں زائد، اور یہ نہیں مگر وزن تو اُن کے یہاں ثقل ووزن شے واحد ہے ، ہم آئندہ غالباً اسی پر بنائے کلام رکھیں گے۔
(۹) ہر جسم (عہ۱)کا مادہ جسے ہیولٰی وجسمیہ بھی کہتے ہیں وہ چیز ہے جس سے جسم اپنے مکان کو بھرتا اور دوسرے جسم کو اپنی جگہ آنے سے روکتا ہے۔
عہ۱: ح ص ۳۲
اقول۲۲: یہ وہی اجزائے دیمقراطیسیہ ہوئے اور ان کی کمی بیشی جسم تعلیمی یعنی طول عرض عمق کی کمی بیشی پر نہیں بلکہ جسم کی کثافت پرایک حجم کے دو جسم ایک دوسرے سے کثیف تر ہوں جیسے آہن وچوب یا طلا وسیم کثیف تر ہیں، اجزاء زیادہ ہوں گے کبھی زیادہ حجم میں کم جیسے لوہا اور روئی۔
(۱۰) جاذبیت (عہ۲) بحسب مادّہ سیدھی بدلتی ہے اور بحسب مربع بعد بالقلب،
عہ۲: ص ۱۲
اقول ۲۳: یہاں مادے سے مادہ جاذب مراد ہے اور تبدل سے طاقت جذب کا تفاوت یعنی جاذب میں جتنا مادہ زائد اُتنا ہی اس کا جذب قوی۔ یہ سیدھی نسبت ہوئی اور بعد مجذوب کا مجذور، جتنا زائد اتنا ہی اس کا جذب ضعیف گز بھر بعد پر جو جذب ہے دو گز پر اس کا چہارم ہوگا۔ دس گز پر اس کا سوواں حصہ یہ نسبت معکوس ہوئی کہ کم پر زائد،زائد پر کم۔
نتیجہ : (ا) کثیف ترکہ جذب اشد۔
(ب) قریب تر پر اثر اکثر۔
(ج) خطِ عمود پر عمل اقویز
تنبیہ جلیل : اقول ۲۴: یہ قاعدہ دلیل روشن ہے کہ طبعی قوت جذب ہر شے کی طرف یکساں متوجہ ہوتی ہے مجذوب کی حالت دیکھ کر اس پر اپنی پوری یا آدھی یا جتنی قوت اس کے مناسب جانے صرف کرنا اس کا کام ہے جو شعور و ارادہ رکھے طبعی قوت ادراک نہیں رکھتی کہ مجذوب کی حالت جانچے اور اس کے لائق اپنے کل یا حصے سے کام لے وہ تو ایک ودیعت رکھی قوت بے ارادہ و بے ادراک ہے نہ اس میں جدا جدا حصے ہیں شے واحد ہے اور اس کا فعل واحد ہے اس کا کام اپنا عمل کرنا ہے مقابل کوئی شے کیسی ہی ہو، بھیگا ہوا کپڑا دھوپ میں پھیلا دو جس کے ایک حصے میں خفیف نم ہو اور دوسرا حصہ خوب تر۔ حرارت کا کام جذب رطوبات ہے، اس وقت کی دھوپ میں جتنی حرارت ہے وہ دونوں حصوں پر ایک سی متوجہ ہوگی۔ ولہذا نم کا حصہ جلد خشک ہوجائے گا۔ اور دوسرا دیر میں کہ اتنی حرارت اس خفیف کو جلد جذب کرسکتی تھی اور اگر یہ ہوتا کہ طبعی قوت بھی مقابل کی حالت دیکھ کر اسی کے لائق اپنے حصے سے اس پر کام لیتی تو واجب تھا کہ نم بھی اتنی ہی دیر میں سوکھتی جتنی میں وہ گہری تری کہ ہر ایک پر اسی کے لائق جذب آتا، نم پر کم اور تری پر زائد، حالانکہ ہر گز ایسا نہیں بلکہ دھوپ اپنی قوتِ جذب کا پورا عمل دونوں پرکرتی ہے، ولہذا کم کو جلد جذب کرلیتی ہے یوں ہی مقناطیس لوہے کے ذروں کو ریزوں سے جلد جذب کرے گا اگر ہر ایک کے لائق جذب کرتا تو جس قوت سے ریزوں کو کھینچا تھا عام ازیں کہ کل قوت تھی یا بعض جو نسبت ذروں کو ان ریزوں سے ہے اسی نسبت کے حصہ قوت سے ذروں کو کھینچتا دونوں برابر آتے نہیں نہیں بلکہ قطعاً سب کو اپنی پوری قوت سے کھینچا جس نے ہلکے پر زیادہ عمل کیا، یوں ہی بعد کے بڑھنے سے جذب کا ضعیف ہوتا جانا قطعاً اسی بنا پر ہے کہ وہی قوت واحدہ ہر جگہ عمل کررہی ہے، ظاہر کہ قریب پر اس کا عمل قوی ہوگا اور جتنا بعد بڑھے گا گھٹتا جائے گا اور اگر ہر بعد کے لائق مختلف حصے کام کرتے تو ہر گز بعد بڑھنے سے جذب میں ضعف نہ آتا جب تک ساری طاقت ختم نہ ہوچکتی کہ ہر حصے بعد پر طبیعت اپنی قوت کے حصے پڑھاتی جاتی اور نسبت یکساں رہتی ہاں جب آگے کوئی حصہ نہ رہتا تو اب بعد بڑھنے سے گھٹتی کہ اب عمل کرنے کی یہی قوت واحدہ معینہ رہ گئی بالجملہ بعد بڑھنے سے ضعف آنے کو لازم ہے کہ ہر جگہ ایک ہی قوت معینہ عامل ہو اور وہ کوئی حضہ نہیں ہوسکتی کہ حصوں کی تقسیم غیر متناہی یہ حصہ معین ہوا وہ کیوں نہ ہوا ترجیح بلا مرجح ہے لہذا واجب کہ طبعی جاذب ہمیشہ اپنی پوری قوت سے عمل کرتا ہے۔ یہ جلیل فائدہ یاد رکھنے کا ہے کہ بعونہ تعالٰی بہت کام دے گا۔
تنبیہ : اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ مثلاً زمین کا پورا کرہ اپنی ساری قوت سے ہر شے کو کھینچتا ہے بلکہ مجذوب کے مقابل جتنا ٹکڑا ہے جیسے اس کپڑے کو شرق تا غرب پھیلی ہوئی ساری دھوپ نے نہ سکھایا تھا بلکہ اُسی قدر نے جو اس کے محاذی تھی۔
اقول: مد کا جذب قمر سے ہونا اگر چہ نہ ہم کو مضر نہ اس کا انکار ضرور، مگر برسبیل ترک ظنون وطلب تحقیق وہ بوجوہ مخدوش ہے:
وجہ اول : چاند تو زمین کے ایک طرف ہوگا دوسری طرف پانی کس نے کھینچا، یہ تو جذب نہ ہوا دفع ہوا۔
عہ: ص ۲۶۳ میں ۲۴ گھنٹے ۵۰ منٹ کہے نیز ص ۲۷۳ و ح ص ۲۰۷ میں ۲۴ ت ،۴۸ ط ص ۱۰۶ ۲۴ت ص ۱۰۹ ۲۴ ت ۔ ۴۵ تعریبات شافیہ جزثانی ص ۳۸ ،۲۴ ت ،۵۱ جغرافیاطبعی ص ۱۹ ،۲۴ ت ،۵۴ بہرحال ہر یوم قمری میں دو مد ہیں یونہی جزء ۱۲ منہ غفرلہ۔
عہ۱: ص ۲۷۲۔ ۱۲۔ عہ۲: ص ۲۶۳ ح ص ۲۰۵و۲۰۶ ط ۱۰۶و ۱۰۷
عہ۳: ص ۲۶۵ ح ص ۲۰۵۔ ط ۱۰۹
عہ۴: حدائق النجوم ص ۲۰۰ میں اس کی اصل مقدار تین گھنٹے بتائی اگرچہ عوارض خارجیہ سے تفاوت ہوتا ہے۔
عہ۵: ص ۲۶۷۔ شافیہ جلد دوم ص ۳۹ عہ۶: ص ۲۰۵۔ ص ۲۰۶ عہ۷: ۔۲۶۶
عہ۸: ح ص ۲۰۷ عہ۹: ص ۲۶۳و ۲۷۰، ۲۷۲ ح ص ۲۰۷ ۔
اصول علم (عہ۱) الہیات وغیرہ سب میں اس کا یہ جواب دیا کہ بعید پر جذب کم ہوتا ہے سمتِ مواجہ قمر میں پانی قمر سے قریب اور زمین بعید ہے، لہذا اس پانی پر زمین سے زیادہ جذب ہوا اور بہ نسبت زمین کے چاند سے قریب تر ہوگیا۔ یوں ارتفاع ہوا ادھر کا پانی قمر سے بعید اور زمین سے قریب ہے، لہذا زمین پر پانی سے زیادہ جذب ہوا اور ادھر کا حصہ زمین چاند سے بہ نسبت آب (عہ۲) قریب تر ہوگیا تو وہ پانی مرکز زمین سے دور ہوگیا اور مرکز زمین سے دوری بلندی ہے ادھر یوں ارتفاع ہوا۔
عہ۱: ص ۲۶۴ ط ص ۱۰۷ ۔ ح ص ۲۰۵ و ۲۰۶ ص ۵۲ اس کے اخیر میں اسے جاہلانہ بیان کیا اور ط میں متحیرانہ اقرار کرکے کہ اس کا بیان پیچیدہ ہے اور بات صاف نہ کہہ سکا، ح کا کلام بھی مضطرب و مشتبہ سارہا، ص نے صاف بیان کیا لہذا ہم نے اسی سے نقل کیا ۱۲ منہ غفرلہ۔
عہ۲: نظار ہ عالم میں براہِ جہالت اُسے یوں لکھا کہ دوسری جانب کاپانی بعد کے باعث ساکن رہتا ہے لیکن زمین جو اس پانی کے اندر ہے کھینچتی ہے۔
اقول: اولاً جس طرح قرب وبعد سے اثر جذب میں اختلاف ہوتا ہے یونہی مجذوب کے ثقل و خفت سے بھاری چیز کم کھینچے گی اور ہلکی زیادہ سمت مقابل کا پانی بہ نسبت زمین کیا ایسا بعید ہے کہ زمین سے متصل ہے اور سمندر کی گہرائی(عہ۳) زیادہ سے زیادہ پانچ میل بتائی گئی ہے قمر کا بعد اوسط ۲۳۸۸۳۳ میل ہے اور زمین کا قطر معدل ۷۹۱۳ میل تو اس جانب کے اجزائے ارضیہ کا قمر سے بعد ۲۴۶۷۴۶ میل ہوا اس کثیر بعد پر چار پانچ میل کا اضافہ ایسا کیا فرق دے گا لیکن پانی بہ نسبت زمین بہت ہلکا ہے زمین کی کثافت پانی سے چھ گنی کے قریب ہے یعنی، ۶۷ء۵(عہ۴) تو اگر تفاوت بعد اس کے جذب میں کچھ کمی کرے تفاوت ثقل اس کمی پر غالب آئے گا یا نہ سہی پوری تو کردے گا۔ اور زمین و آب پر جذب یکساں رہ کر پانی زمین سے ملا ہی رہے گا تو مد نہ ہوگا بخلاف سمت مواجہ قمر کہ ادھر کا پانی قرب و لطافت دونوں وجہ کا جامع ہے تو اسی طرف مد ہونا چاہیے۔
عہ۳: جغرافیہ طبعی ص ۱۹۔۱۲ عہ۴: حدائق میں گزرا ۳ گھنٹے بعد۔
ثانیاً نمبر ۱۸ میں آتا ہے ہوا و آب و خاک مجموعہ تمہارے نزدیک کرہ زمین ہے اور قمر مجموع کو جذب کررہا ہے تو سب ایک ساتھ اٹھیں نہ کہ ادھر کا پانی زمین کو چھوڑ جائے اور ادھر کی زمین پانی کو چھوڑ آئے، دیکھو تمہارے زعم میں جذب شمس سے زمین گھومتی ہے تو تینوں جز خاک و آب و باد کو ایک ساتھ یکسان متحرک مانتے ہو نہ کہ سب ایک دوسرے سے جدا ہو کر چلیں۔
ثالثاً اگر ایسا ہوتا سمت مواجہ کی ہوا پر قمر کا جذب ادھر کے پانی سے بھی زائد ہوتا کہ اقرب بھی اور الطف بھی، اور ادھر کی ہوا کو تمہارے زعم باطل پر ادھر کا پانی چھوڑ آتا جس طرح اس پانی کو ادھر کی زمین چھوڑ گئی تو لازم تھا کہ مد کے وقت دونوں طرف نہ سطح زمین پر پانی ہوتا نہ سطح آب پر ہوا، بلکہ ہر دو کے بیچ میں خلا ہوتا۔ یہ بداہۃً باطل ہے، اطراف کے پانی کا آکر اس جگہ کو بھرنا کیوں یہ حرکت نہ اُن پانیوں کے متقضائے طبع ہے نہ زمین کا اثر نہ استحالہ خلا کی ضرورت، نمبر ۲۵ میں آتا ہے۔ کہ خلا تمہارے نزدیک محال نہیں پھر بلاوجہ اور پانی کیوں چل کر آئیں گے۔
وجہ دوم : کشش قمر سے مدَ ہوتا تو اس وقت ہوتا جب قمر عین نصف النہار پر سیدھے خطوں میں پانی کو کھینچتا ہے لیکن پانی وہاں کا اٹھتا ہے جہاں نصف النہار سے گزرے قمر کو گھنٹے ہوچکتے ہیں(عہ۱) ۔ اصول ہیأت میں اس کے دو حیلے گھڑے یکم پانی کا سکون ا سے فوراً جذب قبول نہیں کرنے دیتا انتہی یعنی جسم میں حرکت سے انکار ہے حتی الامکان محرک کی مقاومت کرے گا اس لیے پانی فوراً نہیں اٹھتا۔
عہ۱: ص ۲۶۶
اقول: اولاً قمر صرف سیدھے خط پر کھینچتا ہے یا ترچھے پر بھی، برتقدیر اول کس قدر باطل صریح ہے کہ جس وقت جذب ہورہا تھا پانی نہ ہلا،جب جذب اصلاً نہ رہا گزوں اٹھا یعنی وجود مسبب وجود سبب سے نہیں ہوتا بلکہ سبب معدوم ہونے کے گھنٹوں بعد، برتقدیر ثانی قمر جس وقت افق شرقی پر آیا اس وقت سے اس پانی کو کھینچ رہا تھا تو ٹھیک دوپہر کو اٹھنا فوراً اثر قبول کرنا نہ تھا بلکہ چھ گھنٹے بعد عجب کہ دوپہر کامل جذب ہوا اور وہ بھی اس طرح کہ ہرلمحہ پر پہلے سے قوی تر ہوتا جائے یہاں تک کہ نصف النہار پر غایت قوت پر آئے اور پانی کو اصلاً خبر نہ ہو جب جذب ضعیف پڑے اور آناً فاناً زیادہ ضعیف ہوتا جائے تو گھنٹوں کے بعد اب اثر پیدا ہوا اور یہیں سے حدائق النجوم کے جواب کا رد ہوگیا کہ امتداد سبب اشتداد سبب سے زیادہ موثر ہے۔
اقول : ہاں گرمی کے سہ پہر کو دوپہر سے زیادہ گرمی ہوتی ہے جاڑے کی سحر کو شب سے زیادہ سردی ہوتی ہے مگر زیادت کا فرق ہوتاہے نہ یہ کہ مدت مدید تک بڑھتا ہوا اشتداد امتداد رکھے اور اثر اصلاً نہ ہو جب وقتاً فوقتاً بڑھتے ہوئے ضعف کا امتداد ہو اس وقت آغاز اثر ہو یعنی جون ، جولائی کی دوپہر کو اصلاً گرمی نہ ہو تیسرے پہر کوہو ۔دسمبر ،جنوری کی آدھی رات کو سردی نام کو نہ ہو سحر کے وقت ہو ، ایسا الٹا اثر ہیئات جدیدہ میں ہوتا ہوگا۔
ثانیاً محرک کی قوت اگر جسم پر غالب نہ ہو اصلاً حرکت نہ کرے گا ،من بھر کے پتھر میں رسی باندھ کر ایک بچہ کھینچے کبھی نہ کھینچے گا اور اگر اس درجہ غالب ہو کہ اسے تاب مقاومت نہ ہو فوراً متحرک ہو گا مزاحمت کا اثر اصلاً ظاہر نہ ہوگا جیسے ایک مرد گیند کو کھینچے اور اسکی مقاومت اس کی قوت کے سامنے قیمت رکھتی ہے تو البتہ فوراً اثر نہ ہوگا اسے قوت بڑھانی پڑےگی زیادت قوت کے وقت اثر ہوگا نہ یہ کہ منتہائے قوت تک زور کرکے تھک جائے اور نہ ہلے اب کہ ضعیف زور رہ جائے اور لحظہ بہ لحظہ گھٹتا جائے تو اس گھٹی ہوئی قوت کو مانے ۔پانی کی مقاومت قمر کی قوت کے آگے اول تو قسم دوم کی ہونی چاہئے جو ساری زمین کو کھینچ لے جاتا ہے اس کے سامنے اتنا پانی ایسا کتنے پانی میں ہے کہ گھنٹوں نام کونہ ہلے اور نہ سہی قسم سوم ہی مانئے تو انتہائے قوت کے وقت اثر ظاہر ہونا تھا نہ کہ تھک رہنے کے بعد مری ہوئی طاقت سے۔
ثالثاً جب پانی اتنی مقاومت کرے واجب ہے کہ زمین اس سے بدرجہا زائد مزاحم ہو تو جس وقت پانی اثر لے زمین اس سے بہت دیر بعد متاثرہو، اور اس طرف کے پانی کا اٹھنا خود نہ تھا بلکہ زمین کے اٹھنے سے تو واجب کہ ادھر کے پانی میں جب مد ہو ادھر کے پانی میں سکون ہو ادھر کے پانی میں مدتوں بعد جب زمین اثر مانے مد ہو اس وقت ادھر کے پانی میں کب کا ختم ہو چکا حالانکہ دونوں طرف ایک ساتھ ہوتا ہے ۔
رابعاً رات دن میں دو ہی مد ہوتے ہیں اب لازم کہ چارہوں دو پانی کے اپنے اور دو جب زمین متاثر ہو کر اٹھے ۔
خامساً جانب قمر میں چار مد ہو ں اور طرف مقابل میں دو کہ باتباع زمین ہیں اور اس کے دوہی تھے ، غرض یہ لوگ اپنے اوہام بنانے کے لیے جو چاہیں منہ کھول دیتے ہیں ۔اس سے غرض نہیں کہ اوندھی پڑے یا سیدھی ، اور پڑتی اوندھی ہی ہے ۔ حیلہ دوم قعر دریا میں اور کناروں پرپانی کی حرکت بھی اثر جذب میں دیر کی معین ہوتی ہے۔
اقول: سمندر کے قعر میں پانی کی حرکت کیسی ،سمندر میں نہرو ں کا سا ڈھال نہیں، ولہذا دھار نہیں، نہ قعر میں ہوا ہے نہ اوپر کی ہوا کا اثر قعر تک پہنچتا ہے کیسی ہی آندھی ہو سو فٹ کے بعد پانی بالکل ساکن رہتا ہے(عہ۱) کناروں کی حرکت ہوا سے ہے جہاتِ اربعہ سے ایک جہت مثلاً مشرق کو حرکت قمر کی طرف حرکت صاعدہ کے لیے کیا منافی ہے کہ تاخیر اثر میں معین ہوگی دیکھو تمہارے نزدیک زمین مشرق کو جاتی ہے اور اسی آن میں جذب شمس سے مدار پر چڑھتی ہے دونوں حرکتیں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔
عہ۱: تعریبات شافیہ جزء ثانی ص ۳۸۔ ۱۲۔
وجہ سوم :کشش ماہ سے مَد ہوتا تو چھوٹے پانیوں میں کیوں نہیں ہوتا۔ چاند جس پانی کے سامنے آئے گا اسے کھنچے گا اس کے جواب میں اصول الہیأت نے تو ہتھیار ڈال دیئے، کہا یہ کسی مقامی سبب سے ہے۔
اقول: یہی کہنا تھا تو وہاں کہنا چاہیے تھا کہ جزر و مد کا کوئی مقامی سبب ہے جس کے سبب یہ قاہر ایراد نہ ہوتے۔ حدائق النجوم نے اس پر دو مہمل حیلے تراشے ، یکم مد کے لیے اجزائے آب کا اختلاف چاہیے کہ بعض کو قمر کھینچے بعض کو نہیں تو جسے کھینچا وہ اٹھتا معلوم ہو یہ پانی چھوٹے ہیں قمر جب ان کی سمت الراس پر آتا ہے ، سارے پانی کو ایک ساتھ کھینچتا ہے لہذا مد نہیں ہوتا۔
اقول : اولاًجہالت ہے اگر سارا پانی ایک ساتھ اٹھے توکیا اس کا بڑھنا اورکناروں پرپھیلنااور پھر گھٹنا اور کناروں سے اتر جانا محسوس نہ ہوگا ،عقل عجب چیز ہے ۔
ثانیاً تمھارے نزدیک تو قمر سارے کرہ زمین کوکھینچتاہے نہ کہ بڑے سمندر میں ایک حصہ آب کوکھینچے باقی کونہیں ۔کچھ بھی ٹھکانے کی کہتے ہو ، حیلہ دوم قمر کی قوت تاثیر صرف اس وقت ہے کہ نصف النہار پر گزرے اور وہ تھوڑی دیر تک ہے یہ پانی کم پھیلے ہوئے ہیں ان کی سمت الراس سے قمر جلد گزرجاتا ہے لہذا اثر نہیں ہونے پاتا ۔
اقول: بڑے سمندروں میں قمر سمت الراس پر بدرجہ اولٰی نہ ہوگا بلکہ مختلف حصوں پر مختلف وقتوں میں آئے گا اور ہر حصے سے اتنا ہی جلد گزر جائے گا جتنا جلد چھوٹے سمندروں سے گزرا تھا تو چاہیے کہیں بھی مدنہ ہو اور اگر قبل و بعد کے ترچھے خطوط پر جذب یہاں کام دے گا تو وہاں کیا نصف النہار سے گزر کر جذب نہیں ہوتا۔ طلوع سے غروب تک ترچھے خطوط پر برابر پانی کو جذب کرتا ہے تو سب میں مد لازم حتی کہ جھیلوں تالابوں بلکہ کٹورے کے پانی میں جب کہ طلوع قمر سے غروب تک کھلے میدان میں رکھا ہو۔
وجہ چہارم : سوائے وقت اجتماع و مقابلہ پانی پر نیرین کا گزر ہر روز جدا ہوتا ہے کیا آفتاب پانی کا جذب نہیں کرتا حالانکہ وہ حرارت اور یہ رطوبت ہے اور حرارت جاذب رطوبت ہے۔ شمس اگر بہ نسبت قمر بعید تر ہے تو دونوں کے مادے کی نسبت، تو دیکھو بعد شمس بعد قمر کا ۳۳ء۳۷۳ ہی مثل ہے اور مادہ شمس تو مادہ قمر کا تقریباً ڈھائی کروڑ گناہ یا اس سے بھی زائد ہے (عہ۱) تو اسی حساب سے جذب شمس زائد ہونا تھا رات دن میں چار مد ہوتے ہیں دو قمر دو شمس سے، حالانکہ دو ہی ہوت ہیں، تو معلوم ہوا کہ جذب شمس نہیں تو جذب قمر بالاولےٰ نہیں اس کے دو جواب دئے گئے، یکم حدائق النجوم میں اس پر صرف وہی تفاوت بعد کا عذر سنا کر کہا پانی کو جذب شمس جذب قمر کا ۳/۱۰ ہے۔
عہ۱: اصول ہیئات ص ۲۹۴ میں ۲۴۴۹۰۷۴۴ کہا اور ص ۱۵۶ پر ۲۵۱۸۰۸۰۰ کہ ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔۱۲ منہ غفرلہ۔
اقول: اولاً : اس کا رد نفس تقریر سوال میں گزرا کہ بعد کی نسبت دیکھی مادوں کی تو دیکھو۔
ثانیاً ۳/۱۰ ہی سہی جب بھی چار مدوں سے کدھر مفر، قمر سے دوبار ستر فٹ اٹھے شمس سے دوبارہ اکیس فٹ دوم اصول الہیأۃ میں اس پر وہ مہمل سا مہمل راگ گایا کہ تذکرہ کرتے بھی کاغذ کے حال پر رحم آئے کہ اسے کیوں سیاہ کیا جائے۔ کہتا ہے مدَتو یوں ہوتا ہے کہ زمین کی دونوں جانب جاذبیت کا اثر پیش ہو جتنا تفاوت ہوگا مد زیادہ ہوگا بالعکس آفتاب کا زمین سے بعد قطر زمین کے گیارہ ہزار پانچسو سینتیس مثل ہے تو دونوں جانب کے پانیوں کا آفتاب سے بعد ۱/۱۱۵۳۷کا فرق رکھے گا تو جذب دونوں طرف تقریباً برابر ہوگا۔ لیکن قمر کا زمین سے بعد قطر زمین کے تیس ہی مثل ہے لہذا دونوں طرف کا فرق ۱/۳۰ ہوگا تو جذب میں تفاوت بین ہوگا اور اسی پر مد کا توقف ہے اور بالاخر نتیجہ یہ دیا کہ قمر شمس ::۲ /۱۔۲ :۱
اقول: اولاً موج مدکو تفاوت جذب جانبیں ارض پر موقوف ماننا کیسا جہل شدید ہے، جب ایک جانب جذب ہو بداہتہً ارتفاع ہوگا خواہ دوسری جانب جذب اس سے کم یا زائد یا برابر ہو یا اصلاً نہ ہو۔
ثانیاً اب بھی چار مد بدستور رہے قمر سے دو بار ستر فٹ اٹھے تو شمس سے دوبار اٹھائیس فٹ۔
وجہ پنجم : کہتے ہیں اجتماع یا مقابلہ نیرین کے وقت مداعظم یوں ہوتا ہے کہ دونوں جذب معاً عمل کرتے ہیں۔
اقول: مقابلہ میں اثر واحد مقتضائے ہر دو جاذبہ نہ ہوگا بلکہ متضاد کہ ہر ایک اپنی طرف کھینچے گا اس کی صورتوں کی تفصیل اور نتائج کی تحصیل اور یہاں جو کچھ ہیأتِ جدیدہ نے کہا اس کی تقبیح و تذلیل موجب تطویل ، سے جانے دیجئے مگر تصریح ہے کہ مداعظم اجتماع واستقبال کے ڈیڑھ دن بعد ہوتا ہے وہاں تو پانی نے ۹ ہی گھنٹے اثر نہ لیا تھا یہاں ۳۶ گھنٹے ندارد، اگر اثر اجتماع دو جذب تھا وقت اجتماع پیدا ہوتا نہ کہ بارہ پہرگزار کر۔
وجہ ششم : یوں ہی تربعین میں بھی مد اقصر ۳۶ گھنٹے (عہ۱) بعد ہے۔
عہ۱: ص ۲۷۳ ص ۱۵۹۔ ۱۲۔
وجہ ہفتم : اقول: اگر یہ جذبِ قمر ہوتا تو ہمیشہ دائرۃ الارتفاع قمر کی سطح میں رہتا تو بحرین شمالی و جنوبی میں جن کا میل میل قمر سے زائد ہے جب قمر افق شرقی پر ہوتا مَد جانب مشرق چلتا شمالی میں جنوب کو مائل، جنوبی میں شمال کو، پھر جتنا قمر مرتفع ہوتا شمالی کا جنوب جنوبی کا شمال کو مائل ہوجاتا۔ جب نصف النہار پر پہنچتا شمالی کا ٹھیک جنوبی جنوبی کا ٹھیک شمالی ہوجاتا، جب غرب کی طرف چلتا دونوں جانب غرب متوجہ ہوتے حالانکہ ایسا نہیں بلکہ مد (عہ۱)کی حرکت مغرب سے مشرق کو مشاہدہ ہوتی ہے اس کی توجیہ (عہ۲) یہ کی جاتی ہے کہ مدسیر قمر کا اتباع کرتا ہے۔
عہ۱: ح ص ۲۰۷ ۔ ۱۲۔ عہ۲: ح محل مذکور ۱۲۔
اقول: مجذوب کو موضع جاذب کا اتباع لازم ہے اس کی طرف کھینچے، نہ یہ کہ چال میں اس کی نقل کرے، قمر اپنی سیر خاص سے جس میں روبمشرق ہے دو گھنٹے میں کم و بیش ایک درجہ چلتا ہے اور اتنی ہی دیر میں زمیں تمہارے نزدیک ۳۰ درجے مشرق ہی کو چلتی ہیں تو ہر گھنٹے پر ساڑھے چودہ درجے مغرب کو پیچھے رہتا ہے تو مدکولازم کہ جانب جاذب یعنی مشرق سے مغرب کو جائے نہ کہ اس کی چال کی نقل اتارنے کو اسے پیچھ کرکے اپنا منہ بھی مشرق کو لے کر جتنا چلے جاذب سے دور پڑے۔
وجہ ہشتم : اقول: موسمِ سرما میں صبح کا مَد کیوں زیادہ بلند ہوتا ہے اور گرما میں شام کا، کیا سردی میں چاند صبح کو پانی سے زیادہ قریب ہوتا ہے شام کو دور ہوجاتا ہے، اور گرمی میں بالعکس۔
وجہ نہم : اقول: مَد کی چال تجددامثال سے ہے نہ یہ کہ وہی پانی جو یہاں اٹھا تھا کسی طرف منہ کرکے سطح آب کی سیر کرتا ہے اثر قمر سے سب اجزائے آب پر باری باری ہے تو سب متاثر ہوں گے نہ کہ ایک اثر لے کر دوڑتا پھرے باقی چپکے پڑے رہیں۔ اس کی نظیر سایہ ہے جب آدمی چلتا ہی دیکھنے والے کو گمان ہوتا ہے۔کہ سایہ اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ ایسا نہیں بلکہ جب آدمی یہاں تھا ، آفتاب یا چراغ سے یہ جگہ محجوب تھی۔ اس پر سایہ تھا جب آگے بڑھا ، یہ جگہ حجاب میں نہ رہی یہ سایہ معدوم ہوگیا اب اگلی جگہ حجاب میں ہے اس پر سایہ پیدا ہوا، اسی طرح ہر جز حرکت پر ایک سایہ معدوم اور دوسرا حادث ہوتا ہے۔ سلسلہ پے درپے بلافصل ہونے سے گمان ہوتا ہے کہ وہی سایہ متحرک ہے یہی حال یہاں ہونا لازم تو اوقیانوس شمالی میں جہاں قمر پانی سے جنوب کو ہے ضرور ہے کہ پانی کا جنوبی حصہ پہلے اٹھے پھر جو اس سے شمالی ہے کہ اقرب فالاقرب کا سلسلہ بھی یہی ہے اور ہر قریب تر پر خطِ جذب بھی استقامت سے قریب ہے تو مد کی چال جنوب سے شمال کو ہو اور اسی دلیل سے اوقیا نوس جنوبی میں شمال سے جنوب کو، حالانکہ ہوتا عکس ہے۔ شمالی (عہ۳) میں موج جنوب کو جاتی ہے جنوبی میں شمال کو۔
عہ۳: ص ۲۲۷۔ ۱۲۔
وجہ دہم: (عہ ۴) مد کی چال بحراطلانتک یعنی اوقیانوس غربی میں فی ساعت سات ۷۰۰سو میل ہے۔ جزائر غربیہ و آئرلینڈ کے درمیان ۵۰۰ میل کہیں ۱۶۰ میل کہیں ۶۰ کہیں ۳۰ ہی میل جذب قمر میں یہ اختلاف کیوں، بالجملہ جذب قمر راست نہیں آتا،
عہ۴: ص ۲۷۳ ۔ ۱۲۔
رہا دوران یعنی وجود وعدم میں دوشے کی معیت ایک کے لیے دوسری کی علیت پر دلیل نہیں نہ کہ بعدیت، ہاں ان مشاہدات سے اتنا خیال جائے گا کہ علت کو ان اوقات سے کچھ خصوصیت ہے اگر کہیے علت کیا ہے۔
اقول: اولاً: ہمارے نزدیک ہر حادث کی علت محض ارادۃ اﷲ جل وعلا ہے مسببات کو جو اسباب سے مربوط فرمایا ہے سب کا جان لینا ہمیں کیا ضرور، بلکہ قطعاً نامقدور کون بتاسکتا ہے کہ سوزن مقناطیس کا جدیُّ الفرقد سے کیا ارتباط ہے، ابھی گزرا کہ اصول ہیأت میں بحیرات وانہار میں مدنہ ہونا سبب مجہول کی طرف نسبت کیا اسی طرح اماکن مختلفہ سے اختلاف مدت حدوث مدکو۔
ثانیاً ہمارے یہاں تو ثابت ہی تھا کہ سمندر کے نیچے آگ ہے۔قرآن عظیم نے فرمایا: والبحرالمسجور۱ (اور قسم ہے سلگائے ہوئے سمندر کی،ت)
(القرآن الکریم ۵۲/۶)
حدیث میں ہے: انّ تحت البحرنارًا ۔۲ (بے شک سمندر کے نیچے آگ ہے۔ت)
(المستدرک للحاکم کتاب الاھوال ان البحرھوجہنم ، دارالفکر بیروت ، ۴/ ۵۹۶)
ہیأت جدیدہ بھی اسے مانتی ہے ۱۰۵۶ء میں( عہ۳ ) بحرالکاہل سے دھواں نکلنا شروع ہوا اور مادہ آتشی کہ قعر دریا سے نکلا تھا مجتمع و منجمد ہو کر سطح آب پر بشکل جزیرہ ہوگیا اس میں سوراخ تھے جن سے ایسے شعلے نکلتے کہ دس میل تک روشن کرتے۔ طوفان آب کے اسباب سے ایک سبب( عہ۴) دریا کے اندر بخارو دخان پیدا ہونا ہے، ایسے ہی بخارات اندر سے آتے اور پانی کو اٹھاتے ہوں یہ مد ہوا جیسے جوش کرنے میں پانی اونچا ہوتا ہے ان کے منتشر ہونے پر پانی بیٹھتا ہو یہ جزر ہوا ، جاڑوں میں صبح کا مد زیادہ ہونا بھی اس کا موید ہے سرما میں صبح کو تالابوں سے بکثرت بخارات نکلتے ہیں، کنویں کا پانی گرم ہوتا ہے، سطح ارض پر استیلائے برد کے سبب حرارت باطن کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور رات بڑی اس طویل عمل حرارت سے ادھر بخارات زیادہ اٹھے پانی میں زیادہ بلند ہونے کی استعداد آگئی واﷲ بکل شیئ علیم ۵۔
عہ۳: جغ ص ۲۶ ۔۱۲ عہ۴: ح ص ۲۰۸ وغیرہ ۱۲
(۵القرآن الکریم ۲۴/ ۳۵ )
(۱۷) جاذبیت ( عہ۱) مرکز سے نکل کر اس کے اطراف میں خط مستقیم پر پھیلتی اور مرکز ( عہ۲) ہی کی طرف کھینچتی ہے۔
عہ۱: ح ص ۳۸ ۔۱۲ عہ۲: ط ص ۱۱۴ ۔۱۲
اقول: : یہاں تک کہہ سکتے تھے کہ جاذبیت کا آغاز مرکز سے ہے، نہ یہ کہ مرکز ہی جاذب ہے مگر نمبر۱۵ میں گزرا کہ حدائق میں مجذوب کا بعد مرکز زمین سے لیا اور اس کے اختلاف پر وزن گھٹایا یوں ہی اصول الہیات میں مرکز زمین سے بعد لیا اس کا مفادیہ ہے کہ مرکز ہی جاذب ہے ۔
لیکن اولاً یہی لوگ قائل ہیں کہ ہر شئے میں جذب ہے۔
ثانیاً یہ کہ جذب بحسبِ مادہ جاذب ہے۔(نمبر۱۰)( مرکز میں اختلاف مادہ کہاں۔
ثالثاً اختلاف کثافت سے اختلاف قوت مرکز قدر قرین قیاس تھی حجم کرہ، کا مرکز پر کیا اثر مگر بالعکس ہے۔ کثافت عطارد زمین سے زائد ہے مگر بوجہ صغر جاذبیت ۳/۵ کثافت ( عہ۳ ) زمین شمس سے چوگنی ہے مگر جاذبیت ۱/ ۲۸ (نمبر۱۵)
عہ۳:ص ص۲۶۶۔۱۲
رابعاً یہی کہتے ہیں جو زمین ( عہ۴ )کے اندر چلا جائے اس کے اوپر کے اجزاے زمین اسے اوپر کھنیچیں گے اور نیچے کے نیچے کو اور خاص مرکز پر سب طرف کوشش اجزاء یکساں ہوگی اور یہی ان کے قواعد سے موافق تر ہے۔
عہ۴: ط ص۸۳ ۔۱۲
(۲۵) خلا ممکن بلکہ واقع ہے بذریعہ آلہ کسی ظرف یا مکان کو ہوا سے بالکل خالی کرلیتے ہیں۔
اقول: یہ ان کا مزعوم جا بجا ہے، آلہ ایئر پمپ کا ذکر نمبر ۱۸ میں گزرا، فلسفہ قدیمہ خلا کو محال مانتا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ ممکن ہے مگر زرّا قات (عہ) وسّراقات وغیرہا کی شہادت سے عادۃً محال اور ہوا بہت متخلخل جسم ہے کیا دلیل ہے کہ بذریعہ آلہ بالکل نکل جاتی ہے جزو قلیل متخلخل ہو کر سارے مکان کو بھردیتا ہے جو بوجہ قلت قابلِ احساس نہیں ہوتا۔ نیوٹن (عہ۱) نے لکھا اگر زمین کو اتنا دباتے کہ مسام بالکل نہ رہتے تو انکی مساحت ایک انچ مکعب سے زیادہ نہ ہوتی جب یہ عظیم کرہ جس کی مساحت (عہ۲) دو کھرب انسٹھ ارب تینتالیس کروڑ چھیانوے لاکھ ساٹھ ہزار میل ہے دب کر ایک انچ رہ جاتا تو ہوا کہ اس سے کثافت میں ہزاروں درجے کم ہے کیا ایک تل بھر پھیل کر کروڑوں مکانوں کو نہ بھر سکے گی۔
عہ: زرّاقہ پچکاری، سرّاقہ نیچورا۔ اس کا تنگ منہ اور نیچے باریک سوراخ پانی بھر کر اوپر انگوٹھی سے دبالو پانی نیچی نہ گرے گا کہ ہوا کے جانے کی کوئی جگہ نہ ہوگی پانی گرے تو خلا لازم آئے، انگوٹھا اٹھا لو تو اب گرے گا کہ نیچے سے جتنا پانی نکلے گا اوپر سے اُتنی ہوا داخل ہوگی، ڈاٹ پچکاری کے نتھنے تک دبا کر پانی پر رکھ کر کھینچو پانی چڑھ آئے گا کہ ڈاٹ کے نکلنے سے جگہ خالی ہوگی اس خلا کو بھرے اور جب پانی بھر جائے اور ڈاٹ سے منہ بند ہو جھکانے سے پانی نہ گرے گا جیسے نیچوری سے نہ گرتا تھا کہ خلا نہ لازم آئے، مدت ہوئی میں ایک مشہور طبیب کے یہاں مدعو تھا گرمی کا موسم تھا حقّہ بھر کرآیا نَے خشک تھی دھواں نہ دیا میں نے اسے کہا تازہ کرو اب دھواں دینے لگا میں نے حکیم صاحب سے وجہ پوچھی کچھ نہ بتائی میں نے کہا جب نےَ خشک تھی مسام کھلے ہوئے تھے، پینے کے جذب سے جتنی ہوا نَے کے اندر سے منہ میں آتی اس کے قریب باہر کی ہوا مسام کے ذریعے سے نَے کے اندر آجاتی جگہ بھر جاتی اور دھوئیں تک جذب کا اثر نہ پہنچا تازہ کرنے سے مسام بند ہوگئے اندر کی ہوا پینے سے کھینچی اور باہر کی آنہ سکی لاجرم خلا بھرنے کو دھواں نے میں آیا ۱۲ منہ غفرلہ۔
عہ۱: ط ص ۲۱۔۱۲۔
عہ۲: ۔ص ۲۶۶ میں اس سے بھی زائد بتائی دو کھرب ساٹھ ارب اکسٹھ کروڑ تیس لاکھ میل مگر ہم نے مقررات جدیدہ پر حساب کیا تو اُسی قدر آئی ہم نے اپنے رسالہ الھنئی النمیر(ف) میں ذکر کیا ہے کہ لو قطر + ۴۹۷۱۴۹۹ء۰ = لومحیط ، اور اصول الہندسہ مقالہ ۷ شکل ۱۰ میں ہے کہ سطح قطر و محیط دائرہ عظیمہ سطح کرہ، اور اسی کی شکل ۱۴ میں ہے کہ سطح کرہ /۶ xقطر = مساحت جرم کرہ لہذا لوگا ر ثم مذکور سے ۶ کا لوگار ثم ۷۷۸۱۵۱۳ء۰کم کرکے سہ چند لوگار ثم قطر میں شامل کیا ۳ لو قطر + ۷۱۸۹۹۸۶ء ا = لو مساحت کرہ ہوا،تفتیش تازہ ترین زمین کا قطر معدل ۰۸۶ء۷۹۱۳ میل ہے۔ لو ۸۹۸۳۴۵۹ء ۳x۳=۶۹۵۰۳۷۷ء ۱۱+ ۷۱۸۹۹۸۶ء آ = ۴۱۴۰۳۶۳ء ۱۱ عدد ۲۵۹۴۳۹۶۶۰۰۰۰ وھوالمطلوب ۱۲ منہ غفرلہ )
ف: رسالہ الھنئی النمیر فی الماء المستدیر فتاوی رضویہ جلد ۲ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور میں ہے۔
نوٹ : ہمارا یہ طریقہ مختصر ہے ۔
اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے رسالہ مذکور ہ میں بیان کیا کہ وہ لو قطر + ۸۹۵۰۸۹۹ء۱ = لو مساحت دائرہ پھر ۲/۳ مساحت دائرہ عظیمہ xقطر = مساحتِ کرہ اس لیے کہ اصول الہندسہ مقالہ ۴ شکل ۱۲۔
میں ثابت ہوا ہے کہ ربع مسطح قطر ومحیط = مساحت دائرہ ہے اور مقالہ بہ شکل ۱۰ میں ہے کہ مسطح قطرو محیط دائرہ عظیمہ= مساحت سطح کرہ تو سطح کرہ چار مثل سطح عظیمہ ہوئی اور اس کا مسدس xقطر =مطلوب ::۸۹۵۰۸۹۹ء ۱ میں ۲ کالو ۳۰۱۰۳۰۰ ء جمع اور ۳ کالو ۴۷۷۱۲۱۳ء ۰ تفریق کرہ خواہ ۴ کالو۔۶۰۲۰۶۰۰ء۰جمع اور ۶ کالو ۷۷۸۱۵۱۳ء۰ = تفریق کرو، بہرحال حاصل ۷۱۸۹۹۸۶ء ۱ ہے، ۲ لو قطرپہلے تھا اور ایک اب بڑھا لہذا ۳ لو قطر ہوا ۱۲ منہ غفرلہ۔
تنبیہ لطیف : اقول: اہل انصاف دیکھیں سردار ہیأت جدیدہ نیوٹن نے کیسی صریح خارج از عقل بات کہی کرہ زمین اگر دب کر ایک انچ مکعب رہ جائے تو۔
اولاً یہ سارا کُرہ کہ کھربوں میل میں پھیلا ہوا ہے صرف ایک لاکھ دس ہزار پانچ سو بانوے (۱۱۰۵۹۲)، ذروں کا مجموعہ ہو، ہر ذرہ بال کی نوک کے برابر اس لیے کہ گز اڑتالیس انگل ہے، ہر انگل ۶جو، ہر جو دم اسپ ترکی کے ۶ بال ، تو گز ۱۷۴۸ بال کی نوک ہے اسے ۳۶ پر تقسیم کیے سے انچ میں ۴۸ بال ہوئے تو زمین کہ صرف ایک انچ مکعب کے لائق ہے ۱۱۰۵۹۲ ذروں کا ہی مجموعہ ہوئی یہ کیسا کھلا باطل ہے، اتنے ذرے تو اب ایک انچ مکعب مٹی میں ہوں گے باقی کھربوں میل کا پھیلاؤ کدھر گیا ، یوں نہ ظاہر ہو تو ا یک خط میں دیکھ لیجئے جب کرہ زمین ایک انچ ہوتا اس کا قطر تقریباً سوا انچ ہوتا یعنی (عہ۱) ۲۴۰۷۰۰۹ء ا جس میں بال کی نوک کے برابر ذرے صرف ۵۵۳۶۴۵ء۵۹ ہوسکتے پورے ساٹھ سمجھئے، بس یہ کائنات قطر زمین کی ہوتی اور اب ایک انچ طول کی خاک میں گن لیجئے اتنے ذرے فی الحال موجود ہیں تو باقی ۸ ہزار میل کا خط کہاں سے بنا۔
عہ۱: اس لیے کہ بحکم تعکیس لو مساحت کرہ ۔۷۱۸۹۹۸۶/۳ء۱ = لوقطر یہاں مساحت ایک ہے نہ صفر۔ عدد مذکور=۲۸۱۰۰۱۴ء ۰ – ۳=۰۹۶۳۶۷۱۳ء ۰ عددش ۲۴۰۷۰۰۹ء۱ یعنی ایک انچ مع کسر مذکور کہ قریب ربع ہے ۔
فائدہ : اقول: یونہی کرہ جس مقدار میں ایک فرض کیا جائے گا اُس کا قطر تقریباً سوا یا ہوگا اور قطر جس مقدار میں ایک فرض کیا جائے کہ وہ اس سے ۱۳۱/ ۲۵۰ یعنی ۱۳/ ۲۵ ہوگا اور بالتدقیق ۵۲۳۵۹۸۹ء۰ کہ جب قطر ایک ہے اس کا لوگار ثم اور سہ چند لوگار ثم سب صفر ہوا تو لو مساحت کرہ صرف ۷۱۸۹۹۸۶ء ۱ رہا جس کا عدد وہی مذکور ہے اور اس ۱۳۴ سے مقدار قطر کی کرہ پر زیادت متوہم نہو کہ قطر میں اس مقدار قطر کی کرہ پر زیادت متوہم نہو کہ قطر میں اس مقدار کی پہلی قوت ہوگی اور کرے میں تیسری یہیں دیکھئے کہ قطر میں ۶۰ ذرے ہوئے یعنی ایک انچ میں ۴۸ اور کرے کی ایک انچ میں ۱۱۰۵۹۲ کہ ۴۸ کی مکعب ہے اس کی تصدیق یوں ہوسکتی ہے کہ سوا انچ قطر میں ذرے ۵۵۳۶۴۵ء۵۹لوگار ثم ۷۷۴۹۰۸۳ء ۱x۳=۵۱۳۲۴۷۲۴۹،+ ۷۱۸۹۹۸۶ء۱= ۵۲۰۴۳۷۲۳۵ = لو مساحت انچ مکعب اس کا عدد وہی ۱۱۰۵۹۲ عدد ذرات کرہ ۱۲ منہ غفرلہ۔
ثانیاً جب قطر میں ۶۰ ہی ذرے ہوئے اور وہ ہے ۱۲۰ درجے اور زمین کا درجہ قطریہ ۶۶ میل کے قریب ہے یعنی ۹۴۳۳ء۶۵ میل کے نصف قطر معدل ۵۴۳ء۳۹۵۶ میل ہے تو سبب اُس سمٹنے کے بعد پھیل کر حالت موجود ہ پر آتی ہر ذرہ دوسرے سے ۱۳۲ میل کے فاصلے پر ہوتا تو زمین محسوس ہی نہ ہوسکتی۔
ثالثاً اگر بفرض غلط یہ منزلوں کے فاصلے پر ایک ایک ذرہ دوسرے سے جدا نظر بھی آتا تو کوئی مجنون ہی اسے جسم واحد گمان کرتا۔
رابعاً زمین پر انسان حیوان کا بسنا چلنا درکنار ،کوئی مکان تعمیر ہونا محال ہو تا کہ ہرذرے کے بیچ میں ۱۳۲ میل کا خلاہے۔
خامساً اگر لو گ ہوا میں معلق بستے بھی تو امریکہ کے ہندوستان سے دکھائی دیتے اور ہندوستان کے امریکہ سے، اورشمس و قمر کو کواکب کا طلوع غروب سب باطل ہوتا کہ منزلوں کے خلا میں متفرق ذرے کیا حاجب ہوتے۔ یہ سب حالتیں زمین کی حالت موجودہ میں لازم ہیں کہ یہ وہی حالت تو ہے جو سمٹ کر پھیلنے کے بعد ہوتی ۔ سمٹنے سے اجزاء کم و بیش نہیں ہوجاتے تو اب بھی قطرِ زمین وہی ۶۰ ذرے بھرہے اور سارے کُرے میں کل جمع ۱۱۰۵۹۲ ذرّے اگر کہے اجزائے دیمقر اطیسیہ بال کی نوک سے چھوٹے ہیں تو وہ قطر میں ۶۰ نہیں بہت ہیں۔
اقول : ایسے کتنے بہت ہیں ایسے کتنے چھوٹے ہیں ذہنی تقسیم میں کلام نہیں جس پر کہیں روک نہیں ، ایک خشخاش کے دانہ پر دائرہ عظیمہ لے کر اس کے ۳۶۰ درجے ، ہر درجے کے ۶۰ دقیقے، ہر دقیقے کے ۶۰ ثانیے یوں ہی عاشرے اور عاشرے کے عاشرے تک جتنے چاہیے حساب کرلیجئے کیا یہ جس میں متمایز ہوسکتے ہیں۔ یہ فلک شمس جسے تم مدار زمین کہتے ہو جس کا محیط دائرہ ۵۸ کروڑ میل سے زائد ہے۔ ہم فصل اول میں ثابت کریں گے کہ اس کا عاشرہ ایک بال کی نوک کے سوا لاکھ حصوں سے ایک حصہ ہے۔ تقسیم حسی میں کلام ہے جس کا انتفااجزاء دیمقراطیسیہ میں لیا گیاہے اور شک نہیں کہ بال کی نوک کا پچاسواں حصہ بھی حساًجدانہیں ہوسکتا تو جز دیمقراطیسی زیادہ سے زیادہ ایک ذرے میں پچاس رکھ لیجئے۔ نہ سہی ہر بال کی نوک میں ۱۳۲ فرض کیجئے اب تو کوئی گلہ نہ رہا اور کاسے میں آش بدستور، جب ہر ذرہ دوسرے سے ۱۳۲ میل کے فاصلے پر تھا اب ہر جز دوسرے سے میل میل بھر کے فاصلے پر ہوا ، اب کیا اس کا قطر بال کی ۶۰ نوک سے بڑھ جاتا ہے ، ایک نوک کے حصے کتنے ہی ٹھہرالو اب کیا زمین محسوس ہوسکتی ۔ اب کیا جسم و احد سمجھی جاتی، اب کیا اس پر کھڑا ہونا یا مکان ممکن ہوجاتا اب کیا ادھر کی آبادی ادھر نظر نہ آتی۔ اب کیا چاند سورج یا کوئی تارا غروب کرسکتا ، ہر دو جز میں ایک میل کا فاصلہ کیا کم ہے، ملاحظہ ہو یہ ہیں ان کی تحقیقاتِ جدیدہ اور یہ ہیں ان کے اتباع کی خوش اعتقادیاں کہ متبوع کیسی ہی بے عقلی کا ہذیان لکھ جائے یہ اٰمنّا کہنے کو موجود ۔
اخیر میں پہلی گزارش تو یہ ہے کہ صحت کی تمامتر کوشش کے باوجود۔
(۳۱) معدل النہار ( عہ۲) دوائرۃ البروج دونوں دائرہ شخصیہ ہیں یعنی ہر ایک شخص واحد معین ہے کہ اختلاف لحاظ سے نہ اس کا محل بدلے نہ حال بخلاف دوائر نوعیہ کہ مختلف لحاظوں سے مختلف پڑتے ہیں جیسے دائرہ نصف النہار کہ ہر طول میں جدا ہے اور دائرہ افق کہ ہر عرض و ہر طول میں نیا ہے۔
عہ۲: ح ص ۴۶ ۔۱۲۔
اقول: بلاشبہ حق یہی ہے اور خود ہیأتِ جدیدہ کے سماوی و ارضی کرے اس پر شاہد کہ دونوں دائروں کو غیر متبدل بناتے ہیں بخلاف اُفق و نصف النہار کہ ان کی تبدیل حسب موقع کا طریقہ رکھتی ہیں مگر ہیأت جدیدہ کا یہ اقرار اور قولاً و فعلاً اظہار بھی نرا تقلیدی ہے جس نے اس کے اصول کا خاتمہ کردیا علی اھلہا تجنی براقش ۱
( براقش اپنے ہی اہل مصیبت لاتی ہے۔ دائرۃ البروج کا حال تو ابھی گزرا تھا مرکز مدار پر اور لیتے ہیں مرکز زمین پر تو وہ شخص کیسا، وہ نوع ہی بدل گئی اور معدل کا حال ابھی آتا ہے۔
(۱المنجد داراشاعت کراچی، ص ۱۱۶۰)
(۳۲) قطبین ( عہ۲) جنوبی و شمالی ساکن نہیں بلکہ قطبین دائرۃ البروج کے گرد گھومتے ہیں مبادرت اعتدالین کے باعث۲۵۸۱۷ برس میں ان کا دورہ پورا ہو تا ہے مبادرت (عہ۳) ہرسال ۲ء۵۰ ہے اور ہر دائرےمیں ۱۲۹۶۰۰۷ ثا نیے ان کو ۲ء۵۰ پر تقسیم کیے سے ۲۵۸۱۷ (عہ۴) حاصل ہوئے۔
عہ۲: ص ۳۳۷ و ۱۸۴ و ۱۹۰ ۔۱۲
عہ۳: ص ۱۸۳ ۔۱۲
عہ۴: یعنی ۷۳۳۳ء ۲۵۸۱۱۶ باسقاط خفیف ۱۲ منہ غفرلہ
اقول: ہیات جدیدہ کہ ہمیشہ معکوس گوئی کی عادی ہے جس کا کچھ بیان بعونہ تعالیٰ آتا ہے اس پر مجبور ہے کہ قطبین عالم کو متحرک مانے کہ زمین اس دائرے پر حرکت کرتی ہے جس کا قطر ۱۹ کروڑ میل کے قریب ہے او راس کا مدار ایک دائرہ ثابتہ ہے تو قطبین مدار تو ساکن ہیں اور قطبین جنوب و شمال کہ قطبین عالم و قطبین اعتدال ہیں اور زمین کے محور تحرک کے دونوں کناروں پر ہیں ضرو راس کی حرکت سے کروڑوں میل اوپر اٹھیں گے اور کروڑوں میل نیچے گریں گے مگر اولاً اب معدل النہار دائرہ شخصیہ کب رہا بلکہ ہر آن نیا ہے کہ ہر آن اس کے مرکز کا مقام جدا ہے۔
ثانیاً وہ فرض کیے ہوئے مقعر سماوی کو بھی دم بھر چین نہ لینے دے گا کہ اس مقعر کا مرکز بھی مرکز زمین مانا ہے۔ ۲۷ اور وہ کروڑوں میل اٹھنے گرنے میں ہے تو یونہی ہر آن مقعر سماوی بدلے گا اور اگر وہ بحال رہے تو دائرہ اس پر کب رہا کروڑوں میل اس کے اندر جائے گا اور دوسری طرف خلا چھوڑ ے گا پھر دوسری طرف کروڑوں میل اندر جائے گا۔ اور ادھر خلاء چھوڑے گا اسی کو کہا تھا کہ یہ سب دوائر ایک مقعر سماوی پر لیتے ہیں۔
ثالثاً بفرض باطل دائرۃ البروج کو بھی اسی مقعر و مرکز پر لے لیا اور یہ ہر آن متبدل ہیں تو دائرہ البروج بھی ہر آن بدلے گا تو شخصیہ کب رہا۔ یا وہ تنہا خواہ مع مقعر سماوی برقرار رکھا جائے گا کہ اس کا مرکز ثابت ہے تو اس کی تبدیل کی وجہ نہیں تو میل اور صد ہا مسائل کا کیا ٹھکانا رہے گا ، غرض بات وہی ہے کہ تقلیداً معدل النہار دوائرۃ البروج کا نام سن لیا اور ادھر ان احکام کی تقلید کی جو اصول قدما پر مبنی تھے ادھر اپنے اصول کا گندہ بروزہ ملایا وہ ایک مہمل معجون باطل ہو کر رہ گیا۔ یہ ہے ہیأت جدیدہ اور اس کی تحقیقات ندیدہ۔
(۳۳) زمین وغیرہ ہر سیارے کا اپنے محور پر گھومنا اس سبب سے ہے کہ طبیعت میں ثابت ہوا ہے کہ ہر چیز بالطبع آفتاب سے نورو حرارت لینا چاہتا ہے اگر سیارے حرکت و ضعیہ نہ کریں جمیع اجزا کو نور و حرارت نہ پہنچے۔
اقول: یہ وجہ موجہ نہیں اولاً اجزا میں جاذبہ و ماسکہ و نافرہ کے علاوہ ایک قوت شائقہ ماننی پڑے گی اور اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
ثانیاً زمین سے ذرے اور ریگ کے دانے خفیف پھونک سے جدا ہوجاتے ہیں ان کا یہ شوق طبعی کیا اتنی بھی قوت نہ رکھے گا کہ زمین سے بے جدا کیے ان کو گھمائے پھر ایک ایک ذرہ اور ریتے کا دانہ آفتاب میں اپنے نفس پر حرکت مستدیرہ کیوں نہیں کرتا اس کا جو حصہ مقابل آفتاب ہے سو برس گزر جائیں جب تک ہٹایا نہ جائے وہی مقابل رہتا ہے دوسرا حصہ کہ آفتاب سے حجاب میں ہے کیوں نہیں طلب حرارت و نور کے لیے آگے آتا۔
ثالثاً زمین میں مسام اتنے ہیں کہ پوری دبائیں تو ایک انچ کی رہ جائے۔(۲۵) تو ظاہر ہے کہ اس کا کوئی جزو دوسرے سے متصل نہیں سب ایک دوسرے سے بہت فصل پر ہیں تو ہر جز اپنے نفس پر کیوں نہ گھوماکہ اس کے سب اطراف کو روشنی و گرمی پہنچتی صرف کرے کے محور پر گھومنے سے ہر جز پورے انتفاع سے محروم رہا۔
رابعاً کرہ کی حرکت و ضعیہ سے سطح بالا ہی کے سب اجزاء فی الجملہ مستفید ہوں گے اندر کے جملہ اجزاء اب بھی محروم مطلق رہے تو جمیع اجزاء کا استفادہ کب ہوا اندر کے اجزاء طلب نور و حرارت کےلیے اوپر کیوں نہیں آتے۔ اگر کہیے اوپر کے اجزاء جگہ روکے ہوئے ہیں۔
اقول : اولاً غلط انچ بھر کی زمین جب پونے تین کھرب میل میں پھیلی ہوئی ہے اس میں کس قدر وسیع مسام ہوں گے۔(نمبر ۲۵) ان سوراخوں سے باہر کیوں نہیں آتے۔
ثانیاً اوپر کے اجزاء میں جو آفتاب سے حجاب ہیں ان کی جگہ اگلے اجزا ء رکے ہوئے ہیں جو مقابل شمس ہیں، پھر حرکت وضعیہ کیونکر ہوتی ہے۔
ثالثاً آفتاب بھی تو اپنے محور پر گھومتا ہے وہ کس نور و حرارت کی طلب کو ہے۔ بالجملہ یہ وجہ بے ہودہ ہے بلکہ اصول ہیأت جدیدہ پر اس کی وجہ ہم بیان کریں۔
اقول: اس کا سبب بھی جاذبہ ( عہ۱) ونافرہ ہے جذب قُرب و بعد سے مختلف ہوتا ہے ولہذا خط عمود پر سب سے زیادہ ہے کلیت سیارہ مثلاً ارض کے لیے جاذب سے تنفر کا جواب مدار پر جانے سے ہوگیا مگر اب بھی اس کے اجزاء پر جذب مختلف ہے خاص وہ اجزا کہ مقابل شمس ہیں ان پر جذب اقویٰ ہے اور ان میں بھی جو بالخصوص زیر عمود ہے پھر جتنا قریب ہے۔(نمبر۱۰) یہ اجزاء اس سے بچنے کے لیے مقابلہ سے ہٹتے اور بالضرورت اپنے اگلے اجزاء کو اپنے لیے جگہ خالی کرنے کو دفع کرتے ہیں وہ اپنے اگلوں کو وہ اپنے اگلوں کو یوں محور پر دورہ پیدا ہوتا ہے اب جو اجزاء پہلے اجزا سے مقابلہ کے پیچھے تھے مقابل آئے اب یہ مقابلہ سے بچنے کو اپنے اگلوں کو ہٹاتے ہیں اور وہی سلسلہ چلتا ہے یوں دورہ پر دورہ مستمر رہتا ہے۔ اگر کہئے زمین بوجہ کثرت بعد وقلت حجم آفتاب کے آگے گویا ایک نقطہ ہے ولہذا آفتاب کا اختلاف منظر ۹ ثانیے بھی نہیں تو اس کے اجزا پر مقابلہ وہ حجاب کا اختلاف نہ ہوگا بلکہ گویا سب مقابل ہیں۔
عہ۱: یہ وجہ شمس کو بھی شامل ہے کہ وہ بھی اور سیاروں کے جذب سے بچنے کو اپنے محور پر گھومتا ہے۔ جغ ص ۱۲۱ ، ۱۲ منہ غفرلہ
فصل دوم
جاذبیت (عہ۱)کا رَدّ اور اس سے بُطلانِ حرکت زمین پر پچاس (۵۰)دلیلیں
عہ۱: تنبیہ : مطلقاً جاذبیت سے انکار نہیں کہ کوئی شَے کو جذب نہیں کرتی مقناطیس و کہر با کا جذب مشہور ہے بلکہ جاذبیت شمس و ارض کا رد مقصود ہے اوّل کا لذاتہ کہ اسی کی بنا پرحرکت زمین ہے اور دوم کا اس لیے کہ اسی کو دیکھ کر اس میں بلادلیل جذب مانا ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔
رَدِّ اوّل : اقول: اہل ہیأتِ جدیدہ کی ساری مہارت ریاضی و ہندسہ و ہیأت میں منہک ہے عقلیات میں ان کی بضاعت قاصر یا قریب صفر ہے وہ نہ طریق استدلال جانتے ہیں نہ داب بحث، کسی بڑے مانے ہوئے کی بے دلیل باتوں کو اصولِ موضوعہ ٹھہرا کہ ان پر بے سرو پا تفریعات کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر وثوق وہ کہ گویا آنکھوں سے دیکھی ہیں بلکہ مشاہدہ میں غلطی پڑسکتی ہے ان میں نہیں ان کے خلاف دلائل قاہرہ ہوں تو سننا نہیں چاہتے ، سنیں تو سمجھنا نہیں چاہتے سمجھیں تو ماننا نہیں چاہتے۔ دل میں مان بھی جائیں تو اس لکیر سے پھرنانہیں چاہتے۔ جاذبیت ان کے لیے ایسے ہی مسائل سے ہے اور وہ اس درجہ اہم ہے کہ ان کا تمام نظام شمسی سارا علم ہیأت اسی پر مبنی ہے۔ وہ باطل ہو تو سب کچھ باطل، وہ لڑکوں کے کھیل کے برابر برابر کھڑی ہوئی اینٹیں ہیں کہ اگر گراؤ سب گرجائیں۔ ایسی چیز کا روشن قاطع دلیل پر مبنی ہونا تھا نہ کہ محض خیال نیوٹن پر ، ایک سیب ٹوٹ کر گرتا ہے اس سے یہ اٹکل دوڑاتا ہے کہ زمین میں کشش ہے جس نے کھینچ کر گرالیا مگر اس پر دلیل کیا ہے جواب ندارد۔
اولاً عقلائے عالم اثقال میں میل سفل مانتے ہیں کیا وہ میل اس کے گرانے کو کافی نہ تھا یا میل نجانا یوں نہ سمجھ سکتا تھا کہ ثقیل کے استقرار کو وہ محل چاہیے جو اس کا بوجھ سہارے سیب وہی ٹوٹے گا۔ جس کا علاقہ شاخ سے ضعیف ہوجائے وہ کمزور تعلق اب اس کا بوجھ نہ سہار سکے ورنہ سبھی نہ ایک ساتھ ٹوٹ جائیں، ادھر تو ضعیف علاقہ کے سبب شاخ سے چھوٹا ادھراس سے نرم تر ملاء ہوا کا ملاء اسے کیا سہارتی لہذا اس سے کثیف تر ملاء درکار ہوا کہ زمین ہو یا پانی کیا اتنی سمجھ نہ تھی یا بطلان میل پر کوئی قطعی دلیل قائم کرلی اور جب کچھ نہیں تو جاذبیت کا خیال محض ایک احتمال ہوا محتمل مشکوک بے ثبوت بات پر علوم کی بنا رکھنا کارِ خردمنداں نیست
( عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ ت)
ثانیاً لطف یہ کہ یہی ہیأت جدیدہ والے جا بجا ( عہ۱) ثقیل میں میل سفل مانتے خفیف میں میل علو لکھ جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ میل جاذبیت کا سارا میل کاٹ دے گا جب ثقیل اپنے میل سے گرتا سیب کا ٹوٹنا جاذبیت پر کہاں دلالت کرتا ہے یہ یقین و احتمال و طریق استدلال و منصب مدعی و سوال سے ان کی ناواقفی ہے معلول کےلیے علت درکار ہے جب ایک کافی ووافی علت موجود اور تمہیں بھی مسلم ہے تو اسے چھوڑ کر دوسری بے ثبوت کی طرف اسے منسوب کرنا کون سی عقل ہے۔ بالفرض اگر علت کافیہ معلوم نہ ہوتی بلادلیل کسی شیئ کو علت بتادینا مردود ہوتا ہے وہاں یہ کہنا تھا کہ علت ہمیں معلوم نہ ہوتی بلا دلیل کسی شیئ کو علت بتادینا مردو دہوتا ہے وہاں یہ کہنا تھا کہ علت ہمیں معلوم نہیں، نہ یہ کہ کافی علت موجود و مسلم ہوتے ہوئے اس سے فرار اور دوسری بے دلیل قرار جاذبیت کے رد کو ایک یہی بس ہے یہاں سے ظاہر ہوا جاذبیت پر ایمان بالغیب انہیں مجبورانہ میل طبعی کے انکار پر لانا ہے اگرچہ وہ نادانی سے کہیں مقر ہوں اگرچہ وہ بے دلیل منکر ہو (عہ۲۔ ۱۱) اور میل طبعی کا ثبوت بلکہ احتمال ہی جاذبیت کو باطل کرتا ہے کہ جب میل ہے جاذبیت کی کیا حاجت اور اس کے وجود پر کیا دلیل، یہ تقریر بعض دلائل آئندہ میں ملحوظ خاطر رہے۔
عہ۱: ح ص ۳۴ ثقل ہمیشہ اجسام کو جانب اسفل کھینچتا ہے۔ ص۳۷ اجسام کو جانب پائیں مائل کرتا ہے ۔ص ۳۹ اجسام بقدر ثقیل مطلق سے قرب کے طالب پانی ہمیشہ بالطبع بلندی سے پستی کی طرف میل کرتا ہی ۔ ص ۲۱۲ بخار جتنا ہلکا ہوگا۔ زیادہ بلند ہوگا۔ ص ۲۱۷ بخار ہوا سے زیادہ لطیف و خفیف لہذا میل علو کرتا ہے۔
عہ۲: ص ۲۱۷ حرارت آفتاب کے سبب اجزائے آب ہلکے ہو کر قصد بالا کرتے ہیں یونہی زمین کے جلے ہوئے اجزاء حرارت وقفت کے باعث۔ ص ۲۱۵ ابربحسب ثقل یا لطافت نیچے یا اوپر حرکت کرتا ہے۔ ط ص ۱۱۵ منجمد اجسام کے تمام اجزاء مل کر زمین کی طرف میل کرتے ہیں اور سیال اجسام کا ہر جز جدا میل زمین کرتا ہے ص ۱۴۱ ۔ص ۲۱۷ ہوا گرمی سے ہلکی ہو کر بالا سعود کرتی ہے یونہی جغ ص ۹ میں ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔
رَدِّ دوم : اقول: فرض کردم کہ سیب گرنے سے زمین پر جاذبیت کا آسیب آیا مگر اس سے شمس میں جاذبیت کیسے سمجھی گئی جس کے سبب گردش کا طومار باندھ دیا گیا اس پر بھی کوئی سیب گرتے دیکھا۔ یا یہ ضرور ہے کہ جو کچھ زمین کے لیے ثابت ہو آفتاب میں بھی ہو۔ زمین بے نور ہے آفتاب سے منور ہوتی ہے۔ آفتاب بھی بے نور ہوگا کسی اور سے روشن ہوگا۔ یونہی یہ قیاس اس ثالث کو نہ چھوڑے گا اس کے لیے رابع درکار ہوگا۔ اور اسی طرح غیر متناہی چلا جائے گا یا واپس آئے گا۔ مثلاً شمس ثالث سے روشن اور ثالث شمس سے وہ تسلسل تھا یہ دور ہے اور دونوں محال یہ منطق الطیر اسی بے بضاعتی کا نتیجہ ہے جو ان لوگوں کو علوم عقلیہ میں ہے، ورنہ ہر عاقل جانتا ہے کہ شاہد پر غالب کا قیاس محض وہم اور وسواسی ہے۔
رَدِّ سوم: اقول: تم جاذبیت کے لیے نافریت لازم مانتے ہو کہ وہ ہو اور (عہ۱) یہ نہ ہو تو کھینچ کر وصل ہوجائے اور ہم نافریت باطل کرچکے تو جاذبیت خود ہی باطل ہوگئی کہ بطلان لازم بطلان ملزوم ہے۔
عہ۱: ۱۸۱ ۔۱۲۔
رَدِّ چہارم: اقول: جاذبیت کے بطلان پر پہلاشاہد عدل آفتاب ہے اس کے مدار میں جسے وہ مدار زمین سمجھتے ہیں ایک نقطہ مرکز زمین سے غایت بعد پر ہے جسے ہم اوج کہتے ہیں اور دوسرا نہایت قرب پر جسے حضیض ان کا مشاہدہ ہر سال ہوتا ہے تقریباً سوم جولائی کو آفتاب زمین سے اپنے کمال بعُد پر ہوتا ہے اور سوم جنوری کو نہایت قرب پر یہ تفاوت اکتیس لاکھ میل سے زائد ہے تفتیش جدیدہ میں شمس کا بعد اوسط نوکروڑ انتیس لاکھ میل بتایا گیا اور ہم نے حساب کیا مابین المرکزین دو درجے ۴۵ ثانیے یعنی ۵۲۱۲ء ۲ ہے تو بعد ابعد ۹۴۴۵۸۰۲۶ میل ہوا اور بعد اقرب ۹۱۳۴۱۹۷۴ میل تفاوت ۳۱۱۶۰۵۲ میل اگر زمین آفتاب کے گرد اپنے مدار بیضی پر گھومتی ہے جس کے فوکز اسفل میں شمس ہے جیسا کہ ہیأت جدیدہ کا زعم ہے تو اول ان کی سمجھ کے لائق یہی سوال ہے کہ زمین اتنے قوی عظیم شدیدہ ممتدید ہزار ہا سال کے متواتر جذب سے کھینچ کیوں نہ گئی۔ہیأت (عہ۲) جدیدہ میں آفتاب ۱۲ لاکھ ۳۵ ہزار ۱۳۰ زمینوں کے برابر اور بعض (عہ۳ ) نے دس ۱۰ لاکھ بعض ( عہ۴ ) نے چودہ لاکھ دس ہزار لکھا اور ہم نے مقررات (عہ۵ ) جدیدہ پر بربنائے اصل کروی حساب کیا تو تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپن زمینوں کے برابر آیا۔
عہ۲: ص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلمی نسخہ میں پھٹا ہے (پھر) ۱۳۰ ہی کہا، ۱۲۵۹۷۔ ص ۲۶۶ غائب، ۳۶۱ء۱۳۴۵۱۲۶ یہ اس کی عادت ہے۔کہ ہر جگہ مختلف کہے ۱۲ منہ۔
عہ۳: سوالنامہ ہیأت ص ۱۸۔۱۲ ۔ عہ۴: نظارہ عالم ص ۷۔۱۲
عہ۵: وہ مقررات تازہ یہ ہیں قطر مدار شمس ۱۸ کروڑ ۵۸ لاکھ میل قطر معدل زمین ۰۸۶ء ۷۹۱۳ میل قطر اوسط شمس دقائق محیطیہ سے ۳۲ دقیقے ۴ ثانیے پس اس قاعدے پر کہ ہم نے ایجاداوراپنے فتاوٰی میں جلد اول رسالہ الھنئی المنیر فی الماء المستدیر میں ایراد کیا۔ ۶۹۰۴۵۷ء لوامیال قطر مدار + ۴۹۷۱۴۹۹ء۔ ۸۷۷۶۶۱۹۵۶ لو امیال محیط اC=۳۳۴۴۵۳۸ء۴ء لودقائق محیط = ۴۳۱۷۴۱۸ء۴ لودقیقہ محیطیہ ما + ۵۶۰۵۳۹ء الودقائق قطر شمس = ۹۳۷۷۹۵۷ء۵ لو امیال قطر شمس =۸۹۸۳۴۵۹ء۳ لوامیال قطرزمین = ۰۹۴۴۹۸ء۲ لو نسبت قطرین ما x۳ کہ کرہ : کرہ قطر : قطر مثلثۃ بالتکریر = ۱۱۸۳۴۹۴ء۶ لونسبت کہ تین عدد ۱۳۱۳۲۵۶ وھو المقصود یعنی محیط فلک شمس ۵۸ کروڑ ۳۷ لاکھ ۸ ہزار میل ہے۔ اور ایک دقیقہ محیطیہ ۵ء۲۷۰۲۳ میل اور قطر شمس ۳ء۸۶۶۵۵۴ میل اور وہ قطر زمین کے ۵۰۹ء۱۰۹مثل ہے اور جرم شمس تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپن زمینوں کے برابر اور علم حق اس کے خالق عزوجل کو ۱۲ منہ ۔
بہرحال وہ جرم کہ اس کے ۱۲ لاکھ حصوں میں سے ایک کے بھی برابر نہیں اس کی کیا مقاومت کرسکتا ہے تو گرد دورہ کرنا نہ تھا بلکہ پہلے ہی دن کھینچ کر اس میں مل جانا کیا ۱۲ لاکھ اشخاص مل کرایک کو کھینچیں اور وہ دوری چاہے تو بارہ لاکھ سے کھنچ نہ سکے گا بلکہ ان کے گرد گھومے گا اور کامل علمی رَدیہ ہے کہ کسی قوت کا قوی پڑ کر ضعیف ہوجانا محتاجِ علت ہے اگرچہ اسی قدر کہ زوال علت قوت جب کہ نصف دورے می جاذبیت شمس غالب آکر ۳۱ لاکھ میل سے زائد زمین کو قریب کھینچ لائی تو نصف دوم میں اسے کس نے ضعیف کردیاکہ زمین پھر ۳۱ لاکھ میل سے زیادہ دور بھاگ گئی حالانکہ قرب موجب قوت اثر جذب ہے(۱۰) تو حضیض پر لاکر جاذبیت شمس کا اثر اور قوی تر ہونا اور زمین کا وقتاً فوقتاً قریب تر ہوتا جانا لازم تھا نہ کہ نہایت قرب پر آکر اس کی قوت سست پڑے اور زمین اس کے نیچے سے چھوٹ کر پھر اتنی ہی دور ہوجائے شاید جولائی سے جنوری تک آفتاب کو راتب زیادہ ملتا ہے قوت تیز ہوتی ہے اور جنوری سے جولائی تک بھوکا رہتا ہے کمزور پڑ جاتا ہے۔ دو جسم اگر برابر کے ہوتے تو یہ کہنا ایک ظاہری لگتی ہوئی بات ہوتی کہ نصف دورے میں یہ غالب رہتا ہے نصف میں وہ نہ کہ وہ جرم کہ زمین کے ۱۲ لاکھ امثال سے بڑا ہے اسے کھینچ کر ۳۱ لاکھ میل سے زیادہ قریب کرے اور عین شباب اثر جذب کے وقت سست پڑ جائے اور ادھر ایک ادھر ۱۲ لاکھ سے زائد پر غلبہ و مغلوبیت کا دورہ پورا نصف نصف انقسام پائے اس پر یہ (عہ۱ ) مہمل عذر پیش ہوتا ہے کہ نقطہ حضیض پر نافریت بہت بڑھ جاتی ہے وہ زمین کوآفتاب کے نیچے سے چھڑا کر پھر دور لے جاتی ہے۔
عہ۱: ط ص ۶۰ ، ۱۲۔
اقول: یہ ہارے کا حیلہ محض بے سروپا ہے۔ اولاً جاذبیت و نافریت کا گھٹنا بڑھنا متلازم ہے نافریت اتنی ہی بڑھے گی جتنی جاذبیت اور بہرحال مساوی رہیں گی۔ ۱۶۔۱۲۔۱۴ یہاں اگر نافریت بدرجہ غایت ہے کہ چال سب سے زیادہ تیز ہے تو جاذبیت بھی بحد کمال ہے کہ قرب شمس سب جگہ سے زائد ہے نافریت جاذبیت سے چھینے تو جب کہ اس پر غالب آئے برابر سے چھین لینا کیا معنی!
ثانیاً اگر مساوی قوت دوسری پر غالب آسکتی ہے تو یہاں خاص نافریت کیوں غالب آئی جاذبیت بھی تو مساوی تھی وہ کیوں نہ غالب ہوئی یہ ترجیح بلا مرجح ہے۔
ثالثاً اگر نافریت ہی میں کوئی ایسا طرہ ہے کہ بحال مساوات وہی غالب آئے تو اسے مساوات تو روز اول سے تھی اور نقطوں پر کیوں نہ غالب آئی اسی نقطے کی تعین کیوں ہوئی۔
رابعاً ہمیشہ اسی کا التزام کیوں ہوا۔
خامساً مساوات تو تم بگھار رہے ہو ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ نقطہ اوج سے نقطہ حضیض تک برابر جاذبیت غالب آرہی ہے۔ قوت کا غلبہ اس کے اثر سے ظاہر ہوتا ہے جاذبیت قرب کرنا چاہتی ہے اور نافریت دور پھینکنا مگر وہاں سے یہاں تک برابر شمس سے قرب ہی بڑھتا جاتا ہے نافریت اگرچہ بیچارے برابری کے درجے پر متواتر چال تیز کررہی ہے لیکن اس کی ایک نہیں چلتی اور جاذبیت ہی کا اثر علی الاتصال غالب آرہا ہے پھر کیا معنٰی کہ عین شباب غلبہ پر دفعۃً مغلوب ہوجائے ۔
سادساً نافریت اگر بڑھی ہے تو خاص نقطہ حضیض پر، یا تو اس نے زمین کو آفتاب سے بال بھر بھی نہ چھینا کہ غایت قرب پر ہے چھینے گی۔ آگے بڑھ کر اس نقطے سے چل کر شمس سے بعد بڑھتا جائے گا،مگر اس نقطے سے سرکتے ہی نافریت بھی تیزی پر رہے گی ہر آن ضعیف ہوتی جائے گی کہ قدم قدم پر چال سست ہوگی۔ عجیب کہ اپنی کمال قوت پر تو نہ چھین سکی جب ضعیف پڑی چھین لی گئی۔
سابعاً طرفہ یہ کہ جتنی ضعیف ہوتی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ چھین رہی ہے کہ جس قدر چال سست ہوتی ہے اتنا ہی بعد بڑھتا ہے یہاں تک کہ ا پر کمال سستی کے ساتھ نہایت بعد ہے کیا عقل سلیم ان معکوس باتوں کو قبول کرسکتی ہے ہر گز نہیں عاجزی سب کچھ کراتی ہے ۔ اصول علم الہیاۃ (عہ۱) نے اس پر عذر گھڑا کہ مرکز شمس کے گرد جو دائرہ ہے اوج میں زمین کا راستہ اس دائرے کے اندر ہو کر ہے لہذا شمس کی طرف آتی ہے اور حضیض میں اس دائرے سے باہر ہے لہذا نکل جاتی ہے۔
عہ۱: ص ۱۸۱ ۱۲۔
ردّنہم : اقول : نافریت کی گندم پہلے کاٹ چکے ہیں اور بفرضِ باطل ہو بھی تو یہ قرار داد ہے کہ وہ بقدر جاذبیت بڑھتی ہے اور چال بقدر نافریت (نمبر۷) تو واجب تھا کہ جب سیارے گرد قمر متفرق ہوتے اس کی چال کم ہوتی کہ ان کی جاذبیت باہم معارض ہو کر قمر پر اثر کم پڑرہا ہے اور جب سیارے قمر سے ایک طرف ہوتے اس کی چال ہمیشہ سے بہت زائد ہوجاتی کہ اسے مجموع جا ذبیتوں کا مقابلہ کرنا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ والقمر قدّرنٰہ منازل ۔ ۱ ؎ ( اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کیں۔ ت) کے زبردست محکم انتظام نے اسے جس روش پر ڈال دیا ہے ہمیشہ اسی پر رہتا ہے وہ سیاروں کے اجتماع کی پرواہ کرتا ہے نہ تفر ق کی، تو قطعاً ثابت ہوا کہ جاذبیت محض وہمی گھڑت ہے۔
(۱القرآن الکریم ۳۶/ ۳۹)
رَدِّ دہم : اقول : ان سب سے بڑھ کر بطلان جاذبیت پر شہادت بحراوقیانوس کا مدوجزر ہے، ہر روز دوبار پانی گزوں حتی کہ ۷۰ فٹ تک اونچا اٹھتا اور پھر بیٹھ جاتا ہے اسے جاذبیت قمر کے سر ڈھالنا جاذبیت ارض کو سلام کرنا ہے اگر قمر کو اس کے بعد (عہ۲) اقرب ۲۲۵۷۱۹ میل پر رکھئے اور زمین کی جاذبیت اس کے مرکز سے لیجئے کہ پانی کو اس سے ۵ء ۳۹۵۶ میل بعد ہو تو حسب قاعدہ نیوٹن اگر زمین و قمر میں قوت جذب برابر ہوتی پانی پر دونوں کے جذب کی نسبت یہ ہوئی جذب قمر : جذب ارض ::(۵ء۳۹۵۶)۲ = (۳۵۵۷۱۹)۲ ثانی کو ایک فرض کریں تو سوم =چہارم = جذب قمر ہوتا یعنی
۲۵ء۱۵۶۵۳۸۹۲
۵۰۹۴۹۰۶۶۹۶۱ = ۰۰۰۳۰۷۲۴۵۹ء۰
لیکن قمر میں قوتِ جذب قوتِ زمین کی ۱۵ (عہ۳ ) ہے لہذا اسے ۰۵ء میں ضرب دیا حاصل ۰۰۰۰۴۶ء۰ یعنی پانی پر جذب قمر اگر ۲۳ ہے تو جذب زمین پانچ لاکھ یا قمر اگر ایک قوت سے جذب کرتا ہے توز مین ۲۱۷۳۹ قوتوں سے پھر کیونکر ممکن پانی بال برابر بھی اٹھنے پائے، ہم نے نمبر ۱۷ کے اعمال ح وص کے لحاظ سے پانی کا بعد مرکز زمین سے لیا ورنہ زمین سے تو اسے اصلا بُعد نہیں اور ہم ثابت کرآئے کہ جذب اگر ہے تو ہر گز خاص بمرکز نہیں تمام کُرہ جاذب ہے________________________________________________________ہاں انتہائے جذب جانب مرکز ہے تو جب تک جسم واصل مرکز نہ ہو زیر جذب رہے گا ولہذا زمین پر رکھا ہو پتھر بھی بھاری ہے اور وزن نہیں ہوتا مگر جذب سے تو ثابت ہوا کہ زمین میں جذب ہے تو ضرور ثقیل متصل کو بھی جذب کرتی ہے بلکہ سب سے اقوی کہ جاذبیت قرب سے بڑھتی ہے۔(۱۰) اور یہ نہایت قرب سے اب تو جذب قمر کو جذب زمین سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی ہے اور اگر اس سے بھی در گزر کرکے تسلیم کرلیں کہ جذب کے لیے فصل ضرور ہے تو ایک فصل معتدبہ مثلاً ایک انگل رکھئے بفرض غلط قبول کرلیں کہ قمر نے ایک انگل پانی زمین سے جدا کرلیا اب محال ہے کہ بال کا ہزاروں حصہ اور بڑھےنہ کہ ۷۰ فٹ تک قمر کا بعد (عہ۱) اوسط ۲۳۸۸۲۳ میل ہے، ہر میل ۱۷۶۰ گز، ہر گز اڑتالیس انگل، تو بعد قمر ۱۸۴۰ء۲۰۱۷۶۶۱ بیس ارب انگل مع زیادات ہوا۔ ایک انگل کا مربع ایک کہ جذب قمر ہو اور اس بعد کا مربع ۲۸۱۸۵۶۰۰ ۴۰۷۰۹۵۶۶۵۳۴۲۰ کو جذب ارض ہوتا اگر قوت جذب دونوں کروں میں مساوی ہوتی لیکن قمر میں ۱۵ء ہے تو اس عدد کو ۱۵ء پر تقسیم کیا جذبِ ارض۔______________ ۲۷۱۳۹۷۱۱۰۲۲۸۰۱۸۷۹۰۴۰۰۰ ہوا یعنی پانی پر جذب قمر کی ایک قوت ہے تو جذب زمین کی دو سو اکہتر مہاسنکھ سے بھی سنکھوں زائد ہے تو مدمحال قطعی ہوتا ہے لیکن واقع ہے تو یقیناً زمین میں جاذبیت نہیں اگر کہے ہیأتِ جدیدہ والے تو یہ کہتے ہیں کہ چاند سارے کرہ زمین کو گزوں اونچا اٹھالیتا ہے تو پانی کا ستر فٹ اٹھالینا کیا دشوا رہے۔
عہ۲: اصول ہردوصفحہ مذکور ہ
عہ۳: اصول ص ۲۶۷۔ ۱۲۔
عہ۱: اصول ہر دو صفحہ مذکورہ ہوا۔
عہ۲: ص ۱۲۰۰۔ ۱۲
اقول: چاند کا زمین کو اونچا اٹھالینا نِرا ہذیان ہے زمین کا وزن ،_____________۱۶۹۹۳۲۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ سولہ ہزار نو سو ترانوے مہاسنکھ من اور بیس سنکھ من ہے وہ قمر (عہ۳) سے انچاس حصے بڑی ہے بلکہ اس کاجرم (عہ۴) جرم قمر کا وزن میں ۵ء۸۱ مثل ہے ،کیا چٹھنکی ڈیڑھ چھٹانک پانچ سیر پختہ وزن پر غالب آکر اسے کھینچ لے گی یا قمر کو جر ثقیل کی کوئی کل دی گئی ہے اس کے پاس ایک کل ہوگی تو زمین کے پاس انچاس کہ قبل اس کے کہ وہ اسے بال بھر اٹھا سکے یہ اسے کھینچ کر گرالے گی، اور اگر بالفرض قمر زمین کو اٹھا بھی لے تو زمین چاہے سو گز نہیں سومیل کھنچ جائے پانی کا ذرہ بھر اٹھنا ممکن نہیں زمین کے اس طرف چاند کے خلاف کوئی دوسرا حامل اقوی نہ تھا جس سے چاند اسے نہ چھین سکتا اور پانی کو زمین مہا سنکھوں زیادہ زور سے کھینچ رہی ہیں چاند اسے کیونکر کھینچ سکے گا۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ مثلاً سیر بھر وزن کے ایک گولے میں لوہے کا پتر نہایت مضبوط کیلوں سے جڑا ہوا ہے تم اس گولے کو ہاتھ سے کھینچ سکتے ہو لیکن اس پتر کو گولے سے جدا نہیں کرسکتے جب تک و ہ کیلیں نہ نکالو یہاں پانی پر وہ کیلیں صد ہا مہاسنکھوں طاقت سے جذب ہے جب تک یہ معدوم نہ ہو پانی ہزاروں چاندوں کے ہلائے ہل نہیں سکتا لیکن ہلتا کیا گزوں اٹھتا ہے تو ضرور جذب زمین معدوم ہے۔ وھوالمقصود اگر کہیے ضرور اس سے زمین کی جاذبیت تو باطل ہوگئی لیکن قمر کی تو مسلم رہی۔
عہ۳: ص ۱۹۷۔ ۱۲ عہ۴: ص ۲۱۰۔ ۱۲ ۔
اقول: اوّل مقصود ابطال حرکت زمین ہے وہ جاذبیت شمس پر مبنی اور اوپر گزرا کہ زمین ہی میں جاذبیت گمان کرکے شمس کو اس پر بلادلیل قیاس کیا ہے جب یہی باطل ہوگئی قیاس کا دریا ہی جل گیا شمس میں کہاں سے آئے گی یا یوں کہیے کہ ہیأت جدیدہ کا وہ کلیہ کہ ہرجسم میں بقدر مادہ جاذبیت ہے جس کی بنا ء پر شمس میں اس کے لائق جاذبیت اور اس کے سبب زمین کی حرکت مانی تھی باطل ہوگیا اور جب معلوم ہوگیا کہ بعض اجسام میں جذب ہے بعض میں نہیں تو جذب شمس پر دلیل نہ رہی ممکن کہ شمس انہیں اجسام سے ہو جن میں جذب نہیں۔
ثانیاً مد کا جذب قمر سے ہونا بھی بوجوہ کثیرہ مخدوش ہے جن کا بیان نمبر ۱۶ میں گزرا۔
رَدِّ یاز دہم : اقول: جو دوسری طرف کی مد کی توجیہ کی کہ زمین اٹھتی ہے اور ادھر کے پانی کو چھوڑ آتی ہے۔ جاذبیت ارض کی نفی پر دلیل روشن ہے سمت مواجہ کے پانی پر تو ارض و قمر کا تجاذب تھا یہ غلط مان لیا کہ قمر غالب آیا، سمت دیگر کے پانی کو تو دونوں جانب زمین ہی کھینچ رہی ہے اسے زمین نے کیونکر چھوڑا قمر کا جذب اس پر کم تو زمین کاجذب تو بقوت اتم ہے اور یہاں اس کا معارض نہیں پھر چھوڑ دینے کے کیا معنی ٰ!
رَدِّ دوازدہم : اقول: یہ جو ہیاتِ جدیدہ نے اقرار کیا کہ جذب قمر میں پانی زمین کا ملازم نہیں رہتا قمر کی جانب مواجہ میں بوجہ لطافت و قرب آب پانی زمین سے زیادہ اٹھتا ہے اور دوسری طرف بوجہ بعد آب زمین پانی سے زیادہ اٹھتی ہے۔ یہ بڑے کام کی بات ہے اس نے زمین پر جاذبیت شمس کا قطعی خاتمہ کردیا اگر وہ صحیح ہوتی تو جب جذب قمر سے یہ حالت ہے جو انتہا درجہ صر ف ۷۰ ہی فٹ اٹھا سکتا ہے تو جذب شمس کہ زمین کو ۳۱ لاکھ میل سے زیادہ کھینچ لاتا ہے۔ واجب تھا کہ پانی پر اسی ۷۰ فٹ اور ۳۱ لاکھ ۱۶ ہزار باون میل کی نسبت سے اشد واقوی ہوتا سامنے کے پانی زمین کو چھوڑ کر لاکھوں میل چلے جاتے زمین نری سوکھی رہ جاتی یا قوت جذب کے سبب قوت نافریت پانی کو زمین سے بہت زیادہ جلد تر گھماتی یا تو ساری زمین پانی میں ڈوب جاتی اگر پانی پھیلتا یا ہر سال سارے جنگل اور شہر غرقاب ہو کر سمندر ہوجاتے اور تمام سمندر چٹیل زمین ہوجایا کرتے اگر پانی اتنی ہی مساحت پر رہتا۔
رد سیزدہم : اقول : ہوا تو پانی سے بھی لطیف تر ہے اور بہ نسبت آب آفتاب سے قریب بھی زیادہ تو اس پر جذب شمس اور بھی اقوی ہوتا اور روئے زمین پر ہوا کا نام و نشان نہ رہا ہوتا یا نافریت آڑے آتی تو ہوا کو زمین سے بہت زیادہ گھماتی اب اگر ہوا بھی مثل زمین مشرق کو جاتی تو تمہارے طور پر لازم تھا کہ پتھر جو سیدھا اوپر پھینکا جاتا ہے بہت دور شرق میں جا کر گرتا ہوا کی تیزی زمین سے دو چند ہی ہوتی اور پتھر مثلاً ۲ سیکنڈ میں ۱۶ فٹ اوپر چڑھتا اور ایک سیکنڈ میں نیچے اتر تا تو اس تین سیکنڈ میں زمین ۲ء۱۵۱۹گز چلتی لیکن ہوا کہ ان سیکنڈوں میں پتھر جس کا تابع رہا ۴ء۳۰۳۸ گز جاتی تو پتھر ۱۵۱۹ گز دور جا کر اترتا ہے حالانکہ جہاں سے پھینکا تھا وہیں اترتا ہے اور اگر ہوا غرب کو جاتی تو پتھر ۴۵۵۸ گز دور غرب میں گرتا کہ تین سیکنڈ میں زمین کا وہ موضع جہاں سے پتھر پھینکا تھا ۲ء۱۵۱۹ گز مشرق کو چلا اور پتھر باتباع ہوا وہاں سے ۴ء ۳۰۳۸ گز غرب کو گیا مجموع ۴۵۵۸ گز ڈھائی میل سے زیادہ کا فاصلہ ہوگیا لیکن وہاں کا وہیں گرتا ہے تو یقیناً جذب شمس و حرکت زمین دونوں باطل۔
ردِ چار دہم : اقول: کتنی واضح و فیصلہ کن بات ہے کاغذ کا تختہ دو برابر حصے کرکے ایک ویسا ہی پھیلا ہوا ایک پلے میں رکھو اور دوسرا گولی بنا کر کہ پہلے سے مساحت میں دسواں حصہ رہ جائے اگر جاذبیت ہے واجب کہ اس کا وزن گولی سے دس گنا ہوجائے کہ جذب بحسب مادہ جاذب بدلے گا ،(۱۰) اور مادہ مجذوب و بعد یہاں واحد ہیں اور اول کے مقابل زمین کے دس حصے ہیں تو اس پر دس جذب ہیں اور گولی پر ایک اور وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے۔ (۱۵) تو واجب کہ اس کا وزن گولی دہ گنا ہو حالانکہ بداہۃً باطل ہے تو جذب قطعاً باطل بلکہ ان کا جھکنا اپنے میل طبعی سے ہے اور نوع واحد میں میل بحسب مادہ ہے اور یہاں مادہ مساوی لہذا میل برابر لہذا وزن یکساں۔
فائدہ : اقول : یہاں سے ظاہر ہوا کہ وہ جو مختلف کروں پر شیئ کا وزن مختلف ہوجانا بتایا تھا (۱۵) سب محض تراشیدہ خیال باطل تھے ورنہ جیسے وہاں جذب شمس وارض میں ا و ۸ کی نسبت تھی یہاں بھی دونوں حصے زمین میں اور ۱۰ کی نسبت ہے اور ۱ء ۲۸ اور ۱ و۱۰ کی ہوسکتی ہے۔
رَدِّ پانزدہم : اقول: واجب کہ وہ تختہ اور گولی دونوں ایک مسافت سے ایک وقت میں زمین پر اتریں کہ اگر تختہ پر ہوا کی مزاحمت دہ چند ہے تو اس پر زمین کا جذب بھی تو دہ چند ہے بہرحال مانع ومقتضی کی نسبت دونوں جگہ برابر ہے تو اترنے میں مساوات لازم حالانکہ قطعاً تختہ دیر میں اترے گا تو ثابت ہوا کہ مقتضی جذب نہیں بلکہ ان کا طبعی میل کہ دونوں میں برابر ہے تو مقتضی مساوی ایک پر مانع دہ چند لاجرم دیر کرے گا۔
رَدِّ شانزدہم: اقول : ملا جتناکثیف تر جاذبیت بیشتر(نمبر۱۰) تو وزن اکثر (۱۵) توپانی میں بہ نسبت ہوا وزن بڑھنا چاہیے حالانکہ عکس ہے استاذ ابو ریحان بیرونی نے سو مثقال سونا ہوا میں تول کر سونے کا پلہ پانی میں رکھا اور باٹ کا ہوا میں ، ۴/۳۔۹۴ مثقال رہ گیا۔بیسیوں حصے سے زیادہ گھٹ گیا۔ ہم نے سونے کے کڑے کہ ہوا میں ایک چھٹانک چار روپے ایک چونی ڈیڑھ ماشے بھر سونا تھے پانی میں تولے سونے کا پلہ سطح آب سے ملتے ہی ہلکا پڑا وزن کا پلہ ہوا میں جھکا جب سونے کا پلہ پانی کے اندر پہنچا وزن صرف ایک چھٹانک تین روپے بھر رہ گیادسویں حصے سے زیادہ گھٹ گیا۔ یہ کمی اختلافِ آب و ہوا و موسم سے بدلے گی۔ ابو ریحان نے جیحون کا پانی لیا اور خوار زم میں فصل خریف میں تولا اور ہم نے کنویں کاپانی اپنے شہر میں موسم سرمامیں میل طبعی پر، اس کی وجہ ظاہر ہے میل بقدر روزن جھکاتا ہے اور جس ملا میں حجم ہے وہ بقدر کثافت مزاحمت کرتا ہے وزن دونوں پلوں کا برابر ہے ہوا میں دونوں کا مزاحم بھی برابر تھا برابر رہے جب ایک پانی سے ملا جھکنے کا مقتضی کہ میل ہے اب بھی بدستور برابر ہے مگر جھکنے کا مزاحم اس پلے پر بہت قوی ہے کہ پانی ہوا سے بدرجہاکثیف تر ہے لاجرم یہ کم جھکا اور ہوا کا پلہ زیادہ ، فافہم وتامل لیکن بربنائے جاذبیت یہ اصلاً نہ بن سکے گا کہ جس کی کثافتِ آب نے مزاحمت بڑھائی ہے اسی کثافت نے اسی نسبت پر وزن بھی بڑھایا ہے تو مانع و مقتضی برابر ہو کر حالت بدستور رہنی لازم تھی اور ایسا نہیں تو ضرور جاذبیت باطل ہے ، اصول (عہ۱ ) طبعی میں کہا سبب اس کا یہ ہے کہ پانی اوپر کی طرف زور کرتا ہے لہذا سونے کو سہارا دے کر وزن کم کرتا ہے۔
عہ۱: ص ۱۱۵۔۱۲۔
اقول: اولاً اگر اس سے صرف نیچے جانے کی مزاحمت مراد تو ضرور صحیح ہے اور اس کا جواب بھی سُن چکے اور اگر یہ مقصود کہ پانی سونے کو اوپر پھینکتا ہے جیسا کہ اوپر کی طرف زور کرنے سے ظاہرتو عجیب جہل شدید ہے پانی اپنے سے ہلکی چیز کو اوپر پھینکتا ہے کہ خود اس سے زیادہ اسفل کو چاہتا ہے اپنے سے بھاری کو سہارا دے تو لوہا بلکہ کوئی چیز پانی میں نہ ڈوبے۔
ثانیاً : ایسا ہو تو یہ جذب زمین پر تازہ رَد ہوگا جب پانی اپنے سے ہلکی بھاری ہر چیز کو پھینکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کی طبیعت میں وضع ہے اور دفع ضد جذب ہے تو اس کی طبیعت میں جذب نہیں اور وہ زمین ہی کا جزء ہے تو زمین میں نہیں تو شمس میں کس دلیل سے آئے گا، اور حرکت زمین کا انتظام کدھر جائے گا۔
رَدِّہفدہم : اقول: ایک بڑی مشک اور ایک مشکیزہ ہوا سے خوب بھر کر منہ باندھ کر پانی میں بٹھانا چاہو تو مشک زیادہ طاقت مانگے گی اور دیر میں بیٹھے گی اور بٹھا کر چھوڑ دو تو مشکیزہ سے جلد اوپر آئے گی اور ایک بڑا پتھر اور ایک چھوٹا اوپرحد واحد تک پھینکو تو بڑا زیادہ طاقت چاہے گا اور دیر میں جائے گا اور چھوٹے سے جلد اتر آئے گا، پانی کا دباؤ اگر مشکوں کو اٹھاتا اور زمین کا جذب پتھروں کو گراتاتو قسراقوی پر ضعف ہوتا ہے اور اضعف پر اقوی چھوٹا پتھر اور مشکیزہ جلد آتا ہے اور بڑا پتھر اور مشک دیر میں۔ ہاں ہاں یہ کہئے کہ بڑے کا دافع بڑا ہے زیادہ دفع کرے گا تو وہ مدفوع بھی تو بڑا ہے کم دفع ہوگا تو غایت یہ کہ نسبت برابر رہے دونوں برابر اٹھیں مشک پر زیادہ کیوں، یونہی جذب میں اگر کہے مشک اور بڑے پتھر نے یوں جلدی کی کہ بیچ میں جو ملا حائل ہے بڑی چیز، اس کے چیرنے پر زیادہ قادر ہے تو اولا بڑے حائل بھی بڑا ہے تو نسبت برابر رہی۔ یہ وجہ کہ بڑی چیز اثر قسر کم قبول کرتی ہے تو پانی کے دباؤ سے مشک کیوں جلد اٹھی اور زمین کے جذب سے بڑا پتھر کیوں جلد آیا، اگر کہیے جذب بحسب مادہ ہے بڑے پتھر میں مادہ زائد تھا اس پر جذب زمین زیادہ تھا لہذا دیر میں اُوپر گیا اور جلد نیچے آیا۔
اقول: اولاً یہ مردود ہے دیکھو ۔۱۱
ثانیاً خود اس قول کو تفاوت اثر سے انکار ہے(۱۲)
ثالثاً یہ وہی بات ہے کہ جاذبیت کا تھل بیڑا لگا رکھے گی تمہارے یہاں وہی اجزائے دیمقرا طیسیہ ثقیل با لطبع ہیں ( نمبر۸۔۹) تو جذب کیوں ہو وہ اپنی طبیعت سے طالب سفل ہوں گے۔
رابعاً بڑی مشک کی ہوا میں بھی مادہ زیادہ ہے اور ہیأتِ جدیدہ میں ہوا بھی ثقیل مانی گئی ہے۔( ۱۸) تو بلاشبہہ بڑی مشک پر جذب زمین زائدہ ہے پھر یہ دیر میں نیچی کیوں بیٹھی اور جلد اوپر کیوں آئی، اگر کہیے پانی اس سے زیادہ ثقیل ہے لہذا زمین اسے زیادہ جذب کرتی ہے اس لیے یہ اوپر مندفع ہوتی ہے۔
اقول : اولاً یہ وہی قول مردود ہے کہ جذب بحسب مجذوب ہے۔
ثانیاً دفع بحسب نسبت ثقل ہوگا پانی اس مشک سے اثقل ہے اور مشک یہ مشکیزہ سے تو مشک پر جذب زمینی مشکیزہ سے زائدہوا اور دفع مشکیزہ سے کم تو واجب کہ مشک جلد بیٹھے اور مشکیزہ جلد اٹھے حالانکہ امربالعکس ہے یا بدستور بلحاظ نسبت تساوی رہے، غرض کوئی کل ٹھیک نہیں بیٹھتی اور اگر جذب کو چھوڑ کر میل طبعی مانو تو سب موجہ ہیں ہوا کا میل فوق اور حجر کا تحت ہے مشک پر باد کا بیٹھنا اور پتھر کا اوپر جانا خلافِ طبع تھا، اس لیے اکبر نے زیادہ مقاومت کی اور دیر ہوئی اور مشک کا اٹھنا اور پتھر کا گرنا مقتضائے طبع تھا لہذا اکبر نے جلدی کی۔
رَدِّہیزدہم : اقول: شے واحد پر بعد واحد سے جاذب واحد کا جذب مختلف ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
تنبیہ : بعد (۱۱) تھرمامیٹر کا پارہ ہوائے معتدل میں ایک جگہ پر قائم ہے اس پر جذب زمین کی ایک مقدار معین محدود ہے جو ان کے مادوں اور اس کے بعد معین کا تقاضا ہے اب اگر ہوا گرم ہوئی پارہ اوپر چڑھے گا کیا جذب زمین کم پڑے گا۔ کیوں کم ہوا۔ اس وقت بھی تو زمین و زیبق انہیں مادوں پر تھی وہی بعد تھا۔ گرمی نے زمین یا پارے میں سے کچھ کترنہ لیا یہاں آکر پارہ ٹھہرے گا جب تک اسی گرمی پر ہے، اب ہوا سرد پڑی پارہ نیچے اُترے گا اور خطِ اعتدال پر بھی نہ ٹھہرے گا۔ کیا جذبِ زمین بڑھے گا۔ کیوں، اب بھی تو ارض و سیماب کے وہی مادے وہی بعد تھا سردی نے زمین یا پارے میں کوئی پیوند جوڑ نہ دیا، یہ اختلاف ہوا کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا کہ پارہ ہوا سے ہمیشہ اثقل ہے۔گرمی ہوا نے اگر اس میں کچھ خفت پیدا کی تو اس سے پہلے ہوا میں اس سے زیادہ پیدا ہوچکی بلکہ لطافت وکثافت ہوا کا عکس ہے۔ لاجرم جذب غلط ہے بلکہ برودت موجب ثقل ہے، اور ثقل طالبِ سفل اور حرارت موجبِ خفت ہے ، اور خفت طالبِ علو۔
رَدِّ نوز دہم : اقول: بخارات پیدا ہوتے ہی اوپر جاتے ہیں ان کا مرکب اجزائے مائیہ وہوائیہ سے ہے اور ان کے نزدیک ہوا بھی ثقیل ہے۔(نمبر۱۸) اور پانی اثقل کہ ہوا سے سات ( عہ۱) سو ستر یا آٹھ سو ( عہ۲) گنا یا آٹھ ( عہ۳) سو انیس مثل بھاری ہے اور ظاہر ہے کہ جو ثقیل و اثقل سے ایسا (عہ۴) مرکب ہو وہ اس ثقیل سے اثقل ہوگا تو بخار ہوا سے بھاری ہے تو یہاں وہ عذر نہیں چلتا جو پانی کے تیل کو پھینکنے میں ہوتا کہ بھاری چیز ہلکی کوپھینکتی ہے کہ ہلکی بھاری کو، پھر ان کے جانے کی کیا وجہ ہے، زمین اگر انہیں جذب کرتی تو کوئی چیز انہیں زمین سے چھین کر اوپر لے جاتی، کیا کوئی سیارہ تو شب کا وہ وقت لیجئے کہ کوئی سیارہ نصف النہار بلکہ افق پر اصلاً نہ ہو جیسے وہ زمانہ کہ سیّارات و قمر نور سے سنبلہ تک ہوں اور طالع راس الحمل یا ثوابت تو مہاسنکھوں میل دور سے اجزائے زمین کو خاص اس کی گود سے اچک لیتے، تو چاہیے کہ تمام دنیا کے ریگستانوں میں ریت کا ٹیلہ نہ رہا ہوتا سب کو ثوابت اڑالے گئے ہوتے زمین کہ ان کو جذب کررہی ہے محال ہے کہ وہی دفع کرتی کہ دو ضدین مقتضائے طبع نہیں ہوسکتیں، تو ثابت ہوا کہ جذبِ زمین غلط ہے بلکہ ہوا خفیف ہے اور انمیں جو اجزائے ہوائیہ میں گرمی کے سبب اور لطیف ہوگئے اور اجزائے مائیہ کہ ان میں محبوس ہیں ان میں بوجہ حرارت خفت آگئی جوش دینے میں پانی کے اجزا اوپر اٹھتے ہیں لہذا اجزائے ہوائیہ انہیں اڑا لے گئے کہ حقیقت طالب علو ہے تو بالضرورۃ ثقیل طالب سفل ہے کہ الضد بالضد یہی میل طبعی ہے تو جاذبیت مہمل ، یہ اسی دلیل میں دوسری وجہ سے ردجاذبیت ہوا، اگر کہیے اس حقیقت نے ہمیں کیوں نہ فائدہ دیا۔ حرارت نے اجزائے آب و ہوا کو ہلکاکیا لہذا ان پر جذب کم ہوا اور برابر کی ہوا نے جس جذب زائد سے ان کو اوپر پھینکا جیسے پانی نے تیل کو۔
عہ۱: تعریبات شافیہ جزثانی ص ۴۰،۱۲
عہ۲: ط ص ۱۳۴۔۱۲
عہ۳: ح ص ۲۱۰۔۱۲
عہ۴: یعنی جس میں مزاج و استحکام ترکیب نہیں ورنہ نسبت اجزاء کا تحفظ ضرور نہ رہے گا جیسے سوناکہ زیبق وکبریت سے مرکب ہے۱۲ منہ غفرلہ
اقول: اولاً کیا بخار اسی وقت اٹھتا ہے جب مثلاً پانی جہاں گرم ہوا تھا وہاں سے ہٹا کر ٹھنڈی جگہ لے جاؤ جہاں کہ ہوا کو اثر گرمی نہ پہنچا حاشا بلکہ وہ پیدا ہوتے ہی معاً اٹھتا وہ حرارت کہ اس ہوا کو گرم کرے گی اس کے برابر والی کو گرم نہ کرے گی خصوصاً تیزیِ شمس کے پانی سے بخار اٹھنا کہ آفتاب نے قطعی برابر والی کو بھی اتنا ہی گرم کیا جتنا اسے پھر اس میں اجزائے مائیہ ہونے سے وزن زائد،
ثانیاً بالکل الٹی کہی تمہارے نزدیک تو جتنا جذب کم اتنا وزن کم (نمبر۱۵) تو خفت قلتِ جذب سے ہوتی ہے نہ کہ قلتِ جذب خفت سے۔
ثالثاً وہی جو اوپر گزرا کہ مادہ بدستور بعد بدستور، پھر حرارت سے جذب میں کیوں فتور، کیا سبب ہوا کو گرمی نے ہلکا کردیا۔ اگر کہیے کہ حرارت بالطبع طالبِ علو ہے ، ولہذا نارو ہوا اوپر جاتی ہیں اور برودت بالطبع طالب سفل ہے ولہذا آب و خاک نیچے جھکتے ہیں تو ضرور حرارت سے خفت پیدا ہوگی مگر یہ میل طبعی کا قرار اور جاذبیت پر تلوار ہوگا۔
رَدِّبستم : جو نمبر۱۸ کے رابعہ میں گزرا کہ جذبِ زمین ہے تو اندر کی ہوا کا اوپر کا ابھارنا کیا معنی اور وہ اس قوت سے کہ صدہا من کے بوجھ کو سہارا دے نہیں نہیں فنا کردے کہ محسوس ہی نہ ہو۔
ردِّ بست ویکم : اقول: ہر عاقل جانتا ہے کہ رائی کا دانہ پہاڑ کے کروڑویں حصے کے بھی ہم وزن نہیں ہوسکتا نہ کہ سارے پہاڑ سے کانٹے کی تول برابر، مگر مسئلہ جاذبیت صحیح ہے تو یہ ہو کر رہے گا، بلکہ رائی کا دانہ پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوگا، ظاہر ہے کہ پلے کا جھکنا اثر جذب ہے جس پر جذب زائد ہوگا اس کا پلہ جھکے گا اور برابر ہوں پلے برابر رہیں گے۔ (نمبر۱۵) اب دو کُرے ایسے لیجئے جن میں قوت جذب برابر ہے ، ان میں بعد مساوی پر جذب مساوی ہوگا یا سہی مختلف قوت کے لیجئے جیسے قمرزمین، رائی اور پہاڑ کو قمر سے اتنا قریب فرض کرلیجئے کہ زیادتِ قرب سے قوتِ جذب قمر اس کے ضعف جاذبیت کی تلافی کردے ، جسے اصول علم الہیأت نمبر۳۲۲ میں قطر زمین کا ۹ء۳ کہا اگرچہ ہمارے حساب(عہ۱) سے تقریباً ۱ء۳ ہے۔
عہ۱: اصول علم الہیأۃ میں مادہ زمین کا ۱/۷۵ لیا اور زمین سے بعد قمر قطر زمین کا ۳۰ مثل اور ہیأت جدیدہ میں مقرر ہے کہ جاذبیت بحسب مادہ بالاستقامت بدلتی ہے اور بحسب مربع بعد بالقلب تو جسم پر جذب قمر و ارض مساوی ہونے کے لیے زمین سے ایسے بعد پر ہونا چاہیے کہ اس کا مربع قمر سے بعد جسم کے مربع کے ۵۷ مثل ہو۔
اقول : تو یہاں سے دو مساواتیں ملیں۔ قمر سے بعد کوئی فرض کیجئے اور زمین سے لا :۰ لا =۷۵ ی۲ ، لا+ی = ۳۰:۰ لا۲/ ۷۵ = (۳۰۔ لا۲) = ۹۰۰۔ ۶۰ لا +لا۲ :۰ لا = ۶۷۵۰۰۔۴۵۰۰ لا +۷۵ لا۲ :۰ ۰ = ۶۷۵۰۰ ۔ ۴۵۰۰ لا + ۷۴ لا۲بلکہ ۷۴ لا۲ ۔ ۴۵۰۰لا =۶۷۵۰۰ :۰ لا۲ ۔ ۵۰۰/۷۴ ۔ ۶۷۵۰۰/۷۴ :۰ تکمل مجذور لا۲۔ ۴۵۰۰لا /۷۴ + ۵۰۶۲۵۰۰/۵۴۷۶ = ۔ ۶۷۵۰۰ /۷۴ + ۵۰۶۲۵۰۰/۵۴۷۶ = ۔ ۵۴۷۶/ ۴۹۹۵۰۰۰ + ۵۴۷۶/ ۴۹۹۵۰۰۰ = ۷۶۵۰۰/۵۴۷۶ :۰ لا ۔ ۲۲۵۰/۷۴ = ۷۴/ ۸۱ء ۲۵۹ یہ جذر یہاں منفی ہے:۰ لا = ۲۲۵۰/۷۰ = ۷۴/ ۸۱ء ۲۵۹ = ۷۴/۱۹ء۱۹۹۰ = ۸۹۴ء۲۶ :۰ ی = ۱۰۶ ء ۳ وبوجہ دیگر مساوات درجہ اول سے اگرچہ جملہ قوت دوم پر مشتمل ہے، مساوات اولٰی کا جذر لیا :۰ لا ۷۵ ی = ۶۶۰۳ء۸ ی :۰ لا = ۶۶۰۳ ء ۸ (۳۰۔ لا) = ۸۰۹ء۲۵۹۔۶۶۰۳ء۸ لا :۰ ۶۶۰۳ء۹ لا= ۸۰۹ء ۲۵۹:۰ لا = ۸۰۹ء۲۵۹۔۔۔۔۔۔۶۶۰۳ء۹ = ۸۹۵ء ۲۶ ی = ۱۰۵ء۳ پھر اس کتاب کی عام عادت ہے کہ کچھ کہے گی دوسری جگہ کچھ ، مادوں میں ۱/۷۵ کی نسبت لی اور اوپر گزرا کہ جاذبیت قمر کو جاذبیت ۱۵ء بتایا ہے، اس تقدیر پر مساوات یہ ہوگی : ۳لا۲، = ۲۰ ی ، لا+ ی = ۳۰ :۰ ۳لا=۲۰ (۹۰۰۔۶۰لا + لا۲) = ۱۸۰۰۰ ۔ ۱۲۰۰ لا + ۲۰ لا ۲ :۰ ۱۷لا۲ ۔ ۱۲۰۰ لا= ۔ ۱۸۰۰۰ بلکہ لا ۔ ۱۲۰۰لا/۱۷ = ۱۸۰۰۰ /۱۷ :۰ لا۲ ۔ ۱۲۰۰لا/۱۷ +۳۶۰۰۰۰/۱۸۹ ۔ ۳۰۶۰۰۰۰ /۱۸۹ ۔ ۳۰۶۰۰۰۰/۱۸۹ = ۵۴۰۰۰/۱۸۹ :۰ لا ۔ ۶۰۰/۱۷ = ۱۷/۳۷۹ء۳۲ یہ جذر منفی ہے :۰ لا = ۶۲۱ء۳۶۷/ ۱۷ = ۶۲۵ء۲۱ :۰ ی =۳۷۵ء۸ یا ۳لا = ۲۰۵ (۳۰۔ لا ) :۰ ۷۳۲۰۵ء ۱ لا = ۴۷۲۱۳۶ء۴ :۰ (۳۰۔لا) = ۱۶۴۰۸۰ء۴ ۱۳ ۔ ۴۷۲۱۳۶ء لا :۰ ۲۰۴۱۸۶ء۶لا = ۱۶۴۰۸۰ء۱۳۴ :۰ لا = ۱۶۴۰۸۰ ء۱۳۴/۲۰۴۱۸۶ء ۶= ۶۳۵ء۲۱ :۰ ی = ۳۷۵ء۸ کس قدر فرق ہے کہاں تین مثل قطر کہاں آٹھ مثل ، ڈھائی لاکھ میل سے کم بعد میں چالیس ہزار میل کا تفاوت ، جاذبیت، قمر اگر ۱۵ ء تھی واجب کہ مادہ قمر بھی اتنا ہوتا نہ کہ ۱/۷۵ اور مادہ ۱/۷۵ تھا تو واجب کہ جاذبیت بھی اسی قدر ہوتی نہ کہ ۱۵ء کہ جاذبیت بحسب مادہ ہے، اگر کہیے ۱/۷۵، فقط مثال کے لیے فر ض کرلیا ہے۔ اقول : ہر گز نہیں ص۲۶۶ پر جو جدول دی ہے اس میں مادہ قمر مادہ زمین کا ۰۱۲۸ء بتایا ہے کہ تقریباً یہی ۱/۷۵ ہوتا ہے۔ ۱/۷۵ =۰۱۳ء۰ رفع سے ۱۲۸ ۰ء ۰ بھی ۰۱۳ء۰ ہے اور بفرض غلط اگر فرض غلط تھا تو واقعیت معلوم ہوتے ہوئے غلط فرض کیا معنی کیا واقع سے مثال نہ ہوسکتی مگر ہے یہ کہ واقعی نہ یہ نہ وہ ، ان لوگوں کی خیال بندیاں ہیں ۱۲ منہ غفرلہ۔
حیز وہی ہے کہ یہاں اس کی تحقیق سے غرض نہیں، تو حاصل یہ ٹھہرا کہ جب رائی اور پہاڑ دونوں قمر و ارض سے ایسے فاصلے پر ہوں کہ قمر کی طرف قطر ارض کا ۹ء۳ ہو اور زمین کی طرف اء۲۶ کہ ارض و قمر میں بعد قطر زمین کا تیس گناہ ہے۔ اس وقت ان دونوں پر قمر و ارض دونوں کی جاذبیت مساوی ہوگی تو دونوں اسی خط پر رہیں گے، نہ کوئی قمر کی طرف جاسکے گا نہ زمین کی طرف جھکے گا تو واجب ہے کہ اگر یہ کسی ترازو کے پلڑوں میں ہوں تو دونوں پلڑے کانٹے کی تول برابر رہیں۔ اور اگر رائی کا پلڑا ایک خفیف مقدار پر اس خط مساوات سے زمین کی طرف مائل ہو اور پہاڑ کا اسی خط پر تو پہاڑ وہیں قائم رہے گا اور رائی کا پلڑا اور جھکے گا کہ جذب زمین بقدر قرب بڑھے گا، پہاڑ کا پلڑا ایک خفیف مقدار جانبِ قمر مائل ہو اور رائی کا اسی خط پر تو رائی یہیں قائم رہے گی اور پہاڑ کا پلڑا اونچا ہوگا کہ اس پر جذب قمر بڑھے گا اور اگر رائی کا پلڑا خط سے اس طرف اور پہاڑ کا اس طرف ہوا جب تو رائی کا پلڑا جھکنے اور پہاڑ کا پلڑا اونچا ہونے کی کوئی حد ہی نہ ہوگی۔ زیادت کی ان اصورتوں میں اگر کوئی عذر ہو تو رائی اور پہاڑ کے ہم وزن ہونے میں تو کلام کی گنجاش ہی نہیں کیا عقلِ سلیم اسے قبول کرسکتی ہے؟ اگر کہیے جذب مساوی رہی پہاڑ خود وزنی ہے لہذا اسی کا پلڑا جھکے گا۔
اقول : اولاً دیکھو پھر بولے تمہارے یہاں وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے۔(۱۵) جب دونوں طر ف جذب مساوی ہو کر اثر جذب کچھ نہ رہا، ٭ پہاڑ میں وزن کہاں سے آیا۔
٭ اقول: وغیرہ پر جو نمبر یعنی ہندسہ ہے وہ یہاں سے ختم ہے قلمی نسخہ میں اس طرح نہیں ہے، عبدالنعیم عزیزی ۔
ثانیاً اگر پہاڑ خوردوزنی ہے تو کیا ، اس کا اور رائی کے دانے کا اتنا ہی فرق ہے کہ اس کا پلڑا جھکے نہیں ، نہیں وہ یقیناً اپنے وزن ہی سے زمین پر پہنچے گا، اور جس طرح وہاں جھکنے میں جذب کا محتاج نہ تھا زمین تک آنے بھی جذب کا محتاج نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے اپنےذاتی وزن کی نسبت ہے، اسے زمین پر لائے گی تو ثابت ہوا کہ جذب باطل ہے ورنہ رائی کا دانہ پہاڑ سے بھاری ہوا، یہ جاذبیت کی خوبی ہے اور میل لیجئے تو چاہے رائی اور پہاڑ کو آسمانِ ہفتم پر رکھ دیجئے ہمیشہ ان میں وہی نسبت رہے گی جو زمین پر ہے کہ ان کا میل ذاتی نہ بدلے گا۔
رَدِّ بست و دوم : اقول: دونوں ہیأتوں کے اتفاق سے اعتدالین کی مغرب کو حرکت منتظمہ ہے اور ہم نمبر ۲۲ میں دلائل قاطعہ سے روشن کرچکے کہ وہ جاذبیت سے بن سکنا درکنار جاذبیت ہو تو ہر گز منتظمہ نہ رہے گی۔
رَدِّ بست وسوم : اقول: میل کلی ہر سال منتظم روش پر رُوبکمی ہے اسے بھی جاذبیت مختل کردے گی۔(۲۳)
رَدِّبست و چہارم : اقول: جاذبیت ہو تو زمین کے چھلوں کا نظام مختل ہوجائے اور ہر سال قطبین پر زمین زیادہ خالی ہوتی جائے۔
رَدّ بست وپنجم : اقول: تقاطع اعتدالین کا نقطہ تقاطع چھوڑ کر اونچا ہوجائے ۔
ردّبست و ششم : اقول: ہر سال قطر استوائی بڑھے۔
ردبست و ہفتم : اقول : زمین کی یہ شکل ہوجائے
یہ سب مطالب نمبر ۲۲ میں واضح ہوئے۔
دلائل نیوٹن ساز جاذبیت گداز :
ردّبست وہشتم : جب ترک اجسام اجزائے ثقیلہ بالطبع سے ہے اور اس کی تصریح خود نیوٹن ساز نے کی (۸) تو قطعاً جسم ثقیل بلاجذب جاذب خود اپنی ذات میں ثقیل ہے اور ثقیل نہیں مگر وہ کہ جانب ثقل جھکنا چاہے دو چیزوں میں جو زیادہ جھکے اسے دوسری سے ثقیل تر کہیں گے ۔ تو ثابت ہوا کہ یہ اجسام بذات خود بے جذب جاذب ثقل ہے۔ اس سے زیادہ میل طبعی کا ثبوت اور جاذبیت کا بطلان کیا درکار ہے جس کا خود مخترع جاذبیت نیوٹن کو اقرار ہے۔
ردّبست و نہم : اقول: ظاہر ہے کہ جذبِ زمین اگر ہو تو وہ نہیں مگر ایک تحریک قسری اور ہر جسم میں قوتِ ماسکہ ہے جسے حرکت سے ابا ہے اور اس کا منشا جسم کا ثقل وزن ہے ۔(نمبر۳) تو زمین جسے جذب کرے گی اس کا وزن جذب کی مقاومت کرے گا تو ضرور وزن ذات جسم میں ہے اور وزن ہی وہ شے ہے جس سے پلڑا جھکتا ہے تو میل ثقل طبیعت کا مقتضٰی ہے تو جذب لغو و بے معنی ہے، و بعبارۃ اخری بداہۃً معلوم کہ اجسام اپنے جذب کو مختلف قوت چاہتے ہیں، پہاڑ اس قوت سے نہیں کھینچ سکتا جس سے رائی کا دانہ، یہ اختلاف ان کی ثقل کا ہے جسم جتنا بھاری ہے اس کے جذب کو اتنی ہی قوت درکار ہے۔(۱۱) کہ ثقل خود جسم میں ہے قوتِ جذب سے پیدا نہیں بلکہ قوتِ جذب کا اختلاف اس پر متفرع ہے ، یہی میل طبعی ہے۔
دلائل بربنائے اتحاد و اثر جذب
نمبر ۱۲ میں گزرا کہ چھوٹے بڑے ، ہلکے بھاری تمام اقسام اجسام پر اثر جذب یکساں ہے، اگر موافقت ہوا نہ ہوتی تو سب جسم ایک ہی رفتار سے اُترتے اور ہیت جدیدہ کو اس پر اتنا وثوق ہے کہ اسے مشاہدہ سے ثابت بتاتی ہے۔ مشاہدہ سے زیادہ اور کیا چاہیے۔ یہ دلائل اسی نمبر کی بناء پر ہیں۔
رَدِّ سیم : اقول: اجسام کا نیچے آنا جذب سے ہوا اور اس کا اثر سب پر یکساں ہو، اور وزن اسی سے پیدا ہوتا ہے ۔(۱۵) تو لازم ہے کہ تمام اجسام کا وزن برابر ہو، رائی اور پہاڑ ہم وزن ہوں کانٹے، ترازو ، باٹ سب آلاتِ وزن چھوٹے ہوجائیں، بازاروں کا نظام درہم برہم ہوجائے اگر کہیے وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے اور جذب بحسب مادہ مجذوب ہے۔(۱۱) تو جس میں مادہ زیادہ اس پر جذب زیادہ اور جس پر جذب زیادہ اس کا وزن زیادہ ۔
اقول: اولاً : ۱۱ ۔ مردود محض ہے کما تقدم۔
ثانیاً واھی وزنوں سے کام نہیں چلتا۔ وزن زیادہ ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ نیچے زیادہ جھکے جو زیادہ نہ جھکے جسم میں کتنا ہی بڑا ہو وزن میں زیادہ نہیں ہوسکتا، جیسے لوہے کا پنسیر اور پان سیررُوئی کے گالے، اور زیادہ جھکنا تیزی رفتار کو مستلزم ۔ ظاہر ہے کہ مثلاً دس گز مسافت سے نیچے اترنے والی دو چیزوں میں جو زیادہ جھکے گی اس مسافت کو زیادہ طے کرے گی کہ یہ مسافت جھکنے ہی سے قطع ہوتی ہے۔ جس کا جھکنا زیادہ اس کا قطع زیادہ، تو اسی کی رفتار زیادہ اور ہیئت جدیدہ کہہ چکی کہ جذب پر چھوٹے بڑے ہلکے بھاری میں مساوی رفتار پیدا کرتا ہے کہ خارج سے روک نہ ہو تو باقتضائے جذب سب برابر اتریں تو جذب سب کو یکساں جھکاتا ہے، اور یہی حامل وزن تھا روشن ہوا کہ جذب سب میں یکساں وزن پیدا کرتا ہے اور وزن نہیں مگر جذب سے، تو قطعاً تمام اجسام رائی اور پہاڑ ہم وزن ہوئے اس سے بڑھ کر اور کیا سفسطہ ہے، لاجرم جذب باطل بلکہ اجسام میں خود وزن ہے اور وہ اپنے میل سے آتے ہیں، جو بڑے ہیں چھوٹے سے زائد، لہذا اس کی رفتار زائد۔
رَدّ سی ویکم : اقول: ہر عاقل جانتا ہے کہ نیچے اترنے والے جسم کا ہوا کو زیادہ چیرنا زیادہ جھکنے کی بناء پر ہوگا، اگر اصلاً نہ جھکے اصلاً نہ چیرے گا کہ جھکے کم شق کرے گا زیادہ تو زیادہ لیکن ثابت ہوچکا کہ جذب سب اجسام کو برابر جھکاتا ہے تو سب ہوا کو برابر شق کریں گے پھر ہوا سے اختلاف کرنا دھوکا ہے تو واجب کہ رائی اور پہاڑ ایک ہی چال سے اتریں، اور یہ جنون ہے، ہلکا بھاری کہنا محض مغالطہ ہے، بھاری وہ زیادہ جھکے ، جب کوئی آپ نہیں جھکتا سب کو جذب جھکاتا ہے او ر وہ سب کو برابر جھکاتا ہے ، تو نہ کوئی ہلکا ہے کہ ہوا پر کم دباؤ ڈالے نہ بھاری کہ زیادہ۔
رَدّ سی ودوم : ہر عاقل جانتا ہے کہ مزاحمت طلب خلاف سے ہوتی ہے جو چیز نیچے جھکنا چاہے اور تم اسے اوپر اٹھاؤ کہ مزاحمت کرے گی اور جو جتنا زیادہ جھکے گی زیادہ مزاحم ہوگی۔ اور دو چیزیں کہ برابر جھکیں مزاحمت میں بھی برابر ہوں گی کہ مخالف مساوی ہے اور ابھی ثابت ہوچکا کہ نیچے جھکنے میں تمام اجسام برابر ہیں تو کسی میں دوسرے سے زائد مزاحمت نہیں تو جس طاقت سے تم ایک پنیسرا اٹھا لیتے ہو اسی خفیف رازسے پہاڑ کیوں نہ اٹھالو، اور اگر پہاڑ نہیں اٹھتا تو کنکری کیسے اٹھا لیتے ہو؟ اس پر بھی تو جذب زمین کا ویسا ہی اثر ہے جیسا پہاڑ پر، یہاں تو ہوا کی روک کا بھی کوئی جھگڑا نہیں اور وزن کی گند اوپر کٹ چکی کہ اس میں وزن کے سوا کچھ باقی نہیں۔
ردّسی وسوم : اقول: گلاس میں تیل ، ہوا اور پانی ڈالو۔ تیل کیوں اوپر آتا ہے اور جذب کا اثر تو دونوں پر ایک سا ہے اگر دھارکے صدمہ سے ایسا ہوتا ہے تو پانی پر تیل ڈالنے سے پانی کیوں نہیں اوپر آجاتا۔
رَدّسی و چہارم : اقول: کنکری ڈوبتی ہے، لکڑی تیرتی ہے، یہ کس لیے ؟اثر تو یکساں ہے۔
رَدّ سی وپنجم : اقول: اب بخارجاذبیت سے بخار نکالے گا اور دھواں اس کے دھوئیں بکھیر ے گا یہ اوپر کیوں اٹھتے ہیں، ہوا انہیں دباتی ہے یہ ہوا کو کیوں نہیں دباتے ، اثر تو سب پر برابر ہے، واجب کہ بخار و دخان زمین سے لپٹے رہیں بال بھر نہ اٹھیں۔
ردّسی و ششم : اقول: پہاڑ گرے تو دور تک زمین کو توڑتا اس کے اندر گھس جائے گا۔ یہ پہاڑ کی نہ اپنی طاقت ہے کہ اس میں میل نہیں نہ اپنا وزن کہ وزن تو جذب سے ہوا، جذب کا اثر جیسا اس پر ویسا ہی تم پر ، تم اوپر سے گر کر زمین میں کیوں نہیں دھنس جاتے۔ اگر کہے اس کا سبب صدمہ ہے کہ پہاڑ سے زیادہ پہنچتا ہے۔
اقول: صدمہ کو دو چیزیں درکار، شدتِ ثقل وقوتِ رفتار، اثر جذب کی مساوات دونوں کو اس میں برابر کرچکی کما عرفت ( جیسا کہ تُو جان چکا ہے۔ت) پھر تفاوت کیا معنی ! بالجملہ ہزاروں استحالے ہیں۔
یہ ہیں تحقیقاتِ جدیدہ اور ان کے مشاہدات چشم دیدہ، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
دلائل بر بناءِ جذب کُلی
ہم نمبر ۔۱۰ و ۱۱ میں روشن کر آئے کہ جاذبِ طبعی پر مجذوب کو اپنی پوری قوت سے جذب کرتا ہے اور یہ کہ قوت غیر شاعرہ کا جذب بحسب زیادت کافی کہ مجذوب زائد ہونا محض جہالت سفسطہ ہے اور ہیأت جدیدہ کے نزدیک ہر جسم میں اس کے مادے کے لائق ماسکہ ہے جس کو حرکت سے ابا ہے وہ اسی قدر محرک کی مزاحمت کرتا ہے۔ دلائل آئندہ کی انہیں روشن مقدمات پر بنا ہے اور وہیں ان کی آسانی کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہر شیئ کو کُل کُرہ جاذب نہیں بلکہ مرکز تک اُس کا جتنا حصّہ سطح مجذوب کے مقابل ہو کہ ساری زمین اپنی پوری قوت سے ہر شے کو جذب کرے تو اُن پر اور بھی مشکل ہو، ولہذا التساوی قوت جذب کے لیے مجذوبات کی سطح مواجہ زمین کی مساوات لی۔
ردّسی وہفتم : اقول: بداہۃً معلوم اور ہیأتِ جدیدہ کو بھی اقرار کہ ہوا اور پانی اُن میں اُترنے والی چیزوں کی ان کے لائق مزاحمت کرتے ہیں، پَر اور کاغذ کی زائد اورلوہے اور پتھر کی کم۔ یہ دلیل قاطع ہے کہ ان کا اترنا اپنا فعل ہے یعنی میل طبعی سے نہ فعل زمین کے اس کے جذب سے، اس لیے کسی فعل میں مزاحمت جس پر فعل ہورہا ہے اس کی مخالفت نہیں، بلکہ جو فعل کررہا ہے اس کے مقابلہ ہے۔ اب چار صورتیں ہیں۔
مزاحم اگرفاعل سے قوی ہو اور فعل خلاف چاہے فعل واقع کرے گا اور صرف روک چاہے یا فاعل سے قوت میں مساوی ہوا تو فعل ہونے نہ دے گا اور خفیف ہوا مگر معتدبہ تو دیر لگائے گا یعنی فعل تو حسب خواہش فاعل ہو مگر بدیر، اور معتدبہ کو اصلاً اثر مزاحمت ظاہر نہ ہوگا۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ زمین سے گزبھر اونچی ہوا آدھا گز بلکہ انگل بھر ہی اونچا پانی اجسام کی مزاحمت کرتے ہیں۔ کہاں ان کی ہستی اور کہاں ان کے مقابل چار ہزار میل تک زمین جس کا ایک ٹکڑا کہ ان کے برابر کا ہو ان سے کثافت وطاقت میں درجوں زائد ہے نہ کہ وہ پورا حصہ، یقیناً یہ اس کے سامنے محض کالعدم ہیں۔ ہرگز اس کے فعل میں نام کو مزاحم نہیں ہوسکتے۔تو روشن ہوا کہ اجسام کا اترنا زمین کا فعل نہیں بلکہ خود اُن کا جن کی نسبت سے ہوا اور پانی چاروں قسم کے ہوسکتے ہیں۔
ردّسی و ہشتم : اقول: مقناطیس کی ذرا سی بٹیا اور کہر باء کا چھوٹا سا دانہ لوہے اورتنکے کو کھینچ لیتے ہیں اگر جذب زمین ہوتی تو ان سے مقابل چار ہزار میل پر جو حصہ زمین ہے یہ خود ان جاذبوں کو اور ان سے ہزاروں حصے زائد کو یہ نہایت آسانی سے کھینچ لے جائے۔ اس کے سامنے ان کی کیا حقیقت تھی کہ یہ اس سے چھین کر اپنے سے ملالیتے۔ لاجرم قطعاً یہ زمین سے اتصال لوہے اور تنکے کا اپنا فعل تھا جس پر مقناطیس وکہرباء کی قوت غالب آگئی۔
ردّ سی و نہم : اقول: پکا سیب ٹپک پڑتا ہے ، اور کچا اگرچہ حجم میں اس سے زائد ہو نہیں گرتا اور شک نہیں کہ لوہے کا ستون جس کی سطح مواجہ اس سیب کے برابر ہو اگرچہ دس ہزار من کا ہو، زمین اُسے کھینچ لے گی، یہاں جس طاقت سے دس ہزار من لوہے کا ستون باآسانی کھنچ آئے گا۔ کچے سیب کا شاخ سے تعلق نہ چھوٹ سکے گا تو واجب کہ کچے پکے پھل سب یکساں ٹوٹ پڑیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا تو یقیناً جذبِ زمین باطل، بلکہ سب اپنے میل سے آتا ہے۔ پکے کا میل اس کے ضعیف تعلق پر غالب آیا ٹوٹ پڑاکچے کا اس کے قوی تعلق پر غالب نہ آسکا آویزاں رہا۔
ردّچہلم : اقول: آدمی کے پاؤں کی اتنی سطح ہے اس مسافت کا ستون آہنی دس ہزار گزارتقاع کا آدمی کیا۔ ہاتھی کی قوت سے بھی نہ ہل سکے گا اور بوجہ مساوات سطح مواجہ آدمی پر بھی جذب زمین اتنا ہی قوی ہے تو واجب کہ انسان کو قدم اٹھانا محال ہو دوڑنا تو بڑی بات ہے۔ یونہی ہر جانور کا چلنا، پرندکا اڑنا سب ناممکن ہوا لیکن واقع ہیں تو جذب باطل۔
رَدّ چہل ویکم: پانی اور تیل ہم وزن لے کر گلاس میں تیل ڈالو اوپر سے پانی کی دھار، پانی نیچے آجائے گا خود ہی ہیئات جدیدہ ( ط ص ۱۱۴۔۱۲) کو مسلم کہ اس کی وجہ پانی کا وزن ہونا ہے۔ یہ کلمہ حق ہے کہ بے سمجھے کہہ دیا اور جاذبیت کا خاتمہ کرلیا ، بربنائے جاذبیت ہر گز یہ پانی تیل سے وزنی نہیں۔ وزن جذب سے ہوتا ہے تو وزن جس پر جذب زیادہ ہو وہ اس پانی پر کم ہے کہ ایک کو وہ نسبت روغن زمین سے دور جسے تم نے نمبر ۱۶ میں کہا تھا کہ ادھر کا پانی اگرچہ زمین سے متصل ہے نسبت زمین قمر سے دور ہے دوسری دھار کی مساحت اس گلاس میں پھیلے ہوئے تیل سے کم تو اس کا جاذب چھوٹا کثرت مادہ سے وزنی بتاتے اس کا علاج ہموزن لینے نے کردیا۔ بلکہ وہ پورا پانی پڑنے سے بھی نہ پائے گا تو تیل کو اچھال دے گا تو ہر طرح پانی ہی کم وزنی ہے۔ اور تیل پہلے پہنچا تو اس پر واجب تا کہ پانی اوپر ہی رہتا۔ مگر جاذبیت ابطال کو نیچے ہی جاتا ہے۔ اب کوئی سبیل نہ رہی کہ سوا اس کے کہ اپنے مزعوم نمبر ۸ یعنی اتحاد ثقل ووزن کو استعفٰے دو اور کہو کہ اگرچہ پانی ہم وزن بلکہ کم وزن ہو ثقل طبعی میں تیل سے زائد ہے۔ لہذا اس سے اسفل کا طالب ہے اور اسے اعلٰی کی طرف دافع، اب ٹھکانے سے آگئے اور ثابت ہوا کہ جاذب باطل و مہمل اور میل طبعی مسجّل۔
ردّچہل و دوم : اقول: جذب زمین ہو تو واجب کہ جسم میں جتنا مادہ کم ہو اسی قدر روزن زائد ہو اور جتنا زائد اسی قدر کم مثلاً گز بھر مربع کا غذ کے تختے سے گز بھر مکعب لوہے کی سل بہت ہلکی ہو اور وہ سل جس کی سطح مواجہ ایک گز مربع اور ارتفاع سو گز ہے اور زیادہ خفیف ہو اور جتنا ارتفاع زائد اور لوہا کثیر ہوتا جائے اتنا ہی وزن ہلکا ہوتا جائے یہاں تک کہ کاغذ کا تختہ اگر تولہ بھرکا تھا تو وہ عظیم لوہے کی سل رتی بھر بھی نہ ہو نہ رتی کا ہزاروں لاکھوں حصہ ہو، وجہ سنئے جسم میں جتنا مادہ زیادہ ماسکہ زیادہ اور جتنی ماسکہ زیادہ جاذب کی مزاحمت زیادہ اور جتنی مزاحمت زیادہ اتنا ہی جذب کم اتنا ہی وزن کم کہ وزن تو جذب ہی سے پیدا ہوتا ہے جو کم کھینچے گا کم جھکے گا اور کم جھکنا ہی وزن میں کمی ہونا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا مادہ زیادہ اتنا ہی وزن کم۔ بالجملہ ہر عاقل جانتا ہے کہ قوی پر اثر ضعیف ہوتا ہے اور ضعیف پر قوی جب دو چیزوں کے جاذب مساوی ہوں ان کی قوتیں مادی ہوں گی اور مساوی قوتوں کا اثر اختلاف مادہ مجذوب سے بالقلب بدلے گا یعنی مجذوب میں جتنا مادہ زائد اتنا اس پر جذب کم ہوگا لاجرم اتنا ہی وزن کم ہوگا اس سے بڑھ کر اور کیا استحالہ درکار ہے، بقیہ کلام ردّ چوالیس میں آتا ہے۔
ردّچہل وسوم : اقول: جذب جس طرح اوپر سے نیچے لانے کا سبب ہوتا ہے، نیچے سے اوپر اٹھانے کا مزاحم ہوتا ہے کہ جاذب کے خلاف پر حرکت دینا ہے۔ پہلوان اور لڑکے کی مثال ردّ اڑتالیس میں آتی ہے اور ثابت ہوچکا کہ جتنا مادہ کم اتنا ہی جذب قوی تو واجب کہ ہزار گز ارتفاع والی لوہے کی سِل ایک چٹکی سے اٹھ آئے، جیسے کاغذ کا تختہ، اور کاغذ کا تختہ سو پہلوانوں کے ہلائے نہ ہلے۔
جیسے وہ لوہے کی سِل غرض جاذبیت سلامت ہے تو زمین و آسمان تہ و بالا ہو کر رہیں گے، تمام نظامِ عالم منقلب ہوجائے گا۔
رَدّ چہل و چہارم : اقول: واجب کہ وہ کاغذ کا تختہ اُس ہزار گز ارتفاع والی لوہے کی سِل سے بہت جلد اترے کہ جتنا مادہ کم اتنا ہی جذب زائد اتنا ہی جھکنا زائد ، اور جتنا جھکنا زائد اُتنا ہی اترنا جلد حالانکہ قطعاً اس کا عکس ہے تو واضح ہوا کہ اترنا جذب سے نہیں بلکہ ان کی اپنی طاقت سے جس میں مادہ زائد میل زائد تو جھکنا زائد تو اترنا جلد، رہا مزاحمت ہوا کا عذر (۱۲)
اقول اولاً ابھی ہم ثابت کرچکے کہ ہوا میں اصلاً تابِ مزاحمت نہیں۔
ثانیاً بالفرض ہو تو وہ باعتبار سطح مقابل ہوگی جس کا ہیأت ( عہ۱) جدیدہ کو اعتراف ہے اور سطح مقابل مساوی دونوں پر مزاحمتِ ہوا یکساں اور کاغذ پر جذب اُس سل سے ہزاروں حصے زائد تو اس کا جلد اترنا واجب، اگر کہیے جذب سے وزن بحسبِ مادہ پیدا ہوتا ہے جس میں جتنا مادہ زائد اُسی قدر اس میں وزن زیادہ پیدا ہوگا اُسی قدر زیادہ جھکے گا کہ وزن موجبِ تسفل ہوگا۔ یہاں سے نمبر۴۲ تا ۴۴ کا جواب ہوگیا۔
عہ۱: ط ص ۱۲ ۔ ہوا اجسام کواترتے وقت موافق انداز سے ان کی مقدار کامقابلہ کرتی ہے نہ کہ موافق ان کے وزن کے مزاحمت ایک قد کی گیند چمڑے کی یا لوہے کی ہوبرابر ہوگی ۔اھ۱۲۔
اقول: یہ محض ہوس خام ہے، اولاً کہ وزن جذب سے پیدا ہوگا اس کی خفیف نہیں ،مگر جھکنا،کہ بلاواسطہ جذب کا اثر ہے، نہ یہ کہ جذب مادہ میں کوئی صفت جدید پیدا کرے جس کا نام وزن ہواور حسب مادہ پیدا ہو اور اب وہ صفت جھکنے کا اقتضا کرے، وہاں صرف چار چیزیں ہیں مادہ اور اس کے ماسکہ اور اس کے موافق مزاحمت اور چوتھی چیز مطاوعت یعنی اثر جذب سے متاثر ہو کر جھکنا۔ پہلی تین چیزیں جذب سے نہیں صرف یہ چہارم اثر جذب ہے اور بلاشبہ خود جذب ہی کا اثر ہے، نہ کہ جذب نے تو نہ جھکایا۔ بلکہ اس سے کوئی اور پانچویں چیز پیدا ہوئی وہ جھکنے کی مقتدی ہوئی ایسا ہوتا اور وہ پانچویں جسے اب وزن کہتے ہو اثر جذب سے بحسبِ مادہ پیدا ہوتی تو یہاں دو سلسلے قائم ہوتے۔
اوّل جتنا مادّہ زائد ماسکہ زائد تو مقاومت زائد تو اثر جذب کم ان میں کوئی جملہ ایسا نہیں جس میں کسی عاقل کو تامل ہوسکے، اور اب یہ ٹھہرا جتنا مادہ زائد وزن زائد تو جھکنا زائد۔
دوم جتنا مادہ کم ماسکہ کم تو مقاومت کم تو اثر جذب زائداور اب یہ ہوا کہ جتنا مادہ کم وزن کم تو جھکناکم۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جتنا مادہ زائد اثر جذب کم اور جھکنا زیادہ اور جتنامادہ کم اثر جذب زائد اور جھکنا کم۔تو جھکنا اثر ِ جذب کا مخالف ہوا کہ اس کے گھٹنی سے بڑھتا اور بڑھنے سے گھٹتا ہے۔ کوئی عاقل اسے قبول کرسکتا ہے، اثر جذب جھکنے کے سوا اور کس جانور کا نام تھا اس کا اثر شیئ کو اپنی طرف لانا اور قریب کرنا ہے تو زیادت قرب اس کی زیادت ہے۔، اور کمی کمی اور جب مجذوب اوپر ہو تو قُرب نہ ہوگا مگر جھکنے سے تو زیادہ جھکنا ہی اس کی زیادت ہے۔ اور کم جھکنا بھی اس کی کمی نہ کہ عکس کہ بداہۃً باطل ہے۔
ثانیاً بفرض غلط ایسی بدیہی بات باطل مان لی جائے تو اب بھی ان تینوں نمبروں سے رہائی نہیں، اب نمبر ۴۲ کی یہ تقریر ہوگی کہ کاغذ کا تختہ اور وہ دس ہزار گز ارتفاع والی لوہے کی سل، (تول کانٹے کی) ہموزن ہوں۔
اقول: وجہ یہ کہ جذب اختلاف مادہ مجذوب سے بالقلب بدلے گا یعنی جتنا مادہ زائد جذب کم، کما تقدم، اور وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے۔(۵) اور مادہ جسم سے بالا ستقامت بدلے گا یعنی جتنا مادہ زائد وزن زائد، جذب وزن کا سبب ہے۔ سبب جتنا ضعیف ہوگا مسبب کم اور مادہ وزن کا محل ہے۔ محل جتنا وسیع ہوگا حال زیادہ ۔ تو بحال اتحاد جاذب پر دو جسم میں وزن برابر رہے گا اگرچہ مادے کتنے ہی مختلف ہوں۔ لوہے کی سِل میں بتقاضائے کثرت مادّہ جتنا وزن بڑھنا چاہیے بتقاضائے ضعف جذب اتنا ہی گھٹنا لازم اور کاغذ کے تختے میں بوجہ قلت مادہ جتنا وزن گھٹنا چاہیے بوجہ قوتِ جذب اتنا ہی بڑھنا لازم ہے کہ یہ ضعف وقوت اور وہ کثرت و قلت دونوں بحسب مادہ ہیں۔ اسے دو رنگتوں سے سمجھو کہ ایک دوسرے سے دس گناہ گہری ہے گہری میں ایک گز کپڑا ڈبویا اس پر دس گنا رنگ آیا ہلکی میں دس گز کپڑا ڈالا اس پر گہرا رنگ آیا لیکن ہر گز پر ایک حصہ ہے۔ تو مجموع پر دس حصے ہوا کہ اول کے برابر ہے۔ یونہی فرض کرو ایک حصہ جذب سے ایک حصہ مادہ میں ایک اس پر وزن پیدا ہوتا ہے تو دس حصے جذب سے ایک حصہ مادہ میں دس سیرہوگا اور ایک حصہ جذب سے اور دس حصے مادہ میں بھی دس سیر کہ حصہ جذب سے ہر حصہ مادہ میں ایک سیر ہے تو ایک حصہ مادہ میں دس جذب اور دس حصے مادہ میں ایک جذب سے حاصل دونوں میں دس سیر وزن ہوگا اور نمبر ۴۳ میں یہ کہا جائے گا کہ جس آسانی سے کاغذ کے تختے کو زمین سے اٹھالیتے ہو اس ہزاروں گز ارتفاع والی آہنی سِل کو بھی اسی آسانی سے اٹھا سکو جس طرح وہ سِل ہزار آدمیوں سے ہل بھی نہیں سکتی کاغذ کاتختہ بھی جنبش نہ کھاسکے گا۔ کہ دونوں کا وزن برابر ہے اور نمبر ۴۴ میں یہ کہ کاغذ اور وہ آہنی سل دونوں برابر اتریں اور لوازم سب باطل ہیں۔ لہذا جاذبیت باطل، غرض یہاں دو نظریے ہوئے ایک حقیقت بربنائے جاذبیت کہ جسم میں جتنامادہ زائد اتنا ہی وزن کم۔ دوسرے اس باطل کے فرض پر یہ کہ جب جاذب مساوی ہوں تو سب چھوٹے بڑے اجسام ہموزن ہوں گے اور دونوں صریح باطل ہیں تو جاذبیت باطل،
رَدچہل و پنجم: اقول: مساوی سطح کی تین لکڑیاں بلندی سے تالاب میں گرتی ہیں، ایک روئے آب پررہ جاتی ہے۔ دوسری جیسے عود غرقی تہ نشین ہوتی ہے۔تیسری پانی کے نصف عمق تک ڈوب کر پھر اوپر آتی اور تیرتی رہتی ہے۔یہ اختلاف کیوں؟ ا س کاجواب کچھ نہ ہوگا، مگر یہ کہ ان کے مادوں کا اختلاف جس میں مادّہ سب سے زائد تھا تہ نشین ہوئی، جس میں سب سے کم تھا روئے آب پر رہی، اور متوسط متوسط، مگر بربنائے جاذبیت اس جواب کی طرف راہ نہیں، حق خفیف پر تو عکس لازم تھا کہ جس میں مادہ زائد اس پر جذب کم اور اسی کا وزن کم تو اس کو روئے آب پر رہنا چاہیے تھا اور جس میں مادہ سب سے کم اس کا تہ نشین ہونا اور اس فرض باطل پر کہا جائے گاکہ مختلف مادوں پر مساوی جذب مساوی پیداکرے گا پھر اختلاف کیوں؟
ردّچہل وششم: اقول: تیسری لکڑی کا نصف عمق سے آگے نہ بڑھنا کیوں ؟ زمین جس قوت سے اُسے کھینچ کر لائی تھی اب بھی اسی قوت سے کھینچ رہی ہے کہ ہنوز منتہٰی تک وصول نہ ہوا ملا آب کی مقاومت ردّ سیم میں باطل ہوچکی اور ہو بھی تو وہ سطح آب سے ملتے ہی تھی۔ جب جاذب واحد مقاوم واحد بلکہ اب جذب اقوٰی ہے کہ زمین سے قرب بڑھ گیا اور مقاومت کم ہے کہ ملاء آب آدھا رہ گیا تو آگے شق نہ کرنا کیا معنٰی، اگر کہئے اس کا پانی کے اندر جانا جذب زمین سے نہ تھا بلکہ اس صدمہ کا اثر جو اسکے گرنے سے پانی کو پہنچا پہلی لکڑی نے پانی کو اتنا صدمہ نہ دیا کہ اسے شق کرتی۔ دوسرے نے پورا صدمہ دیا اور تہ تک پہنچی۔ تیسری متوسط تھی متوسط رہی۔
اقول اولاً : جذب مان کرجانب اسفل حرکت کو جذب سے نہ ماننا سخت عجب ہے صدمہ اس حرکت ہی نے تو دیا کہ زمین اسے بقوت کھینچ کر لائی تھی اسی قوت نے نصف پانی شق کیا آگے کیوں تھک رہی ۔ اگر زمین میں یہیں تک لانے کی قوت تھی تو دوسری لکڑی کو کیسے تہ تک لے گئی۔
ثانیاً صدمہ کے لیے دو چیزیں درکار، شدت ثقل متصادم اور اس کی قوتِ رفتار، پتے کو کتنی ہی قوت سے زمین پر مارو یا کیسے ہی بھاری گولے کو زمین پر آہستہ سے رکھ دو صدمہ نہ دے گا لیکن اگر گولے کو قوت سے زمین پر پٹکوصدمہ پہنچائے گا اور اس میں قوتِ رفتار کو شدتِ ثقل سے زیادہ دخل ہے بندوق کی گولی جو کام دے گی اس سے دس گنا سیسا ہاتھ سے پھینک کر مارو وہ کام نہیں دے سکتا۔
صورتِ مذکور ہ میں جاذبیت کی بدنصیبی سے قوتِ رفتار و شدتِ ثقل دونوں میل طبعی کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں۔ جب اجسام اپنی ذات میں ثقل رکھتے اور اپنی قوت سے نیچے آتے ہیں اور وہ مختلف ہیں تو جس میں ثقل زائد اس میں میل زائد، اُسی کی رفتار تیز، اسی کا صدمہ قوی، اور کم میں کم،اوسط میں اوسط، اور بربنائے جاذبیت حق حقیقت لیجئے تو پہلی میں مادہ سب سے کم تو اس پر جذب سب سے زائد، تو اسی کی رفتار قوی، اور وہی زیادہ بھاری ، تو اس سے صدمہ سب سے پہلے اقوٰی پہنچا تھا اور دوسری میں مادہ سب سے زائد تو جذب سب سے کم تو رفتار سب سے ضعیف اور وزن سب سے ہلکا تو اُسی سے صدمہ نہ پہنچنا تھا اور اس فرض باطل پر سب پر اثر برابر پھر اختلافِ صدمہ یعنی چہ۔
ردّچہل و ہفتم: اقول: تو اس تیسری لکڑی کا ڈوب کر اچھلنا کیوں؟ اس میں خود اوپر آنے کی میل نہیں(۲) ورنہ لکڑیاں اڑتی پھرتیں نہ یہ زمین کا دفع ہے کہ وہ تو جذب کررہی ہے نہ کسی کوکب کا جذب کہ وہ ہوتا تو جب اس سے قریب اور زمین سے دور تھی اور اس وقت گرنے نہ دیتا نہ کہ اسی وقت خاموش بیٹھا رہا جب زمین کھینچ کر اسے نصف آب تک لے گئی اور جاذبیت ارض بوجہ قرب زیادہ ہوگئی اس وقت جاگا اور اپنی مغلوب جاذبیت سے اوپر لے گیا اور ایسا ہی تھا تو پہلی لکڑی اوپرکیوں نہیں اٹھالیتا۔پانی کے چیرنے سے ہوا کا چیرناآسان ہے، غرض کہ کوئی صورت نہیں سوا اس کے کہ پانی نے اسے اچھالا اور اپنے محل سے واقع کرکے اوپر لاڈالا۔ پانی نہ ہوتا تو زمین تینوں کو کھینچ کر اپنے سے ملالیتی ۔ اب سوال یہ ہے کہ پانی بھی تو زمین ہی کا جز ہے (۱۸) تو وہ بھی جاذب ہوتا نہ کہ دافع ، اگر کہئے یہ دافع صدمہ کا جواب ہے ،جسم کا قاعدہ ہے کہ دوسرا جسم جب اس سے مقاومت کرتا ہے یہ اس کو اتنی ہی طاقت سے دفع کرتا ہے جتنے زور کا صدمہ تھا۔ یہ دفع زمین میں بھی ہے۔ گیند جتنے زور سے اُس پر مارو اتنے ہی زور سے اوپر اٹھے گی۔
اقول اولاً : صدمہ کا خاتمہ اُوپر ہوچکا کہ حق حقیقت پر بالعکس ہونا تھا اور فرض باطل پہ مساوی، اور یہ کہ اس کا ماننا میل طبعی پر ایمان لانا اور جاذبیت کو رخصت کرنا ہے اور جب صدمہ نہیں جواب کا ہے کا۔
ثانیاً دوسری لکڑی نے تو اتنا صدمہ دیا کہ تہ تک شق کرگئی اتنی ہی قوت سے اسے کیوں نہ دفع کیا۔
ثالثاً پانی جواباً دفع چاہتا اور زمین جذب کررہی ہے، یہ پانی اس کی کیا مزاحمت کرسکتا نہ کہ اس پر غالب آجائے اُس سے چھین کر اوپر لے جائے۔
رابعاً پانی کو صدمہ تو اس وقت پہنچا جب لکڑی اس کی سطح سے ملی اُس وقت جواب کیوں نہ دیا؟ اگر کہیے پانی لطیف ہے اس وقت تک گرنے والی لکڑی کی طاقت باقی تھی پانی شق کرتا مگر جب اس کی طاقت پوری ہوئی اس وقت پانی نے جواب دیا۔
اقول: لکڑی کی طاقت جذبِ زمین سے ہوتی تو نصف پانی تک جا کر تھک نہ رہتی ضرور جذب نہیں بلکہ لکڑی اپنی طاقت سے آئی جو اس کی ہستی ہے پھر نصف پانی چیر سکی پھر پانی نے پلٹا دیا۔ بالجملہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوا اس کے کہ یہ لکڑی پہلی لکڑی سے بھاری ہے۔ اس نے اپنی متوسط قوت سے نصف آب تک مداخلت کی مگر پانی سے ہلکی ہے اور ہر بھاری چیز اسفل سے اپنا اتصال چاہتی ہے۔، اس سے ہلکی چیز اگر پہلے پہنچی ہوتی ہے اور یہ قدرت پائے تو اُسے اوپر پھینک کر خود وہاں مستقر ہوتی ہے جیسے گلاس کے تیل اور پانی کی مثال میں گزرا۔ لہذا دوسری لکڑی کو نہ پھینکا کہ وہ پانی سے بھاری تھی اسفل اسی کا محل ہے تو ثابت ہوا کہ ثقیل طالب سفل ہے ، اور اثقل طالبِ اسفل، اُسی کا نام میل طبعی ہے، تو جاذبیت باطل و مہمل، یہ دونوں باتوں سے ردجا ذبیت ہوا، ایک تو یہی ، دوسری یہ کہ ان میں خود وزن ہے جو جانبِ اسفل جھکاتا ہے، جس پر اس اختلاف کی بناء ہے پھر جاذبیت کے لیے اختصار اً قصر مسافت کیجئے تو وہی جملہ کافی ہے کہ بداہۃً معلوم کہ پہلے کا اوپر ٹھہرنا اور تیسری کا نصف آب تک جا کر پلٹنا دونوں باتیں قطعاً خلاف اصل مقتضی ہیں اور یہ نہیں مگر مزاحمت آب سے پانی نہ ہوتا تو یقیناً تینوں لکڑیاں تہ تک پہنچیں اور بلاشبہ اس سے ہزار حصے زائد پانی فصلِ زمین کا مزاحم نہ ہوسکتا تھا تو قطعاً یہ اقتضائے زمین نہیں بلکہ خود ان لکڑیوں کی مختلف قوت، تو جاذبیت باطل و مہمل اور میل طبعی مسجل ، والحمد ﷲ العلی العظیم الاجل فضل اﷲ تعالٰی سیدنا مولینٰا محمداً واٰلہ وصحبہ وسلم وبجل اٰمین۔
دلائل قدیمہ
بفضلہ تعالٰی ردّنافریت میں وہ بارہ اور ردجاذبیت میں سینتالیس فیض قدیر سے قلب فقیر پر فائض ہیں۔ نافریت پر تو کسی کتاب میں بحث اصلاً نظر سے نہ گزری۔
جاذبیت پر بعض کلام دیکھا گیا وہ صرف ایک دلیل جس کی ہم توجیہ بھی کریں اور طرز بیان سے ایک کو تین کردیں۔
ردّ چہل و ہشتم : زمین میں جذب نہ ہو تو چاہیے کہ زمین کا کوئی جز اس سے جدا نہ کرسکیں کہ قوت زمین کا مقابلہ کون کرے( مفتاح الرصد)
اقول: اسی جذب کلی پر مبنی ہے کہ برتقدیر جذب وہی قرینہ عقل تھا اور ہماری تقریرات سابقہ سے واضح کہ جتنا پارہ زمین لیا جائے اس میں اتنی قوت جذب ہے جس کا انسان مقابلہ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے مقابل کو اگرچہ ہزاروں من کا ہو بے تکلف کھینچ لے گا اور وہ پوری طاقت پر مقابل پر مصروف ہے تو نہ صرف جزو زمین بلکہ کسی پتے کا زمین سے اٹھانا ناممکن ہے قلت مادہ کے سبب وزن نہ رہے تو جذب کی قوت تو ہے تو دیکھو جس کا مقابلہ کرنا ہوگا ٹین کی ہلکی طشتری کو دو برس کا بچہ سہل سے اٹھا سکتا ہے لیکن اگر کوئی پہلوان دونوں ہاتھ سے اسے مضبوط تھامے اپنے سینے سے ملائے ہے اب بچہ کیا کمزور مرد بھی ہر گز اسے نہیں ہلاسکتا۔
ردّچہل ونہم : زمین میں جذب ہو تو اس کے اجزاء میں بھی ہو کہ طبیعت متحد ہے تو چاہیے کہ بڑے ڈھیلے کے نیچے چھوٹا ملادیں اس سے چھٹ جائے بلکہ بڑا خود ہی چھوٹے کو کھینچ لے (مفتاح الرصد)
اقول: اس کا ظاہر جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا اگر زمین اسے نہ کھینچتی۔ جذب زمین کے مقابل بڑے ڈھیلے کا جذب کیا ظاہر ہو مگر مقناطیس و کہرباء اس جواب کو قائم نہ رکھے گا۔ جذب زمین کے مقابل اس کا جذب کیسے ظاہر ہوتا ہے، یوں ہی بڑے ڈھیلے کا ظاہر ہوتا اگر اس میں جذب ہوتا لیکن وہ ہر گز جذب نہیں کرتا تو زمین بھی جذب نہیں کرتی کہ طبیعت متحد ہے۔ فافھم۔
ردپنجا ہم : زمین نافریت کرکے بچ جاتی ہے۔ یہ حقیر چیزیں تو نہ بچ سکتیں۔ اگر کہیے آفتاب ضرور ان کو جذب کرتا ہے مگر زمین بھی تو کھینچتی ہے اور یہ اس سے متصل اور آفتاب سے کروڑوں میل دور، لہذا جذب زمین غالب آتا اور آفتاب انہیں نہیں اٹھا سکتا۔ ہم کہیں گے زمین کا اپنے اجزاء کو جذب ثابت ہے دیکھو ابھی دو دلیل سابق ( مفتاح الرصد) ۔
تذییل : کلام قدماء میں ایک اور دلیل مذکور کہ جذب (عہ۱ ) ہوتا تو چھوٹا پتھر جلدآتا ( شرح تذکرہ بطوسی للعلامہ الخضری ) یعنی ظاہر ہے کہ جاذب کاجذب اضعف پر اقوی ہوگا تو چھوٹا پتھر جلد کھینچے حالانکہ عکس ہے اس سے ظاہر کہ وہ اپنی میل طبعی سے گرتے ہیں جو بڑے میں زائد ہیں۔
اقول: اضعف پر اقوٰی ہونا مساوی قوتو ں میں ہے اور یہاں چھوٹے کا جاذب بھی چھوٹا ہے تو اتنے ضمیمہ کی حاجت ہے کہ دونوں کی سطح مواجہہ زمین مساوی ہو۔ اب حق حقیقت پر یہ بعینہ رد چوالیس ۴۴ ہوگا۔ اور اس فرض باطل پر اتنا بھی کافی نہ ہوگا کہ چھوٹا اب بھی جلد نہ آئے گا بلکہ برابر، کمامر، اب یہ صورت لینی ہوگی کہ بڑا ارتفاع ہیں ہزار گنا اور سطح مواجہہ میں مثلاً آدھا ہے۔ اب یہ اعتراض پورا ہوگا کہ چھوٹے کا جاذب ہے۔ فرض کرو بڑے میں دس حصے مادہ ہے اور چھوٹے میں ایک حصہ، اگر سطح مواجہہ برابر ہوتی دونوں دس دس سیر وزن ہوتا جس کی تقریر گزری، لیکن چھوٹے کی سطح مواجہہ دو چند ہے تو بڑے میں دس سیر وزن ہوگا اور چھوٹے میں بیس سیر، لہذا اسی کا جلد آنا لازم، حالانکہ قطعاً اس کا نصف ہے تو جاذبیت باطل و جزاف ہے اور میل طبعی کا میدان ہموار صاف ہے، واﷲ سبحانہ و تعالٰی اعلم۔
عہ۱: یہ نو ٹ الرضا نمبر سے لکھا جائے جس میں ایک نواب صاحب سے مکالمہ ہے الرضا کا یہ مقالہ مل نہ سکا۔ عبدالنعیم عزیزی۔
دلیل ۸۱: اقول : وہ کُرہ موجود جس کا مرکز تحت حقیقی ہے ،فلک ہے یا شمس ،یا ارض ،یا اور کوئی سیاہ یا ثابتہ یا قمر۔
اول :تو ہیئت جدیدمان نہیں سکتی کہ وہ وجود افلاک ہی کے قائل نہیں۔
دوم : ضرور اُس کا مدعا ہے کہ شمس کو ساکن فی الوسط مانتی ہے ،ضرور کہ اہلِ ہیئت جدیدہ جب دوپہر کو زمین پر سیدھے کھڑے ہوں تو سَر نیچے ہو اور ٹانگیں اوپر ،اس لیے کہ سر تخت حقیقی سے قریب ہے اور پاؤں دور ،جب زمین کی حرکت مستدیر قریب غروب اس حالت پرلائے کہ سر اور پاؤں کا فعل مرکز شمس سے برابر رہ جائے تو اب نہ سر اوپر نہ پاؤں ،ہاں آدھی رات کوآدمیت پر آئیں کہ سر اوپر ہوجائے کہ تحت سے بعید ہے اورپاؤں نیچے کہ قریب ہیں ،جب بعد طلوع پھر وہی حالت تساوی ہو سر اور پاؤں دوبارہ برابر ہوجائیں ،جب دوپہر ہو پھر سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہوجائیں۔ ہمیشہ بے جنبش کیے یونہی قلابازیاں کھائیں ،یہی حال ہر روز صحن وسقف کا ہو کہ کبھی صحن اوپر اور چھت نیچے کبھی بالعکس ،یہی حال زمین میں قائم درختوں کا کہ آدھی رات کو جڑ نیچے ہے اور شاخیں اوپر۔ دوپہر ہوتے ہی پیڑ بدستور رہے مگر شاکیں نیچے ہوگئیں اور جڑ اوپر ،دوپہر کے وقت جو بخار یا دھواں اُٹھے کہو کہ نیچے گرا ،جو پتھر گرے کہو کہ اوپر اڑا۔ یوں ہی بے شمار استحالے ہیں۔ دیگر سیارہ و اقمار و ثوابت کا بھی یہی حال ہے کہ اُن میں جس کسی کا بھی مرکز لو گے ایسے ہی استحالے ہوں گے۔ لاجرم مرکز زمین ہی وہ مرکز ساکن ہے اور زمین کی حرکت اینیہ باطل۔
دلیل ۸۳ : اقول ، ہر عاقل جانتا ہے کہ حرکت موجبِ سخونت و حرارت ہے ،عاقل درکنار ہر جاہل بلکہ ہر مجنون کی طبیعت غیر شاعرہ اس مسئلہ سے واقف ہے ،لہذا جاڑے میں بدن بشدت کانپنے لگتا ہے ،کہ حرکت سے حرکت پیدا کرے بھیگے ہوئے کپڑوں کو ہلاتے ہیں کہ خشک ہوجائیں ،یہ خود بدیہی ہونے کے علاوہ ہیئت جدیدہ (عہ۱)کو بھی تسلیم ،
عہ۱ : ح صفحہ نمبر ۲۴۱
بعض اوقات آسمان سے کچھ سخت اجسام نہایت سوزون و مشتعل گرتے ہیں ،جن کا حدوث بعض کے نزدیک یوں ہے کہ قمر پتھر کے آتشی پہاڑوں سے آتے ہیں کہ شدت اشتعال کے سبب جاذبیت قمر کے قابو سے نکل کر جاذبیت ارض کے دائرے میں آکر گر جاتے ہیں ،اس پر اعتراض ہوا کہ زمین پر گرنے کے بعد تھوڑی ہی دیر میں سرد ہوجاتے ہیں ،یہ لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرنے میں کیوں نہ ٹھنڈے ہوگئے؟ اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ اگر و ہ نرے سرد ہی چلتے یا راہ میں سرد ہوجاتی جب بھی اس تیز حرکت کے سبب آ گ ہوجاتے کہ حرکت موجب حرارت اور اس کا افراط باعث اشتعال ہے۔ اب حرکت زمین کی شدت اور اس کے اشتعال وحدت کا اندازہ کیجئے۔ یہ مدار جس کا قطر اٹھارہ کروڑ اٹھاون لاکھ میل ہے اور اس کا دورہ ہر سال تقریباً تین سو پینسٹھ ۳۶۵ دن پانچ گھنٹے اڑتالیس منٹ میں تمام ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ حرکت حرکتِ زمین ہوتی یعنی ہر گھنٹے میں اڑسٹھ ہزار میل کہ کوئی تیز سے تیز ریل اس کے ہزارویں حصے کو نہیں پہنچتی پھر یہ سخت قاہر حرکت نہ ایک دن نہ ایک سال نہ سو برس بلکہ ہزار ہا سال سے لگاتار بے فتور دائمہ مستمر ہے تو اس عظیم حدت و حرارت کا کون اندازہ کرسکتا ہے جو زمین کو پہنچتی ،واجب تھا کہ اس کا پانی کب کا خشک ہوگیا ہوتا اس کی ہوا آگ ہوگئی ہوتی ،زمین دہکتا انگارہ بن جاتی جس پر کوئی جاندار سانس نہ لے سکتا پاؤں رکھنا تو بڑی بات ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ زمین ٹھنڈی ہے ،اس کا مزاج بھی سرد ہے ،اس کا پانی اس سے زیادہ خنک ہے ،اس کی ہوا خوشگوار ہے ،تو واجب کہ یہ حرکت اس کی نہ ہو بلکہ اس آگ کے پہاڑ کی جسے آفتاب کہتے ہیں جسے اس حرکت کی بدولت آگ ہونا ہی تھا۔ یہی واضح دلیل حرکتِ یومیہ جس سے طلوع اور غروب کواکب ہے زمین کی طرف نسبت کرنے سے مانع ہے کہ اُس میں زمین ہر گھنٹے میں ہزار میل سے زیادہ گھومے گی۔ یہ سخت دورہ کیا کم ہے ،اگر کہے یہی استحالہ قمر میں ہے کہ اگرچہ اس کا مدار چھوٹا ہے مگر مدت بارھویں حصے سے کم ہے کہ گھنٹے میں تقریباً سوا دو ہزار میل چلتا ہے۔اس شدید صریح حرکت نے اسے کیوں نہ گرم کیا۔
اقول : یہ بھی ہیئت جدیدہ پر وارد ہے جس میں آسمان نہ مانے گئے ،فضائے خالی میں جنبش ہے تو ضرور چاند کا آگ اور چاند کا سخت دھوپ ساگرم ہوجانا تھا لیکن ہمارے نزدیک کل فی فلک یسبحون ۱ ہر ایک ایک گھیرے میں پیرتا ہے۔
(۱القرآن الکریم ۳۶ /۴۰)
ممکن کہ فلک قمر یا اس کا وہ حص جتنے میں قمر شناوری کرتا ہے خالق عظیم عزجلالہ ،نے ایسا سرد بنایا ہو کہ اس حرارت حرکت کی تعدیل کرتا اور قمر کو گرم ہونے دیتا ہو جس طرح آفتاب کے لیے حدیث میں ہے کہ اُسے روزانہ برف سے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ ورنہ جس چیز پر گرتا جلا دیتا۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامہ رضی اللہ تعالٰی عن صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم۔
دلائل قدیمہ
یہاں ہم نے زیادہ توجہ گردشمس دورئہ زمین کے ابطال پر رکھی ،فصل اول میں رَدّ اول عام کے سوا باقی گیارہ اور فصل سوم میں سات اخیر کے سوا باقی بیس سب اسی کے ابطال میں ہیں ، اگلوں نے ساری ہمت گرد محو حرکت زمین کے ابطال پر صرف کی ہم اُن میں سے وہ انتخاب کریں جن سے اگرچہ جواب دیا گیا بلکہ بہت کو خود مستدلین نے رَد کردیا لیکن ہم ان کی تشہید و تائید کریں گے اور خود ہیئت جدیدہ کے اقراروں سے اُن کا تام و کامل ہونا ثابت کردیں گے پھر زیادات میں وہ جن کی اور طرح توجیہہ کرکے تصحیح کریں گے پھر تذییل میں اگلوں سے وہ دلائل جن پر اگرچہ انہوں نے اعتماد کیا مگر ہمارے نزدیک باطل و ناتمام ہیں، وباﷲ التوفیق۔
دلیل ۹۰ : بھاری پتھر(عہ۱) اوپر پھینکیں سیدھا وہیں گرتا ہے ،اگر زمین مشرق کو متحرک ہوئی تو مغرب میں گرتا کہ جتنی دیر وہ اوپر گیا اور آیا اس میں زمین کی وہ جگہ جہاں سے پتھر پھینکا تھا۔ حرکت زمین کے سبب کنارہ مشرق کو ہٹا گئی۔
عہ ۱: یہ اور اس کے بعد کی دلیل تذکرہ طوسی و شرح حکمت العین و ہدیہ سعدیہ تک اکثر کتب میں ہے۔
اقول : زمین کی محوری چال ہر سیکنڈ ۴ء ۵۰۶ گز ہے اگر پتھر کے جانے آنے میں ۵سیکنڈ صرف ہوں تو وہ جگہ ۲۵۳۲ گز سرک گئی پتھر تقریباً ڈیڑھ میل مغرب کو گرنا چاہیے حالانکہ وہیں آتا ہے۔
دلیل ۹۱: دو پتھر(عہ۲) ایک قوت سے مشرق و مغرب کو پھینکیں تو چاہیے کہ مغربی پتھر بہت تیز جاتا معلوم اور مشرق سست ،نہیں نہیں بلکہ مشرقی بھی الٹا مغرب ہی میں گرے۔ اقول : یا پھینکنے والے کے ماتھے پر گرے۔ مثلاً وہ پتھر اتنی قوت سے پھینکے تھے کہ دونوں طرف تین سیکنڈ میں ۱۹ گز پر جاکرگرتے۔ سنگ غربی موضع رمی سے جب تک ۱۹ گز مغرب کو ہٹاہے اتنی دیر موضع رمی ۱۵۱۹ گز مشرق کو ہٹ گیا تو یہ پتھر موضع رمی سے ۱۵۳۸ گز کے فاصلے پر گرے گا اور سنگ مشرق وہاں سے انگل بھی نہ سرکنے پائے گا کہ موضع رمی زمین کی حرکت سے اُسے جالے گا۔ اب اگر پھینکنے والے نے اپنے محاذات سے بچا کر پھینکا تھا تو یہ پتھر تین سیکنڈ میں ۱۹ گز مشرق کو چل کر گرجائے گا اور اتنی دور میں موضع رمی ۱۵۱۹ گز تک پہنچے گا یہ موضع رمی سے۱۵۰۰ گز مغرب میں گرے گا اور اگر محاذات پر پھینکا تھاتو معا زمین کی حرکت سے پھینکنے والا پتھر سے ٹکرائے گا۔ اور پتھر اس کے لگ کر و ہیں کا وہیں گرجائے گا لیکن ان میں سے کچھ نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ حرکت زمین باطل ہے۔
عہ ۲ : شرح خضری سے ہدیہ سعیدیہ اسی دلیل سے یوں بھی ثابت کرتے ہیں کہ تیر و طائر و ابر مشرق کو چلتے معلوم ہوں (شرح حکمت العین) اسی سے یوں کہ مشرق کو جاتا مغرب کو چلتا نظر آئے۔(خضری)
اقول : بلکہ مشرق کوجانا مغرب کوجانا ہو کہ اب تک پرند کی جگہ جو پتھر مشرق کو سر کے یہ جگہ سیکڑوں جگہ نکل جائے گی تو یہ اس جگہ سے تجاوز کرنے درکنار ہمیشہ اس سے پیچھے ہی رہے گا۔۱۲ منہ غفرلہ۔
ثم اقول : بلکہ اولٰی یہ کہ یہ دلیل بایں تفصیل قائم کریں جس سے دو دلیل ہونے کی جگہ تین دلیلیں قائم ہوجائیں کہ جہاں شقوق واقع ایک ہی ہوسکے وہ ایک ہی دلیل ہوگی اگرچہ شقیں سو ہوں اور جہاں ہر شق واقع ہوسکے ایک پر استحالہ ہو وہ ہر شق جدا دلیل ہے ،درخت کی ایک شاخ سے دو پرند مساوی پرواز کے مساوی مدت تک مثلاً ایک گھنٹہ اُڑے ،ایک مغرب دوسرا مشرق کو ،اگر اُن کی پرواز رفتار زمین کے مساوی ہے ۔گھنٹے میں ایک ہزار چھتیس میل تو غربی اس شاخ سے دو ہزار بہتر میل پر پہنچا کہ جتنا وہ مغرب کو چلا اسی قدر یہ شاخ زمین کے ساتھ مشرق کو گئی اور مشرق بال بھر بھی شاخ سے جدا نہ ہوا کہ جتنا اُڑتا ہے زمین بھی اتنی ہی رفتار سے شاخ کو اس کے ساتھ ساتھ لارہی ہے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مساوی پر واز والے مساوی فصل پاتے ہیں۔
دلیل ۹۲ : اگر ان کی پرواز رفتارِ زمین سے زائد ہے مثلاً گھنٹے میں ۱۰۳۷ میل تو غربی ۲۰۷۳ میل مغرب میں پہنچے گا اور اس کی مساوی پرواز والا مشرقی ۱۰۳۷ میل اڑکر صرف ایک ہی میل مشرق کو طے کرسکے گا یہ بھی بداہۃً باطل وخلاف مشاہدہ ہے ۔
دلیل ۹۳ : اگر ان کی پرواز رفتارِ زمین سے کم ہے مثلاً گھنٹے میں ۱۰۳۵ میل تو غربی ۲۰۷۱میل پر ہوجائے گا۔ اور اس کا ہم پرواز مشرقی جس نے گھنٹہ بھر محنت کرکے ۱۰۳۵ میل مشرق کو طے کیے۔ نتیجہ یہ پائے گا کہ الٹا اس شاخ سے اک میل مغرب میں گرے گا۔ اڑا تو مشرق کو اور پہنچا مغرب میں ،یہ سب سے بڑھ کر باطل اورخلافِ مشاہدہ ہے۔
دلیل ۹۴: جتنی مسافت قطع کریں اس سے صد ہا گنا فاصلہ ہوجائے۔ (خضری) یعنی ہر عاقل جانتا ہے کہ مثلاً طائر جس مقام سے جتنا اڑے وہاں سے اسے اتنا ہی فاصلہ ہوگا لیکن یہاں اڑے صرف ایک میل اور فاصلہ ہزار میل سے زائد ہوجاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں اگر طائروں کی پرواز گھنٹے میں ایک میل ہے تو شرقی ۱۰۳۵ میل مغرب میں پڑے گا اور غربی ۱۰۳۷ میل۔
دلیل ۹۵ : موضع انفصال اُس شاخ سے مثلاً شاخِ مذکور سے دونوں کے فاصلے کا مجموعہ اتنی دیر میں حرکتِ زمین کا دو چند یا زائد یا زائد کچھ خفیف کم ہو،(خضری)۔
اقول : اول : اُس حالت میں ہے کہ دونوں پرندوں کی پرواز باہم متساوی ہو۔ اور دوم جب کہ غربی کی پرواز شرقی سے زائد ہو ،اور سوم جب کہ عکس ہو۔ اور خفیف اس لیے کہ تیر یا طائر یا گولا عادۃً کوئی زمین کا دسواں حصہ بھی نہیں چلتا اور دونوں طائروں کی پرواز ایک میل ہے تو شرقی ۱۰۳۵ میل مغرب میں پڑے گا اور غربی ۱۰۳۷ میل پر گریں گے ۔ جب کہ ابھی گزرا مجموعہ ۲۰۷۲ کہ گھنٹے میں رفتار زمین کا دو چند ہے اور غربی ایک ساعت میں دو میل اڑے اور شرقی ایک میل تو وہ ۱۰۳۸ میل پر ہوگا اور یہ ۱۰۳۵ پر مجموعہ ۲۰۷۳ میل کہ ضعف سیر زمین کے دو چند سے بھی ایک میل زائد ہے اور شرقی دو میل غربی ایک میل تو وہ ۱۰۳۴ میل پر ہوگا اور یہ ۱۰۳۷پر مجموعہ ۲۰۱۷میل کہ ضعف سیر زمین سے ایک ہی میل کم ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان پروازوں پر مجموع فاصلہ ہر گز دو تین میل سے زائد نہیں ہوتا ،تو ضرور حرکت زمین باطل۔
صفحہ نمبر 94 تک تحریر کردیا گیا ہے