اسلام اور سائنس, رسائل فتاوی رضویہ, فتاوی رضویہ, فلسفہ ،طبعیات ، سائنس، نجوم، منطق

فوزِمبین دررَدِّ حرکتِ زمین

رسالہ
فوزِمبین دررَدِّ حرکتِ زمین
(زمین کی حرکت کے رَد میں کھُلی کامیابی)

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم، الحمدﷲ الذی یمسک السمٰوٰت والارض ان تزولا oولئن زالتا ان امسکھما من احد من بعدہ انہ کان حلیما غفورا oوسخرلکم الفلک لتجری فی البحر بامرہ وسخرلکم الانھٰر oوسخر لکم الشمس والقمر دائبین و سخرلکم الّیل والنہار وسخّر الشمس والقمر کل یجری لاجل مسمّی الاھو العزیز الغفار o ربنا ما خلقت ھٰذا باطلا سبحٰنک فقنا عذاب النار قلت و قولک الحق والشمس تجری لمستقرلہا ذٰلک تقدیر العزیز العلیم oوالقمرقدرنہٰ منازل حتی عاد کالعرجون القدیم فصلّ وسلمّ وبارک علٰی شمس اقمار النبوۃ و الرسالۃ oمارج معارج اوج القرب والجلالۃ oبحیث لم یبق لاحد مرمٰی oان الٰی ربک المنتھٰی oوعلٰی اٰلہ وصحبہ وابنہ وحرز ماطلعت شمس وکان الیوم بین غدٍوامسٍ oامین

اﷲ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اس کے رسول پر درود بھیجتے ہیں۔ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کےلیے ہیں جو روکے ہوئے ہیں آسمانوں اور زمین کو کہ جنبش نہ کریں، اور اگر وہ ہٹ جائیں تو انہیں کون روکے اﷲ کے سوا ، بے شک وہ حلم والا بخشنے والا ہے اور اس نے تمہارے لیے کشتی کومسخر کیا کہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور تمہارے لیے ندیاں مسخر کیں اور تمہارے لیے سورج اور چاند مسخر کیے جو برابر چل رہے ہیں، اور تمہارے لیے رات اور دن مسخر کئے اور اس نے سورج اور چاند کو کام پرلگایا ہر ایک ایک ٹھہرائی ہوئی معیاد کے لیے چلتا ہے، سنتا ہے وہی صاحب عزت بخشنے والا ہے۔ اے رب ہمارے تو نے یہ بے کار نہ بنایا۔ پاکی ہے تجھے تو ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے تو نے فرمایا اور تیرا فرمان حق ہے اور سوج چلتا ہے اپنے ایک ٹھہراؤ کے لیے یہ حکم ہے زبردست علم والے کا۔ اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کی ہیں یہاں تک کہ پھر ہوگیا جیسے کھجور کی پرانی ڈال۔درودو سلام اور برکت نازل فرما نبوت رسالت کے چاندوں کے سورج پر جو قرب بزرگی کی بلندی کی سیڑھیون کا روشن چمکدار شعلہ ہے اس طور پر کہ کسی کے لیے تیر پھینکنے کی جگہ نہ رہے۔ بے شک تمہارے رب ہی طرف انتہا ہے۔، اور آپ کی آل ، آپ کے اصحاب اور آپ کے بیٹے پر ۔ اور حفاظت فرما جب تک سورج طلوع ہوتا رہے اور گزشتہ کل اور آئندہ کل کے درمیان آج رہے۔ امین۔

الحمدﷲ وہ نور کہ طورِ سینا سے آیا اور جبل ساعیر سے چمکا اورفاران مکہ معظمہ کے پہاڑوں سے فائض الانوار
وعالم آشکارہوا۔ شمس و قمر کا چلنا اور زمین کا سکون روشن طور پر لایا آج جس کا خلاف سکھایا جاتا ہے اور مسلمان ناواقف نادان لڑکوں کے ذہن میں جگہ پاتا اور ان کے ایمان و اسلام پر حرف لاتا ہے۔والعیاذ باﷲ تعالٰی فلسفہ قدیمہ بھی اس کا قائل نہ تھا اس نے اجمالاً اس پر ناکافی بحث کی جو اس کے اپنے اصول پر مبنی اور اصول مخالفین سے اجنبی تھی۔ فقیر بارگاہِ عالم پناہ مصطفوی عبدالمصطفی احمد رضا محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی غفراﷲ لہ وحقق املہ کے دل میں ملک الہام نے ڈالا کہ اس بارے میں باذنہ تعالٰی ایک شافی و کافی رسالہ لکھے اور اس میں ہیأتِ جدیدہ ہی کے اصول پر بنائے کار رکھے کہ اُسی کے اقراروں سے اس کا زعم زائل اور حرکتِ زمین و سکون شمس بداہۃباطل ہو، و باﷲ التوفیق( اور توفیق اﷲ تعالٰی ہی کی طرف سے ہے۔ت)

یہ رسالہ مسمی بنام تاریخ فوزِ مبین درددِّ حرکت زمین (۱۳۳۸ھ) ایک مقدمہ اور چار فصل اور ایک خاتمہ پر مشمل ۔
مقدمہ: میں مقررات ہیأت جدیدہ کا بیان جن سے اس رسالہ میں کا م لیا جائے گا۔ فصل اول : میں نافریت پر بحث اور اُس سے ابطالِ حرکت زمین پر بارہ دلیلیں۔ فصل دوم میں جاذبیت پر کلام اورا س سے بطلان حرکت زمین پر پچاس دلیلیں۔ فصل سوم میں خود حرکت زمین کے ابطال پر اور تینتالیس دلیلیں یہ بحمدہ تعالٰی بطلان حرکت زمین پر ایک سو پانچ دلیلیں ہوئیں جن میں پندرہ اگلی کتابوں کی ہیں جن کی ہم نے اصلاح و تصحیح کی، اور پورے نوے دلائل نہایت روشن و کامل بفضلہ تعالٰی خاص ہمار ے ایجاد ہیں۔
فصل چہارم میں ان شبہات کا رد جو ہیات جدیدہ اثبات حرکت زمین میں پیش کرتی ہے۔خاتمہ میں کتبِ الہیہ سے گردش ِ آفتاب و سکونِ زمین کا ثبوت والحمدﷲ مالکِ الملکِ والملکوت۔

مقدمہ، امورِ مسلّمہ ہیأت جدیدہ میں
 
ہم یہاں وہ امور بیان کریں گے جو ہیاتِ جدیدہ میں قرار یافتہ و تسلیم شدہ ہیں واقع میں صحیح ہوں یا غلط جذب و نفرت و حرکتِ زمین کے رَد میں تو یہ رسالہ ہی ہے اور اغلاط پر تنبیہ بھی کردیں گے۔وباﷲ التوفیق۔
 
 (۱) ہر جسم میں دوسرے کو اپنی طرف کھینچنے کی ایک قوت طبعی ہے جسے باذبا یاجاذبیت کہتے ہیں۔ 
اس کا پتہ(عہ) نیوٹن کو ۱۶۶۵ء میں اُس وقت چلا جب وہ وبا سے بھاگ کرکسی گاؤں گیا ، باغ میں تھا کہ درخت سے سیب ٹوٹا اُسے دیکھ کر اسے سلسلہ خیالات چھوٹا جس سے قواعد کشش کا بھبھوکا پھوٹا۔
 
عہ: یعنی اصول علم طبعی ص ۷۵ ۔۱۲
 
اقول : سیب گرنے اور جاذبیت کا آسیب جاگنے میں علاقہ بھی ایسا لزوم کا تھا کہ وہ گرا اور یہ اُچھلا کیونکہ اس کے سوا اس کا کوئی سبب ہوسکتا ہی نہ تھا۔ اس کی پوری بحث تو فصل دوم میں آتی ہے۔۱۶۶۵ء تک ہزاروں برس کے عقلا سب اس فہم سے محروم گئے تو گئے تعجب یہ کہ اس سیب سے پہلے نیوٹن نے بھی کوئی چیز زمین پر گرتے نہ دیکھی یا جب تک اس کا کوئی اور سبب خیال میں تھا جسے اس سیب نے گر کر توڑ دیا۔
 
 (۲) اجسام ۔(عہ۱) میں اصلاً کسی طرف اُٹھنے گرنے سرکنے کا میل ذاتی نہیں بلکہ ۔(عہ۲) اُن میں بالطبع قوت  ماسکہ ہے کہ حرکت کی مانع اور تاثیر قاسر کی تاحدِ طاقت مدافع ہے۔ یہ قوت ہر جسم میں اس کے وزن کے لائق ہوتی ہی ۔ ولہذا ایک جسم سے کوئی حصہ جدا کرکے دوسرے میں شامل کردیں وزن کی نسبت پر اول میں گھٹ جائے گی اور دوسرے میں بڑھ جائے گی۔
 
عہ۱: ط ص ۱۲/ ۱۱ ط سے مراد علم طبعی ہے۔عزیزی 
عہ۲: حدائق النجوم  ص ۱۲/ ۲۳
 
اقول۲ :اولاً  خود جسم میں یہ قوت ہونے پر کیا دلیل ہے اگر کہیے تجربہ کہ ہم جتنے زیادہ وزنی جسم کو حرکت دینا چاہتے ہیں زیادہ مقابلہ کرتا اور قوی طاقت مانگتا ہے۔
اقول۳:  جذب زمین کدھر بھلایا زمین اُسے کھینچ رہی ہے تم اسے جدا حرکت دینی چاہتے ہو اس کی روک کا احساس کرتے ہو یہ تمہارے طور پر ہے اگر یقیناً باطل ہے جس کا بیان فصل دوم میں آتا ہے اور ہمارے نزدیک جسم کا میل طبعی اپنے خلاف جہت میں مزاحمت کرتا ہے مطلقاً حرکت سے ابا۔ یہ تو تمہارا تخیل ہے اور فلسفہ قدیمہ اس کے عکس کا قائل ہے کہ ہر ایک جسم میں کوئی نہ کوئی میل مستقیم خواہ مستدیر ضرور ہے وہ اپنے خلاف میل کی مدافعت کرے گا اور موافق کی مطاوعت جیسے پتھر اوپر پھینکنے اور نیچے گرانے میں اس کا رد بھی بعونہ تعالٰی تذییل فصل سوم میں آتا ہے ہمارے نزدیک اجسامِ مشہودہ میں میل ہے سب میں ہونا کچھ ضرور نہیں ماسکہ کسی میں پائی نہ گئی اور ہو تو کچھ محذور نہیں۔
ثانیاً  یہ اخیر فقرہ ایسا کہا ہے جس نے تمام ہیئات جدیدہ کا تسمہ لگا نہ رکھا، جس کا بیان آتا ہے ان شاء اﷲ تعالٰی اور یہ تمہاری اپنی نہیں بلکہ نیوٹن صاحب کی اپنی جاذبیت پرعنایت ہے کہ نمبر ۸ میں آتی ہیں۔
(۳) ہر جسم بالطبع دوسرے کے جذب سے بھاگتا ہے اس قوت کا نام نافرہ ، ہاربہ ، دافعہ ، محر کہ نافریت ہے۔
 
اقول۴: جاذبہ تو سیب کے گرنے سے پہچانی، یہ کا ہے سے جانی، شاید سیب گرنے میں نیچے دیکھا تو زمین تھی، اُس کا جذب خیال میں آیا اوپر دیکھا تو سیب شاخ سے بھاگتا پایایوں نافرہ کا ذہن لڑایا حالانکہ نیچے لانے کو ان میں ایک کافی ہے دوکس لیے۔ حدائق النجوم ۔(عہ۱) میں کہا برابر سطح پر گولی پھینکیں تو بالطبع خطِ مستقیم پر جاتی ہے یہ نافرہ ہے۔
 
عہ۱: ص ۱۲/ ۳۸  ح ص ۳۸ ط ص ۳۰ ن یعنی نظارہ عالم ص ۲۳ ۔۱۲ منہ
 
اقول۵: پھینکیں میں اس کا جواب ہے آہستہ رکھ دیں کہ جنبش نہ ہو تو بال بھر نہ سِرکے گی۔ ہاں سطح پوری لیول میں نہ ہو تو ڈھال کی طرف ڈھلے گی۔ پھر کہاکنکیا میں پتھر باندھ کر اڑائیں سیدھا زمین پر آئے گا۔ یہ نافرہ ہے۔
اقول۶: وہی بات آگئی جو ہم نے ان کی دانش پر گمان کی تھی کہ نیچے دیکھا تو جذب سمجھے اوپر نگاہ اٹھی تو اسے بھول گئے فرار پر قرار ہوا۔
(۴) جب (عہ۲) کوئی جسم کسی دائرے پر حرکت کرے اس میں مرکز سے نفرت ہوتی ہے۔ پتھر رسی میں باندھ کر اپنے گرد گھماؤ وہ چھوٹنا چاہے گا اور جتنے زور سےگھماؤ گے زیادہ زور کرے گا اگر چھٹ گیا تو سیدھا چلا جائے گا اور جس قدر قوت سے گھمایا تھا اتنی دور جا کر گرے گا۔ یہ مرکز سے پتھر کی نافریت ہے۔
 
عہ۲: ص یعنی اصول علم الہیأۃ ع ۱۰۳ وغیرہ ۔
 
اقول ۷: نافریت بے دلیل اور پتھر کی تمثیل ، نری علیل، پتھر کو انسان یا مرکز سے نفرت نہ رغبت جانب خلاف جو اس کا زور دیکھتے ہو تمہاری دافعہ کا اثر ہے نہ کہ پتھر کی نفرت، تحقیق مقام کے لیے ہم ان قوتوں کی قسمیں استخراج کریں جو باعتبار حرکت کسی جسم پر قاسر کا اثر ڈالتی ہیں۔
فاقول۸: وہ تقسیم اول میں دو ہیں، محرکہ کہ حرکت پیدا کرے اور حاصرہ کہ حرکت کو بڑھنے نہ دے مثلاً ڈھلکتے ہوئے پتھر کو ہاتھ سے روک لو۔ پھر محرکہ دو قسم ہے۔
 
جاذبہ: کہ متحرک کو قاسر کی سمت پر لائے، جیسے پتھر کو اپنی طرف پھینکے خواہ اس میں قاسر سے دور کرنا ہو کہ ظاہر ہے یا قریب کرنا، مثلاً اس شکل میں مقام انسان ہے، ج پتھر کا موضع۔ آدمی نے لکڑی مار کر پتھر کو ج سے ب پر پھینکا تو یہ جذب نہیں کہ انسان کی سمت خط ا ج تھا اس پر لاتا تو جذب ہوتا، وہ خط ب ج پر گیا کہ سمِت غیر ہے لہذا دفع ہی ہوا، اگرچہ پتھر پہلے سے زیادہ انسان سے قریب ہوگیا کہ اب ضلع قائمہ اج وتر سے چھوٹی ہے پھر یہ دونوں باعتبار اتصال و انفصال زمین دو قسم میں رافعہ کہ حرکت میں زمین سے بلند ہی رکھے۔
 
 
 
ملصقہ: مثلاً پتھر کو زمین سے ملا ملا اپنی طرف لاؤ یا آگے سرکاؤ اور باعتبار نقص و کمال دو قسم ہیں، 
منھیہ: کہ متحرک کو منتہائے مقصد تک پہنچائے۔
قاصرہ: کہ کمی رکھے ۔
اور باعتبار وحدت و تعدد  خط حرکت دو قسم ہیں۔ مثبتہ کہ ایک ہی خط پر رکھے ، ناقلہ کہ حرکت کا خط بدل دے مثلاً اس شکل میں پتھر ا سے ج کی طرف پھینکا جب ب پر پہنچا لکڑی مار کر ہ کی طرف پھیر دیا یہ دافعہ ناقلہ ہوئی۔ اس حرکت میں جب د تک پہنچا ر کی طرف کھینچ لیا یہ جاذبہ ناقلہ ہوئی ، اور اگر ج کی طرف پھینک کر ب سے ا کی طرف کھینچ لیا تو ب تک دافعہ مثبتہ تھی کہ اسی خط پر لیے جاتی تھی (ب) سے واپسی میں جاذبہ مثبتہ ہوئی کہ اسی خط پر لائی۔
 
 
 
 یہ کل ۱۳ قسمیں ہیں ان میں سے پتھر گرد سرگھمانے میں جاذبہ کا تو کچھ کام نہیں کہ اپنی سمت پر لانا مقصود نہیں ہوتا بلکہ مضر مقصود ہے باقی سات (عہ) میں سے چار قوتیں یہاں کام کرتی ہیں حاصرہ اور تین دافعہ یعنی منہیہ رافعہ ناقلہ پتھر کو پورا دور پھینکو کہ رسی خوب تن جائے یہ منہیہ ہوئی، ہاتھ اٹھائے رکھو کہ زمین پر گرنے نہ پائے ، یہ رافعہ ہوئی ہاتھ گرد سر پھراتے جاؤ کہ خط حرکت ہر وقت بدلے ، یہ ناقلہ ہوئی یہ قوتیں ہر وقت برقرار رہیں کہ نہ رسی میں جھول آنے پائے، نہ زمین کی طرف لائے نہ ایک سمت کھینچ کر رک جائے، پھر یہ دافعہ کہ یہاں عمل کررہی ہے اس کا کام خط مستقیم پر حرکت دینا ہے تو دفع اول سے اسی سمت کو جاتا اور ہر نقل سے اس کی سیدھی سمت لیتا لیکن رسی جسے منہیہ تانے اور رافعہ اٹھائے اور ناقلہ بدل رہی ہے ۔کسی وقت اپنی مقدار سے آگے بڑھنے نہیں دیتی ناچار ہر دفع و نقل اسی حد تک محدودرہتے ہیں اور انسان کہ یہاں مثل مرکز ہے ہر جانب اس سے فاصلہ اسی قدر رہتا ہے یہ حاصرہ ہوئی جس کا کام رسی کی بندش سے لیا گیا اس نے شکل دائر پیدا کردی اسے جاذب سمجھنا جیسا کہ نصرانی بیروتی سے نمبر ۱۳ میں آتا ہے، جہالت و نافہمی ہے ، یہاں جاذبہ کو اصلاً دخل نہیں، نہ پتھر میں کوئی نافرہ ہے بلکہ حاصرہ و دافعہ کام کررہی ہے جتنے زور سے گھماؤ گے اتنی ہی قوت کا دفع ہوگا پتھر اتنی ہی طاقت سے چھوٹتا گمان کیا جائے گا حالانکہ یہ نہ اس کا تقاضا ہے نہ اس کا زو ربلکہ تمہارے دفع کی قوت ہے جسے نافہمی سے پتھر کی نافریت سمجھ رہے ہو۔
 
عہ۱: ایک حاصرہ تھی اور چھ چھ جاذبہ و دافعہ، جاذبہ کی چھ نکل کر سات رہیں ۱۲ منہ غفرلہ
 
تنبیہ : یہاں اُن لوگوں کا کلام مضطرب ہے عام طور پر اس قوت کو نافرہ عن المرکز کہا۔ ص ۶۶ کی تقریر میں مرکز دائرہ  ہی سے تنفر لیا مگر جا بجا جاذب مثلاً شمس سے تنفر رکھا، اور ص ۱۸ میں شمس ہی کو وہ مرکز بتایا۔
اقول۹: اُن کے طور پر حقیقت امر یہی چاہیے اس لیے کہ جسم بوجہ ماسکہ اثر جذب سے انکا ر کرے گا تو جاذب سے تنفر ہوگا۔ اور انہیں دو کے اجتماع سے اس کے گرد دورہ کرے گا۔ جس کا بیان نمبر آئندہ میں ہے جب تک دورہ نہ کیا تھا مرکز تھا ہی کہاں جس سے تنفر ہوتا، وہ تو اس کے دورے کے بعد مشخص ہوگا مگر ہم ان لوگوں کے اضطراب سخن کے سبب فصل اول میں مرکز و شمس دونوں پر کلام کریں گے۔
(۵) انہیں(عہ۱) جاذبہ و نافرہ کے اجتماع سے حرکتِ دوریہ پیدا ہوتی ہے تمام سیّاروں کی گردش شمس کی جاذبہ اور اپنی ہاربہ کے سبب ہے۔ فرض کرو زمین یا کوئی سیارہ نقطہ ا پر ہے اور آفتاب ج پر شمس کی جاذبہ اسے ج کی طرف کھینچتی ہے اور نافرہ کا قاعدہ ہے کہ خط مماس ۔(عہ۲) پر لے جانا چاہتی ہے یعنی اس خط پر کہ خط جاذبہ پر عمود ہو جیسے ا ج پر اب دونوں(عہ۳) اثروں کی کشاکش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمین نہ ب کی طرف جاسکتی ہے نہ ج کی جانب بلکہ دونوں کی بیچ میں ہو کر ء  پر نکلتی ہے یہاں بھی وہی دونوں اثر ہیں جاذبہ ء سے ج کی طرف کھینچتی ہے اور نافرہ ہ کی طرف لے جانا چاہتی ہے۔ 
لہذا زمین دونوں کے بیچ میں ہو کر ر کی طرف بڑھتی ہے اسی طرح دورہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ مدار جو اس حرکت سے بنا بظاہر مثل دائرہ خط واحد معلوم ہوتا ہے اور حقیقۃً (عہ۴) ایک لہردار خط ہے جو بکثرت نہایت چھوٹے چھوٹے مستقیم خطوں سے مرکب ہوا ہے جن میں ہر خط گویا ایک نہایت چھوٹی شکل متوازی الاضلاع کاقطر ہے۔
 
 
 
عہ۱: ح: ص ۳۷ اص ۷۷ ط ص ۶۳۔  ۱۲۔     عہ۲: ص ۱۰۶ وغیرہ  ح: ص ۳۸ ط : ۵۸ 
عہ۳: ص ۱۰۴ وغیرہ ط ح وغیرہا ۱۲       عہ۴: ص ۱۰۴     عہ۵ : ص ۱۰۲ ط ص ۸۲ ن ص ۲۳ ۔  ۱۲۔
 
اقول۱۰: یہ جو یہاں ہے کہ نافرہ سے دورہ پیدا ہوتا ہے یہی ان کے طور پر قرین قیاس ہے اور وہ جو اُن کا زبان زد ہے کہ دورے سے نافرہ پیدا ہوتی ہے بے معنی ہے مگر ہیاتِ جدیدہ الٹی کہنے کی عادی ہے جس کا ذکر تذ ییل فصل سوم میں ہوگا ان شاء اﷲ تعالٰی۔
 
تنبیہ : یہ جو یہاں مذکور ہوا کہ جاذبہ و نافرہ مل کر دورہ بناتی ہیں یہی ہیات  جدیدہ کا مزعوم ہے۔ تمام مقامات پر انہیں کا چرچا انہیں کی دھوم ہے ط (ص۹۳) پر بھی یہی مرقوم ہے ص ۵۶ پر اس نے ایک شاخسانہ بڑھایا کہ فرض کرو وقت پیدائش زمین خلا میں پھینکی گئی تھی کوئی شے حائل نہ ہوتی تو ہمیشہ ادھر ہی کو چلی جاتی راستے میں آفتاب ملا اور اس نے کھینچ تان شروع کی۔
 
اقول ۱۱: واقعیات کا کام فرضیات سے نہیں چلتا، مدعی کا مطلب شاید اور  ممکن  سے نہیں نکلتا یہ لوگ طریقہ استدلال سے محض نابلد ہیں، اگر کوئی شے مشاہدہ یا دلیل سے ثابت ہو اور اس کے لیے ایک سبب متعین مگر اس میں کچھ اشکال ہے جو چند طریقوں سے دفع ہوسکتا ہے۔ اور ان میں کوئی طریقہ معلوم الوقوع نہیں ۔ وہاں احتمال کی گنجائش ہے کہ جب فہم متحقق اور اس کا یہ سبب متعین تو اشکال واقع میں یقیناً مندفع تو یہ کہنا کافی کہ شاید یہ طریقہ ہو لیکن نا ثابت بات کے ثابت کرنے میں فرض و احتمال کا اصلاً محل نہیں کہ یوں تو ہمارے اس فرض کی تابع ہوئی یوں فرض کریں تو ہوسکے نہ کریں نہ ہوسکے اس سے مدعی کے لیے وہی کافی مانے گا، جو مجنون ہے۔ پھر اگر شے ثابت و متحقق ہے اور یہ سب متعین نہیں تو دفع اشکال پر بنائے احتمال ایک مجنونانہ خیال ، اور اگر سرے سے شیئ ہی ثابت نہیں، نہ اس کے لیے یہ سبب متعین، پھر اس میں یہ اشکال تو کسی احتمال سے اس کا علاج کرکے شے اور سبب دونوں ثابت مان لینا۔ دوہرا جنون اور پوراضلال۔ پھر اگر علاج کے بعد بھی بات نہ بنے جیسا کہ یہاں ہے جب تو جنونوں کی گنتی ہی نہ رہی۔ یہ نکتہ خوب یاد رکھنے کا ہے کہ بعض جگہ مخالف دھوکا نہ دے سکے۔
 
 (۶) ہر مدار (عہ۱) میں جاذبہ و نافرہ دونوں برابر رہتی ہیں، ورنہ جاذبہ غالب ہو تو مثلاً زمین شمس سے جا ملے، نافرہ غالب ہو تو خطِ مماس پر سیدھی چلی جائے دورہ کا انتظام نہ رہے۔
 
عہ۱:ص ۱۰۳۔
 
اقول۱۲: بتاتے یہ ہیں اور خود ہی اس کے خلا ف کہتے ہیں اور حقیقتاً تناقض پر مجبور ہیں جس کا بیان فصل اوّل سے بعونہ تعالٰی ظاہر ہوگا۔
 
 (۷) نافرہ(عہ۲)  بمقدار جذب ہے اور سُرعت حرکت بمقدار نافرہ ، جذب جتنا قوی ہوگا نافرہ زیادہ ہوگی کہ اس کی مقاومت کرے اور نافرہ جتنی بڑھے گی چال کا تیز ہونا ظاہر ہے کہ وہ نتیجہ نفرت ہے و لہذا سیارہ آفتاب سے جتنا بعید ہے اتنا ہی اپنے مدار میں آہستہ حرکت کرتا ہے۔ سب سے قریب عطارد ہے کہ ایک گھنٹہ میں ایک لاکھ پانچہزار تین سو تیس میل(عہ۳) چلتا ہے اور سب سے دور نیپچون ایک گھنٹہ میں گیارہ ہزار نو سو اٹھاون میل۔
 
عہ۲: ط ص ۶۴ ۔  ۱۲۔    عہ۳: ص ۲۶۷   ۲۱   ط ص ۵۸ ن ص ۲۴ ۔۱۲
 
اقول۱۳: یہ قرین قیاس ہے، اور وہ جو نمبر ۱۳ میں آتا ہی کہ جاذبہ و نافرہ بحسب سرعت بدلتی ہیں معکوس گوئی پر مبنی ہونا ضرور نہیں بلکہ مقصود و نسبت بتانا ہے۔
 
 (۸) اجسام (عہ۱) اجزائے دیمقراطییہ سے مرکب ہیں، نیوٹن نے تصریح کی کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے جسم ہیں کہ ابتدائے آفرینش سے بالطبع قابلِ حرکت و ثقیل و سخت و بے جوف ہیں، اُن میں کوئی حس میں تقسیم کے اصلاً لائق نہیں اگرچہ وہم اُن میں حصّے فرض کرسکے۔
 
عہ۱: ح ۳۲۔  ۱۲۔
 
اقول ۱۴: اولاً یہ من وجہ ہمارے مذہب سے قریب ہے ہمارے نزدیک ترکیب اجسام جواہر فردہ یعنی اجزائے لایتجزی سے ہے کہ ہر ایک نقطہ جوہری ہے جن میں عرض، طول عمق، اصلاً نہیں وہم میں بھی انکی تقسیم نہیں ہوسکتی۔ فلسفہ قدیمہ جسم کو متصل وحدانی مانتا ہے جس میں بالفعل اجزاء نہیں اور بالقوہ تقسیم غیر متناہی کا قائل ہے۔
 
ثانیاً  نیوٹن کی تصریح کہ وہ سب اجزا بالطبع قابل حرکت ہیں بظاہر نمبر ۲ کے مناقض ہے کہ جسم بالطبع حرکت  سے منکر ہے اور اثر قاسر سے قبول حرکت اس کے فقط بالطبع کے خلاف ہے مگر یہ کہا جائے کہ طبیعت ہی میں قبول اثر قاسر کی استعداد رکھی گئی ہے کہ یہ صلاحیت نہ ہوتی تو قاسر سے بھی حرکت ناممکن ہوتی اور طبیعت ہی کو اپنے وزن و ثقل طبعی کے باعث حرکت سے انکار ہے یہ قوت ہے جس کا کام فعل کرنا ہے یعنی محرک کی مزاحمت اور وہ صلاحیت ہے جس کی شان قبول اثر ہے۔ حاصل یہ کہ اپنے وزن کے سبب ممانعت کرتی ہے اور قوت قسر کے باعث قبول کرلیتی ہے تو تعارض نہیں۔
 
اقول۱۶: ثالثا یہ سب سہی مگر یہ قول ایسا صادر ہوا کہ ساری ہیات جدیدہ کا خاتمہ کرادیا جس کا بیان ان شاء اللہ آتا ہے معلوم نہیں نیوٹن نے کس حال میں ایسا لفظ ثقیل لکھ دیا جس نے اسی کے ساختہ پر داختہ قواعد جاذبیت کو خفیف کردیا۔
 
فائدہ : ہمارے علمائے متکلمین ثقل ووزن میں فرق فرماتے ہیں وہ بلحاظ نوع ہے یہ بلحاظ فد وہ ایک صفت مقتضائے صورت نوعیہ ہے جس کا اثر طلب سفل ہے اُسے حجم و وزن و کثرت اجزائے سے تعلق نہیں لٹھے میں لوہے کی چھٹنکی سے وزن زائد ہے مگر لوہا لکڑی سے زیادہ ثقیل ہے (عہ۲) اور حدائق النجوم میں کہا ثقل ہمیشہ جسم کو نیچے کھینچتا ہے پھر نقل (عہ۳)کیا کہ ثقل وہ میل طبعی ہے کہ سب اجسام کو کسی مرکز کی طرف ہے۔
 
عہ۲: ح ص ۳۴۔۱۲  عہ۳: ص ۳۷۔  ۱۲۔
 
اقول ۱۷: یہ مسامحت ہے ثقل میں میل نہیں بلکہ سبب میل ہے جیسا خود آگے کہا کہ وہ دو قسم ہے اول مطلق یعنی نفس ثقل جس کے سبب جملہ اجسام اپنے مرکز مجموعہ کی طرف میل کرتے ہیں، جیسے ہمارے کرہ کے عنصریات جانب مرکز زمین یہ ہمیشہ مقدار مادہ جسم کے برابر ہوتا ہے جس میں اس کی جسامت کا اعتبار نہیں تو لکڑی اور لوہا دونوں کا ثقل مطلق برابر ہے۔

اقول۱۸: اولاً یہ کہنا تھا کہ دونوں ثقل مطلق میں برابر ہیں یعنی میل بمرکز زمین دونوں کی طبیعت میں ہے مطلق میں موازنہ کی گنجائش کہاں۔
ثانیا ۱۹: اسی وجہ سے مطلق کو مقدار مادے کے مساوی ماننا جہل ہے کیا مقدار مادہ کی کمی بیشی سے مطلق بدلے گا۔
ثالثا ۲۰: یہ جو تفاوت مادے سے کم بیش ہوتا ہے محال ہے کہ لوہے اور لکڑی میں مساوی ہو۔ جسم جتنا کثیف تر اس میں مادہ یعنی وہی اجزائے دیمقر اطیسیہ کما سیأتی۔ ( جیسا کہ آگے آئے گا۔ت) بیشتر لوہے کی کثافت لکڑی کہاں سے لائے گی۔ یہ لوگ جب اس میدان میں آتے ہیں ایسی ہی ٹھوکریں کھاتے ہیں، پھر کہا دوسرا ثقل مضاف یعنی ایک جسم کو دوسرے کی نسبت سے یہ باختلافِ انواع مختلف ہوتا ہے، ایک ہی حجم کی دو چیزوں میں اُن کے مادوں کی نسبت سے مختلف ہوتا ہے۔
ایک انگل مکعب لوہا بھی لو اور لکڑی بھی، لوہا زیادہ بھاری ہوگا کہ مساوی جسامت کے لوہے میں لکڑی سے مادہ زائد ہے۔

اقول ۲۱: فرق کیا ہوا، ثقل مطلق بھی موافق مقدار مادہ تھا جس کے یہی معنی کہ مادے کی کمی بیشتی سے بدلے گا، یہی مضاف میں ہے کمی بیشی کا لحاظ وہاں بھی بے لحاظ تعددو نسبت دو شے ممکن نہیں، اگر یہ فرض کرلو کہ شے واحد میں مادہ اس سے کم ہوجائے تو ثقل کم ہوگا اور زائد تو زائد تو کیا یہ دو چیزوں اور ان کی نسبت کا اعتبار نہ ہوا۔ بالجملہ ان کے یہاں مدار ثقل کثرت اجزاء پر ہے کم اجزا میں کم زائد میں زائد، اور یہ نہیں مگر وزن تو اُن کے یہاں ثقل ووزن شے واحد ہے ، ہم آئندہ غالباً اسی پر بنائے کلام رکھیں گے۔

(۹) ہر جسم (عہ۱)کا مادہ جسے ہیولٰی وجسمیہ بھی کہتے ہیں وہ چیز ہے جس سے جسم اپنے مکان کو بھرتا اور دوسرے جسم کو اپنی جگہ آنے سے روکتا ہے۔

عہ۱: ح ص ۳۲

اقول۲۲: یہ وہی اجزائے دیمقراطیسیہ ہوئے اور ان کی کمی بیشی جسم تعلیمی یعنی طول عرض عمق کی کمی بیشی پر نہیں بلکہ جسم کی کثافت پرایک حجم کے دو جسم ایک دوسرے سے کثیف تر ہوں جیسے آہن وچوب یا طلا وسیم کثیف تر ہیں، اجزاء زیادہ ہوں گے کبھی زیادہ حجم میں کم جیسے لوہا اور روئی۔

(۱۰) جاذبیت (عہ۲) بحسب مادّہ سیدھی بدلتی ہے اور بحسب مربع بعد بالقلب،

عہ۲: ص ۱۲

اقول ۲۳: یہاں مادے سے مادہ جاذب مراد ہے اور تبدل سے طاقت جذب کا تفاوت یعنی جاذب میں جتنا مادہ زائد اُتنا ہی اس کا جذب قوی۔ یہ سیدھی نسبت ہوئی اور بعد مجذوب کا مجذور، جتنا زائد اتنا ہی اس کا جذب ضعیف گز بھر بعد پر جو جذب ہے دو گز پر اس کا چہارم ہوگا۔ دس گز پر اس کا سوواں حصہ یہ نسبت معکوس ہوئی کہ کم پر زائد،زائد پر کم۔

نتیجہ : (ا) کثیف ترکہ جذب اشد۔
(ب) قریب تر پر اثر اکثر۔
(ج) خطِ عمود پر عمل اقویز

تنبیہ جلیل : اقول ۲۴: یہ قاعدہ دلیل روشن ہے کہ طبعی قوت جذب ہر شے کی طرف یکساں متوجہ ہوتی ہے مجذوب کی حالت دیکھ کر اس پر اپنی پوری یا آدھی یا جتنی قوت اس کے مناسب جانے صرف کرنا اس کا کام ہے جو شعور و ارادہ رکھے طبعی قوت ادراک نہیں رکھتی کہ مجذوب کی حالت جانچے اور اس کے لائق اپنے کل یا حصے سے کام لے وہ تو ایک ودیعت رکھی قوت بے ارادہ و بے ادراک ہے نہ اس میں جدا جدا حصے ہیں شے واحد ہے اور اس کا فعل واحد ہے اس کا کام اپنا عمل کرنا ہے مقابل کوئی شے کیسی ہی ہو، بھیگا ہوا کپڑا دھوپ میں پھیلا دو جس کے ایک حصے میں خفیف نم ہو اور دوسرا حصہ خوب تر۔ حرارت کا کام جذب رطوبات ہے، اس وقت کی دھوپ میں جتنی حرارت ہے وہ دونوں حصوں پر ایک سی متوجہ ہوگی۔ ولہذا نم کا حصہ جلد خشک ہوجائے گا۔ اور دوسرا دیر میں کہ اتنی حرارت اس خفیف کو جلد جذب کرسکتی تھی اور اگر یہ ہوتا کہ طبعی قوت بھی مقابل کی حالت دیکھ کر اسی کے لائق اپنے حصے سے اس پر کام لیتی تو واجب تھا کہ نم بھی اتنی ہی دیر میں سوکھتی جتنی میں وہ گہری تری کہ ہر ایک پر اسی کے لائق جذب آتا، نم پر کم اور تری پر زائد، حالانکہ ہر گز ایسا نہیں بلکہ دھوپ اپنی قوتِ جذب کا پورا عمل دونوں پرکرتی ہے، ولہذا کم کو جلد جذب کرلیتی ہے یوں ہی مقناطیس لوہے کے ذروں کو ریزوں سے جلد جذب کرے گا اگر ہر ایک کے لائق جذب کرتا تو جس قوت سے ریزوں کو کھینچا تھا عام ازیں کہ کل قوت تھی یا بعض جو نسبت ذروں کو ان ریزوں سے ہے اسی نسبت کے حصہ قوت سے ذروں کو کھینچتا دونوں برابر آتے نہیں نہیں بلکہ قطعاً سب کو اپنی پوری قوت سے کھینچا جس نے ہلکے پر زیادہ عمل کیا، یوں ہی بعد کے بڑھنے سے جذب کا ضعیف ہوتا جانا قطعاً اسی بنا پر ہے کہ وہی قوت واحدہ ہر جگہ عمل کررہی ہے، ظاہر کہ قریب پر اس کا عمل قوی ہوگا اور جتنا بعد بڑھے گا گھٹتا جائے گا اور اگر ہر بعد کے لائق مختلف حصے کام کرتے تو ہر گز بعد بڑھنے سے جذب میں ضعف نہ آتا جب تک ساری طاقت ختم نہ ہوچکتی کہ ہر حصے بعد پر طبیعت اپنی قوت کے حصے پڑھاتی جاتی اور نسبت یکساں رہتی ہاں جب آگے کوئی حصہ نہ رہتا تو اب بعد بڑھنے سے گھٹتی کہ اب عمل کرنے کی یہی قوت واحدہ معینہ رہ گئی بالجملہ بعد بڑھنے سے ضعف آنے کو لازم ہے کہ ہر جگہ ایک ہی قوت معینہ عامل ہو اور وہ کوئی حضہ نہیں ہوسکتی کہ حصوں کی تقسیم غیر متناہی یہ حصہ معین ہوا وہ کیوں نہ ہوا ترجیح بلا مرجح ہے لہذا واجب کہ طبعی جاذب ہمیشہ اپنی پوری قوت سے عمل کرتا ہے۔ یہ جلیل فائدہ یاد رکھنے کا ہے کہ بعونہ تعالٰی بہت کام دے گا۔

تنبیہ : اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ مثلاً زمین کا پورا کرہ اپنی ساری قوت سے ہر شے کو کھینچتا ہے بلکہ مجذوب کے مقابل جتنا ٹکڑا ہے جیسے اس کپڑے کو شرق تا غرب پھیلی ہوئی ساری دھوپ نے نہ سکھایا تھا بلکہ اُسی قدر نے جو اس کے محاذی تھی۔

 (۱۱) جذب (عہ۱) بحسب مادہ مجذوب ہے ، دس جز کا جسم جتنی طاقت سے کھینچے گا سو (۱۰۰) جز کا اس کی دو چند سے۔ اگر تم ایک سیر اوردوسرے دس سیر کے جسم کو برابر عرصے میں کھنیچنا چاہو تو کیا دس سیر کو دس گنے زور سے نہ کھینچو گے۔
 
عہ۱: ط ص۱۱
 
اقول۲۵: یہ بجائے خود ہی صحیح رکھتا تھا جب اس میں مجذوب پر نظر ہو اور اس کے دو محل ہوتے اول طلب کا تبدل یعنی ہر مجذوب اپنے مادے اور بعد کے لائق طاقت مانگے گا جاذب میں اتنی قوت ہے کھینچ لے گا ورنہ نہیں، یوں یہ دونوں نسبتیں مستقیمہ ہیں کہ مجذوب میں مادہ خواہ بعد جو کچھ بھی زائد ہو اتنی ہی طاقت چاہے گا۔
دوم مجذوب پر اثر کا تبّدل ۔ یوں یہ دونوں نسبتیں معکوس ہیں کہ مجذوب میں مادہ خواہ بعد جس قدر زائد اُسی قدر اس پر جذب کا اثر کم اور جتنا مادہ یا بعد کم اتنا ہی زائد۔ مگر اس صحیح بات کو غلط استعمال کیا ہے اس میں جاذب پر نظر رکھی کہ وہ مادہ وزن مجذوب کے لائق اس پر اپنی قوت صرف کرتا ہے یہ بھی صاحب ارادہ طاقت کے اعتبار سے صحیح تھا مگر اُسے قوت طبیعہ پر ڈھالاکہ مجذوب میں جتنا مادہ ہوگا زمین اسے اتنی ہی طاقت سے کھینچے گی۔ اب یہ محض باطل ہوگیا۔ اولاً اس کا بطلان ابھی سن چکے اور انسان سے تمثیل جہالت، انسان ذی شعور ہے زمین صاحب ادراک نہیں کہ مجذوب کو دیکھے او راس کی حالت جانچے اور اس کے لائق قوت کا اندازہ کرے تاکہ اتنی ہی قوت اس پر خرچ کرے۔
 
تنبیہ : اگر یہ ہے تو وہ پہلا قاعدہ جس پر ساری ہیأتِ جدیدہ کا اجماع اور سردار فلسفہ جدیدہ نیوٹن کا اختراع ہے صاف غلط ہوجائے گا جب زمین مجذوب کے مادوں کا ادراک کرتی ہے اور ان کے قابل اپنی قوت کے حصے چھانٹتی ہے تو کیوں نہ اس کے بعد کا ادراک کرے گی اور ہر بعُد کے لائق اپنی قوت کا حصہ چھانٹے گی تو ہر بُعد پر جذب یکساں رہے گا۔
ثانیاً  تنبیہ اقول: ملاحظہ نمبر  ۲ سے یہاں ایک اور سخت اعتراض ہے نمبر ۱۵ میں آتا ہے کہ تمہارے نزدیک اختلاف وزن اختلاف جذب پر متفرع ہے اور ہم ثابت کردیں گے کہ ہیاتِ جدیدہ کو اس اقرار پر قائم رہنا لازم ورنہ ساری ہیات باطل ہوجائے گی۔ اب یہاں اختلافِ جذب اختلاف  وزن پر متفرع کیا کہ دس سیر کا جسم دس گنی طاقت سے کھنچے گا۔ یہ کھلا دور ہے اگر کہیے اختلاف وزن پر نہیں اختلاف مادے پر متفرع کیا اختلاف وزن سے مثال دی ہے کہ ہماری جذب سے پہلے جذب زمین نے وزن پیدا کردیا ہے۔
اقول: مختلف قوتِ جذب چاہنا اختلافِ وزن سے ہوتا ہے مادے میں جب پیش از جذب کچھ وزن ہی نہیں تو بے وزن چیز قلیل ہو یا کثیر مختلف قوت چاہے گی۔ اگر کہے اختلاف مادے سے ماسکہ مختلف ہوگی لہذا مختلف جذب درکار ہوگا۔
اقول: ماسکہ بحسبِ وزن ہی تو ہے۔ پھر اختلاف وزن ہی پر بنا آگئی اور دور قائم رہا مگر صاف انصاف یہ کہ نمبر ۲ نیوٹن کے قول نمبر ۸ پر مبنی اور ہیات جدیدہ کا بیخکن ہے جسے وہ کسی طرح تسلیم نہیں کرسکتی بلکہ جا بجا اس کا رد کرتی ہے جس کا بیان نمبر ۱۵ میں آتا ہے۔ ہیات جدیدہ کے طور پر صحیح یہ ہے کہ ماسکہ بربنائے وزن نہیں بلکہ نفس مادے کی طبیعت میں حرکت سے انکار ہے تو جس میں مادہ زیادہ ماسکہ زائد تو انکار افزون تو اس کے جذب کو قوت زیادہ درکار، یہ تقریر یاد رکھیے اور اب یہ اعتراض یکسر اٹھ گیا۔
 
تنبیہ : ہیئاتِ جدیدہ نے اس تناقض کی بنا پر ایک اور قاعدہ اس سے بھی زیادہ باطل تراشا جسے اپنے مشاہدے سے ثابت بتاتی ہے بھلا مشاہدے سے زیادہ اور کیا درکار ہے۔ وہ اس سے اگلا قاعدہ ہے۔
تنبیہ ضروری : اقول:  یہ دونوں قاعدے متناقض صحیح مگر ان سے اتنا کھل گیا کہ جذب کی تبدیلی تین ہی وجہ سے ہے مادہ جذب مادہ مجذوب بعد ، جن میں قابل قبول صرف دو ہیں، مادہ مجذوب اس نمبر ۱۱ نے طنبور میں نغمہ اور شطرنج میں بغلہ بڑھایا۔ بہرحال مجذوب واحد پر بعد واحد سے جاذب واحد کا جذب ہمیشہ یکساں رہے گا، وہ جو نمبر ۱۳ میں آتا ہے کہ جاذبیت بحسب سرعت بدلتی ہے، نمبر ۷ میں گزرا کہ اصل میں سرعت بحسب جاذبیت بدلتی ہے۔
 
 (۱۲) جذب (عہ۱) اگرچہ باختلاف مادہ مجذوب مختلف ہوتا ہے مگر جاذب واحد مثلاً زمین کے جذب کا اثر تمام مجذوبات صغیرو کبیر پر یکساں ہے، سب ہلکے بھاری اجسام کہ زمین سے برابر فاصلے پر ہوں ایک ہی رفتار سے ایک ہی آن میں زمین پر گرتے کہ اُن میں آپ تو کوئی میل ہے نہیں جذب سے گرتے اور اس کا اثر سب پر برابر ایک حصہ مادے کو زمین نے ایک قوت سے کھینچا اور دس حصے کو وہ چند قوت سے تو حاصل وہی رہا کہ ہر حصہ مادہ کے مقابل ایک قوت لہذا اثر میں اصلاً فرق نہ ہوتا مگر ہوتا ہے بھاری جسم جلد آتا ہے اور ہلکا دیر میں اس کا سبب بیچ میں ہوائے حائل کی مقاومت ہے بھاری جسم سے جلد مغلوب ہوجائے گی کم روکے گی جلد آئے گی، ہلکے سے دیر میں متاثر ہوگی۔ زیادہ روکے گی دیر لگائے گا۔ اس کا امتحان آلہ ایر پمپ سے ہوتا ہی جس کے ذریعہ ہوا برتن سے نکال لیتے ہیں۔ اس وقت روپیہ اور روپے برابر کاغذ یا پر ایک ہی رفتار سے زمین پر پہنچتے ہیں یہ حاصل ہے اس کا جو چار صفحوں سے زائد میں لکھا۔
 
عہ۱: ط ص ۱۰تا ص۱۵ ۔  ۱۲۔
 
اقول: اولاً اس سے بڑھ کر عاقل کون کہ لفظ کہے اور معنٰی نہ سمجھے جس میں وزن زیادہ ہے وہ مقاومت ہوا پر جلد غالب آتا ہے ، زیادہ وزن کے کیا معنٰی یہی نا کہ وہ زیادہ جھکتا ہے ، یہ اس کی اپنی ذات سے ہے تو اسی کا نام میل طبعی ہے جس کا ابھی تم نے انکار مطلق کیا اور اگر زمین اسے زیادہ جھکاتی ہے تو یہی تفاوت اثر جذب ہے اس پر زیادہ نہ ہوتا تو زیادہ کیوں جھکتا۔
ثانیاً زیادتِ وزن کا اثر صرف یہی نہیں کہ مقاومت پر جلد غالب آئے بلکہ اس کا اصل اثر زیادہ جھکنا ہے ۔،مقاومت پر جلد غلبہ بھی اسی زیادہ جھکنے سے پیدا ہوتا ہے اگر پہاڑ آکر معلق رہے نیچے نہ جھکے ہوا کو ذرہ بھر شق نہ کرے گا۔
تمہاری جہالت کہ تم نے فرع کو اصل سمجھا اور اصل کو یک لخت اڑا دیا۔ مقاومت پر اثر ڈالنا زیادہ جھکنے پر موقوف تھا لیکن زیادہ جھکنا کسی مقاوم کے ہونے نہ ہونے پر موقوف نہیں وہ نفس زیادت وزن کا اثر ہے تو ہوا بالکل نکال لینے پر بھی یقینا رہے گا اور روپیہ ہی جلد پہنچے گا بلکہ ممکن کہ اب پہلے سے بھی زیادہ کہ اس وقت اس کی جھونک کو ہوا کی روک تھی اب وہ روک بھی نہیں۔ اہل انصاف دیکھیں کیسی صریح باطل بات کہی اور مشاہدے کے سرتھوپ دی، یہ حالت ہے ان کے مشاہدات کی، یہ دیگ کا چاول یاد رہے کہ آئندہ کے اور خلافِ عقل دعوؤں کی بانگی ہے اور اس کا زیادہ مزہ فصل دوم میں کھلے گا ان شاء اللہ تعالٰی، اور ہمارے نزدیک حقیقتِ امر یہ ہے کہ ہر ثقیل میں ذاتی ثقل او ر طبعی میل سفل ہے۔ کہ بزیادت وزن زائد ہوتا ہے تو ہلکی خود ہی کم جھکے گی اگرچہ ہوا حائل نہ ہو، اور حائل ہوئی تو اسے شق بھی کم کرے گی تو بھاری چیز کے جلد آنے کا ایک عام سبب ہے اس میں میل فزوں ہونا خواہ کوئی حائل ہو یا نہ ہو، اور در صورت حیلولت زیادت وزن کے باعث حائل کو زیادہ شق کرنا تو بغرض غلط، ہوا برتن سے بالکل نکال بھی لی جائے روپیہ پھر بھی پَر سے یقیناً جلد آئے گا اگرچہ چند انگل کی مسافت میں تمہیں فر ق محسوس نہ ہو۔
 
 (۱۳) جب (عہ۱)کوئی جسم دائرے میں دائر ہو تو مرکز سے نافرہ اور مرکز کی طرف جاذبہ (ازانجاکہ دونوں برابر ہوتی ہیں) مربع سرعت بے نصف قطر دائرہ کی نسبت سے بدلتی ہیں۔ اء سرعت ہے یعنی وہ مسافت کہ جسم نے مثلاً ایک سیکنڈ میں قطع کی نافرہ کی دلیل اب ہے یعنی وہ اسے یہاں تک پھینکتی ہے تو سیدھا اسی طرح جاتا مگر جاذبہ ار نے اسے ی مرکز کی طرف کھینچا تو جسم ا ب سے ا ء کی طرف پھر گیا، چھوٹی قوس اور اس کے وتر میں فرق کم ہوتا ہے۔
لہذا قوس ا ء کی جگہ وتر اء لو اور جاذبہ کو ح اور سرعت کو س فرض کر : ار: اء :: اء یعنی ح : س :: س : قطر یعنی ح = س۲/قطر یعنی جاذب س ۲/نصف قطر کی نسبت پر بدلے گی اور دائرے پر حرکت میں جاذبہ و نافرہ برابر ہوتی ہیں اور ایک دائرے میں نصف قطر کی قیمت محفوظ ہے لہذا جاذبہ ونافرہ مربع سرعت کی نسبت بدلیں گی مثلاً ڈور میں گیند باندھ کر گھماؤ جب سرعت دو چند ہوگی ڈور پر زور چہار چند ہوگا تو ڈور یعنی جاذبہ کی مضبوطی بھی چہار چندہونی چاہیے۔
 
عہ۱: ص ۱۰۳۔  ۱۲۔
 
 
 
اقول:  یہ سب تلبیسیں و تدلیس ہے۔
اولا ا ر جاذبیت رکھی کہ سہم قوس ا ء ہے اور اب واقعیت کے مساوی رء جب قوس مذکور ہے اور جیب سہم سواربع دو  روسہ ربع دور کے کبھی مساوی نہیں ہوسکتے ربع اول و چہارم میں ہمیشہ جیب بڑی ہوگی اور دوم و سوم میں ہمیشہ سہم اور بوجہ صغر قوس قلت تفاوت کا عذر مردود ہے۔
ثانیاً  اب دافعیت نہیں بلکہ وہ مسافت جس تک اس دفع کے اثر سے جاتا خود بھی اسے دلیل نافرہ کہا یہاں دافع کہا جب اتنا اثر ہے تو جاذبہ کے تجاذب سے اگر گھٹے نہیں تو بڑھنا کوئی معنٰی ہی نہیں رکھتا تو جسم یہاں اسی قدر مسافت پر جاسکتا ہے۔ وہ قوس ا ء  رکھی پھر وتر اء  تو واجب کہ ا ب  و اء  یعنی جیب وتر مساوی ہوں اور یہ قطعاً ہمیشہ محال ہے ا رء  قائم الزاویین اور دونوں قائمے ہوئے یا قائمہ مساوی حادہ اور عذر صغر پہلے رد ہوچکا۔
ثالثاً : ا رسہم و ا ء  وتر بھی مساوی ہوگئے اور یہ بھی محال ہے ا ب مثلث ا ر ء  قائم الزاویہ مختلف الاضلاع ہوگیا اور قائمہ ۶۰ درجے کا رہ گیا اور ایک ثانیہ ۱۸۰ درجے ایک ثانیہ یہ ہوا کہ رء (عہ) ا محیطیہ ایک ثانیہ پر پڑا ہے اور ر ا ء محیطیہ ایک ثانیہ کم نصف دور پر اور دونوں مساوی ہیں کہ دونوں کے وتر مساوی ہیں۔(مامونی) تو دونوں قوسیں مساوی ہیں۔(مقالہ ۳ شکل ۲۵) بالجملہ اس پر بے شمار استحالے ہیں۔
 
عہ:  تو یہ نصف ثانیہ ہوا اور ر ا ء  ۵۹۵۹۸۹ٍ۔۳ اور دونوں مساوی ہیں اور نسبت اضعاف مثل نسبت انصاف ہے۔(اقلیدس ۵ مقالہ شکل ۱۵) تو ایک ثانیہ ۵۹۵۹۱۷۹ کے برابر ہوا، یعنی ۱=۶۴۷۹۹۹ ::۶۴۷۹۹۸ یہ ہیں تحقیقات جدیدہ ۱۲ منہ غفرلہ
 
رابعاً یہ ضرور ہے کہ مہندسین نہایت صغیر قوسوں میں اُن کے وتر اُن کی جگہ لے لیتے ہیں جیسے اعمال کسوف و خسوف میں، مگر اسے تو حکم عام دینا ہے، ہر جگہ یہ ٹٹو کیسے چلے گا، دیکھو نصف دو ۱۸۰ درجے محیط ہے اور اس کا وتر کہ قطر ہے صرف ۱۲۰ درجے وہ بھی قطریہ کہ محیطیہ کے ۱۵ ۱(عہ۱) سے بھی کم ہوئے فرض کرو قوس ا ء ۶۰ درجے ہے تو درجات قطریہ سے ا ر سہم صرف ۳۰ ہے اور رء جیب تقریبا ۵۲(عہ۲) ا ء قوس تقریباً ۶۳ (عہ۳) مجنون ہے جو ان سب کو مساوی کہے۔
 
عہ۱: یعنی ۱۱۴ درجے ۳۵ دقیقے ۲۹ ثانیے ۳۶ ثالثے ۴۷ رابعے ۱۲ منہ غفرلہ
عہ۲: یعنی ۵۱ درجے ۵۷ دقیقے ۴۱ ثانیے ۲۹ ثالثے ۱۴ رابعے ۱۲ منہ غفرلہ
عہ۳: یعنی ۶۲ درجے ۴۹ دقیقے ۵۴ ثا نیے ۴۰ ثالثے ۴۴ رابعے ۱۲ منہ غفرلہ ۔
 
خامساً تساوی قوتین پر شکل وہ نہ ہوگی بلکہ یہ اب دلیل واقعہ ہے ا کو مرکز مان کر بعد ب پر قوس ب ر کھینچی جس نے محیط کو ء  پر قطع کیا اورقطر کو ر پر تو ا ء  مسافت واثر دافعیت ہوئی اور ا ر  اثر جاذبیت ا ب ا ر سہم قوس اء نہیں بلکہ اس کا سہم ا ح ہے بحکم شکل مذکور اقلیدس ا ح بحسب مربع ا ء بدلے گا نہ کہ جاذبیت ا ر۔
 
 
 
سادساً دعوٰی میں جاذبہ نافرہ دونوں تھیں اور بغرض باطل اس دلیل سے ثابت ہوا تو جاذبہ کا بحسب مربع مسافت بدلنا جسے بنادانی مربع سرعت کہا سرعت مسافت نہیں بلکہ مسافت مساویہ کو زمانہ اقل میں قطع کرنا نافرہ کے دعوے کو تساوی جاذبہ ونافرہ پر حوالہ کیا اور اسے خود شکل میں بگاڑ دیا کہ جاذبہ سہم رکھی اور دافعہ جیب، بلکہ وتر، بلکہ قوس، اہلِ انصاف دیکھیں یہ حالت ہے انکی اوہام پرستی کی، اپنے باطل خیالات کو کیسا زبردستی برہان ہندسی کا لباس پہنا کر پیش کرتے ہیں۔
(۱۴) ہر دائرے میں جاذبہ ہو یا نافرہ بحسب نصف قطر (عہ۴) مربع زمانہ دورہ ہے اس (عہ۵) سے معلوم ہوسکتا ہے کہ آفتاب جو زمین کو کھینچتا ہے اور زمین قمر کو ان دونوں کششوں میں کیا نسبت ہے نصف قطر مدار قمر کو ایک فرض کریں تو نصف قطر مدار زمین ۴۰۰ ہوگا اور اس کی مدت دورہ ۳۲۵ء ۲۷ دن ہے اور اس کی ۲۵ء۳۶۵ دن :: انجذاب قمربہ شمس : انجذاب قمربہ ارض
 
 
 
یعنی شمس اگرچہ دور ہے، قمر کو ۲۔۱/ ۵ زمین سے زیادہ کھینچتا ہے انتہی۔
 
عہ۴: ص ۱۰۴۔  ۱۲۔۔   عہ۵: ص ۲۰۹،۱۲
 
اقول: منتسبین بدل گئے یوں کہنا تھا کہ انجذاب قمربہ ارض: انجذاب قمربہ شمس :: الخ اور اختصار میں  ۴/۱ ۔۲  چاہیے تھا کہ حاصل ۲۳۷ء۲ ہے کہ ربع سے قریب ہے پھر بفرض صحت اس سے ثابت ہوتی تو وہ نسبت جو قمر کو زمین اور زمین کو شمس کی کشش میں ہے جیسا کہ ابتداءً دعوٰی کیا تھا اور نتیجہ میں رکھی وہ نسبت جو قمر کو کشش زمین و شمس میں ہے خیر اسے کہہ سکیں کہ بوجہ قلت (عہ)  تفاوت دورہ و بعد زمین کو دورہ و بعد قمر رکھا مگر اس کے بیان میں اس دلیل کا مبنٰی یہی قاعدہ نمبر ۱۴ ہے اور اس کا مبنٰی قاعدہ نمبر ۱۳ جس کے شدید ابطال ابھی سن چکے۔
 
عہ: کما قال فی اول ھذہ النمرۃ ۲۰۹ ان القمر یدورحول الشمس علی معدل بعد الارض وفی نفس مدۃ دوران الارض حولھا الخ ۱۲ منہ ۔
 (۱۵) وزن (عہ۲) جذب سے پیدا ہوتا او را سکے اختلاف سے گھٹتا بڑھتا ہے۔ اگر جسم (عہ۳) پر جذب اصلاً نہ ہو یاسب طرف سے مساوی ہونے کے باعث اس کا اثر نہ رہے تو جسم میں کچھ وزن ہوگا ہم اگر مرکز زمیں پر چلے جائیں تمام ذراتِ زمین ہم کو برابر کھینچیں گے اور اثر کشش جاتا رہے گا ہم بے وزن ہوجائیں گے۔
عہ۲:  ط ص ۱۰۔  ۱۲۔   عہ۳:  ط ص ۸۳ ۔  ۱۲۔
 
اقول: یہ نری بے وزن بدیہی البطلان بات کہ جسم میں خود کچھ وزن نہیں جذب سے پیدا ہوتا ہے ہیات جدیدہ کی کثیر تصریحات سے واضح و آشکار ہے۔ ا کثافت (عہ۴) عطارد سونے کے قریب زمین سے دو چند ہے مگر اس کے صغر کے سبب اس کی جاذبیت جاذبیت زمین کی ۳ / ۵  ہے اسی نسبت سے اوزان اس کی سطح پر گھٹتے ہیں جو چیز زمین پر من بھر ہے عطارد پر رکھ کر تولیں تو صرف چوبیس (۲۴) سیر ہوگی۔ ب سطح (عہ۵) آفتاب پر جسم کا وزن سطح زمین سے ۲۸ گنا ہوتا ہے یعنی یہاں کامن وہاں کا ٹن ہوجائے گا وہاں کاٹن یہاں من رہے گا اس کا رد فصل ۲ رد ۱۴ سے روشن ہوگا۔ ج جو چیز (عہ۶) سطح زمین سے تین ہزار چھ سو رطل کی ہے کہ اس کے بعد مرکز سے بقدر نصف قطر زمین ہے اگر سطح زمین نصف قطر کی دوری پر رکھیں ۹ سورطل رہ جائے گی اور پورے قطر کہ بعد پر چارہی سو اور ڈیڑھ قطر کے فاصلے پر سوا دو سو اور دو قطر کے فصل پر ایک سو چوالیس ہی رطل رہے گی کہ مربع بعد جتنے بڑھتے ہیں جاذبیت اتنی ہی کم ہوتی ہے تو ویسا ہی وزن گھٹتاجائے گا یعنی ساڑھے چار قطر کے بعد پر ۳۶ ہی رطل رہے گا اور ساڑھے پانچ پر صرف ۲۵، اور ساڑھے نو پر ۹ ہی رطل، اور ساڑھے چودہ پر چار رطل، اور ساڑھے انتیس پر ایک ہی رطل رہے گا تین ہزار پانچ سو ننانوے رطل اڑ جائیں گے وعلٰی ہذا القیاس ء زمین (عہ۱) پر خط استوا کے پاس شے کا وزن کم ہوگا اور جتنا قطر کی طرف ہٹو بڑھتا جائے گا کہ خطِ استواء کے پاس جاذبیت کم ہے اور قطب کے پاس زیادہ ۔ ولیم ہرشل (عہ۲) نے کہا نجیمات پر یعنی مریخ و مشتری کے درمیان آدمی ہو تو ساٹھ فٹ اونچا بے تکلف جست کرسکے۔
 
عہ۴: ص ۲۷۶۔۱۲     عہ۵ : ص ۱۳۲   عہ۶:  ح ص ۳۸
عہ۱:  ط ص ۸۳ ۔۱۲   عہ۲: ص ۲۹۰
 
اقول: تو یورینس پر جا کر تو خاصا پکھیرو ہوجائے گا جدھر چاہے اڑتا پھرے گا پھر کہا اور ساٹھ فٹ بلندی سے انُ پر گرے تو اس سے زیادہ ضرر نہ دے جتنا ہاتھ پر بلندی سے زمین پر گرنا۔
اقول:  تو نیپچون پر جا کر تو روئی کا گالا ہوجائے گا کہ ہزاروں گز بلندی سے سخت پتھر پر گرے کچھ ضرر نہ ہوگا۔ یہ ہیں ان کی خیال بندیاں اور انہیں ایسا بیان کریں گے گویا عطاردو آفتاب پر کچھ رکھ کر تول لائے ہیں نجیمات پر بیٹھ کر کود آئے ہیں، ان تمام خرافات کا بھی ماحصل وہی ہے کہ جسم میں فی نفسہ کوئی وزن نہیں ورنہ ہر کرے ہر مقام ہر بعد پر محفوظ رہتا جاذبیت کی کمی بیشی سے صرف اس پر زیادت میں کمی بیشی ہوتی ظاہر ہے کہ جو کچھ بھی وزن مانو اس سے زیادہ بعد پر بقدر مربع بعد گھٹے گا اور بعید ہیئات (عہ۳) جدیدہ میں غیر محدود ہے تو کمی بھی غیر محدود ہے، پہاڑ کا وزن (عہ۴) رائی کے دانے کا ہزاروں حصہ رہے گا پھر اس پر بھی نہ رکے گا تو کوئی وزن کہیں محفوظ نہیں جسے اصلی ٹھہرائیے مگر اس جری بہادر ط نے اسے اور بھی کھلے لفظوں میں کہہ دیا اس کی عبارت یہ ہے جس سبب سے کہ چیزیں زمین پر گر پڑتی ہیں اُسی سبب سے ان میں وزن بھی پیدا ہوتا ہے یعنی کشش  ثقل ان کو بھاری کرتی ہے بوجھ اشیاء میں موافق مقدار کشش کے ہوگا۔ یہ ہے فلسفہ جدیدہ اور اس کی تحقیقات ندیدہ کہ پہاڑ میں آپ کچھ وزن نہیں وہ اور رائی کا ایک دانہ ایک حالت میں ہیں۔
 
عہ۳:  دیکھو ۲۶۔  ۱۲۔
عہ۴: اقول: بعد دیگرے سیّارہ دیگر کے جذب سے اور وزن ہلکا ہوگا زمین کے خلاف جہت کھینچا اور بفرض غلط ہو بھی تو کام نہ دے گا کہ وہ بھی عارضی ہوا کلام وزن اصلی میں ہے۔ ۱۲ منہ غفرلہ
 
اقول: حقیقتِ امر اور اختلافِ جذب سے ان کے دھوکے کا کشف یہ ہے کہ ہر جسم ثقیل یقیناً اپنی حد ذات میں وزن رکھتا ہے۔ پہاڑ اور رائی ضرور مختلف ہیں، شیئ میں جتنا وزن ہو اس کے لائق دباؤ ڈالے گی پھر اگر اس کے ساتھ کوئی جذب بھی شریک کرو تو دباؤ بڑھ جائے گا اور جتنا جذب بڑھے اور بڑھے گا بیس سیر کا پتھر آدمی سر پر رکھے وہ دبائے گا اور اس میں رسیاں باندھ کر دو آدمی نیچے کو زور کریں، دباؤ بڑھے گا۔ چار آدمی چاروں طرف سے کھینچیں اور بڑھے گا لیکن جذب کی کمی بیشی اصل وزن پر کچھ اثر نہ ڈالے گی جذب کم ہویا زائد یا اصلاً نہ ہو وہ بدستور رہے گی، ہاں اگر اوپر کی جانب کوئی جاذب یا چاری کی طرف ادھر سے سہارا دے یا کمانی کی لچک کی طرح اوپر اچھالے تو اِن صورتوں میں وزن کا احساس کم ہوگا یا اصلاً نہ ہوگا فی نفسہ وزن اصلی اب بھی برقرار رہے گا مگر جذب زیریں کی کمی یا نفی احساس اصلی بھی فرق نہیں کرسکتی کہ نیچے جذب نہ ہونا نہ اوپر کو کھینچتا ہے نہ سارا نہ اچھال تو اصلی وزن کا دباؤ کم ہونا محال۔ بالجملہ جذب مؤید تھا نہ کہ مولد، لیکن انہوں نے جذب کو وزن کا مولد مانا اور واقعی ان کو اس مکابرے کی ضرورت ہے کہ وزن ذاتی میل طبعی کو ثابت کرے گا اور اس کا ثبوت جاذبیت کا خاتمہ کردے گا کما سیأتی( جیسا کہ آئے گا۔ت) اور اس کے ختم ہوتے ہی ساری ہیات جدیدہ کی عمارت ڈھہ جائے گی کہ اس کی بنیاد کا یہی ایک پتھر ہے تو قطعاً اس کا مذہب یہی ہے جیسا کہ اس کی تصریحات کثیرہ سے آشکار ، نیوٹن کا قول نمبر ۸ جسے ماننا ہو پہلے ہیات جدیدہ کا سارا دفتر اور خود نیوٹن کے قواعد جاذبیت سب دریا برد کردے ظاہراً وہ نیوٹن نے ۱۶۶۵ء سے پہلے کہا ہو جب تک سیب نے گر کر جاذبیت نہ سمجھائی تھی اور اسی پر نادانستہ نمبر ۲ مبنی ہوا بہرحال کچھ ہو ہم سب ان کی ان تصریحات متناقصہ سے کام لے سکتے ہیں کہ انہیں کے اقوال ہیں لیکن ان کو اس نمبر ۱۵ سے کوئی مفر نہیں وہ ہیات جدیدہ کی بنی رکھی چاہیں تو اس کے ماننے پر مجبور ہیں کہ کسی جسم میں خود کوئی وزن نہیں بلکہ جذب سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ بات خوب یاد رکھنے کی ہے کہ آئندہ دھوکا نہ ہو ہم اس پر اس سے زیادہ کیا کہیں جو کہہ چکے کہ یہ بداھۃً باطل ہے ہاں وہ جو کروں پر اختلافِ وزن بتایا ہے اس سے سہل ترانہیں بتادیں۔
 
فاقول: ہیأت جدیدہ سے کہے کیوں خط استوا سے قطب تک دوڑے یا عطاردو آفتاب تک پھلانگتی پھرے اس کا زعم سلامت ہے تو خود اس کے گھر میں ایک ہی جگہ رکھے رکھے شے کا وزن گھٹتا بڑھتا رہے گا آج سیر بھر(عہ) کی ہے کل سوا سیر ہوجائے گی، پرسوں تین پاؤ رہ جائے گی پھر ڈیڑھ سیر ہوجائے گی، کوئی عاقل بھی اس کا قائل ہے وجہ یہ کہ سیارات و اقمارات ونجیمات ( وہ مشابہ سیارہ سوا سو سے زائد اجرام کہ مریخ و مشتری کے درمیان ابھی انیسیویں صدی میں ظاہر ہوئے ہیں جن میں جو نو ووسطا وسیرس و پلاس زیادہ مشہور ہیں ) اگرچہ کثافت و بعد میں مختلف ہوں جاذبیت رکھتے ہیں قطعاً مجموعہ تفاضل کے برابر نہیں ہوسکتا ، اب جس وقت ان کا اجتماع زمین کی جانب مقابل ہو کہ شے اُن کے اور زمین کے بیچ میں ہو تو زمین کی جاذبیت تو شے میں وزن پیدا کرے گی اور ان سب کی جاذبیت کہ جانبِ مخالف ہے ہلکا کرے گی۔ غلبہ جذب زمین کے باعث وزن بقدر تفاضل رہے گا اور جب اُن کا اجتماع زمین کے اس طرف ہو کہ شے سے زمین اور وہ سب ایک طرف واقع ہوں تو وہ اور زمین سب کی مجموعی جاذبیت اس میں وزن پیدا کرکے بہت بھاری کردے گی او ر جب کچھ ادھر کچھ ادھر ہوں وزن بین بین ہوگا۔جوہر اختلاف اوضاع پر بدلے گا اگر کہیے اختلافِ وزن کیونکر معلوم ہوسکے گا۔ جس چیز سے تو لاتھا وہ بھی تو اُتنی ہی بھاری یا ہلکی ہوجائے گی۔
 
عہ: یہ مدت وعدت تنظیر ہے نہ کہ تحدید ۱۲ منہ غفرلہ
 
اقول: قطب و خطِ استوا پر اختلافِ وزن کیونکر جانا، اب کہو گے ساقول سے، ہم کہیں گے یہاں بھی اُسی سے۔
(۱۶) ہر شبانہ روز (عہ) میں دو بار سمندر میں مدوجزر ہوتا ہے جسے جوار بھاٹا کہتے ہیں۔ پانی گزوں یہاں تک کہ خلیج فوندی (عہ۱) میں نیز شہر برستول کے قریب جہاں نہر سفرن سمندر میں گرتی ہے ستر فٹ تک اونچا اٹھتا پھر بیٹھ جاتا ہے اور جس(عہ۲) وقت زمین کے اس طرف اٹھتا ہے ساتھ ہی دوسری طرف بھی یعنی قطر زمین کے دونوں کناروں پر ایک ساتھ مد ہوتا ہے یہ جذب قمر کا اثر ہے ، ولہذا (عہ۳)جب قمر نصف النہار پر آتا ہے اس کے چند ساعت (عہ۴) بعد حادث ہوتا ہے آفتاب کو بھی اس میں دخل ہے ولہذا (عہ۵) اجتماع و مقابلہ نیر ین کے ڈیڑھ دن بعد سب سے بڑا مد ہوتا ہے مگر اثر شمس بہت کم ہے، حدائق النجوم (عہ۶) میں جذب قمر سے ۳/۱۰ کہا اصول ہیأت (عہ۷) میں ۲/۵ یا ۲۳/۵۸ جاڑوں میں (عہ۸) صبح کا مد شام کے مد سے زیادہ بلند ہوتا ہے اور گرمیوں میں بالعکس (عہ۹) چھوٹے سمندروں اور بڑی نہروں اور اُن پانیوں میں جن کو خشکی محیط ہے جیسے دریائے قزبین و دریائے ارال و بحر متوسط و بحر بالطیق وجحیوں وسیحون وگنگ و جمن وغیرہ میں نہیں ہوتا۔

اقول: مد کا جذب قمر سے ہونا اگر چہ نہ ہم کو مضر نہ اس کا انکار ضرور، مگر برسبیل ترک ظنون وطلب تحقیق وہ بوجوہ مخدوش ہے:

وجہ اول : چاند تو زمین کے ایک طرف ہوگا دوسری طرف پانی کس نے کھینچا، یہ تو جذب نہ ہوا دفع ہوا۔

عہ: ص ۲۶۳ میں ۲۴ گھنٹے ۵۰ منٹ کہے نیز ص ۲۷۳ و ح ص ۲۰۷ میں ۲۴ ت ،۴۸ ط ص ۱۰۶ ۲۴ت ص ۱۰۹ ۲۴ ت ۔ ۴۵ تعریبات شافیہ جزثانی ص ۳۸ ،۲۴ ت ،۵۱ جغرافیاطبعی ص ۱۹ ،۲۴ ت ،۵۴ بہرحال ہر یوم قمری میں دو مد ہیں یونہی جزء ۱۲ منہ غفرلہ۔
عہ۱: ص ۲۷۲۔ ۱۲۔ عہ۲: ص ۲۶۳ ح ص ۲۰۵و۲۰۶ ط ۱۰۶و ۱۰۷
عہ۳: ص ۲۶۵ ح ص ۲۰۵۔ ط ۱۰۹
عہ۴: حدائق النجوم ص ۲۰۰ میں اس کی اصل مقدار تین گھنٹے بتائی اگرچہ عوارض خارجیہ سے تفاوت ہوتا ہے۔
عہ۵: ص ۲۶۷۔ شافیہ جلد دوم ص ۳۹ عہ۶: ص ۲۰۵۔ ص ۲۰۶ عہ۷: ۔۲۶۶
عہ۸: ح ص ۲۰۷ عہ۹: ص ۲۶۳و ۲۷۰، ۲۷۲ ح ص ۲۰۷ ۔

اصول علم (عہ۱) الہیات وغیرہ سب میں اس کا یہ جواب دیا کہ بعید پر جذب کم ہوتا ہے سمتِ مواجہ قمر میں پانی قمر سے قریب اور زمین بعید ہے، لہذا اس پانی پر زمین سے زیادہ جذب ہوا اور بہ نسبت زمین کے چاند سے قریب تر ہوگیا۔ یوں ارتفاع ہوا ادھر کا پانی قمر سے بعید اور زمین سے قریب ہے، لہذا زمین پر پانی سے زیادہ جذب ہوا اور ادھر کا حصہ زمین چاند سے بہ نسبت آب (عہ۲) قریب تر ہوگیا تو وہ پانی مرکز زمین سے دور ہوگیا اور مرکز زمین سے دوری بلندی ہے ادھر یوں ارتفاع ہوا۔

عہ۱: ص ۲۶۴ ط ص ۱۰۷ ۔ ح ص ۲۰۵ و ۲۰۶ ص ۵۲ اس کے اخیر میں اسے جاہلانہ بیان کیا اور ط میں متحیرانہ اقرار کرکے کہ اس کا بیان پیچیدہ ہے اور بات صاف نہ کہہ سکا، ح کا کلام بھی مضطرب و مشتبہ سارہا، ص نے صاف بیان کیا لہذا ہم نے اسی سے نقل کیا ۱۲ منہ غفرلہ۔
عہ۲: نظار ہ عالم میں براہِ جہالت اُسے یوں لکھا کہ دوسری جانب کاپانی بعد کے باعث ساکن رہتا ہے لیکن زمین جو اس پانی کے اندر ہے کھینچتی ہے۔

اقول: اولاً جس طرح قرب وبعد سے اثر جذب میں اختلاف ہوتا ہے یونہی مجذوب کے ثقل و خفت سے بھاری چیز کم کھینچے گی اور ہلکی زیادہ سمت مقابل کا پانی بہ نسبت زمین کیا ایسا بعید ہے کہ زمین سے متصل ہے اور سمندر کی گہرائی(عہ۳) زیادہ سے زیادہ پانچ میل بتائی گئی ہے قمر کا بعد اوسط ۲۳۸۸۳۳ میل ہے اور زمین کا قطر معدل ۷۹۱۳ میل تو اس جانب کے اجزائے ارضیہ کا قمر سے بعد ۲۴۶۷۴۶ میل ہوا اس کثیر بعد پر چار پانچ میل کا اضافہ ایسا کیا فرق دے گا لیکن پانی بہ نسبت زمین بہت ہلکا ہے زمین کی کثافت پانی سے چھ گنی کے قریب ہے یعنی، ۶۷ء۵(عہ۴) تو اگر تفاوت بعد اس کے جذب میں کچھ کمی کرے تفاوت ثقل اس کمی پر غالب آئے گا یا نہ سہی پوری تو کردے گا۔ اور زمین و آب پر جذب یکساں رہ کر پانی زمین سے ملا ہی رہے گا تو مد نہ ہوگا بخلاف سمت مواجہ قمر کہ ادھر کا پانی قرب و لطافت دونوں وجہ کا جامع ہے تو اسی طرف مد ہونا چاہیے۔

عہ۳: جغرافیہ طبعی ص ۱۹۔۱۲ عہ۴: حدائق میں گزرا ۳ گھنٹے بعد۔

ثانیاً نمبر ۱۸ میں آتا ہے ہوا و آب و خاک مجموعہ تمہارے نزدیک کرہ زمین ہے اور قمر مجموع کو جذب کررہا ہے تو سب ایک ساتھ اٹھیں نہ کہ ادھر کا پانی زمین کو چھوڑ جائے اور ادھر کی زمین پانی کو چھوڑ آئے، دیکھو تمہارے زعم میں جذب شمس سے زمین گھومتی ہے تو تینوں جز خاک و آب و باد کو ایک ساتھ یکسان متحرک مانتے ہو نہ کہ سب ایک دوسرے سے جدا ہو کر چلیں۔

ثالثاً اگر ایسا ہوتا سمت مواجہ کی ہوا پر قمر کا جذب ادھر کے پانی سے بھی زائد ہوتا کہ اقرب بھی اور الطف بھی، اور ادھر کی ہوا کو تمہارے زعم باطل پر ادھر کا پانی چھوڑ آتا جس طرح اس پانی کو ادھر کی زمین چھوڑ گئی تو لازم تھا کہ مد کے وقت دونوں طرف نہ سطح زمین پر پانی ہوتا نہ سطح آب پر ہوا، بلکہ ہر دو کے بیچ میں خلا ہوتا۔ یہ بداہۃً باطل ہے، اطراف کے پانی کا آکر اس جگہ کو بھرنا کیوں یہ حرکت نہ اُن پانیوں کے متقضائے طبع ہے نہ زمین کا اثر نہ استحالہ خلا کی ضرورت، نمبر ۲۵ میں آتا ہے۔ کہ خلا تمہارے نزدیک محال نہیں پھر بلاوجہ اور پانی کیوں چل کر آئیں گے۔

وجہ دوم : کشش قمر سے مدَ ہوتا تو اس وقت ہوتا جب قمر عین نصف النہار پر سیدھے خطوں میں پانی کو کھینچتا ہے لیکن پانی وہاں کا اٹھتا ہے جہاں نصف النہار سے گزرے قمر کو گھنٹے ہوچکتے ہیں(عہ۱) ۔ اصول ہیأت میں اس کے دو حیلے گھڑے یکم پانی کا سکون ا سے فوراً جذب قبول نہیں کرنے دیتا انتہی یعنی جسم میں حرکت سے انکار ہے حتی الامکان محرک کی مقاومت کرے گا اس لیے پانی فوراً نہیں اٹھتا۔

عہ۱: ص ۲۶۶

اقول: اولاً قمر صرف سیدھے خط پر کھینچتا ہے یا ترچھے پر بھی، برتقدیر اول کس قدر باطل صریح ہے کہ جس وقت جذب ہورہا تھا پانی نہ ہلا،جب جذب اصلاً نہ رہا گزوں اٹھا یعنی وجود مسبب وجود سبب سے نہیں ہوتا بلکہ سبب معدوم ہونے کے گھنٹوں بعد، برتقدیر ثانی قمر جس وقت افق شرقی پر آیا اس وقت سے اس پانی کو کھینچ رہا تھا تو ٹھیک دوپہر کو اٹھنا فوراً اثر قبول کرنا نہ تھا بلکہ چھ گھنٹے بعد عجب کہ دوپہر کامل جذب ہوا اور وہ بھی اس طرح کہ ہرلمحہ پر پہلے سے قوی تر ہوتا جائے یہاں تک کہ نصف النہار پر غایت قوت پر آئے اور پانی کو اصلاً خبر نہ ہو جب جذب ضعیف پڑے اور آناً فاناً زیادہ ضعیف ہوتا جائے تو گھنٹوں کے بعد اب اثر پیدا ہوا اور یہیں سے حدائق النجوم کے جواب کا رد ہوگیا کہ امتداد سبب اشتداد سبب سے زیادہ موثر ہے۔
اقول : ہاں گرمی کے سہ پہر کو دوپہر سے زیادہ گرمی ہوتی ہے جاڑے کی سحر کو شب سے زیادہ سردی ہوتی ہے مگر زیادت کا فرق ہوتاہے نہ یہ کہ مدت مدید تک بڑھتا ہوا اشتداد امتداد رکھے اور اثر اصلاً نہ ہو جب وقتاً فوقتاً بڑھتے ہوئے ضعف کا امتداد ہو اس وقت آغاز اثر ہو یعنی جون ، جولائی کی دوپہر کو اصلاً گرمی نہ ہو تیسرے پہر کوہو ۔دسمبر ،جنوری کی آدھی رات کو سردی نام کو نہ ہو سحر کے وقت ہو ، ایسا الٹا اثر ہیئات جدیدہ میں ہوتا ہوگا۔
ثانیاً محرک کی قوت اگر جسم پر غالب نہ ہو اصلاً حرکت نہ کرے گا ،من بھر کے پتھر میں رسی باندھ کر ایک بچہ کھینچے کبھی نہ کھینچے گا اور اگر اس درجہ غالب ہو کہ اسے تاب مقاومت نہ ہو فوراً متحرک ہو گا مزاحمت کا اثر اصلاً ظاہر نہ ہوگا جیسے ایک مرد گیند کو کھینچے اور اسکی مقاومت اس کی قوت کے سامنے قیمت رکھتی ہے تو البتہ فوراً اثر نہ ہوگا اسے قوت بڑھانی پڑےگی زیادت قوت کے وقت اثر ہوگا نہ یہ کہ منتہائے قوت تک زور کرکے تھک جائے اور نہ ہلے اب کہ ضعیف زور رہ جائے اور لحظہ بہ لحظہ گھٹتا جائے تو اس گھٹی ہوئی قوت کو مانے ۔پانی کی مقاومت قمر کی قوت کے آگے اول تو قسم دوم کی ہونی چاہئے جو ساری زمین کو کھینچ لے جاتا ہے اس کے سامنے اتنا پانی ایسا کتنے پانی میں ہے کہ گھنٹوں نام کونہ ہلے اور نہ سہی قسم سوم ہی مانئے تو انتہائے قوت کے وقت اثر ظاہر ہونا تھا نہ کہ تھک رہنے کے بعد مری ہوئی طاقت سے۔
ثالثاً جب پانی اتنی مقاومت کرے واجب ہے کہ زمین اس سے بدرجہا زائد مزاحم ہو تو جس وقت پانی اثر لے زمین اس سے بہت دیر بعد متاثرہو، اور اس طرف کے پانی کا اٹھنا خود نہ تھا بلکہ زمین کے اٹھنے سے تو واجب کہ ادھر کے پانی میں جب مد ہو ادھر کے پانی میں سکون ہو ادھر کے پانی میں مدتوں بعد جب زمین اثر مانے مد ہو اس وقت ادھر کے پانی میں کب کا ختم ہو چکا حالانکہ دونوں طرف ایک ساتھ ہوتا ہے ۔
رابعاً رات دن میں دو ہی مد ہوتے ہیں اب لازم کہ چارہوں دو پانی کے اپنے اور دو جب زمین متاثر ہو کر اٹھے ۔
خامساً جانب قمر میں چار مد ہو ں اور طرف مقابل میں دو کہ باتباع زمین ہیں اور اس کے دوہی تھے ، غرض یہ لوگ اپنے اوہام بنانے کے لیے جو چاہیں منہ کھول دیتے ہیں ۔اس سے غرض نہیں کہ اوندھی پڑے یا سیدھی ، اور پڑتی اوندھی ہی ہے ۔ حیلہ دوم قعر دریا میں اور کناروں پرپانی کی حرکت بھی اثر جذب میں دیر کی معین ہوتی ہے۔

اقول: سمندر کے قعر میں پانی کی حرکت کیسی ،سمندر میں نہرو ں کا سا ڈھال نہیں، ولہذا دھار نہیں، نہ قعر میں ہوا ہے نہ اوپر کی ہوا کا اثر قعر تک پہنچتا ہے کیسی ہی آندھی ہو سو فٹ کے بعد پانی بالکل ساکن رہتا ہے(عہ۱) کناروں کی حرکت ہوا سے ہے جہاتِ اربعہ سے ایک جہت مثلاً مشرق کو حرکت قمر کی طرف حرکت صاعدہ کے لیے کیا منافی ہے کہ تاخیر اثر میں معین ہوگی دیکھو تمہارے نزدیک زمین مشرق کو جاتی ہے اور اسی آن میں جذب شمس سے مدار پر چڑھتی ہے دونوں حرکتیں ایک ساتھ ہوتی ہیں۔

عہ۱: تعریبات شافیہ جزء ثانی ص ۳۸۔ ۱۲۔

وجہ سوم :کشش ماہ سے مَد ہوتا تو چھوٹے پانیوں میں کیوں نہیں ہوتا۔ چاند جس پانی کے سامنے آئے گا اسے کھنچے گا اس کے جواب میں اصول الہیأت نے تو ہتھیار ڈال دیئے، کہا یہ کسی مقامی سبب سے ہے۔
اقول: یہی کہنا تھا تو وہاں کہنا چاہیے تھا کہ جزر و مد کا کوئی مقامی سبب ہے جس کے سبب یہ قاہر ایراد نہ ہوتے۔ حدائق النجوم نے اس پر دو مہمل حیلے تراشے ، یکم مد کے لیے اجزائے آب کا اختلاف چاہیے کہ بعض کو قمر کھینچے بعض کو نہیں تو جسے کھینچا وہ اٹھتا معلوم ہو یہ پانی چھوٹے ہیں قمر جب ان کی سمت الراس پر آتا ہے ، سارے پانی کو ایک ساتھ کھینچتا ہے لہذا مد نہیں ہوتا۔
اقول : اولاًجہالت ہے اگر سارا پانی ایک ساتھ اٹھے توکیا اس کا بڑھنا اورکناروں پرپھیلنااور پھر گھٹنا اور کناروں سے اتر جانا محسوس نہ ہوگا ،عقل عجب چیز ہے ۔
ثانیاً تمھارے نزدیک تو قمر سارے کرہ زمین کوکھینچتاہے نہ کہ بڑے سمندر میں ایک حصہ آب کوکھینچے باقی کونہیں ۔کچھ بھی ٹھکانے کی کہتے ہو ، حیلہ دوم قمر کی قوت تاثیر صرف اس وقت ہے کہ نصف النہار پر گزرے اور وہ تھوڑی دیر تک ہے یہ پانی کم پھیلے ہوئے ہیں ان کی سمت الراس سے قمر جلد گزرجاتا ہے لہذا اثر نہیں ہونے پاتا ۔
اقول: بڑے سمندروں میں قمر سمت الراس پر بدرجہ اولٰی نہ ہوگا بلکہ مختلف حصوں پر مختلف وقتوں میں آئے گا اور ہر حصے سے اتنا ہی جلد گزر جائے گا جتنا جلد چھوٹے سمندروں سے گزرا تھا تو چاہیے کہیں بھی مدنہ ہو اور اگر قبل و بعد کے ترچھے خطوط پر جذب یہاں کام دے گا تو وہاں کیا نصف النہار سے گزر کر جذب نہیں ہوتا۔ طلوع سے غروب تک ترچھے خطوط پر برابر پانی کو جذب کرتا ہے تو سب میں مد لازم حتی کہ جھیلوں تالابوں بلکہ کٹورے کے پانی میں جب کہ طلوع قمر سے غروب تک کھلے میدان میں رکھا ہو۔

وجہ چہارم : سوائے وقت اجتماع و مقابلہ پانی پر نیرین کا گزر ہر روز جدا ہوتا ہے کیا آفتاب پانی کا جذب نہیں کرتا حالانکہ وہ حرارت اور یہ رطوبت ہے اور حرارت جاذب رطوبت ہے۔ شمس اگر بہ نسبت قمر بعید تر ہے تو دونوں کے مادے کی نسبت، تو دیکھو بعد شمس بعد قمر کا ۳۳ء۳۷۳ ہی مثل ہے اور مادہ شمس تو مادہ قمر کا تقریباً ڈھائی کروڑ گناہ یا اس سے بھی زائد ہے (عہ۱) تو اسی حساب سے جذب شمس زائد ہونا تھا رات دن میں چار مد ہوتے ہیں دو قمر دو شمس سے، حالانکہ دو ہی ہوت ہیں، تو معلوم ہوا کہ جذب شمس نہیں تو جذب قمر بالاولےٰ نہیں اس کے دو جواب دئے گئے، یکم حدائق النجوم میں اس پر صرف وہی تفاوت بعد کا عذر سنا کر کہا پانی کو جذب شمس جذب قمر کا ۳/۱۰ ہے۔

عہ۱: اصول ہیئات ص ۲۹۴ میں ۲۴۴۹۰۷۴۴ کہا اور ص ۱۵۶ پر ۲۵۱۸۰۸۰۰ کہ ڈھائی کروڑ سے زائد ہے۔۱۲ منہ غفرلہ۔

اقول: اولاً : اس کا رد نفس تقریر سوال میں گزرا کہ بعد کی نسبت دیکھی مادوں کی تو دیکھو۔
ثانیاً ۳/۱۰ ہی سہی جب بھی چار مدوں سے کدھر مفر، قمر سے دوبار ستر فٹ اٹھے شمس سے دوبارہ اکیس فٹ دوم اصول الہیأۃ میں اس پر وہ مہمل سا مہمل راگ گایا کہ تذکرہ کرتے بھی کاغذ کے حال پر رحم آئے کہ اسے کیوں سیاہ کیا جائے۔ کہتا ہے مدَتو یوں ہوتا ہے کہ زمین کی دونوں جانب جاذبیت کا اثر پیش ہو جتنا تفاوت ہوگا مد زیادہ ہوگا بالعکس آفتاب کا زمین سے بعد قطر زمین کے گیارہ ہزار پانچسو سینتیس مثل ہے تو دونوں جانب کے پانیوں کا آفتاب سے بعد ۱/۱۱۵۳۷کا فرق رکھے گا تو جذب دونوں طرف تقریباً برابر ہوگا۔ لیکن قمر کا زمین سے بعد قطر زمین کے تیس ہی مثل ہے لہذا دونوں طرف کا فرق ۱/۳۰ ہوگا تو جذب میں تفاوت بین ہوگا اور اسی پر مد کا توقف ہے اور بالاخر نتیجہ یہ دیا کہ قمر شمس ::۲ /۱۔۲ :۱
اقول: اولاً موج مدکو تفاوت جذب جانبیں ارض پر موقوف ماننا کیسا جہل شدید ہے، جب ایک جانب جذب ہو بداہتہً ارتفاع ہوگا خواہ دوسری جانب جذب اس سے کم یا زائد یا برابر ہو یا اصلاً نہ ہو۔
ثانیاً اب بھی چار مد بدستور رہے قمر سے دو بار ستر فٹ اٹھے تو شمس سے دوبار اٹھائیس فٹ۔

وجہ پنجم : کہتے ہیں اجتماع یا مقابلہ نیرین کے وقت مداعظم یوں ہوتا ہے کہ دونوں جذب معاً عمل کرتے ہیں۔
اقول: مقابلہ میں اثر واحد مقتضائے ہر دو جاذبہ نہ ہوگا بلکہ متضاد کہ ہر ایک اپنی طرف کھینچے گا اس کی صورتوں کی تفصیل اور نتائج کی تحصیل اور یہاں جو کچھ ہیأتِ جدیدہ نے کہا اس کی تقبیح و تذلیل موجب تطویل ، سے جانے دیجئے مگر تصریح ہے کہ مداعظم اجتماع واستقبال کے ڈیڑھ دن بعد ہوتا ہے وہاں تو پانی نے ۹ ہی گھنٹے اثر نہ لیا تھا یہاں ۳۶ گھنٹے ندارد، اگر اثر اجتماع دو جذب تھا وقت اجتماع پیدا ہوتا نہ کہ بارہ پہرگزار کر۔

وجہ ششم : یوں ہی تربعین میں بھی مد اقصر ۳۶ گھنٹے (عہ۱) بعد ہے۔

عہ۱: ص ۲۷۳ ص ۱۵۹۔ ۱۲۔

وجہ ہفتم : اقول: اگر یہ جذبِ قمر ہوتا تو ہمیشہ دائرۃ الارتفاع قمر کی سطح میں رہتا تو بحرین شمالی و جنوبی میں جن کا میل میل قمر سے زائد ہے جب قمر افق شرقی پر ہوتا مَد جانب مشرق چلتا شمالی میں جنوب کو مائل، جنوبی میں شمال کو، پھر جتنا قمر مرتفع ہوتا شمالی کا جنوب جنوبی کا شمال کو مائل ہوجاتا۔ جب نصف النہار پر پہنچتا شمالی کا ٹھیک جنوبی جنوبی کا ٹھیک شمالی ہوجاتا، جب غرب کی طرف چلتا دونوں جانب غرب متوجہ ہوتے حالانکہ ایسا نہیں بلکہ مد (عہ۱)کی حرکت مغرب سے مشرق کو مشاہدہ ہوتی ہے اس کی توجیہ (عہ۲) یہ کی جاتی ہے کہ مدسیر قمر کا اتباع کرتا ہے۔

عہ۱: ح ص ۲۰۷ ۔ ۱۲۔ عہ۲: ح محل مذکور ۱۲۔

اقول: مجذوب کو موضع جاذب کا اتباع لازم ہے اس کی طرف کھینچے، نہ یہ کہ چال میں اس کی نقل کرے، قمر اپنی سیر خاص سے جس میں روبمشرق ہے دو گھنٹے میں کم و بیش ایک درجہ چلتا ہے اور اتنی ہی دیر میں زمیں تمہارے نزدیک ۳۰ درجے مشرق ہی کو چلتی ہیں تو ہر گھنٹے پر ساڑھے چودہ درجے مغرب کو پیچھے رہتا ہے تو مدکولازم کہ جانب جاذب یعنی مشرق سے مغرب کو جائے نہ کہ اس کی چال کی نقل اتارنے کو اسے پیچھ کرکے اپنا منہ بھی مشرق کو لے کر جتنا چلے جاذب سے دور پڑے۔

وجہ ہشتم : اقول: موسمِ سرما میں صبح کا مَد کیوں زیادہ بلند ہوتا ہے اور گرما میں شام کا، کیا سردی میں چاند صبح کو پانی سے زیادہ قریب ہوتا ہے شام کو دور ہوجاتا ہے، اور گرمی میں بالعکس۔
وجہ نہم : اقول: مَد کی چال تجددامثال سے ہے نہ یہ کہ وہی پانی جو یہاں اٹھا تھا کسی طرف منہ کرکے سطح آب کی سیر کرتا ہے اثر قمر سے سب اجزائے آب پر باری باری ہے تو سب متاثر ہوں گے نہ کہ ایک اثر لے کر دوڑتا پھرے باقی چپکے پڑے رہیں۔ اس کی نظیر سایہ ہے جب آدمی چلتا ہی دیکھنے والے کو گمان ہوتا ہے۔کہ سایہ اس کے ساتھ چل رہا ہے۔ ایسا نہیں بلکہ جب آدمی یہاں تھا ، آفتاب یا چراغ سے یہ جگہ محجوب تھی۔ اس پر سایہ تھا جب آگے بڑھا ، یہ جگہ حجاب میں نہ رہی یہ سایہ معدوم ہوگیا اب اگلی جگہ حجاب میں ہے اس پر سایہ پیدا ہوا، اسی طرح ہر جز حرکت پر ایک سایہ معدوم اور دوسرا حادث ہوتا ہے۔ سلسلہ پے درپے بلافصل ہونے سے گمان ہوتا ہے کہ وہی سایہ متحرک ہے یہی حال یہاں ہونا لازم تو اوقیانوس شمالی میں جہاں قمر پانی سے جنوب کو ہے ضرور ہے کہ پانی کا جنوبی حصہ پہلے اٹھے پھر جو اس سے شمالی ہے کہ اقرب فالاقرب کا سلسلہ بھی یہی ہے اور ہر قریب تر پر خطِ جذب بھی استقامت سے قریب ہے تو مد کی چال جنوب سے شمال کو ہو اور اسی دلیل سے اوقیا نوس جنوبی میں شمال سے جنوب کو، حالانکہ ہوتا عکس ہے۔ شمالی (عہ۳) میں موج جنوب کو جاتی ہے جنوبی میں شمال کو۔

عہ۳: ص ۲۲۷۔ ۱۲۔

وجہ دہم: (عہ ۴) مد کی چال بحراطلانتک یعنی اوقیانوس غربی میں فی ساعت سات ۷۰۰سو میل ہے۔ جزائر غربیہ و آئرلینڈ کے درمیان ۵۰۰ میل کہیں ۱۶۰ میل کہیں ۶۰ کہیں ۳۰ ہی میل جذب قمر میں یہ اختلاف کیوں، بالجملہ جذب قمر راست نہیں آتا،

عہ۴: ص ۲۷۳ ۔ ۱۲۔

رہا دوران یعنی وجود وعدم میں دوشے کی معیت ایک کے لیے دوسری کی علیت پر دلیل نہیں نہ کہ بعدیت، ہاں ان مشاہدات سے اتنا خیال جائے گا کہ علت کو ان اوقات سے کچھ خصوصیت ہے اگر کہیے علت کیا ہے۔
اقول: اولاً: ہمارے نزدیک ہر حادث کی علت محض ارادۃ اﷲ جل وعلا ہے مسببات کو جو اسباب سے مربوط فرمایا ہے سب کا جان لینا ہمیں کیا ضرور، بلکہ قطعاً نامقدور کون بتاسکتا ہے کہ سوزن مقناطیس کا جدیُّ الفرقد سے کیا ارتباط ہے، ابھی گزرا کہ اصول ہیأت میں بحیرات وانہار میں مدنہ ہونا سبب مجہول کی طرف نسبت کیا اسی طرح اماکن مختلفہ سے اختلاف مدت حدوث مدکو۔

ثانیاً ہمارے یہاں تو ثابت ہی تھا کہ سمندر کے نیچے آگ ہے۔قرآن عظیم نے فرمایا: والبحرالمسجور۱؂ (اور قسم ہے سلگائے ہوئے سمندر کی،ت)

(القرآن الکریم ۵۲/۶)

حدیث میں ہے: انّ تحت البحرنارًا ۔۲؂ (بے شک سمندر کے نیچے آگ ہے۔ت)

(المستدرک للحاکم کتاب الاھوال ان البحرھوجہنم ، دارالفکر بیروت ، ۴/ ۵۹۶)

ہیأت جدیدہ بھی اسے مانتی ہے ۱۰۵۶ء میں( عہ۳ ) بحرالکاہل سے دھواں نکلنا شروع ہوا اور مادہ آتشی کہ قعر دریا سے نکلا تھا مجتمع و منجمد ہو کر سطح آب پر بشکل جزیرہ ہوگیا اس میں سوراخ تھے جن سے ایسے شعلے نکلتے کہ دس میل تک روشن کرتے۔ طوفان آب کے اسباب سے ایک سبب( عہ۴) دریا کے اندر بخارو دخان پیدا ہونا ہے، ایسے ہی بخارات اندر سے آتے اور پانی کو اٹھاتے ہوں یہ مد ہوا جیسے جوش کرنے میں پانی اونچا ہوتا ہے ان کے منتشر ہونے پر پانی بیٹھتا ہو یہ جزر ہوا ، جاڑوں میں صبح کا مد زیادہ ہونا بھی اس کا موید ہے سرما میں صبح کو تالابوں سے بکثرت بخارات نکلتے ہیں، کنویں کا پانی گرم ہوتا ہے، سطح ارض پر استیلائے برد کے سبب حرارت باطن کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور رات بڑی اس طویل عمل حرارت سے ادھر بخارات زیادہ اٹھے پانی میں زیادہ بلند ہونے کی استعداد آگئی واﷲ بکل شیئ علیم ۵؂۔

عہ۳: جغ ص ۲۶ ۔۱۲ عہ۴: ح ص ۲۰۸ وغیرہ ۱۲

(۵؂القرآن الکریم ۲۴/ ۳۵ )

(۱۷) جاذبیت ( عہ۱) مرکز سے نکل کر اس کے اطراف میں خط مستقیم پر پھیلتی اور مرکز ( عہ۲) ہی کی طرف کھینچتی ہے۔

عہ۱: ح ص ۳۸ ۔۱۲ عہ۲: ط ص ۱۱۴ ۔۱۲

اقول: : یہاں تک کہہ سکتے تھے کہ جاذبیت کا آغاز مرکز سے ہے، نہ یہ کہ مرکز ہی جاذب ہے مگر نمبر۱۵ میں گزرا کہ حدائق میں مجذوب کا بعد مرکز زمین سے لیا اور اس کے اختلاف پر وزن گھٹایا یوں ہی اصول الہیات میں مرکز زمین سے بعد لیا اس کا مفادیہ ہے کہ مرکز ہی جاذب ہے ۔
لیکن اولاً یہی لوگ قائل ہیں کہ ہر شئے میں جذب ہے۔
ثانیاً یہ کہ جذب بحسبِ مادہ جاذب ہے۔(نمبر۱۰)( مرکز میں اختلاف مادہ کہاں۔
ثالثاً اختلاف کثافت سے اختلاف قوت مرکز قدر قرین قیاس تھی حجم کرہ، کا مرکز پر کیا اثر مگر بالعکس ہے۔ کثافت عطارد زمین سے زائد ہے مگر بوجہ صغر جاذبیت ۳/۵ کثافت ( عہ۳ ) زمین شمس سے چوگنی ہے مگر جاذبیت ۱/ ۲۸ (نمبر۱۵)

عہ۳:ص ص۲۶۶۔۱۲

رابعاً یہی کہتے ہیں جو زمین ( عہ۴ )کے اندر چلا جائے اس کے اوپر کے اجزاے زمین اسے اوپر کھنیچیں گے اور نیچے کے نیچے کو اور خاص مرکز پر سب طرف کوشش اجزاء یکساں ہوگی اور یہی ان کے قواعد سے موافق تر ہے۔

عہ۴: ط ص۸۳ ۔۱۲

 (۱۸) ہوا ( عہ۵ ) ، پانی، مٹی سب مل کر ایک کرہ زمین ہے، یہ سب ثقیل ہیں ، ہوا روئے زمین سے ۴۵ میل بلندی تک ہے اور اتنی بھاری( عہ۶) ہے کہ ایک انچ مربع جگہ پر اس کا بوجھ ۱۵ پونڈ ہے ہر میانہ( عہ۷) قد آدمی پر ۳۹۲ من کے قریب بوجھ ہے یہاں سے صرف ۳۷ میل بلندی تک ہوا ( عہ۸) کا وزن ۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۱۴۴۹۸۴۰۰۰ من ہے یہ ہیات جدیدہ کے تخیلات ہیں ہمارے نزدیک عنصر چار ہیں نارو ہوا خفیف و طالب علم اور آب و خاک ثقیل وطالب سفل ، ہیأت جدیدہ نے ثقل( عہ۹ ) ہوا پر یہ دلیل پیش کی کہ بوتل کو تو لو پھر بذریعہ آلہ اسے ہوا سے خالی کرکے تولو۔ اب ہلکی ہوگی چھ انچ مکسر بوتل کا وزن ہوانکال کر تولنے سے دو گرین ہے معتدل کی قید اس لیے کہ زیادہ گرمی سے ہوا رقیق ہو کر وزن گھٹ جائے گا۔
 
عہ۵: ح ص ۱۵۲ ۔۱۲   عہ۶: ط ص ۱۳۴ ۔۱۲ اور ح میں ۵/ ۲۔۱۴پونڈ کہا ۱۲ منہ غفرلہ    عہ۷: ط ص۱۱ ۔۱۲   
عہ۸: ص  ص ۱۲۰ ۔۱۲   عہ۹: ط ص ۱۳۴ ۔۱۲
 
اقول: بلکہ تمہاری نافہمی، یہ ہوا کا وزن نہیں زمین سے قریب ہوا میں اجزائے ارضیہ اجزائے بخاریہ و اجزائے دخانیہ وغیرہا مخلوط ہیں ان کا وزن ہے یہ تو ان کی دلیل کا ابطال ہوا۔ دعوے کی ابطال کی کیا ضرورت ہر شخص اپنے وجدان سے جانتا ہے کہ اسے اپنے سر پر ماشہ بھر بھی بوجھ نہیں معلوم ہوتا نہ کہ ۳۹۲ من ، انسان تو انسان ہاتھی کی بھی جان نہ تھی کہ اتنا بوجھ سہارے اور سہارنا کیسا محسوس تک نہ ہو، اس کے دو جواب( عہ۱) دیتے ہیں اول یہ کہ آدمی کے اندر بھی ہوا ہے باہر کی ہوا انسان کو دباتی اور اندر کی ہوا ابھارتی ہے یوں مساوات رہتی ہے اور بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔ باہر کی ہوا نہ ہوتی تو اندر کی جسم کو چاک کرکے نکل جاتی، بیرونی ہوا کے دباؤ میں ضرر کی جگہ نفع دیا۔
اقول: اولاً کہاں یہ جوفِ بشر کی دو چار ماشے ہوا اور کہاں وہ ۳۹۲ من پختہ کا انبار کچھ بھی عقل کی کہتے ہو، زمین کی نافریت اپنے تیرہ لاکھ گناہ آفتاب کی جاذبیت پر غالب آتی ہے۔ سب سیارے مل کر کہ چاند سے کروڑوں حصے زیادہ قوی ہوئے اسے کھینچتے ہیں اور وہ نہیں سرکتا ۔ چاند کا جذب ( عہ۲) اپنے سے مہاسنکھوں زائد جذب زمین پر غالب آکر پانی بلکہ خود سارے کُرہ زمین کو کھینچ لے جاتا ہے، دو ماشے ہوا چار سو من ہوا کا بوجھ برابر کرتی ہے کوئی بات بھی ٹھکانی کی ہے۔
 
عہ۱: ط ص ۱۳۲ ۔۱۲   عہ۲: ان سب کابیان فصل دوم میں آتا ہے۔ ۱۲ منہ غفر لہ
 
ثانیاً  وہ اپنی بوتل کہاں بھلائی، جب ہوا سے خالی کر اندر کا اُبھار گیا اور اوپر سے منوں کا بوجھ، بوتل ٹوٹ کیوں نہ گئی ، تمہارے تولنے کو کیوں باقی رہی۔
ثالثاً اندر کی ہوا کیا بیرونی ہوا کی غیر جنس ہے اس میں دبانا اس میں اُبھارنا کیوں ہے۔
رابعاً جب ہوا ثقیل ہے اندر کی بھی ثقیل ہے بلکہ آمیزش رطوبات سے ثقیل تر، ثقیل اپنے سے ہلکے کو ابھارتا ہے جسم انسانی ہوا سے کہیں بھاری ہے اسے ابھارنا کیا معنی ! واجب تھا کہ اندر کی ہوا بھی جذب زمین سے متاثر ہو کر نیچے کو دباتی مگر اقرار کرتے ہو کہ اوپر کو ابھارتی ہے تو معلوم ہوا کہ جذبِ زمین بھی باطل اور ہوا کا ثقل بھی باطل، بلکہ وہ خفیف و طالب علو ہے۔
دوم یہ کہ ہوا کا یہ بوجھ اجزائے جسم پر مساوی تقسیم ہے لہذا محسوس نہیں ہوتا۔
 
اقول: اولاً یہ عجیب منطق ہے کہ ایک طرف سے دباؤ تو بوجھ معلوم ہو اور سب طرف سے صد ہاان کے دباؤ میں پیسو تو رتی بھر بھی محسوس نہ ہو، ایک گولر کو صرف اوپر سے ہتھیلی رکھ کر دباؤ تو وہ پچک جائے گا اور مٹھی میں لے کر چاروں طرف سے دباؤ تو سرمہ ہوجائے گا۔
ثانیاً  مساوی تقسیم بھی غلط ہم نے اپنے محاسبات ہندسیہ میں ثابت کیا ہے کہ ہوا جسے کرہ بخار و عالم نسیم کہتے ہیں اس کا دل سر کی جانب صرف ۴۵ میل اور دہنے بائیں آگے پیچھے چھ سو میل کے قریب ہے تو ایک طرف سے اگر ۳۹۲ من بوجھ ہے اور اطراف سے ۵۲۲۷ من ہے پھر مساوات کہاں۔
ثالثاً سب اجزائے جسم پر تقسیم بھی غلط کھڑے ہونے میں تلووں پر ہوا کا کیا بوجھ ہے اور لیٹنے میں ایک جانب سر سے پاؤں تک کچھ نہیں۔
رابعاً بالفرض سہی تو ایک انسان کے سر کی سطح بالا کہ نیم سطح بیضی کے قریب ہے کم و بیش اسی انچ ہے اور تمہارے نزدیک ایک انچ کی سطح پر ہوا کا بوجھ ۰۷ / سیر تو صرف سر پر ۱۵ من بوجھ ہوا یہ تو اور اجزاء پر تقسیم نہیں، کیا انسان کا سر ۱۵ من بوجھ اٹھا سکتا ہے، کیا وہ پس کر سرمہ نہ ہوجائے گا نہ کہ اصلاٍ محسوس تک ہو۔ اس جواب دوم کو پانی کی مثال سے واضح ( عہ۱) کیا جاتا ہے کہ دیکھو دریا میں غوطہ لگاؤ تو صد ہا من پانی اوپر ہے مگر بوجھ نہ معلوم ہوگا اس کی وہی وجہ ہے کہ سب طرف سے دباؤ مساوی تقسیم ہے۔
 
عہ۱:  ص ۱۳۲ ۔۱۲
 
اقول: : ہزار ہاتھ گہرے کنویں میں غوطہ لگا کر تہہ تک پہنچے جب بھی بوجھ محسوس نہ ہوگا حالانکہ سارا پانی سر ہی پر ہے کروٹوں پر صرف بالشت دو بالشت پاؤں پر کچھ نہیں تو وجہ یہ نہیں بلکہ وہ جس کی طرف ابھی ہم نے اشارہ کیا کہ ثقیل اپنے حیز میں اپنے سے ہلکے کو ابھارتا ہے جس ( عہ۲) کا خود ہیات جدیدہ کو اعتراف ہے ولہذا غوطہ خور کو نیچے جانے میں پانی کے ساتھ زور کرنا پڑتا ہے اور اوپر بسہولت اٹھتا ہے۔ اور جو خود ابھارے اس کا دباؤ پڑنا کیا معنی بخلاف ہوا کہ جسم انسان سے ہلکی ہے یہ اگر ثقیل ہوتی تو اس صد ہا من بوجھ سے ضرور انسان کو پیس ڈالتی اگر  کہیےزمین کے  قریب ہوا میں ابھی تم نے بھی وزن تسلیم کیا پھر کچھ تو محسوس ہو۔
 
اقول:  وہ اجزاء غبار و بخار و دخان وغیرہا نہایت باریک باریک ہو امیں متفرق ہیں تو انسان  کے سر سے گنتی کے جز متصل ہوتے ہیں جن سے زیادہ گرد اڑ کر سر پر پڑنے میں ہوتے ہیں جن کا بار اصلاً محسوس نہیں ہوتا۔ ان دونوں جوابوں کی غلطی ظاہر ہوگئی۔
 
عہ۲: ط ص ۱۲۰ ۔۱۲
 
اقول : یہاں اور مباحث و انظار دقیقہ ہیں جن کی تفصیل موجبِ تطویل، نہ ہم کو ضرورت نہ دلیل ابطال کی حاجت کہ ہم ابطالِ دلیل کرچکے رددعوے کو اسی قدر بس ہے کہ دعوٰی بے دلیل باطل وذلیل۔ رہا حقیقت ماننا اس کے لیے شہادت حس کافی ہے کہ کس قدر کثیر حجم کی سروں پر موجود ہے اور باز نہیں ڈالتی بلا دلیل اس شہادت کو غلط نہیں کہہ سکتے جیسے حسِ بصر میں اغلاط ہوتے ہیں مگرغلطی وہیں مانی جاتی ہے جہاں دلیل سے خلاف ثابت ہو بلادلیل تغلیط حس سے امان اٹھا دینا ہے تو روشن ہواکہ ہوا کو خفیف ہی کہا جائے گا اور اس کا ثقیل ماننا باطل۔
 
 (۱۹) ہوائے تجارت یعنی مقامی ہوا کہ خطِ استوا میں ہمیشہ مشرق سے مغرب کو چلتی ہے اور عرض شمالی میں شمال اور جنوبی میں جنوب سے خطِ استوا کی طرف مائل ہوتی ہے اور بحر احمر میں ہمیشہ سواحل عرب شریف کی موازات کا لحاظ رکھتی ہے اور تجارت کے لیے کمال نافع ہے اُس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ خط استوا( عہ۱)  پر حرارتِ شمس زیادہ ہونے کی وجہ سے وہاں کی ہوا ہلکی ہو کر اوپر چڑھتی ہے اور قطبین کی ہوا تعدیل کے لیے  یہاں آتی ہے خط استوا( عہ۲)  پر حرکت زائد ہے کہ مدار بڑا ہے جتنی تیز حرکت یہاں ہے ہوا کہ طرفین سے اُتنی تیز حرکت نہ کرے گی تو اس کی گردش زمین کے برابر نہ ہوگی بلکہ زمین اس کے اندر گردش کرے گی اور مشرق کو زیادہ بڑھ جائے گی۔ ہوا مغرب کی طرف پیچھے رہ جائے گی لہذا خط استوا پر ہوا شرقی ہوگی یعنی مشرق سے مغرب کو جاتی معلوم ہوگی ہوا کہ قطبین سے خط استوا کی طرف  تعدیل کے لیے چلی شمالی سیدھی جنوبی نہیں رہتی بلکہ جنوبی مغربی ہوجاتی ہے اور جنوبی سیدھی شمالی نہیں رہتی بلکہ شمالی مغربی ( عہ۳) کہ  وہ خط استوا کے قریب اتنی تیز رفتار نہیں کرسکتی تو زمین کا وہ حصہ نکل جائے گا اور شمالی ہوا کا رخ بجائے جنوب جنوب و مغرب اور جنوب کا بجائے شمال شمال و مغرب کو ہوجائے گا۔
 
عہ۱: جغ ص ۹ ۔۱۲   عہ۲ : ط ص ۱۴۱ ۔۱۲   عہ۳ : جغ ص۹ ۔۱۲
 
اقول:  تعدیل کیا واجب ہے اور خلا تمہارے نزدیک محال نہیں پھر ہوائیں کیوں الٹ پلٹ ہوتی ہے۔
(۲۰) زمین ( عہ۴) اگر ابتدائے آفرنیش میں جامد ہوتی اور اپنے محور پر گھومتی تو خطِ استوا پر پانی کے سبب یکساں رہتی مگر پانی سیال تھا اور خطِ استوا پر حرکت سب سے زیادہ تو اسی طرف پانی کا ہجوم ہوتا اور قطبین جہاں حرکت نہیں پانی سے کھل جاتے لیکن ایسا نہیں تو معلوم ہوا کہ زمین ابتدا میں جامد نہ بنائی گئی۔
 
عہ۴: ص۱۰۵ ۔۱۲
 
 (۲۱) زمین خطِ استوا پر اونچی اور قطبین کے پاس چپٹی ہے۔ اس سے معلوم ہوا ( عہ۵) کہ اول میں سیال ہی بنائی گئی تھی تیزی حرکت کے باعث خطِ استوا پر اس کے اجزاء زیادہ چڑھ گئے اور قطبین کے پاس کم ہوگئے۔ حدائق  (عہ۶) میں ان دونوں مضمونوں کو یوں بیان کیا زمین کی محوری حرکت سے ضرور تھا کہ کرئہ آب شلجمی شکل ہوتا کہ حرکت مستدیرہ میں جسم لطیف مرکز سے متجاوز ہوگا اور جہاں تیزی حرکت ہے وہاں زیادہ جمع ہو کر شلجمی شکلہوجائے گا اگر زمین ابتدا میں سخت ہوتی مواضع خط استوا غرقِ آب رہتے حالانکہ وہاں اکثر خشکی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ زمین خود ہی شلجمی ہے یعنی ابتدا میں سیال تھی حرکتِ محوری کے سبب یہ شکل ہو کر اس کے بعد منجمد ہوئی اور اسی کو شروع حدیقہ ( عہ۱)  سوم میں تمام سیّا رات پر یوں ڈھالا کہ حرکتِ وضعیہ قطبین پر اصلاً نہیں ہوتی پھر بڑھتی جاتی ہے اور منطقہ پر سب سے زائد تیز ہوتی ہے اور طبیعات میں ثابت ہے کہ حرکت موجب حرارت جاذب رطوبات تو ضرور ہوا کہ قطبین سے اجزا منتقل ہو کر منطقہ پر جمع ہوجائیں اور قطر استوائی محور سے بڑا  ہو اھ  ، یہ تقریر نافریت سے دور اور قبول سے نزدیک ہے اگر سیا رات کا سیّال ہونا ثابت ہوتا۔
 
عہ۵: ط ص ۸۲ و ص۱۰۵  ۔۱۲    عہ۶: ح ص ۱۵۷۔۱۲    عہ۱: ح  ص۹۷ ۔۱۲
 
 (۲۲) دونوں نقطہ اعتدال ہر سال مغرب کو ۲ء۵۰ ہٹتے جاتے ہیں اسے مبادرت اعتدالین کہتے ہیں، یہ ہٹنا صہیح ہے جس کی وجہ ہیأت  قدیمہ میں فلک البروج کا برخلاف معّدل مشرق کو آنا ہے یہ نقطہ تقاطع مغرب میں رہ جاتا ہی اور اس کی جگہ دوسرا نقطہ قائم ہوتا ہے۔ لہذا نقطہ تقاطع معدل النہار سے شخصی ہے اور فلک البروج سے نوعی کہ منطقہ کی حرکت شرقی کے سبب معدل کے اُس پر نطقہ پر منطقہ کے مختلف نقطے آتے رہتے ہیں۔
 
 
 
 ا ح ب معدل النہار اء ب فلک البروج معدل کی حرکت کہ شرق سے غرب کو ہے اس میں تو منطقہ بھی اس کا تابع ہے اس سے کوئی تفاوت نہ ہوگا لیکن منطقہ اپنی ذاتی حرکت خفیفہ مغرب سے مشرق کو رکھتا ہے۔ ا ج تقاطع نقطتین اب پر ہے اب منطقہ کا نقطہ ا حرکت کرکے ہ پر آیا تو ضرور نقطہ ح کہ اس سے مغرب کو تھا ا کی جگہ آئے گا ا ب ح پر تقاطع ہوگا جو (ا) سے مغرب کو تھا جب (ح) چل کر (ہ) کی جگہ آئے گا (ط) کہ اس سے مغربی ہے محل تقاطع پر آئے گا یونہی جب (ا) محل (ہ) پر آیا ضرور ہے کہ ب بڑھ کر (ک) کی جگہ آیا اور (اب ء) کہ اُس سے مغرب کو تھا (ب) کی جگہ تقاطع پر آیا جب یہ (ک) کی طرف بڑھا (ل) نے کہ اس سے مغرب کو تھا تقاطع کیا یوں ہر روز تقاطع منطقہ کے عربی نقطوں پر منتقل رہے گا جس کی مقدار روزانہ تقریباً دس ثالثے بتائی گئی ہے کتنی صاف وجہ ہے جس پر عقلاً کچھ غبار نہیں لیکن ہیأۃ جدیدہ کو تو ہر چیز جاذبیت کے سر منڈھنی بنے خواہ نہ بنے اس کی وجہ ( عہ۲) یہ بتائی ہے کہ زمین خط استوا پر پھولی ہوئی ہے تو شمس و قمر کا بہ نسبت اور اجزائے زمین کے اس چھلے پر بوجہ قرب جذب زائد ہے آفتاب اس کے ہر جز کو منطقہ البروج کی طرف کھینچتاہے اور اور وہ جز ء زمین کی حرکت محوری سے اُسی چھلے کے ساتھ جانا چاہتا ہے لاجرم دونوں سمتوں کے بیچ میں بڑھتا ہے اور سارا چھلا اسی کشمکش میں ہے لہذا منطقہ البروج سے تقاطع کے نقطے اب آگے مغرب کو پڑتے ہیں اور یہ فعل مستمر رہتا ہے مگر جب آفتاب نقطتین اعتدال پر ہو جیسے مارچ ستمبر میں کچھ دیر تو اتنی دیر البتہ یہ فعل باطل ہوگا کہ خط استوا یہاں خود ہی دائرۃ البرج سے متحد ہے تو ایک دوسرے کی طرف کھینچے گا کیا ؟ اور سب سے زائد اس وقت ہوگا جب آفتاب مدارین میں ہو یعنی راس السرطان ور اس ابجدی پر اور اس میں بوجہ قرب قمر کا فعل شمس سے زائد ہے یعنی ۷/۳ اور چند سطر بعد کہا ( عہ۱)  تقریبا ۵ /۲ مجموع جذب نیرین سے اعتدالین ۴۱ء ۵۰ ہر سال ہٹتے ہیں مگر اور سیاروں کی جاذبیت ان کے فعل کی ضد ہے وہ مبادرت کو ۲۱ء ۰ گھٹاتی ہے لہذا ۲۰ء۵۰ رہتی ہے
 
عہ۲ :ص۱۸۰ نیز ح ص ۱۷۲ ۔۱۲    عہ۱ ص ۱۹۰ دونوں میں ۱/ ۲۵ کا فرق ہے ۱۲ منہ غفرلہ
 
 مبادرت کی تصویر یہ ہے ۔
 
 
 
اب ء منطقہ پر ر محل شمس ہے وہ ا ح ب معدل کے مثلاً نقطہ (ہ) کو اپنی طرف جذب کرتا ہے لیکن وہ زمین کی حرکت محوری سے اسی دائرہ ا ح ب پر جانب ا جانا چاہتا ہے دونوں تقاضوں کے تجاذب سے وہ نہ ر کی طرف جائے گا نہ ا کی، بلکہ دونوں کے بیچ میں ہو کر (ح) کی طرف بڑھے گا اور اب (ا) کی جگہ اور نقطہ کہ اس سے مغربی تھا نقطہ تقاطع ہوجائے گا ۔
 
اقول:  یعنی (ہ کا ح) کی طرف بڑھنا یوں تو نہ ہوگا کہ (ہ) چھلے سے نکل کر خط (ہ ح) پر بڑھ جائے بلکہ سارا ہی چھلا اس طرح بڑھے گا کہ ہ ادھر (ر) سے قریب ہوجائے اور ادھر ح سے تو (ا) اپنی اس جگہ سے باہر نکل جائے گا اور اس کی جگہ اس کے بعد کا نقطہ ح کی طرف قریب کے نقطہ سے مل کر تقاطع پیدا کرے گا ممکن نہیں کہ معدل کا وہی نقطہ ہٹ کر تقاطع کرے کہ (ہ) جذب کے سبب جست کرکے اونچا ہوگیا ہے تو یہاں ا ہ کے قابل فاصلہ نہ رہا، لاجرم  ا  آگے نکل گیا اور اس کے پیچھے کانقطہ محل تقاطع ہوا اور اب یہ شکل ہوگی۔
 
 
 
ا پہلے نطقہ تقاطع تھا جب (ہ) بڑھ کر (ہ) کی جگہ آیا خط استوا کا حصہ (اہ) ا ب حصہ ا ہ  ہوا ا موضع تقاطع سے آگے نکل گیا اور تقاطع منطقہ کے نقطہ اسے پیچھے ہٹ کر مغرب کو پڑا تو اب ط نقطہ تقاطع ہوا کہ ح سے بہ نسبت ر  پہلے تقاطع کے قریب ہے تو اُن کے طور پر تقاطع دائرۃ البروج و معدل النہار یعنی خط استوا دونوں سے نوعی ہے اس کا نوعی ہونا تو ظاہر کہ تقاطع منطقے کے اجزائے غربیہ پر منتقل ہے اور اس کا یوں کہ اسے جاذبیت نے بڑھا یا اور پہلے نقطے کو قائم نہ رہنے دیا ان کے طور پر غربیت کیوں ہوئی۔
اقول: اسے ہم اپنے طریقے پر توضیح کریں اگرچہ دو نصف بالائے افق و زیر افق کے اعتبار سے مشرق و مغرب کی تعبیر بدلتی ہے۔ہمارا مشرق امریکہ کا مغرب ہے اور ہمارا مغرب اس کا مشرق ، مگر توالی بروج متبدل نہیں اور وہ ہر جگہ مشرق سے مغرب کو ہے ، حمل جہاں ہو ثور اس سے مشرق میں ہے ۔ کہ اس کے بعد طالع وغارب ہوگا اور حوت مغرب میں کہ پہلے یونہی ہر جگہ میزان سے عقرب شرقی اور سنبلہ غربی تو جو چیز توالی بروج پر انتقال کرے مثلاً حمل سے ثور میں آئے یا راس الحمل سے حمل کے دوسرے درجے میں وہ مغرب سے مشرق کو جاتی ہے اور جو چیز خلاف توالی محترک ہومثلاً حمل سے حوت کے ۳۰ سے ۲۹ میں و ہ مشرق سے مغرب کو چلتی ہے اس شکل میں اگر (۱) مشرق پر راس الحمل ہے تو ضرور (اط ح ر) ا لخ حوت، دلو، جدی الخ ہیں خواہ ا ر قوس بالائے افق ہو کہ یہ اس سے پہلے طلوع کرتے ہیں یا قوس زیر اُفق کہ اب ا کہ ادھر کا مشرق ہی ہمارا مغرب ہے اور حوت دلو جدی الخ اس سے پہلے غروب کرتے ہیں اور اگر مشرق پر راس المیزان ہے تو ضرور بوجہ مذکوردونوں صورتوں میں (اط ح ر ) الخ سنبلہ اسد سرطان الخ ہیں  اب کہ  ا کی جگہ ط نقطہ تقاطع ہوا۔ پہلے صورت میں راس الحمل اپنی جگہ سے ہٹ کر حوت سابق کا کوئی حصہ راس الحمل ٹھہرا اور دوسری صورت میں راس المیزن ہٹ کر سنبلہ سابقہ کا کوئی نقطہ راس المیزان ہوا بہرحال نقطہ اعتدال خلاف توالی پر بڑھا تو مغرب کو ہٹا۔ وھو المقصود۔
تم سمجھے کہ یوں جاذبیت کے ہاتھوں مبادرت بن گئی اب رد سُنیے:
 
فاقول: اولاً ایک سہل سوال تو پہلے یہی ہے کہ شمس کا جذب صرف خط عمود پر نہیں بلکہ تمام اجزائے مقابلہ پر ہے اگرچہ موقع عمود پر زائد، اور ظاہر ہے کہ چھلے کے اجزاء اگرچہ ایک سمت میں نہیں کہ قوس کے ٹکڑے ہیں مگر انکی سمتیں قوس انتظام میں منتظم ہیں ان پر جذب کے جو خطوط  آئیں گے ان کی سمتوں کا اختلاف اور رنگ کا ہوگا اور مختلف زاویے بناتے آئیں گے ہر جز اپنے زاویے کے بیچ میں نکلے گا جو قوسی انتظام میں منتظم نہیں تو کیا وجہ کہ اجزاء متفرق نہ ہوجائیں اس کا ثبوت تمہارے ذمہ ہے کہ ان کا نکلنا ایسے ہی تناسب پر ہوگا کہ چھلا بدستوار برقرار رہے۔
ثانیاً  جب عمود و منحرف کا بھی فرق اور قرب بھی مختلف ، لاجرم جذب مختلف تونافریت مختلف تو چال مختلف تو اجزاء متفرق اور چھلا منتشر۔
ثالثاً وسط کے جز پر سب سے زیادہ جذب ہے اور دونوں پہلوؤں پر بتدریج متناقص تو واجب کہ چھلے کا جزء ، اوسط سب سے زیادہ اپنے محل سابق سے تجاوز کرے اور دونوں طرف کے اجزاء اخیر تک بترتیب کم تو موضع تقاطع کے دونوں جز اپنے محل سابق سے بہت کم ہٹے ہوں اور باقی کا بعد بڑھتا جائے یہاں تک کہ جز اوسط سب سے زیادہ اپنی پہلی جگہ سے دور ہوجائے مگر یہاں یہ ناممکن بلکہ اس کا عکس واجب کہ جب دونوں دائروں کا نقطہ تقاطع پیچھے ہٹا ہے تو خط استوا کی اب جو وضع ہوگی وہ پہلی وضع سے قطعاً وسط میں متقاطع ہوگی۔ مثلاً  ا ر اس الحمل ب راس المیزان تھا اب راس الحمل ح پر ہوا تو واجب کہ راس المیزان ء  پر ہو ح ء کو وصل کرنے والی قوس یقیناً قوس سابق ا ب سے وسط میں تقاطع کرے گی تو ثابت کہ محل تقاطع کے اجزاء اپنی جگہ سے بہت زیادہ ہٹے اور پھر بعد گھٹتا گیا، یہاں تک کہ وسط پر اصلاً نہ رہا بالکل اس کا عکس جو جاذبیت کا متقضیٰ تھا تو جاذبیت سے مبادرت ماننا جہل محض ہے۔  
 
رابعاً جذب نیرین کا اثر ہمیشہ متوافق ماننا جز اف ہے بلکہ کبھی متوافق ہوگا جیسے اجتماع میں اور اس وقت مبادرت بہت سریع ہونا چاہیے کہ دسویں حصے ایک طرف کھینچ رہے ہیں اور کبھی متخالف ہوگا کبھی متعارض، جیسے اس شکل میں اب منطقہ (اح)، خط استواء شمس ر قمر نقطہ (ۃ) خط (اہ) پر جانا چاہتا ہے اور شمس اسے ء ہ پر کھینچتا ہے تو اس کا مقتضی خط ہ ح  پر جانا ہوگا اور قمر (رہ) پرکشش کرتا ہے اس کا مقتضیٰ خط (ہ ط) پر جانا ہوگا۔ اب اگر بعد قمر سے کمی جذب اس نسبت ۷/ ۳ سے جو ان کے جذبوں میں ہے زائد ہے قمر کا اثر ضعیف ہوگا کم ہے شمس کا اثر سست ہوگا برابر ہے تو دونوں اثر مساوی ہوں گے بہرحال اس پر تین مختلف اثر ہیں بحال تعارض اگر جذب نیرین ساقط ہو سیدھا ا ہ پر جائے گا مبادرت ہوگی ہی نہیں بحال تخالف اگر سست معتدبہ نہ رہے اگر وہ اثرِ شمس ہے (ہ ط) پر جائے ا ور اثر قمر تو (ہ ح) پر ورنہ ان تینوں کے سوا چوتھا خط نکالے گا بہر طور مبادرت کی چال ہر گز منتظم نہ ہوگی حالانکہ باتفاق ارصاد منتظم ہے۔
 
 
 
 خامساً جاذبیت دیگر سیارات کا مبادرت کو گھٹانا یونہی ہوسکتا ہے کہ نیرین اعتدالین کو جانبِ غرب بڑھاتے اور یہ جانب شرق پھینکتے یا مطلقاً حرکت سے روکتے ہوں، ثانی تو بداہۃً باطل کو روکنا کا رجاذبیت نہیں اور اوّل یعنی تقاطع کا کسی ایسے نقطہ منطقہ پر لے جانا جو پہلے نقطے سے مشرق کو ہو اسی حالت میں متصور کہ وہ نصف شمالی میں خط استوا سے جنوب کو ہوں یا نصف جنوبی میں شمال کو کہ اس صورت میں سیارہ ء  معدل کے نقطہ (ہ) کو اپنی طرف کھینچے گا اور وہ (ا) کی طرف جانا چاہے گا اور خط (ہ ح) پر نکل کر منطقہ سے دور ہوگا اور (ا) کے بدلے ر پر تقاطع ہوگا جو ہمارے بیان سابق کے مطابق توالی بروج پر ا  کے آگے اور اس سے شرقی ہے سیارات میں ایسا نہیں نصف شمالی میں ان کا میل شمالی اور جنوبی میں جنوبی ہوتا ہے اور برعکس بھی ہو تو نادر تو اکثر اوقات سیارات اس میں نیرین کے موافق ہی ہوں گے نہ کہ صد نقطہ خط استوا کے آگے بڑھنے میں کچھ رکاوٹ پیدا کرنا مبادرت کو غربی سے شرقی کرنا نہ چاہے گا کہ وہ منطقہ سے قریب ہوتا ہوا جتنا بھی بڑھے بہرحال مبادرت غربیہ ہوگی۔
 
 
 
سادساً فرض کیجئے کہ یہ نادر نہیں تو ہمیشہ کے لیے ہمیشہ عکس ہی لازم کہ نصف شمالی میں اُن کا میل دائما جنوبی ہو، اور جنوبی میں دائماً شمالی، اور یہ قطعاً باطل۔
سابعاً قرب قمر سے اس کی جاذبیت اقویٰ ہونے کا رَد ابحاث مَد کی وجہ چہارم میں گزرا۔
ثامناً مدارین پر عمل اقویٰ ہونا عجیب ہے یعنی غایت بعد پر جذب اقویٰ اور جتنا قرب ہوتا جائے اضعف۔
تاسعاً حلقہ استوائی کا بوجہ ارتفاع اقرب ماننا بھی عجیب ہے ایسا کتنا فرق ارتفاع ہے قطب سے خط استوا تک تقریباً (عہ۱)۱۳ ہی میل کا تو فرق ہے اور مدار سے خطِ استوا تک ۳ ۲ درجے ۲۷ دقیقے ہیں کہ ۲ کروڑ ۳ ۸ لاکھ میل سے زیادہ ہوئے شمس جب مدارین میں ہوگا قریب کے مداروں کو کھینچے گا یا پونے تین کروڑ میل سے زائد بیچ میں چھوڑ کر صرف ۱۳ میل بلندی کو جا پکڑے گا۔
 
عہ۱: ص ۱۱۲ ۔۱۲ وغیرہ
 
عاشراً اب واجب ہے کہ جب شمس مدار صیفی میں ہو تمام مدارات کہ اُس سے جانب جنوب ہیں شمالی ہوں خواہ جنوبی مع خطِ استوا سب کو جانبِ شمال کھینچے اور باقی تمام مدارات یعنی قطب شمالی تک انکے موازی دائروں کو جانب جنوب ، یوں ہی جس مدار پر منتقل ہو اسے چھوڑ کر اس سے شمالیوں کو جنوب اور جنوبیوں کو شمال کو طرف جذب کرے یہاں تک کہ خط استوا پرآئے اب اسے چھوڑ کر تمام شمالیات کو جنوب اور جمیع جنوبیات کو شمال کی طرف لائے جب اس سے جنوب کو چلے سب شمالیات و خط استوا کو جانب جنوب کشش کرے باقی کو جانب شمال غرض نہ خط استوا بلکہ زمین کا ہر چھلا اس کے موازی ہے جانب شمس کھینچے مدار صیفی سے باہر جتنے چھلے ہیں سب ہمیشہ جنوب کو بڑھیں اور مدار شتوی سے جتنے باہر ہیں سب ہمیشہ شمال کو تو زمین قطبین پر سے روز بروز خالی ہوتی جائے اور مدارین کے اندر چھلے ہیں وہ ہمیشہ برودمات میں رہیں کبھی جنوب کو ہٹیں کبھی شمال کو، دیکھو کیا اچھی مبادرت اعتدالین بنی۔
 
حادی عشر خط استوا پر فعل باطل ہونے کے کیا معنی ، اب منطقہ کی طرف نہ کھینچے اپنی طرف تو کھینچے گا تو لازم کہ تقاطع کا نقطہ تقاطع چھوڑ کر نہ صرف آگے بڑھے بلکہ اونچا ہوجائے۔
ثانی عشر یہ اپنی طرف کھینچتا خطِ استوا ہی پر نہیں بلکہ ہر مدار پر ہوگا دن کو ادھر کے نقطے کو اونچا کرے گا رات کو ادھر کے نقطے کو تو لازم کہ مابین المدارین زمین بہت اونچی ہوجاتی اور قطر استوائی پر سال زیادہ ہوتا جاتا اور شکل زمین بمرورِ زماں یہ ہوتی۔
 
 
 
یہ ہے تمہاری جاذبیت اور اس کے ہاتھوں نظم مبادرت۔
(۲۳) میل کلی ہمیشہ کم ہوتا جاتا ہے زمانہ اقلیدس میں ۲۴ درجے تھا اس لیے اس نے مقالہ رابعہ میں دائرے میں ۱۵ ضلع کی شکل بنانے کا طریقہ لکھا اور اب ۲۳ درجے  ۲۷ دقیقے ہے اس کی وجہ (عہ۱) بھی وہی بتائی کہ آفتاب خط استواء کے چھلے کو منطقہ کی طرف کھینچتا ہی اصول الہیأۃ میں اس پر یہ طرہ بڑھایا کہ نصف چھلے کو جو آفتاب سے قریب ہے منطقہ سے نزدیک ہوتا ہے اور دوسرے نصف کو دور مگر اس کی دوری اس کی نزدیکی سے کم ہے لہذا قرب ہی بڑھتا ہے اور پھر گھٹے گا بھی ان نصفوں میں فاصل وہ خط ہے کہ دونوں نقطہ اعتدال میں واصل ہے وہ اس دوری کا محور ہے۔(عہ۲)
 
عہ۱: ص ۱۸۶ و ص ۱۹۰ نیز ح ص ۱۷۶۔     عہ۲: ص ۱۵۸۔ ۱۲۔
 
اقول اولاً جب دو عظیمے مثلاً ا ر ب، ا ح ب متقاطع ہوں اوراُن کا تقاطع نہ ہوگا مگر نصف پر ہر نصف منتصف پر، ان میں غایت بعد ہوگا جسے میل کلی و بعدِ اعظم کہتے ہیں جیسے (ح ء، ہ ر) اور یہ قوس اس زاویہ (ا یا ب) کا قیاس ہوگی اور بداہۃً دونوں زاویے ا ح ء ، ہ ا ر متساوی ہیں تو وجوباً ح ء ، ہ ر دونوں قوسین برابر ہیں تو محال ہے کہ ایک نصف مثلاً ا ح ب کو اء ب سے قریب کرے اور دوسرے نصف ا ہ ب کو ا ر ب سے بعید بلکہ جتنا ایک ادھر کے نصف سے قریب ہوگا وجوباً اُتنا ہی دوسرا نصف دوسرے نصف سے قریب تر ہوجائے گا ورنہ دائرے کے دو ٹکڑے ہوجائیں گے۔
 
 
 
ثانیاً اس قریب و بعید کرنے میں تفاوت کے کیا معنے!
ثالثاً چھلے کے دونوں نصف ہر روز آفتاب سے قُرب و بعد بدلتے ہیں دن کو جو نصف قریب ہے شب کو بعید ہوگا وبالعکس تو دن کا عمل رات میں باطل، رات کا عمل دن میں زائل، اور سال بسال میل کی کمی غیر حاصل۔
رابعاً کیا دلیل ہے کہ عمل کبوء یک زمانے کے بعد منعکس ہوگا اور میل کہ گھٹتا جاتا ہے ، پھر بڑھنے لگے گا یا جو منہ پر آیا دعویٰ کر ڈالا یہاں تک کہ لکھ دیا کہ ابدالآباد تک یونہی کبھی گھٹتا کبھی بڑھتا رہے گا۔
خامساً کبؤ مبادرت دونوں متلازم اور ایک علت کے معاذل ہیں جب کبوء منعکس ہوگا اور میل بڑھے گا ضرور خطِ استوا منطقہ سے دور ہوتا جائے گا اور تقاطع غرب سے شرق کو آئے گا کبھی ایسا سنا یا قدیم و جدید میں کسی کا ایسا زعم ہوا یا تحکمات بے سروپا ہی کا نام تحقیق جدید ہے۔
(۲۴) مرکز شمس تحت حقیقی ہے جو اس سے قریب ہے نیچے ہے اور بعید اوپر۔
 
اقول: یہ مضمون ہیاتِ جدیدہ سے بوجوہ ثابت:
اولاً صاف تصریح کہ شمس(عہ۱)  ہی ثقیل حقیقی ہے باقی سب اضافی، ہر ایک بقدر اپنے ثقل کے مرکز شمس سے قُرب چاہتا ہے اور اس سے زیادہ قرُب سے بھاگتا ہے مع اس اقرار (عہ۲)کے ثقل کا کام جانب زیریں کھینچنا ہے تو روشن ہوا کہ مرکز شمس ہی تحت حقیقی ہے۔
 
عہ۱: ح ص ۲۹۔ ۱۲    عہ۲: ح ص ۳۴
 
ثانیاً ہماری طرف یہ بھی زہرہ و عطارد کو سفلیین اور مریخ و مافوقہ کو علویات کہتے ہیں ہمارے طور پر تو اس کی وجہ صحیح و ظاہر ہے کہ مرکز زمین تحت حقیقی ہے زہرہ عطارد اُس سے قریب ہیں اگر چہ اپنے بعد ابعد پر ہوں اور مریخ ومافوقہ بعید اگرچہ بعد اقرب پر ہوں لیکن ان کے طور پر یہ نہیں بنتی کہ ہیات جدیدہ کے زعم میں بارہا مریخ زمین سے قریب اور زہرہ و عطارد دور ہوتے ہیں زیجات سنویہ یعنی المکنون میں دیکھئے گا کہ جا بجا کتنے کتنے دن زمین سے بعد مریخ کے لوگار ثم میں عدد صحیح ۹ ہے کہ کسر محض ہوئی اور زہرہ و عطارد میں صفر کہ احاد صحاح کا مرتبہ ہوا۔سب میں زیادہ تفاوت کا مقام وہ ہے کہ دونوں  شمس کے ساتھ قران اعلیٰ میں ہوں اور مریخ مقابلے میں اس صورت پر ظاہر ہے کہ اس وقت مریخ زمین سے قریب ہوگا اور زہرہ و عطارد دور ہیات جدیدہ نے اس وقت زمین سے عطارد کا بعد اعظم ۱۳۵۶۳۱۰۴۹ تیرہ کروڑ میل سے زائد اور زہرہ کا ۱۵۹۵۵۱۴۳۶ سولہ کروڑ میل کے قریب اور مریخ کا بعد اقل ۲۶۳۸۸۹۸۵ کہ پونے تین کروڑ میل بھی نہیں تو اگر مرکز زمین تحت حقیقی ہو تو لازم کہ بارہا مریخ نیچا اور زہرہ و عطارد اوپر ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ، لاجرم مرکز شمس کو تحت حقیقی لیا کہ زہرہ وعطارد و ہمیشہ اس سے قریب ہیں اور مریخ بعید۔
 
 
 
ثالثاً صاف تصریح (عہ۳) ہے کہ زہرہ و عطارد کا مدار مدارِ زمین کے اندر ہونے کے سبب ان کو سفلین کہتے ہیں اور مریخ وغیرہ کا مدار مدارِ ارض سے باہر ہونے کے باعث اُن کو علویات ، ظاہر ہے کہ یہ علو و سفل اضافی ہیں یعنی زہرہ و عطارد کا مدار اندر ہونے کے سبب تحت حقیقی سے بہ نسبت مدارارض نزدیک تر ہے اور مریخ وغیرہ کا دور تر کھل گیا کہ اُن کے نزدیک مرکز شمس ہی تحت حقیقی ہے یہ ہیأتِ جدیدہ اور اس کی تحقیقات ندیدہ تمام عقلائے عالم کے خلاف اس نمبر کا پورا مزہ فصل سوم میں کھلے گا ان شاء اﷲ تعالیٰ۔
 
عہ۳: ص ۲۷۴ ح ص ۹۶ ۔ ۱۲

(۲۵) خلا ممکن بلکہ واقع ہے بذریعہ آلہ کسی ظرف یا مکان کو ہوا سے بالکل خالی کرلیتے ہیں۔
اقول: یہ ان کا مزعوم جا بجا ہے، آلہ ایئر پمپ کا ذکر نمبر ۱۸ میں گزرا، فلسفہ قدیمہ خلا کو محال مانتا ہے۔ ہمارے نزدیک وہ ممکن ہے مگر زرّا قات (عہ) وسّراقات وغیرہا کی شہادت سے عادۃً محال اور ہوا بہت متخلخل جسم ہے کیا دلیل ہے کہ بذریعہ آلہ بالکل نکل جاتی ہے جزو قلیل متخلخل ہو کر سارے مکان کو بھردیتا ہے جو بوجہ قلت قابلِ احساس نہیں ہوتا۔ نیوٹن (عہ۱) نے لکھا اگر زمین کو اتنا دباتے کہ مسام بالکل نہ رہتے تو انکی مساحت ایک انچ مکعب سے زیادہ نہ ہوتی جب یہ عظیم کرہ جس کی مساحت (عہ۲) دو کھرب انسٹھ ارب تینتالیس کروڑ چھیانوے لاکھ ساٹھ ہزار میل ہے دب کر ایک انچ رہ جاتا تو ہوا کہ اس سے کثافت میں ہزاروں درجے کم ہے کیا ایک تل بھر پھیل کر کروڑوں مکانوں کو نہ بھر سکے گی۔

عہ: زرّاقہ پچکاری، سرّاقہ نیچورا۔ اس کا تنگ منہ اور نیچے باریک سوراخ پانی بھر کر اوپر انگوٹھی سے دبالو پانی نیچی نہ گرے گا کہ ہوا کے جانے کی کوئی جگہ نہ ہوگی پانی گرے تو خلا لازم آئے، انگوٹھا اٹھا لو تو اب گرے گا کہ نیچے سے جتنا پانی نکلے گا اوپر سے اُتنی ہوا داخل ہوگی، ڈاٹ پچکاری کے نتھنے تک دبا کر پانی پر رکھ کر کھینچو پانی چڑھ آئے گا کہ ڈاٹ کے نکلنے سے جگہ خالی ہوگی اس خلا کو بھرے اور جب پانی بھر جائے اور ڈاٹ سے منہ بند ہو جھکانے سے پانی نہ گرے گا جیسے نیچوری سے نہ گرتا تھا کہ خلا نہ لازم آئے، مدت ہوئی میں ایک مشہور طبیب کے یہاں مدعو تھا گرمی کا موسم تھا حقّہ بھر کرآیا نَے خشک تھی دھواں نہ دیا میں نے اسے کہا تازہ کرو اب دھواں دینے لگا میں نے حکیم صاحب سے وجہ پوچھی کچھ نہ بتائی میں نے کہا جب نےَ خشک تھی مسام کھلے ہوئے تھے، پینے کے جذب سے جتنی ہوا نَے کے اندر سے منہ میں آتی اس کے قریب باہر کی ہوا مسام کے ذریعے سے نَے کے اندر آجاتی جگہ بھر جاتی اور دھوئیں تک جذب کا اثر نہ پہنچا تازہ کرنے سے مسام بند ہوگئے اندر کی ہوا پینے سے کھینچی اور باہر کی آنہ سکی لاجرم خلا بھرنے کو دھواں نے میں آیا ۱۲ منہ غفرلہ۔
عہ۱: ط ص ۲۱۔۱۲۔
عہ۲: ۔ص ۲۶۶ میں اس سے بھی زائد بتائی دو کھرب ساٹھ ارب اکسٹھ کروڑ تیس لاکھ میل مگر ہم نے مقررات جدیدہ پر حساب کیا تو اُسی قدر آئی ہم نے اپنے رسالہ الھنئی النمیر(ف) میں ذکر کیا ہے کہ لو قطر + ۴۹۷۱۴۹۹ء۰ = لومحیط ، اور اصول الہندسہ مقالہ ۷ شکل ۱۰ میں ہے کہ سطح قطر و محیط دائرہ عظیمہ سطح کرہ، اور اسی کی شکل ۱۴ میں ہے کہ سطح کرہ /۶ xقطر = مساحت جرم کرہ لہذا لوگا ر ثم مذکور سے ۶ کا لوگار ثم ۷۷۸۱۵۱۳ء۰کم کرکے سہ چند لوگار ثم قطر میں شامل کیا ۳ لو قطر + ۷۱۸۹۹۸۶ء ا = لو مساحت کرہ ہوا،تفتیش تازہ ترین زمین کا قطر معدل ۰۸۶ء۷۹۱۳ میل ہے۔ لو ۸۹۸۳۴۵۹ء ۳x۳=۶۹۵۰۳۷۷ء ۱۱+ ۷۱۸۹۹۸۶ء آ = ۴۱۴۰۳۶۳ء ۱۱ عدد ۲۵۹۴۳۹۶۶۰۰۰۰ وھوالمطلوب ۱۲ منہ غفرلہ )
ف: رسالہ الھنئی النمیر فی الماء المستدیر فتاوی رضویہ جلد ۲ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور میں ہے۔
نوٹ : ہمارا یہ طریقہ مختصر ہے ۔
اور یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے رسالہ مذکور ہ میں بیان کیا کہ وہ لو قطر + ۸۹۵۰۸۹۹ء۱ = لو مساحت دائرہ پھر ۲/۳ مساحت دائرہ عظیمہ xقطر = مساحتِ کرہ اس لیے کہ اصول الہندسہ مقالہ ۴ شکل ۱۲۔
میں ثابت ہوا ہے کہ ربع مسطح قطر ومحیط = مساحت دائرہ ہے اور مقالہ بہ شکل ۱۰ میں ہے کہ مسطح قطرو محیط دائرہ عظیمہ= مساحت سطح کرہ تو سطح کرہ چار مثل سطح عظیمہ ہوئی اور اس کا مسدس xقطر =مطلوب ::۸۹۵۰۸۹۹ء ۱ میں ۲ کالو ۳۰۱۰۳۰۰ ء جمع اور ۳ کالو ۴۷۷۱۲۱۳ء ۰ تفریق کرہ خواہ ۴ کالو۔۶۰۲۰۶۰۰ء۰جمع اور ۶ کالو ۷۷۸۱۵۱۳ء۰ = تفریق کرو، بہرحال حاصل ۷۱۸۹۹۸۶ء ۱ ہے، ۲ لو قطرپہلے تھا اور ایک اب بڑھا لہذا ۳ لو قطر ہوا ۱۲ منہ غفرلہ۔

تنبیہ لطیف : اقول: اہل انصاف دیکھیں سردار ہیأت جدیدہ نیوٹن نے کیسی صریح خارج از عقل بات کہی کرہ زمین اگر دب کر ایک انچ مکعب رہ جائے تو۔
اولاً یہ سارا کُرہ کہ کھربوں میل میں پھیلا ہوا ہے صرف ایک لاکھ دس ہزار پانچ سو بانوے (۱۱۰۵۹۲)، ذروں کا مجموعہ ہو، ہر ذرہ بال کی نوک کے برابر اس لیے کہ گز اڑتالیس انگل ہے، ہر انگل ۶جو، ہر جو دم اسپ ترکی کے ۶ بال ، تو گز ۱۷۴۸ بال کی نوک ہے اسے ۳۶ پر تقسیم کیے سے انچ میں ۴۸ بال ہوئے تو زمین کہ صرف ایک انچ مکعب کے لائق ہے ۱۱۰۵۹۲ ذروں کا ہی مجموعہ ہوئی یہ کیسا کھلا باطل ہے، اتنے ذرے تو اب ایک انچ مکعب مٹی میں ہوں گے باقی کھربوں میل کا پھیلاؤ کدھر گیا ، یوں نہ ظاہر ہو تو ا یک خط میں دیکھ لیجئے جب کرہ زمین ایک انچ ہوتا اس کا قطر تقریباً سوا انچ ہوتا یعنی (عہ۱) ۲۴۰۷۰۰۹ء ا جس میں بال کی نوک کے برابر ذرے صرف ۵۵۳۶۴۵ء۵۹ ہوسکتے پورے ساٹھ سمجھئے، بس یہ کائنات قطر زمین کی ہوتی اور اب ایک انچ طول کی خاک میں گن لیجئے اتنے ذرے فی الحال موجود ہیں تو باقی ۸ ہزار میل کا خط کہاں سے بنا۔

عہ۱: اس لیے کہ بحکم تعکیس لو مساحت کرہ ۔۷۱۸۹۹۸۶/۳ء۱ = لوقطر یہاں مساحت ایک ہے نہ صفر۔ عدد مذکور=۲۸۱۰۰۱۴ء ۰ – ۳=۰۹۶۳۶۷۱۳ء ۰ عددش ۲۴۰۷۰۰۹ء۱ یعنی ایک انچ مع کسر مذکور کہ قریب ربع ہے ۔
فائدہ : اقول: یونہی کرہ جس مقدار میں ایک فرض کیا جائے گا اُس کا قطر تقریباً سوا یا ہوگا اور قطر جس مقدار میں ایک فرض کیا جائے کہ وہ اس سے ۱۳۱/ ۲۵۰ یعنی ۱۳/ ۲۵ ہوگا اور بالتدقیق ۵۲۳۵۹۸۹ء۰ کہ جب قطر ایک ہے اس کا لوگار ثم اور سہ چند لوگار ثم سب صفر ہوا تو لو مساحت کرہ صرف ۷۱۸۹۹۸۶ء ۱ رہا جس کا عدد وہی مذکور ہے اور اس ۱۳۴ سے مقدار قطر کی کرہ پر زیادت متوہم نہو کہ قطر میں اس مقدار قطر کی کرہ پر زیادت متوہم نہو کہ قطر میں اس مقدار کی پہلی قوت ہوگی اور کرے میں تیسری یہیں دیکھئے کہ قطر میں ۶۰ ذرے ہوئے یعنی ایک انچ میں ۴۸ اور کرے کی ایک انچ میں ۱۱۰۵۹۲ کہ ۴۸ کی مکعب ہے اس کی تصدیق یوں ہوسکتی ہے کہ سوا انچ قطر میں ذرے ۵۵۳۶۴۵ء۵۹لوگار ثم ۷۷۴۹۰۸۳ء ۱x۳=۵۱۳۲۴۷۲۴۹،+ ۷۱۸۹۹۸۶ء۱= ۵۲۰۴۳۷۲۳۵ = لو مساحت انچ مکعب اس کا عدد وہی ۱۱۰۵۹۲ عدد ذرات کرہ ۱۲ منہ غفرلہ۔

ثانیاً جب قطر میں ۶۰ ہی ذرے ہوئے اور وہ ہے ۱۲۰ درجے اور زمین کا درجہ قطریہ ۶۶ میل کے قریب ہے یعنی ۹۴۳۳ء۶۵ میل کے نصف قطر معدل ۵۴۳ء۳۹۵۶ میل ہے تو سبب اُس سمٹنے کے بعد پھیل کر حالت موجود ہ پر آتی ہر ذرہ دوسرے سے ۱۳۲ میل کے فاصلے پر ہوتا تو زمین محسوس ہی نہ ہوسکتی۔
ثالثاً اگر بفرض غلط یہ منزلوں کے فاصلے پر ایک ایک ذرہ دوسرے سے جدا نظر بھی آتا تو کوئی مجنون ہی اسے جسم واحد گمان کرتا۔
رابعاً زمین پر انسان حیوان کا بسنا چلنا درکنار ،کوئی مکان تعمیر ہونا محال ہو تا کہ ہرذرے کے بیچ میں ۱۳۲ میل کا خلاہے۔
خامساً اگر لو گ ہوا میں معلق بستے بھی تو امریکہ کے ہندوستان سے دکھائی دیتے اور ہندوستان کے امریکہ سے، اورشمس و قمر کو کواکب کا طلوع غروب سب باطل ہوتا کہ منزلوں کے خلا میں متفرق ذرے کیا حاجب ہوتے۔ یہ سب حالتیں زمین کی حالت موجودہ میں لازم ہیں کہ یہ وہی حالت تو ہے جو سمٹ کر پھیلنے کے بعد ہوتی ۔ سمٹنے سے اجزاء کم و بیش نہیں ہوجاتے تو اب بھی قطرِ زمین وہی ۶۰ ذرے بھرہے اور سارے کُرے میں کل جمع ۱۱۰۵۹۲ ذرّے اگر کہے اجزائے دیمقر اطیسیہ بال کی نوک سے چھوٹے ہیں تو وہ قطر میں ۶۰ نہیں بہت ہیں۔
اقول : ایسے کتنے بہت ہیں ایسے کتنے چھوٹے ہیں ذہنی تقسیم میں کلام نہیں جس پر کہیں روک نہیں ، ایک خشخاش کے دانہ پر دائرہ عظیمہ لے کر اس کے ۳۶۰ درجے ، ہر درجے کے ۶۰ دقیقے، ہر دقیقے کے ۶۰ ثانیے یوں ہی عاشرے اور عاشرے کے عاشرے تک جتنے چاہیے حساب کرلیجئے کیا یہ جس میں متمایز ہوسکتے ہیں۔ یہ فلک شمس جسے تم مدار زمین کہتے ہو جس کا محیط دائرہ ۵۸ کروڑ میل سے زائد ہے۔ ہم فصل اول میں ثابت کریں گے کہ اس کا عاشرہ ایک بال کی نوک کے سوا لاکھ حصوں سے ایک حصہ ہے۔ تقسیم حسی میں کلام ہے جس کا انتفااجزاء دیمقراطیسیہ میں لیا گیاہے اور شک نہیں کہ بال کی نوک کا پچاسواں حصہ بھی حساًجدانہیں ہوسکتا تو جز دیمقراطیسی زیادہ سے زیادہ ایک ذرے میں پچاس رکھ لیجئے۔ نہ سہی ہر بال کی نوک میں ۱۳۲ فرض کیجئے اب تو کوئی گلہ نہ رہا اور کاسے میں آش بدستور، جب ہر ذرہ دوسرے سے ۱۳۲ میل کے فاصلے پر تھا اب ہر جز دوسرے سے میل میل بھر کے فاصلے پر ہوا ، اب کیا اس کا قطر بال کی ۶۰ نوک سے بڑھ جاتا ہے ، ایک نوک کے حصے کتنے ہی ٹھہرالو اب کیا زمین محسوس ہوسکتی ۔ اب کیا جسم و احد سمجھی جاتی، اب کیا اس پر کھڑا ہونا یا مکان ممکن ہوجاتا اب کیا ادھر کی آبادی ادھر نظر نہ آتی۔ اب کیا چاند سورج یا کوئی تارا غروب کرسکتا ، ہر دو جز میں ایک میل کا فاصلہ کیا کم ہے، ملاحظہ ہو یہ ہیں ان کی تحقیقاتِ جدیدہ اور یہ ہیں ان کے اتباع کی خوش اعتقادیاں کہ متبوع کیسی ہی بے عقلی کا ہذیان لکھ جائے یہ اٰمنّا کہنے کو موجود ۔
اخیر میں پہلی گزارش تو یہ ہے کہ صحت کی تمامتر کوشش کے باوجود۔

 (۲۶) آسمان کچھ نہیں فضائے خالی نامحدود و غیر متناہی ہے ایک پتھر (عہ۱)کہ  پھینکا جائے اگر جذب زمین و مزاحمت ہوا وغیرہ نہ روکیں تو ہمیشہ یکساں رفتار سے چلا جائے کبھی نہ ٹھہرے زمین (عہ۲)کو کششِ آفتاب حائل نہ ہوتی تو ہمیشہ مساوی حرکت سے سیدھی ایک طرف چلی جاتی۔ یہ ان کی خام خیالیاں ہیں ۔ آسمان پر ایمان ہر آسمانی کتاب ماننے والے پر لازم ، اور بعد موجود قطعاً محدود لا متناہی ابعاد دلائل قاطعہ سے مردود۔
 
عہ۱:ح ص ۲۴ وغیرہ ط ص ۱۷ ۔۱۲   عہ۲: ط ص ۵۶ ۔۱۲
 
 (۲۷) اگلے (عہ۳) تو غلطی میں پڑ کر وجودِ فلک کے قائل ہوئے اور ہم پچھلے ( یعنی) ہیأت جدیدہ والے اگرچہ آسمان نہیں مانتے پھر بھی حسابی غلطیوں اور ہندسی خطاؤں کے رفع کے لیے ان تمام حرکات و دوائر کو اگلوں کی طرح ایک کرہ کے مقعر میں مانتے ہیں جو منتہائے نظر راصد پر ہے اور اس کا مرکز مرکزِ زمین ۔
 
عہ۳: ح ص ۴۶ اور اسی کا اشارہ ص ۲۳ میں ہے ۱۲۔
 
اقول : اولاً یہ اقرار غنیمت ہے کہ بے آسمانی کرہ مانے حساب میں غلطی اور ہندسی اعمال میں خطا پڑتی ہے مگر یہ منطق نرالی ہے کہ وہی غلط ہے جس کے ماننےسے  غلطیاں رفع ہوتی ہیں۔
 
ثانیاً تمام عُقلا تو ان دوائر کو آسمانی کرہ کی محدب پر مانتے ہیں مگر یہ انہیں کیونکر راست آتا کہ فضائے نامحدود کا محدب کہاں ، لہذا مقعرلیا، اب اس کو بھی تجدید درکار ، وہ انتہائے نظر راصد سے لی۔ تحدید تو اب بھی نہ ہوئی۔ 
راصدوں کی نظریں مختلف ہیں ،سب سے تیز نظر کا لیا جائے تو آگے آلات ہیں اور ان کی قوتیں مختلف ہیں سب سے قوی قوت کا لیا جائے تو اس کی بھی حد نہیں روز نئے آلے ایجاد ہوتے ہیں نگاہ مجرد ہو یا مع آلہ اس کی اپنی انتہا اس سقفِ نیلی پر ہے جسے ہیات قدیمہ نہایت عالم نسیم کرہ بخار کہتی ہے اور جدیدہ ایک محض موہوم حد نظر اور حقیقت میں وہ اس آسمانِ دنیا یعنی فلک  قمر کا مقعر ہے اس کے بعد روشن اجرام نہ ہوتے تو کچھ نظر نہ آتا اور روشن اجرام زاویہ بابصار بننے کے لائق بعد پر کتنے ہی دور لے جائیں نگاہ ان تک پہنچے گی تو واقعہ میں کوئی حد نہیں ہاں یہ کہے کہ کل جب تک یہ آلات نہ نکلے تھے جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی اس بعد پر یہ مقعر و دائر بنتے تھے آلات بن کر ان سے زائد پر ہوئے اور جو آلہ قوی تر ایجاد ہوتا گیا یہ کرہ عالم اونچا ہوتا گیا اور آئندہ یوں ہی ہوتا رہے گا حد بندی کچھ نہیں کیونکہ حساب و ہندسہ کی غلطیاں رفع کرنے کو ایک غلط بات ماننا درکار ہے جیسی بھی ہو۔
 
ثالثاً سماوی کرہ واقعی خواہ فرضی بالطبع ایسا ہونا لازم کہ تحت حقیقی سے اس تک بعد ہر جانب سے برابر ہوا اس کے کوئی معنی نہیں کہ یہ مقعر ایک طرف زیادہ اونچا ہے دوسری طرف کم، تو اسے مرکز شمس پر لینا تھا کہ وہی تمہارے نزدیک تحت حقیقی ہے۔ ۲۴ مگر مجبوری سب کچھ کراتی ہے وہ حسابی وہ ہندسی غلطیاں یونہی رفع ہوتی ہیں کہ باتباعِ قد ما مرکز عالم مرکز زمین پر لیا جائے۔
رابعاً مرکز زمین ہو یا مرکز شمس یا کوئی ایک مرکز معین ہیات جدیدہ سب دوائر کو جن سے ہیات کانظام بنتا ہے ایک مرکز پر مان سکتی ہی نہیں جس کا بیان عنقریب آتا ہے اور بے ایک مرکز پر مانے ہیات کا نظام سب درہم و برہم ، غرض بیچارے ہیں مشکل میں، دو ائر اور ان کے مسائل سب قدماء  سے سیکھے اور انہیں کی طرح اُن سے بحث چاہتے ہیں مگر جدید مذہب والا بننے کو اصولِ معکوس لیے اب نہ وہ بنتے ہیں نہ یہ چھوٹتے ہیں، سانپ کے منہ کی چھچوندر ہیں۔آسمان گما کر سورج تھما کر جاذبیت کے مثل ہاتھوں سیارے گھما کر چار طرف ہاتھ پاؤں مارتے ہیں اور بنتی کچھ نہیں۔ بعونہ تعالیٰ یہ سب بیان عیاں ہوجائے گا۔ وباﷲ التوفیق۔
 
 (۲۸) زمین کے خطِ استوا کو جب مقعر سماوی تک لے جائیں تو ایک دائرہ عظیمہ پیدا ہوگا کہ کُرہ فلک کے دو حصے مساوی کردے۔ یہ خط اعتدال یا آسمانی خط استوا یعنی معدل النہار ہے دائرہ عظیمہ وہ دائرہ ہے کہ کرہ کے دو برابر حصے کردے۔
اقول: اتنی قدماء سے سیکھ کر ٹھیک کہی مگر ہیات جدیدہ ہر گز اسے ٹھیک نہ رکھے گی جس کا بیان بعونہ تعالیٰ عنقریب آتا ہے۔ حدائق نے اس میں ایک مہمل اضافہ کیا کہ منطقہ حرکت یومیہ زمین کو قاطع عالم فرض کرنے سے عالم علوی میں معدل النہار اور زمین پر خطِ استوا پیدا ہوتا ہے۔
اقول: خطِ استوا ہی تو وہ منطقہ ہے اسے قاطع عالم ماننے سے خود اس کا پیدا ہونا عجیب ہے۔
 
 (۲۹) تمام مباحث ہیات کی امہات دوائر دو دائرے ہیں معدل النہار کہ گزرا ، دوسرا دائرۃ البروج اس کی تعیین ہیات جدیدہ کے اضطراب دیکھے، سیکھا اسے بھی قدما سے اور بے اس کے ہیات کے کام احکام چل نہیں سکتے ناچار ابحاث واحکام میں قدماء کی  تقلید کی مگر بیخبرکہ ہیات جدیدہ کے غلط اصول ان کا تھل بیڑا نہ رکھیں گے نہ تمہیں دائرۃ البروج کی صحیح تعریف کرنے دیں گے اصول علم الہیات میں کہا زمین اپنے دورہ سالانہ  گردشمس سے جو دائرہ عظیمہ بناتی ہے وہ دائرۃ البروج ہے اس کی سطح معدل پر ۲۳ درجے ۷ ۲ دقیقے کچھ ثانیے مائل ہے یہ بارہ برج مساوی پر تقسیم ہے جن میں چھ خط استوا سے شمال کو ہیں چھ جنوب کو ، ہر برج ۳۰ درجے حدائق میں کہا یہ دائرہ مدار زمین کو قاطع عالم فرض کرنے سے فضائے علوی میں حادث ہوتا ہے۔
 
اقول اولاً : یہ سب غلط ہے بلکہ مدارِ شمس(جسے یہ مدارِ زمین کہتے ہیں) مرکز عالم سے جدا مرکز پر واقع ہے تو اس کے قطر کا ایک نقطہ مرکز عالم سے غایت بعد پر ہے جسے اوج کہتے ہیں دوسرا غایت قرب پر جسے حضیض ، جن کی تصویر ۳۳ میں آتی ہے مرکز عالم پر اوج کی دوری سے دائرہ کھنچیں کہ منطقہ و ممثل ہے ۔ اس دائرے کو قاطع لین محدب فلک الافلاک پر اس کے موازی جو دائرہ بنا وہ دائرۃ البروج ہے جس کا مرکز مرکزِ عالم ہے ہمارے بیان کاحق او ران کے مزعوم کا باطل ہونا ابھی خود ان کے اقراروں سے کھلا جاتا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
ثانیاً اس سے قطع نظر ہو تو طریق علمی سے مشابہ وہی ہے جو حدائق میں کہا نہ کہ نفس مدار کو دائرۃ البروج ماننا جس سے اوپر ڈیڑھ سو کے قریب مدار موجود ہیں او ر سب کی مبانیت اس سے لی جاتی ہے جو اسے مقعر سماوی سے اتنا نیچا لینے پر نہیں بن سکتی۔
ثالثاً مدار زمین تو بیضی مانتے ہو دائرۃ البروج دائرہ کیسے ہوا اور مجاز کا دامن تھامنا کام نہ دے کہ میل و عرض ہما کے مؤامرات علم مثلث کروی پر مبنی اور وہ دوائر تامہ ہی میں جاری۔
 
 (۳۰) معدل النہاردوائرۃ البروج کا تقاطع تناصف پر ہے یعنی نقطتین اعتدال سے دونوں کی تصنیف کروی ہے، ہیات جدیدہ میں بھی جتنے کرے بنتے ہیں سماوی خواہ ارضی جن کو گلوب کہتے ہیں سب میں دیکھ لو دونوں دائرے متناصف ملیں گے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس سے ہر بچہ آگاہ ہے جس نے قدیمہ خواہ جدیدہ کسی ہیات کے دروازے میں پہلا قدم رکھا ہو۔ نیز ابھی نمبر ۲۹ میں اصول علم الہیات سے گزرا کہ ایک نقطہ اعتدال سے دوسرے تک دائرۃ البروج کے ۸۰ا درجے ہیں یہ اس کی تنصیف ہوئی اور اسی سے نمبر ۲۳ میں گزرا کہ خطِ استوا کے نصفین کی تحدید انہیں دو نقطہ اعتدال سے ہے، نیز اسی کے نمبر ۵۹ میں ہے کہ یہ دونوں عظیمے ایک دوسرے کو دو نقطہ متقابل پر قطع کرتے ہیں ظاہر ہے کہ دائرے پر متقابل نقطے وہی ہوتے ہیں جن میں نصف دور کا فصل ہو اور سب سے صاف تر ۱۵۷ میں کہا کہ دونوں نقطہ اعتدا ل میں مطالع یعنی معدل کی قوس ۱۸۰ درجے ہے پھر کہا یعنی دائرۃ البروج خط استواکو دو نقطہ متقابلہ پر قطع کرتا ہے جن میں فصل ۱۸۰ درجے ہے پھر کہایہ برہان ہے اس پر کہ دائرہ بروج دائرہ عظیمہ ہی ہے کہ سوا عظیمہ کے کوئی دائرہ خطِ استوا یعنی معدل کو اس طرح قطع نہیں کرسکتا غرض یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر ہیات جدیدہ و جملہ عقلائے عالم سب کا اتفاق ہے۔
 
اقول: اب اسے تین نتیجے بدیہی طور پر لازم :
(ا) یہ دونوں دائرے متساوی ہیں۔
(ب) دونوں مرکز واحد پر ہیں۔
(ج) دونوں ایک کرے کے دائرہ عظیمہ ہیں۔
ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے دائروں کا تناصف ممکن نہیں ورنہ جزو کل مساوی ہوجائیں دائرہ ا ح ء نے چھوٹے دائرہ اب ح کی نقطتین ا ح پر تنفصیف کی ا ح وصل کیا ضرور ہے کہ اب ح کے مرکز سے ہ پر گزرا اور اس کا قطر ہوا ، اب انہیں نقطوں پر دائرہ اح ء کی بھی تنصیف مانو تو اگر یہی ا ح اس کا بھی قطر ہو تو دونوں دائرے مساوی ہوگئے اور اگر اس کا قطر ح ط ہوا تو قوس ا ء ح بھی اس کی نصف ہوئی اور ح ء ط بھی بہرحال جزو کل برابر ہوگئے۔ یونہی دو مساوی دائروں کا مرکز مختلف ہو تو ان کا تنا صف محال۔
 
 
 
دائرہ ا ر ب کا مرکز ح ہے اور ا ح ب کا ء ، اور نقطتین اب پر تناصف ، اب وصل کیا ضرورۃ ہر ایک کا قطر ہوا کہ اس کے نصفین میں فاصل ہے تو قطعاً دونوں کے مرکز پر گزرا کہ ہ ہے تو ہر دائرے کے دو مرکز ہوگئے اور یہ محال ہے ورنہ جزو کل مساوی ہوں اور جب یہ دونوں عظیمے مساوی دائرے مرکز واحد پر ہیں تو یقیناً کرہ واحدہ کے عظام سے ہیں، بالجملہ یہ تینوں نتیجے متفق علیہ ہیں اور خود جملہ کرات ارضی و سماوی کہ اب تک ہیات جدیدہ میں بنتے ہیں ان کی صحت پر شاہد عادل۔
 
 
 
فوائد:
(ا) سطح مستوی میں کبھی دو دائرے تناصف نہیں کرسکتے کہ اس کے لیے اتحاد مرکز لازم اور وہ اس کے متقاطع دائروں میں محال )اقلیدس ( عہ۱ ) مقالہ ۳ شکل ۵ ) ب ، دائرۃ البروج کی تعریف کہ حدائق میں کی باطل ہے کہ معدل سے مرکز بدل گیا۔ ج اصول الہیات کی تعریف اس سے باطل تر ہے کہ مرکز بھی مختلف اور دائرے بھی چھوٹے بڑے ، اور حق وہ ہے جو ہم نے کہا۔ ء  جب ان کے مرکز مختلف تو دونوں عظیمے کیسے ہوسکتے ہیں کہ عظیمہ کا مرکز نفس مرکز کرہ ہونا لازم ( دیکھو مثلت کروی باب اول نمبر ۳) ہ حدائق نے سنی سنائی یا اسی ہوشیاری سے سب دوائر کو ایک مقعر مساوی پر لیا جس کا مرکز زمین ہے مگر بھلا کر تمہارے نزدیک تو وہ مدار زمین ہے یا مقعر فلک پر اس کا موازی ، بہرحال اس کا مرکز مرکز مدار زمین مرکز زمین ہونا کیسی صریح جنون کی بات ہے دائرۃ البروج کو اپنے مرکز پر رکھ کر مقعر سماوی پر لیا ہے تو نہ وہ عظیمہ ہوسکتا ہے نہ معدل النہار اس کا تنا صف ممکن ا ور اگر اسے مرکز زمین کی طرف منتقل کرلیا تو دائرہ ہی وہ نہ رہا، نہ اس کی جگہ وہ رہی، نہ اب اس جدید دائرے اور معدل کا غایت بعد کہ میل کلی کہلاتا ہے دائرۃ البروج کا میل ہوسکتا ہے غرض تمام نظام ہیات تہ و بالا ہے تقلیدی باتیں کہتے چلے گئے اور خبر نہیں کہ ان کے اصول کی شامت لگ گئی ۔
 
عہ۱: اقلیدس نے ایک شکل یہ رکھی چھٹی یہ کہ دو متماس دائروں کا ایک مرکز نہیں ہوسکتا اور ایک شق باقی رہی کہ دو متبائن غیر متوازی دائروں کا مرکز ایک ہو ممکن نہیں، مناسب یہ تھا کہ ایک شکل ان تینوں کو حاوی رکھی جاتی کہ دو غیر متوازی دائروں کا مرکز ایک ہونا ممکن خواہ متقاطع ہوں یا متماس کہ جب مرکز ایک ہے تو اس سے ہر دائرے تک ہر طرف بعد مساوی ہے اور مساویوں سے مساوی ساقط کرکے مساوی رہیں گے تو دونوں دائروں کا ہر طرف فصل مساوی ہوا تو متوازی ہوگئے اور فرض کئے تھے نامتوازی ۱۲ منہ غفرلہ ۔

(۳۱) معدل النہار ( عہ۲) دوائرۃ البروج دونوں دائرہ شخصیہ ہیں یعنی ہر ایک شخص واحد معین ہے کہ اختلاف لحاظ سے نہ اس کا محل بدلے نہ حال بخلاف دوائر نوعیہ کہ مختلف لحاظوں سے مختلف پڑتے ہیں جیسے دائرہ نصف النہار کہ ہر طول میں جدا ہے اور دائرہ افق کہ ہر عرض و ہر طول میں نیا ہے۔


عہ۲: ح ص ۴۶ ۔۱۲۔

اقول: بلاشبہ حق یہی ہے اور خود ہیأتِ جدیدہ کے سماوی و ارضی کرے اس پر شاہد کہ دونوں دائروں کو غیر متبدل بناتے ہیں بخلاف اُفق و نصف النہار کہ ان کی تبدیل حسب موقع کا طریقہ رکھتی ہیں مگر ہیأت جدیدہ کا یہ اقرار اور قولاً و فعلاً اظہار بھی نرا تقلیدی ہے جس نے اس کے اصول کا خاتمہ کردیا علی اھلہا تجنی براقش ۱؂

( براقش اپنے ہی اہل مصیبت لاتی ہے۔ دائرۃ البروج کا حال تو ابھی گزرا تھا مرکز مدار پر اور لیتے ہیں مرکز زمین پر تو وہ شخص کیسا، وہ نوع ہی بدل گئی اور معدل کا حال ابھی آتا ہے۔

(۱؂المنجد داراشاعت کراچی، ص ۱۱۶۰)

(۳۲) قطبین ( عہ۲) جنوبی و شمالی ساکن نہیں بلکہ قطبین دائرۃ البروج کے گرد گھومتے ہیں مبادرت اعتدالین کے باعث۲۵۸۱۷ برس میں ان کا دورہ پورا ہو تا ہے مبادرت (عہ۳) ہرسال ۲ء۵۰ ہے اور ہر دائرےمیں ۱۲۹۶۰۰۷ ثا نیے ان کو ۲ء۵۰ پر تقسیم کیے سے ۲۵۸۱۷ (عہ۴) حاصل ہوئے۔

عہ۲: ص ۳۳۷ و ۱۸۴ و ۱۹۰ ۔۱۲
عہ۳: ص ۱۸۳ ۔۱۲
عہ۴: یعنی ۷۳۳۳ء ۲۵۸۱۱۶ باسقاط خفیف ۱۲ منہ غفرلہ

اقول: ہیات جدیدہ کہ ہمیشہ معکوس گوئی کی عادی ہے جس کا کچھ بیان بعونہ تعالیٰ آتا ہے اس پر مجبور ہے کہ قطبین عالم کو متحرک مانے کہ زمین اس دائرے پر حرکت کرتی ہے جس کا قطر ۱۹ کروڑ میل کے قریب ہے او راس کا مدار ایک دائرہ ثابتہ ہے تو قطبین مدار تو ساکن ہیں اور قطبین جنوب و شمال کہ قطبین عالم و قطبین اعتدال ہیں اور زمین کے محور تحرک کے دونوں کناروں پر ہیں ضرو راس کی حرکت سے کروڑوں میل اوپر اٹھیں گے اور کروڑوں میل نیچے گریں گے مگر اولاً اب معدل النہار دائرہ شخصیہ کب رہا بلکہ ہر آن نیا ہے کہ ہر آن اس کے مرکز کا مقام جدا ہے۔
ثانیاً وہ فرض کیے ہوئے مقعر سماوی کو بھی دم بھر چین نہ لینے دے گا کہ اس مقعر کا مرکز بھی مرکز زمین مانا ہے۔ ۲۷ اور وہ کروڑوں میل اٹھنے گرنے میں ہے تو یونہی ہر آن مقعر سماوی بدلے گا اور اگر وہ بحال رہے تو دائرہ اس پر کب رہا کروڑوں میل اس کے اندر جائے گا اور دوسری طرف خلا چھوڑ ے گا پھر دوسری طرف کروڑوں میل اندر جائے گا۔ اور ادھر خلاء چھوڑے گا اسی کو کہا تھا کہ یہ سب دوائر ایک مقعر سماوی پر لیتے ہیں۔
ثالثاً بفرض باطل دائرۃ البروج کو بھی اسی مقعر و مرکز پر لے لیا اور یہ ہر آن متبدل ہیں تو دائرہ البروج بھی ہر آن بدلے گا تو شخصیہ کب رہا۔ یا وہ تنہا خواہ مع مقعر سماوی برقرار رکھا جائے گا کہ اس کا مرکز ثابت ہے تو اس کی تبدیل کی وجہ نہیں تو میل اور صد ہا مسائل کا کیا ٹھکانا رہے گا ، غرض بات وہی ہے کہ تقلیداً معدل النہار دوائرۃ البروج کا نام سن لیا اور ادھر ان احکام کی تقلید کی جو اصول قدما پر مبنی تھے ادھر اپنے اصول کا گندہ بروزہ ملایا وہ ایک مہمل معجون باطل ہو کر رہ گیا۔ یہ ہے ہیأت جدیدہ اور اس کی تحقیقات ندیدہ۔

(۳۳) زمین وغیرہ ہر سیارے کا اپنے محور پر گھومنا اس سبب سے ہے کہ طبیعت میں ثابت ہوا ہے کہ ہر چیز بالطبع آفتاب سے نورو حرارت لینا چاہتا ہے اگر سیارے حرکت و ضعیہ نہ کریں جمیع اجزا کو نور و حرارت نہ پہنچے۔
اقول: یہ وجہ موجہ نہیں اولاً اجزا میں جاذبہ و ماسکہ و نافرہ کے علاوہ ایک قوت شائقہ ماننی پڑے گی اور اس کا کوئی ثبوت نہیں۔
ثانیاً زمین سے ذرے اور ریگ کے دانے خفیف پھونک سے جدا ہوجاتے ہیں ان کا یہ شوق طبعی کیا اتنی بھی قوت نہ رکھے گا کہ زمین سے بے جدا کیے ان کو گھمائے پھر ایک ایک ذرہ اور ریتے کا دانہ آفتاب میں اپنے نفس پر حرکت مستدیرہ کیوں نہیں کرتا اس کا جو حصہ مقابل آفتاب ہے سو برس گزر جائیں جب تک ہٹایا نہ جائے وہی مقابل رہتا ہے دوسرا حصہ کہ آفتاب سے حجاب میں ہے کیوں نہیں طلب حرارت و نور کے لیے آگے آتا۔
ثالثاً زمین میں مسام اتنے ہیں کہ پوری دبائیں تو ایک انچ کی رہ جائے۔(۲۵) تو ظاہر ہے کہ اس کا کوئی جزو دوسرے سے متصل نہیں سب ایک دوسرے سے بہت فصل پر ہیں تو ہر جز اپنے نفس پر کیوں نہ گھوماکہ اس کے سب اطراف کو روشنی و گرمی پہنچتی صرف کرے کے محور پر گھومنے سے ہر جز پورے انتفاع سے محروم رہا۔
رابعاً کرہ کی حرکت و ضعیہ سے سطح بالا ہی کے سب اجزاء فی الجملہ مستفید ہوں گے اندر کے جملہ اجزاء اب بھی محروم مطلق رہے تو جمیع اجزاء کا استفادہ کب ہوا اندر کے اجزاء طلب نور و حرارت کےلیے اوپر کیوں نہیں آتے۔ اگر کہیے اوپر کے اجزاء جگہ روکے ہوئے ہیں۔
اقول : اولاً غلط انچ بھر کی زمین جب پونے تین کھرب میل میں پھیلی ہوئی ہے اس میں کس قدر وسیع مسام ہوں گے۔(نمبر ۲۵) ان سوراخوں سے باہر کیوں نہیں آتے۔
ثانیاً اوپر کے اجزاء میں جو آفتاب سے حجاب ہیں ان کی جگہ اگلے اجزا ء رکے ہوئے ہیں جو مقابل شمس ہیں، پھر حرکت وضعیہ کیونکر ہوتی ہے۔
ثالثاً آفتاب بھی تو اپنے محور پر گھومتا ہے وہ کس نور و حرارت کی طلب کو ہے۔ بالجملہ یہ وجہ بے ہودہ ہے بلکہ اصول ہیأت جدیدہ پر اس کی وجہ ہم بیان کریں۔
اقول: اس کا سبب بھی جاذبہ ( عہ۱) ونافرہ ہے جذب قُرب و بعد سے مختلف ہوتا ہے ولہذا خط عمود پر سب سے زیادہ ہے کلیت سیارہ مثلاً ارض کے لیے جاذب سے تنفر کا جواب مدار پر جانے سے ہوگیا مگر اب بھی اس کے اجزاء پر جذب مختلف ہے خاص وہ اجزا کہ مقابل شمس ہیں ان پر جذب اقویٰ ہے اور ان میں بھی جو بالخصوص زیر عمود ہے پھر جتنا قریب ہے۔(نمبر۱۰) یہ اجزاء اس سے بچنے کے لیے مقابلہ سے ہٹتے اور بالضرورت اپنے اگلے اجزاء کو اپنے لیے جگہ خالی کرنے کو دفع کرتے ہیں وہ اپنے اگلوں کو وہ اپنے اگلوں کو یوں محور پر دورہ پیدا ہوتا ہے اب جو اجزاء پہلے اجزا سے مقابلہ کے پیچھے تھے مقابل آئے اب یہ مقابلہ سے بچنے کو اپنے اگلوں کو ہٹاتے ہیں اور وہی سلسلہ چلتا ہے یوں دورہ پر دورہ مستمر رہتا ہے۔ اگر کہئے زمین بوجہ کثرت بعد وقلت حجم آفتاب کے آگے گویا ایک نقطہ ہے ولہذا آفتاب کا اختلاف منظر ۹ ثانیے بھی نہیں تو اس کے اجزا پر مقابلہ وہ حجاب کا اختلاف نہ ہوگا بلکہ گویا سب مقابل ہیں۔

عہ۱: یہ وجہ شمس کو بھی شامل ہے کہ وہ بھی اور سیاروں کے جذب سے بچنے کو اپنے محور پر گھومتا ہے۔ جغ ص ۱۲۱ ، ۱۲ منہ غفرلہ

اقول : اولاً نظر ( عہ۲) ظاہر میں تو یہی کافی کہ ایسا ہے تو تقریباً نصف کرُہ زمین میں ہمیشہ رات کیوں رہتی ہے سب ہی روشن رہا کرے کہ سب مقابل شمس ہے۔
 
عہ۲: اس سے ایک تدقیق دقیق کی طرف اشارہ ہے جسے ہم نے اپنے رسالہ صبح میں روشن کیا ،۱۲ منہ غفرلہ)
(رسالہ صبح سے مراد ہے درء القبح عن درک وقت الصبح (زبان اردو فن توقیت) از اعلٰیحضرت عبدالنعیم عزیزی)
 
ثانیاً آخر کچھ نہیں تو اختلاف منظر کیوں، جب نصف قطر کی یہ مقدار ہے کل سطح کی اکثر واکبر ہے۔ اسی قدر اختلاف جذب کو بس ہے۔
ثالثاً بالفرض سب ہی مقابل سہی عمود و منحرف کا فرق کدھر جائے گا۔ یوں بھی اختلاف حاصل ، بالجملہ یہ تقریر ان مقدمات پر مبنی ہے جو ضرور ہیات جدیدہ کے اصول مقررہ ہیں تو یہی اسے واجب التسلیم ہے اگرچہ حقیقۃً اعتراض سے خالی نہ یہ نہ وہ بلکہ ہم بتو فیقہ تعالیٰ فصل سوم میں روشن کریں گے کہ دونوں وجہیں باطل محض ہیں اور کیوں نہ ہو کہ اصول باطلہ ہیات جدیدہ پر مبنی ہیں پھر بھی یہ اس سے اسلم اور اصول جدیدہ پر تو نہایت محکم ہے۔،
 
تنبیہ : اقول: وجہ یہ ہو خواہ وہ بہر طور زمین کی حرکت مستدیرہ حقیقۃً حرکت وضعیہ یعنی مجموع کُرہ کی حرکت واحدہ محوریہ نہیں بلکہ کثیر متوالی حرکات ایتیہ اجزاء کا مجموعہ وجہ اوّل پر پچھلے اجزا اگلے اجزا کو خود مقابل آنے کے لیے ہٹاتے ہیں پھر ان سے پچھلے ان کو ان سے پچھلے ان کو اسی طرح آخر تک اور وجہ دوم پر اگلے اجزاء مقابلہ سے ہٹنے کے لیے اپنے اگلوں کو ہٹاتے ہیں وہ اپنے اگلوں یہ اپنے اگلوں کو ، یونہی آخر تک بہرحال یہ حرکت خاص اجزاء سے پیدا ہو کر سب میں یکے بعد دیگرے بتدریج پھیلتی ہے نہ کہ مجموع کرہ حرکت  واحدہ سے متحرک ہو۔ وجہ اول پر تمام اجزاء کے لیے نوبت بہ نوبت طبعی بھی ہے اور قسری بھی ، جو اجزاء حجاب میں ہیں ان کے لیے طبعی اور جو مقابل ہیں ان کے لیے قسری کے  پچھلے اجزاء ان کے حاصل شدہ مقتضائے طبع سے ہٹاتے ہیں، جب یہ بالقسر مقابلہ سے ہٹ جائیں گے بالطبع حرکت چاہیں گے اور تازہ مقابلہ والوں کو قسر کریں گے اور وجہ دوم پر سب کے لیے قسری کو جاذبہ سے پیدا ہوئی اگرچہ نافرہ طبعی ہو۔ فافھم۔
(۳۴) ارب ہ بیضی مدار زمین ہے ا ر ، رب ، ب ، ہ، ہ ا چاروں نطاق (عہ۱) ہیں اب قطر اطول ہے اس کے دونوں کناروں پر مرکز  ج  سے پورا بعد ہے ہ ر قطر اقصر۔ اس کے دونوں نقطوں پرج سےبعد اقرب ح ، ء دونوں فوکز یعنی محترق ہیں جن کے اسفل پر شمس مستقر ہے ا نقطہ ء اوج شمس سے غایت بعد پر ہے اور ب حضیض غایت قرب پر زمین
 
 
 
 ا پر مرکز و شمس دونوں سے نہایت دوری پر ہوتی ہے یہاں سے چلتے ہی ا ر نطاق اول میں دونوں سے قریب ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ ر پر مرکز سے غایت قرب میں ہوتی ہے رب نطاق دوم میں مرکز سے دور ہونا شروع کرتی ہے لیکن شمس سے اب بھی قرب ہی بڑھاتی ہے یہاں تک کہ ب حضیض مرکز سے دوبارہ غایت بعد پر ہوجاتی ہے اور شمس سے نہایت قرب پر آتی ہے اس نصف حضیضی ارب میں شمس سے قرب ہی بڑھتا اور چال بھی برابر متزاید رہتی ہے تیزی کی انتہا نقطہ ب پر ہوتی ہے پھر انہیں قدموں پر سست ہوتی جاتی ہے ب ہ نطاق سوم میں زمین مرکز سے قریب اور شمس سے دور ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ ہ  پر دوبارہ مرکز سے کمال قُرب پر آجاتی ہے ہ نطاق چہارم میں مرکز و شمس دونوں سے دور ہوتی جاتی ہے یہاں تک  کہ ا پر دونوں سے کمال بُعد پاتی ہے اس نصف اوجی ب ہ ا میں شمس سے بعد ہی بڑھتا اور چال برابر متناقص رہتی ہے سستی کی انتہا نقطہ ا پر ہوتی ہے پھر وہی دورہ شروع ہوتا ہے یہ سب مسائل عام کتب میں ہیں اور خود مشہور اور قرب و بعد شمس و مرکز کی حالت ملاحظہ شکل ہی سے مشہود، اور ہمارے نزدیک بھی قطروں کے خلاف اور مرکز سے قُرب و بعد کے سوا اصل کروی میں ناممکن یہ سب باتیں یوں ہی ہیں جب کہ مدار شمس لو اور نقطہ ء  پر مرکز زمین اور اگر مدار بیضی مان لیں تو یہ رسالہ بیان متفق علیہ ہے صرف شمس کی جگہ زمین اور زمین کی جگہ شمس کہا جائے ۔
 
عہ۱: قر ب وبعد مرکز کے سبب یہاں نطاق لیے ہمارے نزدیک خط ہ ر منتصف مابین المرکزین پر لیتےہیں کہ یہاں بعد اوسط ہے یا مرکز عالم پرکہ یہاں سیر اوسط ہے۔۱۲ منہ غفرلہ
 
(۳۵) چال میں تیزی و سستی کا اختلاف دوسرے ( عہ۱ ) مرکز کے لحاظ سے ہے واقع ( عہ۲ ) میں اس کی چال نہ کبھی تیز ہوتی ہے نہ سست ہمیشہ یکساں رہتی ہے اور مساوی وقتوں میں مساوی قوسین قطع کرتی ہے۔ قواعد کپلر
 
 (عہ۳ ) سے دوسرا قاعدہ یہی ہے۔
عہ۱: ۔ ح ص ۹۷۔تا ص ۹۸۔۱۲   عہ۲: ۲؎۔ ص ۱۶۸۔۱۲   عہ۳: ۔ ص ۱۷۰۔۱۲
 
اقول: یہ بھی مجمع علیہ ہے لہذا طویل الذیل برہان ہندسی کی حاجت نہیں۔ 
مبتدی کے لیے ہمارے طور پر اس کا تصور اس تصویر سے ظاہر ،
 
 
 
ا  ح ر ط، ، ط ر، رح، ح ا ، خارج المرکز یعنی مدار شمس کے چار مربع مساوی ہیں جن کو وہ برابر مدت میں قطع کرتا ہے لیکن ان کے مقابل دائرۃ البروج کی مختلف قوسین ہیں جب شمس ، ا سے ط ، پر آیا مرکز عالم ، ہ، سے اس پر خط ، ہ ب ، گزرا تو اس مدت میں اس پر قوس ، ا ب ، قطع کی جو ربع سے بہت یعنی بقدر ، ب ک ، چھوٹی ہے جب ط سے ر تک آیا اس ربع کے مقابل دائرۃ البروج کی قوس ، ب ل، ہوئی جو ربع سے بہت بڑی ہے یونہی دو ربع باقی ہیں تو باآنکہ شمس واقع میں ہمیشہ ایک ہی چال پر ہے دائرۃ البروج کے اعتبار سے اس کی چال تیز وسست ہوتی ہے ، ط ر ح ، کی ششماہی میں ، ب ل ح ، قطع کرتا ہے کہ نصف سے بہت زائد ہے اور ، ح ا ط ، کی ششماہی میں ، ح ا ب ، چلتا ہے کہ نصف سے بہت کم ہے لہذا تیز و سست نظر آتا ہے حالانکہ واقع میں اس کی چال ہمیشہ یکساں ہے یہی حال ہیأت جدیدہ کے نزدیک زمین کا ہے۔ الحمدﷲ مقدمہ ختم ہوا ۔ وصلی اللہ تعالیٰ علی سیّدنا محمد وآلہ ابدا۔
فصل اوّل
نافرّیت کا رَدّ اور اس سے بُطلانِ حرکت زمین پر بارہ دلیلیں۔
 
رَدِّ اوّل : اقول: ابتداء اتنا ہی بس کہ نافریت بے دلیل ہے اور دعویٰ بے دلیل باطل و علیل اور پتھر کی مثال کا حال نمبر۴۔ میں گزرا وہی اس کے حال کی کافی مثال ہے۔
 رَدِّ دوم : اقول:  مرکز دائرہ سے محیط کے نقطہ پر خط قاطع اب کھینچو اور ، ہ ب ، کے دونوں طرف اس کے مساوی چھ خط جن میں ، ح ہ ، ء ہ ،مماس ہوں اور ، ر ہ ح ہ ط، ہ ی ہ ،ان دونوں قائموں کی برابر تقسیم کرنے والے، اور سب کو ، ا، سے ملادو۔ ظاہر ہے کہ ان میں ہر خط اپنے نظیر کے مساوی ہوگا اور ، ا ح سے ا ر، ار سے اح ، ا ح سے ا ب ، بڑا ہوگا۔ یوں ہی ، ای سے اط ، اط سے اب ، اس لیے کہ مثلثات ، ا ہ ح، ا ہ ر اہ ح ، میں مشترک ۔ اور ، ہ ح ، ہ رہ ، ہ ح ، برابر ہیں۔ اور ہ پر کا زاویہ بڑھتا گیا ہے کہ ہر پہلا دوسرے کا جز ہے لاجرم ، ا ح ، ار ،اح،  قاعدے بڑھتے جائیں گے(اقلیدس مقالہ شکل ۲۴) رہا ، ا ب، ح ب ، ملادیا تو مثلث متساوی الساقین ح ہ ب کے دونوں زاویہ ح ب مساوی ہوئے اور ظاہر ہے کہ مثلث ا ح ب میں زاویہ ح جس کا وتر اب ہے زاویہ ہ  ح  ب سے بڑا ہے۔ تو  ا ح کہ چھوٹے زاویہ کا وتر ہے اب سے چھوٹا ہے ۔(شکل ۱۹) غرض ان میں سب سے زیادہ مرکز سے دوری ب کو ہے باقی جتنا مماس کی طرف آؤ مرکز سے قرب ہے کہ اب زمین نقطہ ہ پر تھی اور نافریت کے سبب اس نے مرکز سے دور ہونا چاہا واجب ہے کہ خط ہ ب پر ہٹے کہ اسی طرح مرکز سے بعد محض ہے اور سب بعد اضافی ہیں کہ ایک وجہ سے بعد ہیں تو دوسری وجہ سے قرب ہیں بعد محض چھوڑ کر ان میں سے کسی کو کیوں لیا یہ ترجیح مرجوح  ہوئی پھر اس میں جس خط پر جائے دوسری طرف اس کا مساوی موجود ہے ادھر کیوں نہ گئی ترجیح بلا مرجح ہے اور دونوں باطل ہیں زمین کوئی جاندار ذی عقل نہیں جسے ہر گونہ ارادے کا اختیار ہے اور جب ہ ب پر جائے گی دورہ محال ہوگا۔ اگر نافریت غالب آئے گی ب سے قریب ہوجائے گی اور جاذبیت تو اسے اور برابر رہیں تو ہ پر رہے گی کسی طرف نہ ہوجائے گی بہرحال دورہ نہ کرے گی۔
 
 
 
 رَدِّ سوم : اقول ، نہیں نہیں بلکہ واجب ہے کہ ہ ہی پر رہے کہ تمہارے نزدیک نافریت و جاذبیت برابر ہیں (نمبر۶) اور دائرہ پر حرکت میں اختلاف سرعت سے جذب و نفرت باہم کم و بیش ہوں تو ابتدائے آفرینش میں جب کہ زمین پہلے نقطہ ہ پر ہے کہاں دائرہ اور کہاں حرکت اور کہاں اختلاف سرعت، لاجرم اس وقت دونوں کانٹے کی تول برابر ہیں تو واجب کہ زمین جہاں اول پیدائش میں بنی تھی اب تک وہی ٹھہری ہوئی ہے اور وہیں ٹھہری رہے گی تو تمہاری نافریت وجاذبیت ہی نے زمین کا سکون مبرہن کردیا ۔ ﷲ الحمد
 رَدّ چہارم : اقول: معلوم ہولیا نافریت نہ ہے نہ اس کا مقتضی ہر گز خطِ مماس پر لے جانا اور بے اس کے زمین کی حرکت دور یہ گرد شمس منظم نہیں ہوسکتی تو ضرور کوئی واقعہ ناقلہ درکار ہے کہ اسے ہر وقت خطِ مماس پر واقع کرے اور شمس اپنی طرف کھینچے دونوں کا اوسط دائرے پر گردش نکلے ایک دفعہ کا دفعہ کافی نہیں زمین میں کیل گاڑ کر اس میں ڈورا اور ڈورے میں گیند باندھو اور ایک بار اسے مارو ڈورا تن جائے گا۔ گیند ایک ہی ضرب سے کیل کے گرد دورہ نہ کرے گی تو ہر وقت دفع و نقل کی حاجت ہے یہ شمس کا اثر ہو نہیں سکتا کہ وہ تو اس کے خلاف جذب چاہ رہا ہے تو ضرور کوئی اور سیّارہ چاہیے جو زمین کو مماس پر جذب کرے اور ہر وقت زمین کے ساتھ پھرے نہ نقل کا کام دے وہ سیارہ کہاں ہے اور بفرض ہو تو اسے کس نے گردش دی اس کے لیے اور سیارہ درکار ہوگا اور اسی طرح غیر متناہی سلسلہ چلا جائے گا اور تسلسل محال، لاجرم زمین کی گردش محض باطل خیال۔
 رَدِّ پنجم: اقول: دو مساویوں میں ایک کا اختیار کرنا عقل و ارادہ کا کام ہے، نہ طبیعت غیر شاعرہ کا ، ظاہر ہے کہ نقطہ ہ سے ح اور ء  دونوں طرف قائمہ اور یکساں حالت ہے اور ظاہر ہے کہ زمین صاحبِ شعور و ارادہ نہیں، اب اگر بفرض باطل زمین میں نافریت ہے اور بفرض باطل نافریت مماس پر پھینکتی یعنی جاذبیت پر قائمہ بناتی ہے، مگر نافریت کا اس طرف کے مماس سے کوئی رشتہ ہے جس سے زمین کواکب سرطان ، جوزا، ثور میں جاتی تو ایک طرف کولینا دوسری کو چھوڑنا کس بنا پر ہوا۔ یہ ترجیح بلا مرجح ہے اور وہ باطل اور بالفرض ایک بار جزا فاً ایک سمت لی ہمیشہ اس کا التزام کس لیے، کیوں نہیں ہوتا کہ ایک بار نقطہ اوج پر آکر پھر انہیں قدموں پیچھے پلٹ جائے کہ جاذبیت و نافریت کے اقتضاء یوں بھی بحال ہیں، بالجملہ یہ حرکت کسی طرح نافریت ( عہ۱ ) کے ماتھے نہیں جاسکتی۔
 
عہ۱:  اگر کہیے ارادہ الہیہ نے ایک سمت معین کردی اگرچہ اس کہنے کی تم سے امید نہیں کہ طبیعات والے اسے بالکل بھولے بیٹھے ہیں، ہر بات میں طبیعت و مادہ کے بندے ہیں، یوں کہے تو جاذبیت و نافریت کا سارا گورکھ دھندہ اٹھا رکھئے ارادہ الہیہ خود سب کچھ کرسکتا ہے اور جب رجوع الی اﷲ کی ٹھہری تو ہیات جدیدہ کا تھل بیڑہ  نہ لگا رہے گا اس کا ارادہ وہ جانے یا تم کتب الہیہ آسمانوں کا وجود بتائیں گی اور آفتاب کی حرکت جیسا کہ بعونہ تعالی خاتمہ میں آتا ہے اس پر ایمان لانا ہوگا ۱۲ منہ غفرلہ۔
 
رَدِّ ششم :  یہ سب محض ہے دلیل ٹھان لیجئے تو نافریت قائمہ ہی پر تو لے جائے گی۔ (نمبر۵) حادہ پر لانا تو اور مرکز سے قریب کرنا ہے تو نفرت نہ ہوئی بلکہ رغبت لیکن ہیات جدیدہ مدار زمین دائرہ نہیں مانتی بلکہ بیضی اور اس میں طرفین قطر کے سوا باقی سب زاویے حادے بنیں گے جس کا خود ان کو اعتراف ( عہ۲) ہے، تونافریت باطل اور رغبت حاصل ،
 
عہ۲:  ط ص ۵۹ ۔۱۲
 
فائدہ : اس دلیل کو چاہے ابطال نافریت و ابطال حرکت زمین پر کرلو چاہے ابطال بیضیت مدار پر، اول تو یوں ہیں جو ابھی مذکور ہوا کہ نافریت ہوتی تو مدار بیضی نہ ہوتا۔، لیکن وہ بیضی ہے اور نافریت باطل تو حرکت زمین باطل اور آخر یوں ہوا کہ مدار اگر بیضی ہوتا تو نافریت نہ ہوتی تو دورہ نہ ہوتا اور دورہ نہ ہوتا تو مدار نہ ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ مدار اگر بیضی ہوتا تو مدار نہ ہوتا، شے خود اپنے نفس کی مبطل ، لہذا بیضیت باطل اب ہیأت جدیدہ کو اختیار ہے جس کا بطلان چاہے قبول کرے مگر یاد رہے کہ بیضیت وہ چیز ہے کہ شروع ( عہ۳ ) سترھویں صدی عیسوی میں کپلر نے آٹھ سال رصدبندی کی جانکاہ محنت کی اور مدار کو دائرہ مان کر ۱۹ طریقے فنا کیے کوئی نہ بنا اس کے بعد مدار بیضی لیا اور سب حساب بن گیا اور اسی پر قواعد کپلر کی بنا ہوئی جس بیضیت اور قواعد کپلر پر تمام یورپ کا ایمان ہے اسے باطل مان لینا سہل نہ ہوگا۔ لہذا راہ یہی ہے کہ حرکت زمین سے ہاتھ اٹھائیں کہ ان تمام خرخشوں سے نجات پائیں۔
 
  عہ۳: ص ۱۷۰۔۱۲
رَدِّ ہفتم : اقول:  ظاہر ہے کہ نفرت جذب سے ہے اور جذب جمیع جہات شمس سے یکساں اور جتنا جذب اتنی ہی نفرت (۷) تو واجب کہ ہر طرف نافریت یکساں ہو اور جتنی نافریت اتنا ہی بعد، تو لازم کہ سب طرف شمس سے بعد یکسا ں ہو آفتاب عین مرکز مدار ہو لیکن وہ مرکز سے ۳۱ لاکھ میل فاصلہ پر فوکز اسفل میں ہے تو نافریت باطل کہ وہ ایسی چیز چاہتی ہے جو امرِ واقع و ثابت کے خلاف ہے
فائدہ : اسی دلیل سے بیضیت رَد ہوسکتی ہے کہ جب ہر طرف بعد برابر تو ضرور مدار دائرہ تامہ ہوگا نہ بیضی لیکن وہ بیضیت سے انکار کرسکتے ہیں نہ کوئی عاقل شمس کو عین مرکز پر مان سکتا ہے کہ مشاہدہ ہر سال سے باطل ہے لاجرم نافریت و حرکت زمین کو رخصت کرنا لازم ہے۔
 
رَدِّ ہشتم : اقول : نافریت جاذبیت سے دست و گریبان ہو کر کوئی مدار بنا ہی نہیں سکتی، نمبر ۳۴ میں سن چکے کہ زمین کو نصف حضیضی میں قُرب زیادہ ہوتا جاتا ہے۔ اور نصف اوجی میں بعد اور نطاق اوّل و سوم میں مرکز سے قرب بڑھتا جاتا ہے اور دوم و چہارم میں بعد۔ یہ مسائل مسلمہ ہیں جن میں کسی کو مجال سخن نہیں لیکن نافریت و جاذبیت کا تجاذب ہر گز یہ کھیل نہ بنا رکھے گا۔
 
 
 
 ا طؔ ، کوئی سا قطرفرض کرلیجئے اور  اؔ، اس کا کوئی ساکنارہ اور  طؔ  مرکز خواہ شمس کی جاذبیت نے زمین کو  اؔ سے  طؔ اور نافریت نے  بؔ کی طرف قائمہ پر پھینکنا چاہا اور تعاول قوتین نے کہ جاذبیت اور نافریت کو مساوی مانا ہے (نمبر۶) اسے کسی طرف نہ جانے دیا بلکہ زاویہ  اؔ کی تصنیف کرتا ہوا خط  ا ح  پر  حؔ  تک لایا۔ اب  اؔ سے زمین کا بعد  ط حؔ ہوا زاویہ  ا طؔ ایک عاشرہ یا اس سے بھی خفیف تر کوئی حصہ مانیے تاکہ وہ لہر دار متفرق مستقیم خطوط جن کو چھوٹے چھوٹے مستطیلوں کے قطر کہا جو ہر جزء حرکت پر جذب و نفرت سے بچ کر بیچ میں پڑتے اور ایک لہر دار منحنی کثیر الزوایا شکل بناتے ہیں غایت صغر کے سبب ان کے زاویے اصلاً کسی آلے سے بھی قابل احساس نہ رہیں اور ایک منتظم گولائی لیے ہوئے شبیہ بہ دائرہ یا بیضی پیدا ہو مثلث ا ط جؔ  میں  اؔ نصف قائمہ ہوگا۔ اور  ط وہ خفیف کا لعدم زاویہ اور ح مفرجہ کہ ۱۳۵ درجے سے صرف بقدر ط چھوٹا ہے لا جرم ط ح کہ حادہ کا وتر ہے۔ اط  سے چھوٹا ہوگا یعنی ط سے زمین کا بعد کم ہوا۔  ا ب حؔ پر وہی کشمکش ہے جاذبیت ا سے ط کی طرف کھنچتی ہے اور نافریت ۳ کی طرف قائمہ پر پھینکتی اور تعاول قوتیں دونوں سے بچا کر ط ح ء قائمہ کے منصف ح ہ پر ہ تک لانا اور پھر ر اور  ح ط ہ اتنا ہی خفیف بنتا اور ط ہ وتر حادہ ط ح و تر منفرجہ سے چھوٹا ہوتا ہے یعنی ط سے اور قریب ہوئی، یونہی ہ پر وہی معاملہ پیش آئے گا اور ط ح ، ط حؔ سے چھوٹا ہوگا ہمیشہ یہی حالت رہے گی، تو زمین کو طؔ سے ہر وقت قُرب ہی بڑھے گا تو اس کا کوئی مدار بنانا اصلاً ممکن نہیں دائرہ ہو تو وہ ہر طرف بعد برابر چاہے گا اور یہاں ہر وقت مختلف ہے اور بیفی اہلیلجی، شلجمی کوئی شکل ہو تو ایک قطر اطول ایک اقصر رہے جس میں دو نطاق مرکز سے قریب کریں گے تو دو بعید ایک نصف شمس سے قریب کرے گا تو دوسرا بعید، حالانکہ یہاں ہرو قت قرُب ہی بڑھ رہا ہے تو زمین اگر گرد شمس گھومی تو شکل یہ بنائے گی۔ @ جس میں ہر وقت شمس سے قریب ہوتی جائے گی یہاں تک کہ اس سے مل جائے نہ کہ کسی مدار واحد پر دائرہ ہو۔
 
رَدِّ نہم : اقول: بالفرض جاذبہ و نافرہ کو مساوی ماننے سے استعفا بھی دو اور ط ا حؔ کو نصف قائمہ سے بڑا مانو تو ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ وہیں تک بڑھ سکتا ہے کہ زاویہ ط  سے مل کر ایک قائمہ کم رہے یعنی لازم کہ ا ح طؔ منفرجہ آئے کہ اگر قائمہ ہو تو ی ا ح بھی ط کے برابر ہوگا۔ کہ دونوں ط ا حؔ کے تمام تاقائمہ ہیں تو نافریت کا حصہ ایک عاشرہ کم پورا قائمہ رہا اور جاذبیت کا حصہ ایک ہی عاشرہ جو اس کے سامنے عدم محض ہے اور اگر حادہ ہو تو اور بھی صغیر و حقیر رہے گا۔
 
 
 
فرض کر اءؔ قائمہ کا خط ہے یعنی جس نے ا  سے نکل کر ط بؔ پر قائمہ بنایا تو حادے کا خط اس سے نیچا مثل ا حؔ نہیں گر سکتا ورنہ مثلث ا ء حؔ قائمہ و منفرجہ جمع ہوجائیں نہ ا ءؔ پر آسکتا ہے ورنہ قائمہ و حادہ برابر ہوجائیں۔ لاجرم اس سے اوپر پڑے گا۔ خواہ ا ر کی طرف ر ط ، ا ط  قطع کرے کہ یہ حادہ اؔ کے مساوی ہو یا ا ہؔ کی طرح اط  سے چھوٹا کہ یہ حادہ ا سے بڑا ہو یا احؔ کی طرح اس سے بڑا کہ یہ حادہ ا سے چھوٹا ہو بہرحال جب خط ا ءؔ سے اوپر پڑا تو زاویہ زاویہ ب ا ءؔ ایک عاشرہ پورا ہی ہو تو قائمہ میں ۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۵۴۴۱۹۵۵۸۴۰۰ عاشرے ہوتے ہیں۔ حاصل یہ کہ نافریت کہ بؔ کی طرف لے جاتی تھی اسے پانچ مہاسنکھ چوالیس سنکھ انیس پدم پچپن نیل تراسی کھرب ننانوے ارب ننانوے کروڑ ننانوے لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے حصے کھینچ لے گئی اور بیچاری جاذبیت کہ ط  کی طرف لاتی تھی صرف ایک حصہ کھینچ سکی یہ نہ معقول ہے نہ اس کی کوئی وجہ نہ کوئی اتنا فرق مانتا ہے نہ مان سکتا ہے۔ جانتے ہو کہ ایک عاشرے کی قوس کتنی ہے مدار شمس یا تمہارے طور مدار زمین میں جس کا قطر اوسطاً اٹھارہ کروڑ اٹھاون لاکھ میل ہے ایک بال کی نوک کا لاکھواں حصہ بھی نہیں محیط ۳۶۰ درجے ہے درجہ ۶۰ دقیقہ اور ہم نے حساب کیا اس مدار کا ایک دقیقہ ستائیس ہزار تئیس میل ۵ء ہے اور ہر میل ۱۷۶۰ گز ۴۸  انگل ،  ہر انگل چھ جوہر جو دم اسپ ترکی کے چھ بال ، تو ایک درجے میں صرف ۴۹۳۱۶۱۸۰۴۸۰۰ بال ہوئے کہ پچاس کھرب بھی نہیں، اور ایک درجے میں عاشرے ۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۶۰۴۶۶۱۷۶۰ ہوتے ہیں کہ چھ سنکھ سے بھی زائد ہیں اس پر تقسیم کیے گئے تھے ۸ حاصل ہوا یعنی اس مدار عظیم کا عاشرہ ایک بال کی نوک سو الاکھ حصوں سے ایک حصہ ہے کیا جاذبیت اتنا ہی کھینچ سکی باقی سارا ماثر نافریت لے گئی، لاجرم واجب کہ ج ہ ح سب منفرجے آئیں اور بعد ہمیشہ گھٹتا جائے گا بلکہ انصافاً ، اؔ، نصف قائمے سے فرق کرے گا بھی تو قلیل اور ح وغیرہ ۱۳۵ درجے سے کچھ ہی کم ہوں گے اور قرب بین فرق سے دائماً بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ زمین آفتاب سے لپٹ جائے اب مدار بنانے کی خبریں کہئے۔
 
ردِ دہم : اقول : اینہم برعلم تو یہاں بعد لی کمی بیشی ایک ہی چیز تو نہیں بلکہ مرکز سے نطاق اوّل کم ہوتا گیا۔ دوم میں زیادہ سوم میں پھر کم چہارم میں پھر زیادہ ، اور شمس سے نصف حضیضی میں کم ہوتا گیا نصف اوجی میں زیادہ (نمبر۳۴) کیا وجہ ہے کہ نافریت یہ مختلف ثمر ے لاتی ہے وہ قوت شاعرہ نہیں کہ تم سے مشورے لے کہ جس نطاق میں جیسا تم کہو ویسا مختلف کام کرے او راپنے اثر بدلتی رہے۔ اگر کہئے کہ نطاق اول وسوم میں نافریت ضعیف ہوتی جاتی ہے اس کا اثر کہ بعید کرنا تھا گھٹتا جاتا ہے۔ نطاق دوم و چہارم میں قوی ہوتی جاتی ہے اس کا عمل بڑھتا جاتا ہے۔
اقول : یہ محض ہوس ہے۔ اولاً اس کے اس اختلاف قوت و ضعف کا کیا سبب ہے۔
ثانیاً کیوں انہیں نطاقوں پر اس کا تعین منتظم مرتب ہے۔
ثالثاً نطاق دوم میں مرکز سے بعد بڑھتا ہے شمس سے قرب کیا وہی نافریت مرکز کے حق میں قوی ہوتی اور شمس کے حق میں ضعیف ہوتی جاتی ہے۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ چال برابر بڑھ رہی ہے جو تمہارے طور پر دلیل قوت نافریت ہے۔
رابعاً نطاق سوم میں مرکز سے قُرب بڑھتا ہے اور شمس سے بعد کیا وہی نافریت اب یہاں اُلٹی ہو کر مرکز کے حق میں کمزور پڑتی اور شمس کے لیے تیز ہوتی جاتی ہے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ چال برابر سُست پڑتی جاتی ہے جو دلیل ضعف نافریت ہے مگر یہ کہیے کہ نافریت ایک ذ ی شعور اور سخت احمق ہے اسے مرکز و شمس دونوں سے نفرت ہے لیکن وہ اپنی حماقت سے دشمن کے گھر میں سوتی رہتی ہے اور جب سر پر آلگتی ہے اس وقت جاگتی ہے مگر پھر بھی غالباً ایک اسی آنکھ سے جس طرف کی زد سر پر آلگی دوسری آنکھ سے اس وقت بھی سوتی رہتی ہے یوں آپ کا نظام پائے گا دیکھو شکل مذکور ۳۴ نقطہ ، اؔ، یعنی اوج پر نافریت دونوں آنکھوں سے سوتی غافل پڑی خراٹے لے رہی ہے اور اس کی دشمن جاذبیت اپنا کام کررہی ہے زمین کو چپکے چپکے مرکز و شمس دونوں سے قریب لارہی ہے سیدھا یوں نہیں کھینچتی کہ نافریت جاگ اُٹھے گی لہذا بچتی کتراتی میر بحری بجاتی لا رہی ہے یہاں تک کہ نقطہ ر یعنی ایک کنارہ قطر اقصر پر لے آئی جہاں مرکز سے غایت قرب ہے اب نافریت کی وہ آنکھ جو مرکز کی طرف ہے کھلی کہ اسی طرف سے زد آئی تھی زمین کو مرکز سے لے کر بھاگی اور دور کرنا شروع کیا مگر شمس کی طرف والی آنکھ سے اب سو رہی ہے اسے خبر نہیں کہ شمس سے دور کرتی تو مرکز سے تو قریب لارہی ہوں ، یہاں تک کہ نقطہ ہ پر دوبارہ مرکز سے غایت قرُب میں آئی البتہ اب اس کی دونوں آنکھیں کھلیں اور زمین کو دونوں سے دور لے کر بھاگی یہاں تک کہ نقطہ ا پر پہنچی کھینچ تان کی محنت بہت اٹھائی تھی سال پورا دوڑتے دوڑتے ہوگیا یہاں آکر چاروں شانے چت دونوں آنکھوں سے ایک ساتھ سوگئی اور پھر وہی دورہ شروع ہوا۔ یہ فسانہ عجائب یا بوستانِ خیال تم تسلیم کرو کہ کوئی عاقل تو بے دلیل اسے مان نہیں سکتا۔
 
 رَدِّ یا زدہم : اقول: ، یہاں سے ایک اور رد کا دروازہ کھلا ہرغیر مجنون جانتا ہے کہ نافریت کا اثر بعید کرنا ہے جیسے جاذبیت کا اثر قریب کرنا اور تم خود کہتے ہو کہ جتنی جاذبیت قوی ہوگی اتنی نافریت زور پکڑے گی کہ اس کی مقاومت کرسکے(۷) اتنی قرین قیاس ہے آگے کہتے ہیں کہ جتنی نافریت قوی ہوگی چال تیز ہوگی۔ (۷) یہ بھی قرین قیاس تھی اگر وہ چال تیز ہوتی جو بعید کرے لیکن نافریت کی بدقسمتی سے چال وہ تیز ہوتی ہے جو زمین کو شمس سے قریب کرے یعنی نصف حضیضی میں اور مرکز سے لو تو نطاق اول رد کو حاضر کہ جتنی چال تیز ہوتی ہے اتنا مرکز سے قرب بڑھتا ہے۔ یہ الٹی نافریت کیسی۔
رَدِّ دوازدہم : اقول :جانے دو کیسی بھی چال سہی نِری اوندھی مگر جاذبیت اگر کوئی شے ہو تو نصف حضیضی میں اس کی قوت ہر وقت بڑھناآنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ہر روز آفتاب قریب سے بڑھتا جاتا ہے تو اگر نافریت ہوئی واجب کہ وہ بھی واقعی بڑھتی جس طرح جاذبیت فی الواقع بڑھی نہ کہ محض برائے گفتن، اور اس کے واقعی بڑھنے کو لازم تھا کہ چال حقیقت میں تیز ہوجاتی ، لیکن تمام عقلاء کا اتفاق اور تمہیں خود مسلم ہے کہ شمس کہو یا زمین اس مدار پر دورہ کرنے والے کی چال ہمیسہ متشابہ ہے کبھی نہ سست ہوتی ہے نہ تیز، ہمیشہ مساوی وقتوں میں مساوی قوسیں قطع کرتی ہے اگرچہ دوسرے دائرے کے اعتبار سے دیکھنے والوں کو تیز و سست نظر آئے ( دیکھو نمبر۳۵) تو ثابت ہوا کہ نافریت باطل ہے کہ انتفائے لازم کو انتفائے ملزوم لازم ہے یعنی ترقی جاذبیت تو مشاہدہ ہے اگر نافریت واقع میں ہوتی تو اس وقت ضرور بڑھتی اور اس کے بڑھنے سے چال واقعی تیز ہوتی لیکن اصلاً نہ ہوئی تو نافریت تو ضرور غلط ہے تو گردش زمین باطل ہے کہ بے نافریت اس کا پہیہ ڈھلکے گا یا یوں کہئے کہ اس کی گردش دو پہیے ہیں نافریت و جاذبیت ایک کے گر جانے نے زمین کی گاڑی زمین میں گاڑی کہ ہل نہیں سکتی۔ وﷲ الحمد۔

فصل دوم
جاذبیت (عہ۱)کا رَدّ اور اس سے بُطلانِ حرکت زمین پر پچاس (۵۰)دلیلیں

عہ۱: تنبیہ : مطلقاً جاذبیت سے انکار نہیں کہ کوئی شَے کو جذب نہیں کرتی مقناطیس و کہر با کا جذب مشہور ہے بلکہ جاذبیت شمس و ارض کا رد مقصود ہے اوّل کا لذاتہ کہ اسی کی بنا پرحرکت زمین ہے اور دوم کا اس لیے کہ اسی کو دیکھ کر اس میں بلادلیل جذب مانا ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔

رَدِّ اوّل : اقول: اہل ہیأتِ جدیدہ کی ساری مہارت ریاضی و ہندسہ و ہیأت میں منہک ہے عقلیات میں ان کی بضاعت قاصر یا قریب صفر ہے وہ نہ طریق استدلال جانتے ہیں نہ داب بحث، کسی بڑے مانے ہوئے کی بے دلیل باتوں کو اصولِ موضوعہ ٹھہرا کہ ان پر بے سرو پا تفریعات کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر وثوق وہ کہ گویا آنکھوں سے دیکھی ہیں بلکہ مشاہدہ میں غلطی پڑسکتی ہے ان میں نہیں ان کے خلاف دلائل قاہرہ ہوں تو سننا نہیں چاہتے ، سنیں تو سمجھنا نہیں چاہتے سمجھیں تو ماننا نہیں چاہتے۔ دل میں مان بھی جائیں تو اس لکیر سے پھرنانہیں چاہتے۔ جاذبیت ان کے لیے ایسے ہی مسائل سے ہے اور وہ اس درجہ اہم ہے کہ ان کا تمام نظام شمسی سارا علم ہیأت اسی پر مبنی ہے۔ وہ باطل ہو تو سب کچھ باطل، وہ لڑکوں کے کھیل کے برابر برابر کھڑی ہوئی اینٹیں ہیں کہ اگر گراؤ سب گرجائیں۔ ایسی چیز کا روشن قاطع دلیل پر مبنی ہونا تھا نہ کہ محض خیال نیوٹن پر ، ایک سیب ٹوٹ کر گرتا ہے اس سے یہ اٹکل دوڑاتا ہے کہ زمین میں کشش ہے جس نے کھینچ کر گرالیا مگر اس پر دلیل کیا ہے جواب ندارد۔
اولاً عقلائے عالم اثقال میں میل سفل مانتے ہیں کیا وہ میل اس کے گرانے کو کافی نہ تھا یا میل نجانا یوں نہ سمجھ سکتا تھا کہ ثقیل کے استقرار کو وہ محل چاہیے جو اس کا بوجھ سہارے سیب وہی ٹوٹے گا۔ جس کا علاقہ شاخ سے ضعیف ہوجائے وہ کمزور تعلق اب اس کا بوجھ نہ سہار سکے ورنہ سبھی نہ ایک ساتھ ٹوٹ جائیں، ادھر تو ضعیف علاقہ کے سبب شاخ سے چھوٹا ادھراس سے نرم تر ملاء ہوا کا ملاء اسے کیا سہارتی لہذا اس سے کثیف تر ملاء درکار ہوا کہ زمین ہو یا پانی کیا اتنی سمجھ نہ تھی یا بطلان میل پر کوئی قطعی دلیل قائم کرلی اور جب کچھ نہیں تو جاذبیت کا خیال محض ایک احتمال ہوا محتمل مشکوک بے ثبوت بات پر علوم کی بنا رکھنا کارِ خردمنداں نیست

( عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔ ت)

ثانیاً لطف یہ کہ یہی ہیأت جدیدہ والے جا بجا ( عہ۱) ثقیل میں میل سفل مانتے خفیف میں میل علو لکھ جاتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ میل جاذبیت کا سارا میل کاٹ دے گا جب ثقیل اپنے میل سے گرتا سیب کا ٹوٹنا جاذبیت پر کہاں دلالت کرتا ہے یہ یقین و احتمال و طریق استدلال و منصب مدعی و سوال سے ان کی ناواقفی ہے معلول کےلیے علت درکار ہے جب ایک کافی ووافی علت موجود اور تمہیں بھی مسلم ہے تو اسے چھوڑ کر دوسری بے ثبوت کی طرف اسے منسوب کرنا کون سی عقل ہے۔ بالفرض اگر علت کافیہ معلوم نہ ہوتی بلادلیل کسی شیئ کو علت بتادینا مردود ہوتا ہے وہاں یہ کہنا تھا کہ علت ہمیں معلوم نہ ہوتی بلا دلیل کسی شیئ کو علت بتادینا مردو دہوتا ہے وہاں یہ کہنا تھا کہ علت ہمیں معلوم نہیں، نہ یہ کہ کافی علت موجود و مسلم ہوتے ہوئے اس سے فرار اور دوسری بے دلیل قرار جاذبیت کے رد کو ایک یہی بس ہے یہاں سے ظاہر ہوا جاذبیت پر ایمان بالغیب انہیں مجبورانہ میل طبعی کے انکار پر لانا ہے اگرچہ وہ نادانی سے کہیں مقر ہوں اگرچہ وہ بے دلیل منکر ہو (عہ۲۔ ۱۱) اور میل طبعی کا ثبوت بلکہ احتمال ہی جاذبیت کو باطل کرتا ہے کہ جب میل ہے جاذبیت کی کیا حاجت اور اس کے وجود پر کیا دلیل، یہ تقریر بعض دلائل آئندہ میں ملحوظ خاطر رہے۔

عہ۱: ح ص ۳۴ ثقل ہمیشہ اجسام کو جانب اسفل کھینچتا ہے۔ ص۳۷ اجسام کو جانب پائیں مائل کرتا ہے ۔ص ۳۹ اجسام بقدر ثقیل مطلق سے قرب کے طالب پانی ہمیشہ بالطبع بلندی سے پستی کی طرف میل کرتا ہی ۔ ص ۲۱۲ بخار جتنا ہلکا ہوگا۔ زیادہ بلند ہوگا۔ ص ۲۱۷ بخار ہوا سے زیادہ لطیف و خفیف لہذا میل علو کرتا ہے۔
عہ۲: ص ۲۱۷ حرارت آفتاب کے سبب اجزائے آب ہلکے ہو کر قصد بالا کرتے ہیں یونہی زمین کے جلے ہوئے اجزاء حرارت وقفت کے باعث۔ ص ۲۱۵ ابربحسب ثقل یا لطافت نیچے یا اوپر حرکت کرتا ہے۔ ط ص ۱۱۵ منجمد اجسام کے تمام اجزاء مل کر زمین کی طرف میل کرتے ہیں اور سیال اجسام کا ہر جز جدا میل زمین کرتا ہے ص ۱۴۱ ۔ص ۲۱۷ ہوا گرمی سے ہلکی ہو کر بالا سعود کرتی ہے یونہی جغ ص ۹ میں ہے ۱۲ منہ غفرلہ۔

رَدِّ دوم : اقول: فرض کردم کہ سیب گرنے سے زمین پر جاذبیت کا آسیب آیا مگر اس سے شمس میں جاذبیت کیسے سمجھی گئی جس کے سبب گردش کا طومار باندھ دیا گیا اس پر بھی کوئی سیب گرتے دیکھا۔ یا یہ ضرور ہے کہ جو کچھ زمین کے لیے ثابت ہو آفتاب میں بھی ہو۔ زمین بے نور ہے آفتاب سے منور ہوتی ہے۔ آفتاب بھی بے نور ہوگا کسی اور سے روشن ہوگا۔ یونہی یہ قیاس اس ثالث کو نہ چھوڑے گا اس کے لیے رابع درکار ہوگا۔ اور اسی طرح غیر متناہی چلا جائے گا یا واپس آئے گا۔ مثلاً شمس ثالث سے روشن اور ثالث شمس سے وہ تسلسل تھا یہ دور ہے اور دونوں محال یہ منطق الطیر اسی بے بضاعتی کا نتیجہ ہے جو ان لوگوں کو علوم عقلیہ میں ہے، ورنہ ہر عاقل جانتا ہے کہ شاہد پر غالب کا قیاس محض وہم اور وسواسی ہے۔

رَدِّ سوم: اقول: تم جاذبیت کے لیے نافریت لازم مانتے ہو کہ وہ ہو اور (عہ۱) یہ نہ ہو تو کھینچ کر وصل ہوجائے اور ہم نافریت باطل کرچکے تو جاذبیت خود ہی باطل ہوگئی کہ بطلان لازم بطلان ملزوم ہے۔

عہ۱: ۱۸۱ ۔۱۲۔

رَدِّ چہارم: اقول: جاذبیت کے بطلان پر پہلاشاہد عدل آفتاب ہے اس کے مدار میں جسے وہ مدار زمین سمجھتے ہیں ایک نقطہ مرکز زمین سے غایت بعد پر ہے جسے ہم اوج کہتے ہیں اور دوسرا نہایت قرب پر جسے حضیض ان کا مشاہدہ ہر سال ہوتا ہے تقریباً سوم جولائی کو آفتاب زمین سے اپنے کمال بعُد پر ہوتا ہے اور سوم جنوری کو نہایت قرب پر یہ تفاوت اکتیس لاکھ میل سے زائد ہے تفتیش جدیدہ میں شمس کا بعد اوسط نوکروڑ انتیس لاکھ میل بتایا گیا اور ہم نے حساب کیا مابین المرکزین دو درجے ۴۵ ثانیے یعنی ۵۲۱۲ء ۲ ہے تو بعد ابعد ۹۴۴۵۸۰۲۶ میل ہوا اور بعد اقرب ۹۱۳۴۱۹۷۴ میل تفاوت ۳۱۱۶۰۵۲ میل اگر زمین آفتاب کے گرد اپنے مدار بیضی پر گھومتی ہے جس کے فوکز اسفل میں شمس ہے جیسا کہ ہیأت جدیدہ کا زعم ہے تو اول ان کی سمجھ کے لائق یہی سوال ہے کہ زمین اتنے قوی عظیم شدیدہ ممتدید ہزار ہا سال کے متواتر جذب سے کھینچ کیوں نہ گئی۔ہیأت (عہ۲) جدیدہ میں آفتاب ۱۲ لاکھ ۳۵ ہزار ۱۳۰ زمینوں کے برابر اور بعض (عہ۳ ) نے دس ۱۰ لاکھ بعض ( عہ۴ ) نے چودہ لاکھ دس ہزار لکھا اور ہم نے مقررات (عہ۵ ) جدیدہ پر بربنائے اصل کروی حساب کیا تو تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپن زمینوں کے برابر آیا۔

عہ۲: ص ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قلمی نسخہ میں پھٹا ہے (پھر) ۱۳۰ ہی کہا، ۱۲۵۹۷۔ ص ۲۶۶ غائب، ۳۶۱ء۱۳۴۵۱۲۶ یہ اس کی عادت ہے۔کہ ہر جگہ مختلف کہے ۱۲ منہ۔
عہ۳: سوالنامہ ہیأت ص ۱۸۔۱۲ ۔ عہ۴: نظارہ عالم ص ۷۔۱۲
عہ۵: وہ مقررات تازہ یہ ہیں قطر مدار شمس ۱۸ کروڑ ۵۸ لاکھ میل قطر معدل زمین ۰۸۶ء ۷۹۱۳ میل قطر اوسط شمس دقائق محیطیہ سے ۳۲ دقیقے ۴ ثانیے پس اس قاعدے پر کہ ہم نے ایجاداوراپنے فتاوٰی میں جلد اول رسالہ الھنئی المنیر فی الماء المستدیر میں ایراد کیا۔ ۶۹۰۴۵۷ء لوامیال قطر مدار + ۴۹۷۱۴۹۹ء۔ ۸۷۷۶۶۱۹۵۶ لو امیال محیط اC=۳۳۴۴۵۳۸ء۴ء لودقائق محیط = ۴۳۱۷۴۱۸ء۴ لودقیقہ محیطیہ ما + ۵۶۰۵۳۹ء الودقائق قطر شمس = ۹۳۷۷۹۵۷ء۵ لو امیال قطر شمس =۸۹۸۳۴۵۹ء۳ لوامیال قطرزمین = ۰۹۴۴۹۸ء۲ لو نسبت قطرین ما x۳ کہ کرہ : کرہ قطر : قطر مثلثۃ بالتکریر = ۱۱۸۳۴۹۴ء۶ لونسبت کہ تین عدد ۱۳۱۳۲۵۶ وھو المقصود یعنی محیط فلک شمس ۵۸ کروڑ ۳۷ لاکھ ۸ ہزار میل ہے۔ اور ایک دقیقہ محیطیہ ۵ء۲۷۰۲۳ میل اور قطر شمس ۳ء۸۶۶۵۵۴ میل اور وہ قطر زمین کے ۵۰۹ء۱۰۹مثل ہے اور جرم شمس تیرہ لاکھ تیرہ ہزار دو سو چھپن زمینوں کے برابر اور علم حق اس کے خالق عزوجل کو ۱۲ منہ ۔

بہرحال وہ جرم کہ اس کے ۱۲ لاکھ حصوں میں سے ایک کے بھی برابر نہیں اس کی کیا مقاومت کرسکتا ہے تو گرد دورہ کرنا نہ تھا بلکہ پہلے ہی دن کھینچ کر اس میں مل جانا کیا ۱۲ لاکھ اشخاص مل کرایک کو کھینچیں اور وہ دوری چاہے تو بارہ لاکھ سے کھنچ نہ سکے گا بلکہ ان کے گرد گھومے گا اور کامل علمی رَدیہ ہے کہ کسی قوت کا قوی پڑ کر ضعیف ہوجانا محتاجِ علت ہے اگرچہ اسی قدر کہ زوال علت قوت جب کہ نصف دورے می جاذبیت شمس غالب آکر ۳۱ لاکھ میل سے زائد زمین کو قریب کھینچ لائی تو نصف دوم میں اسے کس نے ضعیف کردیاکہ زمین پھر ۳۱ لاکھ میل سے زیادہ دور بھاگ گئی حالانکہ قرب موجب قوت اثر جذب ہے(۱۰) تو حضیض پر لاکر جاذبیت شمس کا اثر اور قوی تر ہونا اور زمین کا وقتاً فوقتاً قریب تر ہوتا جانا لازم تھا نہ کہ نہایت قرب پر آکر اس کی قوت سست پڑے اور زمین اس کے نیچے سے چھوٹ کر پھر اتنی ہی دور ہوجائے شاید جولائی سے جنوری تک آفتاب کو راتب زیادہ ملتا ہے قوت تیز ہوتی ہے اور جنوری سے جولائی تک بھوکا رہتا ہے کمزور پڑ جاتا ہے۔ دو جسم اگر برابر کے ہوتے تو یہ کہنا ایک ظاہری لگتی ہوئی بات ہوتی کہ نصف دورے میں یہ غالب رہتا ہے نصف میں وہ نہ کہ وہ جرم کہ زمین کے ۱۲ لاکھ امثال سے بڑا ہے اسے کھینچ کر ۳۱ لاکھ میل سے زیادہ قریب کرے اور عین شباب اثر جذب کے وقت سست پڑ جائے اور ادھر ایک ادھر ۱۲ لاکھ سے زائد پر غلبہ و مغلوبیت کا دورہ پورا نصف نصف انقسام پائے اس پر یہ (عہ۱ ) مہمل عذر پیش ہوتا ہے کہ نقطہ حضیض پر نافریت بہت بڑھ جاتی ہے وہ زمین کوآفتاب کے نیچے سے چھڑا کر پھر دور لے جاتی ہے۔

عہ۱: ط ص ۶۰ ، ۱۲۔

اقول: یہ ہارے کا حیلہ محض بے سروپا ہے۔ اولاً جاذبیت و نافریت کا گھٹنا بڑھنا متلازم ہے نافریت اتنی ہی بڑھے گی جتنی جاذبیت اور بہرحال مساوی رہیں گی۔ ۱۶۔۱۲۔۱۴ یہاں اگر نافریت بدرجہ غایت ہے کہ چال سب سے زیادہ تیز ہے تو جاذبیت بھی بحد کمال ہے کہ قرب شمس سب جگہ سے زائد ہے نافریت جاذبیت سے چھینے تو جب کہ اس پر غالب آئے برابر سے چھین لینا کیا معنی!
ثانیاً اگر مساوی قوت دوسری پر غالب آسکتی ہے تو یہاں خاص نافریت کیوں غالب آئی جاذبیت بھی تو مساوی تھی وہ کیوں نہ غالب ہوئی یہ ترجیح بلا مرجح ہے۔
ثالثاً اگر نافریت ہی میں کوئی ایسا طرہ ہے کہ بحال مساوات وہی غالب آئے تو اسے مساوات تو روز اول سے تھی اور نقطوں پر کیوں نہ غالب آئی اسی نقطے کی تعین کیوں ہوئی۔
رابعاً ہمیشہ اسی کا التزام کیوں ہوا۔
خامساً مساوات تو تم بگھار رہے ہو ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ نقطہ اوج سے نقطہ حضیض تک برابر جاذبیت غالب آرہی ہے۔ قوت کا غلبہ اس کے اثر سے ظاہر ہوتا ہے جاذبیت قرب کرنا چاہتی ہے اور نافریت دور پھینکنا مگر وہاں سے یہاں تک برابر شمس سے قرب ہی بڑھتا جاتا ہے نافریت اگرچہ بیچارے برابری کے درجے پر متواتر چال تیز کررہی ہے لیکن اس کی ایک نہیں چلتی اور جاذبیت ہی کا اثر علی الاتصال غالب آرہا ہے پھر کیا معنٰی کہ عین شباب غلبہ پر دفعۃً مغلوب ہوجائے ۔
سادساً نافریت اگر بڑھی ہے تو خاص نقطہ حضیض پر، یا تو اس نے زمین کو آفتاب سے بال بھر بھی نہ چھینا کہ غایت قرب پر ہے چھینے گی۔ آگے بڑھ کر اس نقطے سے چل کر شمس سے بعد بڑھتا جائے گا،مگر اس نقطے سے سرکتے ہی نافریت بھی تیزی پر رہے گی ہر آن ضعیف ہوتی جائے گی کہ قدم قدم پر چال سست ہوگی۔ عجیب کہ اپنی کمال قوت پر تو نہ چھین سکی جب ضعیف پڑی چھین لی گئی۔
سابعاً طرفہ یہ کہ جتنی ضعیف ہوتی جاتی ہے اتنی ہی زیادہ چھین رہی ہے کہ جس قدر چال سست ہوتی ہے اتنا ہی بعد بڑھتا ہے یہاں تک کہ ا پر کمال سستی کے ساتھ نہایت بعد ہے کیا عقل سلیم ان معکوس باتوں کو قبول کرسکتی ہے ہر گز نہیں عاجزی سب کچھ کراتی ہے ۔ اصول علم الہیاۃ (عہ۱) نے اس پر عذر گھڑا کہ مرکز شمس کے گرد جو دائرہ ہے اوج میں زمین کا راستہ اس دائرے کے اندر ہو کر ہے لہذا شمس کی طرف آتی ہے اور حضیض میں اس دائرے سے باہر ہے لہذا نکل جاتی ہے۔

عہ۱: ص ۱۸۱ ۱۲۔

اقول: اوّلا کون سا دائرہ یہاں ایک دائرہ معدل المسیر لیا جاتا ہے کہ مرکز شمس کے گرد نہیں مرکز بیضی کے گرد ہے اور دونوں نقطہ اوج و حضیض پر یکساں گزرا ہوا ہے اس شکل سے ، ا ہ ر ب ، مدار بیضی ہے مرکز طؔ شمس اس کے نیچے نقطہ ح  پر ا و ج ب حضیض مرکز طؔ پر بعد اطؔ یا ط بؔ سے کہ مساوی ہیں دائرہ ا ب ح ء  معدل المسیر ہے اور اگر یہ مراد کہ مرکز شمس پر اوج کی دوری سے دائرہ کھینچیں ظاہر ہے کہ زمین اوج میں اس دائرے پر آئے گی اور حضیض میں اس سے باہر ہوگی یعنی اس پر نہ ہوگی اس کے اندر ہوگی تو اس کے تعین کی کیا علت ، کیوں نہ مرکز شمس پر حضیض کی دوری سے دائرہ کھینچے کہ زمین حضیض میں اس پر ہو اور اوج میں نہ اس پر نہ اندر حقیقۃً باہر معتبر و ملحوظ دائرہ معدل المسیرہی کیوں نہیں لیا جاتا کہ دونوں میں اس  پر گزرے۔
 
 
 
ثانیاً اس دائرے پر آنے کو شمس کی طرف لائے اور اس سے جدائی کو شمس سے لے جانے میں کیا دخل ہے لانا جذب ہے اور بحسب قرب ہے تو دور سے لانا اور قریب بھگانا الٹی منطق ہے شاید نقطہ اوج میں لاسا لگا ہے کہ طائر زمین کو پھانس لاتا ہے نقطہ حضیض پر کھٹکھٹا بندھا ہے کہ بھگا دیتا ہے۔
 
ثالثاً اس دائرے ہی میں کچھ وصف ہے تو زمین صرف حلول نقطہ اوجی ہی کے وقت وہ ایک آن کے لیے اس پر ہوگی یہ آدھے سال آنا اور آدھے سال بھاگنا کیوں ، غرض یہ کہ بنائے نہیں بنتی ظاہر ہوا کہ حیلے بہانے محض اسکولی لڑکوں کو بہلانے کے لیے مغالطے ہیں جاذبیت و نافریت کے ہاتھوں ہر گز مداربن نہیں سکتا۔ بخلاف ہمارے اصول کے کہ زمین ساکن اور آفتاب اس کے گرد ایک ایسے دائرے پر متحرک جس کا مرکز مرکز عالم سے اکتیس لاکھ سولہ ہزار باون میل باہر ہے اگر مرکز متحد ہوتا زمین سے آفتاب کا بعد ہمیشہ یکساں رہتا مگر بوجہ خروج مرکز جب آفتاب نقطہ ا پر ہوگا مرکز زمین سے اس کا فصل ا ح ہوگا یعنی بقدر اب  نصف قطر مدار شمس ب حؔ مابین المرکزین اور جب نطقہ ء پر ہوگا اس کا فصل ح ءؔ ہوگا یعنی بقدر ب ءؔ نصف قطر مدار شمس مابین المرکزین دونوں فصلوں میں دو چند مابین المرکزین فرق ہوگا۔ یہ اصل کروی پر ب حؔ ہے لیکن وہ بعد اوسط پر لیا گیا ہے۔ ہ مرکز مدار شمس بؔ فوکز اعلٰی حؔ فوکز اسفل جس پر زمین ہے اس میں شمس اس مابین المرکز ین ب حؔ مابین الفو کزین جانتے ہیں اور مابین المرکزین ہ حؔ اس کا نصف کہ بعد اوسط اجؔ متصف مابین الفوکزین پر ہے۔
 
 
 
تو بعد اوسط نصف مابین الفوکزین = بعد ابعد، نصف مذکور بعد اقرب لاجرم شمس بقدر مابین الفوکزین و ضعف مابین المرکزین جدید فرق ہوگا اور یہی نقطے اس قرب و بعد کے لیے خود ہی متعین رہیں گے۔ کتنی صاف بات ہے جس میں نہ جاذبیت کا جھگڑا نہ نافریت کا بکھیڑا۔
 
 
 
رَدّ پنجم : جاذبیت کے بطلان پر دوسرا شاہد عادل قمر ہے، اصول علم الہیأۃ ص ۲۰۹ میں خود ہیأۃ جدیدہ پر ایک سوال قائم کیا جس کی توضیح یہ کہ اگرچہ زمین قمر کو قرب سے کھینچتی ہے اور آفتاب دور سے مگر جرم شمس لاکھوں درجے زمین سے بڑا ہونے کے باعث اس کی جاذبیت قمر پر زمین کی جاذیبت سے ۱۱/ ۵ ہے یعنی زمین اگر چاند کو پانچ میل کھینچتی ہے تو آفتاب گیارہ میل اور شک نہیں کہ یہ زیادت ہزاروں برس سے مستمر ہے تو کیا وجہ ہے کہ چاند زمین کو چھوڑ کر اب تک آفتاب سے نہ جا ملا، تو معلوم ہوا کہ جاذبیت باطل و مہمل خیال ہے اور اس کا یہ جواب دیا کہ آفتاب زمین کو بھی تو کھینچتا ہے کبھی قمر سے کم کبھی زیادہ جیسا ان کا بعد آفتاب سے ہو تو شمس جتنا قمر کو کھینچتا ہے زمین اپنا چاند بچانے کو اس سے پوری جاذبیت کا مقابلہ کرنے کی محتاج نہیں بلکہ صرف اتنی کا جس قدر جاذبیت مذکورہ زمین کو جاذبیت شمس سے زائد ہے اور یہ اس جاذبیت سے کم ہے جتنی زمین کو قمر پر ہے لہذا قمر آفتاب سے نہیں ملتا۔
اقول : توضیح  جواب یہ ہے کہ قمر کا شمس سے جا ملنا اس جذب پر ہے جو قمر کو زمین سے جدا کرے۔ جذبِ شمسی زمین و قمر دونوں پر ہے ، تو جہاں تک وہ مساوی ہیں اس جذب کا اثر زمین سے جدائی قمر نہ ہوگی کہ وہ بھی ساتھ ساتھ بنی ہے ،۔ ہاں قمر پر جتنا جذب زمین پر جذب سے زائد ہوگا وہ موجب جدائی قمر ہوتا لیکن زمین اس قدر سے زیادہ اسے جذب کررہی ہے تو جدائی نہ ہوگی فرض کرو شمس قمر کو ۹۹ گز کھنیچتا ہے اور زمین سے ا سے ۴۵ گز کہ جذبِ شمس سے ۵/ ۱۱ ہے اور آفتاب زمین کو ۹۰ گز کھینچے تو ۹۰ گز تک تو زمین و قمر مساوی ہیں قمر پر ۹ ہی گز جذب شمس زائد ہے لیکن زمین کا جذب اس پر ۴۵ گز ہے تو جذب  شمس سے پچگنا ہے لہذا شمس سے ملنے نہیں پاتا۔
اقول: خوب جواب دیا کہ قمر کو بڑے سفر سے بچالیا، چھوٹا ہی سفر کرنا پڑا۔ اب کہ جذبِ زمین اس پر زیادہ ہے زمین پر کیوں نہیں آگرتا ۔ سوال کا منشا تو جذبوں کا تفاوت تھا وہ اب کیا مٹا قمر شمس پر نہ گرا زمین پر سہی۔
رَدِّ ششم: اقول: لُطف یہ کہ اجتماع (عہ۱)کے وقت قمر آفتاب سے قریب ہوجاتا ہے اور مقابلہ کے وقت دور تر حالانکہ قریب وقت اجتماع آفتاب کی جاذبیت کہ مجموع ہر دو جذب کی ۱۱/۱۶ ہے صرف ۳/۸ ہی عمل کرتی ہے کہ قمر شمس وارض کے درمیان ہوتا ہے زمین اپنی طرف پانچ حصے کھینچتی ہے اور شمس اپنی طرف گیارہ حصے تو بقدر فصل جذب شمس ۶/۱۶ جانب شمس کھینچا، نہیں نہیں، بلکہ بہت ہی خفیف ، جیسا کہ ابھی ردپنجم میں واضح ہوا اور قریب وقت مقابلہ جاذبیت کے سب ۱۶ حصے قمر کو جانب شمس کھینچتے ہیں کہ ارض شمس و قمر کے درمیان ہوتی ہے دونوں مل کر قمر کو ایک ہی طرف کھینچتے ہیں۔ غرض وہاں تفاضیل کا عمل تھا یہاں مجموع کا کہ اس کے سہ چند کے قریب بلکہ بدرجہائے کثیرہ زائد ہے تو واجب کہ وقت مقابلہ قمر شمس سے بہ نسبت اجتماع قریب تو آجائے حالانکہ اس کا عکس ہے تو ثابت ہوا کہ جاذبیت باطل ہے۔اصول الہیأت نمبر۲۱۰ میں اس قرب و بعد کی یوں تقریر کی کہ اجتماع کے وقت زمین قمر کو شمس سے چھین لے جاتی ہے اور وہ دور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ مقابل شمس آتا ہے اس وقت شمس و زمین دونوں اسے ایک طرف کھینچتے ہیں تو آفتاب سے قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اجتماع میں آتا رہتا ہے۔
 
عہ: ۱ ؎ اصول علم الہیأۃ نمبر۲۱۰۔۱۲
 
اقول: کیا زمین وقت مقابلہ سے وقت اجتماع تک نیرین کے بیچ ہی میں رہتی ہے کہ وہ سلسلہ آفتاب سے قریب کرنے کا مسلسل رہتا ہے یا زمین تو مقابلے کے بعد ایک کنارے کو گئی اور جب سے اجتماع ہونے تک جہت خلاف شمس کھینچتی رہی اور اس کا جذب جذب شمس سے بدرجہا زائد ہے جیسا کہ ابھی ردپنجم میں گزرا پھر بھی چاند ہی کہ شمس ہی کی طرف کھینچتا ہے شاید مقابلہ کے خفیف ساعت میں زمین نے اس کے کان میں پھونک دیا تھا کہ چاہے میں کہیں ہوں چاہے میں کسی طرف کھینچوں اور کتنے ہی غالب زور سے کھینچوں مگر تو اسی وقت کے اثر پر رہنا آفتاب ہی سے قریب ہوتا جانا میری ایک نہ مانا کیونکہ وہ بڑا بوڑھا ہے اس کا لحاظ واجب ہے اور چاند ایسا سعادت مند کہ اسی پر کار بند جب کھینچتے وہ آفتاب کی گود کے پاس پہنچا یعنی اجتماع میں آتا ہے اس وقت زمین اپنی نصیحت پر پریشان ہوتی ہے اور بڑھ کر وہ ہاتھ لگاتی ہے کہ شمس کی گود سے اسے چھین کر آدھے دورے میں نہایت دوری  پر لے جاتی ہے یہاں آکر پھر بھول جاتی اور وہی انچھر چاند کے کان میں پھونکتی ہے ایسی پاگل زمین ہیأتِ جدیدہ میں ہوتی ہوگی، غرض دنیا بھر کے عاقلوں کے نزدیک علت کے ساتھ معلول ہوتا ہے اور وہ علت فنا ہو کر علت خلاف پیدا ہو تو فوراً خلاف ہوجاتا ہے لیکن ہیات جدیدہ کے نزدیک علت کو فنا ہوئے مدتیں گزریں اور خلاف کی علتیں برابر روزانہ ترقی پر ہیں مگر معلول اسی مردہ علت کا جاگ رہا ہے اور ان زندہ علتوں کا معلول فنا ہے یعنی ادھر تو علت معدوم اور معلول قائم اور ادھر علت موجود دو مترقی اور معلوم معدوم ۔
 
رَدِّ ہفتم : اقول: پھر وہ پانچ وگیارہ کی نسبت تو مزعوم ہیأت جدیدہ تھی جس میں خود قاعدہ نیوٹن سے کہ جاذبیت بحسب مربع بعد بالقلب بدلتی ہے عدل تھا۔ اس کا ردّ نمبر ۱۴ میں گزرا، یہ قاعدہ نیوٹن اگر صحیح ہے تو قمر پر جاذبیت شمس بہ نسبت جاذبیت ارض ۱ /۵۰۰۰ ہوگی یہ بھی بہت نادر، اکثر اوقات اس سے بھی کم زمین سے قمر کا بعد ابعد (عہ۱) ۹۴۷ء ۲۵۱ میل ہے شمس سے زمین کا بعد (عہ۲ ) اقرب ۹۱۳۴۱۹۷۴ میل فرض کیجئے شمس اپنے بعد اقرب پر ہے اور قمر اجتماع میں اپنے بعد ابعد پر کہ شمس و ارض سے فاصلہ قمر میں سب سے کم تفاوت کی صورت ہے باقی سب صورتوں میں اس سے زیادہ فرق ہوگا جو جاذبیت شمس کو اور چھوٹا کرے گا اس نادر صورت پر شمس سے قمر کا بعد۹۱۰۹۰۰۲۷ میل میں ہوگا۔ اب اگر شمس و ارض میں قوت جذب برابر ہوتی تو نسبت یہ ہوتی جذب الارض للقمر جذب الشمس للقمر :: (۹۱۰۹۰۰۲۷)۲ (۲۵۱۹۴۷)۲ اول کو ایک فرض کریں تو چہارم ÷ سوم = دوم یعنی
 
 
 
جذب الشمس للقمر یعنی قمر کو جذب ارض اگر دس کروڑ ہے تو جذب شمس صرف ۷۶۵ یعنی تقریباً ایک لاکھ تینتس ہزار تین سو تینتس حصوں سے ایک حصہ لیکن شمس میں قوتِ جذوب باعتبار قوت زمین ۲ء۲۷(عہ۳ ) ہے یا ۲۸ (عہ۴) تو حاصل کو اس میں ضرب دیئے سے ۰۰۰۲ء ۰ حاصل رہا یعنی شمس اگر قمر کو اپنی طرف ایک میل کھینچتا ہے تو زمین اپنی طرف پانچہزار میل اور تقریر رد پنجم شامل کیے سے تو جذب زمین کے مقابل جذب شمس گویا صفر محض رہ جائے گا اور زمین کا جذب المعارض و مزاحم کام فرمائے گا اور شک نہیں کہ یہ جذب ہزاروں برس سے جاری ہے اور وجہ کیا ہے کہ قمر اب تک زمین پر نہ گر پڑا اگر جاذبیت صحیح ہوتی ضرور کب کا گر چکا ہوتا تو جاذبیت محض مہمل خیال ہے۔
 
عہ۱: اصول علم الہیاۃ ص ۱۱۳ و ص ۲۶۴ ۔۱۲ ۔     عہ۲:  اس کا بیان ابھی جاذبیت کے ردچہارم میں گزرا۔
عہ۳:  اصول علم الہیأۃ ص ۲۶۷ ۔۱۲      عہ۴:  اصول علم الہیاۃ ص ۸۳ ، ۱۲
 
رَدِّ ہشتم : اقول: قمر کو جذب شمس وارض میں کچھ بھی نسبت ہو یہ تو اجتماع نیرین میں دیکھی جائے گی کہ شمس ایک طرف کھنچے گا اور ارض دوسری طرف ، مقابلہ میں تو شمس و ارض دونوں ایک طرف ہوتے ہیں اصول الہیأت مضمون مذکور ردششم میں یہ خوب کہی کہ اس کے سبب قمر شمس سے قریب ہوتا ہے۔بہت خوب زمین بھی شمس ہی کے لیے کھینچی ہوگی عقلمند بیچ میں زمین ہے تو اس وقت دونوں اپنی مجموعی طاقت سےقمر کو زمین ہی کی طرف کھینچتے ہیں اب کیوں نہیں گرتا اگر کہیے اور سیارے ادھر کو کھینچتے ہیں۔
اقول: ہزاروں بار ہوتا ہے کہ سب سیارے مع زمین ایک طرف ہوتے ہیں اور تنہا قمر دوسری جانب اور ثوابت کا اثر جذب نہ مانا گیا ہے نہ ماننے کے قابل ہے کہ وہ سب طرف محیط ہیں تو داب یکساں ہو کر اثر صفر رہا۔ اب قمر کیوں نہیں گرتا۔ یہ تمام عظیم ہاتھی جمع ہو کر اپنی پوری طاقت سے اس چھوٹی سی چڑیا کو کھینچتے کھینچتے ہلکان ہوئے جاتے ہیں اور چڑیا ہے کہ بال بھر نہیں سرکتی اس کی تیوری پر میل تک نہیں آتا یہ کیسی جاذبیت ہے لاجرم جاذبیت محض غلط ہے۔

ردّنہم : اقول : نافریت کی گندم پہلے کاٹ چکے ہیں اور بفرضِ باطل ہو بھی تو یہ قرار داد ہے کہ وہ بقدر جاذبیت بڑھتی ہے اور چال بقدر نافریت (نمبر۷) تو واجب تھا کہ جب سیارے گرد قمر متفرق ہوتے اس کی چال کم ہوتی کہ ان کی جاذبیت باہم معارض ہو کر قمر پر اثر کم پڑرہا ہے اور جب سیارے قمر سے ایک طرف ہوتے اس کی چال ہمیشہ سے بہت زائد ہوجاتی کہ اسے مجموع جا ذبیتوں کا مقابلہ کرنا ہے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوتا بلکہ والقمر قدّرنٰہ منازل ۔ ۱ ؎ ( اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کیں۔ ت) کے زبردست محکم انتظام نے اسے جس روش پر ڈال دیا ہے ہمیشہ اسی پر رہتا ہے وہ سیاروں کے اجتماع کی پرواہ کرتا ہے نہ تفر ق کی، تو قطعاً ثابت ہوا کہ جاذبیت محض وہمی گھڑت ہے۔

(۱؂القرآن الکریم ۳۶/ ۳۹)

رَدِّ دہم : اقول : ان سب سے بڑھ کر بطلان جاذبیت پر شہادت بحراوقیانوس کا مدوجزر ہے، ہر روز دوبار پانی گزوں حتی کہ ۷۰ فٹ تک اونچا اٹھتا اور پھر بیٹھ جاتا ہے اسے جاذبیت قمر کے سر ڈھالنا جاذبیت ارض کو سلام کرنا ہے اگر قمر کو اس کے بعد (عہ۲) اقرب ۲۲۵۷۱۹ میل پر رکھئے اور زمین کی جاذبیت اس کے مرکز سے لیجئے کہ پانی کو اس سے ۵ء ۳۹۵۶ میل بعد ہو تو حسب قاعدہ نیوٹن اگر زمین و قمر میں قوت جذب برابر ہوتی پانی پر دونوں کے جذب کی نسبت یہ ہوئی جذب قمر : جذب ارض ::(۵ء۳۹۵۶)۲ = (۳۵۵۷۱۹)۲ ثانی کو ایک فرض کریں تو سوم =چہارم = جذب قمر ہوتا یعنی
۲۵ء۱۵۶۵۳۸۹۲
۵۰۹۴۹۰۶۶۹۶۱ = ۰۰۰۳۰۷۲۴۵۹ء۰
لیکن قمر میں قوتِ جذب قوتِ زمین کی ۱۵ (عہ۳ ) ہے لہذا اسے ۰۵ء میں ضرب دیا حاصل ۰۰۰۰۴۶ء۰ یعنی پانی پر جذب قمر اگر ۲۳ ہے تو جذب زمین پانچ لاکھ یا قمر اگر ایک قوت سے جذب کرتا ہے توز مین ۲۱۷۳۹ قوتوں سے پھر کیونکر ممکن پانی بال برابر بھی اٹھنے پائے، ہم نے نمبر ۱۷ کے اعمال ح وص کے لحاظ سے پانی کا بعد مرکز زمین سے لیا ورنہ زمین سے تو اسے اصلا بُعد نہیں اور ہم ثابت کرآئے کہ جذب اگر ہے تو ہر گز خاص بمرکز نہیں تمام کُرہ جاذب ہے________________________________________________________ہاں انتہائے جذب جانب مرکز ہے تو جب تک جسم واصل مرکز نہ ہو زیر جذب رہے گا ولہذا زمین پر رکھا ہو پتھر بھی بھاری ہے اور وزن نہیں ہوتا مگر جذب سے تو ثابت ہوا کہ زمین میں جذب ہے تو ضرور ثقیل متصل کو بھی جذب کرتی ہے بلکہ سب سے اقوی کہ جاذبیت قرب سے بڑھتی ہے۔(۱۰) اور یہ نہایت قرب سے اب تو جذب قمر کو جذب زمین سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوسکتی ہے اور اگر اس سے بھی در گزر کرکے تسلیم کرلیں کہ جذب کے لیے فصل ضرور ہے تو ایک فصل معتدبہ مثلاً ایک انگل رکھئے بفرض غلط قبول کرلیں کہ قمر نے ایک انگل پانی زمین سے جدا کرلیا اب محال ہے کہ بال کا ہزاروں حصہ اور بڑھےنہ کہ ۷۰ فٹ تک قمر کا بعد (عہ۱) اوسط ۲۳۸۸۲۳ میل ہے، ہر میل ۱۷۶۰ گز، ہر گز اڑتالیس انگل، تو بعد قمر ۱۸۴۰ء۲۰۱۷۶۶۱ بیس ارب انگل مع زیادات ہوا۔ ایک انگل کا مربع ایک کہ جذب قمر ہو اور اس بعد کا مربع ۲۸۱۸۵۶۰۰ ۴۰۷۰۹۵۶۶۵۳۴۲۰ کو جذب ارض ہوتا اگر قوت جذب دونوں کروں میں مساوی ہوتی لیکن قمر میں ۱۵ء ہے تو اس عدد کو ۱۵ء پر تقسیم کیا جذبِ ارض۔______________ ۲۷۱۳۹۷۱۱۰۲۲۸۰۱۸۷۹۰۴۰۰۰ ہوا یعنی پانی پر جذب قمر کی ایک قوت ہے تو جذب زمین کی دو سو اکہتر مہاسنکھ سے بھی سنکھوں زائد ہے تو مدمحال قطعی ہوتا ہے لیکن واقع ہے تو یقیناً زمین میں جاذبیت نہیں اگر کہے ہیأتِ جدیدہ والے تو یہ کہتے ہیں کہ چاند سارے کرہ زمین کو گزوں اونچا اٹھالیتا ہے تو پانی کا ستر فٹ اٹھالینا کیا دشوا رہے۔

عہ۲: اصول ہردوصفحہ مذکور ہ
عہ۳: اصول ص ۲۶۷۔ ۱۲۔
عہ۱: اصول ہر دو صفحہ مذکورہ ہوا۔
عہ۲: ص ۱۲۰۰۔ ۱۲

اقول: چاند کا زمین کو اونچا اٹھالینا نِرا ہذیان ہے زمین کا وزن ،_____________۱۶۹۹۳۲۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ سولہ ہزار نو سو ترانوے مہاسنکھ من اور بیس سنکھ من ہے وہ قمر (عہ۳) سے انچاس حصے بڑی ہے بلکہ اس کاجرم (عہ۴) جرم قمر کا وزن میں ۵ء۸۱ مثل ہے ،کیا چٹھنکی ڈیڑھ چھٹانک پانچ سیر پختہ وزن پر غالب آکر اسے کھینچ لے گی یا قمر کو جر ثقیل کی کوئی کل دی گئی ہے اس کے پاس ایک کل ہوگی تو زمین کے پاس انچاس کہ قبل اس کے کہ وہ اسے بال بھر اٹھا سکے یہ اسے کھینچ کر گرالے گی، اور اگر بالفرض قمر زمین کو اٹھا بھی لے تو زمین چاہے سو گز نہیں سومیل کھنچ جائے پانی کا ذرہ بھر اٹھنا ممکن نہیں زمین کے اس طرف چاند کے خلاف کوئی دوسرا حامل اقوی نہ تھا جس سے چاند اسے نہ چھین سکتا اور پانی کو زمین مہا سنکھوں زیادہ زور سے کھینچ رہی ہیں چاند اسے کیونکر کھینچ سکے گا۔ اس کی نظیر یہ ہے کہ مثلاً سیر بھر وزن کے ایک گولے میں لوہے کا پتر نہایت مضبوط کیلوں سے جڑا ہوا ہے تم اس گولے کو ہاتھ سے کھینچ سکتے ہو لیکن اس پتر کو گولے سے جدا نہیں کرسکتے جب تک و ہ کیلیں نہ نکالو یہاں پانی پر وہ کیلیں صد ہا مہاسنکھوں طاقت سے جذب ہے جب تک یہ معدوم نہ ہو پانی ہزاروں چاندوں کے ہلائے ہل نہیں سکتا لیکن ہلتا کیا گزوں اٹھتا ہے تو ضرور جذب زمین معدوم ہے۔ وھوالمقصود اگر کہیے ضرور اس سے زمین کی جاذبیت تو باطل ہوگئی لیکن قمر کی تو مسلم رہی۔

عہ۳: ص ۱۹۷۔ ۱۲ عہ۴: ص ۲۱۰۔ ۱۲ ۔

اقول: اوّل مقصود ابطال حرکت زمین ہے وہ جاذبیت شمس پر مبنی اور اوپر گزرا کہ زمین ہی میں جاذبیت گمان کرکے شمس کو اس پر بلادلیل قیاس کیا ہے جب یہی باطل ہوگئی قیاس کا دریا ہی جل گیا شمس میں کہاں سے آئے گی یا یوں کہیے کہ ہیأت جدیدہ کا وہ کلیہ کہ ہرجسم میں بقدر مادہ جاذبیت ہے جس کی بنا ء پر شمس میں اس کے لائق جاذبیت اور اس کے سبب زمین کی حرکت مانی تھی باطل ہوگیا اور جب معلوم ہوگیا کہ بعض اجسام میں جذب ہے بعض میں نہیں تو جذب شمس پر دلیل نہ رہی ممکن کہ شمس انہیں اجسام سے ہو جن میں جذب نہیں۔

ثانیاً مد کا جذب قمر سے ہونا بھی بوجوہ کثیرہ مخدوش ہے جن کا بیان نمبر ۱۶ میں گزرا۔

رَدِّ یاز دہم : اقول: جو دوسری طرف کی مد کی توجیہ کی کہ زمین اٹھتی ہے اور ادھر کے پانی کو چھوڑ آتی ہے۔ جاذبیت ارض کی نفی پر دلیل روشن ہے سمت مواجہ کے پانی پر تو ارض و قمر کا تجاذب تھا یہ غلط مان لیا کہ قمر غالب آیا، سمت دیگر کے پانی کو تو دونوں جانب زمین ہی کھینچ رہی ہے اسے زمین نے کیونکر چھوڑا قمر کا جذب اس پر کم تو زمین کاجذب تو بقوت اتم ہے اور یہاں اس کا معارض نہیں پھر چھوڑ دینے کے کیا معنی ٰ!
رَدِّ دوازدہم : اقول: یہ جو ہیاتِ جدیدہ نے اقرار کیا کہ جذب قمر میں پانی زمین کا ملازم نہیں رہتا قمر کی جانب مواجہ میں بوجہ لطافت و قرب آب پانی زمین سے زیادہ اٹھتا ہے اور دوسری طرف بوجہ بعد آب زمین پانی سے زیادہ اٹھتی ہے۔ یہ بڑے کام کی بات ہے اس نے زمین پر جاذبیت شمس کا قطعی خاتمہ کردیا اگر وہ صحیح ہوتی تو جب جذب قمر سے یہ حالت ہے جو انتہا درجہ صر ف ۷۰ ہی فٹ اٹھا سکتا ہے تو جذب شمس کہ زمین کو ۳۱ لاکھ میل سے زیادہ کھینچ لاتا ہے۔ واجب تھا کہ پانی پر اسی ۷۰ فٹ اور ۳۱ لاکھ ۱۶ ہزار باون میل کی نسبت سے اشد واقوی ہوتا سامنے کے پانی زمین کو چھوڑ کر لاکھوں میل چلے جاتے زمین نری سوکھی رہ جاتی یا قوت جذب کے سبب قوت نافریت پانی کو زمین سے بہت زیادہ جلد تر گھماتی یا تو ساری زمین پانی میں ڈوب جاتی اگر پانی پھیلتا یا ہر سال سارے جنگل اور شہر غرقاب ہو کر سمندر ہوجاتے اور تمام سمندر چٹیل زمین ہوجایا کرتے اگر پانی اتنی ہی مساحت پر رہتا۔

رد سیزدہم : اقول : ہوا تو پانی سے بھی لطیف تر ہے اور بہ نسبت آب آفتاب سے قریب بھی زیادہ تو اس پر جذب شمس اور بھی اقوی ہوتا اور روئے زمین پر ہوا کا نام و نشان نہ رہا ہوتا یا نافریت آڑے آتی تو ہوا کو زمین سے بہت زیادہ گھماتی اب اگر ہوا بھی مثل زمین مشرق کو جاتی تو تمہارے طور پر لازم تھا کہ پتھر جو سیدھا اوپر پھینکا جاتا ہے بہت دور شرق میں جا کر گرتا ہوا کی تیزی زمین سے دو چند ہی ہوتی اور پتھر مثلاً ۲ سیکنڈ میں ۱۶ فٹ اوپر چڑھتا اور ایک سیکنڈ میں نیچے اتر تا تو اس تین سیکنڈ میں زمین ۲ء۱۵۱۹گز چلتی لیکن ہوا کہ ان سیکنڈوں میں پتھر جس کا تابع رہا ۴ء۳۰۳۸ گز جاتی تو پتھر ۱۵۱۹ گز دور جا کر اترتا ہے حالانکہ جہاں سے پھینکا تھا وہیں اترتا ہے اور اگر ہوا غرب کو جاتی تو پتھر ۴۵۵۸ گز دور غرب میں گرتا کہ تین سیکنڈ میں زمین کا وہ موضع جہاں سے پتھر پھینکا تھا ۲ء۱۵۱۹ گز مشرق کو چلا اور پتھر باتباع ہوا وہاں سے ۴ء ۳۰۳۸ گز غرب کو گیا مجموع ۴۵۵۸ گز ڈھائی میل سے زیادہ کا فاصلہ ہوگیا لیکن وہاں کا وہیں گرتا ہے تو یقیناً جذب شمس و حرکت زمین دونوں باطل۔
ردِ چار دہم : اقول: کتنی واضح و فیصلہ کن بات ہے کاغذ کا تختہ دو برابر حصے کرکے ایک ویسا ہی پھیلا ہوا ایک پلے میں رکھو اور دوسرا گولی بنا کر کہ پہلے سے مساحت میں دسواں حصہ رہ جائے اگر جاذبیت ہے واجب کہ اس کا وزن گولی سے دس گنا ہوجائے کہ جذب بحسب مادہ جاذب بدلے گا ،(۱۰) اور مادہ مجذوب و بعد یہاں واحد ہیں اور اول کے مقابل زمین کے دس حصے ہیں تو اس پر دس جذب ہیں اور گولی پر ایک اور وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے۔ (۱۵) تو واجب کہ اس کا وزن گولی دہ گنا ہو حالانکہ بداہۃً باطل ہے تو جذب قطعاً باطل بلکہ ان کا جھکنا اپنے میل طبعی سے ہے اور نوع واحد میں میل بحسب مادہ ہے اور یہاں مادہ مساوی لہذا میل برابر لہذا وزن یکساں۔
فائدہ : اقول : یہاں سے ظاہر ہوا کہ وہ جو مختلف کروں پر شیئ کا وزن مختلف ہوجانا بتایا تھا (۱۵) سب محض تراشیدہ خیال باطل تھے ورنہ جیسے وہاں جذب شمس وارض میں ا و ۸ کی نسبت تھی یہاں بھی دونوں حصے زمین میں اور ۱۰ کی نسبت ہے اور ۱ء ۲۸ اور ۱ و۱۰ کی ہوسکتی ہے۔
رَدِّ پانزدہم : اقول: واجب کہ وہ تختہ اور گولی دونوں ایک مسافت سے ایک وقت میں زمین پر اتریں کہ اگر تختہ پر ہوا کی مزاحمت دہ چند ہے تو اس پر زمین کا جذب بھی تو دہ چند ہے بہرحال مانع ومقتضی کی نسبت دونوں جگہ برابر ہے تو اترنے میں مساوات لازم حالانکہ قطعاً تختہ دیر میں اترے گا تو ثابت ہوا کہ مقتضی جذب نہیں بلکہ ان کا طبعی میل کہ دونوں میں برابر ہے تو مقتضی مساوی ایک پر مانع دہ چند لاجرم دیر کرے گا۔

رَدِّ شانزدہم: اقول : ملا جتناکثیف تر جاذبیت بیشتر(نمبر۱۰) تو وزن اکثر (۱۵) توپانی میں بہ نسبت ہوا وزن بڑھنا چاہیے حالانکہ عکس ہے استاذ ابو ریحان بیرونی نے سو مثقال سونا ہوا میں تول کر سونے کا پلہ پانی میں رکھا اور باٹ کا ہوا میں ، ۴/۳۔۹۴ مثقال رہ گیا۔بیسیوں حصے سے زیادہ گھٹ گیا۔ ہم نے سونے کے کڑے کہ ہوا میں ایک چھٹانک چار روپے ایک چونی ڈیڑھ ماشے بھر سونا تھے پانی میں تولے سونے کا پلہ سطح آب سے ملتے ہی ہلکا پڑا وزن کا پلہ ہوا میں جھکا جب سونے کا پلہ پانی کے اندر پہنچا وزن صرف ایک چھٹانک تین روپے بھر رہ گیادسویں حصے سے زیادہ گھٹ گیا۔ یہ کمی اختلافِ آب و ہوا و موسم سے بدلے گی۔ ابو ریحان نے جیحون کا پانی لیا اور خوار زم میں فصل خریف میں تولا اور ہم نے کنویں کاپانی اپنے شہر میں موسم سرمامیں میل طبعی پر، اس کی وجہ ظاہر ہے میل بقدر روزن جھکاتا ہے اور جس ملا میں حجم ہے وہ بقدر کثافت مزاحمت کرتا ہے وزن دونوں پلوں کا برابر ہے ہوا میں دونوں کا مزاحم بھی برابر تھا برابر رہے جب ایک پانی سے ملا جھکنے کا مقتضی کہ میل ہے اب بھی بدستور برابر ہے مگر جھکنے کا مزاحم اس پلے پر بہت قوی ہے کہ پانی ہوا سے بدرجہاکثیف تر ہے لاجرم یہ کم جھکا اور ہوا کا پلہ زیادہ ، فافہم وتامل لیکن بربنائے جاذبیت یہ اصلاً نہ بن سکے گا کہ جس کی کثافتِ آب نے مزاحمت بڑھائی ہے اسی کثافت نے اسی نسبت پر وزن بھی بڑھایا ہے تو مانع و مقتضی برابر ہو کر حالت بدستور رہنی لازم تھی اور ایسا نہیں تو ضرور جاذبیت باطل ہے ، اصول (عہ۱ ) طبعی میں کہا سبب اس کا یہ ہے کہ پانی اوپر کی طرف زور کرتا ہے لہذا سونے کو سہارا دے کر وزن کم کرتا ہے۔

عہ۱: ص ۱۱۵۔۱۲۔

اقول: اولاً اگر اس سے صرف نیچے جانے کی مزاحمت مراد تو ضرور صحیح ہے اور اس کا جواب بھی سُن چکے اور اگر یہ مقصود کہ پانی سونے کو اوپر پھینکتا ہے جیسا کہ اوپر کی طرف زور کرنے سے ظاہرتو عجیب جہل شدید ہے پانی اپنے سے ہلکی چیز کو اوپر پھینکتا ہے کہ خود اس سے زیادہ اسفل کو چاہتا ہے اپنے سے بھاری کو سہارا دے تو لوہا بلکہ کوئی چیز پانی میں نہ ڈوبے۔
ثانیاً : ایسا ہو تو یہ جذب زمین پر تازہ رَد ہوگا جب پانی اپنے سے ہلکی بھاری ہر چیز کو پھینکتا ہے تو معلوم ہوا کہ اس کی طبیعت میں وضع ہے اور دفع ضد جذب ہے تو اس کی طبیعت میں جذب نہیں اور وہ زمین ہی کا جزء ہے تو زمین میں نہیں تو شمس میں کس دلیل سے آئے گا، اور حرکت زمین کا انتظام کدھر جائے گا۔

رَدِّہفدہم : اقول: ایک بڑی مشک اور ایک مشکیزہ ہوا سے خوب بھر کر منہ باندھ کر پانی میں بٹھانا چاہو تو مشک زیادہ طاقت مانگے گی اور دیر میں بیٹھے گی اور بٹھا کر چھوڑ دو تو مشکیزہ سے جلد اوپر آئے گی اور ایک بڑا پتھر اور ایک چھوٹا اوپرحد واحد تک پھینکو تو بڑا زیادہ طاقت چاہے گا اور دیر میں جائے گا اور چھوٹے سے جلد اتر آئے گا، پانی کا دباؤ اگر مشکوں کو اٹھاتا اور زمین کا جذب پتھروں کو گراتاتو قسراقوی پر ضعف ہوتا ہے اور اضعف پر اقوی چھوٹا پتھر اور مشکیزہ جلد آتا ہے اور بڑا پتھر اور مشک دیر میں۔ ہاں ہاں یہ کہئے کہ بڑے کا دافع بڑا ہے زیادہ دفع کرے گا تو وہ مدفوع بھی تو بڑا ہے کم دفع ہوگا تو غایت یہ کہ نسبت برابر رہے دونوں برابر اٹھیں مشک پر زیادہ کیوں، یونہی جذب میں اگر کہے مشک اور بڑے پتھر نے یوں جلدی کی کہ بیچ میں جو ملا حائل ہے بڑی چیز، اس کے چیرنے پر زیادہ قادر ہے تو اولا بڑے حائل بھی بڑا ہے تو نسبت برابر رہی۔ یہ وجہ کہ بڑی چیز اثر قسر کم قبول کرتی ہے تو پانی کے دباؤ سے مشک کیوں جلد اٹھی اور زمین کے جذب سے بڑا پتھر کیوں جلد آیا، اگر کہیے جذب بحسب مادہ ہے بڑے پتھر میں مادہ زائد تھا اس پر جذب زمین زیادہ تھا لہذا دیر میں اُوپر گیا اور جلد نیچے آیا۔
اقول: اولاً یہ مردود ہے دیکھو ۔۱۱
ثانیاً خود اس قول کو تفاوت اثر سے انکار ہے(۱۲)
ثالثاً یہ وہی بات ہے کہ جاذبیت کا تھل بیڑا لگا رکھے گی تمہارے یہاں وہی اجزائے دیمقرا طیسیہ ثقیل با لطبع ہیں ( نمبر۸۔۹) تو جذب کیوں ہو وہ اپنی طبیعت سے طالب سفل ہوں گے۔
رابعاً بڑی مشک کی ہوا میں بھی مادہ زیادہ ہے اور ہیأتِ جدیدہ میں ہوا بھی ثقیل مانی گئی ہے۔( ۱۸) تو بلاشبہہ بڑی مشک پر جذب زمین زائدہ ہے پھر یہ دیر میں نیچی کیوں بیٹھی اور جلد اوپر کیوں آئی، اگر کہیے پانی اس سے زیادہ ثقیل ہے لہذا زمین اسے زیادہ جذب کرتی ہے اس لیے یہ اوپر مندفع ہوتی ہے۔
اقول : اولاً یہ وہی قول مردود ہے کہ جذب بحسب مجذوب ہے۔
ثانیاً دفع بحسب نسبت ثقل ہوگا پانی اس مشک سے اثقل ہے اور مشک یہ مشکیزہ سے تو مشک پر جذب زمینی مشکیزہ سے زائدہوا اور دفع مشکیزہ سے کم تو واجب کہ مشک جلد بیٹھے اور مشکیزہ جلد اٹھے حالانکہ امربالعکس ہے یا بدستور بلحاظ نسبت تساوی رہے، غرض کوئی کل ٹھیک نہیں بیٹھتی اور اگر جذب کو چھوڑ کر میل طبعی مانو تو سب موجہ ہیں ہوا کا میل فوق اور حجر کا تحت ہے مشک پر باد کا بیٹھنا اور پتھر کا اوپر جانا خلافِ طبع تھا، اس لیے اکبر نے زیادہ مقاومت کی اور دیر ہوئی اور مشک کا اٹھنا اور پتھر کا گرنا مقتضائے طبع تھا لہذا اکبر نے جلدی کی۔

رَدِّہیزدہم : اقول: شے واحد پر بعد واحد سے جاذب واحد کا جذب مختلف ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔
تنبیہ : بعد (۱۱) تھرمامیٹر کا پارہ ہوائے معتدل میں ایک جگہ پر قائم ہے اس پر جذب زمین کی ایک مقدار معین محدود ہے جو ان کے مادوں اور اس کے بعد معین کا تقاضا ہے اب اگر ہوا گرم ہوئی پارہ اوپر چڑھے گا کیا جذب زمین کم پڑے گا۔ کیوں کم ہوا۔ اس وقت بھی تو زمین و زیبق انہیں مادوں پر تھی وہی بعد تھا۔ گرمی نے زمین یا پارے میں سے کچھ کترنہ لیا یہاں آکر پارہ ٹھہرے گا جب تک اسی گرمی پر ہے، اب ہوا سرد پڑی پارہ نیچے اُترے گا اور خطِ اعتدال پر بھی نہ ٹھہرے گا۔ کیا جذبِ زمین بڑھے گا۔ کیوں، اب بھی تو ارض و سیماب کے وہی مادے وہی بعد تھا سردی نے زمین یا پارے میں کوئی پیوند جوڑ نہ دیا، یہ اختلاف ہوا کی طرف منسوب نہیں ہوسکتا کہ پارہ ہوا سے ہمیشہ اثقل ہے۔گرمی ہوا نے اگر اس میں کچھ خفت پیدا کی تو اس سے پہلے ہوا میں اس سے زیادہ پیدا ہوچکی بلکہ لطافت وکثافت ہوا کا عکس ہے۔ لاجرم جذب غلط ہے بلکہ برودت موجب ثقل ہے، اور ثقل طالبِ سفل اور حرارت موجبِ خفت ہے ، اور خفت طالبِ علو۔
رَدِّ نوز دہم : اقول: بخارات پیدا ہوتے ہی اوپر جاتے ہیں ان کا مرکب اجزائے مائیہ وہوائیہ سے ہے اور ان کے نزدیک ہوا بھی ثقیل ہے۔(نمبر۱۸) اور پانی اثقل کہ ہوا سے سات ( عہ۱) سو ستر یا آٹھ سو ( عہ۲) گنا یا آٹھ ( عہ۳) سو انیس مثل بھاری ہے اور ظاہر ہے کہ جو ثقیل و اثقل سے ایسا (عہ۴) مرکب ہو وہ اس ثقیل سے اثقل ہوگا تو بخار ہوا سے بھاری ہے تو یہاں وہ عذر نہیں چلتا جو پانی کے تیل کو پھینکنے میں ہوتا کہ بھاری چیز ہلکی کوپھینکتی ہے کہ ہلکی بھاری کو، پھر ان کے جانے کی کیا وجہ ہے، زمین اگر انہیں جذب کرتی تو کوئی چیز انہیں زمین سے چھین کر اوپر لے جاتی، کیا کوئی سیارہ تو شب کا وہ وقت لیجئے کہ کوئی سیارہ نصف النہار بلکہ افق پر اصلاً نہ ہو جیسے وہ زمانہ کہ سیّارات و قمر نور سے سنبلہ تک ہوں اور طالع راس الحمل یا ثوابت تو مہاسنکھوں میل دور سے اجزائے زمین کو خاص اس کی گود سے اچک لیتے، تو چاہیے کہ تمام دنیا کے ریگستانوں میں ریت کا ٹیلہ نہ رہا ہوتا سب کو ثوابت اڑالے گئے ہوتے زمین کہ ان کو جذب کررہی ہے محال ہے کہ وہی دفع کرتی کہ دو ضدین مقتضائے طبع نہیں ہوسکتیں، تو ثابت ہوا کہ جذبِ زمین غلط ہے بلکہ ہوا خفیف ہے اور انمیں جو اجزائے ہوائیہ میں گرمی کے سبب اور لطیف ہوگئے اور اجزائے مائیہ کہ ان میں محبوس ہیں ان میں بوجہ حرارت خفت آگئی جوش دینے میں پانی کے اجزا اوپر اٹھتے ہیں لہذا اجزائے ہوائیہ انہیں اڑا لے گئے کہ حقیقت طالب علو ہے تو بالضرورۃ ثقیل طالب سفل ہے کہ الضد بالضد یہی میل طبعی ہے تو جاذبیت مہمل ، یہ اسی دلیل میں دوسری وجہ سے ردجاذبیت ہوا، اگر کہیے اس حقیقت نے ہمیں کیوں نہ فائدہ دیا۔ حرارت نے اجزائے آب و ہوا کو ہلکاکیا لہذا ان پر جذب کم ہوا اور برابر کی ہوا نے جس جذب زائد سے ان کو اوپر پھینکا جیسے پانی نے تیل کو۔

عہ۱: تعریبات شافیہ جزثانی ص ۴۰،۱۲
عہ۲: ط ص ۱۳۴۔۱۲
عہ۳: ح ص ۲۱۰۔۱۲
عہ۴: یعنی جس میں مزاج و استحکام ترکیب نہیں ورنہ نسبت اجزاء کا تحفظ ضرور نہ رہے گا جیسے سوناکہ زیبق وکبریت سے مرکب ہے۱۲ منہ غفرلہ

اقول: اولاً کیا بخار اسی وقت اٹھتا ہے جب مثلاً پانی جہاں گرم ہوا تھا وہاں سے ہٹا کر ٹھنڈی جگہ لے جاؤ جہاں کہ ہوا کو اثر گرمی نہ پہنچا حاشا بلکہ وہ پیدا ہوتے ہی معاً اٹھتا وہ حرارت کہ اس ہوا کو گرم کرے گی اس کے برابر والی کو گرم نہ کرے گی خصوصاً تیزیِ شمس کے پانی سے بخار اٹھنا کہ آفتاب نے قطعی برابر والی کو بھی اتنا ہی گرم کیا جتنا اسے پھر اس میں اجزائے مائیہ ہونے سے وزن زائد،
ثانیاً بالکل الٹی کہی تمہارے نزدیک تو جتنا جذب کم اتنا وزن کم (نمبر۱۵) تو خفت قلتِ جذب سے ہوتی ہے نہ کہ قلتِ جذب خفت سے۔
ثالثاً وہی جو اوپر گزرا کہ مادہ بدستور بعد بدستور، پھر حرارت سے جذب میں کیوں فتور، کیا سبب ہوا کو گرمی نے ہلکا کردیا۔ اگر کہیے کہ حرارت بالطبع طالبِ علو ہے ، ولہذا نارو ہوا اوپر جاتی ہیں اور برودت بالطبع طالب سفل ہے ولہذا آب و خاک نیچے جھکتے ہیں تو ضرور حرارت سے خفت پیدا ہوگی مگر یہ میل طبعی کا قرار اور جاذبیت پر تلوار ہوگا۔
رَدِّبستم : جو نمبر۱۸ کے رابعہ میں گزرا کہ جذبِ زمین ہے تو اندر کی ہوا کا اوپر کا ابھارنا کیا معنی اور وہ اس قوت سے کہ صدہا من کے بوجھ کو سہارا دے نہیں نہیں فنا کردے کہ محسوس ہی نہ ہو۔
ردِّ بست ویکم : اقول: ہر عاقل جانتا ہے کہ رائی کا دانہ پہاڑ کے کروڑویں حصے کے بھی ہم وزن نہیں ہوسکتا نہ کہ سارے پہاڑ سے کانٹے کی تول برابر، مگر مسئلہ جاذبیت صحیح ہے تو یہ ہو کر رہے گا، بلکہ رائی کا دانہ پہاڑ سے بھی زیادہ وزنی ہوگا، ظاہر ہے کہ پلے کا جھکنا اثر جذب ہے جس پر جذب زائد ہوگا اس کا پلہ جھکے گا اور برابر ہوں پلے برابر رہیں گے۔ (نمبر۱۵) اب دو کُرے ایسے لیجئے جن میں قوت جذب برابر ہے ، ان میں بعد مساوی پر جذب مساوی ہوگا یا سہی مختلف قوت کے لیجئے جیسے قمرزمین، رائی اور پہاڑ کو قمر سے اتنا قریب فرض کرلیجئے کہ زیادتِ قرب سے قوتِ جذب قمر اس کے ضعف جاذبیت کی تلافی کردے ، جسے اصول علم الہیأت نمبر۳۲۲ میں قطر زمین کا ۹ء۳ کہا اگرچہ ہمارے حساب(عہ۱) سے تقریباً ۱ء۳ ہے۔

عہ۱: اصول علم الہیأۃ میں مادہ زمین کا ۱/۷۵ لیا اور زمین سے بعد قمر قطر زمین کا ۳۰ مثل اور ہیأت جدیدہ میں مقرر ہے کہ جاذبیت بحسب مادہ بالاستقامت بدلتی ہے اور بحسب مربع بعد بالقلب تو جسم پر جذب قمر و ارض مساوی ہونے کے لیے زمین سے ایسے بعد پر ہونا چاہیے کہ اس کا مربع قمر سے بعد جسم کے مربع کے ۵۷ مثل ہو۔
اقول : تو یہاں سے دو مساواتیں ملیں۔ قمر سے بعد کوئی فرض کیجئے اور زمین سے لا :۰ لا =۷۵ ی۲ ، لا+ی = ۳۰:۰ لا۲/ ۷۵ = (۳۰۔ لا۲) = ۹۰۰۔ ۶۰ لا +لا۲ :۰ لا = ۶۷۵۰۰۔۴۵۰۰ لا +۷۵ لا۲ :۰ ۰ = ۶۷۵۰۰ ۔ ۴۵۰۰ لا + ۷۴ لا۲بلکہ ۷۴ لا۲ ۔ ۴۵۰۰لا =۶۷۵۰۰ :۰ لا۲ ۔ ۵۰۰/۷۴ ۔ ۶۷۵۰۰/۷۴ :۰ تکمل مجذور لا۲۔ ۴۵۰۰لا /۷۴ + ۵۰۶۲۵۰۰/۵۴۷۶ = ۔ ۶۷۵۰۰ /۷۴ + ۵۰۶۲۵۰۰/۵۴۷۶ = ۔ ۵۴۷۶/ ۴۹۹۵۰۰۰ + ۵۴۷۶/ ۴۹۹۵۰۰۰ = ۷۶۵۰۰/۵۴۷۶ :۰ لا ۔ ۲۲۵۰/۷۴ = ۷۴/ ۸۱ء ۲۵۹ یہ جذر یہاں منفی ہے:۰ لا = ۲۲۵۰/۷۰ = ۷۴/ ۸۱ء ۲۵۹ = ۷۴/۱۹ء۱۹۹۰ = ۸۹۴ء۲۶ :۰ ی = ۱۰۶ ء ۳ وبوجہ دیگر مساوات درجہ اول سے اگرچہ جملہ قوت دوم پر مشتمل ہے، مساوات اولٰی کا جذر لیا :۰ لا ۷۵ ی = ۶۶۰۳ء۸ ی :۰ لا = ۶۶۰۳ ء ۸ (۳۰۔ لا) = ۸۰۹ء۲۵۹۔۶۶۰۳ء۸ لا :۰ ۶۶۰۳ء۹ لا= ۸۰۹ء ۲۵۹:۰ لا = ۸۰۹ء۲۵۹۔۔۔۔۔۔۶۶۰۳ء۹ = ۸۹۵ء ۲۶ ی = ۱۰۵ء۳ پھر اس کتاب کی عام عادت ہے کہ کچھ کہے گی دوسری جگہ کچھ ، مادوں میں ۱/۷۵ کی نسبت لی اور اوپر گزرا کہ جاذبیت قمر کو جاذبیت ۱۵ء بتایا ہے، اس تقدیر پر مساوات یہ ہوگی : ۳لا۲، = ۲۰ ی ، لا+ ی = ۳۰ :۰ ۳لا=۲۰ (۹۰۰۔۶۰لا + لا۲) = ۱۸۰۰۰ ۔ ۱۲۰۰ لا + ۲۰ لا ۲ :۰ ۱۷لا۲ ۔ ۱۲۰۰ لا= ۔ ۱۸۰۰۰ بلکہ لا ۔ ۱۲۰۰لا/۱۷ = ۱۸۰۰۰ /۱۷ :۰ لا۲ ۔ ۱۲۰۰لا/۱۷ +۳۶۰۰۰۰/۱۸۹ ۔ ۳۰۶۰۰۰۰ /۱۸۹ ۔ ۳۰۶۰۰۰۰/۱۸۹ = ۵۴۰۰۰/۱۸۹ :۰ لا ۔ ۶۰۰/۱۷ = ۱۷/۳۷۹ء۳۲ یہ جذر منفی ہے :۰ لا = ۶۲۱ء۳۶۷/ ۱۷ = ۶۲۵ء۲۱ :۰ ی =۳۷۵ء۸ یا ۳لا = ۲۰۵ (۳۰۔ لا ) :۰ ۷۳۲۰۵ء ۱ لا = ۴۷۲۱۳۶ء۴ :۰ (۳۰۔لا) = ۱۶۴۰۸۰ء۴ ۱۳ ۔ ۴۷۲۱۳۶ء لا :۰ ۲۰۴۱۸۶ء۶لا = ۱۶۴۰۸۰ء۱۳۴ :۰ لا = ۱۶۴۰۸۰ ء۱۳۴/۲۰۴۱۸۶ء ۶= ۶۳۵ء۲۱ :۰ ی = ۳۷۵ء۸ کس قدر فرق ہے کہاں تین مثل قطر کہاں آٹھ مثل ، ڈھائی لاکھ میل سے کم بعد میں چالیس ہزار میل کا تفاوت ، جاذبیت، قمر اگر ۱۵ ء تھی واجب کہ مادہ قمر بھی اتنا ہوتا نہ کہ ۱/۷۵ اور مادہ ۱/۷۵ تھا تو واجب کہ جاذبیت بھی اسی قدر ہوتی نہ کہ ۱۵ء کہ جاذبیت بحسب مادہ ہے، اگر کہیے ۱/۷۵، فقط مثال کے لیے فر ض کرلیا ہے۔ اقول : ہر گز نہیں ص۲۶۶ پر جو جدول دی ہے اس میں مادہ قمر مادہ زمین کا ۰۱۲۸ء بتایا ہے کہ تقریباً یہی ۱/۷۵ ہوتا ہے۔ ۱/۷۵ =۰۱۳ء۰ رفع سے ۱۲۸ ۰ء ۰ بھی ۰۱۳ء۰ ہے اور بفرض غلط اگر فرض غلط تھا تو واقعیت معلوم ہوتے ہوئے غلط فرض کیا معنی کیا واقع سے مثال نہ ہوسکتی مگر ہے یہ کہ واقعی نہ یہ نہ وہ ، ان لوگوں کی خیال بندیاں ہیں ۱۲ منہ غفرلہ۔

حیز وہی ہے کہ یہاں اس کی تحقیق سے غرض نہیں، تو حاصل یہ ٹھہرا کہ جب رائی اور پہاڑ دونوں قمر و ارض سے ایسے فاصلے پر ہوں کہ قمر کی طرف قطر ارض کا ۹ء۳ ہو اور زمین کی طرف اء۲۶ کہ ارض و قمر میں بعد قطر زمین کا تیس گناہ ہے۔ اس وقت ان دونوں پر قمر و ارض دونوں کی جاذبیت مساوی ہوگی تو دونوں اسی خط پر رہیں گے، نہ کوئی قمر کی طرف جاسکے گا نہ زمین کی طرف جھکے گا تو واجب ہے کہ اگر یہ کسی ترازو کے پلڑوں میں ہوں تو دونوں پلڑے کانٹے کی تول برابر رہیں۔ اور اگر رائی کا پلڑا ایک خفیف مقدار پر اس خط مساوات سے زمین کی طرف مائل ہو اور پہاڑ کا اسی خط پر تو پہاڑ وہیں قائم رہے گا اور رائی کا پلڑا اور جھکے گا کہ جذب زمین بقدر قرب بڑھے گا، پہاڑ کا پلڑا ایک خفیف مقدار جانبِ قمر مائل ہو اور رائی کا اسی خط پر تو رائی یہیں قائم رہے گی اور پہاڑ کا پلڑا اونچا ہوگا کہ اس پر جذب قمر بڑھے گا اور اگر رائی کا پلڑا خط سے اس طرف اور پہاڑ کا اس طرف ہوا جب تو رائی کا پلڑا جھکنے اور پہاڑ کا پلڑا اونچا ہونے کی کوئی حد ہی نہ ہوگی۔ زیادت کی ان اصورتوں میں اگر کوئی عذر ہو تو رائی اور پہاڑ کے ہم وزن ہونے میں تو کلام کی گنجاش ہی نہیں کیا عقلِ سلیم اسے قبول کرسکتی ہے؟ اگر کہیے جذب مساوی رہی پہاڑ خود وزنی ہے لہذا اسی کا پلڑا جھکے گا۔

اقول : اولاً دیکھو پھر بولے تمہارے یہاں وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے۔(۱۵) جب دونوں طر ف جذب مساوی ہو کر اثر جذب کچھ نہ رہا، ٭ پہاڑ میں وزن کہاں سے آیا۔

٭ اقول: وغیرہ پر جو نمبر یعنی ہندسہ ہے وہ یہاں سے ختم ہے قلمی نسخہ میں اس طرح نہیں ہے، عبدالنعیم عزیزی ۔

ثانیاً اگر پہاڑ خوردوزنی ہے تو کیا ، اس کا اور رائی کے دانے کا اتنا ہی فرق ہے کہ اس کا پلڑا جھکے نہیں ، نہیں وہ یقیناً اپنے وزن ہی سے زمین پر پہنچے گا، اور جس طرح وہاں جھکنے میں جذب کا محتاج نہ تھا زمین تک آنے بھی جذب کا محتاج نہ ہوگا۔ بلکہ اس کے اپنےذاتی وزن کی نسبت ہے، اسے زمین پر لائے گی تو ثابت ہوا کہ جذب باطل ہے ورنہ رائی کا دانہ پہاڑ سے بھاری ہوا، یہ جاذبیت کی خوبی ہے اور میل لیجئے تو چاہے رائی اور پہاڑ کو آسمانِ ہفتم پر رکھ دیجئے ہمیشہ ان میں وہی نسبت رہے گی جو زمین پر ہے کہ ان کا میل ذاتی نہ بدلے گا۔

رَدِّ بست و دوم : اقول: دونوں ہیأتوں کے اتفاق سے اعتدالین کی مغرب کو حرکت منتظمہ ہے اور ہم نمبر ۲۲ میں دلائل قاطعہ سے روشن کرچکے کہ وہ جاذبیت سے بن سکنا درکنار جاذبیت ہو تو ہر گز منتظمہ نہ رہے گی۔
رَدِّ بست وسوم : اقول: میل کلی ہر سال منتظم روش پر رُوبکمی ہے اسے بھی جاذبیت مختل کردے گی۔(۲۳)
رَدِّبست و چہارم : اقول: جاذبیت ہو تو زمین کے چھلوں کا نظام مختل ہوجائے اور ہر سال قطبین پر زمین زیادہ خالی ہوتی جائے۔
رَدّ بست وپنجم : اقول: تقاطع اعتدالین کا نقطہ تقاطع چھوڑ کر اونچا ہوجائے ۔

ردّبست و ششم : اقول: ہر سال قطر استوائی بڑھے۔
ردبست و ہفتم : اقول : زمین کی یہ شکل ہوجائے

یہ سب مطالب نمبر ۲۲ میں واضح ہوئے۔

دلائل نیوٹن ساز جاذبیت گداز :

ردّبست وہشتم : جب ترک اجسام اجزائے ثقیلہ بالطبع سے ہے اور اس کی تصریح خود نیوٹن ساز نے کی (۸) تو قطعاً جسم ثقیل بلاجذب جاذب خود اپنی ذات میں ثقیل ہے اور ثقیل نہیں مگر وہ کہ جانب ثقل جھکنا چاہے دو چیزوں میں جو زیادہ جھکے اسے دوسری سے ثقیل تر کہیں گے ۔ تو ثابت ہوا کہ یہ اجسام بذات خود بے جذب جاذب ثقل ہے۔ اس سے زیادہ میل طبعی کا ثبوت اور جاذبیت کا بطلان کیا درکار ہے جس کا خود مخترع جاذبیت نیوٹن کو اقرار ہے۔
ردّبست و نہم : اقول: ظاہر ہے کہ جذبِ زمین اگر ہو تو وہ نہیں مگر ایک تحریک قسری اور ہر جسم میں قوتِ ماسکہ ہے جسے حرکت سے ابا ہے اور اس کا منشا جسم کا ثقل وزن ہے ۔(نمبر۳) تو زمین جسے جذب کرے گی اس کا وزن جذب کی مقاومت کرے گا تو ضرور وزن ذات جسم میں ہے اور وزن ہی وہ شے ہے جس سے پلڑا جھکتا ہے تو میل ثقل طبیعت کا مقتضٰی ہے تو جذب لغو و بے معنی ہے، و بعبارۃ اخری بداہۃً معلوم کہ اجسام اپنے جذب کو مختلف قوت چاہتے ہیں، پہاڑ اس قوت سے نہیں کھینچ سکتا جس سے رائی کا دانہ، یہ اختلاف ان کی ثقل کا ہے جسم جتنا بھاری ہے اس کے جذب کو اتنی ہی قوت درکار ہے۔(۱۱) کہ ثقل خود جسم میں ہے قوتِ جذب سے پیدا نہیں بلکہ قوتِ جذب کا اختلاف اس پر متفرع ہے ، یہی میل طبعی ہے۔

دلائل بربنائے اتحاد و اثر جذب

نمبر ۱۲ میں گزرا کہ چھوٹے بڑے ، ہلکے بھاری تمام اقسام اجسام پر اثر جذب یکساں ہے، اگر موافقت ہوا نہ ہوتی تو سب جسم ایک ہی رفتار سے اُترتے اور ہیت جدیدہ کو اس پر اتنا وثوق ہے کہ اسے مشاہدہ سے ثابت بتاتی ہے۔ مشاہدہ سے زیادہ اور کیا چاہیے۔ یہ دلائل اسی نمبر کی بناء پر ہیں۔

رَدِّ سیم : اقول: اجسام کا نیچے آنا جذب سے ہوا اور اس کا اثر سب پر یکساں ہو، اور وزن اسی سے پیدا ہوتا ہے ۔(۱۵) تو لازم ہے کہ تمام اجسام کا وزن برابر ہو، رائی اور پہاڑ ہم وزن ہوں کانٹے، ترازو ، باٹ سب آلاتِ وزن چھوٹے ہوجائیں، بازاروں کا نظام درہم برہم ہوجائے اگر کہیے وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے اور جذب بحسب مادہ مجذوب ہے۔(۱۱) تو جس میں مادہ زیادہ اس پر جذب زیادہ اور جس پر جذب زیادہ اس کا وزن زیادہ ۔

اقول: اولاً : ۱۱ ۔ مردود محض ہے کما تقدم۔
ثانیاً واھی وزنوں سے کام نہیں چلتا۔ وزن زیادہ ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ نیچے زیادہ جھکے جو زیادہ نہ جھکے جسم میں کتنا ہی بڑا ہو وزن میں زیادہ نہیں ہوسکتا، جیسے لوہے کا پنسیر اور پان سیررُوئی کے گالے، اور زیادہ جھکنا تیزی رفتار کو مستلزم ۔ ظاہر ہے کہ مثلاً دس گز مسافت سے نیچے اترنے والی دو چیزوں میں جو زیادہ جھکے گی اس مسافت کو زیادہ طے کرے گی کہ یہ مسافت جھکنے ہی سے قطع ہوتی ہے۔ جس کا جھکنا زیادہ اس کا قطع زیادہ، تو اسی کی رفتار زیادہ اور ہیئت جدیدہ کہہ چکی کہ جذب پر چھوٹے بڑے ہلکے بھاری میں مساوی رفتار پیدا کرتا ہے کہ خارج سے روک نہ ہو تو باقتضائے جذب سب برابر اتریں تو جذب سب کو یکساں جھکاتا ہے، اور یہی حامل وزن تھا روشن ہوا کہ جذب سب میں یکساں وزن پیدا کرتا ہے اور وزن نہیں مگر جذب سے، تو قطعاً تمام اجسام رائی اور پہاڑ ہم وزن ہوئے اس سے بڑھ کر اور کیا سفسطہ ہے، لاجرم جذب باطل بلکہ اجسام میں خود وزن ہے اور وہ اپنے میل سے آتے ہیں، جو بڑے ہیں چھوٹے سے زائد، لہذا اس کی رفتار زائد۔

رَدّ سی ویکم : اقول: ہر عاقل جانتا ہے کہ نیچے اترنے والے جسم کا ہوا کو زیادہ چیرنا زیادہ جھکنے کی بناء پر ہوگا، اگر اصلاً نہ جھکے اصلاً نہ چیرے گا کہ جھکے کم شق کرے گا زیادہ تو زیادہ لیکن ثابت ہوچکا کہ جذب سب اجسام کو برابر جھکاتا ہے تو سب ہوا کو برابر شق کریں گے پھر ہوا سے اختلاف کرنا دھوکا ہے تو واجب کہ رائی اور پہاڑ ایک ہی چال سے اتریں، اور یہ جنون ہے، ہلکا بھاری کہنا محض مغالطہ ہے، بھاری وہ زیادہ جھکے ، جب کوئی آپ نہیں جھکتا سب کو جذب جھکاتا ہے او ر وہ سب کو برابر جھکاتا ہے ، تو نہ کوئی ہلکا ہے کہ ہوا پر کم دباؤ ڈالے نہ بھاری کہ زیادہ۔
رَدّ سی ودوم : ہر عاقل جانتا ہے کہ مزاحمت طلب خلاف سے ہوتی ہے جو چیز نیچے جھکنا چاہے اور تم اسے اوپر اٹھاؤ کہ مزاحمت کرے گی اور جو جتنا زیادہ جھکے گی زیادہ مزاحم ہوگی۔ اور دو چیزیں کہ برابر جھکیں مزاحمت میں بھی برابر ہوں گی کہ مخالف مساوی ہے اور ابھی ثابت ہوچکا کہ نیچے جھکنے میں تمام اجسام برابر ہیں تو کسی میں دوسرے سے زائد مزاحمت نہیں تو جس طاقت سے تم ایک پنیسرا اٹھا لیتے ہو اسی خفیف رازسے پہاڑ کیوں نہ اٹھالو، اور اگر پہاڑ نہیں اٹھتا تو کنکری کیسے اٹھا لیتے ہو؟ اس پر بھی تو جذب زمین کا ویسا ہی اثر ہے جیسا پہاڑ پر، یہاں تو ہوا کی روک کا بھی کوئی جھگڑا نہیں اور وزن کی گند اوپر کٹ چکی کہ اس میں وزن کے سوا کچھ باقی نہیں۔
ردّسی وسوم : اقول: گلاس میں تیل ، ہوا اور پانی ڈالو۔ تیل کیوں اوپر آتا ہے اور جذب کا اثر تو دونوں پر ایک سا ہے اگر دھارکے صدمہ سے ایسا ہوتا ہے تو پانی پر تیل ڈالنے سے پانی کیوں نہیں اوپر آجاتا۔
رَدّسی و چہارم : اقول: کنکری ڈوبتی ہے، لکڑی تیرتی ہے، یہ کس لیے ؟اثر تو یکساں ہے۔
رَدّ سی وپنجم : اقول: اب بخارجاذبیت سے بخار نکالے گا اور دھواں اس کے دھوئیں بکھیر ے گا یہ اوپر کیوں اٹھتے ہیں، ہوا انہیں دباتی ہے یہ ہوا کو کیوں نہیں دباتے ، اثر تو سب پر برابر ہے، واجب کہ بخار و دخان زمین سے لپٹے رہیں بال بھر نہ اٹھیں۔

ردّسی و ششم : اقول: پہاڑ گرے تو دور تک زمین کو توڑتا اس کے اندر گھس جائے گا۔ یہ پہاڑ کی نہ اپنی طاقت ہے کہ اس میں میل نہیں نہ اپنا وزن کہ وزن تو جذب سے ہوا، جذب کا اثر جیسا اس پر ویسا ہی تم پر ، تم اوپر سے گر کر زمین میں کیوں نہیں دھنس جاتے۔ اگر کہے اس کا سبب صدمہ ہے کہ پہاڑ سے زیادہ پہنچتا ہے۔
اقول: صدمہ کو دو چیزیں درکار، شدتِ ثقل وقوتِ رفتار، اثر جذب کی مساوات دونوں کو اس میں برابر کرچکی کما عرفت ( جیسا کہ تُو جان چکا ہے۔ت) پھر تفاوت کیا معنی ! بالجملہ ہزاروں استحالے ہیں۔
یہ ہیں تحقیقاتِ جدیدہ اور ان کے مشاہدات چشم دیدہ، ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

دلائل بر بناءِ جذب کُلی

ہم نمبر ۔۱۰ و ۱۱ میں روشن کر آئے کہ جاذبِ طبعی پر مجذوب کو اپنی پوری قوت سے جذب کرتا ہے اور یہ کہ قوت غیر شاعرہ کا جذب بحسب زیادت کافی کہ مجذوب زائد ہونا محض جہالت سفسطہ ہے اور ہیأت جدیدہ کے نزدیک ہر جسم میں اس کے مادے کے لائق ماسکہ ہے جس کو حرکت سے ابا ہے وہ اسی قدر محرک کی مزاحمت کرتا ہے۔ دلائل آئندہ کی انہیں روشن مقدمات پر بنا ہے اور وہیں ان کی آسانی کو تسلیم کرلیا ہے کہ ہر شیئ کو کُل کُرہ جاذب نہیں بلکہ مرکز تک اُس کا جتنا حصّہ سطح مجذوب کے مقابل ہو کہ ساری زمین اپنی پوری قوت سے ہر شے کو جذب کرے تو اُن پر اور بھی مشکل ہو، ولہذا التساوی قوت جذب کے لیے مجذوبات کی سطح مواجہ زمین کی مساوات لی۔

ردّسی وہفتم : اقول: بداہۃً معلوم اور ہیأتِ جدیدہ کو بھی اقرار کہ ہوا اور پانی اُن میں اُترنے والی چیزوں کی ان کے لائق مزاحمت کرتے ہیں، پَر اور کاغذ کی زائد اورلوہے اور پتھر کی کم۔ یہ دلیل قاطع ہے کہ ان کا اترنا اپنا فعل ہے یعنی میل طبعی سے نہ فعل زمین کے اس کے جذب سے، اس لیے کسی فعل میں مزاحمت جس پر فعل ہورہا ہے اس کی مخالفت نہیں، بلکہ جو فعل کررہا ہے اس کے مقابلہ ہے۔ اب چار صورتیں ہیں۔
مزاحم اگرفاعل سے قوی ہو اور فعل خلاف چاہے فعل واقع کرے گا اور صرف روک چاہے یا فاعل سے قوت میں مساوی ہوا تو فعل ہونے نہ دے گا اور خفیف ہوا مگر معتدبہ تو دیر لگائے گا یعنی فعل تو حسب خواہش فاعل ہو مگر بدیر، اور معتدبہ کو اصلاً اثر مزاحمت ظاہر نہ ہوگا۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ زمین سے گزبھر اونچی ہوا آدھا گز بلکہ انگل بھر ہی اونچا پانی اجسام کی مزاحمت کرتے ہیں۔ کہاں ان کی ہستی اور کہاں ان کے مقابل چار ہزار میل تک زمین جس کا ایک ٹکڑا کہ ان کے برابر کا ہو ان سے کثافت وطاقت میں درجوں زائد ہے نہ کہ وہ پورا حصہ، یقیناً یہ اس کے سامنے محض کالعدم ہیں۔ ہرگز اس کے فعل میں نام کو مزاحم نہیں ہوسکتے۔تو روشن ہوا کہ اجسام کا اترنا زمین کا فعل نہیں بلکہ خود اُن کا جن کی نسبت سے ہوا اور پانی چاروں قسم کے ہوسکتے ہیں۔
ردّسی و ہشتم : اقول: مقناطیس کی ذرا سی بٹیا اور کہر باء کا چھوٹا سا دانہ لوہے اورتنکے کو کھینچ لیتے ہیں اگر جذب زمین ہوتی تو ان سے مقابل چار ہزار میل پر جو حصہ زمین ہے یہ خود ان جاذبوں کو اور ان سے ہزاروں حصے زائد کو یہ نہایت آسانی سے کھینچ لے جائے۔ اس کے سامنے ان کی کیا حقیقت تھی کہ یہ اس سے چھین کر اپنے سے ملالیتے۔ لاجرم قطعاً یہ زمین سے اتصال لوہے اور تنکے کا اپنا فعل تھا جس پر مقناطیس وکہرباء کی قوت غالب آگئی۔

ردّ سی و نہم : اقول: پکا سیب ٹپک پڑتا ہے ، اور کچا اگرچہ حجم میں اس سے زائد ہو نہیں گرتا اور شک نہیں کہ لوہے کا ستون جس کی سطح مواجہ اس سیب کے برابر ہو اگرچہ دس ہزار من کا ہو، زمین اُسے کھینچ لے گی، یہاں جس طاقت سے دس ہزار من لوہے کا ستون باآسانی کھنچ آئے گا۔ کچے سیب کا شاخ سے تعلق نہ چھوٹ سکے گا تو واجب کہ کچے پکے پھل سب یکساں ٹوٹ پڑیں، لیکن ایسا نہیں ہوتا تو یقیناً جذبِ زمین باطل، بلکہ سب اپنے میل سے آتا ہے۔ پکے کا میل اس کے ضعیف تعلق پر غالب آیا ٹوٹ پڑاکچے کا اس کے قوی تعلق پر غالب نہ آسکا آویزاں رہا۔
ردّچہلم : اقول: آدمی کے پاؤں کی اتنی سطح ہے اس مسافت کا ستون آہنی دس ہزار گزارتقاع کا آدمی کیا۔ ہاتھی کی قوت سے بھی نہ ہل سکے گا اور بوجہ مساوات سطح مواجہ آدمی پر بھی جذب زمین اتنا ہی قوی ہے تو واجب کہ انسان کو قدم اٹھانا محال ہو دوڑنا تو بڑی بات ہے۔ یونہی ہر جانور کا چلنا، پرندکا اڑنا سب ناممکن ہوا لیکن واقع ہیں تو جذب باطل۔

رَدّ چہل ویکم: پانی اور تیل ہم وزن لے کر گلاس میں تیل ڈالو اوپر سے پانی کی دھار، پانی نیچے آجائے گا خود ہی ہیئات جدیدہ ( ط ص ۱۱۴۔۱۲) کو مسلم کہ اس کی وجہ پانی کا وزن ہونا ہے۔ یہ کلمہ حق ہے کہ بے سمجھے کہہ دیا اور جاذبیت کا خاتمہ کرلیا ، بربنائے جاذبیت ہر گز یہ پانی تیل سے وزنی نہیں۔ وزن جذب سے ہوتا ہے تو وزن جس پر جذب زیادہ ہو وہ اس پانی پر کم ہے کہ ایک کو وہ نسبت روغن زمین سے دور جسے تم نے نمبر ۱۶ میں کہا تھا کہ ادھر کا پانی اگرچہ زمین سے متصل ہے نسبت زمین قمر سے دور ہے دوسری دھار کی مساحت اس گلاس میں پھیلے ہوئے تیل سے کم تو اس کا جاذب چھوٹا کثرت مادہ سے وزنی بتاتے اس کا علاج ہموزن لینے نے کردیا۔ بلکہ وہ پورا پانی پڑنے سے بھی نہ پائے گا تو تیل کو اچھال دے گا تو ہر طرح پانی ہی کم وزنی ہے۔ اور تیل پہلے پہنچا تو اس پر واجب تا کہ پانی اوپر ہی رہتا۔ مگر جاذبیت ابطال کو نیچے ہی جاتا ہے۔ اب کوئی سبیل نہ رہی کہ سوا اس کے کہ اپنے مزعوم نمبر ۸ یعنی اتحاد ثقل ووزن کو استعفٰے دو اور کہو کہ اگرچہ پانی ہم وزن بلکہ کم وزن ہو ثقل طبعی میں تیل سے زائد ہے۔ لہذا اس سے اسفل کا طالب ہے اور اسے اعلٰی کی طرف دافع، اب ٹھکانے سے آگئے اور ثابت ہوا کہ جاذب باطل و مہمل اور میل طبعی مسجّل۔
ردّچہل و دوم : اقول: جذب زمین ہو تو واجب کہ جسم میں جتنا مادہ کم ہو اسی قدر روزن زائد ہو اور جتنا زائد اسی قدر کم مثلاً گز بھر مربع کا غذ کے تختے سے گز بھر مکعب لوہے کی سل بہت ہلکی ہو اور وہ سل جس کی سطح مواجہ ایک گز مربع اور ارتفاع سو گز ہے اور زیادہ خفیف ہو اور جتنا ارتفاع زائد اور لوہا کثیر ہوتا جائے اتنا ہی وزن ہلکا ہوتا جائے یہاں تک کہ کاغذ کا تختہ اگر تولہ بھرکا تھا تو وہ عظیم لوہے کی سل رتی بھر بھی نہ ہو نہ رتی کا ہزاروں لاکھوں حصہ ہو، وجہ سنئے جسم میں جتنا مادہ زیادہ ماسکہ زیادہ اور جتنی ماسکہ زیادہ جاذب کی مزاحمت زیادہ اور جتنی مزاحمت زیادہ اتنا ہی جذب کم اتنا ہی وزن کم کہ وزن تو جذب ہی سے پیدا ہوتا ہے جو کم کھینچے گا کم جھکے گا اور کم جھکنا ہی وزن میں کمی ہونا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جتنا مادہ زیادہ اتنا ہی وزن کم۔ بالجملہ ہر عاقل جانتا ہے کہ قوی پر اثر ضعیف ہوتا ہے اور ضعیف پر قوی جب دو چیزوں کے جاذب مساوی ہوں ان کی قوتیں مادی ہوں گی اور مساوی قوتوں کا اثر اختلاف مادہ مجذوب سے بالقلب بدلے گا یعنی مجذوب میں جتنا مادہ زائد اتنا اس پر جذب کم ہوگا لاجرم اتنا ہی وزن کم ہوگا اس سے بڑھ کر اور کیا استحالہ درکار ہے، بقیہ کلام ردّ چوالیس میں آتا ہے۔
ردّچہل وسوم : اقول: جذب جس طرح اوپر سے نیچے لانے کا سبب ہوتا ہے، نیچے سے اوپر اٹھانے کا مزاحم ہوتا ہے کہ جاذب کے خلاف پر حرکت دینا ہے۔ پہلوان اور لڑکے کی مثال ردّ اڑتالیس میں آتی ہے اور ثابت ہوچکا کہ جتنا مادہ کم اتنا ہی جذب قوی تو واجب کہ ہزار گز ارتفاع والی لوہے کی سِل ایک چٹکی سے اٹھ آئے، جیسے کاغذ کا تختہ، اور کاغذ کا تختہ سو پہلوانوں کے ہلائے نہ ہلے۔
جیسے وہ لوہے کی سِل غرض جاذبیت سلامت ہے تو زمین و آسمان تہ و بالا ہو کر رہیں گے، تمام نظامِ عالم منقلب ہوجائے گا۔

رَدّ چہل و چہارم : اقول: واجب کہ وہ کاغذ کا تختہ اُس ہزار گز ارتفاع والی لوہے کی سِل سے بہت جلد اترے کہ جتنا مادہ کم اتنا ہی جذب زائد اتنا ہی جھکنا زائد ، اور جتنا جھکنا زائد اُتنا ہی اترنا جلد حالانکہ قطعاً اس کا عکس ہے تو واضح ہوا کہ اترنا جذب سے نہیں بلکہ ان کی اپنی طاقت سے جس میں مادہ زائد میل زائد تو جھکنا زائد تو اترنا جلد، رہا مزاحمت ہوا کا عذر (۱۲)
اقول اولاً ابھی ہم ثابت کرچکے کہ ہوا میں اصلاً تابِ مزاحمت نہیں۔
ثانیاً بالفرض ہو تو وہ باعتبار سطح مقابل ہوگی جس کا ہیأت ( عہ۱) جدیدہ کو اعتراف ہے اور سطح مقابل مساوی دونوں پر مزاحمتِ ہوا یکساں اور کاغذ پر جذب اُس سل سے ہزاروں حصے زائد تو اس کا جلد اترنا واجب، اگر کہیے جذب سے وزن بحسبِ مادہ پیدا ہوتا ہے جس میں جتنا مادہ زائد اُسی قدر اس میں وزن زیادہ پیدا ہوگا اُسی قدر زیادہ جھکے گا کہ وزن موجبِ تسفل ہوگا۔ یہاں سے نمبر۴۲ تا ۴۴ کا جواب ہوگیا۔

عہ۱: ط ص ۱۲ ۔ ہوا اجسام کواترتے وقت موافق انداز سے ان کی مقدار کامقابلہ کرتی ہے نہ کہ موافق ان کے وزن کے مزاحمت ایک قد کی گیند چمڑے کی یا لوہے کی ہوبرابر ہوگی ۔اھ۱۲۔

اقول: یہ محض ہوس خام ہے، اولاً کہ وزن جذب سے پیدا ہوگا اس کی خفیف نہیں ،مگر جھکنا،کہ بلاواسطہ جذب کا اثر ہے، نہ یہ کہ جذب مادہ میں کوئی صفت جدید پیدا کرے جس کا نام وزن ہواور حسب مادہ پیدا ہو اور اب وہ صفت جھکنے کا اقتضا کرے، وہاں صرف چار چیزیں ہیں مادہ اور اس کے ماسکہ اور اس کے موافق مزاحمت اور چوتھی چیز مطاوعت یعنی اثر جذب سے متاثر ہو کر جھکنا۔ پہلی تین چیزیں جذب سے نہیں صرف یہ چہارم اثر جذب ہے اور بلاشبہ خود جذب ہی کا اثر ہے، نہ کہ جذب نے تو نہ جھکایا۔ بلکہ اس سے کوئی اور پانچویں چیز پیدا ہوئی وہ جھکنے کی مقتدی ہوئی ایسا ہوتا اور وہ پانچویں جسے اب وزن کہتے ہو اثر جذب سے بحسبِ مادہ پیدا ہوتی تو یہاں دو سلسلے قائم ہوتے۔
اوّل جتنا مادّہ زائد ماسکہ زائد تو مقاومت زائد تو اثر جذب کم ان میں کوئی جملہ ایسا نہیں جس میں کسی عاقل کو تامل ہوسکے، اور اب یہ ٹھہرا جتنا مادہ زائد وزن زائد تو جھکنا زائد۔
دوم جتنا مادہ کم ماسکہ کم تو مقاومت کم تو اثر جذب زائداور اب یہ ہوا کہ جتنا مادہ کم وزن کم تو جھکناکم۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جتنا مادہ زائد اثر جذب کم اور جھکنا زیادہ اور جتنامادہ کم اثر جذب زائد اور جھکنا کم۔تو جھکنا اثر ِ جذب کا مخالف ہوا کہ اس کے گھٹنی سے بڑھتا اور بڑھنے سے گھٹتا ہے۔ کوئی عاقل اسے قبول کرسکتا ہے، اثر جذب جھکنے کے سوا اور کس جانور کا نام تھا اس کا اثر شیئ کو اپنی طرف لانا اور قریب کرنا ہے تو زیادت قرب اس کی زیادت ہے۔، اور کمی کمی اور جب مجذوب اوپر ہو تو قُرب نہ ہوگا مگر جھکنے سے تو زیادہ جھکنا ہی اس کی زیادت ہے۔ اور کم جھکنا بھی اس کی کمی نہ کہ عکس کہ بداہۃً باطل ہے۔
ثانیاً بفرض غلط ایسی بدیہی بات باطل مان لی جائے تو اب بھی ان تینوں نمبروں سے رہائی نہیں، اب نمبر ۴۲ کی یہ تقریر ہوگی کہ کاغذ کا تختہ اور وہ دس ہزار گز ارتفاع والی لوہے کی سل، (تول کانٹے کی) ہموزن ہوں۔
اقول: وجہ یہ کہ جذب اختلاف مادہ مجذوب سے بالقلب بدلے گا یعنی جتنا مادہ زائد جذب کم، کما تقدم، اور وزن جذب سے پیدا ہوتا ہے۔(۵) اور مادہ جسم سے بالا ستقامت بدلے گا یعنی جتنا مادہ زائد وزن زائد، جذب وزن کا سبب ہے۔ سبب جتنا ضعیف ہوگا مسبب کم اور مادہ وزن کا محل ہے۔ محل جتنا وسیع ہوگا حال زیادہ ۔ تو بحال اتحاد جاذب پر دو جسم میں وزن برابر رہے گا اگرچہ مادے کتنے ہی مختلف ہوں۔ لوہے کی سِل میں بتقاضائے کثرت مادّہ جتنا وزن بڑھنا چاہیے بتقاضائے ضعف جذب اتنا ہی گھٹنا لازم اور کاغذ کے تختے میں بوجہ قلت مادہ جتنا وزن گھٹنا چاہیے بوجہ قوتِ جذب اتنا ہی بڑھنا لازم ہے کہ یہ ضعف وقوت اور وہ کثرت و قلت دونوں بحسب مادہ ہیں۔ اسے دو رنگتوں سے سمجھو کہ ایک دوسرے سے دس گناہ گہری ہے گہری میں ایک گز کپڑا ڈبویا اس پر دس گنا رنگ آیا ہلکی میں دس گز کپڑا ڈالا اس پر گہرا رنگ آیا لیکن ہر گز پر ایک حصہ ہے۔ تو مجموع پر دس حصے ہوا کہ اول کے برابر ہے۔ یونہی فرض کرو ایک حصہ جذب سے ایک حصہ مادہ میں ایک اس پر وزن پیدا ہوتا ہے تو دس حصے جذب سے ایک حصہ مادہ میں دس سیرہوگا اور ایک حصہ جذب سے اور دس حصے مادہ میں بھی دس سیر کہ حصہ جذب سے ہر حصہ مادہ میں ایک سیر ہے تو ایک حصہ مادہ میں دس جذب اور دس حصے مادہ میں ایک جذب سے حاصل دونوں میں دس سیر وزن ہوگا اور نمبر ۴۳ میں یہ کہا جائے گا کہ جس آسانی سے کاغذ کے تختے کو زمین سے اٹھالیتے ہو اس ہزاروں گز ارتفاع والی آہنی سِل کو بھی اسی آسانی سے اٹھا سکو جس طرح وہ سِل ہزار آدمیوں سے ہل بھی نہیں سکتی کاغذ کاتختہ بھی جنبش نہ کھاسکے گا۔ کہ دونوں کا وزن برابر ہے اور نمبر ۴۴ میں یہ کہ کاغذ اور وہ آہنی سل دونوں برابر اتریں اور لوازم سب باطل ہیں۔ لہذا جاذبیت باطل، غرض یہاں دو نظریے ہوئے ایک حقیقت بربنائے جاذبیت کہ جسم میں جتنامادہ زائد اتنا ہی وزن کم۔ دوسرے اس باطل کے فرض پر یہ کہ جب جاذب مساوی ہوں تو سب چھوٹے بڑے اجسام ہموزن ہوں گے اور دونوں صریح باطل ہیں تو جاذبیت باطل،

رَدچہل و پنجم: اقول: مساوی سطح کی تین لکڑیاں بلندی سے تالاب میں گرتی ہیں، ایک روئے آب پررہ جاتی ہے۔ دوسری جیسے عود غرقی تہ نشین ہوتی ہے۔تیسری پانی کے نصف عمق تک ڈوب کر پھر اوپر آتی اور تیرتی رہتی ہے۔یہ اختلاف کیوں؟ ا س کاجواب کچھ نہ ہوگا، مگر یہ کہ ان کے مادوں کا اختلاف جس میں مادّہ سب سے زائد تھا تہ نشین ہوئی، جس میں سب سے کم تھا روئے آب پر رہی، اور متوسط متوسط، مگر بربنائے جاذبیت اس جواب کی طرف راہ نہیں، حق خفیف پر تو عکس لازم تھا کہ جس میں مادہ زائد اس پر جذب کم اور اسی کا وزن کم تو اس کو روئے آب پر رہنا چاہیے تھا اور جس میں مادہ سب سے کم اس کا تہ نشین ہونا اور اس فرض باطل پر کہا جائے گاکہ مختلف مادوں پر مساوی جذب مساوی پیداکرے گا پھر اختلاف کیوں؟

ردّچہل وششم: اقول: تیسری لکڑی کا نصف عمق سے آگے نہ بڑھنا کیوں ؟ زمین جس قوت سے اُسے کھینچ کر لائی تھی اب بھی اسی قوت سے کھینچ رہی ہے کہ ہنوز منتہٰی تک وصول نہ ہوا ملا آب کی مقاومت ردّ سیم میں باطل ہوچکی اور ہو بھی تو وہ سطح آب سے ملتے ہی تھی۔ جب جاذب واحد مقاوم واحد بلکہ اب جذب اقوٰی ہے کہ زمین سے قرب بڑھ گیا اور مقاومت کم ہے کہ ملاء آب آدھا رہ گیا تو آگے شق نہ کرنا کیا معنٰی، اگر کہئے اس کا پانی کے اندر جانا جذب زمین سے نہ تھا بلکہ اس صدمہ کا اثر جو اسکے گرنے سے پانی کو پہنچا پہلی لکڑی نے پانی کو اتنا صدمہ نہ دیا کہ اسے شق کرتی۔ دوسرے نے پورا صدمہ دیا اور تہ تک پہنچی۔ تیسری متوسط تھی متوسط رہی۔
اقول اولاً : جذب مان کرجانب اسفل حرکت کو جذب سے نہ ماننا سخت عجب ہے صدمہ اس حرکت ہی نے تو دیا کہ زمین اسے بقوت کھینچ کر لائی تھی اسی قوت نے نصف پانی شق کیا آگے کیوں تھک رہی ۔ اگر زمین میں یہیں تک لانے کی قوت تھی تو دوسری لکڑی کو کیسے تہ تک لے گئی۔
ثانیاً صدمہ کے لیے دو چیزیں درکار، شدت ثقل متصادم اور اس کی قوتِ رفتار، پتے کو کتنی ہی قوت سے زمین پر مارو یا کیسے ہی بھاری گولے کو زمین پر آہستہ سے رکھ دو صدمہ نہ دے گا لیکن اگر گولے کو قوت سے زمین پر پٹکوصدمہ پہنچائے گا اور اس میں قوتِ رفتار کو شدتِ ثقل سے زیادہ دخل ہے بندوق کی گولی جو کام دے گی اس سے دس گنا سیسا ہاتھ سے پھینک کر مارو وہ کام نہیں دے سکتا۔
صورتِ مذکور ہ میں جاذبیت کی بدنصیبی سے قوتِ رفتار و شدتِ ثقل دونوں میل طبعی کے ہاتھ بکے ہوئے ہیں۔ جب اجسام اپنی ذات میں ثقل رکھتے اور اپنی قوت سے نیچے آتے ہیں اور وہ مختلف ہیں تو جس میں ثقل زائد اس میں میل زائد، اُسی کی رفتار تیز، اسی کا صدمہ قوی، اور کم میں کم،اوسط میں اوسط، اور بربنائے جاذبیت حق حقیقت لیجئے تو پہلی میں مادہ سب سے کم تو اس پر جذب سب سے زائد، تو اسی کی رفتار قوی، اور وہی زیادہ بھاری ، تو اس سے صدمہ سب سے پہلے اقوٰی پہنچا تھا اور دوسری میں مادہ سب سے زائد تو جذب سب سے کم تو رفتار سب سے ضعیف اور وزن سب سے ہلکا تو اُسی سے صدمہ نہ پہنچنا تھا اور اس فرض باطل پر سب پر اثر برابر پھر اختلافِ صدمہ یعنی چہ۔

ردّچہل و ہفتم: اقول: تو اس تیسری لکڑی کا ڈوب کر اچھلنا کیوں؟ اس میں خود اوپر آنے کی میل نہیں(۲) ورنہ لکڑیاں اڑتی پھرتیں نہ یہ زمین کا دفع ہے کہ وہ تو جذب کررہی ہے نہ کسی کوکب کا جذب کہ وہ ہوتا تو جب اس سے قریب اور زمین سے دور تھی اور اس وقت گرنے نہ دیتا نہ کہ اسی وقت خاموش بیٹھا رہا جب زمین کھینچ کر اسے نصف آب تک لے گئی اور جاذبیت ارض بوجہ قرب زیادہ ہوگئی اس وقت جاگا اور اپنی مغلوب جاذبیت سے اوپر لے گیا اور ایسا ہی تھا تو پہلی لکڑی اوپرکیوں نہیں اٹھالیتا۔پانی کے چیرنے سے ہوا کا چیرناآسان ہے، غرض کہ کوئی صورت نہیں سوا اس کے کہ پانی نے اسے اچھالا اور اپنے محل سے واقع کرکے اوپر لاڈالا۔ پانی نہ ہوتا تو زمین تینوں کو کھینچ کر اپنے سے ملالیتی ۔ اب سوال یہ ہے کہ پانی بھی تو زمین ہی کا جز ہے (۱۸) تو وہ بھی جاذب ہوتا نہ کہ دافع ، اگر کہئے یہ دافع صدمہ کا جواب ہے ،جسم کا قاعدہ ہے کہ دوسرا جسم جب اس سے مقاومت کرتا ہے یہ اس کو اتنی ہی طاقت سے دفع کرتا ہے جتنے زور کا صدمہ تھا۔ یہ دفع زمین میں بھی ہے۔ گیند جتنے زور سے اُس پر مارو اتنے ہی زور سے اوپر اٹھے گی۔
اقول اولاً : صدمہ کا خاتمہ اُوپر ہوچکا کہ حق حقیقت پر بالعکس ہونا تھا اور فرض باطل پہ مساوی، اور یہ کہ اس کا ماننا میل طبعی پر ایمان لانا اور جاذبیت کو رخصت کرنا ہے اور جب صدمہ نہیں جواب کا ہے کا۔
ثانیاً دوسری لکڑی نے تو اتنا صدمہ دیا کہ تہ تک شق کرگئی اتنی ہی قوت سے اسے کیوں نہ دفع کیا۔
ثالثاً پانی جواباً دفع چاہتا اور زمین جذب کررہی ہے، یہ پانی اس کی کیا مزاحمت کرسکتا نہ کہ اس پر غالب آجائے اُس سے چھین کر اوپر لے جائے۔
رابعاً پانی کو صدمہ تو اس وقت پہنچا جب لکڑی اس کی سطح سے ملی اُس وقت جواب کیوں نہ دیا؟ اگر کہیے پانی لطیف ہے اس وقت تک گرنے والی لکڑی کی طاقت باقی تھی پانی شق کرتا مگر جب اس کی طاقت پوری ہوئی اس وقت پانی نے جواب دیا۔
اقول: لکڑی کی طاقت جذبِ زمین سے ہوتی تو نصف پانی تک جا کر تھک نہ رہتی ضرور جذب نہیں بلکہ لکڑی اپنی طاقت سے آئی جو اس کی ہستی ہے پھر نصف پانی چیر سکی پھر پانی نے پلٹا دیا۔ بالجملہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں سوا اس کے کہ یہ لکڑی پہلی لکڑی سے بھاری ہے۔ اس نے اپنی متوسط قوت سے نصف آب تک مداخلت کی مگر پانی سے ہلکی ہے اور ہر بھاری چیز اسفل سے اپنا اتصال چاہتی ہے۔، اس سے ہلکی چیز اگر پہلے پہنچی ہوتی ہے اور یہ قدرت پائے تو اُسے اوپر پھینک کر خود وہاں مستقر ہوتی ہے جیسے گلاس کے تیل اور پانی کی مثال میں گزرا۔ لہذا دوسری لکڑی کو نہ پھینکا کہ وہ پانی سے بھاری تھی اسفل اسی کا محل ہے تو ثابت ہوا کہ ثقیل طالب سفل ہے ، اور اثقل طالبِ اسفل، اُسی کا نام میل طبعی ہے، تو جاذبیت باطل و مہمل، یہ دونوں باتوں سے ردجا ذبیت ہوا، ایک تو یہی ، دوسری یہ کہ ان میں خود وزن ہے جو جانبِ اسفل جھکاتا ہے، جس پر اس اختلاف کی بناء ہے پھر جاذبیت کے لیے اختصار اً قصر مسافت کیجئے تو وہی جملہ کافی ہے کہ بداہۃً معلوم کہ پہلے کا اوپر ٹھہرنا اور تیسری کا نصف آب تک جا کر پلٹنا دونوں باتیں قطعاً خلاف اصل مقتضی ہیں اور یہ نہیں مگر مزاحمت آب سے پانی نہ ہوتا تو یقیناً تینوں لکڑیاں تہ تک پہنچیں اور بلاشبہ اس سے ہزار حصے زائد پانی فصلِ زمین کا مزاحم نہ ہوسکتا تھا تو قطعاً یہ اقتضائے زمین نہیں بلکہ خود ان لکڑیوں کی مختلف قوت، تو جاذبیت باطل و مہمل اور میل طبعی مسجل ، والحمد ﷲ العلی العظیم الاجل فضل اﷲ تعالٰی سیدنا مولینٰا محمداً واٰلہ وصحبہ وسلم وبجل اٰمین۔

دلائل قدیمہ

بفضلہ تعالٰی ردّنافریت میں وہ بارہ اور ردجاذبیت میں سینتالیس فیض قدیر سے قلب فقیر پر فائض ہیں۔ نافریت پر تو کسی کتاب میں بحث اصلاً نظر سے نہ گزری۔
جاذبیت پر بعض کلام دیکھا گیا وہ صرف ایک دلیل جس کی ہم توجیہ بھی کریں اور طرز بیان سے ایک کو تین کردیں۔

ردّ چہل و ہشتم : زمین میں جذب نہ ہو تو چاہیے کہ زمین کا کوئی جز اس سے جدا نہ کرسکیں کہ قوت زمین کا مقابلہ کون کرے( مفتاح الرصد)
اقول: اسی جذب کلی پر مبنی ہے کہ برتقدیر جذب وہی قرینہ عقل تھا اور ہماری تقریرات سابقہ سے واضح کہ جتنا پارہ زمین لیا جائے اس میں اتنی قوت جذب ہے جس کا انسان مقابلہ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے مقابل کو اگرچہ ہزاروں من کا ہو بے تکلف کھینچ لے گا اور وہ پوری طاقت پر مقابل پر مصروف ہے تو نہ صرف جزو زمین بلکہ کسی پتے کا زمین سے اٹھانا ناممکن ہے قلت مادہ کے سبب وزن نہ رہے تو جذب کی قوت تو ہے تو دیکھو جس کا مقابلہ کرنا ہوگا ٹین کی ہلکی طشتری کو دو برس کا بچہ سہل سے اٹھا سکتا ہے لیکن اگر کوئی پہلوان دونوں ہاتھ سے اسے مضبوط تھامے اپنے سینے سے ملائے ہے اب بچہ کیا کمزور مرد بھی ہر گز اسے نہیں ہلاسکتا۔
ردّچہل ونہم : زمین میں جذب ہو تو اس کے اجزاء میں بھی ہو کہ طبیعت متحد ہے تو چاہیے کہ بڑے ڈھیلے کے نیچے چھوٹا ملادیں اس سے چھٹ جائے بلکہ بڑا خود ہی چھوٹے کو کھینچ لے (مفتاح الرصد)
اقول: اس کا ظاہر جواب یہ ہے کہ ایسا ہی ہوتا اگر زمین اسے نہ کھینچتی۔ جذب زمین کے مقابل بڑے ڈھیلے کا جذب کیا ظاہر ہو مگر مقناطیس و کہرباء اس جواب کو قائم نہ رکھے گا۔ جذب زمین کے مقابل اس کا جذب کیسے ظاہر ہوتا ہے، یوں ہی بڑے ڈھیلے کا ظاہر ہوتا اگر اس میں جذب ہوتا لیکن وہ ہر گز جذب نہیں کرتا تو زمین بھی جذب نہیں کرتی کہ طبیعت متحد ہے۔ فافھم۔
ردپنجا ہم : زمین نافریت کرکے بچ جاتی ہے۔ یہ حقیر چیزیں تو نہ بچ سکتیں۔ اگر کہیے آفتاب ضرور ان کو جذب کرتا ہے مگر زمین بھی تو کھینچتی ہے اور یہ اس سے متصل اور آفتاب سے کروڑوں میل دور، لہذا جذب زمین غالب آتا اور آفتاب انہیں نہیں اٹھا سکتا۔ ہم کہیں گے زمین کا اپنے اجزاء کو جذب ثابت ہے دیکھو ابھی دو دلیل سابق ( مفتاح الرصد) ۔
تذییل : کلام قدماء میں ایک اور دلیل مذکور کہ جذب (عہ۱ ) ہوتا تو چھوٹا پتھر جلدآتا ( شرح تذکرہ بطوسی للعلامہ الخضری ) یعنی ظاہر ہے کہ جاذب کاجذب اضعف پر اقوی ہوگا تو چھوٹا پتھر جلد کھینچے حالانکہ عکس ہے اس سے ظاہر کہ وہ اپنی میل طبعی سے گرتے ہیں جو بڑے میں زائد ہیں۔
اقول: اضعف پر اقوٰی ہونا مساوی قوتو ں میں ہے اور یہاں چھوٹے کا جاذب بھی چھوٹا ہے تو اتنے ضمیمہ کی حاجت ہے کہ دونوں کی سطح مواجہہ زمین مساوی ہو۔ اب حق حقیقت پر یہ بعینہ رد چوالیس ۴۴ ہوگا۔ اور اس فرض باطل پر اتنا بھی کافی نہ ہوگا کہ چھوٹا اب بھی جلد نہ آئے گا بلکہ برابر، کمامر، اب یہ صورت لینی ہوگی کہ بڑا ارتفاع ہیں ہزار گنا اور سطح مواجہہ میں مثلاً آدھا ہے۔ اب یہ اعتراض پورا ہوگا کہ چھوٹے کا جاذب ہے۔ فرض کرو بڑے میں دس حصے مادہ ہے اور چھوٹے میں ایک حصہ، اگر سطح مواجہہ برابر ہوتی دونوں دس دس سیر وزن ہوتا جس کی تقریر گزری، لیکن چھوٹے کی سطح مواجہہ دو چند ہے تو بڑے میں دس سیر وزن ہوگا اور چھوٹے میں بیس سیر، لہذا اسی کا جلد آنا لازم، حالانکہ قطعاً اس کا نصف ہے تو جاذبیت باطل و جزاف ہے اور میل طبعی کا میدان ہموار صاف ہے، واﷲ سبحانہ و تعالٰی اعلم۔

عہ۱: یہ نو ٹ الرضا نمبر سے لکھا جائے جس میں ایک نواب صاحب سے مکالمہ ہے الرضا کا یہ مقالہ مل نہ سکا۔ عبدالنعیم عزیزی۔

فصل سوم :
حرکتِ زمین کے ابطال پر اور ۴۳ دلائل
 
بارہ۱۲  ردِّ نافریت او رپچاس ۵۰جاذبیت پر ،سب حرکتِ زمین کے رد تھے کہ اُ س کی گاڑی بے ان دو پہیوں کے نہیں چل سکتی تو یہاں تک ۶۲ دلیلیں مذکور ہوئیں۔
 
دلیل ۶۳ : اقول، تمام عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے کہ معدل النہار و منطقۃ البروج دونوں مساوی دائرے ہیں۔ نتیجہ (نمبر۳۰) جتنے سماوی وارضی کرے ہیئت قدیمہ وجدیدہ میں بنتے ہیں سب اس پر شاید ہیں لیکن منطقہ کو مدار زمین مان کر یہ ہر گز ممکن نہیں۔ معدل تو بالا اجماع مقعر سماوی پر ہے۔ (نمبر ۲۸) اگر منطقہ نفس مدار پر رکھو جیسا اصول الہیئت کا زعم ہے۔ (نمبر ۲۹) جب تو ظاہر کہاں یہ صرف انیس کروڑ میل کا ذرا سا قطر اور کہاں مقعر سماوی کا قطر اربوں میل سے زائد جو آج تک اندازہ ہی نہیں ہو سکا اور اگر حسب بیان حدائق مدار کو مقعر سماوی پر لے جاؤ یعنی اس کا موازی وہاں بناکر اس کا نام منطقہ رکھو جب بھی تساوی محال کہ اس مقعر کا مرکز مرکز زمین ہے (نمبر۲۷) اور یہی مرکز معدل (نمبر۲۸) تو معدل عظیم ہے لیکن مرکز مدار  کا مرکز زمین سے اتحاد محال تو منطقہ ضرورۃ دائرہ صغیرہ ہے کہ عظیم ہوتا  تو اس کا مرکز مرکز مقعر ہوتا۔(فائدہ ۳۰) اور صغیرہ عظیمہ کی مساوات محال تو منطقہ کو مدار زمین ماننا قطعاً باطل خیال۔
دلیل۶۴ : تمام علقائے عالم اور ہیئتِ جدیدہ کا اجماع ہےکہ معدل و منطقہ کا مرکز ایک ہے ۔ (نتیجہ نمبر۳۰) جتنے سماوی وارضی کُرے ہیئت قدیمہ و جدیدہ میں بنتے ہیں سب اس پر شاہد ہیں لیکن مدار پر دور زمین مان کر یہ ہدایۃً محال کہ مرکزِ و محیط کا انطباق کیسا جہل شدید ہے۔
دلیل ۶۵ اقول :  تمام عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے کہ معدل و منطقہ کا تقاطع تنا صف پر ہے۔(نمبر ۳۰) جتنے سماوی وارضی کُرہ ہیئت قدیمہ و جدیدہ میں بنتے ہیں سب اس پر شاہد ہیں لیکن زمین دائرہ ہو تو تنا صف محال کہ مرکز ایک نہ رہے گا۔ لاجرم دائرہ زمین باطل۔
دلیل ۶۶ : اقول : ان (عہ۱) سب سے خاص تر عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے کہ معدل و منطقہ دونوں کرے سماوی حقیقی یا مقدر کے دائرہ عظیمہ میں (نمبر ۲۸ ،  ۲۹ ، ۳۰) جتنے سماوی و ارضی کرے ہیئت قدیمہ و جدیدہ میں بنتے ہیں ،سب ہیئت قدیمہ و جدیدہ میں بنتے ہیں سب اس پر شاہد ہیں لیکن دورئہ زمین پر یہ بوجوہ ناممکن کہ نہ تساوی نہ اتحاد مرکز نہ تنا صف ،تو وہ دورہ زمین قطعاً باطل۔
 
عہ ۱ : اقول ، تساوی و اتحاد مرکز میں عموم و خصوص من وجہ ہے مدارین متساوی ہیں اور اتحاد مرکز نہیں اور سطح معدل و خط استوا متحدہ المرکز ہیں اور تساوی نہیں ہر کرہ کے عظمتیں متساوی بھی نہیں اور متحدہ المرکز بھی اور یہ دونوں تناصف سے عام مطلقاً ہیں۔ جب تنا صف ہوگا تساوی و اتحاد مرکز ضرور ہوں گے کہ چھوٹے بڑی یا مختلف المرکز دائرے متنا صف نہیں ہوسکتے اور تساوی یا اتحاد مرکز ہو تو تناصف درکنار ،تقاطع بھی ضرور نہیں ،جیسے مدارین یا معدل و خطِ استوام ،ہاں تساوی و اتحاد مرکز کا اجتماع دائرہ کرہ میں تناصف کا متساوی ہے جب مساوی دائرے مرکز واحد ہر ہوں گے ضرور متناصف ہوں گے وبالعکس یہ تینوں  ایک کرہ کے دوائر عظام ہونے سے عام مطلقاً ہیں ۔ ایک کُر ہ کے دو عظیمے قطعاً متساوی بھی ہوں گے اور متحدالمرکز بھی اور متناصف بھی اور ثخن کرہ میں مرکز واحد پر دو متساوی دائرے متناصف ہوں گے اور عظیم نہیں۔ ان دلائل میں عام سے خاص کی طرف ترقی ہے کہ ہیئت جدیدہ نے بھی معدل و منطقہ کی تساوی مانی ہے اور اس سے دورہ زمین باطل بلکہ اس سے بھی من وجہ خاص تر اتحاد مرکز مانا ہے بلکہ ان سے بھی خاص تر تنا صف بلکہ سب سے خاص تر عظام ہونا ۱۲ منہ غفرلہ ۔
 
دلیل ۶۷: اقول، تمام عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے  کہ معدل ومنطقہ دائرہ شخصیہ ہے (نمبر۳۱)جتنے سماوی وارضی کرے ہیئت قدیمہ و جدیدہ میں بنتے ہیں سب اس پر شاہد ہیں لیکن زمین دائر ہو تو ان میں کوئی شخص نہ رہے گا (دیکھو ۳۱ ، ۳۲ ) تو زمین کا دورہ باطل۔
دلیل ۶۸: اقول،تمام عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے کہ بارہ برج متساوی ہیں ہر برج تیس درجے (۲۹) جتنے سماوی کرے ہیئت قدیمہ و جدیدہ میں بنتے ہیں سب اس پر شاہد ہیں لیکن منطقہ کو مدار زمین مان کر ۶ برج ۴۰۔۴۰ درجے کے ہوجائیں گے اور ۶ صرف ۲۰ ،۲۰ کے رہیں گے اس کا بیان دو مقدموں میں واضح ہے۔
 
مقدمہ ۱: اقول ،دو متساوی دائروں میں جب ایک دوسرے کے مرکز پر گزرا ہو واجب کہ وہ دوسرا بھی اس کے مرکز پر گزرے۔
 
 
 
ا ب ح کے اب ء کے مرکز ہ  پر گزرا ہے ضرو راس کا مرکز ر ہے جس پر اء ب گزرا ہے ورنہ اگر ط ہو تو اس کا نصف قطر ط ہ یا ح ہو تو ح نصف قطر اء ب یعنی رح کے مساوی ہو۔ بہرحال جُز و کل برابر ہوں۔
 
مقدمہ ۲ : اقول :  جب متساوی دائرے ایک دوسرے کے مرکز پر گزرے ہوں ان کاتقاطع تثلیث ہوگا ،یعنی ہر ایک کی قوس کہ دوسرے کے اندر پڑے گی ثلث دائرہ ہوگی اور جتنی باہر رہے گی۔
 
 
 
 دو ثلت مرکزین ہ  ، ر  نقطتین تقاطع ۱ ب تک خطوط ملائیے کہ سب نصف قطر اور ۴ مساوی قوتوں ا ہ  ،ہ ب  ،ا ر ،رب کہ اگر ۲۴۰  لاجرم ہر قوس ۶۰ درجے رہے کہ نصف قطر وتر نہیں مگر سدس درجہ کا تو ا ہ ب  ،ا ر ب ہر ایک ۱۲۰ درجے ہے اور ا ح ب ا ء ب ہر ایک ۲۴۰ درجے ہے۔ یہاں پہلا دائرہ معد ہے دوسرا منطقہ راس الحمل ب راس المیزان ء سرطان ہ جدی تو حمل سے سنبلہ تک ۶ برج کہ قوس اء ب میں ہے ۴۰۔۴۰ درجے کے ہوئے اور میزان سے حوت تک ۶ برج کہ قوس ا ہ ب میں ہیں۔ ۔۲۰ ۔ ۲۰ درجے کے اس کا قائل نہ ہوگا مگر مجنون  ،تو دورہ زمین ثمرہ جنون ،کوپرنیکس کی تقلیدسے مان بیٹھے اور آگاہ پیجھا کچھ نہ دیکھا کہ وہ تمام ہیئت کا دفتر الٹ دے گا۔
دلیل ۶۹ : اقول : 
تمام عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے کہ مبادات اعتدالین ایک بہت خفیف حرکت ہے کہ ایک سال کامل میں پورا ایک دقیقہ بھی نہیں ۲ ء ۵۰ ہے (۲۲) پچیس ہزار آٹھ سو سترہ برس میں دورہ پورا ہوتا ہے۔ (۳۲) لیکن اگر زمین منطقہ پر دائرہے تو واجب کہ ہر سال دورہ پورا ہوجایا کرے تقاطع کا نقطہ ہر سہ ماہی میں تین برج طے کرلیا کرے وہ حرکت کہ اکہتر(عہ۱) برس میں بھی ایک درجہ نہیں چل سکتی ہر روز ایک درجہ اڑے۔
 
 ( عہ۱ : کہ حاصل نسبت ۷۱۳ئ۷۱ ہے ۱۲ منہ غفرلہ )
 
اب جء منطقہ البروج ہے۔ مرکز نؔ پر جب زمین نقطہ آ پر تھی معدل دائرہ س ہ ہواجتنے منطقہ کو  ہ  راس الحمل ر راس المیزان پر قطع کیا۔
 
 
 
جب زمین نطقہ ب پر آئی معدل دائرہ عہؔ ہوا اور حؔ راس الحمل ،طؔ راس المیزان جب زمین ح پر آئی معدل دائرہ ف ہوا اور ی راس الحمل ک ر اس المیزان جب ء  پر آئی معدل صہ ؔ ہوا اور ل راس الحمل م  راس المیزان  ،ان چاروں دائروں نے منطقہ کو بارہ مساوی حصوں پر تقسیم کیا۔مثلاً منطقہ کی قوس اب ربع دور ہے اور بحکم مقدمہ ثانیہ تقاطع رائرہ عہ سے قوس ا ہ  ۶۰ درجے تو ب ہ ۳۰ درجے ،یوں ہی تقاطع دائرہ عہؔ  سے ب ط ۶۰ درجے تو اط ۳۰ درجے لاجرم بیچ میں ہ ط بھی ۳۰ درجے ،اسی طرح ہر رابع ،میں پس بالضرورۃ چاروں بار کے راس الحمل ہ ح ی ل میں ۹۰  ،۹۰ درجے کا فاصلہ تو ہر سال راس الحمل تمام منطقہ پر دورہ کر آیا اور ہر سہ ماہی میں تین بُرج چلا ہر روز ایک درجہ بڑھ کر اس سے جہالت اور کیا ہوگی تو دورہ زمین قطعاً باطل۔
 
دلیل ۷۰: اقول ، تمام عقلائے عالم اور ہیئت جدیدہ کا اجماع ہے کہ اس مدار پر دورہ کرنے والا (شمس ہو یا زمین) سال بھر میں تمام بروج میں ہو آتا ہے لیکن اگر یہ مدار زمین کا ہے تو ایک برج کیا ایک درجہ کیا ایک دقیق چال چلنا محال۔ جب زمین آ پر تھی راس الحمل ہ تھا تو آ کہ ۶۰ ہی درجے آگے ہے تو ضرور بٓ  راس الدلو ہے ،یونہی زمین جہاں ہوگی راس الحمل اس سے ۶۰ درجے آگے رہے گا اور زمین ہمیشہ راس الدلوہی پر رہے گی تو بروج میں انتقال نہ ہونا درکنار۔
اوپر تو جاذبیت و نافریت اسباب و زن نے سکونِ زمین ثابت کیا تھا ،یہاں خود دورہ زمین نے سکونِ زمین مبرہن کردیا۔ ثابت ہوا کہ ابتدائے آفرنیش میں جہاں تھی وہیں اب بھی ہے اور جب تک باقی ہے وہیں رہے گی۔ اس سے زیادہ قاہر دلیل اور کیا ہوگی کہ دورہ ماننا ہی ساکن منوا چھوڑے۔ اہلِ ہیئت جدیدہ تقلید کوپرنیکس کے نشے میں ان عظیم خرابیوں سے غافل رہے تو رہے عجب کہ آج تک ان کے رَد کرنے والوں کو بھی یہ آفتاب سے زیادہ روشن دلائل خیال میں نہ آئے دور کی باتیں بلکہ دور از کار باتیںبھی لکھا کیے فریقین کا اس طرف خیال ہی نہ گیا کہ منطقہ کو مدار زمین مانتے ہی تمام ہیئت کا پٹا اُلٹ جائے گا۔
 
دلیل ۷۱: اقول :  جب ہ راس الحمل اور زمین طؔ راس الدلو پر ہے تو ضرور طؔ راس الحوت ہے۔
جب زمین ط ؔ پر آئی اور اس ا لحمل ہمیشہ ۶۰ درجے اس سے آگے ہوگا تو راس الحوت راس الحمل کے بیج ایک اور بُرج ہوا۔
دلیل ۷۲: جب ہؔ  پر آئی کہ راس الحمل تھا تو راس لحمل سے راس الحمل ۶۰ درجے آگے ہوا۔
دلیل ۷۳: جب ب پر آئی کہ راس الثور تھا حمل کہ اُس سے ۳۰ درجے پیچھے تھا۔ ۶۰ درجے آگے ہوگیا وعلٰی ھذا القیاس ۔
دلیل ۷۴: ہر برج راس الحمل سے کبھی آگے ہوگا کبھی پیچھے کہ راس الحمل سال میں ۱۲ برج پر دورہ کرے گا تو بروج شمالی و جنوبی کی کوئی تعین نہ رہی سب شمالی اور سب جنوبی اور ہر برج ایک وقت نہ شمالی نہ جنوبی جب کہ راس الحمل اسی پر ہو۔
دلیل ۷۵ : چاروں فصلوں کو تعیین باطل ہوگئی۔
دلیل ۷۶ : جب زمین طؔ  پر آئی کہ راس الحوت اور راس الحمل اس سے ۶۰ درجے آگے ہے اور شک نہیں کہ اس سے ۳۰ درجے آگے راس الحمل ہے تو دور اس الحمل ہوئے تو دور اس المیزن ہوئے تو دو دائروں تقاطع چار جگہ ہوا اور یہ محال ہے۔ دائرے دو جگہ سے زیادہ تقاطع نہیں کرسکتے۔ (اقلیدس مقالہ ۳ شکل۱۰) بالجملہ صد ہا استحالہ ہیں  ،دیکھو دورہ زمین ماننے نے کیا کیا آفت جوتی تمام ہیئت دریا بردوگاؤ خورد کردی۔
دلیل ۷۷: اقول :  تمام عقلائے عالم وہیئت جدیدہ کا اجتماع ہے کہ معدل سے منطقہ کا میل کلی بتانے والا دائرہ جسے دائرہ جے دائرہ میلیہ کہتے ہیں ایک متعین دائرہ ہے جس کی قوس کہ ان کے منصف محل تقاطع پر گزرتی ہے خود ایک مقدار معین رکھی ہے نہ یہ کہ چھوٹی بری قوسیں متحمل ہوں جن سے میل کی تجدید نہ ہوسکے لیکن اگر منطقہ مدار زمین ہے تو ایسا ہی ہوگا اور تحدید میل ناممکن ہوگی اس تحدید کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں دائرے برابر ہوں کہ تیسرا ان کا مساوی ان کے اقطاب پر گزارا جائے اور وہ میل بتائے اگر متقاطع دائرے چھوٹے بڑے ہوں تو میلیہ کی تعیین کہاں سے آئے گی۔ چھوٹے کے برابر تو بڑے کے برابر کیوں نہ لو۔ وبالعکس اور دونوں سے مختلف لو تو کیا وجہ ،اور پھر کتنا مختلف لو اور پھر صغر کی طرف یا کبر کی جانب کوئی تعین نہیں اور شک نہیں کہ ان سب محتمل دائرون کی قوسیں مختلف ہوگئیں اور ان میں جو ایک لو اس اس کی قوس کی قیمت چھوٹے کے لحاظ سے اور بڑے کے لحاظ سے اور ہوگی۔ غرض تحدید میل کی طرف کوئی راہ نہ رہے۔اور ہم دلیل ۵۷ میں ثابت کرچکے کہ منطقہ کو مدارِ زمین مان کر معدل و منطقہ کی مساوات محال تو تحدید میل محال مگر وہ قطعاً یعنی اجماعی ہے۔ لاجرم دورہ زمین باطل۔
دلیل ۷۸ : اقول، بفرض غلط مساوات بھی لے لو مثلاً خو د اپنی ہیئت جدیدہ کے اقرارات و تصریحات وعملیات سب پر خاک ڈال کر یہیں کا یہیں مدار زمین کے برابر ایک دائرہ موازی خطِ استوا لے کر اس کا نام معدل رکھ لو ،اور اب میل کا حساب راست آئے گا۔ تمام عقلائے عالم ہیئتِ جدیدہ کا اجماع ہے کہ میل کلی ہزاروں برس سے ۲۳ ،۲۴ درجے کے اندر ہے ،(۲۹ ، ۲۳) لیکن زمین دورہ کرتی ہے تو اب میل کلی پورا ۶۰ درجے آئے گا اور متساوی دائرے کہ ہر ایک دوسرے کے مرکز پر گزرا ہو(مقدمہ۱) اُن کا بعد ہمیشہ ان کے نصف قطر کے برابر ہوگا۔
 
 
 
ا ح ب مرکزہ پر اور ح ا ب مرکز ر پر تو ح ہ یا ر ء بعد ہے کہ ہر ایک نصف قطرہے ،یہ سطح مستوی میں تھا جس میں نصف قطر یعنی ۶۰ درجہ قطریہ کی قیمت درجات محیطیہ سے  ۷۵ ردجے ، ۱۷ دقیقے ، ثانیے ، ۴۸ ثالثے، اور ۱۵ رابعے ہیں ،
لیکن کُرے پر بُعد دائرے سے لیا جاتا ہے تو ان کا مساوی دائرہ میلیہ کا نقطتین ح ہ یا ر ءؔ  پرگزرے گا یہ نصف قطر اس کا وتر ہوگا تو دائرۃ البروج کا میل ۲۳ ،۲۴ کی جگہ کامل ۶۰ درجے آئے گا اور یہ سب کے نزدیک باطل ،تو دورہ زمین قطعاً وہم باطل۔
 
دلیل ۷۹: اقول ، جتنے مسائل کرہ سماوی پر بذریعہ علم مثلث کروی حل کیے جاتے ہیں جن کے مثلث میں ایک قوس دائرۃ البروج کی ہو ،خصوصاً جب کہ دوسری قوس معدل کی ہو ،جیسے کو کب (عہ۱) ۔ کے میل و مطالع قمر سے اس کے عرض و تقویم کا استخراج منطقہ کو مدارِ زمین ماننے سے سب باطل ہوگئے کہ اس کا مبنٰی کُرہ سماوی پر منطقہ کا عظیمہ ہوگا ہے۔ بالخصوص اس کا منبٰی یہ ہے کہ منطقہ و معدل دونوں مساوی دائرہ ہیں اور دونوں کامرکز ایک ہو اور دونوں کا تقاطع تناصف پر ہو منجملہ دونوں ایک کُرہ کے عظیمہ ہو ،اور ہم ثابت کرچکے کہ منطقہ مدارِ زمین ہو کر یہ سب محال  ،لاجرم دورہ زمین باطل خیال۔
 
عہ ۱: خاص اس مسئلہ میں ہمارا ایک رسالہ ہے البرھان القویم علی الارض والتقویم ،جس میں اٹھارہ صورتیں قائم کرکے اُنہیں ۶ کی طرف راجع کیا  ،پھر ہر ایک میں جتنی شقیں متحمل ہیں جن کا مجموعہ ۳۵ ہے سب کو سب کی اور اُن پر تو امرات بیان کیے کہ ہر صورت میں کیونکر میل الطالع سے تقویم و عرض نکالیں دونوں کے جدا جدا نکالنے کے بھی طریقے بتائیے پھر تقویم سے عرض اور عرض سے تقویم معلوم کرنے کے پھر جملہ طاق پر براہین ہندسیہ شکل شمس وظلی سے قائم کیں۔یہ سب بیان تو اس رسالہ پر محمول۔
 
اصول علم الہیئت ۹۷ میں بھی چند سطر کے اس توامر کے ذکر میں لکھیں جن میں عجب خطائے فاحش کی شکل یہ بنائی۔
 
 
 
ی ق خط استوا یعنی (معدل الہنار فؔ) اس کا قطب ،ی سؔ دائرۃ البروج  ،ر ا س کا قطب ،ص موضع کوکب ،ف ص یعنی ( میلیہ ) اور رص یعنی (عرضیہ) بنائے ف ص پر ب ص عمود گرایا۔ ف ص تمام میل ہے اور رف یعنی مابین القطبین۔ یہ یؔ  یؔ میل کلی کہ اؔ  راس الحمل ،زاویہ ص ف قؔ  تمام مطالع ،زاویہ صؔ ر سؔ تمام تقویم  ،ر صؔ تمام عرض ہے یہاں تک مستدیر تھی آگے مثلث فؔ صؔ بؔ قائم الزاویہ سے فؔ بؔ  پھر اس سے میل کلی رفؔ ملا کر ربؔ معلوم کیا اور اس سے زاویہ ر کو تمام تقویم ہے۔ یوں تقویم معلوم ہوئی ،اب عرض معلوم کرنے کو مثلث رؔ صؔ بؔ قائم الزاویہ لیا جس کی ر ب زاویہ ر معلوم ہوئے ہیں ان سے رصؔ تمام عرض جان کر عرض معلوم کیا یہ بدایتہً باطل ہے جب فؔ صؔ بؔ قائمہ ہے ر صؔ بؔ کیونکر قائم ہوسکتا ہے ،جزوکل برابر ،خیر ہمیں اس سے غرض نہیں واقفِ فن جانتا ہے کہ اسی شکل میں کتنی جگہ سے منطقہ کا مدار زمین ہونا باطل ہوا۔ ۱۲ منہ غفرلہ۔
 
دلیل ۸۰ : اقول ، یہاں چند مقدمات نافعہ ہیں ،دوشیئ میں اضافی ،متقابل ،متضاد نسبتیں کہ شے واحد میں دوسری کے لحاظ سے با اعتبار واحد جمع نہ ہوسکیں ،دو قسمیں ہیں۔
اوّل : اعتباری محض جس کے لیے کوئی منشا واقع میں متعین نہیں ،لحاظ و اعتبار سے تعین ہوتا ہے تو ہر شیئ اُسی دوسری کے اعبتار سے اُن دونوں ضدوں سے متصف ہوسکتی ہے  ،جیسے اشیاء کی گنتی میں اِدھر سے گِنوں تو یہ اوّل وہ دوم ہے ،اُدھر سے گِنوں تو عکس ہے کہ اُن کے اول و ثانی ہونے کے لیے واقع میں کوئی منشاء متعین نہیں تمہارے لحاظ کا تابع ہے جدھر سے گنتی شروع کرو وہی اول ہے۔
دوم : واقعی جس کے لیے نفس الامر میں منشاء متعین یہاں دو شے میں ایک کے لیے ایک ضد متعین ہوگی دوسری کے لیے دوسری ،ہم کسی دوسرے لحاظ سے اُن میں تبدیل نہیں کرسکتے کہ اُن کا منشاء ہمارے لحاظ کا تابع نہیں ،جیسے تقدم وتاخر زمانی مثلاً ۱ ؁ھ  یقیناً ۲ ؁ھ سے پہلے ہے۔ اسی طرح نہیں کہہ سکتے کہ ۲ ؁ھ پہلے ہوا بعد ایک آیا۔
(۲) ان واقعات میں شیئ واحد کو دو کے لحاظ سے دونوں ضدیں عارض ہوسکتی ہیں ،یہ تغیرنسبت نہ ہوا بلکہ تغیر منتسبین مگر ایک ہی شے کے لحاظ سے ممکن نہیں کہ تغیر نسبت ہے مثلاً ۲ ؁ ھ  /۳ ؁ ھ  سے پہلے ہے ۱؁ ھ  سے بعد ،لیکن اُن میں ایک کی نظر سے دونوں نہیں ہوسکتے ،زید بن عمرو بن بکر میں عمرو بیٹا بھی ہے اور باپ بھی مگر دو شخص کے لیے عمرو کا ایک باپ ہواور اسی کا بیٹا بھی ،یہ محال ہے۔
(۳) ان واقعی نسبتوں میں بعض وہ ہیں کہ شَے کو بالعرض بھی عارض ہوتی ہے اگر چہ بالعرض میں بنظر ذات ایک ہی شیئ کے اعتبار سے دونوں ضدوں کی قابلیت ہوتی ہے مگر یہ اس میں بھی محال ہے کہ وقتِ واحد میں دو اعتبار مختلف سے دونوں ضدیں مان سکیں ورنہ نسبت اعتبار یہ مثلاً زید ا ؁ ء میں پیدا ہو ا عمر و سے کہ ۲ ؁ ء  میں ہوا عمر میں بڑا ہے۔ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ کسی دوسرے اعتبار سے عمر و زید سے عمر میں بڑا ہی اگرچہ ان کی ذات کی نظر سے یہ محال نہ تھا کہ عمرو ا؁ ء میں پیدا ہوتا اور زید ۲؁ء میں۔ عمر میں بڑا چھوٹا ہونا منعکس ہوجاتا۔
(۴) فوق و تخت اُن ہی نسبت واقعیہ سے ہیں۔ چھت اوپر ہے اور صحن نیچے ،تو جب زمین پر کھڑے ہو تمہارا سر اوپر ہے اور پاؤں نیچے ،کوئی عاقل ہرگز نہ کہے کہ یہ زیر و بالا واقعی نہیں نرا اعتباری ہے۔ کسی دوسرے لحاظ سے چھت نیچے ہے اور حن اوپر ،تمہارا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ،یعنی واقع میں نہ چھت اور سراوپر ہیں اور نہ پاؤں اور صحن نیچے ،بلکہ عندیہ کی طرح ہمارے اعتبار کے تابع ہیں ،ہم چاہیں تو سر اور چھت کو اونچا سمجھ لیں چاہے پاؤں اور صحن کو کیا مجنوں کے سوا کوئی ایسا کہہ دے گا۔
(۵)جب یہ نسبت واقعیہ ہے تو اس کے لیے نفس الامر میں ضرور کوئی منشاء متعین ہے جو کسی کے لحاظ وا عتبار کا تابع نہیں ،وہ فوق کے لیے تمہارا سر یا چھت خواہ تحت کے لیے تمہارے پاؤں یا صحن نہیں اگر تمہیں الٹا کھڑا کیا جائے تو سر نیچا ہوجائے گا اور پاؤں اوپر۔ یوں ہی اگر شہر لوطیاں کی طرح معاذ اﷲ مکان اُلٹ جائے تو صحن اوپر ہوگا۔ چھت نیچے ،تو معلوم ہوا کہ ان کو یہ نسبتیں بالذات عارض نہیں بلکہ بالعرض و منشاء کچھ اور ہے جسے ان کا عرض بالذات ہے اور اس کے واسطے سے چھٹ اور سر کو۔
(۶) نسب متقابلہ واقعیہ میں کبھی دونوں جانب تحدید یعنی حد بندی ہوتی ہے۔ مثلاً زید کا ولد اول وولد اخیر نہ اول سے پہلے اس کا کوئی ولد ہوسکتا ہے ورنہ یہ اول نہ ہوگا نہ آخر کے بعد ورنہ آخر نہ ہوگا۔ اور کبھی صرف ایک تحدید ہوتی ہے  ،دوسری جانب اس کے مقابلے پر غیر محدود مرسل رہتی ہے ،جیسے کسی شے سے اتصال و انفصال  ،اتصال محدود ہے اس میں کمی و بیشی کی راہ محدود مگر انفصال کے لیے کوئی حد نہیں  ،جتنا بھی فاصلہ ہوگا انفصال ہی رہے گا ،ہاں نسبت اعتباریہ میں کسی طرف تحدید ضرور نہیں کہ وہ تابع اعتبار ہیں۔ فوق و تحت نسبت واقعیہ سے ہیں تو ضرور ان میں تو ایک جانب تحدید ضرور ہے ورنہ اعتبار محض رہ جائیں گے ہر تحت سے تحت اور ہر فوق سے فوق متصور ،تو کسی کا کوئی منشا ء متعین نہیں ،جسے چاہو تحت فرض کرلو ،تو مابقی سب فوق ٹھہریں گے پھر فوق کو تخت فرض کرو تو یہ سب فوق ہوجائے گا اور وہ فوق تحت لاجرم ان کی تحدید میں تین صورتوں سے ایک لازم یا تو دو متقابل چیزیں یا بالذات فوق وتحت ہوں کہ نہ فوق بالذات سے اوپر ممکن ہے نہ تحت بالذات سے نیچے ،باقی اشیا کہ اُن کے اندر ہیں ،جو فوق سے قریب ہو فوق بالعرض ہے جو تحت سے قریب ہو۔ تحت بالعرض ہے ،اور ان میں ہر شے دو چیز اقرب وابعد کے لحاظ سے فوق و تحت دونوں ،یہ صورت دونوں طرف تحدید کی ہوگی یا فوق بالذات متعین ہو کہ اس سے تفوق محال اور اس کے مقابل غیر محدود جتنے چلے جاؤ سب تحت ہے اور ہر اسفل سے اسفل تک ممکن یا تحت بالذات متعین ہو کہ اس سے تفسل ممتنع اور اس سے محاذی یا متنائی جتنے بڑھوسب فوق ہے اور ہر بالا سے بالا تر متصور تینوں صورتیں اپنی ذات میں تحت وفوق کے نسبت واقعہ ہونے کو بس ہیں۔
(۷) اب تمام عقلائے عالم کے اتفاق سے تحت محدود ہے ،فوق کی تحدید کہ ہر ایک شے پر جا کر فوقیت منتہی ہوجائے اور اس سے فوق ناممکن ہو ،بالضرورت واقعیت ہو نہیں سکتی کہ وہ تو حاصل ہوچکی اور خارج سے اس پر کوئی دلیل نہیں۔ تو اس کا ماننا جزاف ہے۔
 
فلسفہ قدیمہ کا رد بعونہ تعالٰی تدنیل جلیل میں آتا ہے۔ یہاں اس کی حاجت نہیں ،اور ہیئت جدیدہ کا اتفاق ہے کہ فوق محدود نہیں۔ مسئلہ تناہی ابعد ہم پروارد نہیں کہ ہمارے نزدیک فضائے خالی بعد موہوم ہے کہ انقطاع وہم سے منقطع ہوجائے گا جب پھر تو ہم کرو گے اور آگے بڑھے گا اور کسی حد پر منتہی نہ ہوگا کہ اس کے اوپر متوہم نہ ہوسکے تو شق ثالث متعین ہوئی یعنی تحت بالذات متعین ہے اس کے سوا کوئی تحت اس سے جو قریب ہے وہ تحت اضافی ہے ،جو بعید ہے وہ فوق تاغیر نہایت ہے۔
۰۰۰۰۰کہ تحت کے سب اطراف یکساں ہیں ،ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں کہ ایک طرف بعد زائد دوسری طرف کم بلکہ جو سب طرف لامتناہی ہے سب طرف برابر ہے کہ دو نامنتہی کہ ایک مبدء  سے شروع ہوں اور امتداد میں کم و بیش نہیں ہوسکتے ۔ ورنہ جو کم رہا متناہی ہوگیا تو لازم کہ تحت حقیقی تمام امتدادوں کی وسعت میں ایک شیئ موجود متعین ہو جس کے ہر طرف فوق ہواور تحت کا اشارہ ہر جانب سے اُسی پر منتہی ہو ،امتداد جو آگے بڑھے فوق کی طرف چلے۔
(۸) یہیں سے ظاہر ہے کہ تحت بالذات کا ایک نقطہ غیر متجزیہ ہونا لازم و رنہ جسم یا سطح یا خط میں نقاط کثیرہ فرض ہوسکتے ہیں جن کی طرف اشارہ حِسّیہ جُدا جدا ہوگا اور ایک دوسرے سے بعید تر ہوگا تو خود ان میں فوق وتحت ہوں گے اور تحت حقیقی ایک نقطہ ہی رہے گا۔
(۹)یہ نقطہ متعینہ جس کے جمیع جہات سے وسط جملہ امتدادات ہونے نے اُسے مرکز کُرہ بنایا ،ضرور ہے کہ کسی کُرہ موجود کا مرکز ہو جو بالذات تحت ہونے کے لیے متعین ہو نہ یہ کہ کسی اعتبار و اصطلاح پر ہو ورنہ نسبت واقعیہ نہ رہے گی ،فضائے خالی میں کوئی نقطہ اصلاً تمیز ہی نہیں رکھتا۔ ہمارے اعتبار سی متمیز ہوگا نہ کہ تحت ہونے کے لیے بالذات متعین۔
(۱۰)ضرور ہے کہ اِس مرکز کو حرکت اینیہ سے ممکن کہ وہ مرکز فوق کے قریب آجائے اور تحت سے بعید ہوجائے تو باوصف اپنی اپنی جگہ ثابت رہنے کے لیے فوق تحت ہوجائے اور تحت فوق اور اسے کوئی عاقل قبول نہ کرے گا۔ مثلاً ایک مکان کسی دوسرے مقام پر ہے جس کا صحن اُس تحت ذاتی سے قریب ہے اور سقف دور۔ اب وہ مرکز متحرک ہو کر اوپر آجائے تو چھت اس سے قریب ہوجائے گی اور صحن دور ،اب کہنا پڑے گا کہ بیٹھے بٹھائے سیدھے مکان کی چھت نیچے ہوگئی اور صحن اوپر ،یوں ہی وہاں جو آدمی کھڑا ہوا بیچارہ بدستور کھڑا ہے مگر سر نیچے ہوگیا اور ٹانگیں اوپر ،جب یہ مقدمات ممہد ہولیے ،اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب تم زمین پر سیدھے کھڑے ہو تمہارے سر کی جانب جہت فوق تا دور چلی گئی ہے تو بحکم مقدمہ ششم ضرور ہے کہ پاؤں کی جانب جہت تحت کسی حد کی جانب منتہی ہوجائے اب یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس کُرہ زمین میں ہے یا اس کے بعد لیکن بداہۃً معلوم اور ہر عاقل کو معقول کہ جس طرح تم اس طرف زمین کے اوپر ہواور تمہارا سر اونچا پاؤں نیچے یونہی امریکہ میں یا تمام سطح زمین میں کسی جگہ کوئی کھڑا ہو اس کی بھی یہی حالت ہوگی۔ امریکہ والوں کو یہ نہ کہاجائے گا وہ زمین پر نہیں ،بلکہ زمین اوپر ہے یا ان کا سر اوپر نہیں بلکہ ٹانگیں اوپر ہیں تو روشن ہوا کہ وہ حد زمین ہی کے اندر ہے اور اس کا مرکز تحت حقیقی ہے تو بحکم مقدمہ عاشرہ کُرہ زمین ساکن ہو اور اس کی حرکت اینیہ باطل۔

دلیل ۸۱: اقول : وہ کُرہ موجود جس کا مرکز تحت حقیقی ہے ،فلک ہے یا شمس ،یا ارض ،یا اور کوئی سیاہ یا ثابتہ یا قمر۔
اول :تو ہیئت جدیدمان نہیں سکتی کہ وہ وجود افلاک ہی کے قائل نہیں۔
دوم : ضرور اُس کا مدعا ہے کہ شمس کو ساکن فی الوسط مانتی ہے ،ضرور کہ اہلِ ہیئت جدیدہ جب دوپہر کو زمین پر سیدھے کھڑے ہوں تو سَر نیچے ہو اور ٹانگیں اوپر ،اس لیے کہ سر تخت حقیقی سے قریب ہے اور پاؤں دور ،جب زمین کی حرکت مستدیر قریب غروب اس حالت پرلائے کہ سر اور پاؤں کا فعل مرکز شمس سے برابر رہ جائے تو اب نہ سر اوپر نہ پاؤں ،ہاں آدھی رات کوآدمیت پر آئیں کہ سر اوپر ہوجائے کہ تحت سے بعید ہے اورپاؤں نیچے کہ قریب ہیں ،جب بعد طلوع پھر وہی حالت تساوی ہو سر اور پاؤں دوبارہ برابر ہوجائیں ،جب دوپہر ہو پھر سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہوجائیں۔ ہمیشہ بے جنبش کیے یونہی قلابازیاں کھائیں ،یہی حال ہر روز صحن وسقف کا ہو کہ کبھی صحن اوپر اور چھت نیچے کبھی بالعکس ،یہی حال زمین میں قائم درختوں کا کہ آدھی رات کو جڑ نیچے ہے اور شاخیں اوپر۔ دوپہر ہوتے ہی پیڑ بدستور رہے مگر شاکیں نیچے ہوگئیں اور جڑ اوپر ،دوپہر کے وقت جو بخار یا دھواں اُٹھے کہو کہ نیچے گرا ،جو پتھر گرے کہو کہ اوپر اڑا۔ یوں ہی بے شمار استحالے ہیں۔ دیگر سیارہ و اقمار و ثوابت کا بھی یہی حال ہے کہ اُن میں جس کسی کا بھی مرکز لو گے ایسے ہی استحالے ہوں گے۔ لاجرم مرکز زمین ہی وہ مرکز ساکن ہے اور زمین کی حرکت اینیہ باطل۔

دلیل ۸۳ : اقول ، ہر عاقل جانتا ہے کہ حرکت موجبِ سخونت و حرارت ہے ،عاقل درکنار ہر جاہل بلکہ ہر مجنون کی طبیعت غیر شاعرہ اس مسئلہ سے واقف ہے ،لہذا جاڑے میں بدن بشدت کانپنے لگتا ہے ،کہ حرکت سے حرکت پیدا کرے بھیگے ہوئے کپڑوں کو ہلاتے ہیں کہ خشک ہوجائیں ،یہ خود بدیہی ہونے کے علاوہ ہیئت جدیدہ (عہ۱)کو بھی تسلیم ،

عہ۱ : ح صفحہ نمبر ۲۴۱

بعض اوقات آسمان سے کچھ سخت اجسام نہایت سوزون و مشتعل گرتے ہیں ،جن کا حدوث بعض کے نزدیک یوں ہے کہ قمر پتھر کے آتشی پہاڑوں سے آتے ہیں کہ شدت اشتعال کے سبب جاذبیت قمر کے قابو سے نکل کر جاذبیت ارض کے دائرے میں آکر گر جاتے ہیں ،اس پر اعتراض ہوا کہ زمین پر گرنے کے بعد تھوڑی ہی دیر میں سرد ہوجاتے ہیں ،یہ لاکھوں میل کا فاصلہ طے کرنے میں کیوں نہ ٹھنڈے ہوگئے؟ اس کا جواب یہی دیا جاتا ہے کہ اگر و ہ نرے سرد ہی چلتے یا راہ میں سرد ہوجاتی جب بھی اس تیز حرکت کے سبب آ گ ہوجاتے کہ حرکت موجب حرارت اور اس کا افراط باعث اشتعال ہے۔ اب حرکت زمین کی شدت اور اس کے اشتعال وحدت کا اندازہ کیجئے۔ یہ مدار جس کا قطر اٹھارہ کروڑ اٹھاون لاکھ میل ہے اور اس کا دورہ ہر سال تقریباً تین سو پینسٹھ ۳۶۵ دن پانچ گھنٹے اڑتالیس منٹ میں تمام ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ اگر یہ حرکت حرکتِ زمین ہوتی یعنی ہر گھنٹے میں اڑسٹھ ہزار میل کہ کوئی تیز سے تیز ریل اس کے ہزارویں حصے کو نہیں پہنچتی پھر یہ سخت قاہر حرکت نہ ایک دن نہ ایک سال نہ سو برس بلکہ ہزار ہا سال سے لگاتار بے فتور دائمہ مستمر ہے تو اس عظیم حدت و حرارت کا کون اندازہ کرسکتا ہے جو زمین کو پہنچتی ،واجب تھا کہ اس کا پانی کب کا خشک ہوگیا ہوتا اس کی ہوا آگ ہوگئی ہوتی ،زمین دہکتا انگارہ بن جاتی جس پر کوئی جاندار سانس نہ لے سکتا پاؤں رکھنا تو بڑی بات ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ زمین ٹھنڈی ہے ،اس کا مزاج بھی سرد ہے ،اس کا پانی اس سے زیادہ خنک ہے ،اس کی ہوا خوشگوار ہے ،تو واجب کہ یہ حرکت اس کی نہ ہو بلکہ اس آگ کے پہاڑ کی جسے آفتاب کہتے ہیں جسے اس حرکت کی بدولت آگ ہونا ہی تھا۔ یہی واضح دلیل حرکتِ یومیہ جس سے طلوع اور غروب کواکب ہے زمین کی طرف نسبت کرنے سے مانع ہے کہ اُس میں زمین ہر گھنٹے میں ہزار میل سے زیادہ گھومے گی۔ یہ سخت دورہ کیا کم ہے ،اگر کہے یہی استحالہ قمر میں ہے کہ اگرچہ اس کا مدار چھوٹا ہے مگر مدت بارھویں حصے سے کم ہے کہ گھنٹے میں تقریباً سوا دو ہزار میل چلتا ہے۔اس شدید صریح حرکت نے اسے کیوں نہ گرم کیا۔

اقول : یہ بھی ہیئت جدیدہ پر وارد ہے جس میں آسمان نہ مانے گئے ،فضائے خالی میں جنبش ہے تو ضرور چاند کا آگ اور چاند کا سخت دھوپ ساگرم ہوجانا تھا لیکن ہمارے نزدیک کل فی فلک یسبحون ۱؂ ہر ایک ایک گھیرے میں پیرتا ہے۔

(۱؂القرآن الکریم ۳۶ /۴۰)

ممکن کہ فلک قمر یا اس کا وہ حص جتنے میں قمر شناوری کرتا ہے خالق عظیم عزجلالہ ،نے ایسا سرد بنایا ہو کہ اس حرارت حرکت کی تعدیل کرتا اور قمر کو گرم ہونے دیتا ہو جس طرح آفتاب کے لیے حدیث میں ہے کہ اُسے روزانہ برف سے ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ ورنہ جس چیز پر گرتا جلا دیتا۔ رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابی امامہ رضی اللہ تعالٰی عن صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم۔

دلیل ۸۴: اقول ، زمین ی حرکت یومیہ یعنی اپنے محور پر گھومنے کاسبب ہر جز کا طالب نور و حرارت ہونا ہے یا جذب شمس سے نافریت (نمبر ۳۳) بہرحال تقاضائے طبع ہے اور اس کے لیے متعدد راستے تھے اگر زمین مشرق سے مغرب کوجاتی جب بھی دونوں مطلب بعینہ ایسے ہی حاصل تھے جیسے مغرب سے مشرق کو جانے میں ،پھر ایک کی تخصیص کیوں ہوئی ،یہ ترجیح بلا مرجح ہے جو قوتِ غیر شاعرہ سے نامکن  ،لہذا زمین کی حرکت باطل۔
دلیل ۸۵: اقول ، یہ دونوں وجہ پر واجب تھا کہ خطِ استوا دائرۃ البروج کی سطح میں ہو۔
 
 
 
 ی ک  ل م  شمس ہے ،اور ا ح ب ء زمین۔ ی ا ،ل ب دونوں کو مماس ہیں تو زمین کا قطعہ اح ب نصف (عہ۱)سے بڑا شمس کے مقابل اور اس سے مستنیر ہے اور قطعہ ا ء ب نصف سے چھوٹا تاریک اور اس سے مستنیر ہ ہے اور ح ء سطح دائرۃ البروج اور ہ ر خطِ استواح ط قطبین میں ہے اور مرکز شمس یعنی سہ پر گزرتا ہے اور مرکز شمس ملازم دائرۃ البروج ہے۔ ح ہ ، ر ء میل کلی ہیں اور ظاہر ہے کہ قطعہ ی م ل میں ارفع نقاط م ہے اور قطعہ ا ح ب کو م ح کو اقصر خطوط واصلہ ہے تو زمین شمس سے قریب تر نقطہ ح ہے پھر ہر طرف ء و ب تک بعد بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ ان کے بعد مقابلہ استثناء اصلاً تر تو سب سے زیادہ جذب ح پر ہے اور جاذبیت و نافریت مساوی ہیں۔(نمبر۶) تو واجب کہ سب سے زیادہ نافریت بھی یہیں ہوا اور کرہ متحرکہ میں سب سے زیادہ نافریت منطقہ یہ ہے کہ وہی دائرہ سب سے بڑا ہے پھر قطبین تک اُس کے موازی چھوٹے ہوتے گئے ہیں یہاں تک کہ قطبین پر حرکت ہی نہ رہی۔ تو واجب تھا کہ ح ط حرکت محوری زمین کا منطقہ یعنی خطِ استوا ہوتا لیکن ایسا نہیں بلکہ منطقہ ہ رہے تو جہاں جاذبیت کم ہے وہاں نافریت زائد ہے اور جہاں زائد ہے وہاں کم ،اور یہ باطل ہے ،لاجرم حرکتِ زمین باطل ہے ،یوں ہی طلب نورو حرارت کے لیے ا ب  کے نیچے جو اجزاء ہیں وہ آگے بڑھتے اور اپنے اگلے اجزاء کو بڑھاتے اور حرکتِ منطقہ ح ء   پر پیدا ہوتی نہ ح ط ؔ کے نیچے جو اجزاء نور و حرارت پارہے ہیں وہ آگے بڑھتی اور حرکت منطقہ ہ ر  پر ہوتی۔
 
عہ۱ : ہیأت جدیدہ کو تسلیم کہ اس نے اپنی تحریر ات ریاضی میں براہیں ہندسیہ سے ثابت  یہاں چھوٹا کرہ جب بڑے کے محاذی ہو تو بڑے کا چھوٹا قطعہ چھوٹے کے بڑے قطعے سے مقابل ہوگا ۔ خطوط مماسہ بڑاے کرے سے اس کے قطر کے ادھر وتر ی ل سے نکلیں گے اور چھوٹے کرے کے قطرسے ادھر وتر ا ب کے کناروں پر مس کرینگے ولہٰذا شمس سے زمین کے استنارے میں نصف شمس سے کم منیر اور نصف ارض  سے زیادہ مستنیر ہوتاہے اور قمر سے زمین کے استنارے میں بالعکس ۱۲ منہ غفرلہ۔
 
دلیل ۸۶ : اقول ، حرکت و ضعیہ میں قطب سے قطب تک تمام اجزاء محور ساکن ہوتے ہیں اور ہم نمبر ۳۳ میں ثابت کر آئے ہیں کہ زمین کی یہ حرکت اگر ہے تو ہر گز تمام کُرے کی حرکت واحد نہیں ،جس کے لیے قطبین و محور ہوں جب کہ ہر جز کی جدا حرکت اینیہ ہے کہ ہر جز میں نافریت اور طلبِ نور و حرارت ہے تو اجزاء محورکا سکون بے معنی نہ کہ وہ بھی خط ح طؔ  پر جہاں جاذبیت ہے نہ قوت اور اس کے بعد تک مقابلہ باقی ہے تو بُطلان حرکت زمین میں کوئی شبہ نہیں۔
دلیل ۸۷ : اقول :  ہماری تقریر ۳۳ سے واضہ کہ اجزاء زمین میں تدافع ہے۔
اولاً : اجزاء کی حرکت اینیہ میں اور ہر اینیہ میں قوت دفع ہے کہ وہ مکان بدلتی ہے جو اس کی راہ میں پڑے اُسے ہٹاتی ہے۔
ثانیاً : یہاں اسی قدر نہیں بلکہ اجزاء کی چال مضطرب ہے تو تدافع نہیں تلاطم ہے۔ حرکت محوری اگرجاذبیت و نافریت سے ہو جس طرح ہم نے نمبر ۳۳ میں تقریر کی جب تو ظاہر کہ قرب مختلف تو جذب مختلف تو نافریت مختلف تو چال مختلف تو اضطراب حاصل ورنہ اس کی کوئی بھی وجہ ہو۔بہرحال اصول ہیئت جدیدہ پر یہ احکام یقیناً ثابت کہ : 
(۱) بعض اجزاء ارض کا مقابل شمس اور بعض کا حجاب میں ہونا قطعی۔
(۲) مقابلہ زمین قُرب و بعُد اور خطوط واصلہ کا عمود منحرف ہونے کا اختلاف یقینی۔
(۳) ان اختلافات سے جاذبیت میں اختلاف ضروری۔
(۴) اس کے اختلاف سے نافر یت میں کمی بیشی لازمی۔
(۵) اُس کی کمی بیشی سے چال میں تفاوت حتمی۔
(۶) اس تفاوت سے اجزاء میں تلاطم و اضطراب ان میں سے کسی مقدمہ کا انکار ممکن نہیں تو حکم متیقن تو واجب کہ معاذ اﷲ زمین میں ہر وقت حالت زلزلہ رہے ،ہر شخص اپنے پاؤں کے نیچے اجزاء زمین کو سرکتا تلاطم کرتا پائے اور آدمی کا زمین کے ساتھ حرکت عرضیہ کرنا اس احساس کا مانع نہیں ،جیسے ریل میں بیٹھنے سے حال محسوس ہوتی ہے خصوصاً پرانی گاڑی میں لیکن بحمد اﷲ تعالٰی ایسا نہیں تو حرکت محوری یقیناً باطل ،مقامِ شکر ہے کہ خود ہیئت جدیدہ کا اقرار ا س کا آزار۔
کسی نے کہا تھا کہ زمین چلتی تو ہم کو چلتی معلوم ہوتی۔ اس کا جواب(ص ۱۶۷)  یہی دیا کہ زمین کی حرکت اگر مختلف ہوتی یا اس کے اجزاء جدا جدا حرکت کرتے ضرور محسوس ہوتی۔ مجموع کرہ کو ایک حرکت ہموار لاحق ہے ، لہذا حِس میں نہیں آتی ،جیسے کشتی کی حرکت کشتی نشیں کو محسوس نہیں ہوتی یعنی جب تک جھکے گا نہیں۔
الحمدﷲ ہم نے دونوں باتیں ثابت کردیں کہ زمین کو اگر حرکت ہوتی تو ضرور اجزاء کو جدا جدا ہوتی اور ضرور ناہموار و مضطرب ہی ہوتی جب ایک بات پر محسوس ہونا لازم تھا کہ اب کہ دونوں جمع ہیں بدرجہ اولٰی احساس واجب لیکن اصلاً نہیں ،تو زمین یقیناً ساکن محض ہے۔
 
دلیل ۸۸: اقول ، پانی زمین سے بھی کہیں لطیف تر ہے تُو اس کے اجزاء میں تلاطم واضطراب اشد ہوتا اور سمندر میں ہر طرف طوفان رہتا۔
دلیل ۸۹: اقول ،  پھر ہوا کی لطافت کا کیا کہنا ، واجب تھا کہ آٹھ پہر عرب سے شرق تک تحت سے فوق تک ہوا کی ٹکڑیاں باہم ٹکراتیں ،ایک دوسرے سے تپانچے کھاتیں اور ہر وقت سخت آندھی لاتیں ،لیکن ایسا نہیں تو بلاشبہہ زمین کی حرکت محور باطل اور اُس کا ثبوت و سکون ثابت ومحکم  ،وﷲ الحمد وصلی اللہ علٰی سیدنا محمد واٰلہ وصحبہ وسلم امین

دلائل قدیمہ

یہاں ہم نے زیادہ توجہ گردشمس دورئہ زمین کے ابطال پر رکھی ،فصل اول میں رَدّ اول عام کے سوا باقی گیارہ اور فصل سوم میں سات اخیر کے سوا باقی بیس سب اسی کے ابطال میں ہیں ، اگلوں نے ساری ہمت گرد محو حرکت زمین کے ابطال پر صرف کی ہم اُن میں سے وہ انتخاب کریں جن سے اگرچہ جواب دیا گیا بلکہ بہت کو خود مستدلین نے رَد کردیا لیکن ہم ان کی تشہید و تائید کریں گے اور خود ہیئت جدیدہ کے اقراروں سے اُن کا تام و کامل ہونا ثابت کردیں گے پھر زیادات میں وہ جن کی اور طرح توجیہہ کرکے تصحیح کریں گے پھر تذییل میں اگلوں سے وہ دلائل جن پر اگرچہ انہوں نے اعتماد کیا مگر ہمارے نزدیک باطل و ناتمام ہیں، وباﷲ التوفیق۔

دلیل ۹۰ : بھاری پتھر(عہ۱) اوپر پھینکیں سیدھا وہیں گرتا ہے ،اگر زمین مشرق کو متحرک ہوئی تو مغرب میں گرتا کہ جتنی دیر وہ اوپر گیا اور آیا اس میں زمین کی وہ جگہ جہاں سے پتھر پھینکا تھا۔ حرکت زمین کے سبب کنارہ مشرق کو ہٹا گئی۔

عہ ۱: یہ اور اس کے بعد کی دلیل تذکرہ طوسی و شرح حکمت العین و ہدیہ سعدیہ تک اکثر کتب میں ہے۔

اقول : زمین کی محوری چال ہر سیکنڈ ۴ء ۵۰۶ گز ہے اگر پتھر کے جانے آنے میں ۵سیکنڈ صرف ہوں تو وہ جگہ ۲۵۳۲ گز سرک گئی پتھر تقریباً ڈیڑھ میل مغرب کو گرنا چاہیے حالانکہ وہیں آتا ہے۔

دلیل ۹۱: دو پتھر(عہ۲) ایک قوت سے مشرق و مغرب کو پھینکیں تو چاہیے کہ مغربی پتھر بہت تیز جاتا معلوم اور مشرق سست ،نہیں نہیں بلکہ مشرقی بھی الٹا مغرب ہی میں گرے۔ اقول : یا پھینکنے والے کے ماتھے پر گرے۔ مثلاً وہ پتھر اتنی قوت سے پھینکے تھے کہ دونوں طرف تین سیکنڈ میں ۱۹ گز پر جاکرگرتے۔ سنگ غربی موضع رمی سے جب تک ۱۹ گز مغرب کو ہٹاہے اتنی دیر موضع رمی ۱۵۱۹ گز مشرق کو ہٹ گیا تو یہ پتھر موضع رمی سے ۱۵۳۸ گز کے فاصلے پر گرے گا اور سنگ مشرق وہاں سے انگل بھی نہ سرکنے پائے گا کہ موضع رمی زمین کی حرکت سے اُسے جالے گا۔ اب اگر پھینکنے والے نے اپنے محاذات سے بچا کر پھینکا تھا تو یہ پتھر تین سیکنڈ میں ۱۹ گز مشرق کو چل کر گرجائے گا اور اتنی دور میں موضع رمی ۱۵۱۹ گز تک پہنچے گا یہ موضع رمی سے۱۵۰۰ گز مغرب میں گرے گا اور اگر محاذات پر پھینکا تھاتو معا زمین کی حرکت سے پھینکنے والا پتھر سے ٹکرائے گا۔ اور پتھر اس کے لگ کر و ہیں کا وہیں گرجائے گا لیکن ان میں سے کچھ نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ حرکت زمین باطل ہے۔

عہ ۲ : شرح خضری سے ہدیہ سعیدیہ اسی دلیل سے یوں بھی ثابت کرتے ہیں کہ تیر و طائر و ابر مشرق کو چلتے معلوم ہوں (شرح حکمت العین) اسی سے یوں کہ مشرق کو جاتا مغرب کو چلتا نظر آئے۔(خضری)
اقول : بلکہ مشرق کوجانا مغرب کوجانا ہو کہ اب تک پرند کی جگہ جو پتھر مشرق کو سر کے یہ جگہ سیکڑوں جگہ نکل جائے گی تو یہ اس جگہ سے تجاوز کرنے درکنار ہمیشہ اس سے پیچھے ہی رہے گا۔۱۲ منہ غفرلہ۔

ثم اقول : بلکہ اولٰی یہ کہ یہ دلیل بایں تفصیل قائم کریں جس سے دو دلیل ہونے کی جگہ تین دلیلیں قائم ہوجائیں کہ جہاں شقوق واقع ایک ہی ہوسکے وہ ایک ہی دلیل ہوگی اگرچہ شقیں سو ہوں اور جہاں ہر شق واقع ہوسکے ایک پر استحالہ ہو وہ ہر شق جدا دلیل ہے ،درخت کی ایک شاخ سے دو پرند مساوی پرواز کے مساوی مدت تک مثلاً ایک گھنٹہ اُڑے ،ایک مغرب دوسرا مشرق کو ،اگر اُن کی پرواز رفتار زمین کے مساوی ہے ۔گھنٹے میں ایک ہزار چھتیس میل تو غربی اس شاخ سے دو ہزار بہتر میل پر پہنچا کہ جتنا وہ مغرب کو چلا اسی قدر یہ شاخ زمین کے ساتھ مشرق کو گئی اور مشرق بال بھر بھی شاخ سے جدا نہ ہوا کہ جتنا اُڑتا ہے زمین بھی اتنی ہی رفتار سے شاخ کو اس کے ساتھ ساتھ لارہی ہے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مساوی پر واز والے مساوی فصل پاتے ہیں۔

دلیل ۹۲ : اگر ان کی پرواز رفتارِ زمین سے زائد ہے مثلاً گھنٹے میں ۱۰۳۷ میل تو غربی ۲۰۷۳ میل مغرب میں پہنچے گا اور اس کی مساوی پرواز والا مشرقی ۱۰۳۷ میل اڑکر صرف ایک ہی میل مشرق کو طے کرسکے گا یہ بھی بداہۃً باطل وخلاف مشاہدہ ہے ۔
دلیل ۹۳ : اگر ان کی پرواز رفتارِ زمین سے کم ہے مثلاً گھنٹے میں ۱۰۳۵ میل تو غربی ۲۰۷۱میل پر ہوجائے گا۔ اور اس کا ہم پرواز مشرقی جس نے گھنٹہ بھر محنت کرکے ۱۰۳۵ میل مشرق کو طے کیے۔ نتیجہ یہ پائے گا کہ الٹا اس شاخ سے اک میل مغرب میں گرے گا۔ اڑا تو مشرق کو اور پہنچا مغرب میں ،یہ سب سے بڑھ کر باطل اورخلافِ مشاہدہ ہے۔
دلیل ۹۴: جتنی مسافت قطع کریں اس سے صد ہا گنا فاصلہ ہوجائے۔ (خضری) یعنی ہر عاقل جانتا ہے کہ مثلاً طائر جس مقام سے جتنا اڑے وہاں سے اسے اتنا ہی فاصلہ ہوگا لیکن یہاں اڑے صرف ایک میل اور فاصلہ ہزار میل سے زائد ہوجاتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ صورت مذکورہ میں اگر طائروں کی پرواز گھنٹے میں ایک میل ہے تو شرقی ۱۰۳۵ میل مغرب میں پڑے گا اور غربی ۱۰۳۷ میل۔

دلیل ۹۵ : موضع انفصال اُس شاخ سے مثلاً شاخِ مذکور سے دونوں کے فاصلے کا مجموعہ اتنی دیر میں حرکتِ زمین کا دو چند یا زائد یا زائد کچھ خفیف کم ہو،(خضری)۔
اقول : اول : اُس حالت میں ہے کہ دونوں پرندوں کی پرواز باہم متساوی ہو۔ اور دوم جب کہ غربی کی پرواز شرقی سے زائد ہو ،اور سوم جب کہ عکس ہو۔ اور خفیف اس لیے کہ تیر یا طائر یا گولا عادۃً کوئی زمین کا دسواں حصہ بھی نہیں چلتا اور دونوں طائروں کی پرواز ایک میل ہے تو شرقی ۱۰۳۵ میل مغرب میں پڑے گا اور غربی ۱۰۳۷ میل پر گریں گے ۔ جب کہ ابھی گزرا مجموعہ ۲۰۷۲ کہ گھنٹے میں رفتار زمین کا دو چند ہے اور غربی ایک ساعت میں دو میل اڑے اور شرقی ایک میل تو وہ ۱۰۳۸ میل پر ہوگا اور یہ ۱۰۳۵ پر مجموعہ ۲۰۷۳ میل کہ ضعف سیر زمین کے دو چند سے بھی ایک میل زائد ہے اور شرقی دو میل غربی ایک میل تو وہ ۱۰۳۴ میل پر ہوگا اور یہ ۱۰۳۷پر مجموعہ ۲۰۱۷میل کہ ضعف سیر زمین سے ایک ہی میل کم ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ان پروازوں پر مجموع فاصلہ ہر گز دو تین میل سے زائد نہیں ہوتا ،تو ضرور حرکت زمین باطل۔

صفحہ نمبر 94 تک تحریر کردیا گیا ہے