سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت پر روزہ رکھنا ضروری ہے۔؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم الجواب بعون المَلِكِ الوَهَابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّوْرَ وَالصَّوَابُ
اگر حمل والی یا دودھ پلانے والی عورت کو اپنی یا بچہ کی جان جانے کا ظن غالب ہو تو اسے روزہ چھوڑنا جائز ہے مگر بعد میں اس کی قضا رکھنی پڑے گی۔ جیسا کہ تنویر الابصار میں ہے کہ “حَامِلٍ أَوْ مُرْضِعٍ خَافَتْ بِغَلَبَةِ الظَّنِّ عَلَى نَفْسِهَا أَوْ وَلَدِهَا ” اگر حمل والی یا دودھ پلانے والی عورت کو اپنی یا بچہ کی جان جانے کا ظن غالب ہو تو اسے روزہ چھوڑنا جائز ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار ج ۳ ص ۴۰۳
ظن غالب کی تین صورتیں ہیں۔(1) اس کی ظاہر نشانی پائی جاتی ہے(2)اس کا ذاتی تجربہ ہے(۳) کسی مسلمان طبیب حاذق مستور یعنی غیر فاسق نے اُس کی خبر دی ہو۔
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم۔۔فتاوی یورپ و برطانیہ ص237