عملیات, درود پاک کے اعمال, راہنما اصول

درود شریف کے فضائل و برکات

درود شریف کے فضائل و برکات

درود شریف کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہے کہ اللّٰهُمَّ صَلَّى على مُحَمَّدٍ یا اللہ ! حضرت محمد پر رحمتیں نازل فرما ) سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آپ  نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بہرہ اندوز ہونے کیلئے ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں؟ یا خاکم بدہن ، کیا اللہ تعالیٰ اپنے حبیب پر رحمتیں نازل فرمانے کے لئے ہماری سفارش اور دُعا کے منتظر ہیں؟ ہر گز نہیں ! ہم ہیں کون ؟ ہماری بساط کیا ہے؟ کیا ہمارے اعمال خود ہماری سفارش بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ پھر ہمیں اس دُعا کا حکم کیوں دیا گیا ؟

سچ تو یہ ہے کہ درود شریف پڑھنے کا حکم بھی در حقیقت حضور اکرم کی رحمتہ اللعالمین کا ایک صدقہ ہے۔ ورنہ ہم کہاں ، ہمارا چھوٹا سامنہ کہاں اور اتنی بڑی بات کہاں کہ یا اللہ ! حضرت محمد پر رحمتیں اور سلامتی نازل فرما! یہ دُعا صرف اس لئے سکھلائی گئی کہ ہم اللہ کے دربار میں بار بار حضور انور کے ساتھ اپنے قلبی تعلق اور روحانی نسبت کا اظہار اور لمحہ لمحہ آپ کی غلامی کا اقرار کرتے رہیں۔ یہ تو اس لئے سکھایا گیا تا کہ آپ کے لئے رحمتیں مانگ کر اصل میں اپنے آپ کو رحمتوں اور سلامتی کا اہل ثابت کرتے رہیں ۔ کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے ۔ مَنْ صَلَّى عَلَى وَاحِدَةً صَلَّى اللَّهُ بِهَا عَشْرًا  ( جو آدمی مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس  رحمتیں بھیجتے ہیں ) درود شریف میں سب سے افضل صیغے وہ ہیں جو خود حضور اکرم نے صحابہ کرام کو سکھلائے جن میں سب سے مشہور درود ابراہیمی ہے جسے دنیا بھر کے مسلمان زمین کے چپے چپے پر ہر روز پانچ نمازوں میں بار بار دہراتے ہیں۔ کیونکہ یہ صیغہ خود آنحضرت کی زبان اطہر سے جاری ہوا ہے۔ اس میں درود کا صیغہ ہونے کے علاوہ اضافی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر ہر لفظ آپ کی مبارک زبان سے پھول بن کر جھڑا ہے۔ جب ہم یہ درود شریف پڑھتے ہیں تو ہماری زبانوں کی نسبت آپ کی زبان اطہر سے ہو جاتی ہے۔ درود ابراہیمی کے مختلف اور صیغے بھی صحابہ کرام سے مردی ہیں۔ درود ابراہیمی کے بعد سب سے افضل درود شریف کے وہ صیغے ہیں جو آپ سے مروی ہیں ۔ لیکن آپ پر درود بھیجنے کیلئے یہ قید اور شرط نہیں کہ صرف آپ کے فرمودہ کلمات اور صیغے ہی میں درود بھیجا جائے ۔ افضلیت اپنی جگہ مگر یہ واجب اور شرط کے درجے کی چیز نہیں ہے۔ امت میں کئی حضرات نے محبت و عقیدت میں ڈوب کر ایسے ایسے صیغوں میں درود بھیجا ہے کہ ان الفاظ سے درود بھیجتے ہوئے خود اپنی زبان کے بوسے لینے کو جی چاہتا ہے۔ آگے کچھ ایسے درود پاک آرہے ہیں کہ ان کے الفاظ کچھ ایسے ہی عقیدت میں گندھے ہوئے ہیں کہ آدمی198 درود شریف کے فضائل و برکات پڑھتے پڑھتے جھوم اٹھتا ہے۔ بعض صیغے بزرگانِ دین سے اس طرح کے منقول ہیں کہ درود و سلام کے ساتھ ساتھ ان صیغوں میں اپنے کرب ، تکلیف، پریشانی ، مصیبت اور بے بسی و بے کسی کا اظہار بھی ہے۔ صلوۃ تنجینا اس قبیل میں نمایاں مثال ہے۔