Blog
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شریعت مطہرہ میں داڑھی کی کوئی مقدار مقرر ہے یا نہیں ؟ اگر مقدار مقرر ہے تو کل کتنی ہے ؟ اس مقدار مقررہ سے کم داڑھی والے امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے ۔ تو کیا حرام ہے؟
، مکروہ تحریمی ہے یا تشریعی ؟ نیز کیا ایسے امام کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازیں واجب الاعادہ ہیں ؟
اگرچہ کئی سالوں کی نمازیں کیوں نہ ہوں ۔ معتبر کتب کے زیادہ سے زیادہ حوالے دے کر مشکور فرمائیں
الجواب:
تقریبا تر احادیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم آیا ہے ۔ اس لیے داڑھی رکھنا سنت موکدہ قریب من الواجب اور محققین کے نزدیک واجب ہے۔ خود ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل رہا ہے ۔ بخاری شریف میں حضرت عبدالله ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ فعل نقل کیا گیا ہے کہ : وہ داڑھی مٹھی میں پکڑ کر جو اس سے بڑھی ہوتی تھی اسے کاٹ دیتے تھے۔
(بخاری جلد دوم کتاب اللباس ، باب تقليم الاظفار)
ان کے اس فعل سے یہ معلوم ہوا کہ داڑھی کی مقدار ایک مشت ہے۔
در مختار میں ہے: والسنة فيها القبضة
(جلد : ۵ صفحه : ۲۸۸ )
لہذا داڑھی منڈوانے والا ، کٹوانے والا اور کاٹ کر حد شرع سے کم کرنے والا فاسق ہے
اور فاسق کی امامت مکروہ ہے ۔
در مختار میں ہے
۔ اور ایسے شخص کے پیچھے جو نمازیں پڑھی جائیں گی ان کو دوبارہ پڑھنا واجب ہے ۔ فتاوی شامی، در مختار میں ہے۔
(ملخصاً ، جلد اول صفحه : ۳۱۳ )۔
كل صلوة اديت مع كراهة التحريم تجب اعادتها۔
(جلد اول صفحه : ۱۳۳۷ ) یعنی ہر وہ نماز جو کراہمت تحریمہ کے ساتھ پڑھی گئی اس کا لوٹانا واجب ہے ۔ فاسق کو امام بنانا بھی گناہ ہے ۔
حسین الحقائق میں ہے :
في تقديمه للامامة تعظيمة و قد وجب عليهم اهانة شرعاً (جلد ۱ صفحه : ۱۳۴)
یعنی فاسق کو منصب امامت پر کھڑا کرنا ، اس کی تعظیم ہے ۔ در آنیکہ اس کی اہانت شرعاً واجب ہے ۔
اور ” حاشیة الطحطاوی علی الدر الجار” میں ہے : في تقديمه تعظيمة وقد وجب عليهم اهانت شرعاً (جلد اول صفحه : ۲۳۳، ) یعنی قاسق کو امام بنانا اس کی تعظیم ہے ، جبکہ شرعاً اس کی اہانت ضروری ہے ۔ جتنى نمازیں فاسق کی اقتداء میں پڑھی گئی ہیں ان کا اعادہ واجب ہے اگر چہ کئی سالوں کی ہوں ۔
و اللہ تعالی اعلم
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1