محترمی حضرت مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی صاحب قبلہ دامت برکاتہم عالیہ۔
السلام علیکم رحمة الله و برکاته:بفضلہ تعالٰی المولی و بعون رسوله الاعلی میں بخیریت ہوں اور آپ کی خیریت كا خداوند قدوس سے نیک خواہاں ہوں شهر گلبرگه شریف میں بے شمار مساجد ہیں۔پنچ وقتہ نمازیں ہوتی ہیں۔افسوس صد افسوس کا اكثر مساجد کے آئمہ داڑھیوں کو حد شرع سے زیادہ کترواتے ہیں۔بلکہ غیر مہذب طریقہ پر رکھتے ہیں جبکہ داڑھی کی شرعی حد ایک مشت بتلائی جاتی ہے۔اللہ کے فضل وکرم سے حبیب پاک کے صدقہ میں میں نے داڑھی رکھ لی ہے ۔ اللہ تعالی صحیح العقیدہ مسلمانوں کو اس سنت کریمہ کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین ۔
چند مسائل ذہن پر بار ہیں براہ کرم فقہی مستند مسائل کی روشنی میں احقر کو بذریعہ لیٹر مرحمت فرما کر شَشُّ و پنچ کی تیرگی سے نجات دلائیں۔حسب ذیل مسائل کی روانگی کا انتظام فرمائیں تو طلب علم کی پیاس بجھانے کے مصداق ہوں گے ۔ ملاحظہ فرمائیں۔
(1) ایک محلہ کی مسجد کے امام صاحب بحمدہ تعالی سنی حنفی وصحیح العقیدہ ہیں۔اور ان کی ایک مشت داڑھی ہےالبتہ بعض دفعہ وہ اپنے صاحبزادے کو فرض نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں۔اور صاحبزادے داڑھی حد شرع سے کم ہی کرواتے ہیں۔ان کے پیچھے کیا نماز ادا کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر داڑھی بڑھ نہ رہی ہو
تو کیا حکم ہے۔
(۲) بعض ائمہ مساجد کو دیکھا گیا کہ بحالت نماز نظر ادھر ادھر گھماتے ہیں اور عمل کثیر کرتے ہیں یعنی دونوں ہاتھوں سے کپڑوں کو سمیٹتے ہیں کیا نماز فاسد نہ ہوگی؟
(3)اگر حفاظ کرام کی داڑھیاں نہیں ہوتیں اور داڑھیاں رکھتے بھی ہیں تو وہ بھی فیشن ایبل کیا ان کی اقتدا میں تراویح کی نماز درست ہے؟
(4)ایک صاحب کبھی کبھی فرض پڑھاتے ہیں،حالانکہ ان کی عمر30 سال سے تقریباً زائد ہوگی شادی نہیں کی ہے بعض حضرات انھیں نماز پڑھانے سے روکتےہیں توکیاوہ نماز پڑھا سکتے ہیں یا نہیں؟
(5)ایک مقام پر افطار کے ساتھ اذان ونماز باجاعت کا شاندار اہتمام ہوا جب کہ اس مقام سے مسجد صرف سڑک پارکرنے کا فاصلہ رکھتی ہے بلکہ مسجد کی اذان کی آواز وہاں تک پہونچتی ہے۔تو کیا اس مقام پر اذان دے کر وھیں نماز باجماعت ادا کی جا سکتی ہے؟
الجواب۔۔
(1)ایک مشت تک داڑھی بڑھانا واجب ہے چونکہ اس کا وجوب سنت سے ثابت ہے اس لئے عام طور پر لوگ اسے سنت کہہ دیتے ہیں حدیث شریف میں ہے۔
خالفوا المشركين اوفروا اللحى واحفوا الشوارب۔
وفي روایة۔ ۔۔۔
انھکوا الشوارب واعفوا اللحی۔
یعنی سرکار اقدس صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کترواؤ اور ایک روایت میں ہے کہ مونچھوں کو خوب کم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔
(بخاری ٫مسلم) در مختار میں ہے۔
یحرم على الرجل قطع لحيته۔
یعنی مرد کو داڑھی منڈانا حرام ہے۔
اور بہار شریعت جلد شانزدهم ص197 میں ہے داڑھی بڑھانا سنن انبیائےسابقین سے ہےمنڈانا یا ایک مشت سے کم کرنا حرام ہے۔
اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمة اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں حلق کردن لحیه حرام ست و روش افرنج وہنود وجوالقیان ست که ایشاں را قلندریہ گویند و گذاشتن آں بقدر قبضه واجب ست وآں که آنراسنت گویند یعنی طریقہ سلوک دین ست. یا بجہت آنکہ ثبوت آں بسنت ست چنانکه نمازعید را سنت گفته اند..فارسی۔
ترجمہ۔
داڑھی منڈانا حرام ہے اور انگریزوں ،ہندوؤں اورقلندریوں کا طریقہ ہے۔اور داڑھی کو ایک مشت تک چھوڑ دینا واجب ہے اور جن فقہاءنے ایک مشت رکھنے کو سنت قرار دیا تو وہ اس وجہ سے نہیں کہ ان کے نزدیک واجب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ یا تو یہاں مراد دین کا چالو راستہ ہے۔ اور یا تو اس وجہ سے کہ ایک مشت کا وجوب حدیث شریف سے ثابت ہے۔
جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے نماز عید کو مسنون فرمایا (حالانکہ نماز عید واجب ہے اشعۃ اللمعات۔۔جلد اول ص 212) اور در مختارمع شامی جلد دوم ص 112رد الحتار جلد دوم ص117بحر الرائق جلد دوم ص280 فتح القدیر جلد دوم ص270 اور طحطاوی ص 411 میں ہے۔
واللفظ للطحطاوي۔ الاخذ من اللحية وهو دون لك اي القدر المسنون فهو القبضه كما يفعله بعد الغاربه ومخنثة الرجال لم يبحه احد اخذ كلها فعل يهود الهند ومجوس الاعاجم.
ترجمہ۔یعنی داڑھی جب کہ ایک مشت سے کم ہو تو اس کا کاٹنا جس طرح بعض مغربی اور زنانے زنخے کرتے ہیں کسی کے نزدیک حلال نہیں۔اور کل داڑھی کا صفایا کرنا یہ کام تو ہندوستان کے یہودیوں اور ایران کے مجوسیوں کا ہے انتہی۔
لہذا امام کے صاحب زادے اگر داڑھی کٹا کر ایک مشت سے کم رکھتے ہیں تو ان کو امامت کے لئے آگے بڑھانا جائز نہیں اگر پڑھی تو اس نماز کا دہرانا واجب ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے کہ وہ فاسق مرتکب حرام ہے جیسا کہ مذکورہ بالا عبارتوں سے ظاہر ہے۔ اور داڑھی نہ بڑھنے کا عموما لوگ بہانہ بناتے ہیں لیکن اگر حقیقت میں داڑھی نہ بڑھتی ہو تو ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہےبشرطیکہ اور کوئی وجہ مانع جواز امامت نہ ہو۔ وهو تعالیٰ اعلم
(2) نماز کی حالت میں ادھر ادھر منہ پھیر کر دیکھنا مکروہ تحریمی اور اگر منہ نہ پھیرے صرف کنکھیوں سےادھر ادھر بلا حاجت دیکھے تو کراہت تنزیہی ہے اور نادراً کسی صحیح غرض سے ہو تو اصلاحرج نہیں (بہار شریعت)۔
اور عمل کثیر سے نماز فاسد ہو جاتی ہے لیکن کپڑا سمیٹناجیسا کہ ناواقف لوگ سجدہ میں جاتے ہوئے آگےیا پیچھے کے کپڑے کو اٹھاتے
ہیں یہ مفسد نماز نہیں بلکہ مکروہ تحریمی اور نا جائز ہے جس نماز میں ایسا کیا گیا اس نماز کا دوبارہ پڑھنا واجب ہے۔ وهو تعالى اعلم۔
(3) اگر حافظ کو پیدائشی طور پر داڑھی نہ ہو تو اس کے پچھے تراویح پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ امامت کی اور شرط مفقود
نہ ہو۔اور اگر داڑھی منڈاتا ہو یا کٹا کر ایک مشت سے کم رکھتا ہو تو اس کے پیچھے تراویح پڑھنا مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہے کہ وہ فاسق ہے یعنی تراویح پڑھنا سنت مؤکدہ ہے مگر فاسق کے پچھے پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنا واجب۔ هكذا في الكتب الفقيه، وهو تعالى أعلم .(4)امامت کے لئے شادی ہونا شرط نہیں لہذا شخص مذکور میں اگرکوئی دوسری شرعی خرابی نہ ہو تو اس کے پیچھے ہر قسم کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔
(۵)اگر افتراق بین المسلمین نہ ہو تو جس طرح مسجدکے سامنے روڈ کی دوسری جانب مسجد بنانا جائز ہے اسی طرح
اذان واقامت کے ساتھ اس جگہ نماز باجماعت پڑھنا بھی جائز ہے و هو تعالى وسبحانه اعلم بالصواب واليه المرجع والعاب
بحوالہ: فتاوی فیض الرسول
ص:271