مصیبت دور کرنے کا وظیفہ
إِنَّالِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں (سورۂ بقرہ آیت(۱۵۶)
ثبوت: اس عمل کی تاثیر کی نسبت خود اللہ تبارک و تعالی سورۃ بقرہ کے رکوع ۹/ آیت۱۵۵ تا ۱۵۷ میں ارشاد فرماتا ہے
وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ الَّذِينَ لَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّاإِلَيْهِ رَاجِعُونَ أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
اور خوشخبری سنا ان صبر کرنے والوں کو کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، بول اٹھتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں ، یہی تو ہیں جن پر رحمتیں ہیں ان کے پروردگار کی طرف سے اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو مصیبت کے وقت دو کام کرنے چاہئیں، اول دل سے صبر کرنا، دوم زبان سے کلمہ
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
پڑھنا چاہئے ۔ اس کلمے کے پڑھنے سے تین طرح کے فائدے اور منافع ہوتے ہیں
اول مغفرت، دوم رحمت سوم ہدایت ۔ یہ تینوں صفتیں انسان کے لئے نعمت عظمی ہیں
کیوں کہ اس کو تین حالتوں کے درست ہونے کی ضرورت ہے ، اول حالت دنیا، دوم حالت دین، سوم حالت آخرت، چونکہ اس کلمہ کی بھی تین فضیلتیں ہیں، اس لئے اس میں گویا ان تینوں حالتوں کی درستی کی طرف اشارہ فرمایا جاتا ہے، مثلا دنیا میں رحمت ، دین میں ہدایت اور آخرت میں مغفرت ہے۔