مسئله :
کیا فرماتے ہیں علماۓ دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل میں کہ زید جو دارالعلوم دیوبند کا فارغ ہے اور قاری بھی ہے وہ امامت بھی کرتا ہے نماز میں ولا الضالین کے ضاد کو قصدا ظاء پڑھتا ہے اور اسی کو صحیح مانتا ہے بکر کا کہنا ہے کہ یہ غلط ہے اب دریافت طلب یہ امر ہے کہ ان دونوں میں سے کس کی بات مانی جائے نیز ضاد کی ادائیگی کس طرح کیجائے اور ضاد کو ظاء پڑھنے والے کے لئے کیا حکم ہے جواب مع حوالہ تحریر فرمائیں تاکہ زید کو دندان شکن جواب دیا جا سکے ۔
الجواب:۔
اللهم هداية الحق والصواب زیدجو دارالعلوم دیوبند کا فارغ ہے دیانبہ کے کفریات قطعیہ مندرجہ۔
حفظ الایمان صفحہ 8 تحذیر الناس صفحہ 3.14.28 اور براہین قاطعہ صفحہ 5 کی بنا پر کہ معظمہ مدینہ طیبہ ۔ہندوستان، پاکستان، اور بنگال و برماکےسینکڑوں علمائے کرام و مفتیان عظام نے جو مولوی اشرف علی تھانوی، قاسم نانوتوی ،رشیداحمد گنگوہی اور خلیل احمد انبیٹھی کو کافر مرتد قرار دیا ہے۔
جس کی تفصیل حسام الحرمین اور الصوارم الہندیة میں ہے اسے یہ فتوی تسلیم ہے یا نہیں؟
اگر نہیں تسلیم ہے تو بمطابق فتوی حسام الحرمین وہ بھی کافر و مرتد ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا بہر صورت باطل محض ہے اور اگر حسام الحرمین کا فتوی تسلیم ہے مگر ضاد کو قصدا ظاء پڑھتا ہےتو اس کے پیچھے نمازہرگز نہ ہو گی کہ قصدا ضاد کو ظاء پڑھے حرام قطعی ہے زید سراسرغلطی پر ہے بکر کا کہناصحیح ہے۔
فتاوی رضویہ جلد سوم ص111 میں ہے
ض،ظ،ذ۔ز معجمات سب حروف متبائنہ متغائرہ ہیں ان میں کسی کو دوسرے سے تلاوت قرآن میں قصدا بدلنا اس کی جگہ اسے پڑھنانماز میں ہوخواہ بیرون نماز حرام قطعی گناہ عظیم افترا على الله و تحریف کتاب کریم ہے انتہی ۔
ضاد کا مخرج زبان کی داہنی یا بائیں کروٹ ہے یوں کہ اکثر پہلوۓ زبان حلق سے نوک کے قریب تک اسی جانب کو ان بالائی داڑھوں کی طرف جو وسط زبان کے محاذی ہیں قریب ملاصق ہوتا ہوا کچلیوں کی طرف دراز ہو ھکذ فی جزء الثالث من الفتاوى الرضوية على ص117 اور ضاد کو قصد ظاء پڑھنے والا مفتری علی اللہ، محرف قرآن کریم اور حرام قطعی کا مرتکب ہے ۔
وھو تعالى اعلم
بحوالہ: فتاوی فیض الرسول،ص: 243