ٹیلی پیتھی

تحت الشعور اور اسکی مخفی قوت

تحت الشعور اور اسکی مخفی قوت

ہر ایک انسان کے تحت الشعور (جسے تحت ذہن بھی کہہ سکتے ہیں میں ایک عظیم قوت مخفی ہے جو ہر لمحہ پرواز کے لئے بے چین رہتی ہے اگر کچھ کچھ کوشش کی جائے تو اس مخفی قوت سے کام لے کہ ہم اپنی کئی خوابیدہ دماغی صلاحیتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ ہم اپنے دماغ کےبعض حصوں کو بکثرت استعمال کرتے رہتے ہیں۔
مثال کے طور پر حواس خمسہ ہی کو لیجئے ۔ لیکن دماغ کے بعض حصوں کی حیرت انگیز صلاحیتیں ہم اب تک استعمال کرنے کے قابل نہیں ہو سکے ہیں۔ بعض اوقات ہمارا واسطه کسی ایسی پراسرار قوت سے پڑتا ہے جس کی ہم مناسب طور پر کوئی خاص تعریف نہیں کر سکتے لیکن اسے روحانی قوت کہ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ روحیت کے ماہرین نے اپنی اصلاح میں اس کا نام ،” ادراک ماورائےحواس” یا ایکسٹرا سندی پرسپشن رکھا ہے مگر یہ قوت کہاں سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ ظہور میں اتی ہے ان مسائل پر اب تک کوئی ماہر اطمینان بخش طور پر روشنی نہیں ڈال سکا ہے
تھاٹ ریڈنگ (خیالات خوانی) میں یہ کلیہ بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی چیز اپنی مشابہ چیز کی جانب خوب کھینچتی ہے اپ کے خیالات اگر نیک اور تعمیری ہوں تو اپ کے ذہن میں ویسے ہی اس سے ملتے جلتے خیالات وہ افکار بے شمار تعداد امڈتے چلیں آئیں گے اور اگر اس کے برعکس ہوگا تو بھی اس قسم کے خیالات جنم لیتے ہیں
مــــــــــــــــاہیت افکار
خیالات دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو ائندہ چل کر ٹھوس حقیقت بن جاتے ہیں مثلا ٹیلی فون جو کسی زمانے میں محض ایک خیالی حیثیت رکھتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس نے ٹھوس شکل اختیار کر لی دوسرے وہ جو کبھی ٹھوس شکل اختیار نہیں کرتے یہ ان کے برعکس ہوتے ہیں
مثال کے طور پر یہ خیال کہ جمہوریت سب سے اچھا نظام ہے یہ جملہ ایک خیال یا نظریے کی نمائندگی کرتا ہے جو کبھی ٹھوس شکل اختیار نہیں کرتے یا غصہ بری شے ہے اپ اس کی نہ تو کوئی تصویر بنا سکتے ہیں اور نہ ہی اسے کوئی ٹھوس شکل دے سکتے ہیں
زمانہ قدیم میں ایک یونانی سنگتراش بوس نامی کوئی یہ حبط پیدا ہو گیا کہ وہ مختلف انسانی جذبات کی تصویر بنائے چنانچہ اس نے غصہ محبت ناکامی احترام اور خوف وغیرہ کہ عنوانات قائم کر کے سنگ مرمر کے متعدد مجسمے بنا ڈالے جو اج بھی اپنی جگہ شاہکار کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ شترا بوس بھی خیال کی کوئی تصویر نہیں بنا سکا انتقال افکار کی زد میں صرف وہی خیال اتے ہیں جن کی کوئی تصویر یا مجسمہ نہیں بنایا جا سکتا ہے
روشنی بجلی حرارت اور مقنا طیسیت مطلب یہ سب مادے کی مختلف اور بدلی ہوئی شکلیں ہیں یعنی توانائی کی لہریں بالکل اسی طرح خیال بھی لہروں کی شکل میں سفر کرتا ہے گو ہم خیال کی لہروں کو چھو نہیں سکتے سن نہیں سکتے دیکھ نہیں سکتے سونگ نہیں سکتے چکھ نہیں سکتے لیکن محسوس کر سکتے ہیں
انتقال افکار کا فن تسخیر ا عصاب اور تسخیر خیال پر مشتمل ہے تسخیر کے لیے یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ تمام خیال کو ایک مرکز پر جمع کر دیا جائے تمام خیالات کی بھیڑ چھانٹ کرنا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نقطہ پر جما دینا یعنی مراقبہ کرنا ہے کیونکہ توجہ کی اعلی شکل مراقبہ ہے اس بات کو جیسی روح ویسے فرشتے کے وزن پر سمجھ لیجئے
جب اپ بے حد خوش خوش و خرم ہوتے ہیں تو مسرت کی نیلگوں لہریں اپ کے دماغ سے اس طرح نکلتی ہیں جیسے کسی برقی قمقمے سے شعاعیں خارج ہوتی ہیں اور چاروں طرف اپنا اخاطہ قائم کر لیتی ہیں اپ کے ذہن سے پیدا شدہ نیلگو ں مسرت کی لہریں باہر نکل کر پوری کائنات کا احاطہ کر لیتی ہیں اور کائنات میں ازل سے بکھری ہوئی تمام نیلگوں لہروں میں ایک ہلچل سی پیدا کر دیتی ہیں اور کائنات میں ایک ہی نقطہ پر سمٹنے لگتی ہیں
اس وقت اپ کے ساتھ ہی دنیا میں جتنے بھی انسانی دماغ سے مسرت کی نیلگوں لہریں خارج ہو رہی ہوتی ہیں ان سب کا تعلق ایک دوسرے قائم ہو جاتا ہے لیکن اگر انہی اوقات میں اس مجلس میں کسی دوسرے شخص کے دماغ سے رنج وہ الم کی سریع الاثر لہریں خارج ہو رہی ہو اور وہ ان نیلگوں لہروں سے زیادہ طاقتور ہو تو وہ ان پر غلبہ حاصل کر لیتی ہیں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف پوری مجلس ہی غمگین ہو جاتی ہے بلکہ تمام فضا پر غم کی کیفیت چھا جاتی ہے اور بقول شاید ہوائیں ٹھنڈی اہیں بھرتی ہوئی محسوس ہونے لگتی ہے
موجودہ دور کو ہم اعصابی جنگ کا زمانہ کہتے ہیں اخر لوگوں کے حساب روز بروز کیوں بگڑتے چلے جا رہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ ذہن کی غلط پرورش ہی کہی جا سکتی ہے چند دیوانوں کے دماغ کشمکش پیدا کرنے والی لہروں کو خارج کرتے ہیں کمزور دماغ انہیں فورا قبول کر کے علت اور محلول کے قدرتی اصول کے تحت لوٹا دیتے ہیں اور پھر وہ لہریں پہلے سے چار گنا زیادہ طاقتور حاصل کر کے دوسرے صاف دماغوں پر اثر انداز ہوتی ہے نتیجہ اعصابی کشیدگی کی صورت میں برامد ہوتا ہے
وا قعی خیالات بہت تیزی سے اثر انداز ہوتے ہیں اور اپنا گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں ان تاثرات کا اس وقت تک اثر قائم رہتا ہے جب تک یا تو خود اپ کا دماغ صاف ستھرے خیالات خارج نہ کرے یا دوسرے دماغوں سے اچھے خیالات کی طاقتور لہریں ان برے اور تخریبی خیالات کو دور نہ کر دیں یعنی کمزور نہ کرتے
یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ کوئی خیال پیدا ہو جانے کے بعد پھر کبھی پناہ نہیں ہوتا وہ ہمیشہ ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے اپ دودھ اور چینی کی مثال لیں شکر کو دودھ میں ملا کر دیکھیں کیا وہ اس میں حل ہو جانے کے بعد غائب ہوگی جی نہیں وہ اب بھی جو کی تو موجود ہے
لیکن اس نے اپ اپنی شکل تبدیل کر لی ہے جس طرح شیر وشکر اپس میں مل کر ایک جان ہو جاتے ہیں اسی طرح ایک خیال بھی مدغم ہو جاتا ہے ہر شخص کے خیالات کی جداگانہ ہنسی بھی ہوتی ہے