حدیث نمبر 50
روایت ہے عبداللہ ابن عمر و سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شرک باللہ،ماں باپ کی نافرمانی ۱؎ جان کا قتل،جھوٹی قسم ۲؎ بڑے گناہ ہیں اسے بخاری نےروایت کیا۔
روایت ہے عبداللہ ابن عمر و سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شرک باللہ،ماں باپ کی نافرمانی ۱؎ جان کا قتل،جھوٹی قسم ۲؎ بڑے گناہ ہیں اسے بخاری نےروایت کیا۔
روایت ہے عبداللہ ابن مسعود سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا حضور کو ن سا گناہ ۲؎ بہت بڑا ہے اللہ کے ہاں فرمایا یہ کہ تم اللہ کا شریک ٹھہراؤ۔حالانکہ اس نے تمہیں پیدا کیا ۳؎ عرض کیا پھر کون سا گناہ۔فرمایا یہ کہ اپنی اولاد اس ڈر سے مار ڈالو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے ۴؎ عرض کیا پھر کون سا گناہ فرمایا یہ کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو ۵؎ تب اللہ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت اتاری اور وہ جو خدا کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور نہ اس جان کو ناحق قتل کریں جسے اللہ نے حرام کیا ۶؎ اور نہ زنا کریں۔
روایت ہے حضرت معاذ ابن جبل سے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو اللہ سے اس حال میں ملے کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرتا ہو ۱؎ پانچوں نمازیں اور رمضان کے روزے ادا کرتا ہووہ بخشا جاوے گا۲؎ میں نے کہا کہ کیا میں لوگوں کو یہ بشارت نہ دے دوں فرمایا انہیں رہنے دو کہ عمل کرتے رہیں ۳؎
انہیں سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کامل ایمان کے متعلق ۱؎ پوچھافرمایا یہ ہے کہ تم اللہ کے لئے محبت و عداوت کرو اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں مشغول رکھو ۲؎ عرض کیا اور کیا یارسول اللہ؟ فرمایا کہ لوگوں کے لئے وہ ہی پسند کرو جو اپنے لئے چاہتے ہو اور ان کے لئے وہ ناپسند کرو جو اپنے لئے ناپسند کرتے ہو۔(احمد)
روایت ہےحضرت ابوامامہ سے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے ۱؎ فرمایا کہ جب تمہیں اپنی نیکی خوش کرے اور اپنی برائی غمگین کرے تو تم کامل مؤمن ہو ۲؎ عرض کیا کہ یارسول اللہ گناہ کیا ہے۔فرمایا جو چیز تمهارے دل میں چبھے اسے چھوڑ دو۳؎ (احمد)
ترجمه.روایت ہے حضرت عمرو ابن عبسہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ حضور اسلام میں آپ کے ساتھ کون کون ہے فرمایا ایک غلام ایک آزاد ۲؎ میں نے عرض کیا اسلام کیا ہے ۳؎ فرمایا اچھی بات کرنا کھانا کھلانا ۴؎ میں نے پوچھا ایمان کیا ہے ۵؎ فرمایا صبر اور سخاوت ۶؎ فرماتے ہیں میں نے پوچھا کون سااسلام بہتر ہے فرمایا جس کی زبان و ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں فرماتے ہیں میں نے پوچھا کونسا ایمان افضل ہے فرمایا اچھے عادات ۷؎ فرماتے ہیں ..پوچھا نماز کونسی افضل ہے ۸؎ فرمایا لمبا قیام ۹؎ فرماتے ہیں میں نے پوچھا ہجرۃ کونسی بہتر ہے ۱۰؎ فرمایا یہ کہ جو رب کو ناپسند ہو اسے چھوڑ دو ۱۱؎ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا کہ جہاد کونسا بہتر ہے فرمایا جس کے گھوڑے کے پاؤں کاٹ دیئے جاویں اور اس کا خون بہادیا جاوے ۱۲؎ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا گھڑی کون سی بہتر ہے۱۳؎ فرمایا آخری رات کا درمیانی حصہ۱۴؎ (احمد)
روایت ہےحضرت ابوہریرہ سے فرماتےہیں کہ فرمایا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تم میں سے کوئی اپنا اسلام ٹھیک کرے ۱؎ تو جو نیکی بھی کرے گا وہ دس گنا لکھی جاوے گی سات سو گنا تک ۲؎ اور ہر برائی جو کر بیٹھے گا وہ ایک گنا ہی لکھی جاوے گی ۳؎ یہاں تک کہ رب سے ملے۔(مسلم و بخاری)
روایت ہے حضرت وہب ابن منبہ سے ۱؎ کہ ان سے عرض کیا گیا کہ کیا کلمہلا الہ الا ﷲ جنت کی چابی نہیں ۲؎ فرمایا ہاں ہےلیکن کوئی چابی دندانہ بغیر نہیں ہوتی ۳؎ تو اگر تم دندانہ والی چابی لے کر آؤ گے تو تمہارے لئے دروازہ کھلے گا ورنہ نہ کھلے گا ۴؎(بخاری ترجمہ باب)
روایت ہے حضرت مقداد سے ۱؎ انہوں نے حضور کو فرماتے سنا کہ روئے زمین پر کوئی ادنی خیمہ کچا گھر ۲؎ نہ رہے گا مگر ﷲ اس میں اسلام کا کلمہ پہنچادے گا عزت والوں کی عزت اور ذلیلوں کی ذلت کے ساتھ۳؎ یا تواﷲ انہیں عزت دے گا کہ انہیں کلمہ والا بنادے گا یا انہیں ذلیل کردے گا وہ دین کی اطاعت کریں گے میں نے دل میں کہا کہ پھر تو پیارا دین ﷲ کا ہی ہوگا۔(احمد).
روایت ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو حضور کے صحابہ میں سے بعض حضرات اس قدر غمگین ہوئے کہ بیماری وہم میں مبتلا ہونے کے قریب ہوگئے ۱؎ حضرت عثمان فرماتے ہیں کہ میں بھی ان میں تھا ایک میں بیٹھا تھا کہ عمر فاروق گزرے مجھے سلام کہا لیکن مجھے مطلقًا شعو ربھی نہ ہوا ۲؎ جناب عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر سے میری شکایت کی۳؎ پھر وہ دونوں حضرات میرے پاس تشریف لائے اور دونوں نے مجھے سلام کیا۴؎ ابوبکر نے مجھ سے فرمایا کہ کیا باعث ہوا کہ تم نے اپنے بھائی عمر کے سلام کا جواب نہ دیا میں نے کہا میں نے تو ایسا نہ کیا عمر بولے ۵؎ خدا کی قسم تم نے یہ کیا میں نے کہا خدا کی قسم مجھے نہ یہ خبر کہ تم گزرے نہ یہ کہ تم نے مجھے سلام کیا ۔ابوبکر صدیق نے فرمایا عثمان سچے ہیں اے عثمان تمہیں کسی الجھن نے پھنسالیا ۶؎ اس سے بے خبر کردیا میں نے کہا ہاں فرمایا وہ الجھن کیا ہے میں نے کہا کہ الله نے اس سے پہلے ہی اپنے نبی کو وفات دے دی کہ ہم حضور سے اس چیز کی نجات کے متعلق پوچھیں ۷؎ ابوبکر صدیق نے فرمایا کہ میں نے اس کے متعلق حضور سے پوچھ لیا ہے ۸؎ میں آپ کی خدمت میں کھڑا ہوگیا ۹؎ اور کہا اے ابوبکر تم پر میرے ماں باپ فدا یہ تمہارا ہی حق ہے ۱۰؎ ابوبکر نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یارسول الله اس چیز کی نجات کیسے ہوگی ۱۱؎ حضور نے فرمایا جو میری وہ بات مان لے جو میں نے اپنے چچا پر پیش کی تھی ۱۲؎ انہوں نے رَد کردی تھی۱۳؎ تو یہ بات اس کی نجات ہے۔(احمد)
روایت ہے حضرت معاذ ابن جبل سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی چابیاں ۱؎ کلمہ شہادت ہے کہ رب کے سوا کوئی معبود نہیں۔اسے احمد نے روایت کیا۔
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس بیٹھے تھے۔ہمارے ساتھ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہمابھی تھے ۱؎ کہ اچانک ہمارے درمیان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے واپسی میں دیر لگائی ہم ڈر گئے کہ مبادا حضورکو ہماری غیر حاضری میں کوئی ایذا پہنچے ۲؎ ہم گھبراکر اٹھ کھڑے ہوئے گھبرانے والا پہلا میں تھا میں حضور کو ڈھونڈھنے نکل کھڑا ہوایہاں تک کہ انصار بنی نجار کے ایک باغ میں پہنچا ۳؎ باغ کے اردگرد گھوما ۴؎ کہ کوئی دروازہ ملے مگر نہ ملا ۵؎ ایک نالی تھی جو بیرونی کنوئیں سے باغ میں جاتی تھی ۶؎ فرماتے ہیں کہ میں سکڑ کر نالی میں گھس کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ۷؎ حضور نے فرمایا کیا ابوہریرہ ہیں ۸؎ میں نے کہا ہاں یارسول اللہ فرمایا تمہارا کیا حال ہے ۹؎ میں نے عرض کیا کہ حضور ہم میں تشریف فرما تھے اچانک اٹھ آئے اور واپسی میں دیر ہوئی ہم ڈر گئے کہ مبادا حضور کو ہماری غیر موجودگی میں ایذا پہنچے تو ہم گھبرا گئے پہلے میں ہی گھبرایا ۱۰؎ تو اس باغ میں آیا اور میں لومڑی کی طرح سکڑ گیا۱۱؎ اور باقی یہ لوگ میرے پیچھے ہی ہیں ۱۲؎ حضور نے فرمایا اے ابوہریرہ اور مجھے اپنے نعلین شریف عطا کئے ۱۳؎ فرمایا ہمارے نعلین لے جاؤ جو تمہیں اس باغ کے پیچھے یقین دل سے یہ گواہی دیتا ملے ۱۴؎ کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اسے جنت کی بشارت دے دو ۱۵؎ پہلے جن سے ملاقات ہوئی وہ عمر تھے ۱۶؎ وہ بولے اے ابوہریرہ یہ جو تے کیسے ہیں میں نے کہا کہ یہ حضور کے نعلین پاک ہیں مجھے یہ دیکر حضور نے اس لیے بھیجا ہے کہ جو مجھے یقین دل سے گواہی دیتا ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسے جنت کی بشارت دے دوں جناب عمر نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا۱۷؎ کہ میں چت گر گیا اور فرمایا لوٹ چلو ابو ہریرہ ۱۸؎ تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو رو کر فریاد کی ۱۹؎ ا ور مجھ پر عمر کی ہیبت سوار ہوگئی تھی ۲۰؎ دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ کیا حال ہے میں نے کہا کہ میں جناب عُمر سے ملا اور انہیں وہ ہی پیغام سنایا جو دے کر حضور نے مجھے بھیجا تھا تو انہوں نے میرے سینے پر ایسا مارا کہ میں چت گر گیا اور فرمایا کہ لوٹو ۲۱؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر اس کام پر۲۲؎ تمہیں کس خیال نے ابھارا وہ عرض کرنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان یارسول اللہ کیا آپ نے ابوہریرہ کو نعلین پا ک دے کر اس لیے بھیجا ۲۳؎ کہ جو انہیں یقین دل سے یہ گواہی دیتا ملے کہ اللہ کے سوا ء کوئی معبود نہیں اسے جنت کی بشارت دے دیں فرمایا ہاں۲۴؎ عرض کیا ایسا نہ کیجئے ۲۵؎ میں خوف کرتا ہوں کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے ۲۶؎ انہیں چھوڑ دیں کہ عمل کرتے رہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا چھوڑ دو ۲۷؎ (مسلم)