حدیث نمبر 196
اور روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہماری بعض حدیثیں بعض کو قرآن کی طرح منسوخ کرتی ہیں ۱؎
اور روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہماری بعض حدیثیں بعض کو قرآن کی طرح منسوخ کرتی ہیں ۱؎
روایت ہے ان ہی سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا ۱؎ اوراللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اوراللہ کا کلام بعض بعض کو منسوخ کرتاہے۲؎
روایت ہے حضرت جابر سے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں توریت کا نسخہ لائے اور عرض کیا یارسولاللہ یہ توریت کا نسخہ ہے حضور خاموش رہے ۱؎ آپ پڑھنے لگے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور بدلنے لگا ابو بکر بولے کہ تمہیں رونے والیاں روئیں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ انور کا حال نہیں دیکھتے ۲؎ تب حضرت عمر نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا چہر ۂ انور دیکھا تو بولے میں اللہ اوررسول کے غضب سےاللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہماللہ کی ربوبیت اسلام کے دین ہونے اور محمد مصطفے کے نبی ہونے سے راضی ہیں ۳؎ تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی قسم جس کے قبضے میں محمدمصطفےٰ کی جان ہے اگر حضرت موسی آج ظاہر ہوجاویں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے ۴؎ اور میری نبوت پاتے تو میری پیروی کرتے ۵؎ (دارمی)
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں ۱؎ جو سیدھی راہ جانا چاہے وہ وفات یافتہ بزرگوں کی راہ چلے ۲؎ کہ زندہ پر فتنہ کی امن نہیں ۳؎ وہ بزرگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں جو اس امت میں بہترین ۴؎ دل کے نیک علم کے گہرے اور تکلف میں کم تھے ۵؎اللہ نے انہیں اپنے نبی کی صحبت اور اپنے نبی کا دین قائم رکھنے کے لیے چن لیا۶؎ ان کی بزرگی مانو ان کے آثار قدم پر چلو بقدر طاقت ان کے اخلاق و سیرت کو مضبوط پکڑو کہ وہ سیدھی ہدایت پر تھے ۷؎(رزین).
احمد اوربیہقی نے شعب الایمان میں حضرت نواس ابن سمعان سےنقل فرمایا یوں ہی ترمذی نے انہیں سے لیکن ترمذی نے کچھ مختصر روایت فرمایا۔
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اللہ نے سیدھے راستہ کی مثال قائم فرمائی ۱؎ اور اس راستہ کے دوطرفہ دو دیواریں ہیں جن میں کھلے ہوئے دروازے ہیں دروازوں پر پردے لٹکے ہیں راستہ کے کنارے پر پکارنے والا کہہ رہا ہے کہ راستہ پر سیدھے چلے جاؤ ٹیڑھے نہ ہونا اس کے اوپر ایک منادی بھی ہے جو پکارتا ہے جب کوئی بندہ ان میں سے کوئی دروازہ کھولنا چاہتا ہے تو داعی کہتا ہے ہائے افسوس اسے نہ کھول اگر کھولے گا تو اس میں گھس جائے گا۲؎ پھر اس کی تفسیر یوں فرمائی کہ راستہ تو اسلام ہے ۳؎ اور کھلے ہوئے دروازےاللہ کے محرمات ہیں
۴؎ اور لٹکے ہوئے پردےاللہ کی حدیں ہیں ۵؎ اور راستے کے کنارے پر پکارنے والا قرآن ہے اور اس کے اوپر بلانے والااللہ کا واعظ ہے جو ہر مؤمن کے دل میں ہوتا ہے ۶؎ اسے رزین نے روایت کیا۔
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں جس نے قرآن سیکھا ۱؎ پھر اس کی اتباع کی۲؎اللہ اسے دنیا میں گمراہی سے بچائے گا اور قیامت کے دن سخت عذاب سے محفوظ رکھے گا ۳؎ ایک روایت میں ہے کہ فرماتے ہیں جو قرآن کی پیروی کرے گا وہ دنیا میں گمراہ اور آخرت میں بدبخت نہ ہوگا پھر یہ آیت تلاوت کی کہ جو میری ہدایت کی اتباع کرے وہ نہ گمراہ ہو اور نہ بدنصیب ۴؎ (رزین)
روایت ہے حضرت ابراہیم ابن میسرہ سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس نے بدعتی کی تعظیم کی یقینًا اس نے اسلام ڈھانے پر مدد دی۲؎ اسے بیہقی نے شعب الایمان میں مرسلًا روایت کیا۔
روایت ہے حضرت حسان سے ۱؎ فرمایا کوئی قوم اپنے دین میں بدعت نہیں ایجاد کرتی مگراللہ تعالٰی اسی قدر ان کی سنت اٹھا لیتا ہے۲؎پھر اسے تاقیامت ان میں نہیں واپس کرتا۳؎(دارمی).
روایت حضرت غضیف بن حارث ثمالی ۱؎ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ کوئی قوم بدعت نہیں ایجاد کرتی مگر اسی قدر سنت اٹھالی جاتی ہے ۲؎ لہذا سنت کو پکڑنا بدعت کی ایجاد سے بہتر ہے۳؎(احمد)
روایت ہے حضرت ابوذرسے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جماعت سے بالشت بھربچھڑا اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے اتاردی ۱؎ (احمدوابوداؤد)
روایت ہے حضرت معاذا بن جبل سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شیطان آدمی کا بھیڑیا ہے جیسے بکریوں کا بھیڑیا الگ اور دور اور کنارے والی کو پکڑتا ہے ۱؎ تم گھاٹیوں سے بچو ۲؎جماعت مسلمین اور عوام کو لازم پکڑو۳؎(احمد)