حدیث نمبر 39
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آس پاس بیٹھے تھے۔ہمارے ساتھ ابوبکروعمر رضی اللہ عنہمابھی تھے ۱؎ کہ اچانک ہمارے درمیان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ گئے واپسی میں دیر لگائی ہم ڈر گئے کہ مبادا حضورکو ہماری غیر حاضری میں کوئی ایذا پہنچے ۲؎ ہم گھبراکر اٹھ کھڑے ہوئے گھبرانے والا پہلا میں تھا میں حضور کو ڈھونڈھنے نکل کھڑا ہوایہاں تک کہ انصار بنی نجار کے ایک باغ میں پہنچا ۳؎ باغ کے اردگرد گھوما ۴؎ کہ کوئی دروازہ ملے مگر نہ ملا ۵؎ ایک نالی تھی جو بیرونی کنوئیں سے باغ میں جاتی تھی ۶؎ فرماتے ہیں کہ میں سکڑ کر نالی میں گھس کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا ۷؎ حضور نے فرمایا کیا ابوہریرہ ہیں ۸؎ میں نے کہا ہاں یارسول اللہ فرمایا تمہارا کیا حال ہے ۹؎ میں نے عرض کیا کہ حضور ہم میں تشریف فرما تھے اچانک اٹھ آئے اور واپسی میں دیر ہوئی ہم ڈر گئے کہ مبادا حضور کو ہماری غیر موجودگی میں ایذا پہنچے تو ہم گھبرا گئے پہلے میں ہی گھبرایا ۱۰؎ تو اس باغ میں آیا اور میں لومڑی کی طرح سکڑ گیا۱۱؎ اور باقی یہ لوگ میرے پیچھے ہی ہیں ۱۲؎ حضور نے فرمایا اے ابوہریرہ اور مجھے اپنے نعلین شریف عطا کئے ۱۳؎ فرمایا ہمارے نعلین لے جاؤ جو تمہیں اس باغ کے پیچھے یقین دل سے یہ گواہی دیتا ملے ۱۴؎ کہ اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اسے جنت کی بشارت دے دو ۱۵؎ پہلے جن سے ملاقات ہوئی وہ عمر تھے ۱۶؎ وہ بولے اے ابوہریرہ یہ جو تے کیسے ہیں میں نے کہا کہ یہ حضور کے نعلین پاک ہیں مجھے یہ دیکر حضور نے اس لیے بھیجا ہے کہ جو مجھے یقین دل سے گواہی دیتا ملے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اسے جنت کی بشارت دے دوں جناب عمر نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا۱۷؎ کہ میں چت گر گیا اور فرمایا لوٹ چلو ابو ہریرہ ۱۸؎ تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو رو کر فریاد کی ۱۹؎ ا ور مجھ پر عمر کی ہیبت سوار ہوگئی تھی ۲۰؎ دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ کیا حال ہے میں نے کہا کہ میں جناب عُمر سے ملا اور انہیں وہ ہی پیغام سنایا جو دے کر حضور نے مجھے بھیجا تھا تو انہوں نے میرے سینے پر ایسا مارا کہ میں چت گر گیا اور فرمایا کہ لوٹو ۲۱؎ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عمر اس کام پر۲۲؎ تمہیں کس خیال نے ابھارا وہ عرض کرنے لگے میرے ماں باپ آپ پر قربان یارسول اللہ کیا آپ نے ابوہریرہ کو نعلین پا ک دے کر اس لیے بھیجا ۲۳؎ کہ جو انہیں یقین دل سے یہ گواہی دیتا ملے کہ اللہ کے سوا ء کوئی معبود نہیں اسے جنت کی بشارت دے دیں فرمایا ہاں۲۴؎ عرض کیا ایسا نہ کیجئے ۲۵؎ میں خوف کرتا ہوں کہ لوگ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں گے ۲۶؎ انہیں چھوڑ دیں کہ عمل کرتے رہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا چھوڑ دو ۲۷؎ (مسلم)