(شعلے برساتا ہوا تِیر بڑے دھوکا باز وہابی پر)
رسالہ
السّھم الشہابی علٰی خداع الوھابی
(شعلے برساتا ہوا تِیر بڑے دھوکا باز وہابی پر)
رسالہ
السّھم الشہابی علٰی خداع الوھابی
(شعلے برساتا ہوا تِیر بڑے دھوکا باز وہابی پر)
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید دو چار کتابیں اردو کی دیکھ کر چاروں اماموں کے مسئلے اخذ کرتا ہے اور اپنے اوپر آئمہ اربعہ سے ایک کی تقلید واجب نہیں جانتا، اس کو عمرو نے کہا کہ تو لامذہب ہے جو ایسا کرتا ہے کیونکہ تجھ کو بالکل احادیث متواتر و مشہور واحاد وعزیز و غریب و صحیح و حسن و ضعیف و مرسل و متروک و منقطع و موضوع وغیرہ کی شناخت نہیں ہے کہ کس کو کہتے ہیں حالانکہ بڑے بڑے علماء اس وقت اپنے اوپر تقلید واحد کی واجب سمجھتے ہیں اور ان کو بغیر تقلید کے چارہ نہیں تو تو ایک بے علم آدمی ہے جو عالموں کی خاک پا کے برابر نہیں ہے، نہ معلوم اپنے تئین تو کیا سمجھتا ہے جو ایسا کر تا ہے اس کے جواب میں اس نے اس کو رافضی و خارجی و شیعہ وغیرہ بنایا بلکہ بہت سے کلمات سخت سست بھی کہے حالانکہ لامذہب کہنے سے اس کی یہ غرض نہ تھی کہ تو خارج از اسلام ہے بلکہ یہ غرض تھی کہ ان چاروں مذہبوں میں سے تمہارا کوئی مذہب نہیں ہے۔ اور اُس کی غرض شیعہ ورافضی بنانے سے یہ تھی کہ تو ایک امام کی تقلید کرتا ہے جیسے رافضی تین خلیفوں کو نہیں مانتے اور دوسرے یہ کہ ایک امام کی تقلید کرنے سے بخوبی عمل کل دین محمدی پر نہیں ہوسکتا اور چاروں اماموں کے مسئلے اخذ کرنے میں کل دین محمد ی پر بخوبی عمل ہوسکتا ہے، آیا ان دونوں سے کس نے حق کہا اور کس نے غیر حق؟ اور حکم شرع کا ان دونوں کے واسطے کیا ہے جو ایک دوسرے کو سخت کلامی سے پیش آئے؟ امید کہ ساتھ مہر، عالی کے مزین فرما کر ارشاد فرمائیں۔ بیّنوا توجروا ( بیان فرمائیے اجر دیئے جاؤ گے، ت) فقط۔
رسالہ
فوزِمبین دررَدِّ حرکتِ زمین
(زمین کی حرکت کے رَد میں کھُلی کامیابی)
رسالہ
معین مبین بہردور شمس وسکون زمین(۱۳۳۸ھ)
(سورج کی گردش اور زمین کے ساکن ہونے کے لیے مددگار)
(امریکی منجم پروفیسر البرٹ ایف، پورٹا کی پیشگوئی کا رَدّ )
خلفائے ثلثہ رضوان اللہ تعالی علیھم سے آیا حضرت علی علیہ السلام افضل تھے یا کم؟
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی افضلیت کے متعلق سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کا رسالہ
رسول مقبول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہٖ وعترتہ وسلم نے وقتِ رحلت یا کسی اوروقت اپنے بعد اپنا جانشین کس کو مقرر کیا؟
کیافرماتے ہیں علمائے دین ان اقوال کے باب میں:
اول ، ایک رسالہ میں لکھا ہے کہ شب معراج میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حضرت پیران پیر رحمۃ اللہ علیہ نےعرش معلّٰی پر اپنے اوپر سوار کر کے پہنچایا،یا کاندھا دےکر اوپر سوارکر کے پہنچایا،یاکاندھا دے کر اوپر جانے کی معاونت کی، یعنی یہ کام اوپر جانے کا براق اورحضرت جبریل علیہ السلام اوررسول کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انجام کو نہ پہنچا حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے یہ مہم سرانجام کو پہنچائی۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میرے بعد نبی ہوتا تو پیران پیر ہوتے۔
تیسرے یہ کہ زنبیل ارواح کی عزرائیل علیہ السلام سے حضرت پیران پیر نے ناراض اورغصہ میں ہوکر چھین لی تھی۔
چوتھے یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے حضرت غوث الاعظم رحمہ اللہ تعالٰی کی روح کو دودھ پلایا پانچویں اکثر عوام کے عقیدے میں یہ بات جمی ہوءی ہے کہ غوث العظم رحمۃ اللہ علیہ حضرت ابوبکر صدیق سے زیادہ مرتبہ رکھتے ہیں ۔
ان اقوال کا کیا حال ہے ؟مفصل بیان فرماکر اجر عظیم اورثواب کریم پائیں اوررفع نزاع بین الفریقین فرمائیں۔
کیافرماتے ہیں علمائے حق الیقین اورمفتیان پابند شرع متین اس مسئلہ میں کہ عبارت نظم “شام ازل اورصبح ابد”سے بیٹھ جانا براق کا وقت سواری آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ثابت ہے۔
نظم
مسند نشین عرش معلٰی یہی تو ہے مفتاح قفل گنج فاوحٰی یہی تو ہے
مہتاب منزل شب اسرٰی یہی تو ہے خورشید مشرق فتدلّٰی یہی تو ہے
ہمراز قرب ہمدم اوقاتِ خاصہ ہے ہژدہ ہزار عالمِ رب کا خلاصہ ہے
سن کر یہ بات بیٹھ گیا وہ زمیں پر تھامی رکاب طائرسدرہ نے دوڑکر
رونق افزائے دیں ہوئے سلطان بحروبر کی عرض پھر براق نے یا سید البشر
محشرکو جب قدم سے گہر پوش کیجئے اپنے غلام کو نہ فراموش کیجئے
خیرالورٰی نے دی اسے تسکیں کہا کہ ہاں خوش خوش وہ سوئے مسجداقصٰی ہوا رواں
صاحب”تحفہ قادریہ”لکھتے ہیں کہ براق خوشی سے پھولا نہ سمایا اوراتنا بڑا اوراونچا ہوگیا کہ صاحب معراج کا ہاتھ زین تک اورپاؤں رکاب تک نہ پہنچا۔ ارباب معرفت کے نزدیک اس معاملہ میں عمدہ ترحکمت یہ ہے کہ جس طرح آج کی رات محبوب اپنا دولت وصال سے فرح (خوشحال ) ہوتاہے اسی طرح محبوب کا محبوب بھی نعمت قرب خاص اور دولت اختصاص اورولایت مطلق اورغوثیت برحق اورقطبیت اصطفاء اورمحبوبیت مجدوعلاسے آج مالا مال ہی کردیاجائے۔
چنانچہ صاحب “منازل اثنا عشریہ” “تحفہ قادریہ سے لکھتاہے کہ اس وقت سیدی ومولائی مرشدی وملجائی ، قطب الاکرم، غوث الاعظم، غیاث الدارین وغوث الثقلین، قرۃ العین مصطفوی نوردیدۂ مرتضوی ، حسنی حسینی سروحدیقہ مدنی، نورالحقیقت والیقین حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح پاک نے حاضرہوکر گردن نیاز صاحب لولاک کے قدم سراپا اعجاز کے نیچے رکھ دی اوراس طرح عرض کیا: (بیت) برسرودیدہ ام بنہ اے مہ نازنین قد بودبسر نوشت من فیض قدم ازیں قدم
(اے نازنین میرے سر اورآنکھوں پرقدم رکھئے تاکہ اس کی برکت سے میری تقدیر پر فیضان قدم ہو۔ت)
خواجہ عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم گردن غوث الاعظم پر قدم رکھ کر براق پر سوار ہوئے اوراس روح پاک سے استفسار فرمایا کہ تو کون ہے؟عرض کیا : میں آپ کے فرزندان ذریات طیبات سے ہوں اگر آج نعمت سے کچھ منزل بخشئے گا توآپ کے دین کو زندہ کروں گا۔فرمایا : تو محی الدین ہے اورجس طرح میرا قدم تیری گردن پر ہے کل تیرا قدم کُل اولیاء کی گردن پر ہوگا۔
بیت قصیدہ غوثیہ: وکل ولی لہ قدم وانی علٰی قدم النبی بدرالکمال۱ (ہرولی میرے قدم بقدم ہے اورمیں حضورسید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پرہوں جو آسمان کمال کے بدرکامل ہیں۔ت)
(۱فتوح الغیب علی ھامش بہجۃ الاسرارالقصیدۃ الغوثیۃ مصطفٰی البابی مصرص۲۳۱)
پس ان دونوں عبارت کتب سے کون سی عبارت متحقق ہے ؟کس پر عمل کیاجائے ؟یا دونوں ازروئے تحقیق کے درست ہیں؟بیان فرمائیے۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ ۱۱ : از بڑوہ ملک گجرات محلہ راجپورہ متصل مانڈوی مرسلہ میاں محمد عثمان ولد عبدالقادر۲۶شوال ۱۳۳۶ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدکہتاہے کہ جناب قطب الاقطاب غوث الثقلین میراں محی الدین ابو محمد سید عبدالقادرجیلانی قدس سرہ اپنے وقت میں غوث یا قطب الاقطاب نہیں تھے بلکہ سیدنا احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ علیہ قطب الاقطاب اورغوث الثقلین تھے اورجناب سید عبدالقادر جیلانی نے جناب سید احمد کبیر رفاعی سے مدینہ منورہ میں چند اولیاء کےہمراہ بیعت کی ہے یہ بیعت اس وقت ہوئی کہ جب سید احمدکبیر رفاعی کے لئے مزارانورسے دست مبارک نکلاتھا ، اوراکثر عرب میں سید عبدالقادرجیلانی کو مرقومۂ بالاصفتوں سے کوئی نہیں مانتا، ہاں سید احمد کبیررفاعی کومانتے ہیں۔ عمروکہتاہے کہ سیدنا احمدکبیر رفاعی کی ولایت اورقطبیت میں ہمیں بالکل کلام نہیں، مگر ان کی تفضیل سیدنا جناب سید عبدالقادرجیلانی قدس سرہٗ پر نہیں ہوسکتی، اورمدینہ منورہ کی بیعت کا کسی جگہ ثبوت نہیں ملتا،اوراکثر عرب سید عبدالقادرجیلانی قدس سرہ کی بہت قدرومنزلت کرتے ہیں اور قطب الاقطاب وغوث الثقلین کی صفتیں حضرت پیران پیر صاحب ہی پر برتی جاتی ہیں۔
اس مضمون پڑودہ میں خفیہ خفیہ بحثیں ہوا کرتی ہیں ، زید کے پیر مرحوم بڑودہ کے رفاعی خاندان کے سجادہ نشین تھے چند روز ہوئے انتقال ہوگیا ہے ، یہ انہیں کی تحریک وتحریص کا نتیجہ ہے ۔ ہم مستفسر نیچے دستخط کرنے والے نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ سید احمد کبیر اور سید عبدالقادر میں قطب الاقطاب اورغوث اعظم کون ہے ، اورعلمائے ماسلف وحال کس کو مانتے ہیں۔
دوسرے مدینہ منورہ کی بیعت کا اورغوث پاک کی نسبت عقائد اہل عرب کا وافی وکافی ثبوت کتب معتبرہ سے تحریر فرما کرمرہون منت فرمائیں ، آپ کے فتوے کے آنے کے بعد ان شاء اللہ اندرونی تقسیم کابہت سہولت سے فیصلہ ہوجائے گااوریہ ابتدائی مواد بڑھ کر مرض مہلک تک نہ پہنچے گا۔
رسا لہ شما ئم العنبر فی ادب الند ا ء اما م المنبر
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ابوطالب کو کافر اور ابولہب و ابلیس کا مماثل کہتا ہے اور عمرو بدین دلائل اس سے انکار کرتا ہے کہ ا نہوں نے جناب سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی کفالت و نصرت و حمایت و محبت بدرجہ غایت کی اور نعت شریف میں قصائد لکھے حضور نے انکے لیے استغفار فرمائی اور جامع الاصول میں ہے کہ : اہل بیت کے نزدیک وہ مسلمان مرے۔