رسالہ ازاحۃ العیب بسیف الغیب

مسئلہ ۱۴۹ : از مدرسہ دیوبند ضلع سہارن پور مرسلہ یکے از اہلسنت نصر ہم اﷲ تعالٰی بوساطت جناب مولوی وصی احمد صاحب محدث سورتی سلمہ اﷲ تعالٰی ۔
تسلیمات دست بستہ کے بعد گزارش ہے بندہ اس وقت وہاب گڑھ مدرسہ دیوبند میں مقیم ہے۔
جناب عالی ( یعنی جناب مولانا وصی احمد صاحب محدث سورتی) جو جو باتیں آپ نے ان لوگوں کے حق میں فرمائی تھیں وہ سب سچ ہیں سر موفرق نہیں۔ عید کے دن بعد نماز جمیع اکابر علماء ، و طلباء و روسانے مل کر عید گاہ میں بقدر ایک گھنٹہ یہ دعا مانگی کہ ” اللہ تعالٰی جارج پنجم بادشاہِ لندن کو ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور اس کے والد کی خدا مغفرت کرے۔” اور جس وقت جارج پنجم ولایت سے بمبئی کو آیا اور مبلغ چوبیس روپیہ کانا برائے خیر مقدم یعنی سلامی روانہ کردیا اور بتاریخ ۱۳ ذی الحجہ ایک بڑا جلسہ کردیا کہ جو چار گھنٹے مختلف علماء نے بادشاہ انگریز کی تعریف اور دعا بیان کیا اور خوشی کے واسطے مٹھائی تقسیم کیا اور عین خطبہ میں بیان کیا کہ امام احمد بن حنبل نے خواب میں دیکھا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو ، امام احمد نے پوچھا کہ یارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم، میری کتنی عمر باقی ہے؟ آپ نے پانچ انگشت اٹھائیں ، پھر برائے تعبیر محمد بن سیرین کے پاس آئے انہوں نے فرمایا : خمس لایعلمہا الّاھو۱ ؎۔ (پانچ اشیاء ہیں جن کو اﷲ تعالٰی کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ت)

(۱؂ مسند احمد بن حنبل حدیث ابی عامر الاشعری المکتب الاسلامی بیروت ۴/ ۱۲۹ و ۱۶۴)

تو معلوم ہوا کہ آپ مطلع علی الغیب نہیں، دوسرا والیدین کی حدیث کو بیان کیا کہ آپ کو نماز میں سہو ہوگیا جب ذوالیدین نے بار بار استفسار کیا اور آپ نے صحابہ سے دریافت کیا تو پھر نماز کو پورا کیا۔ا س حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے علم مشاہدہ میں نقصان ثابت ہوگیا، علم غیب پر اطلاع تو ابھی دور ہے انتہی، یہاں کے لوگ اس قدر بدمعاش ہیں کہ مولوی محمود حسن مدرس اول درجہ حدیث نے مسلم شریف کے سبق میں باب شفاعت اس حدیث میں کہ آپ نے جب تمام مسلمین کی شفاعت کی اور سب کو نجات دے دیا مگر کچھ لوگ رہ گئے یعنی منافقین وغیرہ تو آپ نے انکے واسطے شفاعت کی تو فرشتوں نے منع کردیا کہ تم نہیں جانتے ہو کہ ان لوگوں نے کیا کچھ نکالا بعد آپ کے ، تو اس سے ظاہر ہوگیا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعہ میں رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں۔” یہ غلط ہے، محض افتراء ہے، علم غیب کا کیا ذکر، اﷲ اکبر، ترمذی شریف کے سبق ۱۷۲ صفحہ آخر میں ہے، ایک عورت کے ساتھ زنا ہوگیا اکراہ کے ساتھ تو اس عورت نے ایک شخص پر ہاتھ رکھا، آپ نے اس شخص کو رجم کا حکم فرمایا۔ پس دوسرا شخص اٹھا، اس نے اقرار زنا کا کرلیا، پہلے شخص کو چھوڑا اور دورا مرجوم ہوگیا۔ آپ نے فرمایا تاب توبۃ الخ ( اس نے پکی توبہ کی الخ ت) اگر شخص ثانی اقرار نہ کرتا تو پہلے شخص کی گردن اڑا دیتے، یہ اچھی غیب دانی ہے۔ ھذا کلہ قولہ ( یہ سب اس کا قول ہے۔ت) اور بھی وقتاً فوقتاً احادیث میں کچھ نہ کچھ کہے بغیر نہیں چھوڑتے۔ اللہ اکبر ، معاذ اﷲ من شرہ ( اﷲ تعالٰی بہت بڑا ہے، اﷲ کی پناہ اس کے شر سے ، ت)

Continue reading

قیام کرنا بوقتِ ذکر ولادت شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقیدہ ہے کہ قیام کرنا بوقتِ ذکر ولادت شریف بدعت سیئہ ہے کیونکہ اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے مطلق پایا نہیں جاتا اور نہ وہ بات جو بعد قرونِ ثٰلثہ قائم کی گئی قابل ماننے کے ہے۔ اور کہتا ہے کہ کیا اُسی وقت حضور پر نورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیدائش ہوتی ہے جو یہ تعظیمی قیام کیا جاتا ہے، یا یہ کہ اُسی وقت آپ کی تشریف آوری ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو کس مقام مجلس میں آپ متجلی ہوتے ہیں، اگر حضارِ محفل میں آپ رونق افروز ہوتے ہیں، تو یہ اور بے ادبی ہے کہ میلاد خوان منبر پر اور آپ فرشِ زمین پر، اور اگر آپ منبر پر جلوہ فگن ہوتے ہیں تو یہ بھی بے ادبی ہوئی کہ برابری کا مرتبہ ظاہر ہوتا ہے ، لہذا بہر نوع قیام بدعت سیئہ ہے ، اس کے برعکس عمرو محفل میلاد شریف اور قیام تعظیمی و تقسیم شیرینی وغیرہ کو اپنا فرض منصبی اور نہایت درجہ مستحسن اور وسیلہ نجات اور ذریعہ فلاحت دینی و دنیوی سمجھتا ہے، فقط۔

Continue reading

صرف مراد نہ مانگنے سے وہابی نہیں ہوتا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص میلاد شریف بھی کراتا ہے اور تمام اولیاء اﷲ کی نیاز نذر بھی کرتا ہے اور سب کو مانتا ہے، اور وہ شخص یہ بات کہتا ہے کہ تمام کام کرو لیکن وہ شخص ان باتوں کو منع کرتا ہے کہ مزار شریف پر جا کر مرادیں مت مانگو بلکہ ا ﷲ سے مراد مانگو اور مزار پر جا کر نیاز نذر سب کچھ کرو ۔ اور کہتا ہے کہ مرادیں اس طریقہ پر مت مانگو کہ فلاں فلاں میری حاجت رفع ہو۔ مزار پر جا کر مت مانگو، مزار پر جا کر فاتحہ پڑھو، ثواب پہنچاؤ، زیارت کرو کہ کیسے کیسے بزرگ آدمی گزرے ہیں، کچھ کرو لیکن مراد مت مانگو خدا سے عرض کرو۔

Continue reading

رسالہ اِنبآءُ المصطفٰی بحال سِرّواخفٰی

حضرت علمائے کرام اہلسنت کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ زید (عہ)دعوٰی کرتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حق تعالٰی نے علم غیب عطا فرمایا ہے، دنیا میں جو کچھ ہوا اور ہوگا حتی کہ بدئ الخلق سے لے کر دوزخ و جنت میں داخل ہونے تک کا تمام حال اور اپنی امت کا خیر و شر تفصیل سے جانتے ہیں۔ اور جمیع اولین و آخرین کو اس طرح ملاحظہ فرماتے ہیں جس طرح اپنے کفِ دست مبارک کو، اور اس دعوے کے ثبوت میں آیات و احادیث و اقوالِ علماء پیش کرتا ہے۔

( عہ : زید سے مراد جناب مولانا ہدایت رسول صاحب لکھنوی مرحوم ہیں )

بکر اس عقیدے کو کفر و شرک کہتا ہے اور بکمال درشتی دعوٰی کرتا ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کچھ نہیں جانتے، حتی کہ آپ کو اپنے خاتمے کا حال بھی معلوم نہ تھا، او ر اپنے اس دعوے کے اثبات میں کتاب تقویۃ الایمان کی عبارتیں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ عقیدہ کہ آپ کو علمِ ذاتی تھا خواہ یہ کہ خدا نے عطا فرمادیا تھا۔ دونوں طرح شرک ہے۔
اب علمائے ربانی کی جناب میں التماس ہے کہ ان دونوں سے کون برسرِ حق موافق عقیدہ سلف صالح ہے اور کون بدمذہب جہنمی ہے، نیز عمرو کا دعوٰی ہے کہ شیطان کا علم معاذ اﷲ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے۔ اس کا گنگوہی مرشد اپنی کتاب براھین قاطعہ کے صفحہ ۴۷ پر یوں لکھتا ہے کہ ” شیطان کو وسعتِ علم نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعتِ علم کی کون سی نصف قطعی ہے۔۱ ؎۔

Continue reading

رسالہ خالصُ الاعتقاد(۱۳۲۸ھ) (اعتقادِ خالص)

نوٹ : یہ کتاب حضرت گرامی مرتبت سید حسین حیدر میاں صاحب مارہروی علیہ الرحمہ کے ان خطوط کے جواب میں بطور مراسلہ لکھی گئی جو موصوف نے بعض دیانبہ کی الزام تراشیوں سے پیدا شدہ صورتِ حال پر پریشان ہو کر تحقیق کے لیے مصنف علیہ الرحمۃ کو تحریر فرمائے تھے اور وہ خطوط چند صفحات قبل رسالہ کی تمہید میں مذکور ہیں۔

Continue reading

غیب کا علم حضور کے پاس تھا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جناب رسول خدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو غیب کی باتیں معلوم تھیں یا نہیں، مائۃ مسائل کے چوبیسویں سوال کے جواب میں روایت فقہی ملا علی قاری کی شرح فقہ اکبر ہے جاننا چاہیے کہ کوئی بات غیب کی انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام نہیں جانتے تھے مگر جس قدر کہ اﷲ تعالٰی اُن کو کسی وقت کوئی چیز معلوم کرادیتا تھا تو جانتے تھے جو کوئی اس بات کا اعتقاد کرے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم غیب کی باتیں معلوم کرلیتے تھے حنفیہ نے اس شخص پر صریح تکفیر کا حکم دیا ہے۔

Continue reading

عقیدہ اہل سنت متفرق سوالات

یافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقیدہ ہے کہ چونکہ عالم الغیب صفت مختصہ باری تعالٰی ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نسبت لفظ عالم الغیب بالواسطہ یا بالعطایا کہنا بھی جائز نہیں اور نہ حضور پر نور کو کل علم غیب یعنی از روزِ ازل تا ابد شبِ معراج میں عطا فرمایا گیا تھا۔ البتہ بعض بعض علوم غیبیہ کا قائل ہے اور اپنے عقیدہ کی دلیل میں چند واقعات بطور اثبات نوشتہ علمائے دیوبند پیش کرتا ہے، مثلاً سورہ کہف کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بجواب اس سوال کے کہ اصحابِ کہف کس مدت تک سوئے تھے، فرمایا کل بتلاؤں گا، اور لفظ ان شاء اللہ تعالٰی نہ کہنے کی وجہ سے اٹھارہ روز تک وحی کا نزول نہ ہوا، اگر علمِ غیب ہوتا تو توقف نہ فرماتے۔

دوئم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا حادثہ کہ کفار مکہ نے آپ کو متہم کیا اور آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم طلاق دینے پر آمادہ ہوگئے۔ اور اگر آپ کو علم ہوتا تو تذبذب کیوں ہوتا، وحی کے نزول پر آپ مطمئن ہوئے اور کہتا ہے کہ اگر کل علمِ غیب عطا فرمایا جاتا تو پھر وحی آنے کی کیا ضرورت تھی؟

(عقیدہ عمرو) برعکس اس کے عمرو کا عقیدہ یہ ہے کہ حضور پر نور سید یوم النشور حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر شب معراج میں اﷲ رب العزت نے جملہ اولین و آخرین مانند آفتابِ درخشاں روشن کردیئے تھے اور تمام علم ماکان ومایکون سے صدرِ مبارک حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جلوہ افروز کردیا تھا اور جن باتوں سے آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ سکوت اختیار فرمایا ان کو خدا اور حبیبِ خدا کے درمیانی اسرار مخفی کی جانب مبذول کرتا ہے، اور روز اول سے لے کر یوم الحشر کے تمامی علوم کو حضور سرور کائنات و مفخر موجودات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علوم کے سمندر کی ایک لہر کی برابر تصور کرتا ہے۔

Continue reading

غیب کا علم

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص کہے کہ غیب کا حال سوائے خدا تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا ہے حتی کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی نہیں معلوم تھا بہ ثبوت اس روایت کے کہ ایک بار ابوجہل نے کنواں راستے میں کھو د کر خس پوش کردیا تھا اور خود بیماری کا حیلہ کرکے پڑرہا تھا جس وقت حضور عیادت کو گئے تو چاہ مذکور عین ر ہگزر میں تھا اس وقت جبرئیل علیہ السلام نے بذریعہ وحی معلوم کیا لہذا اولیاء اﷲ بھی نہیں جان سکتے بجز کشف والہام کے ۔ بینوا توجروا ( بیان فرمایئے اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

Continue reading

راما سنگھ کا حضور علیہ السلام پر اعتراض کا جواب

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ اب کی دس جنوری کی اشاعت میں راما سنگھم نے قرآن عظیم کی تین آیات کا حوالہ دے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو(معاذ اﷲ ) گنہگار قرار دیا ہے ان میں سے پہلی دو میں رسول مقبول ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کو یوں مخاطب کیا ہے۔ تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ۔ تیسری آیت کا مطلب یہ ہےفی الواقعی ہم نے تیرے واسطے بلاشبہہ کا میابی حاصل کی ہے کہ خدا تیرے اگلے پچھلے گناہ معاف کرتا ہے مسٹر حسن ہم کو اس بات کا یقین دلاتے ہیں کہ ان آیات میں تو سے مراد تو ہر گز نہیں ہے بلکہ اس کا اشارہ اسلام کے نبی کے پیروؤں کے گناہوں اور غلطیوں کی طرف ہے یہ بات مشکل ہے کہ اس مباحثہ کو قابل یقین سمجھا جائے کیونکہ اگر عربی زبان ایسی ہی پیچیدہ ہے کہ ہر ایک پڑھنے والا اپنی خواہش کے مطابق مطلب لے سکتا ہے تب قرآن عظیم سے جو چاہیں مطلب لے سکتے ہیں، تاہم مسٹر حسن کا یہ بیان ہے کہ وہ آیاتِ زیر مباحثہ کے ان معنوں پر اعتقاد رکھتے اور قرآن عظیم کے مفسرین کی صنعت کو مانتے ہیں مجھ کو خوف ہے کہ مسٹر حسن نے تفسیروں کو غور سے نہیں پڑھا ہے۔ کیونکہ میں ذیل میں یہ دکھاؤں گا کہ قرآن عظیم کے مسلم مفسرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گنہگار ہونے کو ( معاذ اﷲ) صاف طور سے مانتے ہیں اور بعض موقعوں پر ان خاص گناہوں کو بتاتے ہیں جن کی بابت رسول مقبول ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سے معافی مانگنے کو کہا گیا ہم وہ تین آیات لیتے ہیں جو راماسنگھم نے نقل کی ہیں، اول سورہ محمد ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) کی انتیسویں آیت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تو معافی مانگ اپنے گناہوں اور اپنے معتقدین کی خواہ مرد ہوں خواہ عورت، یہاں پر کسی حالت میں بھی تو کے معنی پیروؤں کے نہیں ہوسکتے چونکہ ان لوگوں کا ذکر خود بھی آچکا ہے۔ اور حرف عطف سب پیچیدگیوں کو صاف کردیتا ہے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پہلے اپنی اور بعد کو اپنے پیروؤں کی معافی مانگنے کو کہا گیا ہے۔ دوسری سورہ مومن کی پچیسیویں آیت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ اس بات کو یقین کرنا دشوار ہے کہ آپ کے مسٹر حسن نے درحقیقت مفسرین سے دریافت کیا ہوگا اگر وہ دریافت کرلیتے تو کبھی نہ کہتے کہ وے لوگ اس بات کو راما سنگھم پر صاف عیاں کردیں گے کہ مسلمانوں کے پیغمبر ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) ہر گناہ سے معصوم ہیں اس سے کہیں دور وہ صاف طور سے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی گنہگاری کو مانتے ہیں، ابن عباس بڑے بھاری مفسرین میں سے ہیں اور اپنی تفسیر میں اس طرح سے کہتے ہیں:

واستغفر(عہ)لذنبک لتقصیروالشکر علی ماانعم اﷲ علیک وعلٰی اصحابک اس کے معنی یہ ہیں کہ تو معافی مانگ اپنے گناہوں کی وہ یہ کہ تو نے خدا کی اس مہربانی کے شکر گزار ہونے میں غفلت کی جو کہ خدا نے تیرے پیروؤں پر کی،۔

زمخشری ایک بڑے بھاری مفسر اپنی تفسیر الکشاف میں یوں لکھتے ہیں: لکن یغفر اﷲ لک ماتقدم من ذنبک قبل الوحی وماتا خرو ما یکون بعد الوحی الی الموت اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تیرے گناہ جو کہ وحی آنے کے قبل ہوئے ہیں اور اس کے بعد میں یعنی مرتے وقت تک معاف کردے۔ بینوا توجروا۔

Continue reading

قیام میلاد شریف

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ قیام میلاد شریف اگر مطلقاً ذکر خیر کی وجہ سے کیا جاتا ہے تو اول وقت سے کیوں نہیں کیا جاتا اس لیے کہ اول سے ذکرِ خیر ہی ہوتا ہے، اور اگر اس خیال سے کیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رونق افروز ہوتے ہیں تو کیا حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اول وقت سے رونق افروز نہیں ہوتے اگر ہوتے تو ابتداءً مجلس مبارک قیام ہی سے کیوں نہیں ہوتا اور اگر نہیں تو کیا فظھرفولد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) ہی کے وقت جلوہ افروز ہوتے اور تا قیام تشریف فرمارہتے اور فوراً لوگوں کے بیٹھتے ہی تشریف لے جاتے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ حضور کا آنا لوگوں کے قیام ونیز میلادخواں کے فظھر فولد کہنے پر موقوف ہے، کیا یہ زید کا کہنا لغو ہے یا نہیں اور اس کا کافی جواب کیا ہے؟ بینوا توجروا ( بیان فرماؤ اجر دیئے جاؤ گے۔ت)

Continue reading