ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو ‘‘ کیا یہ حدیث ہے ؟

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ :” اطلبوا العلم من المهد إلى اللحد“یعنی ماں کی گود سے قبر تک علم حاصل کرو ۔کیا یہ حدیث ہے یا کسی بزرگ کا قول ہے؟ بعض لوگ اسے بطورِ حدیث شیئر کر رہے ہوتے ہیں۔ شرعی رہنمائی فرما دیں۔

Continue reading

نماز غفیرا یزید کیلیے؟؟

نما ز غفیرا کی با بت میں ذکرالشہادتیں دیکھا ہے کہ حضر ت زین العا بد ین رضی اللہ تعا لی نے یزید کو و ا سطے مغفر ت کے بتا ئی تھی مجھے اس نما ز کہ تلا ش ہے میں پڑھنا چا ہتا ہو ں بر اہ مہر با نی اس مسئلہ پر التفا ت مبذو ل فر ما کر تر تیب نما ز سے اطلاع دیجئے۔

Continue reading

کیا تیسری بیٹی اچھی نہیں ہوتی؟

زید کے تیسری لڑکی ہوئی ، اس دن سے زید نہایت پریشان ہے۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ تیسری لڑکی اچھی نہیں ہوتی تیسرا لڑکا نصیب ور اور اچھا ہوتا ہے۔ زید نے ایک صاحب سے دریافت کیا انہوں نے فرمایا یہ سب باتیں اہل ہنود اور عورتوں کی بنائی ہوئی ہیں اگر تم کو وہم ہو صدقات کردو ایک گائے یا سات بکریاں قربانی کردو اور توشہ شاہنشاہِ بغداد رضی اللہ تعالٰی عنہ کر دو ، حق تعالٰی بتصدق سرکار غوثیت رضی اللہ تعالٰی عنہ ہر طرح کی بلاو نحوست سے محفوظ رکھے گا۔ توشہ دو ہیں۔

ایک خشکہ گیلانی : برنج (۵ ماِ) ، روغن زرد (۵ مِا) ، شکر (۵ ماِ )، میوہ (۵ ماِ) شیر گاؤ (۵ ماِ) زعفران (۵ تولہ) ، گلاب (ایک بوتل ) ، کیوڑا ( ایک بوتل ) الائچی خورد (۵ ماِ)، لونگ (۳ تولہ)۔

اس کو پکا کر نیاز شہنشاہِ بغداد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرکے مسلمانوں کو تقسیم کردیا جائے دوسرا حلوہ اس طرح کہ : میدہ گندم (۵ ماِ) ، روغن زرد (۵ ماِ ) شکر (۵ ماِ) میوہ (۵ مِار)

حلوہ پکا کر کیوڑا، گلاب، ورق نقرہ لگا کر فاتحہ دے کر تقسیم کردیا جائے۔ پانچ سیر سے کم ہونا اچھا نہیں زیادہ کا اختیار ہے۔ چونکہ زید اور اس کی اہلیہ متبع حضور کے ہیں اس وجہ سے حضور کو تکلیف دی جاتی ہے کہ یہ باتیں صحیح ہیں یا غلط آپ کچھ صدقات تحریر فرمادیجئے تاکہ ان کی تعمیل زید کرسکے کیونکہ ان صدقات میں مبلغ ایک سو روپے صرف ہوں گے اور زید کی تنخواہ صرف عہ روپے ہے یا ان صدقات میں کمی فرمادیں۔

Continue reading

صبح صبح کسی منحوس کی شکل دیکھ لیں تو؟

ایک شخص نجابت خاں جاہل اور بدعقیدہ ہے اور سود خوار بھی ہے ، نماز روز خیرات وغیرہ کرنا بے کار محض سمجھتا ہے، اس شخص کی نسبت عام طور پر جملہ مسلمانان ِ واہل ہنود میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر صبح کو اس کی منحوس صورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضرور کچھ نہ کچھ وقت اور پریشانی اٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وثوق ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور رکاوٹ اور پریشانی ہوگی چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مناسب بربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے سامنی پڑگیا تو اپنے مکان کو واپس جاتے ہیں اور چندے توقف کرکے یہ معلوم کرکے وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے جاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرز عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ تو نہیں؟

Continue reading

غوث پاک کی دو مشہور کرامات

حضرت بڑے پیر صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی چند مشہور کرامتیں جو کہ مولود شریف ووعظ وغیرہ میں بیان کی جاتی ہیں منجملہ ان کے ایک یہ ہے کہ ایک بڑھا لبِ دریا بیٹھی روتی تھی، اتفاقاً حضرت کا اس طرف سے گزرہوا۔ حضرت نے فرمایا کہ اس قدر کیوں روتی ہو؟ بڑھیا نے عرض کیا : حضرت ! میرے لڑکے کی بارہ برس ہوئے یہاں دریا میں مع سامان کے برات ڈوبی ہے میں یہاں آکر روزانہ روتی ہوں، آپ نے دعا فرمائی آپ کی دعا کی برکت سے بارہ برس کی ڈوبی ہوئی برات مع کل سامان کے صحیح و سالم نکل آئی اور بڑھیا خوش و خرم اپنے مکان کو چلی گئی۔

دوسرے یہ کہ حضرت کے ایک مرید کا انتقال ہوگیا، موتٰی کا لڑکا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس پر لڑکا زیادہ رویا پیٹا اور اُڑ گیا۔ تو آپ کو رحم آیا آپ نے وعدہ فرمایا اور لڑکے کی تسکین کی۔ بعدہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مراقب ہو کر روکا، جب حضرت عزرائیل علیہ السلام رکے آپ نے دریافت کیا کہ ہمارے مرید کی روح تم نے قبض کی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں آپ نے فرمایا۔ روح ہمارے مرید کی چھوڑ دو عزرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بحکم رب العالمین رُوح قبض کی ہے ۔ بغیر حکم نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر جھگڑا ہوا۔ آپ نے تھپڑ مارا، حضرت کے تھپڑ سے عزرائیل علیہ السلام کی ایک آنکھ نکل پڑی اورآپ نے ان سے زنبیل چھین کر اس روز کی تمام رُوحیں جو کہ قبض کی تھیں چھوڑ دیں۔ اس پر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے رب العالمین سے عرض کیا وہاں سے حکم ہوا کہ ہمارے محبوب نے ایک رُوح چھوڑنے کو کہاتھا تم نے کیوں نہیں چھوڑ ی ہم کو ان کی خاطر منظور ہے اگر انہوں نے تمام روحیں چھوڑدیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔

شرعاً ان روایتوں کا بیان کرنا مجلس مولود شریف یا وعظ وغیرہ میں درست ہے، یا نہیں؟ بحوالہ کتب معتبرتحریر فرمائیے۔ بینوا توجروا۔

Continue reading

خوشخبری والے خطوط فارورڈ کرنا

گمنام خطوط بدیں مضمون ملے ہیں۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ قل ھواﷲ احد اﷲ الصمد، ایاک نعبدو ایاک نستعین ، انعمت علیھم عرصہ تین روز میں نو خط نوجگہ بھیجئے اس سے آپ کو بہت فائدہ ہوگا ورنہ نقصان۔
اب عرض یہ ہے کہ اس مضمون کا عندالشرع کیا اصل ہے؟ اس پر عمل ضروری ہے یا نہیں؟ اگر واجب العمل ہے تو بلا نام و نشان کے گمنام خط لکھنے کی کیا وجہ ہے؟

Continue reading

ایک حکایت کا حوالہ

اس حکایت کے بارے میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں کہ کیا یہ کسی معتبر قول سے منقول ہے وعظ کرنے والا اس کو اپنے وعظ میں بیان کرسکتا ہے ؟ اس کی کوئی حقیقت ہے؟ کون سی کتاب میں منقول ہے؟ حکایت یہ ہے ۔

(۱) رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بارے میں مجھے ایک حکایت یاد ہے جو تمام نیک لوگوں میں مقبول ہے۔
(۲) تاکہ تجھے آپ کی ہمتِ اقدس کا پتا چلے کہ امت پر آپ کی کس قدر شفقت ہے۔
(۳) اس کے بعد میں چاروں یاروں کی مدح کی طرف آؤں گا، اے بھائی ! تھوڑا سا وقت غور سے سُن،
(۴) مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام راتیں بیدار رہتے ، ایک رات اتفاقاً آپ پر نیند غالب آگئی۔
(۵) نماز کے وقت تک آپ نیند میں تھے۔ اچانک آپ کو خدائے بے نیاز کا حکم پہنچا۔
(۶) کہ میں نے آپ کو اس لیے پیدا فرمایا ہے کہ آپ امت کے پشت پناہ بنیں۔
(۷) اے میرے محبوب ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) سونا آپ کو زیب نہیں دیتا، جو خدمت میں مشغول نہ ہو وہ بندہ نہیں ہے۔
(۸) جب آدھی رات کو نیند میں مشغول ہیں تو میں آپ کی اُمت پر غضب نازل کروں گا۔
(۹) ہر خاص و عام کو دوزخ میں ڈالوں گا ان میں سے کسی ایک کو چھٹکارا نہیں دوں گا۔
(۱۰) جب خیر البشر (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) نے یہ آیت سنی تو فوراً وہاں سے امتی کہتے ہوئے باہر نکل گئے۔
(۱۱) وہاں سے آپ تشریف لے گئے، کسی نے آپ کو نہیں دیکھا، آپ کے بارے میں فقط چھپی باتیں جاننے والے کو علم تھا۔
(۱۲) اس قصّہ کو جب دو تین دن گزر گئے آپ کے دوست یعنی صحابہ کرام غم سے دل کا خون پیتے رہے۔
(۱۳) آخر کار تیسرے دن نماز کے بعد تمام صحابہ کرام سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پاس گئے ۔
(۱۴) جب انہوں نے اُم المومنین سے پوچھا تو آپ نے انہیں یہ جواب دیا۔
(۱۵) آپ نے کہا کہ پچھلی رات رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو حق کی طرف سے خطاب ہوا، امت کے عذاب سے متعلق آیت نازل ہوئی۔
(۱۶) جب آپ کے کان مبارک تک یہ آیت پہنچی آپ حجرہ سے باہر چلے گئے کسی نے آپ کو نہیں دیکھا۔
(۱۷) نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دوستوں سے اس قدر شور بلند ہوا کہ جنوں اور دیوؤں پر لرزہ طاری ہوگیا۔
(۱۸) صحابہ نے اچانک دور سے ایک چرواہے کو دیکھا اس چرواہے کو دیکھنے سے ان کے دلوں کو کچھ چین آیا۔
(۱۹) اس کے پاس پہنچے اور پوچھا اگر پیغمبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تجھے کوئی خبر ہے تو بتا۔
(۲۰) اس نے کہا میں نے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو کب دیکھا ہے بلکہ میں نے ان کے بارے میں کسی سے سُنا بھی نہیں ہے۔
(۲۱) لیکن تین دنوں سے پہاڑ کے درمیان سے شور کی آواز میرے کانوں میں آتی ہے۔
(۲۲) اس کے رونے سے جانوروں کے دل زخمی ہوگئے ہیں، چراگاہ سے انہوں نے اپنے منہ بند کرلیے ہیں۔
(۲۳) ہر وقت آنکھوں سے آنسو بہاتے ہیں، نیند سے انہوں نے آنکھیں باندھ رکھی ہیں۔
(۲۴) جماعتِ صحابہ نے جب یہ خبر سنی تو ان سب نے اپنا رُخ پہاڑ کی طرف کرلیا۔
(۲۵) پہاڑ کے درمیان ایک غار ظاہر ہوئی، اس غار کے اندر انہوں نے بڑوں کے سردارکو دیکھا۔
(۲۶) بے نیاز کی بارگاہ میں سر سجدہ میں رکھے ہوئے تھے، اپنے خدا سے راز داری میں کہہ رہے تھے۔
(۲۷) فریاد کررہے تھے اور کہہ رہے تھے اے اﷲ ! جب تک تو میری اُمت کے گناہ نہیں بخشے گا،
(۲۸) میں اپنا سر زمین سے نہیں اٹھاؤں گا، روزِ حشر تک میں اسی طرح روتا رہوں گا۔
(۲۹) اس طرح کہہ رہے تھے اور زار و قطار رو رہے تھے ، موسم بہار کی طرح آنسو بہہ رہے تھے۔
(۳۰) جب غار کے چمگادڑوں اور صحابہ کرام نے گریہ وزاری کا یہ زور سُنا تو سرکار کے رونے سے سب کے جگر خون ہوگئے۔
(۳۱) صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اے مومنوں کی شفاعت فرمانے والے ! مہربانی فرمائیں ، زمین سے سر اٹھائیں۔
(۳۲) میں نے عمر بھر جو طاعت کی ہے، اور دنیا میں جتنی عبادت کی ہے ۔
(۳۳) اس کا ثواب آپ کی اُمت کے لیے دیتا ہوں میں اے نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)

Continue reading

اخی جبرائیل تم کو پیغام خدا کیسے ملتا ہے ۔​

زید جو عالم ہے اس نے اپنے وعظ میں بیان کیا کہ ایک روز جب جبرائیل علیہ الصلوۃ والتسلیم بارگاہ رسالت میں حاضر ہو ئے سرکار علیہ التحیتہ والثناء نے ارشاد فرمایا یا اخی جبرائیل تم کو پیغام خدا کیسے ملتا ہے ۔

حضرت جبرائیل نے کہا عرش سے ندا آتی ہے میں آگے بڑھتا ہوں پھر پردے کی آڑ سے مجھے پیغام ملتا ہے۔ سرکار نے فرمایا کہ کیا کبھی آپ نے پیغام دینے والے کو بھی دیکھا ہے فرمایا نہیں۔ سرکار نے ارشاد فرمایا کہ اچھا اب اگر جائیں تو پردہ ہٹا کر دیکھ لیں گے ۔ حضرت جبرائیل جب تشریف لے گئے تو آپ نے پردہ ہٹا کر دیکھا کہ آئینہ دربار قدرت لگا ہوا ہے۔ سرکار اس کے سامنے کھڑے عمامہ شریف سر پر باندھ رہے ہیں حضرت جبرائیل بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے تو فرمایا

یارسول اللہ میں نے آپ کو بعینہ ایسے وہاں بھی دیکھا ہے اے مصطفے میں نے آپ کو قرآن لیتے بھی دیکھا ہے اور دیتے بھی دیکھا ہے ۔ پھر اس نے یہ شعر پڑھا ۔

تمہی ہو اول تمہی ہو آخر تمہی ہو ظا ہر تمہی ہو باطن

جہاں بھی دیکھا تمہی کو پایا تمہی ہو تم دوسرا نہیں ہے

بکر بھی عالم ہے اس نے کہا اس بیان سے سرکار کو خدا کہنا مفہوم ہوتا ہے۔

لہذازید کافر او مرتد ہو گیا دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا قول صحیح ہے یا نہیں، نیز بکر کے قول کو واضح فرمائیں ؟

Continue reading