عملیات میں پرہیز ایک اہم چیز ہے۔ پرہیز کرنے سے جسم میں مادیت کم ہوتی ہے اور روحانیت کے اثر پذیر ہونے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ پر ہیز سے مراد مجاہدہ ہے۔ مجاہدہ نفس کے ساتھ جہاد کو کہتے ہیں۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ اپنے آپ کو کسی ایسی خواہش سے روک لیتا، جس کی نفس کو حاجت یا طلب ہو۔ یہ باعث ثواب ہے۔ جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاد سے واپسی پر فرمایا، جس کا مفہوم ہے۔
حدیث
ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف لوٹ رہے ہیں صحابہ کرام : کے استفسار پر آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: “نفس کے ساتھ جہاد جہاد اکبر ہے۔ پر ہیز دو طرح کے ہیں۔
(1) باطنی پر ہیز یا روحانی پرہیز
(2) کھانے میں پرہی
باطنی پرہیز سے مراد یہ ہے کہ آپ نے عمل کے دوران ہر قسم کے گناہ یعنی جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان ، حسد، عیب جوئی، میوزک، فلمیں ، ڈرامے، بد نظری، فحش گوئی ، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ، نماز چھوڑتا مکر و فریب، بحث ، تنقید، بد کلامی، گالی گلوچ ، فضول گوئی ، چغلی وغیرہ سے بچنا ہے یا بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ پنج وقتہ نماز با جماعت کی پابندی کرنی ہے۔ ہر ایسی جگہ محفل اور لوگوں سے بچیں، جہاں آپ گناہوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ بچنے کی کوشش کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ نے ارادتا گناہ نہیں کرتے ہیں مثلاً آپ کو بازار سے گزرتے ہوئے میوزک یا گانے کی آواز سنائی دے تو اس کی طرف دھیان نہ کریں۔ نہ یہ کہ آپ اپنے موبائل یا ٹی وی وغیرہ پر خود گانے لگا کر سننا شروع کر دیں ۔ گناہوں کے کرنے ، گناہوں والے کاموں میں شامل ہونے یا سننے یا دلچسپی لینے سے بچیں۔ اگر آپ کسی ایسی جگہ موجود ہیں جہاں گناہوں بھری باتیں ہو رہی ہوں اور آپ کا اس جگہ رہنا مجبوری ہے تو دل میں ان باتوں کے لئے نفرت اور برا جاننا ضروری ہے۔ مثلاً آپ اپنے دفتر یا کالج کے کمرے میں موجود ہیں اور آپ کے پروفیسر یا دفتر کا کوئی آدمی کسی کی غیبت یا نمائی کر رہا ہے تو ان کو اس عمل سے روکیں یا کم از کم دل میں برا ضرور جانیں۔ ان کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیں اور اپنے کام میں مصروف رہیں۔ اگر آپ ان باتوں میں دلچسپی لیں گے یا کسی بھی طرح شریک ہوں گے یا صرف سنیں گے یا دل میں بُرا نہیں جانیں گے تو آپ بھی اتنے ہی گنہگار ہوں گے جتنا کہ گناہ کرنے والے۔ لیکن اگر کوشش کے باوجود گناہ ہو جائے تو فورا توبہ کر لیں۔ چند گناہوں سے متعلقہ آیات و احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔ آگے بیان کردہ تمام آیات اور احادیث کتاب الکبائر فرید بک سٹال سے لی گئی ہیں
آیت نمبر 44: ” جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔
(سورہ ال عمران، آیت 61)
حدیث نمبر 155
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: اور چار ایسی باتیں ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک پائی جائے ، اس میں منافقت کی ایک علامت پائی جاتی ہے۔ جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے
بات کرے تو جھوٹ بولے
وعدہ کرے تو اسکو پورا نہ کرے
اور جب جھگڑا کے تو گالی گلوچ سے کام لے
(صحیح مسلم ، ج 1، ص 56)
حدیث نمبر 56
اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کیلئے ہلاکت ہے۔ اس کیلئے ہلاکت ہے، اس کیلئے ہلاکت ہے۔“
حدیث نمبر :57 صحیح مسلم و بخاری شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: “کیا میں تمہیں سب سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبر نہ دوں ۔ اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ۔”
آیت نمبر :45
” پس قریب ہے کہ اگر تم منہ پھیر لو تو تم زمین میں فساد پھیلاؤ اور رشتہ داروں سے تعلق توڑ دو، ایسے لوگوں پر اللہ تعالی نے لعنت فرمائی، پس ان کو بہرہ اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ۔
(سورہ محمد ، آیت 22-23)
حدیث نمبر :58
“رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔
( صحیح بخاری و مسلم، ج 2 مس 885 ، ج 2 میں (315)
حدیث نمبر 59
” حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: “جو شخص شراب پئے اور اسے نشہ نہ آئے اللہ تعالیٰ چالیس راتیں اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا اور جو آدمی شراب پئے اور اسے نشہ آئے اللہ تعالی چالیس دن تک اس کی فرض اور نفل نماز قبول نہیں کرتا اور اگر ایسی حالت میں مرجائے تو بت پرست کی طرح مرے گا اور اللہ تعالی کو حق ہے کہ اسے طينة الخبال ” سے پلائے عرض کیا گیا ” طينة الخبال ” کیا ہے؟ فرمایا جہنمیوں کے جسم سے نکلنے والی پیپ اور خون ”
الترغيب والترہیب ، ج 3 ص (265)
آیت نمبر 46
اور کسی سے بات کرنے میں اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کرو اور زمین پر اتراتا نہ چل بے شک اللہ تعالی کو اتراتا فخر کرتا آدمی پسند نہیں ہے۔” سور و لقمان، آیت (18)
آیت نمبر 47
” بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالٰی کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑا مال لیتے ہیں ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
(سوره ال عمران آیت (77)
یہ آیت جھوٹی قسمیں کھانے والوں کیلئے ہے۔
حدیث نمبر :60:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ” قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں اس شخص کا مقام سب سے بُرا ہو گا جسے لوگ اس کی بد کلامی کی وجہ سے چھوڑ دیں ۔
آیت نمبر :48:
“اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ایک دوسرے کا مذاق اُڑائیں، ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔ کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلاتا اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔
(سورہ حجرات، آیت (11)
حدیث نمبر :61:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا گیا کہ فلاں عورت رات کو نماز پڑھتی اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ آپ علیہ صلوة والسلام نے ارشاد فرمایا: “اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنم میں جائے گی۔“
(المستدرک للحاکم من 4 میل (166)
حدیث نمبر :62:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ” مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف کسی عالم کی لغزش اور منافق کے قرآن پاک میں جھگڑنے اور دنیا کے بارے میں ہے، ( جس کیلئے ) تم ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے۔”
(اتحاف ، ج 1، ص 378)
حدیث نمبر :63
دھوکے باز، کنجوس اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں
(مسند امام احمد، ج 1 ، ص 7)
اب کچھ وہ باطنی پرہیز بیان کئے جائیں گے جن پر عمل نہ کرنے سے آپ کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی یا ختم ہو جائے گی۔
اگر دوران عمل آپ نے بیوی کے ساتھ مباشرت کی تو زکوۃ کا عمل دوبارہ شروع کرنا پڑے گا ۔ عمل کی زکوۃ ادا کرنے کے بعد اس کی پابندی نہیں ، آپ بیوی کے پاس جا سکتے ہیں، بوس و کنار سے بھی احتیاط کریں۔
باطنی پرہیز سے مراد یہ ہے کہ آپ نے عمل کے دوران ہر قسم کے گناہ یعنی جھوٹ، غیبت، چغل خوری، بہتان ، حسد، عیب جوئی، میوزک، فلمیں ، ڈرامے، بد نظری، فحش گوئی ، رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا ، نماز چھوڑتا مکر و فریب، بحث ، تنقید، بد کلامی، گالی گلوچ ، فضول گوئی ، چغلی وغیرہ سے بچنا ہے یا بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہے۔ پنج وقتہ نماز با جماعت کی پابندی کرنی ہے۔ ہر ایسی جگہ محفل اور لوگوں سے بچیں، جہاں آپ گناہوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ بچنے کی کوشش کرنے سے مراد یہ ہے کہ آپ نے ارادتا گناہ نہیں کرتے ہیں مثلاً آپ کو بازار سے گزرتے ہوئے میوزک یا گانے کی آواز سنائی دے تو اس کی طرف دھیان نہ کریں۔ نہ یہ کہ آپ اپنے موبائل یا ٹی وی وغیرہ پر خود گانے لگا کر سننا شروع کر دیں ۔ گناہوں کے کرنے ، گناہوں والے کاموں میں شامل ہونے یا سننے یا دلچسپی لینے سے بچیں۔ اگر آپ کسی ایسی جگہ موجود ہیں جہاں گناہوں بھری باتیں ہو رہی ہوں اور آپ کا اس جگہ رہنا مجبوری ہے تو دل میں ان باتوں کے لئے نفرت اور برا جاننا ضروری ہے۔ مثلاً آپ اپنے دفتر یا کالج کے کمرے میں موجود ہیں اور آپ کے پروفیسر یا دفتر کا کوئی آدمی کسی کی غیبت یا نمائی کر رہا ہے تو ان کو اس عمل سے روکیں یا کم از کم دل میں برا ضرور جانیں۔ ان کی باتوں کی طرف دھیان نہ دیں اور اپنے کام میں مصروف رہیں۔ اگر آپ ان باتوں میں دلچسپی لیں گے یا کسی بھی طرح شریک ہوں گے یا صرف سنیں گے یا دل میں بُرا نہیں جانیں گے تو آپ بھی اتنے ہی گنہگار ہوں گے جتنا کہ گناہ کرنے والے۔ لیکن اگر کوشش کے باوجود گناہ ہو جائے تو فورا توبہ کر لیں۔ چند گناہوں سے متعلقہ آیات و احادیث مندرجہ ذیل ہیں ۔ آگے بیان کردہ تمام آیات اور احادیث کتاب الکبائر فرید بک سٹال سے لی گئی ہیں
آیت نمبر 44: ” جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔
(سورہ ال عمران، آیت 61)
حدیث نمبر 155
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: اور چار ایسی باتیں ہیں جس میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان میں سے ایک پائی جائے ، اس میں منافقت کی ایک علامت پائی جاتی ہے۔ جب تک اسے چھوڑ نہ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے
بات کرے تو جھوٹ بولے
وعدہ کرے تو اسکو پورا نہ کرے
اور جب جھگڑا کے تو گالی گلوچ سے کام لے
(صحیح مسلم ، ج 1، ص 56)
حدیث نمبر 56
اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کیلئے ہلاکت ہے۔ اس کیلئے ہلاکت ہے، اس کیلئے ہلاکت ہے۔“
حدیث نمبر :57 صحیح مسلم و بخاری شریف میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: “کیا میں تمہیں سب سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبر نہ دوں ۔ اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ۔”
آیت نمبر :45
” پس قریب ہے کہ اگر تم منہ پھیر لو تو تم زمین میں فساد پھیلاؤ اور رشتہ داروں سے تعلق توڑ دو، ایسے لوگوں پر اللہ تعالی نے لعنت فرمائی، پس ان کو بہرہ اور ان کی آنکھوں کو اندھا کر دیا ۔
(سورہ محمد ، آیت 22-23)
حدیث نمبر :58
“رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔
( صحیح بخاری و مسلم، ج 2 مس 885 ، ج 2 میں (315)
حدیث نمبر 59
” حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: “جو شخص شراب پئے اور اسے نشہ نہ آئے اللہ تعالیٰ چالیس راتیں اس کی طرف توجہ نہیں فرماتا اور جو آدمی شراب پئے اور اسے نشہ آئے اللہ تعالی چالیس دن تک اس کی فرض اور نفل نماز قبول نہیں کرتا اور اگر ایسی حالت میں مرجائے تو بت پرست کی طرح مرے گا اور اللہ تعالی کو حق ہے کہ اسے طينة الخبال ” سے پلائے عرض کیا گیا ” طينة الخبال ” کیا ہے؟ فرمایا جہنمیوں کے جسم سے نکلنے والی پیپ اور خون ”
الترغيب والترہیب ، ج 3 ص (265)
آیت نمبر 46
اور کسی سے بات کرنے میں اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کرو اور زمین پر اتراتا نہ چل بے شک اللہ تعالی کو اتراتا فخر کرتا آدمی پسند نہیں ہے۔” سور و لقمان، آیت (18)
آیت نمبر 47
” بے شک وہ لوگ جو اللہ تعالٰی کے وعدے اور اپنی قسموں کے بدلے تھوڑا مال لیتے ہیں ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں اور اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے نہ کلام کرے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔
(سوره ال عمران آیت (77)
یہ آیت جھوٹی قسمیں کھانے والوں کیلئے ہے۔
حدیث نمبر :60:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ” قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں اس شخص کا مقام سب سے بُرا ہو گا جسے لوگ اس کی بد کلامی کی وجہ سے چھوڑ دیں ۔
آیت نمبر :48:
“اے ایمان والو! کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں ایک دوسرے کا مذاق اُڑائیں، ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔ کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلاتا اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔
(سورہ حجرات، آیت (11)
حدیث نمبر :61:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے عرض کیا گیا کہ فلاں عورت رات کو نماز پڑھتی اور دن کو روزہ رکھتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے۔ آپ علیہ صلوة والسلام نے ارشاد فرمایا: “اس میں کوئی بھلائی نہیں، وہ جہنم میں جائے گی۔“
(المستدرک للحاکم من 4 میل (166)
حدیث نمبر :62:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا: ” مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف کسی عالم کی لغزش اور منافق کے قرآن پاک میں جھگڑنے اور دنیا کے بارے میں ہے، ( جس کیلئے ) تم ایک دوسرے کی گردنیں مارو گے۔”
(اتحاف ، ج 1، ص 378)
حدیث نمبر :63
دھوکے باز، کنجوس اور احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں
(مسند امام احمد، ج 1 ، ص 7)
اب کچھ وہ باطنی پرہیز بیان کئے جائیں گے جن پر عمل نہ کرنے سے آپ کی زکوۃ ادا نہیں ہو گی یا ختم ہو جائے گی۔
زنا سے متعلقہ احادیث مندرجہ ذیل ہیں۔
آیت نمبر 49 :
” اور زنا کے قریب نہ جاؤ بے شک یہ بے حیائی کا کام ہے اور بُرا راستہ ہے
(سورہ بنی اسرائیل آیت 32)
حدیث نمبر :64:
” جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہوتا ہے پھر جب وہ اس حرکت کو چھوڑتا ہے تو ایمان لوٹ آتا ہے۔
(در منثور، ج 4 ص 180)
حدیث نمبر :65:
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ” بے شک ایمان ایک قمیض ہے، اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پہناتا ہے۔ پس جب بندہ زنا کرتا ہے تو اللہ تعالٰی اس سے ایمان کی قمیض لے لیتا ہے پھر اگر وہ تو بہ کرے تو اس کی طرف لوٹا دیتا ہے ۔“
( کتاب الکبائر ص 88)
حدیث نمبر :66
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ” سات آدمی وہ ہیں جن پر اللہ تعالٰی لعنت فرماتا ہے اور قیامت کے دن ان کی طرف نظر نہیں فرمائے گا اور فرمائے گا جہنم میں داخل ہونے والوں کے ساتھ تم بھی داخل ہو جاؤ۔ وہ لوگ ہیں فاعل اور مفعول بد فعلی کرنے اور کروانے والا)، جانور سے بد فعلی کرنے والا ، ماں اور بیٹی دونوں سے نکاح کرنے والا اور مشت زنی کرنے والا جب تک یہ تو بہ نہ کرلیں۔ (کتاب الکبائر میں 93,94)
عمل کے دوران کھانے سے متعلقہ پر ہیز مندرجہ ذیل ہیں۔ اپنی ہمت اور جسمانی قوت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان میں سے کسی ایک پر ہیز کو اختیار کریں۔ یہ پرہیز ہر قسم کے وظائف کی ادائیگی میں موثر ہیں لیکن صرف اس صورت میں جب کسی عمل کیلئے کوئی خاص پر ہیز نہ دیا گیا ہو۔
ہر قسم کے گوشت اور انڈے کا استعمال نہ کریں ۔ نہ ہی کوئی ایسی چیز کھائیں جو گوشت سے پکی ہو۔ مثلاً گوشت والی سبزیاں، چنے ، شور بہ یا بریانی وغیرہ۔ برگر اور نہ کھائیں کیونکہ اس میں کباب اور انڈہ استعمال ہوتا ہے۔ بغیر کباب و انڈے کا برگر کھا سکتے ہیں۔ بازاری سالن چنے وغیرہ استعمال نہ کریں کیونکہ دوکاندار چنوں یا دوسرے سالن کے اوپر گوشت کا شور بہ یاتری ڈال دیتے ہیں۔ اکثر دوکاندار چنے یا دوسرے سالنوں کو تیار کرتے (پکاتے ہوئے گوشت کے باریک ذرات یا گوشت کا بچا ہوا شور بہ یا سالم انڈے ان میں ڈال دیتے ہیں تا کہ ذائقہ مزے دار ہو جائے لہذا بازاری سالن سے پر ہیز ہی کریں تو بہتر ہے۔ لہسن اور پیاز نہ کھائیں۔ جیسے بعض حضرات سلاد میں کچا پیاز شامل کرتے اور کھاتے ہیں ۔ کیونکہ کچا لہسن اور پیار کھانے سے منہ سے بو آتی رہتی ہے یا ان کے ذائقہ کے ڈکار آتے رہتے ہیں ۔ پکا ہوا لہسن و پیاز استعمال نہ کریں کیونکہ اسکی سمل پسینے اور جسم میں شامل ہو جاتی ہے۔
پر ہیز نمبر 1 میں صرف ہر قسم کا گوشت، انڈہ، پیاز اور لہسن نہ کھانا شامل ہے۔
پر ہیز نمبر 1 کے ساتھ ساتھ مزید جانوروں سے متعلقہ کوئی چیز نہ کھائیں مثلاً دودھ، دہی، گھی، لسی، مکھن وغیرہ کھانے کا سامان کو کنگ آئل میں تیار کریں۔ کیونکہ یہ مختلف قسم کے بیجوں سے نکالا جاتا ہے۔ جن کا جانوروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ شہد استعمال نہ کریں ۔ خشک میوہ جات ، پھل ہر قسم، سبزیاں ، سلاد، چینی ، نمک وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں۔ جانوروں سے بنی ہوئی چیزیں مثلاً چمڑے کے جوتے ، جیکٹ وغیرہ استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس کو جمالی پر ہیز بھی کہتے ہیں۔
پر ہیز نمبر 2 کے ساتھ مزید جانوروں سے متعلقہ کوئی چیز نہ تو کھائیں اور نہ ہی استعمال کریں۔ چمڑے کے جوتے یا جیکٹ وغیرہ نہ پہنیں ۔ کسی بھی جانور پر سواری نہ کریں ۔ ایسی چھری جس کا دستہ ہاتھی دانت کا ہو استعمال نہ کریں ۔ کسی جانور کی کھال یا چڑے کے بنے ہوئے قالین پر نہ بیٹھیں ۔ جسم سے خون نہ نکلے، بال نہ کٹوائیں۔ ضروری بال اتار سکتے ہیں لیکن زیادہ اہتمام نہ کریں ۔ کسی درخت کا پتہ یا پھول نہ توڑیں۔ ایسے پھل یا میوہ جات استعمال نہ کریں جن پر مکھیاں بیٹھتی ہوں۔ چھلکے والے پھل استعمال کر سکتے ہیں۔ سیب اور گرم تاثیر والے میوہ جات استعمال نہ کریں کیونکہ ان کے باعث شہوت اور ذہنی انتشار میں اضافہ ہوگا۔ چینی استعمال نہ کریں۔ چینی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے گنے کا رس پی سکتے ہیں یا کجھور استعمال کر سکتے ہیں۔ کجھور ڈبہ پیک خریدیں اور استعمال سے پہلے اچھی طر…
صرف ہو یا گندم کی روٹی بغیر گھی کے پکی ہوئی استعمال کریں اور قدرتی نمک استعمال کریں ۔ ابلے ہوئے چاول جو صرف پانی میں پکے ہوں کھا سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہ کھائیں۔ باقی احتیاطیں پر ہیز نمبر 3 والی ہونگیں۔
یہاں پر سوالات یہ پیدا ہوتے ہیں کہ اگر دوران زکوۃ کھانے والے پرہیز نہ کئے جائیں تو کیا ہوگا ؟ کیا زکوۃ ادا ہو جائے گی؟ اگر زکوۃ ادا ہو جائے گی تو ان پرہیزوں کے دینے کا کیا فائدہ ہے؟ کیا پر ہیزوں پر عمل کرنا ضروری ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات یہ ہیں کہ دوران زکوۃ فرائض و واجبات و باطنی پرہیز پر عمل نہیں کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کا عمل صرف چند بار کام دے اور اس کے بعد بے اثر ہو جائے یا بالکل بھی اثر نہ کرے لیکن دوران زکوۃ کھانے کا پر ہیز ضروری نہیں ہے ہر وہ چیز جو شریعت نے حلال کی ہے آپ کھا سکتے ہیں ۔ آپ کی زکوۃ ادا ہو جائے گی۔ آپ کے عملیات میں اثر پیدا ہوگا ۔ آپ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد کوئی عمل کریں گے تو وہ اثر ضرور کرے گا۔ لیکن جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ پرہیز کرنے سے جسم میں روحانیت کی اثر پذیری کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ پرہیز اصل میں عمل کی مختلف طاقتیں ہیں۔ جن سے عمل کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص زکوۃ کی ادائیگی کے دوران تمام چیزیں کھاتا ہے تو زکوۃ کے بعد اس کے عمل کی طاقت ایسی ہو گی جیسے 60 وولٹ کے بلب کی روشنی اور اگر کوئی پرہیز نمبر 1 پر عمل کرتا ہے تو اس کے عمل سے 100 وولٹ کی روشنی پیدا ہو گی۔ پرہیز نمبر 2 پر عمل کرنے سے 200 وولٹ اور نمبر 3 پر عمل کرنے سے 500 وولٹ اور چار پر عمل کرنے سے 1000 وولٹ کی روشنی پیدا ہوگی۔ پرہیز نمبر 3 اور 4 کو اختیار کرنے سے اس عمل کے موکلات بھی ظاہر ہو جاتے ہیں لیکن اس کیلئے 40 سے 120 دن تک عمل کو پڑھنا ہوتا ہے۔ دونوں پرہیزوں میں فرق یہ ہے کہ اگر بالفرض پرہیز نمبر 3 کو اختیار کرنے سے موکلات کی حاضری 90 دن میں ہوئی تو پرہیز نمبر 4 سے 50 دن میں ہو جائے گی ۔ لہذا دیئے گئے پرہیزوں میں سے کوئی ایک ضرور اختیار کریں۔ اگر اس کے باوجود کوئی مشکل پیش آتی ہے اور آپ زکوۃ بھی ادا کرنا چاہتے ہیں تو بغیر کھانے کے پرہیز کے زکوۃ ادا کر لیں۔ آپ کی زکوۃ ادا ہو جائے گی لیکن باطنی پر ہیز ، شرائط اور احتیاطوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔