مسئله: جامع مسجد میں ایک امام کوامامت کرتےہوئےاکیس سال گزر گئے۔بائیسویں سال میں کچھ لوگ ایک پارٹی بناکر علیحدہ ہوگئے۔اور نماز الگ پڑھنے لگے۔اختلاف کی بنا پر سابق امام کوہٹانےکی آواز بلند کی۔لوگوں نے سوال کیا کہ امام کو کس وجہ سے ہٹادیں۔مخالف نے جواب دیا کہ امام کو نکال کر دوسرے امام کو معین کرو۔ توہم نماز پڑھنے مسجد میں آئیں گے نہیں تو نہیں آئیں گے بات حکام تک پہنچی موقع کے حاکم نے مخالف سے سوال کیا۔ وہاں بھی کوئی معقول جواب نہ دیا۔ حکام نے سابق امام کے بارے میں فیصلہ دے دیا۔ حکام کی بھی بات نہ مان کر پھر حاکموں سے مخالف نے کہا کہ آپ لوگ میرے مذہب کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں ۔لہذا دونوں پارٹی کی طرف سے دو دو عالموں کو بلوائیے اور وہ چار عالم مل کر جو فیصلہ دے دیں ۔دونوں فریق مان لیں گے۔ بات طے ہو گئی وقت مقررہ پر چار عالم تشریف لائے جن میں امام کی طرف سے دو سنی عالم اور مخالف کی طرف سے دو غیر مقلد تھے.
پہلی نشست میں علماء نے امام کو بلایا امام حاضر ہوا اور ایک شخص مخالف پارٹی سے بلایا اور سوال کیا کہ امام کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ہو کوئی بہتان ہو یا کوئی اور خرابی ہو جس کی وجہ سے نہیں پڑھتے ہو تو بتاؤ مخالف نے جواب دیا کہ امام پر کوئی بہتان نہیں کوئی جرم نہیں تو عالم نے سوال کیا کہ نماز الگ پڑھنا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام میں کوئی نقص ہے اس پر مخالف نے جواب دیا کہ نہیں نہیں صاحب امام میں کوئی نقص نہیں میری استدعا ہے کہ چونکہ یہ مقام ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے اس مسجد میں ایک امام ایسا ہو جو مفتی ہو قاری ہو اس کو رکھا جائے عالم نے سوال کیا کہ امام کو کس وجہ سے ہٹائیں ؟.
پہلے روز کی یہ نشست برخاست ہو گئی اور بات طے نہ ہو پائی دوسرے روز پہلی نشست میں گفتگو جاری ہوئی امام میں کوئی خرابی نہ پا کر عالم نے فتوی دیا کہ امام میں شرعی نقص نہیں ہے اس وجہ سے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے مخالف پارٹی کے دو عالم نے جواب دیا کہ اپ اپنا فیصلہ حاکم کو دے دیجئے اور میں اپنا فیصلہ حاکم کو دے دوں گا بات حاکم تک پہنچی موقع پر پھر چاروں عالم کو ایک جگہ جمع کر کے کہا کہ اپ لوگوں کو فیصلہ دینا ہے شرح کے رو سے اور فیصلہ دیجئے مخالف سے جب کوئی بات نہ بن پڑی تو امام پر زنا کا غلط بہتان لگایا اور بہتان لگانے والے ہی کو گواہی میں طلب کیا اور اس کی گواہی پر فتوی دے دیا نا گواہ کو دیکھا کہ کیسا ہے اور نہ امام سے پوچھا اور نہ امام کی طرف سے کوئی گواہی لی فتوی یہ دیا کہ امام میں کچھ خامیاں ہیں اس وجہ سے امامت کے لائق نہیں ہے اور چاروں عالموں نے دستخط کر دیا پھر بات حاکم تک پہنچی تو زنا ثابت نہ کر سکے حاکم کا فیصلہ پھر امام سابق کے حق میں رہا ۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ سابق امام کی امامت درست ہے کہ نہیں؟
اور ایسا کیوں؟
اور بہتان لگانے والے پر ازروئے شرع کیا احکام نافذ ہوتے ہیں اور کیوں؟
نوٹ: جبکہ 80 فیصد عوام سابق امام کو چاہتی ہے اور ابھی سابق امام ہی امامت کرتا ہے
الجواب:
امام سابق اگر صحیح العقیدہ صحیح الطہارۃ اور صحیح القرأت ہے اس میں کوئی وجہ شرعی مانع امامت نہیں ہے تو اس کی امامت درست ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اسے بلا وجہ شرعی امامت سے الگ کرنا گناہ ہے یہاں تک کہ حاکم شرع کو بھی یہ اختیار نہیں دیا گیا جیسا کہ
فتاوی رضویہ جلد سوم ص241 پر رد المحتار سے ہے
لیس للقاضی عزل صاحب وظیفة بغیر حجۃ۔
اور زنا کے بارے میں ایک ادمی کی گواہی مان کر فتوی دینے والے جاہل گنوار ہیں اس لیے کہ ثبوت زنا کے لیے چار عادل گواہوں کا ہونا ضروری ہے اور زنا کا جھوٹا الزام لگانے والا 80 در ے مارے جانے کا مستحق ہے
جیسا کہ پارہ 18 سورۂ نور رکوع اول میں ہے
والذین یرمون المحصنت ثم لم یاتوا باربعۃ شھداء فاجلدوھم ثمانین جلدہ،۔القرآن۔
وھو تعالی اعلم
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول
ص:271
بلا وجہ امام کو امامت سے فارغ کرنا
05
Dec