ی۔دینیات, باب الصلوۃ, مسجد کا بیان

اذان مسجد کے اندر

مسئله:1)جمعہ کی اذان ثانی جو کہ خطبہ کے وقت ہوتی ہے اور ہمارے خطے میں ہر جگہ رواج ہے کہ وہ اذان مسجد کے اندر خطیب کے سامنے ہوتی ہے۔آیا یہ اذان مسجد کے باہر ہونی چاہئے یا کہ اندر؟

2) ایک آدمی کہتا ہے کہ حدیث شریف میں ہے کہ وہ اذان خطیب کے سامنے ہوتی تھی تو کیا خطیب کے سامنے اندر ہی یا باہر؟ اس حدیث سے کیا حکم ثابت ہوتا ہے ؟ اگر اس حدیث سے اندر ہونا ثابت ہے تو باہر اذان کہنے کی کیا دلیل ہے ؟

3-اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جوکہ مسجد کے اندر اذان کہنے پر اصرار کرے اور باہر اذان کہنے کونئی بات وبرا جانے واضح ہو کہ یہاں منبر ایسی جگہ بنا ہوا ہےکہ باہر سے اذان کہنے پرخطیب کاسامنا ہوتا ہے ،، جواب اہل سنت وامام اعظم کے مذہب کے مطابق ہو اور قرآن و حدیث و فقہ حنفی کی معتبر کتابوں کا حوالہ بھی دیں ۔ 

الجواب:1- خطبہ کی اذان خطیب کے سامنے مسجد کے باہر ہونی چاہئے اور یہ جورواج ہےکہ خطبہ کی اذان مسجد کے اندر دی جاتی ہے غلط ہے ۔

2-بیشک حدیث شریف میں ہے کہ خطبہ کی اذان خطیب کے سامنے ہوتی تھی مگر مسجد کے باہر دروازہ پر نہ کہ مسجد کے اندر جیسا کہ 

حدیث کی مشہور کتاب ابو داؤد شریف جلد اول ص 162 میں ہے۔

حضرت صائب بن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جمعہ کے روز منبر پر تشریف رکھتے تو حضور کے سامنےمسجد کے دروازہ پر اذان ہوتی اور ایسا ہی حضرت ابو بکر و عمررضی اللہ تعالیٰ عنہا کے زمانہ میں۔اسی لیے فقہاۓ کرام مسجدکے اندر اذان پڑھنے کو منع فرماتے ہیں۔

جیسا کہ فتاوی قاضی خان جلد اول مصری ص 55

اور بحر الرائق جلداول ص268 میں ہے مسجد کے اندر اذان پڑھنامنع ہے اور

 فتح القدیر جلداول ص215 میں ہے

 قالوا لا يؤذن فی المسجد فقہائے کرام نے فرمایا کہ مسجد میں اذان نہ دی جائے

 اور طحطاوی علی مراقی الفلاح ص 217 میں ہے

مسجد میں اذان دینا مکروہ ہے اسی طرح قہستانی میں نظم سے ہے۔

3- مسجد کے اندر اذان کہنے پر اصرار کرنے والا اور باہر اذان کہنے کو نئی بات قرار دینے والا جاہل گنوار ہے۔ اور حدیث مذکور وفقہائےکرام کی عبارتوں پر مطلع ہونے کے باوجود اگر نہ مانے تو ہٹ دھرم بھی ہے۔ والله سبحانه وتعالى اعلم

بحوالہ:-فتاوی فیض الرسول

ص:218