باب الصلوۃ, صلاۃ و سلام

جمعہ کی نماز کے بعد اور اذان سے پہلے ” صلوۃ و سلام “ پڑھنا

جمعہ کی نماز کے بعد جو سلام پڑھا جاتا ہے اور اذان سے پہلے جو سلام پڑھتے ہیں یہ امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک جائز ہے یا ناجائز؟ اگر جائز ہے تو کتابوں کا حوالہ دیجیئے۔
الجواب
درود و سلام پڑھنے کا حکم قرآن کریم میں ہے اس میں وقت کی قید ہے نہ کسی حالت کی تخصیص ۔ لہذا جس وقت بھی مسلمان چاہے درود و سلام پڑھے اگر کسی خاص وقت میں قرآن و حدیث سے درود و سلام پڑھنے کی ممانعت ثابت ہو جائے تو اس خاص وقت میں ممنوع ہوگا ۔ لہذا جمعہ کے بعد اور اذان سے پہلے جو سلام اور درود شریف پڑھتے ہیں یہ جائز ہے ۔ فقہ کا یہ اصول ہے جو فتویٰ میں لکھا ہے ۔
عالمگیر کے استاد حضرت ملا احمد جیون رحمة اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی تفسیر تفسیرات احمدیہ میں ایک فصل اس عنوان سے مقرر کی کہ. الاصل في الاشياء الاباحة ” کہ اصل میں ہر چیز مباح ہے
” حرمت ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے جائز کام کرنے والے کو دلیل بتانے کی ضرورت نہیں ۔ خود حدیث پاک میں اصول مقرر فرمایا ہے:
الحلال ما أحل الله في كتابه والحرام ما حرم الله في كتابه وما سكت عنه فهو مما عفى عنه (مشكوة المصابيح ، كتاب الأطعمة – الفصل الثاني)
یعنی حلال وہ ہے جس کو اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں حلال بیان فرمایا اور حرام وہ ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں حرام فرمایا اور جن کاموں سے سکوت فرمایا یہ ان کاموں میں سے ہیں جن پر مواخدہ نہیں ہے مباح ہیں
لہذا جو لوگ جمعہ کے بعد اور اذان سے پہلے سلام اور درود شریف پڑھنے کو ناجائز کہتے ہیں ان سے دلیل کا مطالبہ کرنا چاہیے ہم سے مطالبہ کرنا غلط ہے۔
وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 48