سبع سیارہ کا بیان کس آیت میں ہے :
سبع سیارہ کا بیان کس آیت میں ہے :
کواکب خود بالطبع آسمان میں گھومتے ہیں یا بحرکت قمری بالتبع چکر کھاتے ہیں ؟
کتا ب مبین کے علماء کیافرماتے ہیں کہ ذاقا، واستبقاالباب ،دعوااللہ اورقالا الحمد کا الف پڑھا جائے گا یا نہیں ؟
الفاظ جمع مذکر سالم مانند خاسئین ، قانتون ، کٰرھین ، خیر الفاتحین وامثالھا
(۱ ) جن کو منشی اشرف علی نے اپنے مصحف میں محذوف الالف لکھا ہے اوراکثر جگہ حوالہ شمع قراء ت اور خلاصۃ الرسوم وغیرہ کا دیا ہے ۔ اورمولوی احمد علی سہارنپوری نے الفاظ موصوفہ کو باثبات الف اپنے مصحف میں لکھاہے بلکہ ایسے الفاظ قلیل الدور کی ایک فہرست اپنے مصحف کے ابتداء میں لکھ دی ہے کہ وہ باثبات الف ہیں۔ا ن کی بابت آپ کا حکم کیاہے ؟
(۲) لفظ ”کلام ”ملک العلام میں صرف چار جگہ ہے ، ایک جگہ سورہ بقرہ میں یسمعون کلٰم اللہ ۱ (اللہ کا کلام سنتے ہیں۔ت)
(۱القرآن الکریم ۲ /۷۵)
دوم سورہ اعراف میں : قال یا موسٰی انی اصطفیتک علی الناس برسٰلتی وبکلامی۲ ۔ فرمایا : اے موسٰی !میں نے تجھے لوگوں سے چن لیا اپنی رسالتوں اوراپنے کلام سے (ت)
(۲القرآن الکریم ۷ /۱۴۴)
سوم سورہ توبہ میں : فاجرہ حتی یسمع کلٰم اللہ۳ ۔ (تو اسے پناہ دو کہ اللہ کا کلام سنے ۔ ت)
(۳القرآن الکریم ۹ /۶)
چہارم سورۃ الفتح میں ہے : یریدون ان یبدلو ا کلام اللہ۱ ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کا کلام بد ل دیں۔ (ت)
(۱القرآن الکریم ۴۸ /۱۵)
ان سب کو بعض مصاحف وکتب رسم الخط میں باثبات الف لکھا ہے اوربعض میں محذوف الالف اوربعض نے بعض کو مع الالف___________ اوربعض کو بغیر الف لکھا جاتاہے ۔ آپ کی ان کے باب میں کیا رائے ہے؟
(۳) لفظ قیام دو مقام پر سورہ نساء میں ، اوّلاً: ولا تؤتوالسفہاء اموالکم التی جعل اللہ لکم قیٰما۲۔ بے عقلوں کو انکے مال نہ دو جو تمہارے پا س ہیں جن کو اللہ نے تمہاری بسر اوقات کیا ہے ۔(ت)
(۲ القرآن الکریم ۴/ ۵)
دوم: فاذکروااللہ قیاماوقعود اوعلٰی جنوبکم۳۔ اللہ کی یاد کرو کھڑے بیٹھے اورکروٹوں پر لیٹے ۔ (ت)
(۳ القرآن الکریم ۴ /۱۰۳)
سوم سورۃ المائدہ میں : جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیٰماللناس۴۔ اللہ نے اد ب والے گھر کعبہ کو لوگوں کے قیام کا باعث کیا۔ (ت)
(۴ القرآن الکریم ۵ / ۹۷)
چہارم سورہ فرقان: والذین یبیتون لربھم سجداوقیاما۵۔ اوروہ جورات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے اورقیام میں۔(ت)
(۵ القرآن الکریم ۲۵ /۶۴)
پنجم سورہ زمر میں: ثم نفخ فیہ اخرٰی فاذا ھم قیام ینظرون ۶۔ پھر وہ دوبارہ پھونکا جائے گاجبھی وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے ۔(ت)
(۶القرآن الکریم ۳۹ /۶۸)
ششم سورہ ذاریات میں : فماا ستطاعوا من قیام وما کانوا منتصرین۱۔ تووہ نہ کھڑے ہوسکے اورنہ وہ بدلہ لے سکتے تھے ۔ (ت)
(۱ القرآن الکریم ۵۱ /۴۵)
عام مصاحف میں یعنی مولوی احمد علی صاحب سہارنپوری اوران کے مقلدین نے سورہ نساء کے پہلے اور سورہ مائدہ والے کو بدوں الف لکھا ہے ۔ اورباقی سب جگہ مع الف۔ اوریہی رسالہ مرتع الغزلان سے ثابت ہے مگر منشی اشرف علی نے صرف آخر کے تینوں کو باثباتِ الف اوراول کے تینوں کو بدون الف لکھاہے ۔
(۴) للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ اوکثر۲۔ مردوں کےلئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑگئے ماں باپ اور قرابت والے اورعورتوں کےلئے حصہ ہے اس میں سے جو چھوڑگئے ماں باپ اورقرابت والے ترکہ تھوڑا ہو یا بہت ۔(ت)
(۲القرآن الکریم ۴ /۷)
او ر لکل جعلنا موالی مما ترک الوالدان ۳الآیۃ۔ ہم نے سب کےلئے مال کے مستحق بنادیے ہیں جو کچھ چھوڑ جائیں ماں باپ۔(ت)
(۳القرآن الکریم ۴ /۳۳)
یہ سب مصاحف مروجہ ہندی میں الف اول موجود اورثانی مفقود ہے مگر مؤلف خلاصۃ الرسوم دونوں کا حذف فرماتے ہیں اوروالدین یا و نون سے سب جگہ مع الالف ہے ۔ (۵) لاتقربوا الصلوٰۃ وانتم سکٰرٰی۴۔ نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ۔ (ت)
(۴القرآن الکریم ۴ /۴۳)
سورہ حج میں : وتری الناس سکٰرٰی وما ھم بسکٰرٰی۵ ۔ اورتو لوگوں کو دیکھے گا جیسے نشہ میں ہیں اورنشہ میں نہ ہوں گے۔ (ت)
(۵القرآن الکریم ۲۲ /۲)
تینوں کو منشی اشرف علی اور مولوی ہادی علی صاحب نے اپنے مکتوب مصاحف میں محذوف الالف لکھا ہے ، اورعام مصاحف میں خاص سورہ نساء میں بدوں الف اورباقی دونوں کو مع الالف ، خلاصۃ الرسوم اوررسالہ نورِ سرمدی سے قول اول ثابت ہے مگر مرتع الغزلان میں لکھا ہے : ع
گیر از حج دوجا سکٰرٰی یاد۱ یعنی محذوفات میں دو کا ذکر کیا تیسرے سے کچھ تعرض نہ کیا۔
(۱مرتع الغزلان فی رسم الخط القرآن)
(۶) علامہ ابو عمرو الدانی ارشادکرتے ہیں: کذٰلک سؤۃ وسوءٰ تکم وسیئ وسیئت وبریؤن وھنیئا مریئا وبریئا وشبھہ۲۔ یعنی ان سب کا ہمزہ بدوں مرکز ہے لیکن کل مصاحف ہندی میں سواٰتکم وغیرہ الف سے مرقوم ہیں بالاتفاق کسی نے اس میں خلاف بھی بیان نہیں کیا۔
(۲التیسیر فی قواعد علم التفسیرللامام محمد بن سلمان )
(۷) ومن خزی یومئذ۳ ۔ سورہ ہود میں قراء ت مفتوح المیم کو کتاب تیسیر میں نافع اورابن عامر کے نام سے لکھاہے ،
(۳القرآن الکریم ۱۱/ ۶۶)
اورخلاصۃ الرسوم میں مرقوم ہے : بکسر میم ست بقراء ت غیر سوسی۴ سوسی کے غیر کی قراء ۃ میں میم کے کسرہ کے ساتھ ہے ۔(ت)
(۴ خلاصۃ الرسوم)
(۸) اعوذباللہ کے باب میں روایت کتاب تحفہ نذریہ مؤلفہ قاری عبدالرحمن پانی پتی یہ ہے کہ : اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم مختار جمیع قراء است ۵۔ اعوذباللہ من الشیطٰن الرجیم تمام قراء کا مختارہے ۔ (ت)
(۵تحفہ نذریہ )
آگے بیان کرتے ہیں کہ : اگرکسے لفظ دیگر درتعوّذ کفت آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ازاں لفظ منع فرمود۶۔ اگرکسی نے کوئی دوسرا لفظ تعوّذ میں کہا تو حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اس لفظ سے منع فرمایا ہے ۔ (ت)
(۶تحفہ نذریہ)
پھر لکھتے ہیں : باوجود اس منع وتعلیم الفاظ دیگر ہم مروی شدہ اند، پس تلفظ تعوّذبآں الفاظ ہم جائز است اگرچہ مختار نیست ،انتہی عبارتہ بقدر ضرورت ۱۔ اس منع وتعلیم کے باوجود کچھ دوسرے الفاظ بھی مروی ہیں، چنانچہ ان الفاظ کے ساتھ بھی تعوذجائز ہے اگرچہ مختار نہیں ہے ۔ تحفہ نذریہ کی عبارت ختم ہوئی جس قدر ضرورت تھی۔ (ت)
(۱ تحفہ نذریہ)
اس کے باب میں آپ کا کیا حکم ہے ؟
وقت ختم قرآن تراویح میں تین بار سورہ اخلاص شریف کا پڑھنا مکروہ ہے یا مستحسن بینوا توجروا (بیان فرمائیے اجر پائیے
عرض یہ ہے کہ سورہ ناس میں خَنّاسِoاَلَّذِیْ ہے یا خنّاسِoالَّذِیْ ، کس طرح پڑھنا چاہیے ؟ حضور دیگر عرض یہ ہے خَنّاس الّذی میں الف آگیا یا نہیں؟
آیہ کریمہ : ومن دونھما جنتٰن oفبای اٰلاء ربکما تکذبٰن oمدھامتٰنoفبایّ اٰلاء ربکما تکذبٰنo۱ اوران کے سوا دو جنتیں اورہیں ۔ تو اپنے رب کی کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ۔ نہایت سبزی سے سیاہی کی جھلک دے رہی ہیں تو اپنے رب کی کون سے نعمت کو جھٹلاؤگے ۔ (ت)
کیا فرماتے ہیں قراء شریعت اس میں کہ آیہ مذکورہ بالا میں جو آیت ”لا”ہے اس پر ٹھہرناجائز ہے یا نہیں ؟اوراس کے متعلق کیا اختلافات ہیں ؟
حدائق بخشش کے صفحہ ۸۰ مصرع : عشاق روضہ سجدہ میں سوئے حرم جھکے۴
کی شرح مطلب میں تحریرہے کہ : ”کعبہ بھی انہیں کے نور سے بنا، انہیں کے جلوے نے کعبہ کو کعبہ بنادیا، تو حقیقت کعبہ وہ جلوہ محمدیہ ہے جو اس میں تجلی فرما ہے ، وہی روح قبلہ اوراسی کی طرف حقیقۃً سجدہ ہے ، اتنا یاد رہے کہ حقیقت محمدیہ ہماری شریعت میں مسجودالیہا ہے
اعتراض :
یہ کہ حضرت میر عبدالواحد بلگرامی قدس سرہ السامی نے اپنی کتاب”سبع سنابل”سنبلہ دوم ص۶۱ میں حکایت لکھی ہے کہ :
ایک شخص حضرت سلطان المشائخ کے احوال کا منکر آپ کی راہ وروش سے متنفر اورایک دوسرے درویش کا معتقد تھا، ایک روز اس درویش سے کہنے لگا کہ میری یہ آرزو ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کروں اگر سرکار کے کرم سے ملاقات ہوجائے توانتہائی بندہ نوازی اورسرفرازی ہو۔ درویش نے جواب دیا کہ جس روز حضرت سلطان المشائخ کے یہاں مجلس سرود وسماع ہوتی ہے اس روز حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں او رلوگوں کے جوتوں کی نگہبانی فرماتے ہیں۔ وہ شخص اب اپنے انکار پر پریشان ہوا اورقوالی والے دن آپ کی خانقاہ میں حاضرہوگیا، حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کی اوران سے خوب فیض حاصل کیا
توحاصل اعتراض یہ کہ اس حکایت میں حضرت خضر کی (جو ایک قول پر نبی تک ہیں) توہین کی کہ انہیں حضرت سلطان المشائخ کا خدمت گار اوروہ بھی ایسا کہ ان کی مجلس سماع کے حاضرین کی نعلین (جوتیوں )کا نگہبان بتایا۔
اس شعر کا مطلب سمجھ نہ آیا :
فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں
اے مرتضٰی عتیق وعمر کو خبرنہ ہو
ایک مولوی وہابی سے گفتگو ہوئی اثنائے گفتگو میں مولوی عبدالسمیع صاحب مرحوم ومغفور کی اس عبارت پر کہ جو انہوں نے حدیث نبوی :
من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد۱۔ (جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ۔ت) کی نسبت لکھا ہے کہ شارحین نے مالیس منہ کی شرح میں یہ لکھا ہے : فیہ اشارۃ الی ان احداث مالاینازع الکتاب والسنۃ لیس بمذموم۲ اس میں اشارہ ہے کہ جو نئی بات کتاب وسنت کے مخالف نہ ہو اس کو ایجاد کرنا قابل مذمت نہیں ہے ۔(ت)
یہ اعتراض کیا کہ یہ الفاظ کسی شرح میں نہیں ہیں اس وقت صحیحین کو جودیکھا گیاتو نہ مولوی احمد علی سہاری کی شرح میں اورنہ نووی میں اس کا پتہ لگا۔ لہذا گزارش ہے کہ جناب اس عبارت کوتحریر فرمادیں کہ کون سی شرح میں ہے ؟کیونکہ مولوی عبدالسمیع صاحب مرحوم نے بھی کسی شرح کا حوالہ نہیں دیا،
دوسرے شاہ احمد سعید مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے تحقیق حق المسائل کے اندر ثبوت سوم وچہلم میں بحوالہ حاشیہ یہ عبارت نقل فرمائی ہے : ان المسلمین یجتمعون فی کل عصر وزمان یقرأون القراٰن ویھدون ثوابہ لموتاھم وعلی ھذا اھل الصلاح والدیانۃ من کل مذہب من المالکیۃ والشافعیۃ وغیرہم ولا ینکرذٰلک منکر فکان اجماعاً عند اہل السنۃ والجماعۃ خلافا للمعتزلۃ۔ ہر دور اور ہر زمانے کے لوگ جمع ہوکر قرآن مجید پڑھتے ہیں اوراس کا ثواب اپنے مردوں کو بخش دیتے ہیں ، مالکیہ وشافعیہ وغیرہ ہر مذہب کے صالحین اوردیانتداروں کا یہی مؤقف ہے جس کا کوئی انکار نہیں کرتا ، تو اہلسنت وجماعت کے نزدیک اس پر اجماع ہے بخلاف معتزلہ کے۔ (ت)
شاہ صاحب موصوف نے بھی کسی شرح کا حوالہ نہیں دیا اس کے بارے میں بھی عرض ہے کہ جناب تحریر فرمادیں کہ یہ عبارت کون سی شرح میں موجود ہے ۔ وہابی صاحب کا یہ اعتراض ہے کہ سنی یونہی جھوٹے حوالے دیتے ہیں فقیرکی بھی نظرسے نہیں گزرا۔ جو اب باصواب الور روانہ فرمایا جائے ، بفضل تعالٰی یہاں سے تو اس وہابی کو نکلوا دیا ہے ، مگرہم کو بھی تو ان عبارتوں کی اصلیت معلوم ہونا چاہیے ۔
علامہ دمیری علیہ الرحمہ کی کتاب ”حیوٰۃ الحیوان الکبرٰی ”کے جزء ثانی باب العلق میں ہے ۔ت)جب بندہ اپنے رب کا ذکر یا حمد کرتاہے تو اللہ کا ذکر نہیں کرتا مگر اللہ اوراس کی حمد نہیں کرتا مگر وہی ۔