صفحہ نمبر 1
عقیدہ (۱): اﷲ (عزوجل) ایک ہے (1)، کوئی اس کا شریک نہیں (2)، نہ ذات میں ، نہ صفات میں ، نہ افعال میں (3) نہ احکام میں (4)، نہ اسماء میں (5)، واجب الوجود ہے(6)، یعنی اس کا وجود ضروری ہے اور عَدَم مُحَال(7)، قدیم ہے (8)یعنی ہمیشہ سے ہے، اَزَلی کے بھی یہی معنی ہیں ، باقی ہے(9) یعنی ہمیشہ رہے گا اور اِسی کو اَبَدی بھی کہتے ہیں ۔ وہی اس کا مستحق ہے کہ اُس کی عبادت و پرستش کی جائے۔(10)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 { قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(۱) } پ۳۰، الإخلاص : ۱۔
{ وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ } پ۲، البقرۃ : ۱۶۳۔
2 { لَا شَرِیْكَ لَهٗۚ } پ۸، الأنعام : ۱۶۳۔
3 في ’’ منح الروض الأزہر‘‘ في ’’ شرح الفقہ الأکبر ‘‘ للقارئ، ص۱۴: ( واللّٰہ تعالی واحد ) أي : في ذاتہ ( لا من طریق العدد ) أي : حتی لا یتوہم أن یکون بعدہ أحد ( ولکن من طریق أنّہ لا شریک لہ ) أي : في نعتہ السرمديّ لا في ذاتہ ولا في صفاتہ )۔
وفي ’’ حاشیۃ الصاوي ‘‘ ، پ۳۰، الإخلاص، تحت الآیۃ ۱: ( والتنزہ عن الشبیہ والنظیر والمثیل في الذات والصفات والأفعال )، ج۶، ص۲۴۵۱۔ وانظر للتفصیل رسالۃ الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن : ’’ اعتقاد الأحباب في الجمیل والمصطفی والآل والأصحاب ‘‘ المعروف بہ ’’دس عقیدے‘‘ ، ج۲۹، ص۳۳۹۔
4 { وَ لَا یُشْرِكُ فِیْ حُكْمِهٖۤ اَحَدًا } پ۱۵، الکہف: ۲۶۔في ’’ تفسیر الطبري ‘‘ ، ج۸، ص۲۱۲، تحت الآیۃ : ( یقول : ولا یجعل اللّٰہ في قضائہ وحکمہ في خلقہ أحداً سواہ شریکاً، بل ہو المنفرد بالحکم والقضاء فیہم، وتدبیرہم وتصریفہم فیما شاء وأحبّ )۔
5 { هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِیًّا } پ۱۶، مریم: ۶۵، في ’’ التفسیر الکبیر ‘‘ تحت الآیۃ : ( المراد أنّہ سبحانہ لیس لہ شریک في اسمہ )۔
6 في ’’ منح الروض الأزہر‘‘ في ’’ شرح الفقہ الأکبر ‘‘ للقاریٔ، ص۱۵: ( لایشبہ شیئاً من الأشیاء من خلقہ ) أي : مخلوقاتہ، وہذا؛ لأنّہ تعالی واجب الوجود لذاتہ وماسواہ ممکن الوجود في حد ذاتہ، فواجب الوجود ہوالصّمد الغنيّ الذي لایفتقر إلی شيئ، ویحتاج کل ممکن إلیہ في إیجادہ وإمدادہ، قال اللّٰہ تعالی : { وَ اللّٰهُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُۚ } ۔
7 یعنی اُس کا موجودنہ ہونا، نا ممکن ہے۔
8 في ’’ المعتقد المنتقد ‘‘ ، ص۱۸: ( ومنہ أنّہ قدیم، لا أوّل لہ ۔ أي : لم یسبق وجودہ عدم ۔ ولیس تحت لفظِ القدیم معنی في حقّ اللّٰہ تعالی سوی إثبات وجود، ونفي عدم سابق، فلا تَظَنَّنْ أنّ القدم معنی زائد علی الذات القدیمۃ، فیلزمک أن تقول : إنّ ذلک المعنی أیضاً قدیم بقدم زائد علیہ ویتسلسل إلی غیر نہایۃ، ومعنی القدم في حقہ تعالی ۔ أي : امتناع سبق العدم علیہ ۔ ہو معنی کونہ أزلیّاً، ولیس بمعنی تطاول الزمان، فإنّ ذلک وصف للمحدثات کما في قولہ تعالی : { كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ } ۔
9 { كُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ } پ۲۰، القصص : ۸۸۔
وفي ’’ المعتقد المنتقد ‘‘ ، و منہ أنّہ باق، لیس لوجودہ آخر ۔ أي : یستحیل أن یلحقہ عدم ۔ وہو معنی کونہ أبدیا )۔
انظر للتفصیل : ’’ المسامرۃ بشرح المسایرۃ ‘‘ ، الأصل الثاني والثالث، تحت قولہ : ( أنّہ تعالی قدیم لا أوّل لہ، وأنّ اللّٰہ تعالی أبدي لیس لوجودہ آخر )، ص۲۲۔ ۲۴۔
10 { یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ } پ۱، البقرۃ : ۲۱۔{ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ فَاعْبُدُوْهُۚ } پ۷، الأنعام : ۱۰۲۔{ وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ } پ۱۵، بني اسرآئیل : ۲۳۔ { اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُؕ } پ۱۲، یوسف : ۴۰۔
صفحہ نمبر 2
عقیدہ (۲): وہ بے پرواہ ہے، کسی کا محتاج نہیں اور تمام جہان اُس کا محتاج۔(3)
عقیدہ (۳): اس کی ذات کا اِدراک عقلاً مُحَال(4) کہ جو چیز سمجھ میں آتی ہے عقل اُس کو محیط ہوتی ہے(5) اور اُس کو کوئی اِحاطہ نہیں کر سکتا(6) ، البتہ اُس کے افعال کے ذریعہ سے اِجمالاً اُس کی صفات، پھر اُن صفات کے ذریعہ سے معرفتِ ذات حاصل ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
3 { اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲) } پ۳۰، الإخلاص : ۲۔
وفي ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ في ’’ شرح الفقہ الأکبر ‘‘ ، ص۱۴: { اَللّٰهُ الصَّمَدُۚ(۲) } أي : المستغنيعن کل أحد والمحتاج إلیہ کلُّ أحد ۔
4 یعنی اس کی ذات کا عقل کے ذریعے اِحاطہ نہیں کیا جا سکتا۔
5 یعنی اس کا اِحاطہ کیے ہوئے ہوتی ہے۔
6 في ’’ التفسیر الکبیر ‘‘ ، ج۵، ص۱۰۰، پ۷، الأنعام، تحت الآیۃ : ۱۰۳: { لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ } المرئي إذا کان لہ حد ونھایۃ وأدرکہ البصر بجمیع حدودہ وجوانبہ ونھایاتہ، صارکأنّ ذلک الأبصار أحاط بہ فتسمی ہذہ الرؤیۃ إدراکاً، أما إذا لم یحط البصر بجوانب المرئي لم تسم تلک الرؤیۃ إدراکاً ۔ فالحاصل : أنّ الرؤیۃ جنس تحتہا نوعان : رؤیۃ مع الإحاطۃ، ورؤیۃ لا مع الإحاطۃ، والرؤیۃ مع الإحاطۃ ہي المسماۃ بالإدراک )
صفحہ نمبر 3
عقیدہ (۴): اُس کی صفتیں نہ عین ہیں نہ غیر(1)، یعنی صفات اُسی ذات ہی کا نام ہو ایسا نہیں اور نہ اُس سے کسی طرح کسی نحوِ وجود میں جدا ہوسکیں (2) کہ نفسِ ذات کی مقتضٰی ہیں اور عینِ ذات کو لازم۔ (3)
عقیدہ (۵): جس طرح اُس کی ذات قدیم اَزلی اَبدی ہے، صفات بھی قدیم اَزلی اَبَدی ہیں ۔ (4)
عقیدہ (۶): اُس کی صفات نہ مخلوق ہیں (5) نہ زیرِ قدرت داخل۔
عقیدہ (۷): ذات و صفات کے سِوا سب چیزیں حادث ہیں ، یعنی پہلے نہ تھیں پھر موجود ہوئیں ۔ (6)
عقیدہ (۸): صفاتِ الہٰی کو جو مخلوق کہے یا حادث بتائے، گمراہ بد دین ہے۔ (7)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 في ’’ المسایرۃ ‘‘ ، ص۳۹۲: ( لیست صفاتہ من قبیل الأعراض ولا عینہ ولا غیرہ ) ۔ وفي ’’ شرح العقائد النسفیۃ ‘‘ ، ص۴۷۔۴۸: ( وہي لا ہو ولا غیرہ، یعني : أنّ صفات اللّٰہ تعالی لیست عین الذات ولا غیر الذات …الخ)۔ 2… یعنی کسی بھی طور پر صفات، ذات سے جدا ہو کر نہیں پائی جا سکتیں ۔
3 بلا تشبیہ اس کو یوں سمجھیں کہ پھول کی خوشبو پھول کی صفت ہے جو پھول کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے، مگر اس خوشبو کو ہم پھول نہیں کہتے، اور نہ ہی اُسے پھول سے جدا کہہ سکتے ہیں ۔
4 في ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ للقاریٔ، ص۲۳: ( لم یحدث لہ اسم ولا صفۃ ) یعني : أنّ صفات اللّٰہ وأسمائہ کلّہا أزلیۃ لا بدایۃ لہا، وأبدیۃ لا نہایۃ لہا، لم یتجدد لہ تعالی صفۃ من صفاتہ ولا اسم من أسمائہ، لأنّہ سبحانہ واجب الوجود لذاتہ الکامل في ذاتہ وصفاتہ، فلوحدث لہ صفۃ أو زال عنہ نعت لکان قبل حدوث تلک الصفۃ وبعد زوال ذلک النعت ناقصاً عن مقام الکمال، و ہو في حقہ سبحانہ من المحال، فصفاتہ تعالی کلّہا أزلیۃ أبدیۃ )۔ وفي ’’ المعتمد المستند ‘‘ ، ص۴۶۔۴۷: ( وبالجملۃ : فالذي نعتقدہ في دین اللّٰہ تعالی أنّ لہ عزوجل صفات أزلیۃ قدیمۃ قائمۃ بذاتہ عزوجل، لوازم لنفس ذاتہ تعالٰی، ومقتضَیات لہا بحیث لا تقدیر للذات بدونھا …إلخ)۔
5 في ’’ الفقہ الأکبر ‘‘ ، ص۲۵: ( صفاتہ في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ )۔ وانظر : ’’ المعتقد المنتقد ‘‘ ، ص۴۹۔
6 وفي ’’ شرح العقائد النسفیۃ ‘‘ ، ص۲۴: ( والعالم ) أي : ما سوی اللّٰہ تعالی من الموجودات ممّا یعلم بہ الصانع یقال عالم الأجسام وعالم الأعراض وعالم النباتات وعالم الحیوان إلی غیر ذلک، فتخرج صفات اللّٰہ تعالی؛ لأنّھا لیست غیر الذات کما أنّہا لیست عینھا ( بجمیع أجزائہ ) من السموات وما فیھا والأرض وما علیہا ( محدث )۔
7 في ’’ المعتقد المنتقد ‘‘ ، ص۴۹: ( صفات اللّٰہ تعالی في الأزل غیر محدثۃ ولا مخلوقۃ، فمن قال : إنّہا مخلوقۃ أو محدثۃ، أو وقف فیہا بأن لا یحکم بأنہا قدیمۃ أوحادثۃ، أوشک فیہا، أو تردد في ہذہ المسألۃ ونحوہا فہوکافر باللّٰہ تعالی )۔
صفحہ نمبر 4
عقیدہ (۹): جو عالَم میں سے کسی شے کو قدیم مانے یا اس کے حدوث میں شک کرے، کافر ہے۔ (1)
عقیدہ (۱۰): نہ وہ کسی کا باپ ہے، نہ بیٹا، نہ اُس کے لیے بی بی، جو اُسے باپ یا بیٹا بتائے یا اُس کے لیے بی بی ثابت کرے کافر ہے (2)، بلکہ جو ممکن بھی کہے گمراہ بد دین ہے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=== قال الإمام أحمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن في حاشیتہ، ص۵۰: تحت قولہ : ’’ فہو کافر ‘‘: ( ہذا نص سیدنا الإمام الأعظم رضي اللّٰہ تعالی عنہ في ’’ الفقہ الأکبر ‘‘ وقد تواتر عن الصحابۃ الکرام والتابعین والمجتہدین الأعلام علیہم الرضوان التام إکفار القائل بخلق الکلام کما نقلنا نصوص کثیر منہم في ’’ سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح ‘‘ وہم القدوۃ للفقہاء الکرام في إکفار کل من أنکر قطعیاً، والمتکلمون خصّوہ بالضروري وہو الأحوط ۔ ۱۲
وفي ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ ، ص۲۵، تحت قولہ : ( فہوکافر باللّٰہ ) أي : ببعض صفاتہ، وہو مکلّف بأن یکون عارفاً بذاتہ وجمیع صفاتہ إلّا أن الجہل والشک الموجبین للکفر مخصوصان بصفات اللّٰہ المذکورۃ من النعوت المسطورۃ المشہورۃ، أعني : الحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ والتخلیق والترزیق ۔
1 في ’’ الشفا ‘‘ ، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، ج۲، ص۲۸۳: ( نقطع علی کفر من قال بقدم العالم، أو بقائہ، أو شک في ذلک )۔ وانظر : ’’ المعتقد المنتقد، ص۱۹، و ’’ إنباء الحی ‘‘ ، ص۲۳۱، و ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج۲۷، ص۱۳۱۔
2 { لَمْ یَلِدْ ﳔ وَ لَمْ یُوْلَدْۙ(۳) } پ۳۰، الإخلاص :۳۔
{ مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَّ لَا وَلَدًا } پ۲۹، الجن : ۳۔
{ وَ مَا یَنْۢبَغِیْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ یَّتَّخِذَ وَلَدًاؕ(۹۲) } پ۱۶، مریم : ۹۲۔
{ قُلْ اِنْ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ﳓ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِیْنَ(۸۱) } پ۲۵، الزخرف : ۸۱۔
{ وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا } پ۱۵، بنی اسرائیل :۱۱۱۔
في ’’ الشفا ‘‘ ، فصل في بیان ما ہو من المقالات کفر، ج۲، ص۲۸۳: ( من ادّعی لہ ولداً أو صاحبۃ أو والداً أو متولدٌ من شيئ … فذلک کلّہ کفر بإجماع المسلمین ) ، ملتقطاً ۔ وفي ’’ مجمع الأنہر ‘‘ ، کتاب السیر والجہاد، ج۲، ص۵۰۴، و ’’ البحر الرائق ‘‘ ، ج۵، ص۲۰۲: ( إذا وصف اللّٰہ تعالی بما لا یلیق بہ ۔۔۔ أوجعل لہ شریکاً أو ولداً أو زوجۃ ۔۔۔ یکفر )۔ وفي ’’ التاتارخانیۃ ‘‘ ، کتاب أحکام المرتدین، ج۵، ص۴۶۳: ( وفي ’’ خزانۃ الفقہ ‘‘: لو قال : للّٰہ تعالی شریک، أوولد، أوزوجۃ، ۔۔۔ کفر )۔
صفحہ نمبر 5
عقیدہ (۱۱): و ہ حَی ہے، یعنی خود زندہ ہے اور سب کی زندگی اُس کے ہاتھ میں ہے، جسے جب چاہے زندہ کرے اور جب چاہے موت دے۔ (1)
عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں ۔ (2)
عقیدہ (۱۳): جو چیز مُحال ہے، اﷲ عزوجل اس سے پاک ہے کہ اُس کی قدرت اُسے شامل ہو، کہ مُحال اسے کہتے ہیں جو موجود نہ ہوسکے اور جب مقدور ہوگا تو موجود ہوسکے گا، پھر مُحال نہ رہا۔ اسے یوں سمجھو کہ دوسرا خدا مُحال ہے یعنی نہیں ہوسکتا تو یہ اگر زیرِ قدرت ہو تو موجود ہوسکے گا تو مُحال نہ رہا اور اس کو مُحال نہ ماننا وحدانیت کا انکار ہے۔ یوہیں فنائے باری مُحال ہے، اگر تحتِ قدرت ہو تو ممکن ہوگی اور جس کی فنا ممکن ہو وہ خدا نہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ مُحال پر قدرت ماننا اﷲ (عزوجل) کی اُلوہیت سے ہی انکار کرنا ہے۔ (3)
عقیدہ (۱۴): ہر مقدور کے لیے ضرور نہیں کہ موجود ہو جائے، البتہ ممکن ہونا ضروری ہے اگرچہ کبھی موجود نہ ہو۔
عقیدہ (۱۵): وہ ہر کمال و خوبی کا جامع ہے اور ہر اُ س چیز سے جس میں عیب و نقصان ہے پاک ہے، یعنی عیب ونقصان کا اُس میں ہونا مُحال ہے، بلکہ جس بات میں نہ کمال ہو، نہ نقصان، وہ بھی اُس کے لیے مُحال، مثلاً جھوٹ، دغا، خیانت، ظلم، جہل، بے حیائی وغیرہا عیوب اُس پرقطعاً محال ہیں اوریہ کہنا کہ جھوٹ پر قدرت ہے بایں معنی کہ وہ خود جھوٹ بول سکتا ہے، مُحال کو ممکن ٹھہرانا اور خدا کو عیبی بتانا بلکہ خدا سے انکار کرنا ہے اور یہ سمجھنا کہ مُحا لات پر قادر نہ ہو گا تو قدرت ناقص ہو جائے گی
{ هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ﳛ } پ۳، البقرۃ : ۲۵۵۔ { وَ هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ } پ۱۸، المؤمنون : ۸۰۔
2 .{ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ } پ۱، البقرۃ :۲۰۔
في ’’ حاشیۃ الصاوي ‘‘ ، ج۱،ص۳۸، تحت ہذہ الآیۃ : وقولہ : { قَدِیْرٌ } من القدرۃ وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالممکنات إیجادًا أو إعدامًا علی وفق الإرادۃ والعلم )۔ في ’’ التفسیر الکبیر ‘‘ ، ج۷، ص۴۵۴، پ ۱۵، الکہف :۲۵:( أنّہ تعالی قادر علی کلّ الممکنات )۔ في ’’ المسایرۃ ‘‘ ، ص۳۹۱: ( وقدرتہ علی کلّ الممکنات )۔
3 . انظر للتفصیل : ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ’’ سبحن السبوح عن عیب کذب مقبوح ‘‘ ج۱۵، ص۳۲۲۔
صفحہ نمبر 6
باطل محض ہے، کہ اس میں قدرت کا کیا نقصان! نقصان تو اُس مُحال کا ہے کہ تعلّقِ قدرت کی اُس میں صلاحیت نہیں۔(1)
عقیدہ (۱۶): حیات۱، قدرت۲، سننا۳، دیکھنا۴ ، کلام۵، علم۶، اِرادہ ۷ اُس کے صفاتِ ذاتیہ ہیں ، مگر کان، آنکھ، زبان سے اُس کا سننا، دیکھنا، کلام کرنا نہیں ، کہ یہ سب اَجسام ہیں اور اَجسام سے وہ پاک۔ ہر پست سے پست آواز کو سنتا ہے، ہر باریک سے باریک کو کہ خُوردبین سے محسوس نہ ہو وہ دیکھتا ہے، بلکہ اُس کا دیکھنا اور سننا انہیں چیزوں پر منحصر نہیں ، ہر موجود کو دیکھتا ہے اور ہر موجود کو سنتا ہے۔ (2)
1 . في ’’ المسامرۃ بشرح المسایرۃ ‘‘ ، ص۳۹۳: ( یستحیل علیہ ) سبحانہ ( سمات النقص کالجھل والکذب ) بل یستحیل علیہ کلّ صفۃ لاکمال فیہا ولا نقص؛ لأنّ کلاًّ من صفات الإلہ صفۃ کمال )، انظر للتفصیل : ’’ المسامرۃ بشرح المسایرۃ ‘‘ ، واتفقوا علی أنّ ذلک غیر واقع، ص۲۰۴ ۔۲۱۰، و ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج۱۵، ص۳۲۰۔۳۲۲۔
2 .{ اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ } پ۳، اٰل عمران :۲۔
{ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ } پ۷، المائدۃ :۱۲۰۔
{ اِنَّ اللّٰهَ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ } پ۲۴، المؤمن : ۲۰۔
{ وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًا } پ۶، النساء :۱۶۴۔
{ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا } پ۲۸، الطلاق :۱۲۔
{ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ } پ۶، المائدۃ :۱۔ { اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ } پ۱۲، ہود : ۱۰۷۔
في ’’ فقہ الأکبر ‘‘ ، ص ۱۵۔۱۹: ( لم یزل ولا یزال بأسمائہ وصفاتہ الذاتیۃ والفعلیۃ، أمّا الذاتیۃ فالحیاۃ والقدرۃ والعلم والکلام والسمع والبصر والإرادۃ )۔
في ’’ المسامرۃ بشرح المسایرۃ ‘‘ ، ص۳۹۱۔۳۹۲: ( وصفات ذاتہ حیاتہ بلا روح حالَّۃ، وعلمہ وقدرتہ وإرادتہ وسمعہ بلا صماخ لکل خفي کوقع أرجل النملۃ ) علی الأجسام اللینۃ ( وکلام النفس ) فإنّہ تعالی یسمع کلاًّ منہما ( وبصرہ بلا حدقۃ یقلبہا، تعالی رب العالمین عن ذلک ) أي : عن الصماخ والحدقۃ ونحوہما من صفات المخلوقین ( لکل موجود ) متعلق بقولہ : وبصرہ، فہو متعلّق بکلّ موجود، قدیم أو حادث، جلیل أو دقیق ( کأرجل النملۃ السوداء علی الصخرۃ السوداء في اللیلۃ الظلماء، ولخفایا السرائر، متکلمٌ بکلام قائم بنفسہ أزلاً وأبداً ) ، ملتقطاً ۔
وفي ’’ الحدیقۃ الندیۃ ‘‘ ، ج۱ ، ص۲۵۳۔۲۵۶: ( لہ ) سبحانہ وتعالی ( صفات قدیمۃ قائمۃ بذاتہ، لا ہو ولا غیرہ، ہي الحیاۃ، والعلم، والقدرۃ، والسمع ) وہو صفۃ أزلیۃ قائمۃ بذاتہ تعالی تتعلق بالمسموعات أوالموجودات فتدرک إدراکاً تاماً لا علی سبیل التخیّل والتوہّم، ولا علی طریق تأثّر حاسۃ ووصول ہواء، ( و ) الخامسۃ ( البصر ) وعرفہ اللاقاني أیضاً بأنّہ صفۃ أزلیۃ.
صفحہ نمبر 7
عقیدہ (۱۷): مثل دیگر صفات کے کلام بھی قدیم ہے(1)، حادث و مخلوق نہیں ، جو قرآنِ عظیم کو مخلوق مانے ہمارے امامِ اعظم و دیگر ائمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے اُسے کافر کہا(2)، بلکہ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے اُس کی تکفیر ثابت ہے۔ (3)
عقیدہ (۱۸): اُس کا کلام آواز سے پاک ہے (4) اور یہ قر آ نِ عظیم جس کو ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے، مَصاحِف میں لکھتے ہیں ، اُسی کا کلام قدیم بلا صوت ہے اور یہ ہمارا پڑھنا لکھنا اور یہ آواز حادث، یعنی ہمارا پڑھنا حادث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم اور ہمارا لکھنا حادث اور جو لکھا قدیم، ہمارا سنناحادث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ہمارا حفظ کرنا حادث ہے اور
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تتعلق بالمبصرات أوبالموجودات فتدرک إدراکاً تاماً لا علی سبیل التخیّل والتوہّم ولا علی طریق تأثیر حاسۃ ووصول شعاع، ( و ) السادسۃ ( الإرادۃ، و ) السابعۃ ( التکوین، و ) الثامنۃ ( الکلام الذي لیس من جنس الحروف والأصوات ) ؛ لأنّہا أعراض حادثۃ وکلامہ تعالی قدیم فہو منزّہ عنہا، ملتقطاً ۔
1 . في ’’ الفقہ الأکبر ‘‘ ، ص۲۸: ( والقرآن کلام اللّٰہ تعالی فہو قدیم )۔
2 . وفي ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ ، ص۲۶: ( قال الإمام الأعظم في کتابہ ’’ الوصیۃ ‘‘: من قال بأنّ کلام اللّٰہ تعالی مخلوق فہو کافر باللّٰہ العظیم ) ، ملتقطاً ۔ وفي ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ ، ص۲۹: ( واعلم أنّ ما جاء في کلام الإمام الأعظم وغیرہ من علماء الأنام من تکفیر القائل بخلق القرآن فمحمول علی کفران النعمۃ لا کفر الخروج من الملّۃ )۔ وفي ’’ الحدیقۃ الندیۃ ‘‘ ، ج۱، ص۲۵۸: ( ذکر ابن الکمال في بعض رسائلہ : أنّ أبا حنیفۃ وأبا یوسف رضي اللّٰہ تعالی عنہما تناظرا ستۃ أشہر، ثمّ استقر رأیہما علی أنّ من قال بخلق القرآن فہو کافر، وقد ذکر في الأصول أنّ قول أبي حنیفۃ إنّ القائل بخلق القرآن کافر محمول علی الشتم لا علی الحقیقۃ فہو دلیل علی أنّ القائل بہ مبتدع ضال لا کافر )۔ وفي ’’ المعتقد المنتقد ‘‘ ، ص۳۸: ( ومنکر أصل الکلام کافر لثبوتہ بالکتاب والإجماع، وکذا منکر قدمہ إن أراد المعنی القائم بذاتہ، واتفق السلف علی منع أن یقال القرآن مخلوق وإن أرید بہ اللفظي، والاختلاف في التکفیرکما قیل )۔ قال الإمام أحمد رضا في ’’ حاشیتہ ‘‘ ، ص۳۸: قولہ : ( وکذا منکر قدمہ ) أي : ( فیہ تکفیر الکرامیۃ وہو مسلک الفقہاء، أمّا جمہور المتکلمین فیأبون الإکفار إلّا بإنکار شيء من ضروریات الدین، وہو الأحوط المأخوذ المعتمد عندنا وعند المصنّف العلام تبعاً للمحقّقین ۔ ۱۲ إمام أہل السنۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ ۔
3 .انظر ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج۱۵، ص۳۷۹۔۳۸۴۔
4 .في ’’ منح الروض الأزہر ‘‘ ، للقاریٔ، ص۱۷: ( إنّ کلامہ لیس من جنس الحروف والأصوات )۔.
صفحہ نمبر 8
جو ہم نے حفظ کیا قدیم(1)،………… ..
مـــــــــــــــــــــــدینـــہ
1 . قال الإمام أحمد رضا في ’’ المعتمد المستند ‘‘ ، ص۳۵: ( وإنّما المذہب ما علیہ أئمۃ السلف أنّ کلام اللّٰہ تعالی واحد لا تعدّد فیہ أصلاً، لم ینفصل ولن ینفصل عن الرحمن، ولم یحل في قلب ولا لسان، ولا أوراق ولا آذان، ومع ذلک لیس المحفوظ في صدورنا إلّا ہو، ولا المتلو بأفواہنا إلّا ہو، ولا المکتوب في مصاحفنا إلّا ہو، ولا المسموع بأسماعنا إلّا ہو، لا یحلّ لأحد أن یقول بحدوث المحفوظ المتلو المکتوب المسموع، إنّما الحادث نحن، وحفظنا، وألسننا، وتلاوتنا، وأیدینا، وکتابتنا، وآذاننا، وسماعتنا، والقرآن القدیم القائم بذاتہ تعالی ہو المتجلي علی قلوبنا بکسوۃ المفہوم، وألسنتنا بصورۃ المنطوق، ومصاحفنا بلباس المنقوش، وآذاننا بزيّ المسموع فہو المفہوم المنطوق المنقوش المسموع لا شيء آخر غیرہ دالاًّ علیہ، وذلک من دون أن یکون لہ انفصال عن اللّٰہ سبحانہ وتعالی، أو اتصال بالحوادث أو حلول في شيء ممّا ذکر، وکیف یحلّ القدیم في الحادث، ولا وجود للحادث مع القدیم، إنّما الوجود للقدیم وللحادث منہ إضافۃ لتکریم، ومعلوم أنّ تعدّد التجلّي لا یقتضي تعدد المتجلي ۔
؎ دمبدم گر لباس گشت بدل شخص صاحب لباس راچہ خلل
عرف ہذا من عرف، ومن لم یقدر علی فہمہ فعلیہ أن یؤمن بہ کما یؤمن باللّٰہ وسائر صفاتہ من دون إدراک الکنہ )۔
صفحہ نمبر 9
یعنی متجلّی قدیم ہے اور تجلّی حادث۔ (1)
عقیدہ (۱۹): اُس کا علم ہر شے کو محیط یعنی جزئیات، کلیات، موجودات، معدومات، ممکنات، مُحالات، سب کو اَزل میں جانتا تھا اور اب جانتا ہے اور اَبَد تک جانے گا، اشیاء بدلتی ہیں اور اُس کا علم نہیں بدلتا، دلوں کے خطروں اور وَسوسوں پر اُس کو خبر ہے اور اُس کے علم کی کوئی انتہا نہیں ۔ (2)
عقیدہ (۲۰): وہ غیب و شہادت (3) سب کو جانتا ہے (4)، علمِ ذاتی اُس کا خاصہ ہے، جو شخص علمِ ذاتی، غیب خواہ
مـــــــــــــــــــدینـــہ
المکتوب المقروء لیس کلام اللّٰہ الأزلي بل شيء غیرہ یؤدي مؤدّاہ فقد أعظمت الفریۃ، ولکن قل ہو القرآن حقّاً تطوّر بہ، وہکذا کلّما اعتراک شبہۃ في ہذا المجال فاعرضہا علی حدیث الفحل تنکشف لک جلیۃ الحال، وما التوفیق إلّا باللّٰہ المہیمن المتعال )۔
1 متجلّی یعنی کلام الہٰی، قدیم ہے،اور تجلّی یعنی ہمارا پڑھنا،سننا، لکھنا ، یاد کرنا یہ سب حادث ہے۔
2 { یَعْلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَ مَا تُعْلِنُوْنَؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۴) } پ۲۸، التغابن : ۴۔
{ وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَؕ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِؕ-وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا یَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِیْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۵۹) } پ۷، الأنعام :۵۹۔
{ وَ اَسِرُّوْا قَوْلَكُمْ اَوِ اجْهَرُوْا بِهٖؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ(۱۳) اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَؕ-وَ هُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ۠(۱۴) } پ۲۹، الملک : ۱۳۔ ۱۴، { وَ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠(۱۲)} پ۲۸، الطلاق :۱۲۔
صفحہ نمبر 10
شہادت کا غیرِ خدا کے لیے ثابت کرے کافر ہے۔(1) علمِ ذاتی کے یہ معنی کہ بے خدا کے دیے خود حاصل ہو۔
عقیدہ (۲۱) : وہی ہر شے کا خالق ہے(2) ، ذوات ہوں خواہ افعال، سب اُسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔(3)
عقیدہ (۲۲) : حقیقۃً روزی پہنچانے والا وہی ہے (4)، ملائکہ وغیر ہم و سائل و وسائط ہیں ۔ (5)
عقیدہ (۲۳) : ہر بھلائی، بُرائی اُس نے اپنے علمِ اَزلی کے موافق مقدّر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا اورجو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ لیا تو یہ نہیں کہ جیسا اُس نے لکھ دیا ویسا ہم کو کرنا پڑتا ہے، بلکہ جیسا ہم کرنے والے تھے ویسا اُس نے لکھ دیا۔ زید کے ذمّہ برائی لکھی اس لیے کہ زید برائی کرنے والا تھا، اگر زید بھلائی کرنے والا ہوتا وہ اُس کے لیےبھلائی لکھتا تو اُس کے علم یا اُس کے لکھ دینے نے کسی کو مجبور نہیں کر دیا۔ (6) تقدیر کے انکار کرنے والوں کو نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس اُمت کا مجوس بتایا۔ (7)
مـــــــــدینـــہ
1… في ’’ الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ ‘‘ ، ص۳۹: ( العلم ذاتي مختص بالمولی سبحانہ وتعالی لا یمکن لغیرہ، ومن أثبت شیئاً منہ ولو أدنی من أدنی من أدنی من ذرۃ لأحد من العالمین فقد کفر وأشرک وبار وھلک )، ملتقطاً ۔ انظر للتفصیل : ’’ الفتاوی الرضویۃ ‘‘ ، ج۲۹، ص۴۳۶۔۴۳۷۔
2… { اَللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ } پ۱۳، الرعد : ۱۶۔
3… { وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ(۹۶) } پ۲۳، الصآفات : ۹۶۔ في ’’ شرح العقائد النسفیۃ ‘‘ ، ص۷۶: ( واللّٰہ تعالی خالق لأفعال العباد من الکفر والإیمان والطاعۃ والعصیان )۔ في ’’ الیواقیت ‘‘ ، ص۱۸۹: ( أنّ اللّٰہ تعالٰی خالق لأفعال العبد کما ہو خالق لذواتہم )۔
4… { اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ(۵۸) } پ۲۷، الذّٰریٰت : ۵۸۔
في”شرح النووي”، کتاب الإیمان، ج۱، ص۲۷: (واعلم : أنّ مذہب أھل الحق إثبات القدر ومعناہ: أنّ اللہ تبارک وتعالی قدّر الأشیاء في القدم وعلم سبحانہ أنّہا ستقع في أوقات معلومۃ عندہ سبحانہ وتعالی وعلی صفات مخصوصۃ فہي تقع علی حسب ما قدّرہا سبحانہ وتعالی ۔۔۔۔۔۔ واللہ سبحانہ وتعالی خالق الخیر والشرجمیعًا لا یکون شيء منھما إلاّ بمشیّتہ، فھما مضافان إلی اللہ سبحانہ وتعالی خلقًا وإیجادًا، وإلی الفاعلین لھما من عبادہ فعلاً واکتسابًا واللہ أعلم. قال الخطابي: وقد یحسب کثیر من الناس: أنّ معنی القضاء والقدر إجبارُ اللہِ سبحانہ العبد وقہرہ علی ما قدرہ وقضاہ ولیس الأمرکما یتوہمونہ، وإنّما معناہ الإخبار عن تقدم علم اللہ سبحانہ وتعالی بما یکون من اکتساب العبد وصدورہا عن تقدیر منہ وخلق لہا خیرہا وشرہا، ملتقطاً. ”الفتاوی الرضویۃ” ، ج۲۹، ص۲۸۵.
وانظر ”شرح السنۃ” للبغوي، باب الإیمان بالقدر، ج۱، ص۱۴۰- ۱۴۱.
7۔۔۔۔۔۔ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: ((القدریۃ مجوس ہذہ الأمۃ)) وقال: ((لکل أمۃ مجوس ومجوس ہذہ الأمۃ الذین یقولون لا قدرَ)). ”سنن أبي داود”، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ، الحدیث:۴۶۹۱، ۴۶۹۲، ص۱۵۶۷.
صفحہ نمبر 11
عقیدہ (۲۴): قضا تین ۳ قسم ہے۔
مُبرَمِ ۱ حقیقی، کہ علمِ الٰہی میں کسی شے پر معلّق نہیں۔
اور معلّقِ ۲ محض، کہ صُحفِ ملائکہ میں کسی شے پر اُس کا معلّق ہونا ظاہر فرما دیا گیا ہے۔
اور معلّقِ ۳ شبیہ بہ مُبرَم، کہ صُحف ِملائکہ میں اُس کی تعلیق مذکور نہیں اور علمِ الٰہی میں تعلیق ہے۔
وہ جو مُبرَمِ حقیقی ہے اُس کی تبدیل نا ممکن ہے، اکابر محبوبانِ خدا اگر اتفاقاً اس بارے میں کچھ عرض کرتے ہیں تو اُنھیں اس خیال سے واپس فرما دیا جاتا ہے۔ (3) ملائکہ قومِ لوط پر عذاب لے کر آئے، سیّدنا ابراہیم خلیل اﷲ علی نبیّنا الکریم وعلیہ افضل الصّلاۃ والتسلیم کہ رحمتِمحضہ تھے، اُن کا نامِ پاک ہی ابراہیم ہے، یعنی ابِ رحیم(4) ، مہربان باپ، اُن کافروں کے بارے میں اتنے ساعی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
3۔۔۔۔۔۔ ”مکتوبات إمام رباني”، فارسی، مکتوب نمبر ۲۱۷، ج۱، ص۱۲۳۔۱۲۴.
4۔۔۔۔۔۔ في”تفسیر القرطبي”، پ۱، البقرۃ: ۱۲۴، ج۱، الجزء الثاني، ص۷۴، تحت الآیۃ: (وَإِذِ ابْتَلٰۤی إِبْرٰہٖمَ رَبُّہ، بِکَلِمٰتٍ فَأَتَمَّہُنَّ…إلخ) وإبراہیم تفسیرہ بالسّریانیۃ فیما ذکر الماوردي، وبالعربیۃ فیما ذکر ابن عطیۃ: أب رحیم. قال السُّہیلي: