ی۔دینیات, متفرق عقائد اہل سنت

انگوٹھے چومنے کا ثبوت

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ کیا سرکار مدینہ کے نام نامی اسم گرامی پر انگوٹھے چومنا جائز ہے۔ وہابی لوگ اس چیز سے منع فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ سنی علماء کی اختراع ہے۔

بسم الله الرحمن الرحيم الجواب بِعَونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّوْرَ وَالصَّوَابُ۔ 

 حضور پر نور شافع ، یوم النشور   کا نام مبارک سن کر انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا مستحسن و جائز اور جس پر دلائل کثیرہ قائم ہیں۔جیسا کہ حدیث پاک میں ہے۔ دیلمی نے مسند الفردوس میں اسے ذکر کیا ہے اور مقاصد حسنہ میں بھی ہے۔ 

 “إِن أَبَابَكْر الصَّدِيقِ لَمَّا سَمِعَ قَوْلَ الْمُؤْذِنِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالَ هَذَا وَقَبَّلَ بَاطِنَ الْأَثْمَلَتَيْنِ السَّبَابَتَيْنِ وَمَسَحَ عَيْنَيْهِ فَقَالَ صلى الله عليه وسلم مَنْ فَعَلَ مَا فَعَلَ خَلِيلِي فَقَدْ حَلَّتْ عَلَيْهِ شَفَاعَتِي

ترجمہ: ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جب مؤذن سے اشهد ان محمدا رسول الله سنا تو آپ نے پڑھا اشهد ان محمدا عبده و رسوله رضيت بالله رباً وبالاسلام ديناً وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبياً ” اور دونوں کلمے کی انگلیوں کے پورے نیچے کی جانب سے چوم کر آنکھوں سے لگائے۔ اس پر حضور اکرم نے فرمایا جوایسا کرے جیسا میرے پیارے دوست نے کیا ہے، اس کے لیے میری شفاعت حلال ہو جائے گی۔ (مقاصد الحسنه ص (384)

اور ملاعلی قاری علیہ رحمۃ الباری اپنی کتاب الاسرار المرفوعہ فی اخبار الموضوعہ میں فرماتے ہیں:

قُلْتُ وَ إِذَا ثبتَ رَفْعُهُ إِلَى الصَّدِّيقِ الله فَيَكْفِي لِلْعَمَلِ بِهِ لِقَوْلِهِ عليه الصلوة والسلام عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ والراشدين.

ترجمہ: میں نے کہا۔ انگوٹھے چومنے کے فعل کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ سے ثابت ہونا ہی عمل کرنے کے لیے ہے کیونکہ سرکار مدینہ نے ارشاد فرمایا: تم پر میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت لازمی ہے۔

 (الاسرار المرفوعه ص 236)

كفاية الطالب الرباني الرسالة ابن ابی زید القیروانی میں ہے۔

ثم نُقل عن الخضر انه عليه الصلوة والسلام قال من قال حين يسمع قول المؤذن اشهد ان محمدا رسول الله مرحبًا بِحَبِيبِي وَ قُرَّةُ عَينِي مُحَمد بن عَبدِ الله (سلام ) ثم يقبل ابهاميه ويَجْعَلُهُما على عينيه لم يعم ولم ير مد ابدا 

ترجمہ: حضرت خضر سے منقول ہے آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو شخص مؤذن کا یہ جملہ ” اشهد ان محمدا رسول الله سن کر یہ کہ مرحبا بِحَبِيبِي وَقُرَّةُ عَينِي مُحَمَّدُ بنُ عبدِ الله ( ) پھر اپنے دونوں طانگوٹھے چوم کر اپنی دونوں آنکھوں پر لگائے ، وہ کبھی اندھا نہ ہوگا اور نہ اس کی آنکھیں خراب ہوں گی۔( كفاية الطالب الرباني لرسالة ابن ابي زيد القيروانی مصر جلد ۱ ص ۱۶۹)

مذکورہ بالا عبارت میں منقول لم يقبل کے حاشیہ میں علامہ شیخ علی الصعیدی علیہ فرماتے ہیں کہ شیخ العالم نور الدین خراسانی سے منقول ہے :

قال بَعْضُهُمْ لَقَيْتُهُ وَقتَ الْآذَانِ فَلَمَّا سَمِعَ الْمُؤَدِّنَ يَقُولُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ قَبَّلَ الْهَمَسَحَ بِالظَّفَرَيْنِ أَجْفَانِ عَيْنَيْهِ مِنَ الماقِ إِلَى نَاحِيَةِ الصَّدُعْ ثُمَّ فَعَلَ ذَالِكَ عِنْدَ كُلَّ تَشَهُدٍ مرَّةً مرة فَسَأَلْتُهُ عن ذلِكَ فَقَالَ كُنْتُ أَفْعَلُهُ ثُمَّ تَرَكْتُهُ فَمَرِضَت عَيْنَايَ فَرَأَيْتُهُ صلى الله عليه وسلم مَنَامًا فَقَالَ لِمْ تَرَكْتَ مَسْحٍ عَيْنَيْكَ عِنْدَالآذَانِ إِن أَرَدْتَ أَنْ تَبْرَأَ عَيْنَاكَ فَعُدْ إِلَى الْمَسْحِ فَاسْتَيْقَظُتُ وَمَسَحَتُ فَبَرَنَتُ. د بعض لوگوں نے نور الدین خرانی سے کہا جب آپ نے مؤذن سے اشهد ان محمدا رسول الله سنا تو آپ نے اپنے دونوں انگوٹھے چومے اور ان دونوں کے ناخن اپنی پلکوں پر ناک کی طرف ملے پھر آپ نےہر تشہد پر ایسے ہی بار بار کیا۔ میں ان کو ملا اور میں نے آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو آپ اللہ نے فرمایا میں پہلے ی عمل کیا کرتا تھا۔ پھر میں نے اس کو چھوڑ دیا تو میری آنکھیں خراب ہو گئیں اور مجھے خواب میں نبی کریم کی زیارت ہوئی۔ تو آپ نے فرمایا۔ تو نے اذان کے وقت آنکھوں پر انگوٹھے لگانے کیوں چھوڑ دیئے ۔ اگر تو چاہتا ہے کہ تیری آنکھیں درست ہو جائیں تو دوبارہ یہ عمل کرنا شروع کر دے۔ پس جب میں بیدار ہوا میں نے انگوٹھے ۔ چومنے کا عمل دوبارہ شروع کر دیا۔ تو میری آنکھیں صحت یاب ہو گئیں ۔ اس کے بعد کبھی خراب نہ ہوئیں۔(فتاوی رضویہ جلد 5 ص 632، حاشيه على كفايه جلد 1 ص (170)

اور امام اہل سنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ شریف میں مقاصد الحسنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ محمد بن صالح مدنی جو مسجد مدینہ طیبہ کے امام و خطیب تھے اپنی تاریخ میں مجد مصری سے نقل کیا ہے کہ میں نے ان کو فرماتے سنا: يَقُولُ مَنْ صَلَّى عَلَى النَّبِي سَلَمَ إِذَا سَمِعَ ذِكْرَهُ فِي الْأَذَانِ وَ جَمَعَ أَصْبَعَيْهِ الْمُسَبَّحَةَ وَالْإِبْهَامَ وَقَبَّلَهُمَا وَمَسَحَ بِمَا عَيْنَيْهِ لَمْ يَرْمُد ابدًا 

 آپ یہ فرماتے ہیں۔ جو شخص نبی کریم سے ایام کا ذکر پاک اذان میں سن کر کلمہ کی انگلی اور انگوٹھ ملائے اور ( المقاصد الحسنة ص 436)انہیں بوسہ دے کر آنکھوں سے لگائے ، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔“اور مقاصد الحسنہ میں ہی ہے

قَالَ ابْنُ صَالِحُ وَلِلَّهِ الْحَمْدُ وَالشُّكْرُ مُنْذُ سَمِعْتُهُ مِنْهُمَا اسْتَعْمَلْتُهُ فَلَمْ تَرْمَدُ عَيْنَى وَأَرْجُواأَنَّ عَافِيْنَهُمَا تَدُوهُ وَإِنِّي أَسْلَمُ مِنَ الْعَمْيِ إِنْ شَاءَ اللهُ.

ترجمہ: یعنی امام ابن صالح نے فرمایا۔ تمام خوبیاں اللہ عز وجل کے لیے ہیں اور اللہ عز وجل کا شکر ہے جب سے میں نے یہ عمل ان دونوں صاحبوں سے سنا۔ اپنے عمل میں رکھا ۔ آج تک میری آنکھیں نہ دکھیں اور امید کرتا ہوں کہ ہمیشہ اچھی رہیں گی اور میں کبھی اندھا نہ ہوں گا۔ ان شاء اللہ(ايضاً ص (384)

 سرکا را قدس ﷺ کے نام مبارک پر انگوٹھے چومنا اور تعظیم مصطفی سی سی اپیلام کے پیش نظر ان کو آنکھوں سے لگانامستحب اور محبت رسول صلی نام کا موجب ہے۔ جیسا کہ شرح نقایہ اور کنز العباد میں ہے:

وَاعْلَمْ أَنَّهُ يَسْتَحِبُّ أَنْ يُقَالَ عِنْدَ سِمَاعَ الْأُولَى مِنَ الشَّهَادَةِ الثَّانِيَة صلى الله تَعَالَى عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللَّهِ ۖ وَعِنْدَ الثَّانِيَةِ مِنْهَا قُرَّةٌ عَيْنِي بِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ثُمَّ يُقَالُ اللَّهُمَّ مَتَعْمَى بِالسَّمْعِ وَالْبَصَرِ بَعْدَ وَضْعِ ظُفُرِى الْأَنْهَامَيْنِ عَلَى الْعَيْنَيْنِ فَإِنَّهُ صَلَّى اللهُ تعالى عليه وسلم يَكُونُ قَائِدَ الَهُ 

اے طالب حق اچھی طرح جان کہ مستحب یہ ہے کہ جب اذان میں پہلی بار اشهد ان محمدا رسول الله سنے تو کہے صلى الله عليك يا رسول اللہ اور دوسری شہادت پر پڑھے قرة عيني بك يا رسول الله “ پھر انگوٹھوں کے ناخن آنکھوں پر رکھ کر کہے۔ اللهم متعنى بالسمع والبصر تو ان شاء الله عز وجل نبی کریم علیه السلام ایسے غلام کو اپنے پیچھے پیچھے جنت میں لے کر جائیں گے ( قائد الہ کا معنی یہی ہے کہ اس بندے کے لیے قائد ( رہنمااور لے جانے والا ) ہوں گے (جامع الرموز جلد 1 ص 125) 

درودو سلام کی آیت کے تحت جلالین کے حاشیہ میں بہت ہی پیاری حدیث پاک موجود ہے:

قَالَ عليه السلام مَنْ سَمِعَ اسْمِي فِي الْأَذَانِ فَقَبَّلَ ظُفُرِى ابْهَا مَيْهِ وَ مَسَحَ عَلَى عَيْنَيْهِ وَلَمْ يَهُمَّ أَبَدًا .

ترجمہ: سرکار مدینہ نے فرمایا جس نے میرا نام اذان میں سنا اور اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو چوم کر اپنی آنکھوں پر لگا یا وہ بھی رنجیدہ و پریشان نہیں ہوگا ۔ هَم کا معنی رنجیدہ ہونا یا پریشان ہونا ہے۔ (جلالین سوره احزاب ص 357 مطبوعه قدیمی )

ان دلائل سے خوب واضح ہو گیا کہ سرکار مدینہ کے نام مبارک پر انگوٹھے چومنے والا ستحق ثواب اور یہ عمل دافع عذاب ہے۔ سر کار سال یا ایہام کے نام مبارک پر انگوٹھے چومنے میں سرکار مدینہ کی تعظیم کا پہلو نکلتا ہے۔ مخالفین کیونکہ تعظیم مصطفی سلی ایم کو والوں سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں اور جہاں کہیں تعظیم مصطفی کا پہلو پایا گیا وہاں بد مذہبوں کے دیو کو جوش آیا ، اور اس نے اپنے ساتھیوں کو اس کے خلاف اکسایا ، اور سرکار مدینہ اسلام کے خلاف دلائل ڈھونڈنے کے گندے اور برے کام میں پھنسایا ، اور سنی علماء کے خلاف اور عاشقانِ رسول کے خلاف کام یہ پر لگایا۔ اس کے ماننے والوں نے فورا سے پہلے لبیک کہا اور حضور پاک صاحب لولاک کی تعظیم کوختم کرنے کی سعی نا سعید میں مصروف عمل ہو گئے اور مختلف کتابوں سے اپنے ناقص استدلال کے مطابق کیڑے مکوڑے نکال کر لائیں کھڑے کیے۔ ان کو تعظیم حبیب سلیم کالے سانپ کی طرح کاٹتی اور زہریلے سانپ کی طرح سونگھتی ہے۔ اللہ تعالی ان سے ہمیشہ بچائے۔

اعتراض کا جواب

اس پر یہ اعتراض نہ کیا جائے کہ انگوٹھے چومنے کے بارے میں مروی حدیث صحیح نہیں ہے اور ملا علی قاری عالی نے موضوعات کبیر میں فرمایا: 

کل ما يروى فى هذا فلا يصح رفعه البتة ” جو روایات اس بارے میں بیان کی گئی ہیں وہ صیح نہیں۔ کیونکہ یہاں صحیح سے مراد وہ صحیح نہیں ہے جو عوام میں مشہور ہے، جس کی ضد خراب و غلط ہے بلکہ صحیح حدیث سے مراد وہ حدیث ہے جو محدثین کے نزد یک درجہ صحت کو نہ پہنچی ہو ۔ صحیح حدیث کی تعریف یہ ہے کہ صحیح لذاتہ وہ حدیث ہے جس کے کل راوی عادل کامل الضبط ہوں۔ اس کی سند متصل ہو اور معلل و شاذ ہونے سے محفوظ ہو ۔ صحیح لذاتہ کے علاوہ حدیث کی بہت سی اقسام ہیں جو حدیث محدثین کے نزدیک درجہ صحت کو نہ پہنچتی ہو ضروری نہیں کہ وہ ضعیف ہی ہو بلکہ وہ حسن لذاتہ، حسن لغیرہ صحیح لغیرہ میں سے کوئی ایک ہوسکتی ہے۔ نفی صحت نفی حسن کو مستلزم نہیں ہے۔

اگر کوئی حدیث ضعیف بھی ہو تو فضائل اعمال میں وہ سب محدثین کے نزدیک اجماعاً مقبول ہے۔وہی ملا علی قاری یہ جن کی عبارت مخالفین نے ناموس رسالت پر حملہ آور ہونے کے لیے استعمال کی ہے اور اس سے نفی تقبیل ابھامین (انگوٹھے چومنے کی نفی ) پر استدلال کیا ہے ۔ وہ خود فرماتے ہیں۔ 

قُلْتُ وَإِذَا ثبت رَفْعُهُ إِلَى الصَّدِّيقِ الله فَيَكْفِي لِلْعَمَلِ بِهِ لِقَوْلِهِ عليه الصلوة والسلام عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِالخلفاء والراشدين.

ترجمہ : ”میں نے کہا۔ انگوٹھے چومنے کے فعل کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ سے ثابت ہونا ہی عمل کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ سرکار مدینہ ہم نے ارشاد فرمایا تم پر میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت لازمی ہے۔ (الاسرار المرفوع مص 236) 

اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں کہ محدثین کرام کا کی حدیث کوفر مانا کہ یہ نہیں ہے اس کے یہ ہیں صحیح معنی نہیں ہوتے کہ وہ حدیث غلط و باطل ہے بلکہ صحیح حدیث ان کی اصطلاح میں ایک اعلیٰ درجہ کی حدیث ہے جس کی شرائط سخت دشوار اور موانع و علائق کثیر بسیار ہیں۔اور نور الدین سمہودی فرماتے ہیں۔(فتاوی رضویہ جلد 5 ص 436 جدید)

قَدْ يَكُونُ غَيْرَ صَحِيحٍ وَهُوَ صَالِحُ لِلْإِحْتِجَاجِ بِهِ إِذَا الْحَسَنُ رُتْبَةٌ بَيْنَ الصَّحِيحِ وَالضَّعِيْفِ . 

ترجمہ: “کوئی حدیث کبھی صحیح نہیں ہوگی اور اس کے باوجود وہ حجت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے کیونکہ حسن کا رتبہ صحیح اور ضعیف حدیث کے درمیان ہے۔“

ان اقوال سے خوب واضح ہو گیا کہ کسی حدیث کا صحیح نہ ہونا اس بات کو مستلزم نہیں کہ وہ حدیث غلط و باطل ہے اور اس پر عمل کرنا بدعت و حرام ہے، ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ غیر صیح پر عمل کرنے والا صحیح کی طرح مستحق ثواب اور رضائےالہی کا حق دار ہے۔

اب مذکورہ بالا وضاحت کے پیش نظر مردمذہبوں کا وہ اعتراض کہ تقبیل ابھامین کے بارے میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے بالکل شیطانی گوز کی طرح ہوا میں شامل ہو کر اپنا وجودنا مسعود کھو چکا ہے۔

 وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم۔

       فتاوی یورپ و برطانیہ

       .گلشن اجمیر(1)