کئی ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جب پیاس کی شدت سے بے تاب ہو کر خشک اور بے آب و گیاہ پہاڑی کی چٹانوں پر اپنی ایڑیاں ماریں تو وہاں سے پانی کا ایک چشمہ پھوٹ پڑا اور اگر حضرت ہاجرہ علیہ السلام زم زم رک جارک جا کہہ کر اس پانی کو نہ روکتیں تو شاید سارا علاقہ پانی میں ڈوب جاتا رو کے جانے کے باوجود یہ چاہ زم زم آج بھی جاری و ساری ہےاس کا پانی کروڑوں افراد کی روحانی و جسمانی پیاس بجھا رہا ہے۔ یہود و ہنود ہی نہیں ہمارے اپنے بھی ان کی غیر محسوس سازشوں سے متاثر ہو کر چاہ زم اور آب زم زم کے بارے میں لایعنی اعتراضات کرتے رہتے ہیں کبھی کہتےیہ پانی مضر صحت ہے اور کبھی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اس کا منبع بحیرہ احمر ہے ۔ شاہ فیصل نے یورپی اور سعودی لیبارٹریز سے پانی کے تجزیئے کرائے جنہوں نے اسے مفیدومحفوظ مشروب قرار دیا جب کہ منبع کے بارے میں یا وہ گوئی کا جواب یہ ہے کہ بحیرہ احمرسے کم فاصلے پر کنویں کیوں سوکھ گئے ؟آب زم زم نہ صرف مقدس پانی ہے بلکہ صحت بخش بھی ہے ۔ محترم مفتی عبدالغنی شاہ مرحوم ہر سال عمرہ کے لیے جاتے تھے وہ گردے کے مرض میں مبتلا تھے مگر ان کا بیان تھا که دوران حج و عمرہ خوب آب زم زم پیتے تھے اور ان کی تکلیف ختم ہو جاتی تھی ۔ مفتی صاحب ہی راوی ہیں کہ مکہ کے گورنر اور دیگر امیروں نے بڑی کوشش کی کہ چاہ زم زم سے پائپ لائن لگا کر اپنے محلوں میں پانی پہنچایا جائے مگر امریکہ اور یورپ کے انجینئربھی ناکام ہو گئے مکہ سے مدینہ منورہ مسجد نبوی تک تو پانی پہنچ گیا لیکن دنیا داروں کے گھرنہیں پہنچ سکا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے جس سے انکار کفر ہے مگر جن لوگوں کے دل ودماغ پر مہریں لگ چکی ہیں وہ اس کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے حال ہی میں جو جدید سائنسی تحقیقات ہوئی ہیں ان سے مزید حیرت انگیز انکشاف ہوئے ہیں جن کا ذکر آگےتحریر شدہ مضمون میں کیا جائے گا
مکہ معظمہ کی مسجد الحرام میں کعبہ شریف سے ۱۵ میٹر کے فاصلے پر جنوب مشرق میں حجر اسود کی سیدھ میں ایک کنواں واقع ہے جس کے پانی کو آب زم زم کہتے ہیں ۔ یہ کنواں کعبہ شریف سے بھی قدیم ہے اور اس کی گہرائی کے بارے میں اب تک قیاس تھا کہ وہ ۱۴۰فٹ ہے لیکن حالیہ پیمائش پر یہ۱۰۷ فٹ گہرا پایا گیا۔ ممکن ہے پانی کی مسلسل نکاسی کی وجہ سے یہ نیچے ہو گیا ہو ۔ مسلمانوں کے نزدیک اس کا پانی متبرک ہے ۔ نبی نے اس کو کھڑے ہو کر پیا اور اس غرض کے لیے ایک خصوصی دعا :الهم اني اسألك علماً نافعاً ورزقاً واسعاً وشفاء من كل داء ” ترجمہ: ”اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ایک ایسے علم کا جو فائدہ دینے والا ہو اور ایسے رزق کا جو مجھے کھلے دل سے عطا کیا جائے اور مجھے تمام بیماریوں سے شفامرحمت فرما وہ خود اسے بڑے احترام کے ساتھ پیتے رہے اور جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو صلح حدیبیہ کے موقع پر منگوا کر پیا اور واپسی میں ساتھ لے کر آئے ۔ ان کے بعد حضرت عائشہ صدیقہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس سے مزیداستفادہ کے لیے سفرحج کے بعد واپسی میں ہمراہ لایا کرتے تھے اور یہ خوش کن رسم اسی انہماک سے آج بھی جاری ہے
شاید آپ نے کبھی سوچا ہو، دعا کیا ہے؟ ہر دور میں دعا کی مختلف وضاحتیں کی گئی ہیں لیکن ایک دانا کے بقول ” دعا نام ہے قلب کی کشادگی کا ، جس طرح آپ ایک باوفا دوست پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے دل کا حال اسے سناتے ہیں ! ہم دعا کے وقت خدا سے اسی طرح باتیں کرتے ہیں جیسے ایک عبد اپنے معبود سے کرتا ہے ۔ ہم اسےسب کچھ بتاتے ہیں پھر اس سے مدد کے ملیجی ہوتے ہیں ۔ اصل دوستی وہ ہے جس میں خود غرضی کا شائبہ بھی نہ ہو ۔ ہمیں جس کی دوستی یا سر پرستی پر ناز ہوتا ہے ہم اس کا ہر مشورہ قبول کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ ہم اس کی ہدایت پر فخر کرتے ہیں اور جو کچھ اس سے مل جاتا ہے اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں ۔ دعا ذریعہ ہے اللہ تک پہنچنے کا جو ہمارا سب سے بڑا دوست ، سب سے بڑا محب اور سب سے بڑاچاہنے والا ہے !مشہور بات ہے کہ مصیبت میں خدا یاد آتا ہے ۔ دکھ تکلیف میں مریض کے منہ پر بے اختیار اس کا نام یاد آ جاتا ہے ۔ لوگ اس کے نام پر خیرات بانٹتے ہیں اور نہ صرف خود اپنی صحت کی دعا مانگتے ہیں ، بلکہ دوسروں سے بھی اپنے لیے دعا کراتے ہیں ۔ اگر ہم کہیں کہ یہ خود غرضی ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ دعا تو وہ ہے جو ہر حال میں مانگی جائے اور خدا کی معاونت اور زلزلے ، قحط ، سیلاب اور ایسی ہی دوسری آفات کے زمانے میں اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں اور خدا کی پناہ تلاش کی جاتی ہے لیکن اگر ہم صحت و عافیت کے طالب ہیں تو ہمیں خدا سے اپنا رابطہ ہمہ وقت استوار رکھنا چاہیئے ۔ وہ ہماری ضروریات جانتا ہے اور انہیں اس انداز میں فراہم کرتا ہے جو وہ ہمارے لیے سب سے اچھا سمجھتاہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہماری تمام ضروریات جانتا ہے تو پھر ہمیں دعا کیوں مانگنی چاہئے؟ وہ سب کا حاجت روا ہے خواہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے ۔ تو کیا دعا سے فرق پڑتا ہے؟ جواب صرف یہ ہے کہ خود غرضی سے آلودہ دعا بے فائدہ رہتی ہے۔ دعا کو مادی وسائل حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائیے ۔ اس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ آپ خالق کا ئنات سے نزدیک تر ہو جائیں ۔ ہم اس لیے دعا نہیں مانگتے کہ ہم خدا کی قدرت پر اثر انداز ہوں ، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سے ہم آہنگی اور مطابقت اختیار کر لیں اور ہمیں اس وقت واقعی بڑی خوشی ہوتی ہے جب ہماری دلی خواہشات کاجواب آتا ہے خواہ طریقہ قدرے مختلف ہی کیوں نہ ہو
مسجد الحرام میں مزید گنجائش پیدا کرنے کے لیے زم زم کا کنواں بند کر کے اس پرایک طاقتور ٹربائن (Turbine) لگائی گئی ہے جو پانی کو کنوئیں سے نکال کر صفا مروہ کے قریب نو تعمیر شدہ پیاؤ تک لے آتی ہے۔ لوگ یہاں سے خوب سیر ہو کر پی سکتے ہیں اور ڈبوں میں بھر کر لے جا سکتے ہیں۔حرم شریف میں جگہ جگہ ٹھنڈا پانی مہیا کرنے والے کولر نصب ہیں جن سے زائرین ٹھنڈا زم زم بلا روک ٹوک پی سکتے ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی ، لاہور ، اسلام آباد اور پشاور میں زم زم کا پانی پلاسٹک کے کینوں میں فروخت ہوتے دیکھا گیا ہے۔ اللہ کی یہ بیش بہا نعمت اب ہر جگہ دستیاب ہے۔اسلام نے جب اس کنوئیں کے پانی کو عظمت عطا کی تو لوگوں نے اس کی تعمیر اور بہتری پر توجہ دی ۔ ترک حکمرانوں نے اس کے ارد گرد غلام گردش بنا کر اوپر گنبد نما چھت ڈال دی ۔ آل سعود کی آمد تک اس کے ارد گرد پانچ فٹ اونچی سنگ مرمر کی منڈیر تھی جس کے اوپر چھت تک لوہے کی مضبوط جنگلہ نما حالی تھی ۔ اس جالی میں چھوٹے چھوٹے دروازے تھے جن میں پانی نکالنے کے لیے چرخیاں نصب تھیں ، ان چرخیوں پر پانی کھینچنے والے دن رات کام کرتے تھے ۔ ڈول نکالنے کے بعد یہ سقوں کو ملتا تھا۔ وہ نوکدار پیندے والی تکونی صراحیوں میں بھر کر حرم شریف میں چمکدار کٹوروں میں لوگوں کو زم زم پلاتے تھے ۔ یہی صراحیاں گھروں میں جاتی تھیں اور سینکڑوں افراد کا معاش اس کنوئیں سے وابستہ ہو گیا۔قیام مکہ کے دوران حجاج اپنے لیے کفن کا کپڑا خرید کر اس متبرک پانی میں بھگو کر خشک کر کے اپنے وطن واپس لے جاتے ہیں ۔ زم زم کو پینے کے لیے ساتھ لے جانے کے دو طریقے تھے۔ ٹین ساز خالی کنستر کے اندر موم پگھلا کر پھیر دیتے تھے پھر اس کنستر میں آب زم زم بھر کر ٹانکا لگا دیا جاتا اور اس طرح یہ پانی محفوظ کسی بھی ملک تک چلا جاتا تھا۔ ۔ جو کنستر کا وزن نہیں لے جاسکتے تھے ان کے لیے ٹین کی گول کیپیاں سی بنی ہوتی تھیں ان کے ایک سرے پر منہ بنا ہوتا تھا اسے زمزمی کہا جاتا ہے ۔ اس میں تقریبا ایک کپ پانی آ سکتا ہے۔ اب پلا سٹک نے ٹین کی جگہ لے لی ہے۔ سعودی حکومت نے حرم کی توسیع میں زم زم کے کنوئیں کو جدید شکل دے کر پاؤ کو صحن کے درمیان سے ہٹا دیا ہے ۔ زمانہ قدیم سے مسجد میں چار اماموں کے نام کے مصلے اور کئی سائبان بنے ہوئے تھے ۔ انہوں نے یہ تمام عمارتیں گرا کر مسجد کے صحن کو نمازیوں کے لیے کشادہ کر دیا ہے ۔ اسی عمل میں زمزم کے کنوئیں پر چھت ڈال کر اس کے اوپر ایک طاقتور پمپنگ انجن نصب کر دیا گیا ہے جو پانی کو ایک بہت بڑی تکمیل میں ڈال دیتا ہے۔حج پر آنے والے لاکھوں افراد کے لیے یہ بڑی سبیل کارآمد ثابت ہوئی ہے پانی پینے ، بھرنے ، لے جانے اور کفن دھونے اور سکھانے کا سلسلہ مسجد سے باہر منتقل ہونے سے نماز کے لیے زیادہ جگہ مہیا ہوگئی ہے ۔ اب لوگ زم زم کو ٹین کی کپیوں میں لے جانے کی بجائے پلاسٹک کے ڈبوں میں لے جاتے ہیں کیونکہ ہوائی سفر میں وزن کی اہمیت ہے ۔ پلاسٹک ، ٹین سے ہلکا ہے آب زمزم کی مقبولیت اور تقدس سے متاثر ہو کر دیگر کئی مذاہب نے اپنے ماننےوالوں کے لیے مقدس پانی تلاش کر لیے ان میں سے اکثر بیماریوں کا باعث ہوئےکیونکہ آلودہ پانی پینے سے پیٹ کی متعدد بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ کمال کی بات یہ ہےکہ پوری تاریخ اسلام میں آج تک کوئی شخص زم زم کا پانی پی کر بیمار نہیں ہوا اور اسکے برعکس ایسا کوئی پانی تاریخ کے کسی دور میں اور کسی ملک میں ایسا مشہور نہیں ہوا جسکی وجہ سے لوگ بیمار نہ ہوئے ہوں ۔ حال ہی میں کچھ چشموں کا پانی عالمی شہرت حاصل کر گیا ہے ۔ لوگ ان کو معدنی پانی توانائی کے خیال سے پیتے ہیں ۔ ایسا پانی پی کرتوانائی حاصل کرنے والا ابھی تک کوئی دیکھا نہیں گیا۔
خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی ہاجرہ علیہ السلام کو ان کے نومولود بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑ آئیں ۔ جب یہ قافلہ منزل مقصود پر پہنچا تو اس صابر و شاکر خاتون نے صرف ایک بات اپنے میاں سے پوچھی ، کیا ہمارا یہاں آنا اور رہنا اللہ کے حکم کی تعمیل میں ہے؟“ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اثبات میں جواب دیا ۔ تو وہ مطمئن ہو گئیں کہ اب ان کے لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ جو اُن کو وہاں لایا ہے وہیں ان کی خبر گیری بھی کرے گا۔خوراک اور پانی کا وہ ذخیرہ جو اُن کے ہمراہ تھا تھوڑی دیر میں ختم ہو گیا ۔ بچہ بھوک سے بلکنے لگا اور وہ پریشانی کے عالم میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کے درمیان دوڑ کر پانی تلاش کرتی رہیں۔
توریت مقدس میں آیا :خدا کے فرشتہ نے آسمان سے ہاجرہ علیہ السلام کو پکارا اور کہا اے ہاجرہ علیہ السلام ! تجھ کو کیا ہوا ؟ مت ڈر کیونکہ خدا نے اس جگہ سے جہاں لڑکا پڑا ہے اس کی آواز سن لی ہے ، اٹھ اور لڑکے کو اٹھا اور اسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کیونکہ میں اس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔ پھر خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں اور اس نے پانی کا ایک کنواں دیکھا اور جا کرمشک کو پانی سے بھر لیا اور لڑکے کو پلایا … ( پیدائش ۱۷:۲۱ تا ۲۰)توریت مقدس کی اس روایت کے مطابق بچے کے رونے کے بعد خدا نے وہاں پرکنواں پیدا کیا جس کے پانی سے وہ خاندان سیراب ہوا ۔ اس کنوئیں کا وجود ایک معجزہ تھا۔ اس لیے اس کا پانی ان کے عقیدہ میں بھی متبرک ہونا چاہیے ۔مکہ معظمہ سے نور کے پھیلاؤ سے پہلے لوگ اس مقام کی زیارت اور کنوئیں سےتبرک لینے آیا کرتے تھے۔ ایک قدیم ایرانی شاعر نے زم زم کے کنوئیں کے اردگرد چکرلگا کر دعا مانگنے کا ذکر اپنی نظم میں کیا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے اس واقعہ کی پوری تفصیل قلمبند کی ہے جس کے مطابق حضرت ہاجرہ علیہا السلام پریشانی کے عالم میں کبھی صفا پہاڑی پر جا کر دیکھتیں اور کبھی مروہ سے کہ شاید کہیں پانی یا آنے والا کوئی شخص نظر آ جائے جس سے وہ مدد لے سکیں ۔ گھبراہٹ کے اس عالم میں انہوں نے ایک آواز سنی۔ انہوں نے فورا مخاطب کر کے نیکی کے نام پر مدد کی درخواست کی اور حضرت جبرائیل علیہ السلام ظاہر ہوئے اور انہوں نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو زمین سے پانی ابلنے لگا۔ حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے گھبراہٹ میں پتھر جمع کر کے اس کے ارد گرد ایک ہالہ سا بنا لیا تاکہ پانی ضائع نہ ہو اور کچھ دنوں کے لیے ذخیرہ ہو جائے ۔ اضطراری کیفیت میں تحفظ ذات کی کوشش کے بارے میں نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہاجرہ علیہ السلام اس کو محدود نہ کرتیں تو یہ چشمہ ایک دریا بن جاتا جوپورے عرب کو سیراب کرتا ۔ایک بے آب و گیاہ صحرا میں محض حکم خداوندی کی تعمیل میں دکھ جھیلنے والی ہاجرہ علیہا السلام کو خدا نے رہتی دنیا تک عزت اور شہرت عطا کر دی ۔ وہ جس حصہ پر دوڑی تھیں، آج ہر مسلمان حج یا عمرہ کے لیے ان کی تقلید کرتا ہوا ان کی تکلیف اور صبر پر عملی داد دیتا ہے ۔ ان کے بیٹے کے لیے خدا نے جو کنواں پیدا کیا وہ ہر مسلمان کے لیے برکت ، احترام اور شفا کا مظہر ہے ۔ ان کے بیٹے نے جو گھر اپنے باپ کے ساتھ مل کر بنایا، رہتی دنیا تک ہر مسلمان اس کی طرف منہ کر کے عبادت کرے گا اور اس گھر کو قرآن نے دنیا میں خدا کا پہلا گھر قرار دیا۔”ان اول بيت وضع للناس للذي ببكة مباركاً وهدى للعلمين .”( آل عمران : ۹۶)ترجمہ : ” یہ دنیا میں ایک پہلا ایسا گھر مکہ میں بنایا گیا ہے جو لوگوں کے لیےبرکت ہدایت کا منبع ہو گا اور یہ فیض سب جہانوں کے لیے ہو گا ۔“
جس کا ترجمہ علامہ اقبال نے یوں کیا ہے:دنیا کے بت کدوں میں پہلا وہ گھر خدا کاحضرت ہاجرہ علیہ السلام کے بیٹے کی نسل سے ایک نبی پیدا ہوا جس نے پوری دنیامیں رشد و ہدایت کا نور پھیلایا۔زم زم کا کنواں کچھ عرصہ تو جاری رہا پھر صحرائی بگولوں کی زد میں آکر غائب ہو گیا ، ایک روایت کے مطابق بنو جرہم نے اس میں ریت ڈال کر بند کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ کے رئیس عبد المطلب کو خواب میں اس کنوئیں کی نشاندہی کی گئی اور ہدایت کی گئی کہ وہ اسے کھدوا کر صاف کریں اور خلق خدا کی منفعت کے لیے جاری کریں ۔ انہوں نے اسے کھدوایا ۔ صاف کروایا اور ارد گرد پتھروں سے بلند منڈ پر تعمیر کرا دی ۔ صفائی کے دوران زم زم کے کنوئیں سے سونے کے دو ہرن ، کچھ تلواریں اور زرہ بکتر برآمد ہوئے ۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ چیزیں ایرانی زائر پھینک گئے ہوں گے ۔ اس کے بر عکس آثار و قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شکست خوردہ شکر ادھر آنکلا اور جب وہ تعاقب کرنے والوں کے نرغے میں آئے تو انہوں نے اپنی متاع کو دشمن کے ہاتھ سےبچانے کے لیے کنوئیں میں پھینک دیا۔عبد المطلب نے ایک طلائی ہرن توڑ کر اس کے سونے سے کعبہ شریف کے دروازوں پر پتریاں چڑھا دیں۔ دوسرا ہرن نمائش کے لیے کعبہ شریف میں رکھا گیا ۔ حج کے دنوں میں اور ان کے بعد حجاج اور زائرین کو پانی پلانا ہر دور میں عزت کا باعث سم سمجھا جاتا رہا ہے ۔ قریش نے پانی پلانے کی خدمت کے لیے ” السقایا“ کا شعبہ قائم کیا تھا جس کی یاد گار لفظ سقہ اردو میں میں پانی لانے اور پلانے والوں کے لیے موجود ہے۔ ۹۰۹ء میں زمزم کے کنوئیں کا پانی طوفان کی صورت میں ابلنے لگا اور اتنا پانی نکلا کہ آس پاس کی آبادیاں ڈوب گئیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اس حادثہ میں سینکڑوں حاجی ڈ وب گئے
مسجد الحرام کی عمارت کی تاریخ میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
خير الماء على وجه الارض ماء زمزم . (ابن حبان طبرانی) یہ ایک ایسا ارشاد گرامی ہے جس سے بہتر کوئی بات نہیں کی جاسکتی ۔ بلکہ خیر سے مطلب مبارک اور بھلائی کا ذریعہ بھی ہو سکتا ہےاس کرہ ارض پر سب سے بہترین ، مفید اور عمدہ پانی زمزم کا ہے۔“اور جو کچھ اس پانی میں یا جتنا کچھ اس میں ہے وہ کسی اور پانی میں نہیں ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ” رحم الله ام اسماعيل لو تركت زمزم . اوقال لو لم تغرف من الماء لكانت زم زم عيناً معيناً .ترجمہ: اللہ تعالیٰ اسماعیل علیہ السلام کی والدہ پر رحم فرمائے کہ اگر وہ زم زم کے پانی کو ویسے چھوڑ دیتیں یا اس کے ارد گرد دیوار یا منڈیر نہ بناتیں تو زم زم ایک ز بردست نہر کی صورت اختیار کر لیتا۔“ان کی مراد یہ ہے کہ زم زم کا کنواں نہ ہوتا بلکہ یہ ایک دریا ہوتا جو پورے عرب کو سیراب کر دیتا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :ماء زمزم شرب له . ان شربته تستشفى به شفاك الله وان شربته يشبعك ، اشبعك الله به وان شربته لقطع ظماک قطعه الله وهي هزمة جبريل و سقيا الله لاسماعيل . ( دوار قطى )
ترجمہ : ” زم زم کا پانی جس غرض سے بھی پیا جائے اس کے لیے مفید ہوگا ۔ اگرکےشفا کی غرض سے پیا جائے تو اللہ تمہیں شفا دے گا ۔ اگر پیاس کے لیے پیو گے تو اللہ اس سے تسلی دے گا اور اگر سیراب ہونے کے لیے پیو گے تو اللہ تمہیں سیراب کرے گا ۔ یہ حضرت جبرائیل کا کنواں ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کاپیاؤ ہے۔“
یہی روایت مستدرک حاکم میں انہی سے اس اضافہ کے ساتھ ملتی ہے۔وان شربته مستعيذ اعاذك الله … حاکم کے اضافہ میں آیا اور اگر تم اللہ سے کسی سلسلہ میں پناہ لینے کے لیے پیو گے تو اللہ تمہیں پناہ دے گا
عبد اللہ بن مبارک رحمتہ اللہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب انہوں نے حج کیا اور آب زم زم پر آئے تو یوں دعا کی :اے پروردگار ! ابن الموالی کو محمد بن المنکد رنے بتایا اور انہوں نے جابر رضی اللہ بن عبد اللہ سے سنا کہ تمہارے پیغمبر نے کہا ہے کہ زم زم کا پانی جس غرض سے پیا جائے گا ، مفید ہوگا ۔ میں سے ان اصحاب رضی اللہ عنہما کے کہنے پر پی کر تیری رحمت کاطلب گار ہوں ۔
ابن الموالی علم الحدیث میں اہم مقام رکھتے ہیں اور ان کی روایت ہمیشہ معتر کبھی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زم زم کا پانی باعث شفا ہے۔
ابن القیم رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے کہ زم زم پینےسے پیٹ میں پانی کا مریض شفایاب ہوا ۔ میرا چشم دید واقعہ ہے کہ اس کے علاوہ بڑی اذیت ناک بیماریوں کے مریض اللہ کے فضل سے زم زم پی کر شفا یاب ہوئے ۔ ہم نے
ایک شخص کو دیکھا، جو سارا دن چلتا پھرتا اور طواف کرتا تھا۔ آب زم زم کے علاوہ نہ کچھ کھاتا تھا نہ پیتا تھا۔ اسے نہ بھوک تنگ کرتی تھی اور نہ پیاس اور وہ اسی طرح آدھ مہینہ یا کچھ دن زیادہ زم زم پی کر شفا یاب ہوا۔امام ضحاک بن مزاحم کہتے ہیں کہ یہ سر درد کو دور کرتا ہے ۔ زم زم کے کنویں میں جھانکنے سے نظر تیز ہوتی ہے۔ مشہور فقیہ علامہ مفتی ابو بکر بن منصور اسمی نے استقاءکے مرض میں شفاء کی غرض سے زم زم پیا تو صحت یاب ہو گئے ۔
حضرت ابن قیم لکھتے ہیں کہ ایک آدمی کو دیکھا جس نے چودہ دن صرف آب زم زم پیا ۔ کھانا نہیں کھایا اور اس کی قوت میں ضعف قطعا نہ آیا ۔ زمزم کے فوائد کثیر اس قدر ہیں کہ تحریر میں نہیں لائے جا سکتے ۔ وہی اس کے فوائد سے مستفیض ہو سکتا ہے جوقوت ایمانی سے اس پانی کو استعمال کرتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں :سقيت النبي صلى الله عليه وسلم من ماء زمزم . فشرب وهو
قائم . ( بخاری مسلم ۔ ابن ماجہ النسائی )ترجمہ: “میں نے نبی ﷺ کو زم زم کا پانی پلایا اور انہوں نے کھڑے ہو کر پیا۔“
حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے دستور کے بارے میں انہی سے مذکور ہے :انها كانت تحمل ماء زمزم وتخبر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحمله (ترمذى)ترجمہ : ” وہ زم زم اپنے ہمراہ لے جایا کرتی تھیں اور بتاتی تھیں کہ رسول اللہ بھی اسی طرح لے جایا کرتے تھے ۔“
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا سب سے پسندیدہ مشروب ٹھنڈا اور میٹھا پانی تھا۔آب زم زم میں یہ دونوں خصوصیات درجہ اتم پائی جاتی ہیں آب زم زم نہایت شفاف، خوش ذائقہ ، ٹھنڈا اور مطہر ہے۔حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے بھی زم زم کے فوائد کا خلاصہ ان الفاظ میں مروی ہے :ماء زمزم لما شرب له . (ابن ماجه )ترجمہ : “رم زم کا پانی جس غرض سے بھی پیا جائے ، مفید ہے
حقیقت یہ ہے کہ آب زم زم اللہ کریم کا ایک زندہ جاوید معجزہ ہے اور اس پر جب بھی اور جتنی بھی تحقیق کی جائے کم ہے کیونکہ ہر مرتبہ انسان پر نئے راز آشکار ہوتے ہیں اورمزید روشن پہلو انسان کی عقل کو خیرہ کرتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں : آب زم زم کا کنواں آج تک خشک نہیں ہوا اور اس نے ہمیشہ لاکھوں حجاج کرام اور زائرین کی پیاس بجھائی ہے۔اس میں موجود نمکیات کی مقدار ہمیشہ یکساں رہتی ہے۔ اس کے ذائقے میں آج تک کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی بلکہ روز اول سے آج تک اس کا وہی ذائقہ ہے۔آب زم زم کی شفا بخشی کسی سے پوشیدہ نہیں بلکہ اپنے اور غیر بھی اس کے معترف ہیں۔آب زم زم وسیع پیمانے پر مکہ اور گردو نواح میں استعمال کیا جاتا ہے بلکہ رمضان شریف میں تو مسجد نبوی میں بھی آب زم زم ہی مہیا کیا جاتا ہے اس کے علاوہ دنیا بھر سے آنے والے زائرین حج اور عمرہ کے وقت اپنے ساتھ آب زم زم کے چھوٹے بڑ ےلاکھوں کین بھر کر لے جاتے ہیں ۔آب زم زم اپنی اصلی حالت میں فراہم کیا جاتا ہے اور اس میں کلورین سمیت کسی بھی قسم کے جراثیم کش کیمیکل کی آمیزش نہیں کی جاتی لیکن اس کے باوجود یہ پینے کےلیے سب سے بہترین مشروب ہے۔دوسرے کنوؤں میں کائی جم جاتی ہے یا دیگر نباتاتی اور حیاتیاتی افزائش ہوتی ہے اورانواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں اور پودے اگ آتے ہیں یا کئی قسم کے حشرات بستے ہیں جس سے پانی کا رنگ اور ذائقہ متاثر ہوتا ہے مگر آب زم زم دنیا کا واحد پانی ہے جو کہ کسی بھی قسم کی نباتاتی یا حیاتیاتی افزائش اور آلائش سے پاک صاف ہے۔ ہزاروں برس پہلے نوزائیدہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایڑیاں رگڑنے سے جاری ہونے والا یہ چشمہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کی پیاس بجھانے کے باوجود آج بھی پہلے دن کی طرح پینے والوں کو حیات بخشتا ہے یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک ایسی نعمت ہے جس پر مکہ شریف اور اہل مکہ ہمیشہ بجا طور پر نازاں و شاداں رہیں گے۔
جدید طبی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ آب زمزم میں ایسے اجزاء ، معدنیات اورنمکیات موجود ہیں جو انسان کی غذائی اور طبی ضروریات کو بڑے اچھے طریقے سے پورا کر تےہیں۔ حکومت سعودی عرب نے اس بات کا اہتمام کر رکھا ہے کہ ہر چار گھنٹے بعد زم زم کے پانی کا جدید ترین لیبارٹریوں میں ہر لحاظ سے معائنہ کیا جاتا ہے ۔ ان تحقیقات کے نتیجے میں آب زمزم کے بارے میں بے شمار انکشافات ہو رہے ہیں۔
آب زمزم کی کیمیائی تحقیقات اور طبی مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ اس میں وہ اجزاءشامل ہیں جو معدہ ، جگر ، آنتوں اور گردوں کے لیے بالخصوص مفید ہیں ۔
پچھلے چند سالوں میں برطانیہ کے غیر مسلم حلقوں میں آب زم زم کے فوائد کے چرچے عام ہونے لگے تھے ۔ جو بھی مسلمان حج اور عمرہ کی سعادت کے لیے سعودی عرب جانے لگتا تو اس کے انگریز واقف کار اسے ان کے لیے آب زم زم لانے کی تاکید کرتے ۔ سکھ لوگ تو آب زم زم کے شیدائی بنتے جا رہے تھے ۔ یہ صورتحال برطانوی ذرائع ابلاغ کو اپنی غلامی میں لیتے ہوئے یہودیوں کے لیے نا قابلِ برداشت تھی چنانچہ ایک شر پسند اور اسلام دشمن جرنلسٹ نے برطانیہ کے مشہور قومی اخبار دی گارڈین میں پورے صفحہ پر محیط ایک نام نہاد تحقیقی رپورٹ شائع کر دی جس میں اس نے آب زم زم کے خلاف ہرزہ سرائی اور غلط مفروضوں کے طومار باندھ دیئے ۔ اس نے آب زم زم کو مضر صحت قرار دیتے ہوئے برطانوی وزارت صحت کو یہ مصائب مشورہ دیا کہ وہ برطانیہ میں آب زم زم لانے پر پابندی عائد کر دے ۔ اس رپورٹ کے بارے میں مسلمان اور خاص کر پاکستانیوں نے شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ۔ مسلمانوں کے غیر معمولی احتجاج کی روشنی میں برطانوی وزارت صحت نے آب زم زم کا نو ٹنگھم یونیورسٹی کے اشیائے خوردنوش کے شعبے میں تعینات میڈیکل سائنس دانوں سے تجزیہ کروایا تو یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ عالم اسلام کے لیے خدا کا آب زم زم کا تحفہ صحت کے لیے بہترین ٹانک ہے اور اس طرح دشمنان اسلام کی یہ سازش ناکام ہوگئی ہم لاکھ غیر مسلمانوں پر بھروسہ کریں ، ان پر اپنی محبتیں نچھاور کریں اور ان کی دوستی پر نازاں ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی اقوام مسلمانوں کی کبھی خیر خواہ نہیں ہو سکتیں ۔ اپنا مقصد حاصل کر کے وہ فوراً آنکھیں پھیر لیتی ہیں ۔ پاکستان کو مغربی دنیا کی بے اعتنائی اور طوطاچشمی کا خاصا تجربہ ہے
۱۹۷۱ ء کی بات ہے جب ایک مصری ڈاکٹر نے یورپ کے اخبارات میں ایک مراسلہ چھپوایا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ آب زمزم مضر صحت ہے اس لیے یہ ہرگز پینے کے لائق نہیں ہے ۔ مصری ڈاکٹر نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ خانہ کعبہ ایک ایسی سطح پرواقع ہے جو سطح سمندر سے نیچے ہے اور چونکہ چاہ زمزم شہر مکہ کے عین وسط میں واقع ہےاس لیے شہر کا تمام گندہ پانی چاہ زم زم میں جمع ہو جاتا ہے۔ مصری ڈاکٹر کی ہرزہ سرائی جیسے ہی شاہ فیصل کے کانوں تک پہنچی انہیں شدید طیش آیا اور انہوں نے اس یاوہ گوئی کو اپنے انجام تک پہنچانے کے لیے متعلقہ حکام کو ضروری کارروائی کرنے کے احکام صادر کئے ۔ مزید برآں شاہ فیصل نے وزارت ، زراعت و آب رسائی کو حکم دیا کہ آب زم زم کے نمونے تمام یورپی تجربہ گاہوں کو ارسال کئےجائیں۔ان دنوں میں جدہ میں بطور کیمیکل انجینئر تعینات تھا دوسرے انجینئروں کے ساتھ مل کر ہم سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے والے پلانٹ میں کام کر رہے تھے چونکہ یہ پلانٹ انتہائی جدید مشینری پر مشتمل تھا اور اس کی کارکردگی شہرہ آفاق تھی اس لیے وزارت زراعت و آب رسانی نے مجھے یہ ہدایت جاری کی کہ آب زم زم کے قابل استعمال ہونے یا نہ ہونے کے لیے جملہ امور کی نگرانی کروں اور اس ضمن میں ہر ممکن کارروائی اندرون ملک و بیرون ملک سرانجام دوں ۔ہدایات ملتے ہی میں جدہ سے مکہ معظمہ پہنچا اور خانہ کعبہ کے منتظمین سے رجوع کیا انہوں نے فی الفور مجھے ہر قسم کی اعانت فراہم کی تاکہ میں کسی دقت کے بغیر اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہو سکوں ۔ چاہ زم زم کے سرسری جائزے نے مجھے ایک ایک عجیب و غریب استعجاب میں مبتلا کر دیا ۔ میری عقل یہ باور کرنے پر تیار نہ تھی کہ یہ کچھ فٹ کا مختصر سا تالاب صدیوں سے کس طرح لاکھوں گیلن پانی حجاج کرام اور زائرین کو مہیا کر رہا ہے۔میں نے اپنی تحقیقات کا آغاز کیا اور چاہ زمزم کی پیمائش شروع کی سب سے پہلے میں نے اس کی گہرائی معلوم کرنا چاہی چنانچہ میں نے اپنے ایک مددگار کو کنویں میں اترنے کے لیے کہا۔ اس نے پہلے تو پاک پانی سے غسل کیا اور پھر وہ کنویں میں اتر گیا اور تہ میں جا کھڑا ہو گیا پانی کی سطح تقریباً اس کے کندھوں کے برابر جب کہ اس کا قدکےپانچ فٹ ۱۸ انچ تھا اب میری ہدایت کے مطابق اس شخص نے چاہ زم زم کی سطح پر قدم بہ قدم چلنا شروع کیا اور یوں اس نے کنویں کی تمام دیواروں کا احاطہ کر لیا۔ اس نے بتایا کہ کنویں کی دیواروں سے پانی نہیں رس رہا یوں ثابت ہوا کہ پانی کا منبع چاہ زم زم کے اندر ہی کہیں واقع ہے اس کے بعد زیر تحقیق کے لیے میں نے حکم دیا کہ نکاسی آب کے لیے چاہ زمزم میں جو بڑے بڑے ٹرانسفر پائپ لگائے گئے ہیں وہ تمام بیک وقت چلا دیئے جائیں تا کہ کسی طرح چاہ زمزم میں موجود پانی مکمل طور پر ایک حد تک خارج کر دیا جائے اور اس طرح پانی کا منبع دریافت ہو سکے یہ پمپ ایک سیکنڈ میں کئی ہزار گیلن آب زم زم کا اخراج عمل میں لا سکتے ہیں لیکن میرے تعجب کی انتہا نہ رہی جب ہم سب نے یہ دیکھا کہ پانی کی سطح میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی یعنی جس تیزی سے پانی کا اخراج ہو رہا تھا اسی تیزی سے زیر زمین ذخیره آب پانی کی کمی پوری کر رہا تھا میں نے اپنے مددگار سے کہا کہ اب وہ ایک ہی جگہ جم کر کھڑا ر ہے اور کسی تبدیلی کے بارے میں مشاہدہ کرے۔ تھوڑی دیر بعد اس نے چلا کر کہا ” الحمد اللہ مجھے منبع آب کا سراغ مل گیا ہے ۔ اس نے بتایا کہ اس کے قدموں کے نیچے ریت اچھل رہی تھی جسے زیر زمین پانی اوپر دھکیل رہا تھا اب اس نے قدم بہ قدم چاہ زم زم میں کھڑے ہو کر مزید مشاہدہ کیا کہ ہر جگہ سے ایک ہی دباؤ سے بانی کا اخراج ہو رہا تھا جس کی وجہ سے چاہ زم زم میں سطح آب برقرارتھی ۔
اپنے مشاہدات کی تکمیل کے بعد میں نے مختلف اوقات میں آب زم زم کے کئی نمونے جمع کئے تاکہ انہیں تجزیئے کے لیے یورپ کی لیبارٹریوں کو روانہ کروں خانہ کعبہ سے رخصتی سے قبل میں نے حکام مکہ سے دوسرے کنوؤں کے بارے میں استفسار کیا جو چاہ زم زم کے قرب و جوار میں واقع تھے مجھے بتایا گیا کہ خشک سالی کی وجہ سے تمام کنویں تقریبا خشک ہو چکے تھے اور ان سے پانی کی مقدار میں نکاسی ممکن نہ تھی ۔ جدہ پہنچ کر میں نے اپنے افسر اعلیٰ کو اپنے مشاہدات سے آگاہ کیا اس نے اگرچہ میری باتیں بہت غور سے سنیں لیکن آخر میں اس نے عجیب یاوہ گوئی کی کہ عین ممکن ہے کہ بحیرہ احمر جو مکہ معظمہ سے صرف ۷۵ کلو میٹر دور واقع ہے چاہ زم زم کو پانی فراہم کرہا ہو بحر حال اس کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں تھا کہ چاہ زم زم تو بحیرہ احمر سے ۷۵ کلو میٹر دور ہونے کے باوجود پانی سے لبریز ہے جب کہ بے شمار کنویں جو بہت کم فاصلے پر واقع تھے قطعی طور پر خشک پڑے تھے۔
یور پی لیبارٹری اور ہماری اپنی تجربہ گاہ میں آب زم زم کے جو نمونے ٹیسٹ کئےگئے ان کے نتائج میں کوئی خاص فرق نہ تھا آب زم زم اور مکہ معظمہ کےدوسرے کنوؤں سے حاصل کردہ پانی میں نمایاں فرق پایا گیا کہ آب زم زم میں کیلشیم اور میگنیشیم کے نمکیات کی مقدار زیادہ پائی گئی ۔ شاید اسی لیے آب زم زم نوش کرنے والے حجاج کرام اور زائرین بہت جلد اپنی تھکن پر قابو پالیتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ زم زم کا ایک ہی گھونٹ حیات نو بخشا ہے مزید بر آن آب زم زم میں موجود فلورائیڈ کی مناسب مقدار جراثیم کش ہے اسی لیے حج کے ایام میں لوگ وبائی امراض سے محفوظ رہتے ہیں
بفضلہ تعالیٰ ۔یور پی لیبارٹریوں نے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ آب زم زم پینے کے لیے بہترین اور محفوظ ترین مشروب ہے اس تصدیق سے شاہ فیصل کو بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نےہدایت جاری کی کہ بطور خاص اس امر کی تشہیر یورپی اخبارات اور جرائد میں کی جائے ۔آب زم زم کا کیمیائی تجزیہ نمایاں طور پر یورپی اخبارات میں شائع کیا گیا حقیقت یہ ہے کہ آب زم زم پر جتنی بھی تحقیق اور ریسرچ کی جائے کم ہے اس لیے کہ ہر مرتبہ اس کاایک اور گوشہ اور روشن پہلو نمودار ہوتا ہے
الصاحب المصری کہتے ہیں کہ میں نے آب زم زم کا وزن مکہ کے ایک چشمہ کے پانی سے کیا تو میں نے زم زم کو اس سے ایک چوتھا حصہ وزنی پایا ۔ پھر میں نےمیزان طب کے حساب سے دیکھا تو اس کو تمام پانیوں سے طبی اور شرعی لحاظ سے افضل پایا
حضرت ابوذرغفاری رضہ اللہ جب اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں اول اول مکہ میں تشریف لائے تو بیان فرماتے ہیں کہ ایک مہینے تک میرا کھانا سوائے زم زم کے کچھ نہ تھا۔ میں موٹا ہو گیا اور میر ے پیٹ میں موٹاپے کی وجہ سے سلوٹیں پڑ گئیں اور میں نے اپنے کلیجے میں بھوک کی ناتوانی نہیں پائی ۔ ( صحیح مسلم ) حضرت عبداللہ ابن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ آب زم زم ہم لوگوں کے لیے عیالداری کا بڑا اچھا ذریعہ تھا۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیماری میں بھی موجود ہے کہ وہ چالیس دن کھائے پیے بغیر کعبہ شریف سے لگے صرف زم زم کے پانی پر گزارا کرتے رہے جس پر نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ کھانا بھی ہے اور پینا بھی اور سب سے بڑھ کر یہ طبیعت کوبحال کرتا ہے۔نبیﷺ زم زم کے پانی کو برتنوں اور مشکیزوں میں بھر کر لے جاتے اور بیماروں پر چھڑکتے اور ان کو پلاتے ۔ لہذا معلوم ہوا کہ یہ پانی بخار کی حرارت کو ٹھنڈا کرتاہے۔ مریضوں پر چھڑکنا اور ان کو ہلا نا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
امام ابن علی فاسی نے آب زم زم کے 37 نام ذکر کئے ہیں جن میں شفاء سقم بیماری سے شفاء ) بھی شامل ہے ۔
آب زم زم کا ایک نام ظبیہ بھی آیا ہے جس کے معنی ہرنی کے ہیں ۔ جس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ الظبی کا مطلب ہے ہرن نر یا مادہ۔ صحت جسم کے متعلق عرب کا قول ہے برداء الظبی ، یعنی اسے کوئی مرض نہیں اس لیے کہ ہرن کو سوائے مرض الموت کے کوئی اور بیماری نہیں ہوتی ۔ زمزم میں شفاء کا ہونا نص ونجر بہ دونوں سے ثابت ہے گو یا آب زمزم ظبیہ ہے کہ ہرنی کو کوئی بیماری نہیں ایسے ہی زم زم پینے والے کو کوئی بیماری نہیں ہوتی ۔صحن کعبہ شریف میں واقع اس کنویں کا پانی اگر پیاس بجھاتا ہے تو پیٹ بھرنے سے یہ بھوک کا احساس بھی ختم کر دیتا ہے۔ جلا، یہ قلب کا سامان کرتا ہے تو بیماروں کو شفا بھی عطا کرتا ہے۔ اپاہج اسے پی کر نجات پا جاتے ہیں
مفتی عبدالرحمن خان ، ملتان والے فوت ہو چکے ہیں ۔ ان کی بیگم کو 1950 میں تپ دق ہو گئی ۔ ان کو ایک اللہ والے نے بتایا کہ پریشان نہ ہو، علاج بالقرآن کرو، خالص شہد منگوا رکھو ۔ ایک گلاس آب زم زم یا آب باران یا تازہ پانی لے کر اس میں شہد ملا ؤ صبح گیارہ دفعہ سورۃ فاتحہ پڑھ کر اس پر دم کرو اور تمام دن تھوڑا تھوڑا بطور دواپلاؤ انشاء اللہ بیماری ختم ہو جائے گی ۔ انہوں نے کسی ڈاکٹر سے علاج نہیں کروایا ۔ یہی نسخہ پورے اعتقاد اور بھروسے ے سے استعمال کیا اور وہ مریضہ صحت یاب ہو گئی
ایک ملاقات میں سلطان کے خادم نے آب زم زم کا ایک گلاس مسٹر چرچل کو پیش کیا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے چرچل نے لکھا ہے : سلطان کے خادم نے مجھے آب زم زم کا ایک گلاس پیش کیا جو اتنا شیر یں اور لذیذ تھا کہ میں نے زندگی میں ایسا پانی کبھی نہیں پیا۔ ماہنامہ ” پیام دہلی ، ہفت روز و الهام بہاولپور )
حرم شریف کے ایک خادم نے ہمیں بتایا کہ اس نے کینسر کے ایک مریض کو دیکھا جوجان بلب تھا لوگ اسے اٹھا کر نماز کے وقت مسجد میں لاتے تھے وہ روزانہ زم زم کا پانی پیتا اور اسی پانی کو اپنی رسولیوں پر ڈال کر دن بھر کے لیے مزید پانی ہمراہ لے جاتا ۔ چنددن بعد وہ شخص اپنے پیروں سے چل کر آنا شروع ہوا اور پھر پوری طرح تندرست ہوگیا۔
ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ذیابطیس (شوگر) کا جو بھی مریض حج کرنے گیا اور اس نے با قاعدگی سے زم زم پیا۔ اس کے خون اور پیشاب سے شکر ختم ہوگئی جتنی دیر وہ حجاز مقدس میں رہے ان کو انسولین لینے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی ۔ اس قسم کا ہمارا مشاہدہ بلڈ پریشر کے بارے میں ہے حج کے دوران بلڈ پریشر کے کسی مریض کو کبھی کسی دوائی کی ضرورت نہیں پڑی زم زم پینے کے بعد پیٹ کی گرانی فورا ختم ہو جاتی ہے تیزابیت جاتی رہی ہے اور بھوک باقاعدگی سے لگنے لگتی ہے با قاعدگی سے زم زم پینے کے بعد حافظہ بہتر ہو جاتا ہے۔ زم زم کے فوائد کسی عقیدہ یا ایمان کی بات نہیں ، جو بھی یقین کے ساتھ اسے پیتا ہے اپنا مطلب پالیتا ہے
روزنامہ الندوہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ حال ہی میں انگلستان سے بغرض عمرہ آنے والے معذور افراد میں سے تین معذور لڑکیاں اور ایک معذور شخص آب زم زم پی کر صحت یاب ہو گئے ۔ ابو الاعلیٰ ٹورسٹ ایجنسی نے لندن کے معذوروں کے ایک اسکول کے ۳۰ اپاہج بچوں کے دورہ سعودی عرب کا اہتمام کیا تھا۔ ان میں ۹ ساله ریحانہ محمد اعظم ، ۱۰ سالہ رضیہ اور ۱۲ ساله ارم فاروق نامی تین لڑکیاں بھی شامل تھیں ۔ ان کے علاوہ ۶۰ سالہ احمد دین بھی معذوری کی زندگی سے نجات پاگئے ۔ یہ چاروں پاکستانی نژاد برطانوی ہیں ۔ریحانہ کے والد انجینئر محمد اعظم نے روتے ہوئے بتایا کہ ریحانہ پیدائشی طور پر ایک بالکل معذور بچی تھی ۔ اس کے دونوں ہاتھ اور پاؤں بے حرکت تھے ۔ خاص طور پر وہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں تک کو حرکت نہیں دے سکتی تھی ۔ خوشی کے آنسو بہاتے ہوئے محمد اعظم نے بتایا کہ انہوں نے لندن کا کوئی دواخانہ ، ہسپتال اور ماہر خصوصی نہیں چھوڑا ۔ سب نے اس بچی کے علاج سے مایوسی کا اظہار کیا ۔ بالآخر انہوں نے بھی اسے اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کر لیا۔
ریحانہ کے والد مذکورہ دورے میں اس کے ساتھ سب سے پہلے روضہ رسول اللہ پر پہنچے ۔ یہاں پہنچتے ہی انہوں نے اپنی معذور بچی کی نفسیاتی کیفیت میں ایک نمایاں تبدیلی کا مشاہدہ کیا ۔ وہ بے حد خوش اور پر امید نظر آنے لگی ۔ مکہ مکرمہ پہنچ کر حرم کعبہ میں حاضری کے لیے وہ خاصی بے چین تھی ۔مکہ مکرمہ پہنچ کر ان سب نے عمرہ ادا کیا اور پھر خوب آب زم زم پی کر اپنے ہوٹل آگئے ۔ ریحانہ کے والدہ نے ہوٹل آتے ہی اپنی لڑکی کی صحت میں نمایاں بہتری محسوس کی ۔ چنانچہ عمرے کے اگلے ہی روز انہوں نے دیکھا کہ ریحانہ اس مرتبہ انگلیوں کو حرکت دینے کے قابل ہوگئی ہے۔ انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ شائد کوئی خواب دیکھ رہے تھے ۔ انہوں نے بہت غور سے اپنی بیٹی کی انگلیوں کو دیکھا ۔ وہ واقعی انہیں حرکت دے رہی تھی ۔ یہ دیکھ کر وہ رب کعبہ کے سامنے سر بسجود ہو گئے ۔ دوسری لڑکی رضیہ کی بائیں آنکھ بے کار تھی، لیکن عمرے کی ادائیگی کے بعد اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنی معذور آنکھ سے دیکھ سکتی ہے۔ اس نے یہ بات اپنے والدین کو نہیں بتائی ۔ اگلے روز اس کی بینائی میں مزید اضافہ ہوا اور وہ زیادہ بہتر دیکھنے لگی ۔ آخراس نے اپنے والدین کو یہ خوشخبری سنادی۔ ارم فاروق ٹھیک طور پر بول نہیں سکتی تھی ۔ اس کی زبان اس کا ساتھ نہیں دیتی تھی ۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد بھی اس کے لیے زبان سے دعا ئیں وغیرہ ادا کرنا بہت مشکل تھا لیکن اس کی ادائیگی کے بعد روانی سے بولنے لگی ۔۲۰ ساله احمد دین عمرہ ادا کرنے پہلے اپنے دائیں ہاتھ کو حرکت دینے سے قاصر تھے، لیکن طواف و عمرہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے خوب آب زم زم پیا توان کے دائیں ہاتھ میں حرکت آگئی۔ لندن سے عمرہ ادا کر نے کے لیے آنے والے ان معذوروں کے ساتھ آئے ہوئے ماہر نفسیات ڈاکٹر اے۔ اے۔ خان کے مطابق اللہ کی قدرت کے ان کرشموں پر وہ خود حیران ہیں تاہم ایک مسلمان کی حیثیت سے وہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔ سائنس بے شک بہت ترقی کر گئی ہے لیکن وہ قدرت الہی اور تبدیلی تقدیر کی کوئی وضاحت نہیں کر سکتی
ورلڈ ایسوسی ایشن آف مسلم یوتھ کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف نے نبی اکرم ﷺ کی یہی حدیث دہرائی کہ ( آب ) زم زم جس مقصد کے لیے پیا جائے وہ پورا ہوتا ہے اور اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں
اسلامی ملک مراکش کی ایک نوجوان خاتون لیلی ہے ، جسے اللہ نے حسن و جمال ، رعنائی و زیبائی ، مال و دولت ، خاوند اور اولا د غرض ہر نعمت سے نواز رکھا ہے۔ خاوند کا پیشہ تجارت ، نادیہ اور کریم ان کے دو بچے ہیں بڑے ہی خوبصورت اور پیارے ہیں ۔ لیلی کی زندگی بڑے عیش و نشاط سے گزر رہی تھی ، گانے بجانے ، موسیقی سے شغل کرنے اور آرائش و زیبائش کرتے رہنے کے سوا اسے گویا اور کوئی کام ہی نہیں تھا ، دنیوی مشاغل اور عیش و عشرت میں اس قدر منہمک تھی کہ اللہ کا نام بھی کبھی اس کی زبان پر نہ آیا تھا ، پچھلے موسم گرما میں جب یہ اپنے خاوند اور بچوں کے ہمراہ ساحل سمندر پر سیر و تفریح کے لیے گئی تو واپسی پر اس نے اپنے بائیں پستان پرسرخ سرخ رنگ کے نشان دیکھے جو آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور پستان سرخ انار کی صورت اختیار کر گیا اس سے سیاہ رنگ کا گرم گرم سا مواد بھی رہنے لگا اور پھر اس میں نہایت ہی شدید درد و کرب کی ٹیسیں پڑے گئیں ، ڈاکٹر کی طرف رجوع کیا گیا تو اس نے کہا کہ یہ سرطان کا شدید حملہ ہے اس کا علاج یہاں ممکن نہیں ہوگا، لہذا فورا بیلجیم یافرانس چلے جاؤ وہاں کے کینسر کے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں سے اس کا علاج کراؤ!.. لیلی اپنے خاوند کے ہمراہ فوراً بذریعہ ہوائی جہاز فرانس چلی گئی ، وہاں کینسر کے پچھ ماہر ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے اس کا طبی معائنہ کیا اور رپورٹ میں ان سب ڈاکٹروں نے بالا تفاق یہ لکھا کہ یہ مریضہ چند ہفتوں سے زیادہ کی مہمان نہیں ہے کیونکہ کینسر اس کے سارے جسم میں پھیلنا جا رہا ہے ۔ لیلی نے مسیحاؤں کی زبان سے مایوسی اور موت کی یہ بات سنی تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی ۔ حسرت و یاس کے سائے اس پر طاری ہو گئے ، آنکھوں سے آنسوؤں کی آبشاریں بہنے لگیں درد و کرب میں مزید اضافہ ہو گیا اور اسے پوری کائنات گردش کرتی دکھائی دینے لگی ۔ ڈاکٹروں کی رائے یہ بھی تھی که سرطان زدہ پستان کاٹ دیا جائے ، ورنہ سرطان میں سارا بدن مبتلا ہو جائے گا ، جس کے نتیجہ میں جسم پھول جائے گا ۔ بال بھی باقی نہ رہیں گے حتی کہ پلکوں اور ابرو کے بال بھی باقی نہ رہیں گے ۔ چنانچہ واقعی کچھ دنوں میں لیلی کے اوپر کے بدن کے حصہ گردن پر کانوں کے پیچھے اور بغلوں میں چھوٹی چھوٹی گٹھلیاں نکل آئیں جنہوں نے آہستہ آہستہ بڑھنا اور تن ہمہ کو داغ داغ شد کرنا شروع کر دیا۔ لیلی کے خاوند سے بھی اس کا یہ صورت دیکھی نہ جاتی تھی ، اس نے بڑے ہی کرب لہجے میں کہا لیلی ! اب تو کچھ شک نہیں رہا کہ تم واقعی چند دن کی مہمان ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے گھر کی زیارت کی سعادت حاصل کرنے کے لیے ہم کیوں نہ مکہ مکرمہ چلیں اور اس ذات اقدس کے باب عالی پر دستک دیں جو بے کسوں اور بے بسوں کا ملجا و ماوٹی ہے ۔ خاوند کی بات اور عمرہ سن کر لیلی کو بھی انبساط و انشراح صدر نصیب ہوا۔ چنانچہ اس کا اپنا بیان یہ ہے کہل ہم نے ہسپتال چھوڑ دیا ، سوئے حرم روانگی شروع کر دی اور پیرس کی سڑکوں پر ہی بلند آواز سے تکبیر و تحمید اور سید کا ئنات ﷺ پر درود سلام پڑھنا شروع کر دیا۔ لیلی نے مکہ میں ایک نئی دنیا دیکھی ، جہاں کی کیفیات ہی کچھ اور تھیں اور اس مقام پررک کر کھڑے ہو کر بارگاہ الہی میں فریاد شروع کی اے اللہ ! کائنات کے بادشاہ اور اپنی ساری مخلوق کو شفا بخشنے والے ! تیری ایک گنہگار بندی تیرے دربار میں حاضر ہے جو دور دراز سے چل کر آئی ہے اور سرطان جیسے نا قابل علاج مرض میں مبتلا ہے۔ تمام حکیم و ڈاکٹر اس کے علاج سے عاجز ہیں ۔ یا اللہ ! میرے دل کو اپنی محبت اور اپنے ذکر سے آباد کر دے ، ڈاکٹر عاجز و درماندہ ہیں ،. تیرے لیے تو کوئی مشکل کام نہیں تو مجھے صحت و شفا عطا فرمادے اے میرے مولا مجھےصبر و توفیق عطا فرما اور صحت و عافیت سے شاد بادفرمادے ۔لیلی نے حرم مکے کے ایک کونے میں ڈیرہ ڈال دیا ، اپنے تئیں خود کو خدا کا مہمان بنادیا اور یہاں شب و روز اسی طرح گزار نے شروع کر دیئے کبھی تو بارگاہ ایزدی میں رکوع کی حالت میں ہے اور کبھی سجدہ ریز اور کبھی غلاف کعبہ سے چمٹ کر خدا وند کریم کے حضور اپنی دعا پیش کرتی ہے اور کبھی لپک لپک کر چاہ زم زم کے قریب جاتی ہے ،اسے نوش کرتی ہے اور حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد کو یاد کرتی ہے کہ :آب زم زم جس نیت سے بھی پیا جائے مراد پوری ہو جاتی ہے ، اگر تم حصول شفا کے لیے پیو تو اللہ تعالیٰ صحت و شفاء عطا فر ما دیتے ہیں ، بھوک مٹنے کے لیے پیو تو اللہ تعالیٰ اس کو کھانے کے قائم مقام بنا دیتا ہے ، اگر پیاس بجھانے کے لیے پیو تو اللہ اسے باعث فرحت و تسکین بنادیتا ہے ۔پورے چار دن لیلی نے اسی محویت اور استغراق کے عالم میں گزار دیئے ، دن رات میں وہ صرف ایک انڈہ اور ایک روٹی کا ٹکڑا کھاتی آب زمزم خوب پیتی ، طواف ، نماز ،تلاوت اور ذکر واذکار کے علاوہ اسے کوئی کام نہ تھا ، اس کے ٹوٹے ہوئے دل سے باربار یہ آہیں نکلتیں :اے غم و فکر سے نجات دینے والے مجھے بھی اس غم سے نجات دے، اے نعمتوں کے مینہ برسانے والے مجھے بھی نعمت شفا عطا فرما۔ لیلی نے یہ دن بارگاہ الہی میں اسی انداز سے گزارے کہ بھی بیت اللہ کا طواف کر رہی ہے اور کبھی حجر اسود کو بوسہ دے رہی ہے، کبھی مقام ابراہیم پر نماز بڑھ رہی ہے اور کبھی غلاف کعبہ سے چمٹ کر آہ وفغاں کر رہی ہے ، سو سو مرتبہ درود شریف پڑھتی ، کئی کئی پارے قرآن مجید کی تلاوت کرتی ، جس سے ساری تکلیفیں اور تھکاوٹیں دور ہو جاتیں ، تو پھر سے تازہ دم ہو کر طواف نماز ، تلاوت اور ذکر اذکار شروع کر دیتی۔ لیلیٰ کا بیان ہے : بس پھر کیا تھا ، مجھے انبساط و انشراح قلب و صدر کی دولت نصیب ہو گئی رحمت الہی نے مجھے اس طرح اپنے جلو میں لے لیا کہ مجھ پر خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوگئی اور مجھے یہ احساس بھی نہ رہا کہ میں کعبہ اللہ میں موجود ہوں اور اپنی بیماری کے علاج کےلیے دربار الہی میں حاضر ہوں ۔“
واقعی رب کی رحمتیں لیلیٰ پر نازل ہونا شروع ہو گئی تھیں ۔ لیلی بیان کرتی ہے: میں نے اپنی قمیض کے اندر ہاتھ ڈالا تا کہ دیکھوں کہ سرطان کے پھوڑوں اور ان کے ورموں کی کیا حالت ہے؟ لیکن مجھے کوئی بھی پھوڑا نظر نہ آیا ور نہ کوئی ورہ محسوس ہوا ، میں نے حیرت سے اپنے ساتھ عبادت میں مصروف خواتین سے پوچھا ذرا دیکھو میری گردن اور بازوؤں پر تمہیں کوئی پھوڑا پھنسی نظر آرہی ہے سب نے کہا نہیں کچھ نہیں ۔ہمیں تو بالکل کوئی پھوڑا پھنسی نظر نہیں آرہا سب نے نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کیا ۔”
لیلی فرط مسرت سے بھاگ کر اپنے خاوند کی طرف گئی جو حرم کے کسی دوسرے کونےمیں تھا ، لیلی نے جب اپنے خادند کو یہ صورتحال بتائی تو وہ بھی فورا مسرت، سے رونے لگا تمہیں خبر ہے ڈاکٹروں نے مجھے یہ کہا تھا کہ تم صرف ۴ ہفتوں کی مہمان ہو۔ پھر لیلی اور اس کے خاوند شکر و اطمینان کے جذبات سے لبریز ہو کر بارگاہ الہی میں سجدہ ریز ہو گئے ۔لیلی اور اس کے خاوند نے چند دن مزید حرم میں حمد و شکر اور ذکر و فکر الہی میں گزارے حتی کہ فرانس جانے کا وقت قریب آگیا ، تاکہ ڈاکٹروں نے دوبارہ چیک کرنے کے لیے جو وقت دیا ہوا تھا اس کے مطابق وہاں پہنچ سکیں ۔ دوبارہ فرانس واپسی کے بعد جب ڈاکٹروں نے مریضہ کو دیکھا تو ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی ، طبی نتائج پہلے کی نسبت اس قدر زیادہ مختلف تھے کہ ایک ڈاکٹر نے پوچھا: کیا تم واقعی فلاں مریضہ ہو؟ سچ سچ بتاؤ! کیا تم واقعی وہ خاتون ہو کر نادیہ اور کریم کی ماں ہے؟ تمہارے سرطان کو کیا ہوا ؟ کچھ دن پہلے تو تمہارے بدن میں کینسر کے پھوڑے اور ورم تھے وہ کدھر گئے ..؟ لیلیٰ نے ان سب سوالات کے جواب میں صرف ایک بات کہی اللہ کی رحمت اور اس کی کرم نوازی نے میرے تمام دکھ درد دور کردیئے ہیں ۔ڈاکٹروں کی حیرت کی انتہا نہ تھی تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ از راہ احتیاط دواؤں کا استعمال بھی جاری رکھنا ، لیلیٰ کہتی ہے کہ میرا دل اطمینان ویقین کی دولت سے لبریز تھا کہ مجھے شفاء نصیب ہو گئی ہے تا ہم آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں علاج کا سلسلہ جاری رکھا ، چنانچہ وہ آج کل اپنے گھر میں اپنے خاوند اور اپنے پیارے بچوں نادیہ اور کریم کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہی ہے۔ لیلیٰ کا بیان ہے :جب میری حالت نا گفتہ بہ تھی ، سارا خون پیپ اور گندے مادوں میں تبدیل ہو
گیا اور میں نے اللہ کے گھر پر ڈیرے ڈال دیئے تھے، اس وقت بھی میرا دل اس یقین سے سرشار تھا کہ جس بیماری کے علاج سے اطبا اور ڈاکٹر عاجز آچکے ہیں ۔ اللہ تعالی اس سے شفاء عطا فرما سکتے ہیں اور اس بات پر بھی میرا ایمان تھا کہ دعا سے تقدیر بھی بدل سکتی ہے