موضوع : ۸۹
برتن میں سانس لینے کی ممانعت اور جدید سائنسی تحقیقات
برتن میں سانس لینے کی ممانعت: حفظانِ صحت کے نقطۂ نظر سے اشیائے خوردونوش کو کامل احتیاط سے رکھنا چاہیے اور اگر وہ کھلے برتن میں ہوں تو انہیں ڈھانپ دینا چاہیے تا کہ ان میں ایسے جراثیم داخل نہ ہو سکیں جو صحت انسانی کے لیے مضر ہوں۔ اسی طرح برتن میں سانس لینے سے بھی جراثیم اس میں منتقل ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ مبادا سانس لینے والا مریض ہو اور اس کے جراثیم بعد میں پینے والوں کے جسم میں بھی چلے جائیں۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
عن عبدالله ابن ابي قتادة رضى الله تعالى عنه عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اذا شرب احدكم فلا تنفس في الاناء.
( صحیح بخاری ۸۴۱:۲)
عبد اللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی پانی پیئے تو برتن میں سانس نہ لے۔“
ایک اور حدیث مبارکہ میں برتن میں سانس لینے سے منع فرمایا گیا:
عن ابن عباس رضی الله تعالى عنه، قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتنفس في الاناء او ينفخ فيه.
(جامع ترندی ۱۱:۲۰ سنن ابی داؤد، ۲: ۱۶۸)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں سانس لینے اور اس میں پھونکنے سے منع فرمایا ہے ۔
تاجدار کائنات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا معمول مبارک بھی یہی تھا کہ آپ کھانے پینے کی اشیاء میں نہ کبھی سانس لیتے اور نہ انہیں ٹھنڈا کرنے کے لیے پھونک مارتے تا کہ امت کو بھی اس کی تعلیم ہو۔
سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
لم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم ينفخ في طعام ولا شراب ولا يتنفس في الاناء
(سنن ابن ماجه : ۲۴۴)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کھانے کی چیز میں پھونک مارتے تھے اور نہ پینے کی چیز میں اور برتن میں سانس بھی نہیں لیتے تھے ۔“
ایک اور حدیث میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ :
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیتے وقت اس میں پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا بعض وقت پانی میں تنکے پڑے میں دیکھتا ہوں ۔ کیا ایسی حالت میں بھی پھونک نہ ماروں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تھوڑا سا پانی پھینک دے۔ پھر اس نے پوچھا۔ میں ایک سانس میں پینے سے سیراب نہیں ہوتا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پیالہ کومنہ سے علیحدہ کر اور پھر سانس لے ۔
( دارمی، ترندی )
طب جدید کے مطابق بھی کھانے پینے کی چیزوں میں پھونک نہیں مارنی چاہیے کیونکہ اس سے بیماری کے جراثیم اشیائے خوردونوش میں منتقل ہو سکتے ہیں جو بعد ازاں کسی دوسرے کھانے والے کو بیمار کر سکتے ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت پہلے یہ باتیں فرمادی تھیں ۔
آئیے اب منہ کے ذریعے جراثیم کی منتقلی اور برتن میں سانس لینے کے میڈیکل سائنسی نقصانات پر چند تحقیقات ملاحظہ فرمائیں :
جراثیم اور جدید میڈیکل سائنس:
جراثیم انتہائی چھوٹے زندہ اجسام ہیں جن کو خالی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا اور ان کا مشاہدہ صرف خورد بین سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ جراثیم پانی، ہوا اور مٹی میں ان گنت تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ یہ بڑی تیزی سے اپنی تعداد میں غیر جنسی تولید کے ذریعے اضافہ کرتے ہیں۔ ایک بالغ جرثومہ ۲۴ گھنٹوں میں تین سو کھرب نئے جراثیم پیدا کر لیتا ہے اور ایک نوزائیدہ جرثومہ آدھے گھنٹے میں بالغ ہو جاتا ہے۔ ہیضہ کا جرثومہ ایک دن میں۵۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ بچے پیدا کرتا ہے۔ جراثیم دوسرے جانداروں کے اجسام میں داخل ہو کر مختلف قسم کے امراض کا سبب بنتے ہیں۔
جراثیم کی دریافت:
خورد بین کی ایجاد سے جراثیم کی دریافت ممکن ہوئی اور تحقیق سے یہ پتا چلایا گیا ہے کہ یہ خورد بینی اجسام مختلف قسم کے امراض پیدا کر سکتے ہیں اور کچھ بیماریاں صرف انہی کے تندرست جانداروں کے اجسام میں منتقل ہونے سے لاحق ہوتی ہیں۔ خورد بینی اجسام پر کی گئی تحقیق کی مختصر تاریخ یوں ہے:
خورد بین کی ایجاد کے بعد ۱۶۸۷ء میں لیون ہاک نے جراثیم کا پتا چلایا۔ اس نے اور اس کے ہم عصر محققین نے جراثیم کے متعلق کچھ معلومات حاصل کیں ، لیکن اس وقت تک جراثیم اور بیماریوں کے باہمی تعلق کا علم نہ ہو سکا تھا۔
ایک سائنس دان گڈسر نے ۱۸۴۲ء میں معدے میں پائے جانے والے خورد بینی اجسام کا مشاہدہ کیا۔
ڈیوائن نے ۱۸۶۵ ء میں جرثومہ جمرہ (Anthrax) کا مشاہدہ کیا۔
لوئیس پاسچر نے پہلی مرتبہ ۱۸۶۵ء میں تفصیل سے یہ بتایا کہ جراثیم کس طرح پرورش پاتے ہیں اور کن حالات میں نشو و نما حاصل کرتے ہیں نیز تقسیم کے ذریعے ان کی افزائش کیوں کر عمل میں آتی ہے۔
جوزف لٹر نے آپریشن کے دوران ماحول کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے کاربالک ایسڈ کا استعمال کر کے سرجری کے شعبے میں انقلاب برپا کر دیا۔
کاک نے ۱۸۷۷ء میں یہ معلوم کیا کہ جمرہ پیدا کرنے والا جرثومہ کن حالات میں زندہ رہتا ہے اور کس طرح ناموافق حالات میں خود کو خول میں میں بند کر کے محفوظ حالت میں منتقل ہو جاتا ہے اس نے جراثیم کے رنگنے کا طریقہ دریافت کیا جس کے نتیجے میں جراثیم کی شناخت ممکن ہو سکی ۔ اس نے جراثیم کی ان مختلف قسموں کو تفصیل سے بیان کیا جو مختلف امراض کا سبب ہیں۔ مزید برآں اس نے جراثیم کی کاشت بھی کی ، جو امراض کے اسباب کے تعین اور اس کی تشخیص کے سلسلے میں انتہائی اہم قدم ثابت ہوا۔
فرانسیسی فوج کے ڈاکٹر لیوران نے ۱۸۸۰ء میں ملیریا کے جراثیم پلازموڈیم کا ایک مریض کے خون میں مشاہدہ کیا اس نے پلازموڈیم کے اینو فلیز مادہ کی مچھر اور انسان میں منتقلی کے عمل کا پتا چلایا۔
جراثیم کی تقسیم :
جراثیم کو مندرجہ ذیل گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
ا۔ پھپھوند
۲ خمیر پیدا کرنے والے جراثیم ۔
۳-عام مرضیاتی جراثیم
الف ۔حلقہ نما یا کرویہ
ب – عصائی
ج حلزونیه یا پیچ دار ۔
۴- ریکٹی جراثیم
۵ – ماوراء خورد بینی اجسام ۶- یک خلیاتی جانور یا پروٹوزوا
جراثیمی نظریه امراض:
جراثیم کی دریافت کے ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ثابت ہو گئی کہ جراثیم انسانی جسم میں پہنچ کر مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں۔ اس کو جراثیمی نظریہ کا نام دیا گیا۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹانیکا میں اس نظریہ کی وضاحت یوں کی گئی ہے:
طب میں یہ نظریہ کہ خاص امراض خورد بینی زندہ اجسام کے جسم پر حملہ آور ہونے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ جاندار اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ سوائے خوردبین کے دیکھے نہیں جاسکتے ۔ فرانسیسی کیمیادان اور ماہر خورد بینی حیاتیات لوئیس پاسچر، انگریز سرجن جوزف لسٹر ، اور جرمن طبیب را بٹ کاک کو اس نظریہ کی ترویج اور قبولیت کا زیادہ تر کریڈٹ دیا جاتا ہے۔“
جراثیم کے صحت مند جسم میں پہنچنے کے راستے:
مرض پیدا کرنے والے جراثیم مندرجہ ذیل راستوں سے صحت مند شخص کے جسم میں پہنچ کر بیماری کا باعث بنتے ہیں ۔
الف۔ سانس کے ذریعے کھینچی جانے والی ہوا کے ذریعے، مثلاً کالی کھانسی ، خناق،
ب۔ چیچک ، سرخ بخار وغیرہ۔ کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ مثلاً اسہال ، ہیضہ وغیرہ۔
ج۔ براہ راست اتصال، اس میں وہ تمام صورتیں داخل ہیں جن میں جراثیم براہ راست بغیر کسی واسطے کے بدن میں داخل ہو جاتے ہیں مثلاً زخم وغیرہ کے ذریعے جیسے تشنج یا حشرات کے ذریعے یا ملیریا ، انتقال خون اور جنسی تعلقات بھی جراثیم کی منتقلی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ایک بیمار انسان اپنے منہ یا ناک سے بذریعہ چھینک یا کھانسی جراثیم خارج کرتا ہے۔ تھوک کے ذریعے سے بھی بیمار شخص کے جسم سے جراثیم ماحول میں پھیلتے ہیں۔ یہ ان فضلات میں بھی پائے جاتے ہیں جو ہم پیشاب، پاخانہ یا بلغم کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ کئی ایک جراثیم کوڑے کرکٹ کے ساتھ کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں سے مختلف جانوروں کے جسم میں یا پھلوں اور سبزیوں کے اندر پہنچ جاتے ہیں ۔ اور پھر اس طرح تندرست شخص تک منتقل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہوا، پانی، غذا، سبزی وغیرہ کے ساتھ روزانہ ہزاروں لاکھوں جراثیم ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی طرح آپریشن کے وقت ہوا میں موجود سینکڑوں جراثیم بدن کے زخموں میں داخل ہوتے ہیں مگر کوئی نقصان نہیں پہنچاتے۔ اگر بیماری کے جراثیم کسی شخص کے جسم میں چلے جائیں تو ان میں بافتوں کے اندر اپنی تعداد بڑھانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ لیکن جسم کا مدافعتی نظام ان کے خلاف سرگرم ہو جاتا ہے اور اگر یہ نظام ان پر قابو پالینے میں ناکام ہو جائے اور وہ اپنی تعداد تیزی سے بڑھانے میں کامیاب ہو جائیں تو پھر بیماری کا سبب بن جاتے ہیں۔
اگر ہم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کریں اور آپ کے ارشادات کتب احادیث میں دیکھیں تو ہم خود کو جراثیم اور ان سے پھیلنے والی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں۔
کھانے یا پانی میں سانس لینا اور میڈیکل سائنس کی تحقیق:
میڈیکل تحقیقات نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ انسانی سانس میں جراثیم موجود ہوتے ہیں، پھر اسی سانس کو اگر کھانے پر ڈالیں تو یقینا کھانا جراثیم شدہ ہو جائے گا اور وہ کھانا جب پیٹ میں جائے گا تو بیماری کا سبب ہے کا مد رویسے بھی یہ حرکت قابل قبول نہیں کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کے منہ کی بدبو کی وجہ سے ان کے پاس بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے پھر ایسی سانس کیوں کر جراثیم سے خالی ہو گی ؟ دوسرے پھونک مارنے سے تھوک کے چھوٹے چھوٹے چھینٹے کھانے میں پڑیں گے ایسی حالت میں کھانا یا پانی پینا سخت ناگواری کا باعث ہے۔
پھونک مارنے سے زہریلی گیس کھانے میں شامل ہونے کا خطرہ:
آج کے جدید سائنسی دور کے ماہرین حفظانِ صحت نے جدید تحقیقات کے ذریعے یہ انکشافات کیے ہیں کہ ایک انسان کے چھینکنے سے دوسرے انسان کو فلو، نزلہ، زکام ہو جاتا ہے اور تھوکنے سے بھی جراثیم اڑ کر دوسرے شخص کو متاثر کرتے ہیں، نیز ایک دوسرے کے سانس سے بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، یہی نہیں بلکہ پانی یا کھانے کی چیز پر پھونک مارنے سے جراثیم تحلیل ہو جاتے ہیں اور یہی جراثیم صحت انسانی کے لیے مصر ہیں ، اس لیے کہ جب ہم سانس لیتے ہیں تو سانس کے ذریعہ نفس کو تازہ بہ تازہ ہوا فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی کثافت آمیز ہوا ( گیس ) کو سانس کے ذریعہ خارج کرتے ہیں ۔ یہ زہریلی جراثیم آور ہوا جس کو طبی اصطلاح میں کاربن کہتے ہیں ، اور جو انسانی تنفس میں تازہ ہوا پہنچنے کے بعد خارج ہوتی ہے، پھونک مارنے سے وہ فورا پانی یا کھانے والی چیز میں شامل ہو جاتی ہے جس سے بہت سے امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی جدید حکمت کے اصولوں پر کتنا حاوی و بھاری ہے جس کو آپ نے صدیوں پہلے بیان فرمایا۔
ہمیں چاہیے کہ پانی یا کھانے والی چیزوں پر پھونک نہ ماریں۔ پانی پینے سے پہلے پانی والے برتن کو دیکھ لیا جائے کہ اس میں کوئی تک یا کیڑا موڑ اوغیرہ تو نہیں ہے۔
نسانس کے بخارات سے متعد د امراض کا خطرہ:
سانس کا پانی میں لینا یا پانی میں پھونکنا اس لیے منع ہو کیا گیا کہ سانس تمام گندے بخارات لے کر باہر آتا ہے اور پانی میں سانس لیا جائے یا پانی میں پھونکا جائے تو ان متعفن بخارات سے پانی متاثر ہو جاتا ہے جو اندر سے باہر آتے ہیں اور اس طرح سے وہی بخارات اندر چلے جاتے ہیں جن سے حدوث امراض کا خطرہ ہے۔
انسان کے اندر آمد و رفت سانس کی گویا الہی مشین ہے جس کے ذریعہ سے گندے اور متعفن مادے ہردم باہر نکلتے ہیں اور تازہ ہوا اس کے اندر آتی رہتی ہے اور اس کے ذریعہ سے انسان کی صحت قائم رہتی ہے۔
الغرض اندر کے گندے اور متعفن بخارات اور مادے جو سانس کے ذریعہ سے باہر آتے ہیں ان کو کھانے پینے والی چیزوں میں سانس کے ذریعہ سے ڈالنا ممنوع ہوا کہ ان سے امراض پیدا ہوتے ہیں۔
منہ کی بدبو کے بھبکے شامل ہونے کا خطرہ:
قارئین کرام ! حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کی حکمت جاننے کے لیے چشم تصور میں وہ منظر لائیں کہ ایک ایسا آدمی ہے کہ جس کے منہ میں گندہ دہنی کا مرض ہے، منہ کی بدبو کی وجہ سے پاس بیٹھنا مشکل ہو۔ وہ شخص کھانے پینے کی کسی شے میں پھونک مارے یعنی بدبو کے بھبھو کے اشیاء کی طرف پھینکے یا کسی شخص کے پھونک مارتے وقت تھوک کے چھوٹے چھوٹے چھینٹے کھانے میں مل جائیں، تو کیا ایسی حالت میں کوئی شخص مذکورہ کھانا خوشی سے کھانے پر تیار ہو گا ؟ ہرگز نہیں !
جدید طبی اور سائنس تحقیق :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات عالیہ کی معنویت کا اندازہ جدید طبی سائنسی تحقیقات سے ہوتا ہے، علم منافع الاعضاء سے ثابت ہو چکا ہے کہ سانس لینے میں پھیپھڑوں کے اندر جو ہوا جاتی ہے، اس میں آکسیجن کی مقدار ۱ ۲ فیصد ، نائٹروجن کی مقدار ۷۹ فیصد اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ کر ۵ فیصد ہو جاتی ہے۔ اس اعتبار سے باہر نکلنے والی ہوا خطرے سے دو تین فیصد قریب ہو جاتی ہے۔ اسی طرح کچھ گیسیں پانی میں حل پذیر ہوتی ہیں ۔ پھونک مارنے سے وہ پانی میں حل ہو کر مصر صحت ہو سکتی ہیں۔ اس طرح ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو ہو اسانس سے باہر نکلتی ہے اس میں مرض کے اعتبار سے لاکھوں جراثیم مثلا خناق نمونیا، ٹی بی وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ پانی میں سانس لینے سے وہ پانی میں شامل ہو سکتے ہیں اور اس برتن میں کوئی شخص پانی پئے تو اس میں منتقل ہو سکتے ہیں۔