حج و عمرہ سے متعلق مسائل, ی۔دینیات

نکاح میں مہر حج یا عمرہ کروانا یا کوئی اور نیکی کا کام کروانا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ اگر نکاح میں مہر حج یا عمرہ کروانا یا کوئی اور نیکی کا کام کروانا مقرر کیا تو ایسی صورت میں نکاح اور مہر کا کیا حکم ہوگا ؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب
صورت مسئولہ کے مطابق مہر کا مال ہونا اور جو چیز مال نہیں ہے وہ مہر نہیں بن سکتی لہٰذا حج یا عمرہ کروانے کو یا کسی بھی ایسے نیک عمل کو مہر مقرر کیا جو مال نہیں ہے تو اس صورت میں مہر مثل واجب ہوگا،حج یا عمرہ وغیرہ کروانا ضروری نہیں ہوگا۔ مہر مثل سے مراد یہ ہے کہ عورت کے کے خاندان میں سے اس جیسی عورتوں کا مہر مقرر ہو جیسے اس کی بہن ، پھوپھی ، چچا کی بیٹی وغیرہ تو ایسی حساب سے ہی اس کو مہر ادا کیا جائے گا۔ رہا نکاح تو اگرچہ ایسا مہر مقرر کیا جو کہ مال نہ ہو یا بالکل مہر مقرر نہیں کیا تب بھی نکاح درست ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
﴿ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰ تُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً ﴾
ترجمہ کنز العرفان: اور ان (محرمات)عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرو، نہ کہ زنا کرنے کے لیے،توان میں سے جن عورتوں سے نکاح کرناچاہو، ان کے مقررہ مہر انہیں دے دو۔( پارہ 5، سورۃ النساء ، آیت 24)
تفسیر نسفی میں ہے
”فيه دليل على…أنه يجب وإن لم يسم وأن غير المال لا يصلح مهرا “
ترجمہ : آیت ِ مبارکہ میں اس بات پر دلیل ہےکہ نکاح میں مہر اگرچہ ذکر نہ بھی کیا جائے ، تب بھی لازم ہی ہے اور اس بات پر بھی دلیل ہےکہ جو چیز مال نہیں ، وہ مہر بننے کے قابل نہیں۔ (التفسیر النسفی، سورۃ النساء ، تحت الایۃ 24، جلد1، صفحہ348، مطبوعہ لاھور)
صراط الجنان فی تفسیر القرآن میں ہے :
” مہر کا مال ہونا ضروری ہے اور جو چیز مال نہیں ،وہ مہر نہیں بن سکتی، مثلا :ًمہر یہ ٹھہرا کہ شوہر عورت کو قرآنِ مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا، تواس صورت میں مہرِ مثل واجب ہو گا۔ “(صراط الجنان ،جلد2،صفحہ 175،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
صحیح مسلم میں ہے
”عن أبي سلمة بن عبد الرحمن أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى اللہ عليه وسلم:كم ‌كان ‌صداق ‌رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم؟ قالت: كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشا قالت: أتدري ما النش؟ قال: قلت: نصف أوقية،فتلك خمس مائة درهم فهذا صداق رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم لأزواجه‘‘
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا آپ علیہ السلام کا مہر اپنی بیویوں کے متعلق بارہ اوقیہ اور نَش تھا ،بولیں کیا تم جانتے ہو کہ نَش کیا ہے؟ میں نے کہا : نہیں ! تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا : آدھا اوقیہ،تو یہ پانچ سو درہم ہوئے ، یہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے لیے مہر تھا۔(الصحیح لمسلم ،کتاب النکاح،باب الصداق ،جلد1، صفحه 458،مطبوعه کراچی )
فتاوی ھندیہ میں ہے
”المهر إنما يصح بكل ما هو مال متقوم“
ترجمہ:مہر کے صحیح ہونے کے لئے مال متقوم ہونا ضروری ہے۔(فتاوی ھندیہ ،جلد 1، صفحہ 302، دارالفکر بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے
”(ولنا) قوله تعالى: ﴿ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾شرط سبحانه وتعالى أن يكون ‌المهر ‌مالا وقوله تعالى ﴿فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ﴾ (البقرة: 237)أمر بتنصيف المفروض في الطلاق قبل الدخول فيقتضي كون المفروض محتملا للتنصيف وهو المال “
ترجمہ :مہر کے مال ہونے کے متعلق ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرو۔ اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مہر کا مال ہونا شرط بیان فرمایا ۔ اور یہ فرمانِ باری تعالیٰ بھی دلیل ہے : ﴿فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ ﴾ اس لیے کہ اس آیت مبارکہ میں ہَم بستری سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں بیان کیے گئے مہر کا نصف لازم ہونا بیان کیا گیا ہے ، تو یہ آیت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ جو مہر مقرر کیا جائے وہ ایسا ہونا چاہیے جس میں تنصیف ہو سکتی ہو اور وہ مال ہے۔(بدا ئع الصنائع، کتاب النکاح ، جلد3، صفحہ491،مطبوعہ کوئٹہ)
ردالمختار میں ہے
”يجب مهر المثل فيما لو تزوجها على أن يعلمها القرآن أو نحوه من الطاعات ‌لأن ‌المسمى ‌ليس ‌بمال
“ترجمہ : اگر نکاح اس طور پر کیا کہ تعلیم قرآن یا کوئی اور نیکی کا کام مہر ہو گا، تو ایسی صورت میں مہر مثل لازم ہو گا ، کیونکہ جو چیز مہر کے لیے ذکر کی گئی وہ مال نہیں ۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب النکاح،باب المھر ، جلد4، صفحہ229، مطبوعہ کوئٹہ)
نہر الفائق میں ہے
” ‌اسم ‌للمال ‌الذي ‌يجب ‌في ‌عقد ‌النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد “
ترجمہ : مہر اس مال کا نام ہے، جو عقدِ نکاح میں شوہر پر ملکِ بضع (حق زوجیت ملنے)کی وجہ سے واجب ہوتا ہے ، یا تو صراحتاً ذکر کرنے سے یا عقدِ نکاح سے ہی۔(النهر الفائق شرح كنز الدقائق، کتاب النکاح ،باب المھر ،جلد 2، صفحہ 229 ، مطبوعہ دار الكتب العلمي،بیروت)
الفتاوى الهندية میں ہے
”و لو تزوج امرأة على طلاق امرأة له أخرى أو على دم عمد له عليها أو على أن يحج بها؛ كان لها مهر مثلها“
ترجمہ:اور اگر کسی عورت سے اس مہر پر نکاح کیا کہ اپنی دوسری بیوی کو طلاق دے دے گا یا مرد کا بجانب اس عورت کے جو حق قتل عمد کا ہے اس پر نکاح کیا یا کہا کہ تجھ حج پر لے جاؤں گا تو عورت مذکورہ کو مہر مثل ملے گا۔(فتاوی ھندیہ ،جلد 1، صفحہ 303، دارالفکر بیروت)
البحر الرائق میں ہے
”وأشار المصنف إلى أنه لو تزوجها على أن يحج بها وجب مهر المثل “
ترجمہ:اور مصنف نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر اس شرط پر عورت سےنکاح کیا کہ اسے حج کروائے گا تو اس صورت میں مہر مثل واجب ہوگا۔(البحر الرائق، جلد 3 ، صفحہ 168، دار الفکر بیروت)
بہارِ شریعت میں ہے:
”جو چیز مال متقوم نہیں وہ مَہرنہیں ہو سکتی اور مہر مثل واجب ہوگا، مثلاً مہر یہ ٹھہرا کہ آزاد شوہر عورت کی سال بھر تک خدمت کرے گا یا یہ کہ اسے قرآن مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا یا حج و عمرہ کرا دے گا یا مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت سے ہوا اور مہر میں خون یا شراب یا خنزیر کا ذکر آیا یا یہ کہ شوہر اپنی پہلی بی بی کو طلاق دے دے تو ان سب صورتوں میں مہرِ مثل واجب ہوگا۔ “(بہارِ شریعت، حصہ7 ،صفحہ65-66 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی )
اسی میں ہے:
”عورت کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو، وہ اُس کے لئے مہر مثل ہے ، مثلاً :اس کی بہن ، پھوپھی، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر۔ “(بہارِ شریعت، حصہ7 ،صفحہ71،مکتبۃ المدینہ کراچی )
خلاصۃ الفتاوی میں ہے
”وعقد لایتعلق بالجائز من الشرط والفاسد من الشرط لایبطلہ کالنکاح “
ترجمہ:وہ عقد کہ اس میں کوئی شرط خواہ جائز ہو یا فاسد موثر نہ ہو،جیسے نکاح (خلاصۃ الفتاوٰی، الفصل الخامس، جلد 2 ،صفحہ 349، مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ)
در مختار میں ہے
”(وكذا يجب) مهر المثل (فيما إذا لم يسم) مهرا أو نفى إن وطئ) الزوج (أو مات عنها إذا لم يتراضيا على شيء) يصلح مهرا (وإلا فذلك) الشيء“
ترجمہ: نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کردی اگر شوہر نے وطی کرلی یادونوں سے کوئی فوت ہوگیا تو مہر مثل واجب ہے بشرطیکہ بعد عقد آپس میں کوئی مہر طے نہ پاگیا ہو اور اگر طے ہوچکا تو وہی طے شدہ ہے ۔(درمختار جلد 4، صفحہ 232، دارالمعرفۃ بیروت)
فتاوی رضویہ میں ہے:
”نکاح شروط فاسدہ سے باطل نہیں ہوتابلکہ وہ خود شرطیں ہی باطل ہوجاتی ہیں، اگر اس شرط پر نکاح کیا جائے کہ مہر کچھ نہ ہوگا جب بھی مہرلازم شرعاً ہوگا مہر مثل دینا آئے گا۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 11 ،صفحہ 298 ،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
بہارشریعت میں ہے:
”نکاح میں مہر کا ذکر ہی نہ ہوا یا مہر کی نفی کر دی کہ بلا مہر نکاح کیا تو نکاح ہو جائے گا۔“ (بہار شریعت جلد 2 صفحہ 66 مکتبۃ المدینہ)
واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کتبـــــــــــــــــــــــــــہ
ممبر فقہ کورس
21 ذی القعدہ 1445ھ29 مئی 2024ء
نظر ثانی:
مفتی محمد انس رضا قادری
─── ◈☆◈ ───