اسلام اور سائنس, ی۔دینیات

رات کا سفر کرنے کی ممانعت اور جدید سائنسی تحقیقات

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے سفر کو منع فرمایا اور صبح ہوتے ہی یعنی طلوع آفتاب کے وقت سفر کی تلقین فرمائی ۔ جیسا کہ احادیث میں آتا ہے کہ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

 جہاں تک ممکن ہو تنہا سفر نہ کر و خصوصارات میں ۔ ( بخاری ) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سفر کے لیے جمعرات کا دن پسند فرمایا کرتے سفر کے لیے صبح تڑکے ہی روانہ ہو جاتے ۔ آئیے اب رات کے سفر کی نبوی ممانعت پر چند تجربات و تحقیقات ملاحظه فرمائیں:

 رات کو گاڑی چلانے کے خطرات:

اس مسئلے پر بہت سوچ بچار ہوتا رہتا ہے کہ رات کے وقت حادثات کیوں زیادہ نے ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رات کو گاڑی چلانے والے بیش تر لوگ دن بھر کی مصروفیت کی وجہ سے لازما تھکے ہوئے ہوتے ہیں اور تھکن کے غلبے کی وجہ سے عصبی نظام اور عضلات کی کارکردگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس طرح اندازہ لگایا گیا ہے کہ رات کو ڈرائیونگ کرنے والے لوگ اکثر نشے کی حالت میں ہوتے ہیں ۔ اس طرح بعض ڈرائیور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت سڑک پر ٹریفک اور خاص کر پیدل چلنے والے تقریبا نہیں ہوتے اور وہ کسی قدر بے پرواہی سے کار چلانے لگتے ہیں لیکن جو بات سب سے زیادہ لائق توجہ ہے وہ انسانی بصارت کی فعلیات سے متعلق ہے۔ یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ ایک صحت مند آدمی میں بھی رات کے وقت بصارت کا عمل کسی نہ کسی حد تک دن کے مقابلے میں کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا اہم سبب یہ ہے کہ رات کو گاڑی چلانے کے لیے روشنی کی ضروری مقدار صرف کار کی لائٹوں سے حاصل ہوتی ہے۔ سڑک کتنی ہی روشن کیوں نہ ہو ڈرائیور محض اس پر بھروسا نہیں کر سکتا اور ۔ یہ دونوں اسباب مل کر رات کے وقت ہونے والے حادثات کی تعداد میں اضافہ کر دیتے ہیں۔ 

 دن میں سورج کی روشنی چاروں طرف یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔ دن کے وقت سورج کی روشنی کی مقدار کا اندازہ دس ہزار موم بتیوں کے برابر قرار دیا گیا ہے جب کہ کار کے لیمپ سے ہونے والی روشنی اس کے مقابلے میں بہت ہی کم اور قطعا محدود ہوتی ہے۔ روشنی کی اس کمی کی وجہ سے ہمارا عصبی نظام دوسری گزرنے والی گاڑیوں اور پیدل چلنے والے لوگوں کی رفتار اور فاصلے کا صحیح تعین نہیں کر سکتا اور یہی صورت ان لوگوں کو پیش آتی ہے جو پیدل سڑک پار کر رہے ہوتے ہیں۔ در حقیقت طبعی اسباب کی وجہ سے رات کو آدمی کا میدان بصارت اور آنکھوں کی کارکردگی ہر حال میں کم ہو جاتی ہے اور غروب آفتاب کے بعد یہ ممکن نہیں ہوتا کہ پیش آنے والے خطرے کو مناسب فاصلے سے بھانپ لیا جائے ۔ دوسری گاڑیوں کی روشنی صورت حال کو زیادہ تشویش ناک بنادیتی ہے۔ چنانچہ حادثات کی روک تھام کرنے والے ذمے داروں کے خیال میں رات کو گاڑی چلانا ہی بہ ذات خود ایک مسئلہ ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ رات کے وقت گاڑی کی رفتار عام طور پر اتنی تیز ہوتی ہے کہ اگر کوئی خطرہ در پیش ہو جائے تو گاڑی کے خطرے کے مقام تک پہنچنے میں جتنا وقت لگتا ہے وہ خود کو یا کسی اور کو اس خطرے سے بچانے کے لیے نا کافی ہوتا ہے۔ 

یعنی اگر کسی گاڑی کی رفتار ۴۵ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے تو آپ گاڑی روکتے روکتے کوئی دو سوفٹ کا فاصلہ طے کر چکے ہوتے ہیں جب کہ آپ کی گاڑی کے اگلے لیمپ کی روشنی اگر معیاری ہے تو بھی یہ ۷۵ افٹ سے زیادہ آگے نہیں جاسکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کو ۴۵ کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی گاڑی اپنی ہی روشنی کو رفتار میں پیچھے چھوڑ جاتی ہے۔ اس وجہ سے ٹریفک کے قوانین نافذ کرنے والے ذمے داروں کا مشورہ ہے کہ رات کو گاڑیوں کی رفتار کم رکھنی چاہیے۔ اس کا اصول یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی خاص سڑک پر گاڑیاں دن میں جس رفتار سے چلائی جاتی ہوں ان کی رفتار رات کے وقت اس سے دس کلومیٹر کم ہونی چاہیے ۔ موٹر چلانے والوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ سڑکوں پر گاڑیوں کی جو زیادہ سے زیادہ رفتار مقرر کی جاتی ہے وہ صرف دن کی یکساں روشنی کے لحاظ سے ہے۔ اگر رات کو گاڑی چلاتے وقت ان باتوں کا خیال رکھا جائے اور چلانے والا خود اپنی یا کسی اور کی جانب سے کسی متوقع غلطی کے پیش نظر رفتار میں احتیاطا کچھ کمی کرلے تو حادثات سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ان تمام میکانکی اسباب کے ساتھ ساتھ آپ کو بصارت کی کارکردگی میں جو فرق آجاتا ہے اس کا لحاظ رکھ کر آپ اپنا سفر خود اپنے لیے اور دوسرے شہریوں کے لیے بے خطر بنا سکتے ہیں۔

اندھیرے میں آنکھوں کی کارکردگی

سورج غروب ہونے کے بعد اند تیرا جس رفتار سے بڑھتا ہے انسانی آنکھ اس سے مطابقت پیدا کرنے میں اس سے کچھ زیادہ وقت لیتی ہے۔ اندھیرا چھانے کا ابتدائی نصف گھنٹہ وہ وقت ہوتا ہے جب آنکھ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں مصروف ہوتی ہے، لیکن جب تاریک ماحول میں کسی خاص جگہ آنکھ تیز مصنوعی روشنی احساس تقریباً ختم ہو جاتا ہے اس لیے احتیاط اسی میں ہے کہ آپ آنے والی گاڑیوں کی رفتار کا جو اندازہ کر رہے ہیں اصل رفتار کو اس سے زیادہ خیال کریں اور اس طرح اپنے اور ان گاڑیوں کے درمیان جس فاصلے کا اپنے ذہن میں حساب لگا رہے ہوں، حقیقی فاصلے کو اس سے کمتر خیال کریں۔ 

رات کا سفر اور نشہ آور ادویات:

گر کی ایک اور بات یا درکھیے رات کی ڈرائیونگ در پیش ہو تو کھانا ذرا ہاتھ روک کر کھائے اور ہرقسم کی نشہ آور اور سکون بخش دواؤں سے بھی پر ہیز ضروری ہے ۔ کھانسی کے اکثر شربتوں میں غنودگی لانے والی دوائیں شامل ہوتی ہیں اوراکثر کمپنیاں شیشی پر انہیں پی کر گاڑی نہ چلانے کا مشورہ بھی درج کر دیتی ہیں۔ ان پر عمل کیجیے۔ کیوں کہ جان ہے تو جہان ہے۔

رات کا سفر اور گیلی سڑکیں:

 رات کے وقت گیلی سڑک پر گاڑی چلانے میں اور بھی احتیاط رکھنی چاہیے، کیوں کہ آپ کو اس وقت اندازہ نہیں ہوسکتا کہ سڑک پر کس جگہ پھسلن زیادہ ہے۔ بارش کی صورت میں دیکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔ آپ کی گاڑی کے ونڈ اسکرین کے وائیرز کا درست ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔

رات کا سفر اور ایک بتی کی وجہ سے حادثات:

 اندھی گاڑیاں تو بے حد خطر ناک ہوتی ہیں آپ نے دیکھا ہو گا کہ بھاری بھر کم اور اونچے پورے ٹرک کی ایک بتی سے بھی ٹرک پر موٹر سائیکل کا دھوکا ہوتا ہے اور ہمارے ہاں اس ایک بتی کے نتیجے میں جان لیوا حادثات ہوتے رہتے ہیں ۔ رات کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ہر بتی کا سوئچ وغیرہ اچھی طرح چیک کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے۔

 رات کا سفر اور آنکھوں کی تھکن

رات کے وقت ڈرائیونگ ایک بڑا صبر آزما تجربہ ہوتا ہے۔ سب تسلیم کرتے ہیں کہ رات کی ڈرائیونگ سے آنکھوں اور ذہن پر بڑا بوجھ پڑتا ہے اور ڈرائیور بہت جلد تھک جاتا ہے۔

رات کے سفر کی وجہ سے ایک عورت کا ایکسیڈنٹ:

 سڑک کے کنارے ایک نو عمر عورت بے ہوش پڑی ہے۔ قریب ہی متعدد کار والے ایک خاتون کو گھیرے کھڑے ہیں۔ وہ ان سے کہہ رہی ہے کہ بخدا میں نے اس عورت کو اس وقت تک نہیں دیکھا تھا جب تک وہ میری گاڑی کے آگے نہیں آگئی۔ اس دوران کسی نے بے ہوش پڑی ہوئی عورت پر ایک کمبل ڈال دیا اور ایک اور ڈرائیور دوڑتا ہوا پولیس کو اطلاع دینے چل دیا تا کہ ایمبولنس جلد سے جلد بھیج سکے ۔ دو ڈرائیوروں نے اپنی اپنی گاڑیاں بے ہوش عورت کے دونوں طرف اس طرح کھڑی کر دیں کہ وہ ٹریفک کی زد میں آنے سے محفوظ رہ سکے اور سڑک پر لوگوں کو خطرے سے آگاہ کرنے والے سگنل روشن کر دئیے گئے۔

 میں ان لوگوں میں شامل تھا۔ جو حادثے کے فوراً ہی بعد جائے حادثہ پر پہنچ گئے تھے۔ میرا ندازہ تھا کہ عورت بہت زیادہ زخمی نہیں ہوئی ہے اور تھوڑی دیر میں معلوم ہو گیا کہ میرا یہ اندازہ غلط نہ تھا۔ گاڑی چلانے والی خاتون کے بارے میں میرا خیال تھا کہ اس کی بات بھی غالباً غلط نہیں تھی اور ہو سکتا ہے کہ اس کی نظر گاڑی کے آگے آجانے والی عورت پر اس وقت پڑی ہو جب وہ بالکل قریب آ چکی تھی۔ لیکن اس بات کا امکان بھی تھا کہ گاڑی کی رفتار بہت زیادہ رہی ہو اور تیز رفتاری کی وجہ سے خطرے کا احساس ہونے کے بعد بھی گاڑی روکنا ممکن نہ رہا ہو، اگر چہ کار کی روشنی میں اس نے زخمی ہونے والی عورت کو دیکھ لیا ہو۔

 حادثے کا شکار ہونے والی عورت نے بھی بعض غلطیاں کی تھیں ۔ وہ ایسی جگہ سے سڑک کو دوڑ کر پار کر رہی تھی جو نہ تو پیدل چلنے والوں کے لیے مخصوص تھی اور نہ ہی اس جگہ سڑک پر کوئی روشنی تھی ۔ شاید اس نے یہ خیال کیا ہو کہ کارا بھی دور ہے۔ یا پھر اس نے سمجھ لیا کہ کارڈرائیور نے اسے سڑک پر آتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔

 پولیس نے حادثے کی جور پورٹ تیار کی اس میں کار چلانے والی خاتون اور اس کے ساتھ حادثے کی شکار ہونے والی عورت دونوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ بہر صورت سڑک پر حادثات کی روک تھام کے تمام ذمہ دار اس امر پر متفق ہیں کہ رات کو گاڑی چلانے میں لازما بعض خطرات درپیش ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو جب سڑک پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد دن کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم ہوتی ہے، حادثات دن کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوتے ہیں۔

رات کی بصارت پر دن کی مصروفیات کا اثر : 

یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی دن کی مصروفیات رات کے وقت آپ کی بینائی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ اثر شدید ہو جاتا ہے اس صورت میں کہ اگر آپ دن میں تیز دھوپ میں رہے ہوں۔ ایسی صورت میں آپ کی آنکھیں رات کی تاریکی سے مطابقت پیدا کرنے میں نسبتا زیادہ وقت لیتی ہیں اور بعض وفعہ یہ عرصہ کئی گھنٹوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ دن بھر دھوپ میں سفر کرتے رہے ہوں تو رات کو بہت زیادہ احتیاط درکار ہوتی ہے۔

 مناسب ہے کہ دھوپ میں گاڑی چلاتے وقت آپ گہرے رنگ کی عینک لگائے رہیں، لیکن رات کو ایسا چشمہ لگانا خطر ناک صورت حال پیدا کر سکتا ہے۔ اندھیرے میں گہرے رنگ کے چشمے سے آپ چندھیا جانے سے نہیں بچ سکتے ، بلکہ اس کے برخلاف یہ آپ کی بصارت کو کم کرنے کے موجب بن جاتے ہیں۔

 رات کو گاڑی چلانے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیے کہ آپ کی گاڑی کے اگلے لیمپ پر گر دیا روغن کی تہ تو نہیں جم گئی ہے جس کی وجہ سے گاڑی سے نکلنے والی روشنی مدھم ہو کر آپ کے لیے سفر کو خطر ناک بنا سکتی ہے۔ 

اگر آپ نے ان باتوں کا خیال رکھا تو آپ کا سفر خود آپ کے لیے اور دوسروں کے لیے محفوظ ہو جائے گا اور آپ کو کسی حادثے کے بعد یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ میں نے اسے بالکل سامنے آجانے سے پہلے خدا گواہ ہے کہ بالکل نہیں دیکھا تھا۔

رات کا سفر اور جرمنی کے میگزین کی رپورٹ: 

مغربی جرمنی کی تین تہائی عورتیں، اندھیرا ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس کرتی ہیں اور جرمنی کے بڑے شہروں میں جہاں کی آبادی پانچ لاکھ سے بھی اوپر ہے، ان عورتوں کا تناسب اور بھی بڑھ جاتا ہے جو رات کو باہر نکلنے کے تصور سے بھی گھبراتی ہیں تقریبا ۸۵ فیصد تک ۔

 ہفتہ وار شائع ہونے والے ایک جرمن میگزین میں کچھ لوگوں سے لیے گئے انٹرویو شائع ہوئے ، جن کے مطابق : 

عورتیں ، سنسان اور غیر آباد مقامات پر جانے اور وہاں گھومنے پھرنے سے ڈرتی ہیں۔ جب کہ بڑے شہروں میں رہنے والی خواتین کی نصف تعداد ایسی ہے جو پبلک پارک وغیرہ سے گزرتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتی ہے، اور ان میں ۳۳ فیصد ایسی ہیں جو میٹرو ریلوے اسٹیشن میں اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں اور ۲۰ فیصد ایسی ہیں جو رات کے وقت ٹرینوں میں سفر کرتے وقت غیر مطمئن رہتی ہیں ۔ حوا کے نام ایک پیغام –

( جلد ۲ صفحہ ۲۰)

رات کا سفر اور امریکن آٹو موبائیل کی تحقیق: 

امریکن آٹو موبائیل ایسوسی ایشن نے ایک مضمون شائع کیا جس میں رات کے وقت ہونے والے حادثات پر روشنی ڈالی گئی :

 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات کے وقت ہونے والے حادثات کی شرح دن کے مقابلے میں ڈھائی گناہ زیادہ ہے۔ اس ایسوسی ایشن کے حکام کہتے ہیں :

 رات کے وقت دیکھنے پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ جو کہ دن میں دیکھنے کے مقابلے میں بہت مشکل کام ہے۔ امریکہ میں فٹ پاتھ پر چلنے والوں کی آدھی تعداد صرف اندھیرے کے وقت حادثات کا شکار ہوتی ہے۔ 

ان حکام نے ڈرائیوروں کے رات کے وقت نہ دیکھنے کی وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ:

 دیکھنے کی صلاحیت ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے۔ دن اور رات دونوں میں ۔ لیکن دونوں وقتوں میں دیکھنے کا معاملہ اتنا مختلف ہے کہ وہ آنکھوں کا ٹیسٹ جو ڈرائیوروں کو لائسنس دیتے وقت کیا جاتا ہے۔ کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہے۔

 رات کو گاڑیاں چلانے میں تین خاص قسم کی مشکلات سامنے آتی ہیں۔ پہلی تو یہ کہ رات کو چیزیں صاف نظر نہیں آتیں یعنی کہ رات کو چیزوں کو ان کے پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور مشکل یہ ہے کہ رات کو مخالف سمت سے آنے والی گاڑی کی روشنی آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ آخر کار ڈرائیور کو دوبارہ دیکھنے کے قابل ہونے میں کافی دیر لگتی ہے۔

بعض لوگ رات کو بہت اچھی طرح دیکھتے ہیں بعض لوگ مکمل طور پر اندھے ہو جاتے ہیں۔ بعض لوگ سامنے سے آنے والی کار کی روشنیوں سے بہت کم متاثر ہوتے ہیں اور کچھ ہی سیکنڈ میں اس قابل ہو جاتے ہیں کہ دوبارہ صحیح طرح دیکھ سکیں ۔“

بروٹن ڈبلیو، مارش اور ارل ایلیگر جو کہ اس ایسوسی ایشن کے حکام ہیں بتاتے ہیں کہ وہ لوگ جو رات کو مشکل سے دیکھتے ہیں یا چکا چوند کرنے والی روشنی کا مقابلہ نہیں کر سکتے ان کو رات کے وقت آہستہ آہستہ سیدھے ہاتھ کی طرف اور انتہائی محتاط چلنا چاہیے۔“

وہ بتاتے ہیں کہ دن کے وقت بہت چمک دار روشنی کا بار بار واسطہ پڑنے سے رات کے وقت دیکھنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ اگر آپ جاتی ساحل پر سارا دن بغیر دھوپ کے چشموں کے گزاردیں تو اس بات کا امکان ہے کہ گھر لوٹتے ہوئے آپ کو ڈرائیونگ میں مشکل پیش آئے۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ رات کو دیکھنے کی صلاحیت عمر کے ساتھ ساتھ کمزور پڑتی جاتی ہے۔ ہمیں سال کے بعد کسی چیز کو دیکھنے کے لیے روشنی کی ضرورت ہر تین سال کے بعد دوگنی ہو جاتی ہے۔ یعنی ۳۳ سال کی عمر کے ایک شخص کو کسی شے کو دیکھنے کے لیے بمقابلہ میں سال کے شخص کے دوگنی روشنی کی ضرورت پڑے گی لہذا بوڑھے لوگوں کو رات کے وقت ڈرائیونگ سے پر ہیز کرنا چاہیے ۔

رات کا سفر اور اخبار نیو سائنسدان کی تحقیق:

 اخبار نیو سائنسدان ۱۳ د دسمبر ۱۹۶۲ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ:رات کے وقت ڈرائیونگ کرنے میں سب سے زیادہ خطرہ سامنے سے آنے والی گاڑی کی روشنیوں کا ہوتا ہے۔ آنکھ میں ایک خاص قسم کے رنگ دار عنصر کی موجودگی رات میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ رنگ دار عنصر آنکھوں کو چکا چوند ہونے سے روکتا ہے اور اس طرح اندھیرے میں اور اندھیرے کے قریب نظر کو درست رکھتا ہے۔

اس رنگ دار عنصر پر سورج یا مصنوعی روشنی سے مختلف رنگ بنتے ہیں۔ اندھیرے میں آنکھ اس عنصر کو دوبارہ مستعد کرتی ہے اس کام کے لیے یہ ضروری ہے کہ وٹامن اے کی خاصی مقدار ہونی چاہیے۔

 رات کے وقت سامنے والی گاڑی کی روشنیوں سے اندھا ہو جانا رات کے اندھے پن کی نشانی ہے۔ اس کی دوسری نشانی یہ ہے کہ روشنی کے بعد اچانک اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے۔

رات کا سفر اور لف بورو یونی ورسٹی کی رپورٹ :

 لف بورو یونی ورسٹی میں ہونے والی تحقیق کو عالمی مقام حاصل ہے اور یہاں کثیر الجہتی تحقیق ہو رہی ہے جس میں بنیادی مسائل، یعنی نیند کیا ہے اور اس کی ہمیں کس قدر ضرورت ہے اور نیند کے دوران ہونے والی حادثات سے لے کر برطانیہ میں بڑے ہوائی اڈوں کے آس پاس رہائش پذیر لوگوں کی نیند پر جہازوں کے شور کے اثرات کی اطلاقی ریسرچ بھی شامل ہے۔ یہ سنٹر کلینکل ریسرچ بھی کر رہا ہے۔ جو شیزوفرینیا، ڈیپریشن اور دن کے اوقات کار میں شدید تھکاوٹ کے آثار وغیرہ کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ سنٹر گزشتہ کئی سالوں سے نیند کی کمی کو بنیاد بنا کر نیند کے معاملات پر تحقیق پیدا کر رہا ہے۔

لف بور و سنٹر میں نیند سے ہونے والے کاروں کے حادثات پر بھی تحقیق ہورہی ہے۔ برطانوی پولیس کے تعاون سے کیے گئے حالیہ حادثاتی سروے کے مطابق لمبی اور سنسان شاہراہوں خصوصاً موٹر ویز پر ہونے والے جان لیوا حادثات نیند کے باعث وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہ سنٹر اسٹیرنگ پر سو جانے والے ڈرائیوروں پر لیبارٹری اسٹڈی کرتے ہوئے ان کے لیے ایسے عملی طریقے وضع کر رہا ہے جن سے وہ رہا وہ ڈرئیونگ کے دوران اپنی نیند پر قابو پاسکیں۔

رات کا سفر اور چار اہم باتیں

اس کے علاوہ یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ رات کے وقت پیش آنے والے حادثات دن کے مقابلے میں بہت سنگین اور مہلک ہوتے ہیں، اس لیے اس سلسلے میں چاراہم باتوں یا تبدیلیوں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے یہ فرق یا تبدیلیاں عمر سے تعلق رکھتی ہیں یعنی عمر کے لحاظ سے ہماری دیکھنے کی صلاحیت میں فرق آجاتا ہے۔

ا۔ ۳۰ سے ۴۰ سال کی عمر میں بالعموم حد نگاہ میں کمی آنے لگتی ہے یعنی ہماری زیادہ دور دیکھنے کی صلاحیت گھٹنے لگتی ہے۔

۲- عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ دیکھنے کے لیے زیادہ روشنی کی ضرورت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

۳- تقریباً چالیس سال کی عمر کے بعد چمک یا چکا چوند برداشت کرنے کی صلاحیت میں کمی آنے لگتی ہے۔

۴- عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ تاریکی میں دیکھنے کی صلاحیت بھی گھٹنے لگتی ہے یعنی ہماری اندھیرے میں جلد دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہونے لگتی ہیں۔ 

بعض لوگوں کی نظر سرگی (Tunnel Vision) ہوتی ہے۔ یعنی وہ صرف اپنی حد نگاہ میں آنے والی اشیا ہی دیکھ سکتے ہیں۔ انہیں دائیں بائیں کی اشیا نظر نہیں آتیں۔

مذکورہ چار تبدیلیوں کا اثر رات کے وقت ڈرائیونگ پر بہت پڑتا ہے، خاص طور پر دو ہری سڑک پر گاڑی چلاتے وقت بہت دقت محسوس ہوتی ہے۔