اسلام اور سائنس, ی۔دینیات

صدقہ و خیرات کرنا سنت نبوی اور جدید سائنسی تحقیقات

جب انسان اللہ تعالیٰ جل شانہ کی بارگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ یعنی اپنی آرزو اور خواہش بارگاہ ایزدی میں پیش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو شرف قبولیت بخشتے ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے :وإِذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ . ترجمہ: جب میرا بندہ مجھے پکارتا ہے تو میں اس کے قریب ہوتا ہوں اور اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں ۔

جب انسان پریشان ہوتا ہے اور کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے یا کوئی خواہش یا آرزو دل میں لے کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنی دلی خواہش کی تکمیل کے لیے غیبی امداد کا طالب ہوتا ہے یعنی انسان کی خواہش ہوتی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی اسباب میرے ہم آہنگ ہو جائیں اور میری خواہش پوری ہو جائے لیکن قبولیت دعا کے لیے یہ شرف ہے کہ خواہش جائز ہو…… علاؤہ ازیں قبولیت دعا کے بارے میں علمائے کرام کے دو نظریئے ہیں ایک نظریہ یہ ہے کہ جب بندہ بارگاہ ایزدی میں پکارتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی درخواست سماعت کے لیے قبول فرماتے ہیں اور جب موقع مناسب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ غیبی اسباب مہیا فرما کر اس کی جائز خواہش پوری کر دیتے ہیں ۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دعا قبول ہی اس وقت فرماتے ہیں جب کہ بندہ تمام کائنات سے منہ موڑ کر اور تمام دنیا سے مایوس ہو کر اور تمام بت غیر اللہ کے تو ڑ کر جو کہ اس کے دل و دماغ میں ہوتے ہیں ۔ اللہ کی بارگاہ میں پکارتا ہے تو اللہ تعالٰی اس دعا کوشرف قبولیت بخشتے ہیں ۔

جب تک انسان کے دل و دماغ میں غیر اللہ کے بت موجود ہیں اور جب تک وہ ان سے آس لگائے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو رد کر دیتے ہیں لہذا قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ سائل صرف اللہ تعالیٰ ہی سے امید رکھے ۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے :ایاک نعبد و ایاک نستعین. ترجمه: ” خاص تیر ی ہی عبادت کرتے ہیں اور خاص تجھی ہی سے مانگتے ہیں ۔“

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں بیماری اور مرض ، بندے کو اللہ کے قریب لے آتے ہیں ۔ اسی کو قرآن حکیم میں یوں فرمایا گیا ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، صبر اورنماز سے مددلو ۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ (البقرہ ۲، ۱۵۳) حضور کسی کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ دعا فرماتے : یا اللہ ! تکلیف کو دور فرمادیجئے ۔ اے انسانوں کے رب! شفا عطا فرمائیے ، کیوںکہ آپ شافی ہیں اور آپ کی شفا سے بڑھ کر کوئی شفا نہیں ۔ شفا کا سامان صرف آپ ہی فرماتے ہیں جس کے بعد پھر کوئی بیماری باقی نہیں رہتی ۔“

حضور ا کرم یہ خود اپنی صحت کے لیے یہ دعا فر مایا کرتے تھے :یا اللہ ! میرے جسم کو شفا عطا فرمائیے ۔ میرے قلب کو شفا عطا فرمائیے ۔ میری نظر کو تمام بیماریوں سے شفا عطا فرمائیے ( یہ دعا آپ یہ تین مرتبہ دہرایا کرتے تھے ) ۔احادیث نبویہ میں بھی دعا کے بارے میں واضح ارشاد ہے ” دعا عبادت کامغز ہے ایک روایت ہے اللہ تعالیٰ کو یقین محکم کے ساتھ پکارا کرو ، اس معنی میں کہ تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی ۔ جو لوگ دعا نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوجاتے ہیں ، کیونکہ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہاں دعا سےبڑھ کر عزیز ترین کوئی چیز نہیں ۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے ” دعا مومن کا ہتھیار ہے دین کا ستون اور زمین و آسمانوں کا نور ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو یہاں تک کہ جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو۔

ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کےپاس آئے اور کہا اے محمد ﷺ! کیا آپ بیمار ہو گئے ہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں پھر انہوں نے کہا اللہ کے نام کے ساتھ آپ کو جھاڑتا ہوں ہر اس چیز سے جو آپ ﷺ کو اذیت دیتی ہے اور ہر جاندار کے شرسے اور ہر حسد کرنے والی آنکھ سے ۔ اللہ کے نام سے آپ ﷺ کو جھاڑتا ہوں اور اللہ آپ ﷺ کو شفا دے۔“(احمد مسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس پر دایاں ہاتھ پھیرتے اور فرماتے دور کر دے بیماری اے لوگوں کے رب اور شفادے ، تو ہی شافی ہے تیری شفا کے بغیر شفا نہیں ۔“

شاید آپ نے کبھی سوچا ہو، دعا کیا ہے؟ ہر دور میں دعا کی مختلف وضاحتیں کی گئی ہیں لیکن ایک دانا کے بقول ” دعا نام ہے قلب کی کشادگی کا ، جس طرح آپ ایک باوفا دوست پر بھروسا کرتے ہوئے اپنے دل کا حال اسے سناتے ہیں ! ہم دعا کے وقت خدا سے اسی طرح باتیں کرتے ہیں جیسے ایک عبد اپنے معبود سے کرتا ہے ۔ ہم اسےسب کچھ بتاتے ہیں پھر اس سے مدد کے ملیجی ہوتے ہیں ۔ اصل دوستی وہ ہے جس میں خود غرضی کا شائبہ بھی نہ ہو ۔ ہمیں جس کی دوستی یا سر پرستی پر ناز ہوتا ہے ہم اس کا ہر مشورہ قبول کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔ ہم اس کی ہدایت پر فخر کرتے ہیں اور جو کچھ اس سے مل جاتا ہے اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں ۔ دعا ذریعہ ہے اللہ تک پہنچنے کا جو ہمارا سب سے بڑا دوست ، سب سے بڑا محب اور سب سے بڑاچاہنے والا ہے !مشہور بات ہے کہ مصیبت میں خدا یاد آتا ہے ۔ دکھ تکلیف میں مریض کے منہ پر بے اختیار اس کا نام یاد آ جاتا ہے ۔ لوگ اس کے نام پر خیرات بانٹتے ہیں اور نہ صرف خود اپنی صحت کی دعا مانگتے ہیں ، بلکہ دوسروں سے بھی اپنے لیے دعا کراتے ہیں ۔ اگر ہم کہیں کہ یہ خود غرضی ہے تو غلط نہ ہوگا ۔ دعا تو وہ ہے جو ہر حال میں مانگی جائے اور خدا کی معاونت اور زلزلے ، قحط ، سیلاب اور ایسی ہی دوسری آفات کے زمانے میں اجتماعی دعائیں کی جاتی ہیں اور خدا کی پناہ تلاش کی جاتی ہے لیکن اگر ہم صحت و عافیت کے طالب ہیں تو ہمیں خدا سے اپنا رابطہ ہمہ وقت استوار رکھنا چاہیئے ۔ وہ ہماری ضروریات جانتا ہے اور انہیں اس انداز میں فراہم کرتا ہے جو وہ ہمارے لیے سب سے اچھا سمجھتاہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا ہماری تمام ضروریات جانتا ہے تو پھر ہمیں دعا کیوں مانگنی چاہئے؟ وہ سب کا حاجت روا ہے خواہ اسے کوئی مانے یا نہ مانے ۔ تو کیا دعا سے فرق پڑتا ہے؟ جواب صرف یہ ہے کہ خود غرضی سے آلودہ دعا بے فائدہ رہتی ہے۔ دعا کو مادی وسائل حاصل کرنے کا ذریعہ نہ بنائیے ۔ اس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ آپ خالق کا ئنات سے نزدیک تر ہو جائیں ۔ ہم اس لیے دعا نہیں مانگتے کہ ہم خدا کی قدرت پر اثر انداز ہوں ، بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سے ہم آہنگی اور مطابقت اختیار کر لیں اور ہمیں اس وقت واقعی بڑی خوشی ہوتی ہے جب ہماری دلی خواہشات کاجواب آتا ہے خواہ طریقہ قدرے مختلف ہی کیوں نہ ہو

ساری دنیا میں ایسی کوئی بیماری نہیں جس کی دوا نہ ہو ۔ ساری دواؤں سے بڑھ کرمؤثر دوا قرآن حکیم ہے ، جس کے متعلق صاحب قرآن نے خود فرمایا : ” ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں جن سے بیماریاں دور ہوتی ہیں ۔ اسی طرح فرمایا ہے۔

آپ کہہ دیجئے یہ قرآن ایمانداروں کے لیے راہنما اور شفا ہے، جو لوگ اسکی پناہ پر یقین رکھتے ہیں انہیں ضرور شفا ملتی ہے ۔صدیوں ہی سے یہ بات تسلیم کی جارہی ہے کہ شافی مطلق صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ سقراط نے بھی یہی نکتہ جانا تھا۔ اور معالج ہونے کے باوجود وہ بر ملا کہتا تھا۔ میں زخموں پر مرہم پٹی کرتا ہوں ، انہیں اچھا اللہ کرتا ہے ۔ اور یہی بات حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی تھی ۔ ” اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے ۔‘ رب تعالٰی نے خود فرمایا ہے اور اگر اللہ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچا سکے ۔“

 


دعا ذکر الہی کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ اور یہ بندے اور اس کے رب کا تعلق قائم کرنے میں ایسا ہی اثر رکھتی ہے ۔ جیسے کہ کوئی کسی سے بالمشافہ گفتگو کرتا ہو۔ بندہ اظہار عبودیت کے ساتھ اپنی ساری کمزوریوں ، مصیبتوں اور دکھ درد کو کھول کر اپنے آقا کے سامنے رکھ دیتا ہے تو اس کا دل ہلکا ہو جاتا ہے ۔ اور ایک ان جانا اطمینان وسکون اسے ڈھانپ لیتا ہے ۔ دعا کے آداب میں سے ہے کہ لقمہ حرام سے پر ہیز کرے اور دلی سوز و گداز کی بھر پور کیفیت طاری ہو ۔ کوئی بھی دعا ضائع نہیں جاتی ۔ البتہ دعا یا تو فوری قبول ہو جاتی ہے ۔ یا مشیت ایزدی کی طرف سے مقررہ وقت پر اس کا ظہور ہوتا ہے۔ بصورت دیگر اگر اس کا اس حالت میں قبول کرنا بندے کے حق میں بہتر نہ ہو ۔ تو اس کے بدلے میں کوئی دیگر خیر و خوبی مرحمت ہو جاتی ہے۔ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اگر دعا کے نتائج اس عالم میں ظاہر نہ ہوں تو آدمی کیلیے آخرت میں اس کا مناسب ثواب لکھ دیا جاتا

ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ قرآن حکیم میں اہل حق کی دعائیں بیان ہوئی ہیں ۔ جو بہت مؤثر ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام کی دعا ئیں ہمارے لیے سنت کا درجہ رکھتی ہیں ۔ خصوصاً حضور نبی اکرم ﷺ کی تعلیم کردہ دعا ئیں امت کے لیے بے بہا خزانہ ہیں ۔ ہر موقع اور ہر بیماری کے لیے حضورﷺ نے دعا تعلیم کی ہے ضرورت ہے کہ علماء اور اہلِ علم اس سمت میں ریسرچ سے کام لیں ۔ اور عوام کی راہنمائی کے لیے ایسی دعاؤں کے فضائل اور مواقع کھول کر بیان کریں ۔ تا کہ دعاؤں سے سائنٹیفک طریقے سے فیض حاصل کیا جائے


فرض کیجئے ایک شخص ایسے دکھ تکلیف میں مبتلا ہے کہ طبی سائنس کوئی مداوا نہیں کر سکتی اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر اس آزمائش کے لیے صرف اسی کو کیوں منتخب کیا گیا۔ یاد رکھئے کہ خدا اپنے بندوں کو خواہ مخواہ دکھ نہیں دینا چاہتا۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ ہماری دانش محدود ہے ۔ ممکن ہے ہمارا طرز زندگی بعض تبدیلیوں کا طالب ہو۔ ہمارے کھانے پینے کی عادات ، تفریح ، کام کاج ہم خود تو کوئی تبدیلی پیدا کرنے کو تیار نہیں ہوتے لیکن بیماری ہم سے سب کچھ کرالیتی ہے مایوس نہ ہوئیے ۔ مایوسی گناہ ہے۔ جس خدا نے بیماری دی ہے وہی شفا بھی دے گا ۔ وہ بڑا رحیم ، بڑا کریم ہے ۔ بیماری سے ہی انسان کے بعض ارفع جذبات بیدار ہوتے ہیں ۔ ترحم ، استقلال ، صبر ، برداشت ، کرم ، ہمدردی اور دوسروں کیلیے سمجھ بوجھ،رواداری وغیرہ ۔بیماری کے زمانے میں ہی آپ کو اپنے متعلق کچھ سوچنے کا موقع بھی مل جاتا ہے ورنہ زندگی کی دن رات کی مصروفیات اتنی فرصت بھی نہیں دیتیں ۔ اگر آپ کو اپنی اصلاح کرنے کا ایک اچھوتا موقع مل جاتا ہے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھائیے اور سوچے کہ ہے۔ آپ کو ہسپتال میں کیوں آنا پڑا ؟ خدا سے یہ توقعات وابستہ نہ کیجئے کہ آپ غلطیاں کریں اور وہ ان کے نتائج سے آپ کو محفوظ رکھے۔ایک بڑی وجہ کہ ہر دعائے صحت قبول نہیں ہوتی ، یہ ہے کہ قوانین فطرت کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں ۔ بیماری سے صحت یاب ہو جانے کے بعد بھی ہم میں سے بیشتر کو عقل نہیں آتی اور وہ پھر وہی حرکت کرتے ہیں جو ان کی علالت کا سبب بنی ۔ انہیں تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیئے اور اپنی باقی زندگی صحت اور فطرت کے بنیادی قواعد وقوانین کی پابندی کرتے ہوئے گزارنا چاہیئے ۔

اگر آپ کو خدا پر یقین ہے، آپ اس کے وجود کے قائل ہیں اور اسے غفور و کریم سمجھتے ہیں تو آپ اپنے معاملات مکمل طور پر اس پر چھوڑ دیں گے، بالکل اسی طرح جیسے آپ اپنے کسی خیر خواہ پر چھوڑ دیتے ہیں اس کے بعد آپ نتائج سے لا پر وا ہو جاتے ہیں اللہ والوں کو اپنے تمام معمولات خدا پر چھوڑ دینے میں بڑا سکون ملتا ہے ۔ اگر ان کی دعاؤں سے کسی قریبی عزیز کو شفا نصیب بھی نہیں ہوتی تب بھی وہ ہمت نہیں ہارتے ۔ ان کے معتقدات اور خدا پر ان کے ایقان میں کسی قسم کا ضعف پیدا نہیں ہوتا ۔ کس انسان کو دنیا سے کسی وقت رخصت ہونا ہے، یہ فیصلہ خدا کو کرنا ہے ہمیں نہیں ۔ وہی بہتر جانتا ہے کہ کسی متنفس کو دنیا میں رہنے کی کتنی مہلت ملنی چاہیئے اور ہمیں خدا کے مطیع بندوں کی حیثیت سے اس کے ہر فیصلے کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا چاہئے ! دکھ درد کے وقت دعا کی اہمیت بڑھ جاتی ہے ۔ اس سے مریض کو بڑا سکون ملتا ہے کیونکہ اس وقت اس کا رابطہ براہ راست اپنے خالق کیسا تھ ہو جاتا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ زمین آسمان کے درمیان رشتہ قائم کرنے والا روحانی اقدام بھی دعا ہے ۔ دعا کچھ اور نہیں ۔ انسان کو اس وقت اپنی بے بضاعتی اور خدا کی لامحدودقوتوں کا احساس ہوتا ۔دعا سے ہی خدا کی محبت کا جذبہ ابھرتا ہے اور شاید عجز و انکسار کا بھولا ہوا سبق یاد آ جاتا ہے جس سے ہم اپنے ساتھیوں سے قریب تر ہو جاتے


پریشانیوں ، الجھنوں اور مایوسیوں کے سیاہ بادلوں میں انسان کا واحد سہارا خدائے پاک کی ذات ہے۔ خدا سے دعا کرتے وقت انسان دل میں اطمینان اور روح میں سکینت محسوس کرتا ہے۔ اور اسے بہت حد تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ مصائب اور تکالیف کی دنیا سے نکل کر امن آرام ، سکون اور اطمینان کی دنیا میں آگیا ہے ۔ مصائب و آلام میں انسان پوری طرح گھر جاتا ہے ۔ اور اسے نجات کی کوئی راہ نظر نہیں آتی تو وہ خدا کا دامن پکڑ کر عجز و نیاز سے گڑ گڑا کر دعائیں کرتا ہے ۔ اپنے دل کی آرزوئیں اپنے محسن حقیقی کے سامنے رکھ دیتا ہے ۔ اور اس طرح اپنی مصیبتوں اورتکلیفوں کا بوجھ ہلکا کرتا ہے۔ اگر آپ فطرت یا تعلیم و تربیت کے اعتبار سے مذہبی آدمی نہ بھی ہوں پھر بھی دعا آپ کے یقین سے زیادہ آپ کی مدد کر سکتی ہے


علامہ فضل الہی عارف اپنی کتاب فلسفہ دعا میں لکھتے ہیں : دعا مانگنا حسین انسانی فطرت کا تقاضا ہے چنانچہ جب ہم مبتلائے آلام ہوتے ہیں اور مصیبتیں ہمیں چاروں طرف سے آگھیرتی ہیں تو ہمارے ہاتھ دعا کے لیے بے اختیار اٹھ جاتے ہیں ۔ دل مضطرب سے معا الفاظ پکار بن کر نکلتے ہیں ، بے ساختگی میں نکلی ہوئی یہی آواز دعا کہلاتی ہے۔“

مصیبت میں پکارنے کی جبلت ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ انسان اپنے اس جبلی ادراک کے تحت ایک برتر ہستی کے سامنے اپنے عجز کا اعتراف کرتا ہے اور اسے فریاد رس سمجھ کر امداد و اعانت کا طالب ہوتا ہے ۔ دین فطرت کا ترجمان بھی اس انسانی فطرت پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتا ہے ۔ جب انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اپنے پالنے والے کو پکارتا ہے اور ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ پکارنے کی اس جبلت کی تعدیل کی صحیح صورت اللہ اور صرف اللہ سے دعا مانگتا ہے۔


ہم بے چین ، مایوس اور پریشان اس وجہ سے ہوتے ہیں کہ ہم نے کسی سے امیدیں لگا رکھی ہوتی ہیں اور جب وہ امیدیں پوری نہیں ہو پاتیں تو ہم افسردگی کا شکار ہوتےہیں۔ ایک خواہش اگر پوری بھی ہو جائے تو تسلی نہیں ہوتی بلکہ اس سے ایک اور خواہش پیدا ہوتی ہے اور بالآخر یہ اپنے جلو میں حرمان و یاس کو لاتی ہے۔ لمبی لمبی امیدیں اور خواہشات یقیناً عدم اطمینان کی طرف رہنمائی کرتی ہیں دعا ، اطمینان قلب کے لیے بہترین ذریعہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں جو دعائیں بھی مانگی جائیں گی ان میں غیر ضروری خواہشات کو دخل نہیں ہوگا. دعائیں ہماری آرزوؤں ، تمناؤں اور خواہشوں میں نکھار پیدا کرتی ہیں اور ہمیں قناعت کی دولت بخشتی ہیں ۔ دعا کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اطمینان قلب کی نعمت خود بخود حاصل ہو جاتی ہے ۔ دل ، انقباض کے بعد ایک قسم کی طمانیت ، کشادگی اور رنج والم کے بعد فرحت و انبساط محسوس کرتا ہے ۔دعا کی خوبی ملاحظہ ہو۔ کہ تکلیف میں ہم دعا مانگتے ہیں تو اس وقت ہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ مصیبت دور ہو جائے یا کوئی آرزو پوری ہو۔چنانچہ دعا کے بعد خواہ مصیبت دور ہو یا نہ ہو ، آرزو پوری ہو یا نہ ہو دل کو تسلی ضرور ہوتی ہے اور گڑ گڑا کر دعا مانگنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ غم و یاس کے بادل جو دل و دماغ پر چھائے ہوتے ہیں وہ اشک بن کر برس جاتے ہیں اور اس طرح دکھ دردکی تلخی کم ہو جاتی ہے۔تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کرونگا:

عزیزوں دراصل خالق کائنات انسان کے ساتھ ہر ساعت اور ہر آن شامل ہے ۔ یعنی اس کی شہہ رگ سے زیادہ قریب ہے ۔ وہ مکمل ربوبیت کا حامل ہے ۔ یعنی اپنی مخلوق کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑتا۔ ایک مثال سے اس بات کو سمجھیں ۔ آپ نے ایک بڑھئی سے کرسی بنوائی ۔ اور کئی سال اسے استعمال کرتے رہے۔ پھر اچانک اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ کر الگ ہوگئی ۔ اب آپ کبھی بڑھئی کے پاس نہیں جائیں گے ۔ اور اگر وہ مل بھی گیا ۔ تو وہ پرانی کرسی کو ہاتھ لگانا کسر شان سمجھے گا۔ مرمت کے لیے کسی اور مستری کی تلاش کرنی ہوگی کیوں کہ کرسی بنانے والے کا تعلق کرسی سے اسی وقت کٹ گیا تھا جب اس نے وہ بیچ دی تھی۔ لیکن خالق کا ئنات اپنی مخلوقات کے ایک ایک فرد سے ہر لمحہ اور ہر آن تعلق رکھتا ہے ۔ اور اسے بھولتا نہیں ہے ۔ صرف عارضی طور پر آزمائش میں ڈالتا ہے۔ یہ ہماری اپنی غفلت اور ناشکری ہے ۔ کہ ہم اسے یاد نہیں کرتے ۔ اور طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ پھر اس کا فرمان ہے ۔ کہ جب میرا بندہ میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے۔ تو میں دس قدم اس کی طرف بڑھتا ہوں فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُ كُمُ تم مجھے یاد کرو گے تو میں تم کو یاد کروں گا ۔ الا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبِ خبردار رہو کہ اللہ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ خدا کا ذکر دنیا کی تمام مصیبتوں کا علاج ہے۔


اللہ تعالی نے یہ بات بار بار بیان فرمائی کہ مصائب اور مشکلات کو دور کر نے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور تنہا وہی مصیبت زدہ اور مضطرب لوگوں کی التجائیں سنتا ہے اوران کی دعاؤں کو قبولیت بخشتا ہے ۔ اس سے استغاثہ کیا جاتا ہے ۔ وہی تمام کائنات کا فریاد رس ہے ۔ وہ تمام مصیبتوں اور بلاؤں کو دور کرنے والا ہے وہی سب کا خیر خواہ ہےاور وہی خیر و برکت کا مالک ہے اور وہی تقسیم کرنے والا ہے اور وہی بلا شرکت غیرےسب کام انجام دیتا ہے۔پوشیدہ طریقے سے دعا مانگنا افضل ہے ۔ دعا کے لیے پہلے لوگ بہت کوشش کرتے تھے اور اس انداز سے مانگتے تھے کہ برابر بیٹھنے والے کو ان کی آواز سنائی نہ دیتی تھی ۔ ان کی دعائیں ان کے اور ان کے رب کے درمیان راز و نیاز کی حیثیت رکھتی تھیں ۔ جو لوگ نماز کے پابند ہیں وہ آغاز نماز سے لے کر آخر تک دعا سے بے نیاز نہیں رہ سکتے یا وہ دعائے عبادت و ثناء میں مشغول ہیں ۔ یا دعا طلب وسوال میں ، وہ کسی بھی حال میں ہوں بہر کیف دعا میں مصروف رہتے ہیں ۔ دعائے عبادت ہی ایسا عمل ہے جو تمام عبادات سے زیادہ اعلیٰ و افضل ہے ۔ یہی حالت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے والے، قرآن کی تلاوت کرنے والے اور دوسری عبادات کرنے والوں کی ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ یہ بھروسہ کرتے ہیں اور اسی سے مانگتے ہیں لہذا دعا کرنے والا بھی عبادت گذار کہلاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کر کے اس کے محبوب حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود شریف بھیج کر دعا مانگنی چاہئیے ۔ دنیا و آخرت میں عافیت کی دعا کرنی چاہئیے اور کامل یقین کے ساتھ دعا کرنی چاہیے ۔ دعا میں عجلت نہیں کرنی چاہیئے ۔ بعض لوگ کہتے رہتے ہیں دعا قبول نہیں ہوتی ۔ دعا دافع بلا ہے ہے ۔ قضا و قدر سے بچنے کی کوئی اور تدبیر نہیں صرف دعا نفع پہنچاتی ہے اور بلاؤں سے بچاتی ہے۔ دعا میں قطعیت نہیں کرنی چاہیئے کہ اے اللہ تو اگر چاہے تو یہ کر دے بلکہ اپنی طرف سے پورے عزم و یقین سے دعا کرنی چاہئیے پانچ آدمیوں کی دعا ئیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں ۔

1- مظلوم کی دعا جب تک وہ بدلہ نہ لے ۔

2۔ حج کرنے والے کی دعا جب تک وہ لوٹ کر گھر نہ آئے ۔

3-راہ خدا میں جہاد کرنے والے کی دعا جب تک وہ شہید نہ ہو جائے 

4۔ ایک بھائی کی دوسرے بھائی کے لیے غائبانہ دعا۔

 قرآن پاک جب ختم ہوتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتی ہے اور دعا قبول ہوتی ہے۔ خانہ کعبہ پر پہلی نگاہ پڑتی ہے تو قلب و نظر پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اس طرح اذان اور اقامت کے درمیان دعا مانگنی چاہیئے


دعا ذہنی صحت کو بہتر کرنے میں بہت اہم کردار کی حامل ہے خاص کر ڈپریشن ( یاسیت ) اور تشویش کے علاج میں بہت مؤثر آلہ علاج ہے ۔ دعا کس طرح ذہنی بیماریوں میں معالجاتی اثرات مرتب کرتی ہے۔ آئیے ان پہلوؤں کا تجزیہ کریں۔

تکلیف دہ جذبات کا اظہار (Catharsis)

ایک فرد جب اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق و مالک تسلیم کرتا ہے اس کا تکبر انکساری میں ڈھل جاتا ہے اور وہ اس کے حضور معصوم بن کر عرض کرتا ہے کہ اے خدا میں بہت گناہ گار ہوں ۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی اس کے تحت الشعور میں موجود گناہوں اور غفلتوں کے تمام واقعات شعور کی اسکرین پر منکشف ہوتے ہیں جو کہ اس کے لیے تکلیف دہ ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی گرفت کا خوف ان پر طاری ہوتا ہے اس خوف کی وجہ سے بعض اوقات فرد کی آنکھوں سے آنسو بھی بہنے لگتے ہیں ۔ عام حالات میں فرد ان تکلیف دہ واقعات کو شعور میں لانا برداشت نہیں کر سکتا مگر خدا تعالیٰ کے حضور وہ ان واقعات کا سامنا کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے باطن سے اس سے بھی زیادہ باخبر ہے ۔ لہذا وہ اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالی سے معافی کا درخواست گزار ہوتا ہے۔ اس کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو اور دل سے نکلنے والی آئیں اس کے دکھ و درد کو کم کر دیتی ہیں ۔ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو (Catharsis) کہتے ہیں جو کہ نفسیاتی مسائل کے حل میں، معالجاتی اثرات کا حامل ہے

کرداری تبدیلی:

دعا کرتے وقت فرد اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اعتراف (Confession) کرتا ہے اور آئندہ ان غلطیوں کو نہ دہرانے کا عہد کرتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے کردار (Behaviour) میں مثبت اور مستقل تبدیلی کا رجحان پیدا ہوتا ہے۔

امید:

فرد اللہ تعالیٰ کے حضور دعا اس لیے مانگتا ہے کہ وہ یقین واثق رکھتا ہے کہ وہی اس کے مسائل کو حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ اس کے مسائل حل کرے گا۔ اس طرح وہ مستقبل میں اپنے مسائل کے حل ہونے کی امید باندھ لیتا ہے اور اپنی تشویش اور دریاسیت پر قابو پالیتا ہے۔

ارتکاز توجه:

مریضوں کے علاج کے دوران دعا کو جہاں تشویش ، یاسیت اور احساس گناہ کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا ہے وہاں اسے ارتکاز توجہ میں انتشار کے علاج میں بھی مفید پایا گیا ہے ۔ جب کوئی فرد خدا تعالیٰ کے حضور دعا مانگتا ہے تو وہ خود کو خدا تعالیٰ کے حضور حاضر سمجھتا ہے لہذا اس حالت میں اپنی عرض حال کے علاوہ کوئی اور خیال اس کے ذہن میں آتا ہی نہیں ۔ اس طرح اس کے ذہن میں انتشار پیدا کرنے والے خیالات

خود بخود آ نا ختم ہو جاتے ہیں تجزیہ ذات:

دعا مانگنے کے دوران فرداپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا تجزیہ کرتا ہے جہاں اسے اپنے مثبت کردار سے آگاہی ہوتی ہے ۔ وہاں اسے اپنی غلطیوں اور منفی کردار نیز اس سے اٹھائے جانے والے نقصان کا بھی احساس ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے اندر بصیرت پیدا ہوتی ہے اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے مثبت طرز عمل اپناتا ہے ۔ فرد اپنے مسائل سے گھبرا نے کے بجائے قوت ارادی سے کام لیتے ہوئے انہیں حل کرنےکے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتا ہے۔

 تسکین کا حصول:

دعا مانگنے کے بعد فرد کے اندر یقین محکم پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے کی جانے والی کوشتوں کے نتائج کو نہ صرف خدا پر چھوڑ دیتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ سے مثبت نتائج کی امید لگا لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اسے مکمل تسکین و مسرت کا احساس ہوتا ہے یہی ذہنی حالت معالج کے معالجاتی کردار کا مقصد ہوتی ہے لہذا دعا ایک ایسا آلہ علاج ہے جس کا استعمال معالج اور مریض کو مایوس ہونے سے بچائےرکھتا ہے۔


جدید سائنس روحانیات کو اس لیے کھلے دل سے قبول نہیں کرتی کہ یہ چیز اس کے عملی اور مادی تجربہ میں نہیں آتی ۔ تاہم روحانیت کے اثرات اور واردات اس کثرت اور تواتر سے ظہور میں آرہی ہیں کہ اس کے متعلق کچھ نہ کچھ کہنا ہی پڑتا ہے ۔ خدا نظر نہیں آتا ۔ لیکن اس کا ئنات میں جو نظم اور ضبط موجود ہے۔ یہ سب کچھ اس کے وجود کا پتہ دیتےہیں۔ آخر ابتدائی سائنس نے بھی تو روشنی کی طبعی خصوصیات اور برقی و مقناطیسی لہروں کے وجود کی پیشین گوئی کی تھی ۔ اور یہ صرف نظریات ہی تھے۔ عملی تجربات نے خاصےعرصہ بعد ان کی تصدیق کی ۔ پروفیسر سٹیفن لکھتا ہے ۔ کہ جان ٹینڈل وہ پہلا سائنسدان ہے۔ جس نے دعا کے اثرات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے ۔ کہ اگر دعاواقعی مریض کو صحت یاب کرتی ہے تو ہمیں لازمی طور پر اس قوت کا پتہ چلانا چاہیئےجو دعا میں پوشیدہ ہے اور اس مقصد کے حصول کیلیے ہمیں اپنے تجربات سے کام لیناچاہیے ، لیکن عیسائی مذہبی اجارہ داروں نے ٹینڈا ، کی مخالفت میں طوفان برپا کر دیا۔اور اسے کلیسا کے خلاف بغاوت قرار دیا ۔ ویسے بھی تثلیت کے پرستاروں سےروحانیت کی توقع فضول ہے ۔ تین خداؤں کے ماننے والے ایسے مظاہر سے تطابق ہے۔کیسے قائم کر سکتے ہیں ۔ جن کا تعلق وحدانیت کے ساتھ بہت گہرا ہے وہ خدا جو وحدہ لاشریک ہے ، دلوں کے بھید جاننے والا ہے اور اپنے بندوں کی دعائیں سننے والا ہے ۔ اس نے خود بندوں کو دعا مانگنے کی اجازت دی ہے ۔ اور کہا ہے کہ وہ بے قرار دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعائیں قبول کرتا ہے ۔ لا دین سائنس نے تو یہ کہہ کر اس سے پیچھا چھڑا لیا کہ ہم نے راکٹوں میں پرواز کی ہے آسمانوں کی پہنائیوں میں سیر کی ہے۔ ہمیں کہیں خدا نظر نہیں آیا ۔ اگر ان سائنسدانوں کو ان کی ظاہری آنکھوں سے خدا نظر نہیں آیا ۔ تو یہ ان کی نظر اور دہر یہ خیالات کا قصور ہے ۔ خدا تو ذوق یقین والوں کو نظر آتا ہے۔ ان کو آسمانوں تک جا نیکی بھی ضرورت نہیں ۔ گھر بیٹھے خدا کا دیدار کر لیتے ہیں ہم یہاں اپنے موضوع سے ہٹ کر تصوف کی طرف نہیں جانا چاہتے ۔ اور اپنے دلائل عوام کی عقلی سطح کے مطابق رکھ کر کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں ۔

حالیہ برسوں میں دعا کی اہمیت اور قبولیت کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے ۔ سائنسی حوالے سے یہ بات ثابت ہے کہ دعا اور مکمل ایمان سے مرض کی بیالوجی تبدیل ہو جاتی ہے اور مریض خود کو صحت مند محسوس کرنے لگتا ہے ۔ مطالعاتی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دعا سے بدن میں فزیکل تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں اور اعصابی خلیوں میں ایک طرح کی تحریک اور حرکت پیدا ہوتی ہے جو شفا کا باعث بنتی ہے۔ تحقیق سے یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ رقت آمیز گڑ گڑاہٹ کے علاوہ دعا کا اثر اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب دعا مانگنے ولا اپنے گھر سے باہر کسی عبادتگاہ میں ہو یا اپنے ملک سے باہر کسی مقدس مقام پر خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگے ۔ دعائیہ علاج شاید سائنس کو قابل قبول نہ ہو لیکن اس کی شفا بخشی کے پیش نظر سائنسی ماہرین کو اس کی طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ دکھی اور روگی لوگ اس کی برکات سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ ویسے بھی آپ دیکھتے ہیں کہ جب مریض لا علاج ہو جاتا ہے اور دوائیں بے اثر ہو جاتی ہیں تولوگ دعا کا ہی سہارا لیتے ہیں کچھ ایسے ہی قومی حالات کے پیش نظر مولانا حالی نے کہا تھا۔ اے خاصہ صاحباں میں اب وقت دعا ہے .. اپنے لیے ضرور دعا کریں لیکن کسی اور کی بد دعا سے بھی بچیں


تجربات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ دعاؤں کے اثرات مسلم یا غیر مسلم کی تفریق کے بغیر سب کے لیے یکساں ہوتے ہیں مگر دعا ئیں عالمگیر پیمانے پر کیسے اثر انداز ہوتی ہیں؟ اور کس طرح مسلم اور غیر مسلم سب کو یکساں فائدہ پہنچتا ہے؟ اس سوال کا جواب کوئی بھی نہیں دے سکا ۔ حتیٰ کہ نہ ایسا علاج کرنے والے معالج اور نہ ہی وہ سائنسدان جو اس پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ یہ کیسے ہو جاتا ہے۔

نیو یارک کے سائنسدان کا کہنا ہے کہ اس کی ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بنیادی طور پر ہر زندگی ایٹم سے تشکیل پاتی ہے ۔ تجربات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اگر دو الیکٹران آپس میں ملک کر الگ الگ بھی ہو جائیں حتی کہ ایک کائنات کے ایک سرے پر اور دوسرا دوسرے مرنے پر ، پھر بھی دونوں ایک ہی حالت Degree میں رہیں گے یعنی ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی اور دونوں میں ایک خاص قسم کا تعلق برقرار رہے گا جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک کسی اچانک حادثے کی وجہ سے اپنی حالت تبدیل نہ کرلے ۔

ان واقعات و تجربات سے تین باتیں بڑے واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔ پہلی بات اس طریقہ علاج کا مؤثر پن، دوسری بات اس کے لیے وسیلہ (یعنی کسی مشین ) وغیرہ کی ضرورت نہیں اور تیسری بات اس کا فوری اثر ہے ۔ دعا کے ذریعے علاج کا عمل اثر پذیر ہوتا ہے ۔ اس عمل Healing کے در میان معالج اور مریض کے کو ایک دوسرے کے مد مقابل آکر ایک ٹیلی پیتھک Telepathic بونڈ بنا لیتے ہیں ۔ یعنی مریض کے پارٹیکلز معالج کے پارٹیکلز کے اثرات کو قبول کر کے اس جیسے ہو جاتے ہیں اور مریض یوں صحت یاب ہوجاتا ہے


میڈیکل سائنس کے ماہرین نے اعتراف کر لیا ہے کہ دل کے مریض دعاؤں سے زیادہ جلدی اچھے ہو جاتے ہیں۔ امریکی ماہرین قلب نے دل کے 990 مریضوں پر تحقیق کے بعد یہ اعتراف کیا ہے ۔ ماہرین کی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ولیم ہیرس نے بتایا کہ 990 مریضوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا اور ایک گروپ کے لیے دعائیں کروائی گئیں کہ وہ لوگ جلدی اچھے ہو جا ئیں دعائیں مانگنے کے لیے کچھ لوگوں کو منتخب کیا گیا انہیں صرف اس گروپ کے مریضوں کے ابتدائی نام بتائے گئے ۔ اسی طرح 4 ہفتے دعائیں مانگی گئیں دوسرے گروپ کے لیے دعا ئیں نہیں مانگی گئیں ۔ 4 ہفتوں بعد تمام 990 مریضوں کا دوبارہ معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ جن مریضوں کے لیے دعا ئیں مانگی گئیں وہ صحت یاب ہو گئے اور جن کے لیے دعا ئیں نہیں مانگی گئیں وہ بیمار رہے


طب نبوی ایک مستقل موضوع ہے ۔ کتب احادیث میں انسان کے جسمانی عوارض اور معالجات کے متعلق احادیث کی تعداد ایک سو سے بھی متجاوز ہے ۔ اسی بنیاد پر ایک مسلمان ڈاکٹر نے روحانی کلینک قائم کر کے مریضوں کا علاج کیا اور کامیابی حاصل کی اس کی روئیداد ایک ڈائجسٹ رسالہ میں آئی ہے خصوصاً دو مریض جو اپنی بیماری سے ذہنی اثر لے کرنا امیدی کی دہلیز تک پہنچ چکے تھے ۔ ان کو خالق کائنات اور شانی مطلق پر کامل بھروسہ رکھنے اور زندگی پر اعتماد قائم کرنے کا سبق دے کر خطرات سے نکال دیاگیا۔ اس طرح دوائیوں کے اثرات میں بھی نمایاں اضافہ پایا گیا۔ اگر طب نبوی کے قیمتی اصول احتیاط کے ساتھ مرتب کر کے حسب موقع و محل مریضوں پر برتے جائیں تو یقین واثق ہے کہ ان کے دل میں ایمان وایقان کی شمع روشن ہونے سے زندہ رہنے کا جذبہ بیدار ہوگا اور وہ خدا کی دریعت کریں گے۔ جسم و جان کی نعمت کی قدر کرنے لگیں گے اور ساتھ ہی دعاؤں کا ڈوز Dose ان کی صحت کو لوٹانے میں ممد و معاون ہوگا ۔ہم لوگ مسلمان ہیں اللہ تعالیٰ پر یقین کامل رکھتے ہوئے قرآنی آیات پڑھ کر دعا کرتے ہیں تو اس کا اثر ضرور ہوتا ہے ۔ آج کا دور ایٹمی ہے اور سائنس دان ہر بات پر تحقیق کرتے ہیں ۔ قرآن کے براہ راست شفائی اثرات سے کوئی منکر نہیں ۔ آپ سب نے دعا کی قوت کو آزمایا ہوگا ۔ جب بھی کوئی بزرگ ، مرشد ، دوست یا مریض خود کلام الہی پڑھ کر دعا کرتا ہے تو براہ راست اثر ہوتا ہے۔


بلا شبہ کارگر ہوتی ہیں۔ اپنی کتاب ” دی ہیلنگ ورڈز میں ڈاکٹر لیری دوسے نے دعاؤں کی شفا بخشی کے بارے میں ثبوت فراہم کئے ہیں ۔ سان فرانسسکو کے جنرل ہسپتال میں ۱۹۸۸ء میں قلب کے سخت بیمار ۳۹۳ مریضوں پر دعاؤں کے اثرات کے سلسلے میں ڈاکٹر ہائرڈ کی تحقیق کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ دس ماہ کے عرصے میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہونے والے ان مریضوں کو ۲ گروہوں میں منقسم کر دیا گیا تھا۔ گروپ الف میں وہ مریض شامل تھے جن کے لیے ان کے ہسپتال سےرخصت ہونے تک ان کے نام لے کر دعا کی جاتی تھی ۔ گروپ ب میں شامل مریضوں کے لیے دعا نہیں کی جاتی تھی دعا کرنے والوں کو دعا کرنے کا کوئی طریقہ بھی نہیں بتایا گیا تھا۔ اس عمل کے بڑے دلچسپ نتائج برآمد ہوئے ۔ ۔ یہ مشاہدہ بھی رہا کہ محبت اور خلوص کے ساتھ کی جانے والی دعائیں زیادہ موثر اور کارگر ثابت ہوئیں ۔ انجائنا کے جن مریضوں کی چاہنے والی بیویاں موجود تھیں ، ان کی اس تکلیف میں مجرد یا بیویوں سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کے مقابلے میں ۵۰ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ۔

دعاؤں کا اثر نیند کے دوران بھی جاری رہتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ سونے سے پہلے سورۂ اخلاص الفلق الناس یا البقرہ کی آخری آیات پڑھی جائیں


برطانیہ کے فزکس کے ایک پروفیسر کو دعا کی تاثیر کے بارے میں تحقیق کرنے کے لیے رقم دی گئی ہے ۔ پروفیسر اس رقم سے ۶۰۰ ایسے مریضوں کے تین گروپوں پر دعا کے اثرات کا مطالعہ کریں گے جن کے قلب کے آپریشن ہونے والےہیں۔

ان میں سے دو گروپوں کو بتایا جائے گا کہ ان کے لیے ایک جماعت خصوصی دعائیں کرے گی۔ ان میں سے ایک کے بارے میں دعا کی جائے گی اور ایک کے لیے کوئی دعا نہیں کی جائے گی ۔ تیسرے گروپ کو علم ہو گا کہ اس کے لیے دعا کی جا رہی ہے اور اس گروپ کی علامات پر ان نفسی و دماغی اثرات کا اندازہ لگایا جائے گا جو ان میں


اس احساس سے پیدا ہوں گے کہ ان کے لیے دعا کی جا رہی ہے۔ یہ تجربہ دو سال تک امریکہ کی تین یونیورسٹیوں میں کیا جائے گا اور اس کا مقصد صرف یہ دیکھنا ہے کہ دعا سے کیا ہوتا ہے ۔ اس سلسلے میں پہلےہی یہ بات تسلیم نہیں کی گئی ہے کہ اس تجربے کے نتائج مثبت ہوں گے ۔ ہم یہ تجربہ کھلے ذہن کے ساتھ کر رہے ہیں ۔ ہم دراصل اس کے ذریعے سے مذہب کی اس بات کی تصدیق کرنا چاہتے ہیں کہ دعا میں اثر ہوتا ہے ۔ مریضوں کا وہ گروپ جس کے لیے دعا نہیں کی جائے گی اور جس کا اسے علم ہی نہیں ہوگا ، انفرادی طور پر اپنے لیے دعا کر سکے گا۔ اس کے عزیز اقربا اور دوست احباب بھی اس کے لیے دعا کریں گے، کیونکہ ہم کسی کو دعا سے روک نہیں سکتے ۔ بقول پروفیسر وہ یہ ضرور جانتے ہیں کہ مریض کے قریبی رشتے دار بڑے خلوص اور خشوع و خضوع سے دعا کرتے ہیں اور ان کی دعائیں غیروں کے مقابلے میں زیادہ موثر اور مقبول ثابت ہوں گی ۔ ویسے انہیں قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔

جان ٹمپلٹن فاؤنڈیشن نے اس تحقیق کا اہتمام کیا ہے اور پروفیسر اس کے ٹرسٹی ہیں ۔ یقینا یہ ایک نہایت اچھی تحریک ہے۔ جس طرح دست شفا کی سائنسی حقیقت معرض علم میں آچکی ہے ، اب دعا کی سائنسی حقیقت بھی واضح ہو کر سامنے آجائے گی ۔ الفاظ دعا کی معنویت اور اس معنویت کا قلب و روح سے تعلق جب سائنس قائم کرے گی اور ضرور ایسا ہوگا تو پھر نہایت دلچسپ حقائق کا عنوان ہوگا اور بزرگانِ دین کی دعاؤں کی معنویت اور حقیقت سامنے آجائے گی


لندن ( ہومیو پیتھک ورلڈ رپورٹ ) دل کے مریضوں کے لیے نماز اور دعائیں اکسیر ہیں ایسے مریض جو دل کے امراض کے باعث اسپتال میں داخل ہیں اگر ان کے لیے کوئی دعا کرے تو وہ جلد صحت یاب ہوتے ہیں ۔ امریکی سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق جو نارتھ کیرولینا کے میڈیکل سینٹر میں کی گئی معلوم ہوا کہ ایسے مریض جنہوں نے اینجو پلاٹی کے متبادل روحانی طریقہ علاج اختیار کیا وہ 20 سے 30 فیصد کم پیچیدگیوں کا شکار ہوئے ہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ دل کے مریض کے لیے اگر دعا زیادہ کی جائے تو کارگر ثابت ہوتی ہے