علم الحدیث, علم و تعلیم, فتاوی رضویہ

من مات ولم یعرف کا حوالہ

مسئلہ۱۱ : از سیتا پورتا مسنگنج کوٹھی حضرت سید شاہ محمد صادق صاحب مرسلہ حضرت مولٰینا سید شاہ محمد صاحب قادری مدظلہ العالی ۹ جمادی الاخرٰی ۱۳۳۷ھ
حضرت مولانا المعظم والمکرم دامت برکاتہم العالیہ۔ پس از آداب و تسلیمات معروض کہ تحریر حامد علی کا جواب ابھی کچھ دینے کا ارادہ نہیں مگر اس میں جو ” من مات الخ ولوکان سالم الخ ومن اتاکم الخ ” مذکور ہیں اُن کی نسبت اُسی قدر دریافت طلب ہے کہ یہ احادیث ہیں اور ہیں تو کیسی؟ جواب سے جلد معزز ہوں۔

الجواب

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلّی علٰی رسولہ الکریم

بوالاملاحظہ حضرت بابرکت حامیِ سنت جناب مولانا مولوی حافظ سید محمد میاں صاحت دامت برکاتہم التسلیم مع التعظیم ۔ نیاز مند پیلی بھیت گیا ہوا تھا کل جمعہ کو واپس آیا۔ (۱) ” حدیث ” من مات ولم یعرف” ان لفظوں سے نہیں ہاں صحیح مسلم میں یوں ہے : من فارق الجماعۃ شبرافمات فمیتۃ جاھلیۃ ” ۱ ؎ جو ایک بالشت جماعت سے الگ ہوا پھر مر گیا تو جاہلیت کی موت مرے گا۔(ت)

( ۱ ؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب الملازمۃ عند ظہور الفتن الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۲۸ )

(۲) حدیث ” لوکنت مستخلفا ۲ ؎ (اگر میں کسی کو خلیفہ بناتا بغیر مشورہ کے تو عبداللہ بن مسعود کو بتاتا) (ت)

( ۲ ؎ سنن ابن ماجہ فضل عبداللہ بن مسعود ص ۱۳ وجامع ترمذی مناقب عبداللہ بن مسعود ۲/ ۲۲۲ )

ترمذی و ابن ماجہ میں بسند ضعیف ہے اور تورپشتی وطیبی و علی قاری و شیخ محقق دہلوی و شارح جامع صغیر علامہ مناوی نے تصریح کی کہ۔ ” المراد تامیرہ علٰی جیش بعینہ واستخلافہ فی امرمن امورہ حال حیاتہ لا الخلافۃ لان الائمۃ من قریش ۳ ؎ اس سے مراد کسی خاص لشکر کا امیر بنانا اور حالت حیات میں کسی امر میں جانشین مقرر کرنا ہے اس سے مراد خلافت نہیں کیونکہ خلفاء تو قریش میں سے ہیں۔ (ت)

( ۳ ؎ مرقاۃ المفاتیح تحت حدیث ۶۲۳۱ ۱۰/ ۶۰۴ و شرح الطیبی للمشکوۃ تحت حدیث ۶۲۳۱ ۱۱/ ۳۴۱ )
(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ۷۴۸۴ ۵ /۳۲۰ والتسیر شرح الجامع الصغیر ۲/ ۳۱۲)
(شرح مصابیح السنۃ تحت الحدیث ۴۷۴۰ مصطفٰی البازمکۃ المکرمۃ ۴/ ۱۳۵۱ )

امام تورپشتی وغیرہ نے فرمایا۔ ” لایجوز حملہ الا علی ذلک ” ۴ ؎ اس حدیث کو صرف اسی معنی پر محمول کرنا جائز ہے ( اس کے علاوہ پر محمول کرنا جائز نہیں) (ت)

( ۴؎ مرقاۃ المفاتیح تحت حدیث ۶۲۳۱ ۱۰/ ۶۰۴ و شرح الطیبی المشکوۃ تحت حدیث ۶۲۳۱ ۱۱/ ۳۴۱ )
(فیض القدیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث ۷۴۸۴ ۵ /۳۲۰ والتسیر شرح الجامع الصغیر ۲/ ۳۱۲)
( مرقاۃ المفاتیح تحت الحدیث ۶۲۳۱ المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۱۰/ ۶۰۴)

(۳) ” لوکان سالم مولٰی حذیفۃ بن الیمان حیا لا ستخلفہ ”

اگر حذیفہ بن یمان کا مولٰی سالم زندہ ہوتا تو میں اس کو خلیفہ مقرر کرتا (ت)

سائل معترض نے براہ خطا وضع کی ہے’ نہ سالم حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ تعالٰی عنہم کے مولٰی تھے نہ حذیفہ کا کوئی مولٰی سالم ، بفرض صحت قطعاً اس کی وہی مراد ہے جو حدیث ابن ام عبدرضی اللہ تعالٰی عنہ کی ہے۔
(۴) ” من اتاکم وامرکم جمیع صحیح مسلم میں ہے مگر یوں۔ ستکون ھنات وھنات فمن ارادان یفرق امرھذہ الامۃ وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائنا من کان۔۱ ؎ عنقریب فتنے ہوں گی تو جو شخص اس امت کی جمیعت کو توڑنے کا ارادہ کرے اس کو تلوار سے مارو چاہے وہ کوئی شخص ہو۔(ت)

( ۱ ؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب حکم من فرق امرالمسلمین وھو مجتمع قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۲۸ )

یا یوں۔ ” من اتاکم وامرکم جمیع علٰی رجل واحدیرید ان یشق عصاکم اویفرق جماعتکم فاقتلوہ ” ۲ ؎ جب تم ایک شخص کی امامت پر متفق ہو جاؤ تو جو شخص تمہارے اتحاد کی لاٹھی کو توڑنے یا تمہاری جماعت میں تفریق ڈالنے کی کوشش کرے تو اس کو قتل کردو۔(ت)

( ۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب حکم من فرق امرالمسلمین وھو مجتمع قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۲۸ )

لمعات میں ہے: ” ادفعوا من خرج علی الامام بالسیف و ان کان اشرف و افضل و ترونہ احق وافضل ” ۳ ؎ جو شخص امام کے خلاف خروج کرے تو تلوار کے ساتھ اس کا دفاع کرو اگرچہ وہ خروج کرنے والا اشرف وا فضل ہو اور تم اس کو زیادہ حقدار اور افضل سمجھتے ہو۔(ت) تو کلام خروج علی الامام میں ہے : ثبت العرش ثم القش ۔ کمال تحقیق ثابت ہو گئی اور گردوغٖبار چھٹ گیا

( ۳ ؎ لمعات التنقح شرح مشکوۃ المصابیح )

جہاں امام نہ ہو اسی صحیح مسلم میں حکم یہ ہے : ” قلت فان لم یکن لھم جماعۃ ولا امام قال فاعتزل تلک الفرق کلھا” ۱ ؎ میں نے کہا اگر اس وقت مسلمانوں کی کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو پھر کیا کرنا چاہیے۔ تو آپ نے فرمایا تمام فرقوں سے الگ ہوجاؤ۔(ت)

( ۱ ؎صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب ملازمۃ جماعت المسلمین الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/۱۲۷ )

حدیثِ اوّل اگر اسی لفظ سے ہو جو سائل نے نقل کیے تو معرفت فرع وجود ہے یعنی جب امام موجود ہو تو اسے امام نہ جاننا باعثِ موتِ جاہلیت ہے۔ یہ اس سے کیونکر مفہوم ہوا کہ ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی امام ہوگا۔ یہی معہذا حدیث متواتر کے مقابل احاد سے استناد سخت جہالت اور اجماع کے رد میں بعضی اشارات سے اپنے استنباط پر اعتماد اشد ضلالت۔ یہ جہال حدیث ” ان امر علیکم عبدمجدع یقودکم بکتاب اللہ فاسمعوالہ واطیعوا ” ۲ ؎ ( اگر تم پر ناک کٹے ہوئے غلام کو حاکم بنادیا جائے اور وہ تم کو کتاب اللہ کے مطابق حکم دے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ت) سے بھی استدلال کرتے ہیں۔ا ور قید قرشیت درکنار قیدِ حریت بھی اٹھانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس سے مراد یہ کہ خلیفہ کسی شہر پر غلام کو والی کردے تو اطاعت واجب ہے۔ نہ کہ خود غلام و خلیفہ ہو۔

( ۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیتہ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۱۲۵ )

مرقاۃ وغیرہ میں ہے: ای ان استعملہ الامام الاعظم علی القوم لاان العبدالحبشی ھوالامام الاعظم فان الائمۃ من قریش۔ ۳ ؎ یعنی اگر امام اعظم ( خلیفہ) کسی حبشی غلام کو کسی قوم پر عامل بنادے نہ یہ کہ حبشی غلام ہی امام اعظم ہوجائے، کیونکہ خلفاء تو قریش میں سے ہیں۔(ت)

( ۳ ؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح تحت حدیث ۳۶۶۳ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۷/ ۲۴۶ )

اقو ل : ( میں کہتا ہوں ۔ ت) حدیث سے بہتر حدیث کی تفسیر کیا ہوگی، خود حدیث نے اس معنی کی تصریح فرمائی، حاکم صحیح مستدرک اور بیہقی سنن میں امیر المومنین مولٰی علی سے راوی۔ الائمۃ من قریش وان امرت علیکم قریش عبداحبشیا مجدعا فاسمعوالہ واطیعوا ”۔۴؎ واللہ تعالٰی اعلم خلفاء قریش میں سے ہوں گے، اور اگر قریش تم پر نکٹے حبشی غلام کو امیر مقرر کردیں تو اس کی بھی بات سُنو اور اس کی اطاعت کرو۔(ت)

( ۴ ؎ المستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ موالاۃ قریش امان لاہل الارض دارالفکر بیروت ۴/ ۷۶)