مسئلہ ۱۷۰ تا ۱۷۹: ازلاہور ، انجمن نغمانیہ مرسلہ مولانا شاہ محرم علی صاحب چشتی صدر ثانی انجمن ۱۵ جمادی الاخرٰی ۱۳۳۰ھ
جناب مخدوم معظم من حضرت مولانا صاحب ادام اﷲ فیوضکم، بعد ہدیہ سلام سنت الاسلام گزارش، والانامہ رجسٹری شدہ پہنچا، مولانا مولوی حاجی خلیفہ تاج الدین احمد صاحب وہ افتخار نامہ لے کر غریب خانہ پر تشریف لائے باوجودیکہ حضرت مولانا محمد اکرام الدین صاحب بخاری کی طبیعت پندرہ بیس روز سے سخت ناساز ہے اسی وقت ان کو تکلیف دی گئی، اور وہ بھی تشریف لائے، عریضہ ہذا لکھنے کے وقت پر دو صاحبان غریب خانہ پر موجود ہیں، جناب نے جس روشن ضمیری اور امدادِ باطنی سے قلم برداشتہ اس قدر عجلت میں ایسا بے نظیر و مستند فتوی (عہ) بنصوصِ صریحہ رقم فرمایا ہے اس کو دیکھ کر میرے دونوں ہم جلیس حاضرِ وقت تاحال حالتِ وجد میں ہیں اور بار بار اللّھم بارک فی عمر ھم و واقبالھم و مجد ھم وایمانھم وعلوشانھم فی الدارین (اے اﷲ .ان کی عمر، بخت، بزرگی ، بلند شان اور ایمان میں دونوں جہانوں میں برکت عطا فرما۔ت) کا وظیفہ کررہے ہیں۔مجھے تاحال بغور مطالعہ کا موقع نہ ملا کیونکہ دونوں حضرات اس کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں اور دو دن تک اپنے پاس رکھنے کا اصرار کررہے ہیں ۔
عہ: یعنی فتوٰی مسمٰی بہ “الجلی الحسن فی حرمۃ ولد اخی اللبن “کہ کتاب النکاح میں ہے ۔یہ رسالہ فتاوی رضویہ مطبوعہ رضا فاونڈیشن لاہور کی جلد اا صفحہ ۴۸۷ پر ہے ۔
اب آنجناب براہ عنایت میرے سوالات کا جواب بھی ارشاد فرمائیں۔
(۱) کیا اس مسئلہ میں جو غلطی فتوٰی دینے والوں کو ہوئی وہ بہت کھلی اور فاش ہے یا بہت باریک قسم کی غلطی ہے جہاں اعلٰی درجہ کے علماء بھی مغالطہ میں پڑھ سکتے ہیں؟
(۲) بریلی، بدایوں اور پیلی بھیت وغیرہ کے مستند علماء اور ان کے فیض یافتوں پر کس حد تک آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنا چاہیے۔ یہ سوال ان بیچارے حنفی مسلمانوں کی طرف سے ہے۔ جو میری طرف علم کی آنکھیں نہیں رکھتے اور جن کی تعداد کثیر ہے۔
(۳) ہمارے ہم اعتقاد حنیف حنفیوں کے مدرسہ کے علماء و مدرسین کا مصالحہ ہمیں کہاں سے فراہم کرنا چاہیے۔
(۴) یہ کہ انجمن نعمانیہ کو تاحال جناب کی خدمت میں اس قدر خصوصیت حاصل نہیں ہوئی کہ کم از کم آنجناب کی تصانیف مبارکہ طبع شدہ انجمن کے کتب خانے کے لیے باوجود متواتر تحریری تقاضوں اور خود جناب خلیفہ تاج الدین احٌد صاحب کی زبانی تقاضوں کے بھی ارسال کی جائیں حالانکہ انجمن ان کا ہدیہ ادا کرنے پر بھی ہمیشہ تیار رہی ہے۔، اگر اس فتوٰی کے وقت “سیف المصطفٰی علٰی ادیان الافتراء” و ” نقد البیان لحرمۃ ابنۃ اخی اللبان” اور ” کاسرالسفیہ الواھم” کتب خانہ میں موجود ہوتیں تو یہی خاکسار ان کو نکال کے۔۔۔۔۔۔ کی خدمت میں پیش کردیتا۔
(۵) کیا جناب کی رائے میں حنیف حنفیوں کا مجموعی مرکز بنانے اور ان کو تقویت دینے کی ضرورت ہے یا نہیں، اگر ہے تو اس کی کیا تدبیر اور سامان جناب کے خیال میں ہیں؟
(۶) لامذہبوں کے پنجاب میں بالخصوص اور بدمذہبوں کے بالعموم حملوں کی مدافعت کی کیا تدابیر جناب کے خیال مبارک میں ہیں؟
(۷) عقائدِ حنفیہ کے متعلق جناب مولانا مولوی محمد حامد رضا خاں صاحب کی خدمت میں بالمشافہ گفتگو ہوکر قرار داد ہونے کے بعد بھی مسودہ عقائد حنفیہ آنجناب کی طرف سے نہ بھیجا ، اور اس کے نہ پہنچنے پر مجبوراً یہاں سے مسودہ تیار کرکے آنجناب کی خدمت میں بھیجا گیا جس کی کوئی ترمیم و اصلاح یا تصدیق تو درکنار اس کی رسید بھی مرحمت نہ ہوئی۔ اس کم توجہی کی اصل وجہ کیا ہے؟ اب عقائد حنفیہ جو حسب مشورہ علماء ہم لوگوں نے شائع کیے ہیں ارسالِ خدمت ہیں وہ بھی اس عریضہ کے ساتھ منسلک ہیں ، اگر وہ صحیح ہیں تو اس پر دستخط تصدیق فرما کر واپس فرمائیں، دوسری زائد کاپی اپنے پاس رکھیں، ورنہ اصلاح فرما کر واپس فرمائیں۔
(۸) لامذہبوں یا بدمذہبوں کے ساتھ اگر زبانی مباحثہ کی ضرورت پڑے تو آنجناب کون کون سے علماء کو اس قابل سمجھتے ہیں جو علاوہ قابلیت کے تکلیف سفر وغیرہ بھی خالصاً للہ اٹھانے کے لیے امادہ ہوں۔
(۹) ایک فہرست ایسے علماء اسلام کی جو بالکل آپ کے ہم خیال اور مستند ہوں، مع ان کے پورے پتہ کے کس لیے تاحال باوجود جناب مولانا مولوی محمد حامد رضا خان صاحب کی خدمت میں گزارش کرنے کے نہیں پہنچی، اور کب تک وہ بہم پہنچ سکتی ہے؟
(۱۰) باوجود انجمن نعمانیہ کی آنجناب کے ساتھ تمام ہندوستان میں خصوصیات مشہور ہوجانے اور اراکین انجمن کو آنجناب کے ساتھ ایسا دلی خلوص اور نیاز ہونے کے احباب کی طرف سے کسی خاص التفات کا اس کی نسبت ظاہر نہ ہونا کون سی وجوہات پر مبنی ہے ، اگر انجمن میں کوئی امور قابل اصلاح ہیں تو وہ کیا ہیں۔
الجواب :
(۱) نظر بحال زمانہ تو یہ غلطی نہایت دقیق و عمیق بات میں خطاء فی الکفر کے قبیل سے ہونی چاہیے کہ مولوی اسحق صاحب دہلوی کے شاگرد رشید مولوی عالم صاحب مراد آبادی نے کھائی۔ پھر غیر مقلدوں کے شیخ الکل فی الکل مجتہد العصر نذیر حسین صاحب نے کھائی، پھر ایک مدعی ، انا ولا غیر مولوی بردوانی صاحب نے کھائی اور ایک طویل تحریر بزعم خود اس کے اثبات میں لکھی، پھر زمانہ حال میں ان حصرات کے آڑے آئی۔ مگر نظر بواقع وہ بہت کھلی فاحش جبیں میں ہمارے سُنی ذی علم حضرات کا وقوع صرف وہی جواب رکھتا ہے جو حضرت سید الطائفہ جنید بغدادی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا جب کہ اس جناب سے سوال ہوا : اَیزنی العارف ( کیا عارف زناء کرسکتا ہے؟ت) دیر تک سربگر بیاں رہے، پھر سر اٹھا کر فرمایا : ” وکان امر اﷲ قدراً مقدورا ۱ ؎۔ ( اﷲ تعالٰی کا حکم تو ہو کر رہے گا)
(۱ القرآن الکریم ۳۳/ ۳۸)
چونکہ قضا آید طبیب ابلہ شود اذا جاء القدر عمی البصر واذا جاء القضاء ضاق الفضاء (حکم تقدیر آتا ہے تو آنکھ اندھی ہوجاتی ہے اور حکمِ ربانی کے وقت فضا تنگ ہوجاتی ہے)
نسأل اﷲ العفووالعافیۃ ، انا اﷲ وانا الیہ راجعون لا عاصم الیوم الامن رحم ربی۔ ہم اﷲ تعالٰی سے در گزر اور سلامتی طلب کرتے ہیں، بے شک ہم اﷲ تعالٰی کا مال ہیں اور اس کی طرف لوٹنے والے ہیں آج وہی بچے گا جس پر اللہ تعالٰی رحم فرمائے ۔ت) لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم ( نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی اور عظمت والے معبود کی توفیق سے۔ت) مولانا اس فتوٰی باطلہ کا ابقاء ہر گز ٹھیک نہیں، باطل کا اعدام و افناء چاہیے نہ کہ تحفظ وا بقاء بدمذہبوں گمراہوں سے جو اباطیل خارج از مسائل مذہب واقع ہوں ان کی اشاعت مصلحتِ شرعی ہے کہ مسلمانوں کا ان پر سے اعتبار اٹھے۔ ان کی ضلالات میں بھی اتباع نہ کریں۔
حدیث شریف میں ہے : اترغبون عن ذکر الفاجر متی یعرفہ الناس اذکرواللفاجر بما فیہ یحذرہ الناس ۱ ؎۔ کیا فاجر کی برائیاں بیان کرنے سے پرہیز کرتے ہو، لوگ اسے کب پہچانیں گیں، فاجر میں جو برائیوںہیں بیان کرو کہ لوگ اس سے حذر کریں۔
( ۱ ؎ نوادرالاصول الاصل فی ذکرالفاجر بما فیہ للتحذیرمنہ دارصادر بیروت ص ۲۱۳)
اور اہلسنت سے بتقدیرِ الہی جو ایسی لغزش ِ فاحش واقع ہو اس کا اخفاء واجب ہے کہ معاذ اﷲ لوگ ان سے بداعتقاد ہوں گے تو جو نفع ان کی تقریر اور تحریر سے اسلام و سنت کو پہنچتا تھا اس میں خلل واقع ہوگا۔ اس کی اشاعت اشاعت ِ فاحشہ ہے۔ اور اشاعتِ فاحشہ بنصِ قرآن عظیم حرام، قال اﷲ تعالٰی : ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ فی الذین اٰمنوالھم عذاب الیم فی الدنیا والاخرۃ ۲ جو لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں فاحشہ کی اشاعت ہو ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔خصوصاً جب کہ وہ بندگانِ خدا حق کی طرف بے کسی عذرو تامل کے رجوع فرماچکے۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : من عیراخاہ بذنب لم یمت حتی یعملہ ۳ ؎۔ جس نے اپنے بھائی کو کسی گناہ کی وجہ سے عار دلایا وہ مرنے سے قبل اسی گناہ میں ضرور مبتلا ہوگا۔
( ۱؎ القرآن الکریم ۲۴ /۱۹)
( ۳ ؎ جامع الترمذی ابواب صفۃ القیمٰۃ باب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۷۳)
قال ابن المنیع وغیرہ المرادذنب تاب عنہ، قلت وقد جاء کذا مقید فی الروایۃ کما فی الشرعۃ۴ ثم فی الحدیقۃ الندیۃ۔ ابن منیع وغیرہ کہتے ہیں کہ گناہ سے مراد وہ ہے کہ اس سے توبہ کرلی گئی ہو۔ میں کہتا ہوں شرعہ اور حدیقہ میں روایت میں توبہ کی قید لگی ہوئی ہے۔ت)
( ۴ ؎ شرح شرعۃ الاسلام فصل فی سنن الکلام وآدابہ مکتبہ الاسلامیہ کوئٹہ ص ۳۳۳)
ولہذا ابتاکید اکیدگزا عمائد و مشاہیر علمائے اہلسنت و جماعت جس امر میں متفق ہیں یعنی عقائد مشہورہ متداولہ ان میں ہمارے عام بھائی بلادغدغہ ان کے ارشادات پر عامل ہوں۔ یوں ہی وہ فرعیات جو اہل سنت اور ان کے مخالفین میں مابہ الامتیاز ہو رہے ہیں جیسے مجلس مبارک و فاتحہ و عرس واستمداد و نداء وامثالہا باقی رہیں فرعیات فقہیہ جن میں وہ مختلف ہوسکتے ہیں خواہ بسبب اختلاف روایات ، خواہ بوجہ خطاء فی الفکر یا بسبب عجلت وقلتِ تدبر یا بوجہ کمی ممارست ومزاولتِ فقہ ، ان میں فقیر کیا عرض کرے ؎
مرا سوزیست اندر دل اگر گویم زباں سوزد وگردم درکشم ترسم کہ مغز استخواں سوزد ( میرے دل میں جلن ہے اگر کہتا ہوں تو زبان جلتی ہے اور اگر چپ رہوں تو ڈر ہے کہ ہڈیوں کا مغز جل جائے گا، ت)
آہ آہ آہ آہ! ہندوستان میں میرے زمانہ ہوش میں دو بندہ خدا تھے جن پر اصول و فروع و عقائد و فقہ سب میں اعتمادِ کلی کی اجازت تھی۔ اول اقدس حضرت خاتم المحققین سیدنا الوالدقدس سرہ الماجد حاش ﷲ نہ اس لیے کہ وہ میرے والد و والی ولی نعمت تھے بلکہ اس لیے کہ الحق و الحق اقول، الصدق واﷲ یحب الصدق ( یہ حق ہے او ر میں حق کہتا ہوں، یہ صدق ہے اور اﷲ تعالٰی صدق کو محبوب رکھتا ہے۔ت) میں نے اس طبیبِ صادق کا برسوں مطب پایا اور وہ دیکھا کہ عرب و عجم میں جس کا نظیر نظر نہ آیا اس جناب رفیع قدس سرہ البدیع کو اصولِ حنفی سے استباطِ فروع کا ملکہ حاصل تھا۔ اگرچہ کبھی اس پر حکم نہ فرماتے، مگر یوں ظاہر ہوتا تھا کہ نادرو دقیق و معضل مسئلہ پیش نہ ہوا کہ کتب متداولہ میں جس کا پتہ نہیں، خادم کمینہ کو مراجعتِ کتب و استخراج جزئیہ کا حکم ہوتا اور ارشاد فرماتے ” ظاہراً حکم یوں ہونا چاہیے ” جو وہ فرماتے وہی نکلتا، یا بعض کتب میں اس کا خلاف نکلتا تو زیادتِ مطالعہ نے واضح کردیا کہ دیگر کتب میں ترجیح اسی کو دی جو حضرت نے ارشاد فرمایا تھا۔ عجم کی حالت تو آپ ملاحظہ ہی فرماتے ہیں۔ عرب کا حال یہ ہے کہ ا س جنابِ قدس سرہ کا یہ ادنٰی خوشہ چیں و زلہ رہا، جو مکہ معظمہ میں اس بار حاضر ہوا، وہاں کے اعلم العلماء وافقہ الفقہاء سے چھ چھ گھنٹے مذاکرہ علمیہ کی مجلس گرم رہتی ، جب انہوں نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ فقہ حنفی کے دو حرف جانتا ہے اپنے زمانہ کے عہدِ افتاء کے مسائل کثیرہ جن میں وہاں کے علماء سے اختلاف پڑا یا اشتباہ رہا، اس ہیچ میر ز پر پیش فرمانا شروع کیے جس مسئلہ و حکم میں اس احقر نے انکی موافقت عرض کی آثار بشاشت ان کے چہرہ نورانی پر ظاہر ہوئے اور جس میں عرض کردیا کہ فقیہ کی رائے میں حکم اس کے خلاف ہے، سماعِ دلیل سے پہلے آثارِ حزن نمایاں ہوئے اور خیال فرمالیتے کہ ہم سے اس حکم میں لغزش واقع ہوئی یہ اسی طبیبِ حاذق کی کفش برادری کا صدقہ ہے۔
(۲) دوم والا حضرت تاج الفحول محبِ رسول مولانا مولوی عبدالقادر صاحب قادری بدایونی قدس سرہ الشریف، پچیس برس فقیر کو اس جناب سے بھی صحبت رہی ان کی سی وسعتِ نظر وقوتِ حفظ وتحقیق انیق ان کے بعد کسی میں نظر نہ آئی۔ ان دونوں آفتاب و ماہتاب کے غروب کے بعد ہندوستان میں کوئی ایسا نظر نہیں آتا جس کی نسبت عرض کروں کہ آنکھیں بند کرکے اس کے فتوے پر عمل ہو۔
فقیر نے جواب میں عمائد و مشاہیر علمائے اہلسنت کی تخصیص کی اور جناب نے فیض یافتوں سے بھی سوال فرمایا ہے فیض کے لیے عرض عریض ہے۔ میں یہاں مطلقاً اتنا بھی عرض نہیں کرسکتا جو حضرات عمائد کی نسبت گزارش کیا۔
مولانا ! اس تقریر فقیر کو اصول کے ایک اختلافی مسئلہ میں اس قول پر محمول نہ فرمائیں کہ متکلم اپنے عمومی کلام میں داخل نہیں ہوتا۔ حاشا فقیر تو ایک ناقص ، قاصر، ادنٰی طالب علم ہے ، کبھی خواب میں بھی اپنے لیے کوئی مرتبہ علم قائم نہ کیا۔ اور بحمدہ تعالٰی بظاہر اسباب یہی ایک وجہ ہے کہ رحمتِ ا لہٰی میری دستگیری فرماتی ہے، میں اپنی بے بضاعتی جانتا ہوں، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں، مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنے کرم سے میری مدد فرماتے ہیں اور مجھ پر علم حق کا افاضہ فرماتے ہیں، اور انہیں کے رب کریم کے لیے حمد ہے، اور ان پر ابدی صلوۃ والسلام۔
(۳) مدرس کے لیے ذی علم، ذی فہم، سنّی صحیح العقیدہ ہونا کافی ہے صحت عقیدہ کی جانچ کی نسبت جواب نمبر ہفتم میں گزارش ہوگی۔، اور یہ لوگ خود معروف نہ ہوں تو اہالی نمبر نہم کی معرفت لیے جائیں اور ان سے عرض کی جائے کہ حضرات کسی سفارش ، خوشامد، رعایت پر کاربندی نہ فرمائیں المستشار موتمن پر۔
(۴) نیاز مند کی چار سو تصانیف سے صرف کچھ اوپر سو اب تک مطبوع ہوئیں اور ہزاروں کی تعداد میں بلامعاوضہ تقسیم ہوا کیں جس کے سبب جو رسالہ چھپا جلد ختم ہوگیا۔ بعض تین تین چار بار چھپے۔ انجمن نعمانیہ میں غالباً رمضان المبارک ۱۳۲۰ ھ میں اس وقت تک کے تمام موجودہ رسائل میں نے خود حاضر کیے ہیں اور انجمن سے رسید بھی آگئی۔ ان کی فہرست اب فقیر کو یاد نہیں، غالباً دفتر انجمن میں ہو۔ اگر وہ معلوم ہوجائے تو بقیہ رسائل جو ادھر چھپے اور مطبع میں ان کے نسخے رہے، بالراس والعین نذر انجمن بلا معاوضہ ہوں گے۔ دو برس سے عنانِ مطبع ایک انجمن نے اپنے ہاتھ میں لی ہے جس نے طریقہ فقیر تقسیم کثیر بلا عوض کو منسوخ کردیا پھر بھی انجمنِ نعمانیہ کے لیے ہدیہ حاضر کرنے سے اس انجمن کو بھی انکار نہیں ہوسکتا۔
(۵) خالص اہل سنت کی ایک قوت اجتماعی کی ضرور ضرورت ہے ، مگر اس کے لیے تین چیزوں کی سخت حاجت ہے۔ (۱) علماء کا اتفاق (۲) تحمل ساق قدر بالطاق۔ (۳) امراء کا اتفاق لوجہ الخلاق۔
یہاں یہ سب باتیں مفقود ہیں، فانّا اﷲ وانّا الیہ راجعون، ہمارے اغنیاء نام چاہتے ہیں، معصیت بلکہ صریح ضلالت میں ہزاروں اڑادیں، خزانوں کے منہ کھول دیں، یونیورسٹی کے لیے کتنی جلد تیس لاکھ جمع ہوگیا۔ مدرسہ دیوبند کو ایک عورت نے پچاس ہزار دے دیا، مگر کسی سُنی مدرسہ کو بھی یہ دن نصیب ہوا؟ اوّل تو تائیدِ دین و مذہب جن کا نام لیے گھبرائیں گے، میاں ! یہ ان مولویوں کے جھگڑے ہیں اور شرما شرمی خفیف و ذلیل چندہ بھی مقرر کیا تو۔ لایؤدہ الیک الا مادمت علیہ قائما ۱ ؎۔ وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک سر پر سوار ہو۔(ت)
(۱ القرآن الکریم ۳/ ۷۵)
بلکہ تقاضا کیجئے تو بگڑیں اور ڈھیل دیجئے تو سورہیں، ادھر ہمارے کارکنوں کو وہ چال وہ جال معلوم نہیں جس سے وہابیہ خذلھم اﷲ تعالٰی ۔ (اﷲ تعالٰی ان کو رسوا کرے، ت) بندگانِ خدا کو چھل کر نہ صرف اپنے ہم مذہبوں بلکہ اپنے ہم مشربوں سے روپیہ اینٹھتے ہیں، اس کے لیے ریا و نفاق ومکر و خداع و بے حیائی و بے عزتی لازم ہے، وہ نہ آپ میں ہے نہ آپ کی شریعت اس کی اجازت دے، پھر کہیے کام کیوں کر چلے۔ ابھی ایک نمبری وہابی ایک با اثر صوفی کے یہاںچند لینے گیا انہوں نے فرمایا سنا ہے تم احمد رضا کے مخالف ہو، کہا حاشا میں تو اسی درکا کتّا ہوں ، کتا بن کر پانچ سو لے آیا۔
علماء کی یہ حالت ہے کہ رئیسوں سے بڑھ کر آرام طلب ہیں، حمایتِ مذہب کے نام سے گھبراتے ہیں، جو بندہ خدا اپنی جان اس پر وقف کرے اسے احمق بلکہ مفسد سمجھتے ہیں۔ مداہنت ان کے دلوں میں پیری ہوئی ہے۔ ایامِ ندوہ میں ہندوستان بھر کا تجربہ ہوا۔ عباراتِ ندوہ سُن کر ضلالت ضلالت کی رَٹ لگادیں۔ اور جب کہئے حضرت لکھ دیجئے ، بھائی لکھواؤ نہیں، ہمارے فلاں دوست برا مانیں گے۔ہمارے فلاں استاد کو بُرا لگے گا، بہت کو یہ خیال کہ مفت میں اوکھلی میں سردے کر موسل کون کھائے، بدمذہب دشمن ہوجائیں گے، دانتوں پر رکھ لیں گے۔ گالیاں، پھبتیاں اخباروں اشتہاروں میں چھاپیں گے، طرح طرح کے بہتان، افتراء اچھالیں گے۔ اچھی بچھی جان کو کون جنجال میں ڈالے۔ بعض کو یہ کد کہ حمایتِ مذہب کی توصلح کھلی نہ رہے گی۔ ہر دل عزیزی جا کر پلاؤ، قورمے، نذرانہ میں فرق آئے گا۔ یا کم از کم آؤ بھگت تو عام نہ رہے گی۔
اتفاقِ علماء کا یہ حال کہ حسد کا بازار گرم، ایک کا نام جھوٹوں بھی مشہور ہوا تو بہترے سچے اس کے مخالف ہوگئے اس کی توہین تشنیع میں گمراہوں کے ہم زبان بنے کہ ” ہیں” لوگ اسے پوچھتے ہیں اور ہمیں نہیں پوچھتے۔ اب فرمائیں کہ وہ قوم کواپنے میں کسی ذی فضل کو نہ دیکھ سکے، اپنے ناقصوں کو کامل قاصروں کو ذی فضل بنانے کی کیا کوشش کرے گی۔حاشا یہ کلیہ نہیں مگر للاکثر حکم الکل ( اکثر کا حکم وہی ہوتا ہے جو کل کا ہوتا ہے۔ت)
الحمدﷲ یہاں متکلم عموم کلام سے ضرور خارج ہے۔ ولوجہ ربی الحمد ابدا ( میرے پروردگار کی ذات کے لیے ہمیشہ حمد ہے۔ت) فقیر میں لاکھوں عیب ہیں مگر میرے رب نے مجھے حسد سے بالکل پاک رکھا ہے، اپنے سے جسے زیادہ پایا اگر دنیا کے مال و منال میں زیادہ ہے قلب نے اندر سے اسے حقیر جانا، پھر حسد کیا حقارت پر؟
اور اگر دینی شرف و افضال میں زیادہ ہے اس کی دست بوسی و قدم بوسی کو اپنا فخر جانا، پھر حسد کیا اپنے معظمِ بابرکت پر ؟ اپنے میں جسے حمایتِ دین پر دیکھ ااس کے نشر فضائل اور خلق کو اس کی طرف مائل کرنے میں تحریراً و تقریراً ساعی رہا۔ اس کے لیے عمدہ القاب وضع کرکے شائع کیے جس پر میری کتاب ” المعتمدالمستند” وغیرہ شاہد ہیں، حسد شہرت طلبی سے پیدا ہوتا ہے اور میرے رب کریم کے وجہِ کریمہ کے لیے حمد ہے کہ میں نے کبھی اس کے لیے خواہش نہ کی بلکہ ہمیشہ اس سے نفور اور گوشہ نشینی کا دلدادہ رہا۔ جلسوں انجمنوں کے دوروں سے دور رہنا انہیں دو وجہ پر تھا۔ اول حُبِّ خمول دوم ؎
زمانہ می نخروعیب و غیر از نیم نیست جا برم خر خود را بایں کساد متاع ۱ ؎۔ ( زمانہ عیب دار کو خریدتا نہیں اور میرے پاس اس کے علاوہ نہیں ہے۔ اس کھوٹے سامان کے ساتھ اپنے گدھے کو کہاں لے کر جاؤں۔ت)
اور اب تو سالہا سال سے شدت ہجوم کا روانعدامِ کلی فرصت و غلبہ ضعف نقاہت نے بالکل ہی بٹھا دیا ہے، جسے میرے احباب نے نازک مزاجی بلکہ بعض حضرات نے غرور و تکبر پر حمل کیا۔ اور اﷲ اپنے بندہ کی نیت جانتا ہے، بالجملہ اہل سنت سے امور ثلٰثہ مفقود ہیں پھر فرمائیں صورت کیا ہو۔
دفع گمراہانِ میں جو کچھ اس حقیر ہیچ میرز سے بن پڑتا ہے بحمداﷲ تعالٰی ۱۴ برس کی عمر سے اس میں مشغول ہے۔ اور میرے رب کریم کے وجہِ کریم کو حمد کہ اس نے میری بساط، میرے حوصلے، میرے کاموں سے ہزاروں درجہ زائد اس سے نفع بخشا۔ باقی جو آپ چاہتے ہیں اسی قوت متفقہ پر موقوف ہے جس کا حال اوپر گزارش ہوا۔ بڑی کمی امراء کی بے توجہی اور روپے کی ناداری ہے، حدیث کا ارشاد صادق آیا کہ : ” وہ زمانہ آنے والا ہے کہ دین کا کام بھی بے روپیہ کے نہ چلے گا ۱ ؎۔
(۱ کشف الخفاء حدیث ۳۲۶۹ دارلکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۳۶۶)
کوئی باقاعدہ عالی شان مدرسہ تو آپ کے ہاتھ میں نہیں ، کوئی اخبار پرچہ آپ کے یہاں نہیں، مدرسین ، واعظین ، مناظرین، مصنفین کی کثرت بقدرِ حاجت آپ کے پاس نہیں۔ جو کچھ کرسکتے ہیں فارغ البال نہیں۔ جو فارغ البال ہیں وہ اہل نہیں۔ بعض نے خونِ جگر کھا کر تصانیف کیں تو چھپیں کہاں سے۔ کسی طرح سے کچھ چھپا لو کی اشاعت کیونکر ہو۔ دیوان نہیں، ناول نہیں کہ ہمارے بھائی دو آنے کی چیز کا ایک روپیہ دے کر شوق سے خریدیں، یہاں تو سر چپیٹنا ہے روپیہ وافر ہو تو ممکن کہ یہ سب شکایت رفع ہوں۔
اول عظیم الشان مدارس کھولے جائیں باقاعدہ تعلمیں ہوں۔
ثانیاً طلبہ کو وظائف ملیں کہ خواہی نخواہی گروید ہ ہوں۔
ثالثاً مدرسوں کی بیش قرار تنخواہیں ان کی کارروائیوں پر دی جائیں کہ لالچ سے جان توڑ کر کوشش کریں۔
رابعاً طبائع طلبہ کی جانچ ہو جو جس کام کے زیادہ مناسب دیکھا جائے معقول وظیفہ دے کر اس میں لگایا جائے۔ یوں ان میں کچھ مدرسین بنائے جائیں، کچھ واعظین کچھ مصنفین، کچھ مناظرین، پھر تصنیف و مناظرہ میں بھی توزیع ہو، کوئی کسی فن پر کوئی کسی پر ۔
خامساً ان میں جو تیار ہوتے جائیں تنخواہیں دے کر ملک میں پھیلائے جائیں کہ تحریراً وتقریراً وعظا و مناظرۃً اشاعت دین و مذہب کریں۔
مولانا ! اس گئی گزری حالت میں تو کوئی بفضلہ تعالٰی آپ کے سامنے آ نہیں سکتا۔ دور سے غُل مچاتے اور وقت پر دم دباتے ہیں۔ جب آپ کے اہل علم یوں مل میں پھیلیں اس وقت کون ان کی قوت کا سامنا کرسکتا ہے۔
سادساً حمایت ( مذہب) وہ رَدِّ بد مذہباں میں مفید کتب و رسائل مصنفوں کو نذرانے دے کر تصنیف کرائے جائیں۔
سابعاً تصنیف شدہ اور نو تصنیف رسائل عمدہ اور خوش خط چھاپ کر ملک میں مفت شائع کیے جائیں۔
ثامناً شہروں شہروں آپ کےسفیرنگران رہیں جہاں جس قسم کے واعظ یا مناظر یا تصنیف کی حاجت ہو آپ کو اطلاع دیں۔ آپ سر کوبی اعداء کے لیے اپنی فوجیں میگزین رسالے بھیجتے رہیں۔
تاسعاً جو ہم میں قابل کار، موجود اور اپنی معاش میں مشغول ہیں وظائف مقرر کرکے فارغ البال بنائے جائیں اور جس کام میں انہیں مہارت ہو لگائے جوئیں۔
عاشراً آپ کے مذہبی اخبار شائع ہوں اور وقتاً فوقتاً ہر قسم کے حمایت مذہب ممیں مضامین تمام ملک میں بقمیت و بلا قیمت روزانہ یا کم از کم ہفتہ وار پہچاتے رہیں۔
میرے خیال میں تو یہ تدابیر ہیں، آپ اور جو کچھ بہتر سمجھیں افادہ فرمائیں، بلکہ مولانا ! رپیہ ہونے کی صورت میں اپنی قوت پھیلانے کے علاوہ گمراہوں کی طاقتیں توڑنا بھی اِن شاء اﷲ العزیز آسان ہوگا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ گمراہیوں کے بہت سے افراد صرف تنخواہوں کے لالچ سے زہر اگلتے پھرتے ہیں۔ ان میں جسے دس کی جگہ بارہ دیجئے اب آپ کی سی کہے گا، یا کم از کم بہ لقمہ درختہ بہ تو ہوگا۔
دیکھئے حدیث کا ارشاد کیسا صادق ہے کہ: ” آخر زمانہ میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے چلے گا۔۱ ؎۔
(۱ کشف الخفاء حدیث ۳۲۶۹ دارلکتب العلمیہ بیروت ۲/ ۳۶۶)
اور کیوں نہ صادق ہو کہ صادق و مصدوق صلے اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا کلام ہے، عالم ما کان و مایکون صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خبرہے۔
(۷) مسودہ عقائد حنفیہ کہ یہاں بنظر استصواب آیا تھا بعد بعض ترمیمات ضرور یہ گیا بھی، اور انجمن کو پہنچا بھی۔ اور انجمن نے اس میں اکثر ترمیمات کو قبول فرمایا بھی، اس پر گواہ خود یہ مسودہ تازہ ہے کہ جناب نے اب ارسال فرمایا ہے، یہ اکثر انہیں ترمیمات پر مشتمل ہے جو فقیر نے ایک نہایت سرسری نگاہ میں عرض کی تھیں، مگر جناب کا یہ فرمانا بھی کہ ترمیم یا تصدیق درکنار تو نے رسید بھی نہ بھیجی بجائے خود ہے۔ واقعی فقیر ترمیم کرکے بھیج چکا اور واقعی ترمیم کرکے فقیر نے نہ بھیجا۔ اس معمہ کا حل یہ ہے کہ فقیر بے حد عدیم الفرصت ہے خاطر خواہ ترمیمیں ( مگر دفترے دیگر املاکند) کی مصداق ہوتیں۔ اس کے لیے وقت نہ ملتا تھا ایک ضرور شدیدہ سے پیلی بھیت جانا ہوا۔ حضرت مولانا محدث سورتی دامت برکاتہم نے اس کا ذکر فرمایا۔ فقیر نے عرض کی وقتِ فرصت سن لوں گا۔ نصف شب کے قریب وہاں کی ضروریات اور احباب کی ملاقات سے فارغ ہو اس وقت وہ مسودہ فقیر کو سُنایا گیا، جا بجا تبدیلات و نقص و زیادات و محو واثبات عرض کرتا گیا اور حصرت ممدوح تحریر فرماتے گئے۔ ۱۸ صفحہ تک اس وقت ہوا پھر صبح بعدِ فراغ وظائف ، جب کہ ریل کا وقت قریب تھا۔ بقیہ بعجلتِ تام تمام کیا۔ مولوی ابوالعلاء امجد علی صاحب سلمہ بھی ہمراہ تھے ان سے گزارش کی کہ آپ کے پاس بھی ایک مسودہ آیا ہوا ہے یہی ترمیمات آپ بھی لکھ بھیجنا، اور اتفاق رائے فقیر سے بھی انجمن مبارک کو اطلاع دیں۔ مگر بریلی آکر مولوی صاحبِ کو کثرت کار میں یاد نہ رہا۔ یوں وہ اصلاحاتِ فقیر کی طرف سے پہنچیں بھی اور نہیں بھی۔
اب اوّلاً اس مسودہ ثانیہ میں بعض تو اغلاطِ کاتب ہیں انہیں فقیر نے بنادیا ہے۔ ان میں بعض بہت ضروری اللحاظ ہیں۔
ثانیاً بعض نئی ترمیمات اور خیال میں آئی ہیں، خواہ عبارت سابقہ پر، یا اب جو مسودہ ثانیہ میں خود انجمن نے محو واثبات کیا اس پر۔
ثالثاً اصلاحاتِ سابقہ میں سے اکثر تو قبول فرمائی گئیں مگر بعض وہ بھی ہیں کہ اس مسودہ ثانیہ میں بھی متروک ہوئیں یا نظر سے رہ گئیں خصوصاً ان میں بعض کا نہ پانا زیادہ مشوش خیال ہوسکتا ہے کہ بحال عمرالاقل رعایت و مداہنت کا سخت پہلو نکلتا ہے۔ ہاں سہواً ترک ہوا تو “رفع عن امتی الخطاء والنیسان ۱ ؎۔ ( میری امت سے خطاء و نسیان کو معاف کردیا گیا ہے۔ت) ارشادِ والا ہے۔
رابعاً ان سب کے بعد بھی بحکم ” المستشار مؤتمن” ۲ ؎۔ (جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔ت)
( ۱ ؎ کشف الخفاء حدیث ۱۳۹۱ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۸۲)
( ۲ ؎ سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی المشورۃ آفتاب عالم پریس لاہور ۲ /۳۴۳)
(جامع الترمذی ابواب الادب باب ماجاء ان المستشارمؤتمن امین کمپنی دہلی ۲ /۱۰۵)
مجھے کچھ عرض کرنا ہے ۔ یہ سب مقاصد اجمالاً یہاں گوش گزار کروں۔
عرضِ اخیر
خوں شدم زاندیشہ انجام ایں معیارِ حق کایں ہمہ اصلاحہا گرہست وحاصل شدچہ شد
ہر کہ چوں من آزمایدروشناسہ ہمچومن ورنہ گرابلیس آدم روئے شامل شدچہ شد
( اس معیار ِ حق کے انجام کے اندیشہ سے میں خون ہوگیا ہوں۔ یہ تمام اصلاحات اگر حاصل ہوگئیں تو کیا ہوا، جو میری طرح آزمائے وہ میری طرح آشنا ہوگا۔ ورنہ اگر ابلیس انسانی شکل اختیار کرکے شامل ہوگیا تو کیا ہوا۔ت)
” من جرّب بتجربتی عرف معرفتی ” ۔
جس نے میری طرح آزمایا وہ میری طرح جان لے گا۔
مولانا ! اس مسودہ سے بعض عقائدِ اہلسنت پر عوام کو صرف اطلاع دینا مقصود نہیںبلکہ ایک معیارِ سنیت قائم فرمانا ہے کہ اس پر تصدیق کردے ہمارا ہے۔ع
چشم و دل را از دست نور سرور
( اس سے آنکھ اور دل کو خوشی کا نور حاصل ہوگا۔ت)
اور جو نہ مانے بیگانہ ہے ۔ع
سایہ اش دُور باد ازما دور
(اس کا سایہ ہم سے دُور ہے۔ت)
مگر یہ ہزار افسوس یہ گزارش کہ یہ غرض اس مسودہ سے ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی جب تک وہ ضلالتیں کہ آج کل مدعیانِ اسلام بلکہ مدعیانِ سنیت میں پھیلی ہوئی ہیں۔ تصریحاً ان کا ذکر اور ان سے تبریہ نہ ہو۔
مولانا ! مجھے تجربہ ہوا ہے، ایک دو نہیں صدہا ایسے ابلیس آدم روملیں گے کہ ان مسائل پر دستخط کردیں گے اور وہ نہ صرف سنیت بلکہ اسلام کے کٹر دشمن اور آپ کے جرگہ حق میں شامل ہو کر آپ کے مذہب کے بیخ کن ہوں گے۔ اسی لیے تو ائمہ کرام نے ایسوںکے اسلام کو کلمہ شہادت ہر گز کافی نہ جانا، جب تک اپنے مسلک خبیثہ سے صراحۃً براء ت نہ کریں۔
جامع الفصولین و وجیز کردری و بحرالرائق و درمختار وغیرہا میں ہے: ” ولواتی بہما ( ای بالشہادتین) علٰی وجہ العادۃ لم ینفعہ ما لم یتبرأ ۱ ؎۔ عادۃً کلمہ شہادت کا پڑھنا گمراہ کو مفید نہیں جب تک وہ اپنی ضلالتوں سے براء ت نہ کرے۔
(۱ درمختار کتاب الجھاد باب المرتد مجتبائی دہلی ۱ /۲۵۶)
چند سال ہوئے ایک مولی صاحب ، شاہ صاحب، واعظ صاحب نے فقیر سے اپنی سنیت کی سند تحریر مانگی ، فقیر نے انہیں لکھا۔ حضرت ! تصریح نفی فتن دائرہ چاہیے۔ الم احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا اٰمنا وھم لایفتنون ۲ ؎۔ کیا لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اٰمنا کہنے سے چھٹی مل جائے گی اور وہ آزمائے نہ جائیں گے۔
(۲ القرآن الکریم ۲۹ /۲)
پھر امور عشرین لکھ کر بھیجے ، انہوں نے بے تکلف دستخط فرمادیئے، فقیر نے سندِ سنیت انہیں بھیج دی۔ وہ امور بعض اضافات جدیدہ ( کہ ان برسوں میں ان کی حاجت ہوئی کہ فتن روزانہ متجدد ہیں۔) عرض کروں انہیں غور فرمائیں۔ انجمن اگر ان کی اشاعت پسند فرمائے اور ان پر بلادغدغہ تصدیق کو معیارِ سنیت ٹھہرائے تو ان شاء اﷲ العزیز یہی کافی و وافی ہے، زیادہ کی ضرورت نہیں، اور یہ نہ ہوں تو شرح عقائد ومقاصد و مواقف کے ترجمے چھاپ کر اس پر دستخط لیجئے ہر گز کفایت نہیں۔ مولانا ! بحمداﷲ میں نے آپ کے رنگ تحریر سے سمجھا کہ آپ صاف گو ہیں اور امِر حق میں اسی کو پسند فرماتے ہیں اور الحق کو یہی پسند حق ہے، ” فاصدع بما تؤمرواعرض عن المشرکین ۱ ؎۔ جس کا حکم دیا گیا وہ علی الاعلان فرمادیں اور مشرکین سے اعراض فرمائیں۔
(۱ القرآن الکریم ۱۵ /۹۴)
بحمدہ سبحنہ یہی طریقہ فقیر کا ہے۔ ؎ فاش میگویم وازگفتہ خودرلشادم بندہ عشقم وازہر دو جہاں آزادم ( میں کھلی بات کرتا ہوں اور اپنے کیے ہوئے پر میرا دل خوش ہے، میں عشق کا غلام ہوں اور دونوںجہاں سے آزاد ہوں۔ت)
اب یہاں پانچ صورتیں ہیں۔
(۱) اقوالِ ضلال کے قائلین اور حاشیہ پر نامِ قائل و کتاب۔ (ب) صرف نام کتب
(ج) متن میں صرف اقوال اور حاشیہ پر نام قائل و کتاب۔ (د) حاشیہ پر صرف نام کتاب
(ہ) مجرداقوال بے اشعار نام قائل و کتاب۔
حاش ﷲ ! طریقہ خامسہ میں کفایت نہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے متعدد بار متعدد شہروں میں وہ دیکھے ہیں کہ ان عبارات کی نسبت ان سے سوال ہوا، صاف صاف حکم کفر وضلال لکھ دیا ۔ جب کہا گیا کہ یہ قول فلاں شخص یا فلاں کتاب کا ہے۔ فوراً پلٹ گئے کہ ان کو تو ہر گز نہ کہوں گا۔
مولانا ! آج کل تو یہ حالتِ ایمان رہ گئی ہے، اﷲ و رسول کو گالی دینا ضرور کفر ہے مگر زید گالی دے تو معاف ہے۔ ” انّاﷲ وانّا الیہ راجعون ” بہرحال میں یہاں طریقِ اوسط اختیار کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ مبارک انجمن کون سا پسند فرماتی ہے۔ ” وحسبنا اﷲ ونعم الوکیل اور اﷲ تعالٰی ہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ت)
میں نے قصد کیا تھا کہ امورِ عشرین سے وہ باتیں کہ مسودہ میں آگئی ہیں ساقط اور بعض جدید اضافہ کروں۔ اب یہ مناسب سمجھتا ہوںکہ وہ تمام پہلے سے نفیس تر پیرایہ میں مع زیاداتِ کثیرہ جلیلہ جزیلہ ذکر کروں کہ انجمن پسند فرمائے تو یہی بس ہے، ورنہ یادگار رہے گی۔ اور حق سبحانہ و تعالٰی جس کے لیے چاہے گا کام دے گی وباﷲ التوفیق۔
یہاں اسے لکھنا چاہا تھا مگر یہ بفضلہ تعالٰی ایک کافی وافی نفیس مستقل رسالہ ہوگیا جس کا نام “نورالفرقان بین جندالالٰہ واحباب الشیطٰن” رکھا گیا۔ بعد تبییض ان شاء اللہ العزیز اگر انجمن مبارک کی خواہش ہوئی جداگانہ مرسل ہوگا۔ وﷲ الحمد
(۸ و ۹) کے جوابات اس فہرست سے واضح ہوں گے جسے لکھنے کے لیے فقیر نے ابوالعلاء امجد علی صاحب سے گزارش کردی ہے اور ان شاء اللہ تعالٰی اسی نیاز نامہ کے ساتھ مرسل ہوگی، وہ امور کہ بعض جوابات سابقہ میں گزرے ضرور ملحوظِ خاطر رہیں۔
(۱۰) تلک عشرۃ کاملۃ ۱ ؎۔ ( یہ پورے دس ہوئے۔ت)
(۱ القرآن الکریم ۲/ ۱۹۶)
اﷲ عزوجل انجمن کو مبارک ترکرے اور اہل سنت کو اس سے نفع عظیم پہنچائے۔ کئی سال سے بحمد ہ تعالٰی فقیر اسے خالص انجمن اہل سنت و جماعت سمجھتا ہے۔ اور بفضلہ تعالی کوئی امر قابلِ شکایت معلوم نہ ہوا، مگر مولانا اس فقیر حقیر کے ذمہ کاموں کی بے انتہا کثرت ہے، اور اس پر نقاہت و ضعف ِ قوت اور اس پر محض تنہائی ووحدت ، ایسے امور ہیں کہ فقیر کو دوسرے کام کی طرف متوجہ ہونے سے مجبورا نہ باز رکھتے ہیں۔ خود اپنے مدرسہ میں قدم رکھنے تک کی فرصت نہیں ملتی۔ یہ خدمت کہ فقیر سراپا تقصیر سے میرے مولائے اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم محض اپنے کرم سے لے رہے ہیں۔ا ہل سنت و مذہب اہل سنت ہی کی خدمت ہے جو صاحب چاہیں جتنے دن چاہیں فقیر کے یہاں اقامت فرمائیں۔ مہینہ دو مہینہ سال دو سال اور فقیر کا جو منٹ خالی دیکھیں یا جس وقت فقیر کو کوئی ذاتی کام کرتے دیکھیں اسی وقت مواخذہ فرمائیں کہ تو اتنی دیر میں دوسرا کام کرسکتا تھا، ۔ اور جب بحمدہ تعالٰی سارا وقت آپ ہی کے مذہب کی خدمت گاری میں گزرتا ہے تو اب یہ کام اگر فضول یا دوسرا اس سے اہم ہو تو مجھے ہدایت فرمائی جائے، ورنہ فقیر کا عذر قابل قبول ہے۔
مولوی سید دیدار علی صاحب و مولوی ابوالفرح عبدالمحید صاحب نے فقیر سے ایک انجمن قائم کرکے اس کی خدمات انجام دینے کو فرمایا۔ فقیر نے گزارش کی کہ جو کام اﷲ عزوجل یہاں سے لے رہا ہے ۔ ضروری ہے یا نہیں؟ فرمایا : سخت ضروری ، فقیر نے عرض کی۔دوسرے کوئی صاحب اس پر مقرر فرمادیجئے اور مجھ سے کوئی اور خدمت اہل سنت لیجئے، فرمایا نہ دوسرا کوئی اسے کرسکتا ہے ۔ نہ دس آدمی مل کر انجام دے سکتے ہیں۔ فقیر نے گزارش کی پھر عذر واضح ہے۔
غرض انجمن اہلِ سنت جو اہم مقاصد چاہے ان میں سے ایک میرے مقدور بھر بالفعل موجود ہے تو اسی کو خدمتِ انجمن تصور فرمائیں ، میں جہاں ہوں اور جس حال میں ہوں مذہب اہل سنت کا ادنٰی خدمت گار اور اپنے سنی بھائیوں کا خیر خواہ ہوں۔ البتہ وجوہِ مذکورہ بالا سے نہ کہیں آنے جانے کی فرصت نہ طاقت، نہ اپنا کام چھوڑ کر دوسرا کام لینے کی لیاقت۔
“وحسبنا اﷲ و نعم الوکیل، واﷲ یقول الحق ویہدی السبیل “۔ اﷲ تعالٰی ہمیں کافی ہے اور کیا ہی اچھا کارساز ہے۔ اﷲ تعالٰی حق فرماتا ہے اور سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔(ت)
اس نیاز نامہ میں جو امور معروض ہوئے ہیں، جہاں کہیں مشورہ خیر ہو ضرور مطلع فرمائیں۔ فقیر کی کیا حاجت ہے۔ امیر المومنین عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے زمانہ خلافتِ راشدہ میں فرماتےہیں : لاخیرفیکم مالم تقولوا ولا خیر فی مالم اسمع ۱ ؎۔ تم مشورہ خیر نہ دو تو تم میں بھلائی نہیں اور میں اس کو نہ سنوں تو مجھ میں بھلائی نہیں۔
وفقنا اﷲ تعالٰی وایاکم وسائراخوانہ لکل خیر وحفظنا وایاکم من کل شر، وصل اﷲ تعالٰی علیہ سیدنا و مولانا محمد والہ وصحبہ و ابنہ وحزبہ اجمعین وبارک وسلم امین ۔ اللہ تعالٰی ہمیں تمہیں اور ہمارے تمام بھائیوں کو ہر خیر کی توفیق عطا فرمائے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالٰی ہمارے آقا و مولٰی محمد مصطفٰی ، آپ کی آل ، اصحاب ، اولاد اور تمام امت پر درود و سلام اور برکت نازل فرمائے۔ آمین (ت)
۲۷ جمادی الاُخرٰی ۱۳۳۰ھ “