مسئلہ ۱۵۰ : از موضع پارہ پر گنہ مورانواں ضلع اناؤ مسئولہ محمد عبدالرؤف صاحب ۳ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا عقیدہ ہے کہ قیام کرنا بوقتِ ذکر ولادت شریف بدعت سیئہ ہے کیونکہ اس کا ثبوت قرآن و حدیث سے مطلق پایا نہیں جاتا اور نہ وہ بات جو بعد قرونِ ثٰلثہ قائم کی گئی قابل ماننے کے ہے۔ اور کہتا ہے کہ کیا اُسی وقت حضور پر نورصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیدائش ہوتی ہے جو یہ تعظیمی قیام کیا جاتا ہے، یا یہ کہ اُسی وقت آپ کی تشریف آوری ہوتی ہے۔ اگر یہ صحیح ہے تو کس مقام مجلس میں آپ متجلی ہوتے ہیں، اگر حضارِ محفل میں آپ رونق افروز ہوتے ہیں، تو یہ اور بے ادبی ہے کہ میلاد خوان منبر پر اور آپ فرشِ زمین پر، اور اگر آپ منبر پر جلوہ فگن ہوتے ہیں تو یہ بھی بے ادبی ہوئی کہ برابری کا مرتبہ ظاہر ہوتا ہے ، لہذا بہر نوع قیام بدعت سیئہ ہے ، اس کے برعکس عمرو محفل میلاد شریف اور قیام تعظیمی و تقسیم شیرینی وغیرہ کو اپنا فرض منصبی اور نہایت درجہ مستحسن اور وسیلہ نجات اور ذریعہ فلاحت دینی و دنیوی سمجھتا ہے، فقط۔
الجواب :قیام وقت ذکرِ ولادت سیدالانام علیہ وعلٰی ذویہ افضل الصلوۃ والسلام بلاشبہ مستحب و مستحسن علمائے اعلام وعادت محبین کرام وغیظ وہابیہ لئام ہے ہم نے اپنے رسالہ ” اقامۃ القیامۃ علٰی طاعن القیامہ لنبی تہامۃ” صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وغیرہا میں اسے متعدد آیات قرآن مجید سے ثابت کیا ، مگر وہابیہ کو کیا سوجھے۔ لھم اعین لایبصرون بھا ۱ ؎۔ ( وہ آنکھیں رکھتے ہیں جن سے دیکھتے نہیں۔ت)
خصوصاً قرآن عظیم تک ان کی فہم کیا پہنچے، قال اﷲ تعالٰی : “وجعلنا علی قلوبھم اکنّۃ ان یفقھوہ ۱ ؎۔ ہم نے ان کے دلوں پر غلاف کردیئے کہ اسے نہ سمجھیں۔(ت) ہم جو آیاتِ تلاوت کریں اُن کا کان کیونکر سنے وفی اذانھم وقراً ۲ ؎۔ ( اور ان کے کانوں میں گرانی ۔ت) راہِ حق کی دعوت انہیں کیا نفع دے۔ ” وان تدعھم الی الھٰدی فلن یھتدوا اذا ابدا ۳ ؎۔ اور اگر انہیں تم ہدایت کی طرف بلاؤ تو جب بھی ہر گز کبھی راہ نہ پائیں گے۔(ت)
(۱ القرآن ۷/ ۱۷۹ ) (۱ القرآن ۶/ ۲۵ )
(۲ القرآن ۶/ ۲۵ )(۳ القرآن ۱۸/ ۵۷ )
قرونِ ثلٰثہ کی بحث میں وہابیہ کو ہزاروں بار ان کے گھر پہنچا دیا گیا جس کا روشن بیان اصول الرشاد تصنیف لطیف امام العلماء حضرت سیدنا الوالدقدس سرہ الماجد میں ہے۔ مدرسہ دیوبند بایں قوانین مخترِعہ تو قرون اثناء عشر کے بعد قائم ہوا پہلے اس کی بنا ڈھائیں اینٹ سے اینٹ بجائیں، یا یہ مسئلہ صرف اِنہیں چیزوں کے حرام کرنے کو ہے جن میں تعظیم و محبتِ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم والیاء کرام علیہم الرضوان الاتم ہے یہ قیام ذکر تشریف آوری کی تعظیم ہے دل میں عظمت ہو تو جانیں کہ تعظیم ذکر شریف مانندتعظیمِ ذات اقدس ہے۔ کما بینہ الامام القاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالٰی فی کتاب الشفاء والامام احمد القسطلانی فی المواھب الشریفۃ جیسا کہ امام قاضی ” عیاض رحمہ اﷲ تعالٰی نے کتاب الشفاء میں اور امام احمد قسطلانی نے مواہب شریفہ میں اسے بیان کیا۔ت)
دل کے اندھے اُسے بھلا کر خود ذات کریم کی تشریف آوری ڈھونڈتے ہیں اور بے ادبی گستاخ یہاں تک بڑھتے ہیں کہ ” کیا اُسی وقت حضور کی پیدائش ہوتی ہے” ہم مدعی نہیں کہ ہر مجلس مبارک میں تشریف آوری ضرور ہے۔ ہاں ہوتی ہے، اکابر اولیاء نے بارہا مشاہدہ کی ہے جیسا بہجتد الاسرار امام اوحد ابوالحسن لخمی شطنوفی و تنویر الحوالک امام جلال الدین سیوطی و تصانیف شاہ ولی اﷲ دہلوی وغیرہا میں مذکور ہے اور اس پر بے ہود ہ تشقیق کہ فرش پر تشریف رکھتے ہیں یا منبر پر جہل سحیق ہے ، ایسا جاہلانہ سوال اُن تمام تشریف آوریوں پر ہوگا جن کا ذکرائمہ واکابر نے فرمایا اور خود ظاہری حیاتِ اقدس میں تشریف آوری اور تشریف فرمائی کس طرح ہوتی تھی ، اورصحیح بخاری شریف کی اُس حدیث کو تو بالکل چھیل کر پھینک دیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مسجد کریم میں حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے منبر بچھاتے اور وہ اس پر قیام کرکے نعتِ اقدس سُناتے اس وقت حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے، فرش پر حسان سے نیچے یا منبر پر حسان کے برابر ؟ جو وہاں جواب دے ویسا بلکہ اس سے اعلٰی یہاں موجود ہے کہ جلوہ فرمائی چشمِ ظاہر سے غیر مشہود ہے اور نور کی جلوہ افروزی فرش وغیرہ سے جدا متعالی از معہود ہے۔
علامہ علی قاری شرح شریف میں فرماتے ہیں : ان روح النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حاضرۃ فی بیوت اھل الاسلام۱ ؎۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی روح پاک تمام مسلمانوں کے گھروںمیں تشریف فرما ہے،
(۱ شرح الشفاء لمنلا علی القاری علی ھامش نسیم الریاض فصل فی المواطن التی یستحب فیھا الصلٰوۃ الخ ۳/ ۴۶۴)
یہ تشریف فرمائی زمین پر ہے کہ چھت والے اونچے ہوں یا چھت پر کہ دو منزلہ والے بلند، اور جن کے چھت نہیں ایک نیچا چھپر ہے اور اس کے گرد مکان اس گھر میں تشریف فرمائی کس طرح ہے،
بلکہ رب عزوجل فرماتا ہے : ونحن اقرب الیہ من حبل الورید ۲ ؎۔ ہم آدمی سے اس کی رگِ گردن سے بھی زیادہ قریب ہیں۔
(۲ القرآن ۵۰/ ۱۶ )
اب ایک شخص لیٹا، دوسرا بیٹھا، تیسرا کھڑا، چوتھا سامنے کی چھت پر چڑھا ہے ، رب عزوجل کہ اس لیٹے کی شہ رگ سے قریب ہے کیا یہ تینوں اُس سے اونچے ہیں، کیسی سخت بے ادبی و گستاخی ہے، یونہی حدیث قدسی میں ہے، رب عزوجل فرماتا ہے : ” انا جلیس من ذکرنی ۳ ؎۔ میں اپنے یاد کرنے والے کا ہمنشین ہوں۔
(۳کشف الخفا حدیث ۶۱۱ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱/ ۱۸۳)
یاد وہ بھی کررہے ہیں جو فرش پر ہیں اور وہ بھی جو منبر پر ، تو کیا ان سب کے برابر ہوا اور منبر والے سے نیچا ؟ و لٰکن الوھابیۃ قوم لا یعقلون ولا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علٰی سیدنا ومولانا وذویہ اجمعین ،واللہ تعالٰی اعلم ،وانما زدنا الوجھین الآخرین لابانۃ جھلہ فی قیاس الشاھد علی الغائب فاعلم وربک اعلم ۔ لیکن وہابی بے عقل قوم ہے، اﷲ تعالٰی کی توفیق کے بغیر نہ گناہ سے بچا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی نیکی کرنے کی طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے سردار و مالک اور ان کے تمام اصحاب پر اﷲ تعالٰی درود و سلام بھیجے، اور اﷲ تعالٰی خوب جانتا ہے۔ آخری دونوں وجہیں ہم نے صرف اس لیے زیادہ کردی ہیں تاکہ شاہد کو غائب پر قیاس کرنے کے سلسلہ میں اس کی جہالت ظاہر ہوجائے، تو جان لے اور تیرا پروردگار خوب جانتا ہے۔ (ت)