رافضِت, صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان, عقائد و کلام, فتاوی رضویہ, مشاجرات صحابہ

مولا علی، اما حسن اور امیر معاویہ رضی اللہ عنھم

مسئلہ ۱۳۵و ۱۳۶ : از لاہور مسجد بیگم شاہی اندرون دروازہ مستی مرسلہ صوفی احمد الدین طالب علم ۲۶ صفر ۱۳۳۸ھ
حضرت ہادی و رہنمائے سالکاں قبلہ دوجہاں دام فیضہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مسائل ذیل میں حضرت کیا فرماتے ہیں۔
(۱) حضرت علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ پر ایک روز خفا ہوئے، اور روافض کہتے ہیں یہی وجہ ہے باغی ہونے کی، پھر ایک کتاب مولانا حاجی صاحب کی تصنیف اعتقاد نامہ ہے جو بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اس میں یہ شعر بھی درج ہے۔

حق در آنجا بدست حیدر بود جنگ بااوخطا ومنکربود ( حق وہاں حیدر کرار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ میں تھا ان کے ساتھ جنگ غلط اور ناپسندیدہ تھی)
(۲) امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خلافت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سپرد کی تھی واسطے دفع جنگ کے۔

 

 

الجواب
(۱) روافض کا قول کذب محض ہے، عقائد نامہ میں خطاو منکربود نہیں ہے بلکہ خطائے منکر بود۔ اہل سنت کے نزدیک امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خطا خطاء اجتہادی تھی، اجتہاد پر طعن جائز نہیں، خطاء اجتہادی دو قسم ہے، مقرر و منکر، مقرروہ جس کے صاحب کو اُس پر برقرار رکھا جائے گا اور اُس سے تعرض نہ کیا جائے گا، جیسے حنفیہ کے نزدیک شافعی المذہب مقتدی کا امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا، اور منکر وہ جس پر انکار کیا جائے گا جب کہ اس کے سبب کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہو جیسے اجلہ اصحاب جمل رضی اللہ تعالٰی عنہم کہ قطعی جتنی ہیں اور ان کی خطاء یقیناً اجتہادی جس میں کسی نام سنیت لینے والے کو محل لب کشائی نہیں، یا اینہہ اس پر انکار لازم تھا جیسا امیر المومنین مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ الکریم نے کیا باقی مشاجراتِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں مداخلت حرام ہے،

حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: اذا ذکر اصحابی فامسکوا ۔۱؂ جب میرےصحابہ کا ذکر آئے تو زبان روکو۔

( ۱ ؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۴۲۷ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲/ ۹۶)

دوسری حدیث میں ہے فرماتے ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم: ستکون لاصحابی بعد زلۃ یغفرھا اﷲ لھم لسابقتھم ثم یاتی من بعد ھم قوم یکبھم اﷲ علی مناخرھم فی النار ۔۲؂ قریب ہے کہ میرے اصحاب سے کچھ لغزش ہوگی جسے اﷲ بخش دے گا اُس سابقہ کے سبب جو ان کو میری سرکار میں ہے پھر ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اﷲ تعالٰی ناک کے بل جہنم میں اوندھا کردے گا۔

(۲ ؎ المعجم الاوسط حدیث ۳۲۴۳ مکتبۃ المعارف ریاض ۴/ ۱۴۲ و مجمع الزوائد ۷/ ۲۳۴)

یہ وہ ہیں جو اُن لغزشوں کے سبب صحابہ پر طعن کریں گے، اﷲ عزوجل نے تمام صحابہ سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو قرآن عظیم میں دو قسم کیا:

(۱) مومنین قبل فتح مکہ و مومنین بعد فتح ۔ اول کو دوم پر تفضیل دی اور صاف فرمادیا ۔

وکلا وعداﷲ الحسنی ۔۳ ؎ سب سے اﷲ نے بھلائی کا وعدہ فرمالیا۔ اور ساتھ ہی ان کے افعال کی تفتیش کرنے والوں کا منہ بند فرمادیا واﷲ بما تعملون خبیر ۔۴؂ اﷲ خوب جانتا ہے جو کچھ تم کرنے والے ہو، با ینہہ وہ تم سب سے بھلائی کا وعدہ فرماچکا پھر دوسرا کون ہے کہ ان میں سے کسی کی بات پر طعن کرے، واﷲ الہادی، واﷲ تعالی اعلم

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)( ۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۱۰)

(۲) بے شک امام مجتبی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو خلافت سپرد فرمائی۔
اور اس سے صلح و بندش جنگ مقصود تھی اور یہ صلح و تفویضِ خلافت اﷲ و رسول کی پسند سے ہوئی۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے امام حسن کو گود میں لے کر فرمایا تھا: ان ابنی ھذا سیدولعل اﷲ ان یصلح بہ بین فئتین عظمتین من المسلمین ۔۵؂ میرا یہ بیٹا سید ہے میں امید کرتا ہوں کہ اللہ اس کے سبب سے مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں میں صلح کرادے گا۔

( ۵ ؎ صحیح البخاری کتاب المناقب مناقب الحسن والحسین قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۵۳۰)
( مشکوۃ المصابیح باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبع مجتبائی دہلی ص۵۶۹)

امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اگر خلافت کے اہل نہ ہوتے تو امام مجتبٰی ہر گز انہیں تفویض نہ فرماتے نہ اللہ ورسول اسے جائز رکھتے واﷲ تعالٰی اعلم،