مسئلہ ۱۲۸: ازنانگل لکڑی ضلع گورگانوہ ڈاکخانہ ڈھنبہ مسئولہ حافظ غلام کبریا صاحب پیش امام مسجد کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ۔
(۱) زید کہتا ہے اولیاء سے مدد مانگنا دور سے ،ا ور ہر وقت حاضر ناظر سمجھنا شرک ہے، کیونکہ یہ خاص اﷲ تعالٰی کی صفت ہے دوسرے کی نہیں، قرآن شریف کا ثبوت دیتا، (نواں پارہ) کہہ دو میں نہیں مالک اپنی جان کا نہ نفع کا نہ ضرر کا۔
(۲) اولیاء اﷲ کی قبروں کی خاک ہاتھ میں لے کر منہ پر ملنا کیسا ہے؟ طواف قبر اولیاء کا کرنا بعضے کہتے ہیں طواف صرف کعبہ شریف کے واسطے ہے۔
(۳) شیخ عبدالحق نے ترجمہ مشکوۃ میں فرمایا ہے پیغمبروں کی سب دُعا مقبول نہیں ہوتی۔
(۴) خانقاہِ اولیاء پر جمع نہ ہونا حدیث کاثبوت دیتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے یا اللہ ! میری قبر کو عیدگاہ نہ بنائیو۔
(۵) اگر نبی کو غیب داں سمجھے تو کافر ہے کیونکہ ان کو علم عطائیہ ہے وہ غیب نہیں ہوسکتا کیونکہ غیب کے معنی یہ ہیں کہ بے اطلاع کیے معلوم ہو وہ غیب ہے۔
الجواب :
(۱) جس نے کہا کہ دُور سے سننا صرف اُس کی شان ہے اس نے رب عزوجل کی شان گھٹائی وہ پاک ہے اس سے کہ دور سے سُنے ، وہ ہر قریب سے قریب تر ہے، دور سے سننا اس کی عطا سے اس کے محبوبوں ہی کی شان ہے، اُسے حاضر و ناظر بھی نہیں کہہ سکتے، وہ شہید و بصیر ہے، حاضر و ناظر اس کی عطا سے اُس کے محبوب علیہ افضل الصلوۃ والسلام ہیں، کما فی رسائل الشیخ عبدالحق محدث الدہلوی قدس سرہ اُس آیۃ کریمہ سے اس کا کیا ثبوت ہوا ، جھوٹا دعوٰی کرنا اور قرآن مجید پر اس کی تہمت رکھنا مسلمان کا کام نہیں، نفع وضرر کا مالک بالذات اُس واحد حقیقی کے سوا کوئی نہیں ، آیت میں اسی کی نفی ہے، ورنہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے تفسیر عزیزی میں تو فرعون کو مالکِ نفع و ضرر لکھا ہے۔ پھر محبوبانِ بارگاہِ کا کیا کہنا وہ بے شک اس کی تملیک سے ہمارے نفع و ضرر کے مالک ہیں، جس کا بیان آیاتِ و احادیث سے کتاب الامن والعلٰی میں ہے۔
(۲) مزارات کی مٹی منہ پر ملنا جائز ہے ، اور طوافِ تعظیمی صرف کعبہ معظمہ کا ہے، واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۳) انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی سب دُعائیں مستجاب ہیں، مومنین سے حضرت عزت کا وعدہ ہے مجھ سے دعا کرو میں قبول فرماؤں گا، اور اس کا وعدہ خلاف نہیں ہوسکتا، پھر انبیاء تو انبیاء بعض وقت وہ اس اظہار کے لیے کہ یہ امر خلاف مقدر ہے اسے صورت دعا میں ظاہر کرتے ہیں وہ اعلٰی وجہ پر قبول ہوتی ہیں مگر مطلوب ظاہری واقع نہیں ہوتا نظر ظاہر اسے عدم قبول سے تعبیر کرتی ہے، شرح مشکوۃ میں اسی کا ذکر ہے۔
(۴) مزارات اولیاء پر تشریف لے جانا خود حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و خلفائے راشدین سے ثابت ہے اور اس حدیث میں اس کی کہیں ممانعت نہیں ، اس کا یہ مطلب ہے کہ میرے مزار کریمہ کو مسلمان عید نہ بنائیں جو سال میں ایک ہی بار آتی ہے بلکہ بکثرت حاضری دیں کہ ان کے گناہ معاف ہوں اور انہیں برکات ملیں، واﷲ تعالٰی اعلم۔
(۵) غیب وہ ہے کہ بے بتائے معلوم نہ ہوسکے، جو کہے کہ انبیاء کو غیب کے علم نہ دیئے گئے وہ کافر ہے کہ نبوت کا منکر ہے،ائمہ دین فرماتے ہیں: النبی ھو المطلع علی الغیب ۱ نبی وہی ہے جوغیب پر مطلع ہو ۔
عطا سے غیب نہ رہنا آیات کثیرہ کی تکذیب ہے جوکارڈ پر نہیں لکھی جاسکتیں ۔واللہ تعالٰی اعلم ۔
(۱ المواہب اللدنیہ المقصد الثانی الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۴۷)