مسئلہ ۱۶ : مرسلہ مولوی نواب محمد سلطان احمد خان صاحب ۲۹ محرم الحرام ۱۳۲۵ھ
زید کہتا ہے حال میں دو شخص ایسے پائے گئے ہیں جن کے دو دو دل ہیں اور ڈاکٹر وں نے بھی اس کو اپنے طور پر جانچ کیا ہے بکر کہتا ہے کہ ایک شخص کے دو دل نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے: ماجعل اﷲ لرجل من قلبین فی جوفہ ۱ ؎ اﷲ تعالٰی نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہ رکھے۔(ت)
اس پر خالد کہتا ہے خدا ئے تعالٰی نے یہ بھی تو فرمایا ہے: ھو الذی یصورکم فی الارحام کیف یشاء ۲؎ وہی ہے جو تمہاری تصویر بناتاہے ماؤں کے پیٹ میں جیسی چاہے )
(۱ القرآن الکریم ۳۳/ ۴ )(۲ القرآن الکریم ۳/ ۶)
پس یہ امر عجائبِ صنع باری سے ہے جیسے کہ ایک شخص ایسا بھی موجود ہے جس کا دل داہنی طرف ہے اسی طرح عجیب الخلقت بچے ہمیشہ پیدا ہوتے رہتے ہیں کیا انسان کیا جانور اور پہلی آیت تو اس شخص کے بارے میں اتری ہے جو دعوی کرتا ہے کہ اس شخص کے دو دل ہیں لہذا میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے زیادہ علم و فہم رکھتاہوں۔ چونکہ اس وقت میں لوگ طرح طرح سے آپ کی مخالفت پر کمر بستہ تھے اس لیے اس شخص نے کہہ دیا جس سے لوگ آپ سے برگشتہ ہوجائیں تو خدا تعالٰی نے اس کا جھوٹ ظاہر کردیا ۔ پس علماء دین قویم سے بقلب استفسار ہے کہ منشاہر دو آیت کا کیا ہے اور اس بارہ میں کیا اعتقاد رکھنا چاہیے ؟
القوا کلام نفسیکم فی قلبی توجروامن ربیّ ( اپنا نفیس کلام میرے دل میں ڈالو میرے رب سے اجر پاؤ گے۔ت)
الجواب : قلب و ہ عضو ہے کہ سلطان اقلیم بدن و محل عقل و فہم و منشا قصد واختیارورضا و انکار ہے ایک شخص کے دو دل نہیں ہوسکتے دوبادشاہ دراقلیمے نہ گنجند ( ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں ہوتے۔ت) آیۃ کریمہ میں رجل نکرہ ہے اور تحت نفی داخل ہے تو مفید عموم و استغراق ہے یعنی اللہ عزوجل نے کسی کے دو دل نہ بنائے نہ کہ فقط اس شخص خاص کی نسبت انکار فرمایا ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب ۔۱ سنتے ہو بدن میں ایک پارہ گوشت ہے کہ وہ ٹھیک ہے تو سارا بدن ٹھیک رہتا ہے اور وہ بگڑ جائے تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے سنتے ہو وہ دل ہے۔
(۱ صحیح البخاری کتاب الایمان باب فضل من استبراء لدینہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۳۱)
(صحیح مسلم کتاب المساقات باب اخذ الحلال وترک الشبہات قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۲۸)
تو اگر کسی کے دو دل ہوں ان میں ایک ٹھیک رہے ایک بگڑ جائے تو چاہیے معاً ایک آن میں سارا بدن بگڑا اور سنبھلا دونوں ہوا اور یہ محال ہے جب دو دل ہیں ایک نے ارادہ کیا یہ کام کیجئے دوسرے نے ارادہ کیا نہ کیجئے تو اب بدن ایک کی اطاعت کرے گا یا دونوں کی یا کسی کی نہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں کی اطاعت محال ہے اور کسی کی نہ ہو تو ان میں کوئی قلب نہیں کہ قلب تو وہی ہے کہ بدن اسی کے ارادے سے حرکت وسکون ارادی کرتا ہے اور اگر ایک کی اطاعت کرے گا دوسرے کی نہیں تو جس کی اطاعت کرے گا وہی قلب ہے اور دوسرا ایک بدگوشت ہے کہ بدن میں صورت قلب پر پیدا ہوگیا جیسے کسی کے پنجے میں چھ انگلیاں اور بعض کے ایک ہاتھ میں دو ہاتھ لگے ہوتے ہیں ان میں جو کام دیتا ہے اور ٹھیک موقع پر ہے وہی ہاتھ ہے دوسر ابدگوشت ہے۔ ڈاکٹروں کا بیان اگر سچا ہو تو اس کی یہی صورت ہوگی کہ بدن میں ایک بدگوشت بصورتِ دل زیادہ پیدا ہوگیا ہوگا۔ ہاتھ میں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اصلی اور زائد دونوں ہاتھ کام دیں مگر قلب میں یہ ناممکن ہے آدمی روحِ انسانی سے آدمی ہے اور اسی کے مرکب کا نام قلب ہے اور روحِ انسانی متجزی نہیں کہ آدھی ایک دل میں رہے آدھی دوسرے میں۔ تو جس سے وہ اصالۃً متعلق ہوگی تو وہی قلب ہے دوسرا سلب ہے۔ اور آیہ کریمہ میں یصورّ کم فی الارحام کیف یشا ء ۔۱ فرمایا ہے کہ ماں کے پیٹ میں تمہاری تصویر بناتا ہے جیسی وہ چاہے ۔ یہ نہیں فرمایا کہ کیف تشاء ؤن وبتخیلاتکم تخترعون جیسی تم چاہو اور اپنے خیالات میں گھڑو ویسی ہی تصویر بنادے یہ محض باطل ہے اور اس نے اپنی مشیت بتادی کہ کسی کے جوف میں میں نے دو دل نہ رکھے تو اس کے خلاف تصویر نہ ہوگی۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
( ۱ القرآن الکریم ۳/ ۶ )