فتاوی رضویہ, فضائل و خصائص, والدین مصطفی علیہ السلام

رسالہ تمہید ایمان بآیات قرآن

رسالہ
تمہید ایمان بآیات قرآن(۱۲۲۶ھ)
بسم اﷲالرحمن الرحیم

الحمدﷲ رب العٰلمین والصلٰوۃ والسلام علٰی سید ا لمرسلین خاتم النبیین محمد واٰلہٖ واصحٰبہٖ اجمعین الٰی یوم الدین بالتبجیل وحسبنااللٰہ ونعم الوکیل۔ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں اور عظمت کے ساتھ تاقیامت درود وسلام ہو سید المرسلمین وخاتم النبیین پر اورآپ کی آل اورتمام اصحاب پر۔ ہمارے لئے اللہ تعالٰی کافی ہے ۔ کیا ہی اچھا کارساز ہے ۔(ت)

مسلمان بھائیوں سے عاجزانہ دست بستہ عرض

پیارے بھائیو! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔اﷲتعالی آپ سب حضرات کو اور آپ کے صدقے میں اس ناچیز،کثیر السیئآت کو دین حق پر قائم رکھے اور اپنے حبیب محمدرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی محبت ،دل میں عظمت دے اور اسی پر ہم سب کا خاتمہ کرے ۔ اٰ مین یا ارحم الر ا حمین ۔

تمہارا رب عزوجل فرماتا ہے: انا ارسلنٰک شاھدًاومبشرًاونذیرًا o لتؤمنواباﷲ ورسولہٖ وتعزروہ وتؤقروہ وتسبحوہ بکرۃً واصیلاً ۱؂o۔ اے نبی بے شک ہم نے تمہیں بھیجا گواہ او رخوشخبری دیتا اور ڈر سناتا، تاکہ اے لوگو ! تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی تعظیم وتوقیر کرو اور صبح وشام اﷲکی پاکی بولو ۔

(۱؂القرآن الکریم ۴۸/ ۸ و ۹ )

مسلمانو ! دیکھو دین اسلام بھیجنے ، قرآن مجید اتارنے ،کامقصود ہی تمہارا مولٰی تبارک و تعالٰی تین باتیں بتاتاہے: اول یہ کہ اﷲ و رسول پر ایمان لائیں ۔
دوئم یہ کہ رسول اﷲ کی تعظیم کریں ۔
سوئم یہ کہ اﷲتبارک و تعالٰی کی عبادت میں رہیں۔

مسلمانو! ان تینوں جلیل باتوں کی جمیل ترتیب تو دیکھو،سب میں پہلے ایمان کوذکرفرمایا اور سب میں پیچھے اپنی عبادت کو اور بیچ میں اپنے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کو، اس لئے کہ بغیر ایمان، تعظیم بکارآمد نہیں۔بہتیر ے نصٰاری ہیں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم اور حضور پر سے دفع اعتراضات کا فران لئیم میں تصنیفیں کرچکے ،لکچر دے چکے مگر جبکہ ایمان نہ لائے ،کچھ مفیدنہیں کہ ظاہری تعظیم ہوئی ،دل میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی عظمت ہوتی تو ضرو ر ایمان لاتے۔ پھر جب تک نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی تعظیم نہ ہو، عمر بھرعبادت الٰہی میں گزرے، سب بے کارو مردودہے ۔بہتیر ے جوگی اور ر اہب ترک دنیا کرکے، اپنے طور پر ذکر عبادت الٰہی میں عمرکاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیں ،کہ لاالٰہ الا اﷲ کا ذکر سیکھتے اورضربیں لگاتے ہیں مگر ازآنجاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم نہیں،کیا فائدہ؟ اصلاً قابل قبول بارگاہ الہٰی نہیں ، اﷲ عزوجل ایسوں ہی کو فرماتا ہے:۔ ”وقدمنآالٰی ماعملوامن عمل فجعلنٰہ ھبآءً منثورًا ”۲؂۔ جوکچھ اعمال انہوں نے کئے تھے، ہم نے سب برباد کر دئے”۔

(۲؂القرآن الکریم ۲۵ /۲۳)

ایسوں ہی کو فرماتا ہے:” عاملۃناصبۃتصلٰی نارًا حامیۃً ”۱؂۔ عمل کریں، مشقتیں بھریں اوربدلہ کیاہوگا؟یہ کہ بھڑکتی آگ میں پیٹھیں گے۔ والعیاذ باﷲ تعالی ۔

(۱؂القرآن الکریم ۸۸/ ۳ و۴)

مسلمانو!کہو محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم، مدارِ ایمان و مدارِنجات ومدارِقبولِ اعمال ہوئی یا نہیں ؟ ۔ کہو ہوئے اور ضرورہوئے !

تمہارارب عزوجل فرماتا ہے: قل ان کا ن اٰبآؤکم و ابنآؤکم و اخوانکم و ازواجکم وعشیرتکم واموال ن اقترتموھاوتجارۃ تخشون کسادھاومسٰکن ترضونھآاحب الیکم من اﷲ ورسولہٖ وجھاد فی سبیلہٖ فتربصوا حتٰی یاتی اﷲ بامرہ ط واﷲ لا یھدی القوم الفٰسقین ۲؂۔ اے نبی تم فرمادو،کہ اے لوگو! اگرتمہارے باپ ، تمہارے بیٹے ،تمھارے بھائی، تمہاری بیبیاں،تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال او ر وہ سوداگری جس کے نقصان کا تمہیں اندیشہ ہے اور تمھارے پسند کے مکان، ان میں کوئی چیزبھی اگر تم کو اﷲ اور اﷲ کے رسول اور اسکی راہ میں کوشش کرنے سے زیادہ محبوب ہے، تو انتظار رکھویہاں تک کہ اﷲ اپناعذاب اتارے اور اﷲ بے حکموں کو راہ نہیں دیتا ۔

(۲؂القرآن الکریم ۹ /۲۴)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز،کوئی عزیزکوئی مال،کوئی چیز، اﷲ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الہٰی سے مردود ہے ، اﷲ اسے اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے والعیاذ باﷲ تعالٰی۔

تمہارے پیارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”لایؤمن احدکم حتٰی اکون احب الیہ من والدہٖ وولدہٖ والناس اجمعین”۳؂۔

(۳؂صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷ )
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الایمان قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۴۹)

تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوجاؤں” ۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم

یہ حدیث بخاری وصحیح مسلم میں انس بن مالک انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے ۔ اس نے تو یہ بات صاف فرمادی کہ جو حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے زیادہ کسی کوعزیز رکھے، ہرگزمسلمان نہیں۔
مسلمانوکہو! محمد، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو تمام جہانوں سے زیادہ محبوب رکھنا مدارایمان و مدارنجات ہوایانہیں؟ کہو ہوااور ضرورہوا۔یہاں تک توسارے کلمہ گو خوشی خوشی قبول کرلیں گے کہ ہاں ہمارے دل میں محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عظیم عظمت ہے ۔ ہاں ہاں ماں باپ اولاد سارے جہان سے زیادہ ہمیں حضو ر کی محبت ہے۔ بھائیو!خدا ایسا ہی کرے ،مگرذرا کان لگا کر اپنے رب کا ارشادسنو:-

تمہارا رب عزوجل فرماتا ہے : الم ط احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا اٰمنا و ھم لایفتنون o ۱؂۔ کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں، کہ اتناکہہ لینے پر چھوڑدیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی۔

(۱؂القرآن الکریم ۲۹ /۱ و۲)

یہ آیت مسلمانوں کو ہوشیار کررہی ہے کہ دیکھوکلمہ گوئی اور زبانی ادعائے مسلمانی پرتمہارا چھٹکارا نہ ہوگا۔ ہاں ہاں سنتے ہو!آزمائے جاؤگے، آزمائش میں پورے نکلے تو مسلمان ٹھہروگے ۔ہر شے کی آزمائش میں یہی دیکھاجاتاہے کہ جو باتیں اس کے حقیقی و واقعی ہونے کو درکار ہیں، وہ ا س میں ہیں یانہیں ؟ ا بھی قرآن و حدیث ارشاد فرماچکے کہ ایمان کے حقیقی و واقعی ہونے کودوباتیں ضرورہیں۔
(۱)محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم
(۲) اور محمد رسول اﷲ کی محبت کو تمام جہان پر تقدیم
تو اس کی آزمائش کا یہ صریح طریقہ ہے کہ تم کو جن لوگوں سے کیسی ہی تعظیم، کتنی ہی عقیدت ، کتنی ہی دوستی ،کیسی ہی محبت کا علاقہ ہو۔ جیسے تمہارے باپ ،تمہارے استاد،تمہارے پیر ،تمہارے بھائی ، تمہارے احباب، تمہارے اصحاب،تمہارے مولوی ،تمہارے حافظ،تمہارے مفتی ،تمہارے واعظ وغیر ہ وغیرہ کسے باشد ،جب وہ محمدرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں اصلاً تمہارے قلب میں ان کی عظمت ان کی محبت کا نام ونشان نہ ر ہے فورًا ان سے الگ ہوجاؤ ، دودھ سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دو، ان کی صورت ،ان کے نام سے نفرت کھاؤ پھرنہ تم اپنے رشتے، علاقے، دوستی، الفت کا پاس کرو نہ اس کی مولویت، مشیخیت ، بزرگی ، فضیلت، کو خطرے میں لاؤ آخر یہ جو کچھ تھا ، محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی غلامی کی بنا ء پر تھا جب یہ شخص ان ہی کی شان میں گستاخ ہوا پھرہمیں اس سے کیا علاقہ رہا ؟ اس کے جبے عمامے پر کیا جائیں ، کیا بہتیرے یہودی جبے ،نہیں پہنتے؟کیا عمامے نہیں باندھتے ؟ اس کے نام و علم و ظاہری فضل کولے کر کیا کریں؟ کیا بہتیر ے پادری ، بکثرت فلسفی بڑے بڑے علوم وفنون نہیں جانتے اوراگر یہ نہیں بلکہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل تم نے اس کی بات بنانی چاہی اس نے حضور سے گستاخی کی اور تم نے اس سے دوستی نباہی یا اسے ہربرے سے بدتر برانہ جانا یااسے براکہنے پر برامانایا اسی قد ر کہ تم نے اس امر میں بے پروائی منائی یا تمہارے دل میں اس کی طرف سے سخت نفرت نہ آئی ،تو ﷲ اب تم ہی انصاف کرلو کہ تم ایمان کے امتحان میں کہاں پاس ہوئے ،قرآن و حدیث نے جس پر حصول ایمان کا مدار رکھا تھا اس سے کتنے دورنکل گئے۔

مسلمانو!کیا جس کے دل میں محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم ہوگی وہ ان کے بدگو وقعت کرسکے گا اگر چہ اس کا پیر یا استادیا پدرہی کیوں نہ ہو ، کیا جسے محمد رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام جہان سے زیادہ پیارے ہوں وہ ان کے گستاخ سے فورًاسخت شدید نفرت نہ کرے گااگر چہ اسکا دوست یابرادر یا پسر ہی کیوں نہ ہو ، ﷲ اپنے حال پر رحم کرو اپنے رب کی بات سنو، دیکھو وہ کیوں کر تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے،

دیکھو رب عزوجل فرماتاہے : لاتجد قوماًیؤمنون باللٰہ والیوم الاٰخر یوآ دون من حآد اللٰہ ورسولہ، ولوکانوۤا اٰبآئھم اوابنآئھم اواخوانھم اوعشیرتھم ط اولئک کتب فی قلوبھم الایمان وا ید ھم بروح منہ ط ویدخلھم جنٰت تجری من تحتھا الانھٰرخٰلد ین فیھا ط رضی اللٰہ عنہم ورضوا عنہ ط اولئک حزب اللٰہ ط الاۤ ان حزب اللٰہ ھم المفلحون ۱؂۔ تو نہ پائے گا انہیں جو ایمان لاتے ہیں اﷲ اورقیامت پر کہ ان کے دل میں ان کی محبت آنے پائے جنہوں نے خدااو ر رسول سے مخالفت کی، چاہے وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یاعزیزہی کیوں نہ ہوں۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کے دلوں میں اﷲ نے ایمان نقش کردیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مددفرمائی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا ،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ہمیشہ رہیں گے ان میں اﷲ ان سے راضی اور وہ اﷲ سے راضی، یہی لوگ اﷲ والے ہیں ۔ سنتا ہے اﷲ والے ہی مراد کو پہنچے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۵۹ /۲۲)

اس آیت کریمہ میں صاف فرمادیا کہ جو اﷲ یا رسول اﷲکی جناب میں گستاخی کرے،مسلمان اس سے دوستی نہ کرے گا ، جس کا صریح مفاد ہوا کہ جو اس سے دوستی کرے وہ مسلمان نہ ہوگا۔ پھر اس حکم کا قطعاً عام ہونا بالتصریح ارشاد فرمایا کہ باپ ،بیٹے ،بھائی ،عزیز سب کوگنا یا، یعنی کوئی کیسا ہی تمہارے زعم میں معظم یا کیسا ہی تمہیں بالطبع محبوب ہو، ایمان ہے تو گستاخی کے بعد اس سے محبت نہیں رکھ سکتے، اس کی وقعت نہیں مان سکتے ورنہ مسلمان نہ رہوگے۔ مولٰی سبحانہ و تعالٰی کا اتنا فرمانا ہی مسلمان کے لئے بس تھا مگردیکھو وہ تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا،اپنی عظیم نعمتوں کا لالچ دلاتا ہے کہ اگر اﷲ ورسول کی عظمت کے آگے تم نے کسی کا پاس نہ کیا کسی سے علاقہ نہ رکھا تو تمہیں کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے۔ (۱) اﷲتعالٰی تمہارے دلوں میں ایمان نقش کردے گا جس میں ان شاء ا ﷲ تعالٰی حسن خاتمہ کی بشارت جلیلہ ہے کہ اﷲ کا لکھا نہیں مٹتا۔
(۲) اﷲتعالٰی روح القدس سے تمہاری مددفرمائے گا۔
(۳) تمہیں ہمیشگی کی جنتوں میں لے جائے گاجن کے نیچے نہریں رواں ہیں ۔
(۴) تم خدا کے گروہ کہلاؤگے ، خدا والے ہوجاؤگے۔
(۵) منہ مانگی مرادیں پاؤگے بلکہ امید و خیال و گمان سے کروڑوں درجے افزوں۔
(۶) سب سے زیادہ یہ کہ اﷲتم سے راضی ہوگا۔
(۷) یہ کہ فرماتاہے ”میں تم سے راضی تم مجھ سے راضی ”بندے کیلئے اس سے زائد او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا رب اس سے راضی ہومگر انتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا اﷲ ان سے راضی وہ اﷲ سے راضی ۔

مسلمانو! خدا لگتی کہنا اگر آدمی کروڑجانیں رکھتا ہو اور سب کی سب ان عظیم دولتوں پر نثار کردے توواﷲ مفت پائیں ، پھرزیدوعمرو سے علاقہ تعظیم و محبت،یک لخت قطع کردینا کتنی بڑی بات ہے؟ جس پر اﷲ تعالٰی ان بے بہانعمتوں کا وعدہ فرمارہاہے اور اس کا وعدہ یقیناً سچا ہے۔ قرآن کریم کی عادت کریمہ ہے کہ جوحکم فرماتاہے جیساکہ اس کے ماننے والوں کو اپنی نعمتوں کی بشارت دیتا ہے، نہ ماننے والوں پر اپنے عذابوں کا تازیانہ بھی رکھتاہے کہ جو پست ہمت نعمتوں کی لالچ میں نہ آئیں ،سزاؤں کے ڈرسے، راہ پائیں ۔ وہ عذاب بھی سن لیجئے:

تمہارا رب عزوجل فرماتاہے:

یا یھا الذین اٰمنوا لا تتخذ وا اٰبآء کم واخوانکم اولیآء ان استحبوا الکفر علی الایمان ط ومن یتولھم منکم فاولٰئک ھم الظٰلمون۱؂۔

اے ایمان والو! اپنے باپ ،اپنے بھائیوں کودوست نہ بناؤ اگر وہ ایمان پر کفر پسند کریں اور تم میں جوکوئی ان سے رفاقت پسند کرے وہی لوگ ستمگار ہیں۔

(۱؂القرآن الکریم ۹ /۲۳)

اور فرماتاہے کہ :

یایھا الذین اٰمنوا لا تتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء

(الٰی قولہ تعالی)

__تسرون الیھم بالمودۃ ق وانا اعلم بمآ اخفیتم ومآ اعلنتم ط ومن یفعلہ منکم فقدضل سوآ ء السبیل

(الٰی قولہٖ تعالٰی)

لن تنفعکم ارحامکم ولآاولاد کم یوم القٰیمۃ ج یفصل بینکم ط واﷲ بماتعملون بصیر__۲؂۔

اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ۔ تم چھپ کران سے دوستی کرتے ہواور میں خوب جانتا ہوں جوتم چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہو اور تم میں جو ایسا کرے گا وہ ضرور سیدھی راہ سے بہکا۔ تمہارے رشتے اورتمہارے بچے تمہیں کچھ نفع نہ دیں گے۔ قیامت کے دن ۔اللہ تم میں اورتمہارے پیاروں میں جدائی ڈال دیگا کہ تم میں ایک، دوسرے کے کچھ کام نہ آسکے گا اور اﷲ تمہارے اعمال کو دیکھ رہاہے۔

(۲؂القرآن الکریم ۶۰ /۱تا۳)

اور فرماتاہے:

ومن یتولھم منکم فانہ منھم ط ان اﷲ لا یھدی القوم الظٰلمین ۳؂۔

تم میں جو ا ن سے دوستی کریگا توبےشک وہ انہیں میں سے ہے۔ بے شک اﷲہدایت نہیں کرتا ظالموں کو۔

(۳؂القرآن الکریم ۵ /۵۱)

پہلی د و آیتوں میں تو ان سے دوستی کرنے والوں کوظالم و گمراہ ہی فرمایا تھا، اس آیت کریمہ نے بالکل تصفیہ فرمادیا کہ جوان سے دوستی رکھے وہ بھی ان میں سے ہے ، ان ہی کی طرح کافر ہے ، ان کے ساتھ ایک رسی میں باندھا جائے گا اور وہ کوڑا بھی یادرکھیے کہ__ تم چھپ چھپ کر ان سے میل رکھتے ہو اور میں تمہارے چھپے اور ظاہر سب کوجانتا ہوں __ ۔ اب وہ رسی بھی سن لیجئے جس میں رسول اﷲ کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے باندھے جائیں گے۔

تمہارا رب عزوجل فرماتاہے :

والذین یؤذ ون رسول اﷲ لھم عذاب الیم__۱؂۔

جو رسول اﷲکو ایذاء دیتے ہیں ان کیلئے دردناک عذاب ہے۔

(۱؂القرآن الکریم ۹ /۶۱)

اور فرماتا ہے :

ان الذین یؤذون اللٰہ ورسولہ لعنھم اللٰہ فی ا لد نیا و الاٰخرۃ و اعد لھم عذاباً مھیناً۲؂

بے شک جواﷲ و رسول کو ایذاء دیتے ہیں ان پر اﷲ کی لعنت ہے دنیا و آخرت میں ،اور اﷲ نے ان کیلئے ذلت کا عذاب تیارکر رکھا ہے ۔

(۲؂القرآن الکریم ۳۳ /۵۷)

اﷲ عزوجل ایذاء سے پاک ہے اسے کون ایذاء دے سکتاہے ۔ مگر حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو اپنی ایذاء فرمایا۔ ان آیتوں سے اس شخص پر جو رسول اﷲ کے بدگویوں سے محبت کا برتاؤ کرے ، سات کوڑے ثابت ہوئے۔:

(۱) وہ ظالم ہے۔

(۲) گمراہ ہے۔

(۳) کافر ہے۔

(۴) اس کے لئے دردناک عذاب ہے۔

(۵) وہ آخرت میں ذلیل و خوارہوگا۔

(۶) اس نے اﷲ واحد قہار کوایذاء دی۔

(۷) اس پر دونوں جہان میں خدا کی لعنت ہے۔

والعیاذباﷲتعالٰی۔

اے مسلمان ! اے مسلمان! اے امتی سیدالانس والجان صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ! خدارا، ذرا انصاف کر، وہ سات بہتر ہیں جو ان لوگوں سے یک لخت علاقہ ترک کردینے پر ملتے ہیں کہ دل میں ایمان جم جائے اﷲ مددگار ہو، جنت مقام ہو، اﷲ والوں میں شمار ہو ، مرادیں ملیں ، خدا تجھ سے راضی ہو، توخدا سے راضی ہو یایہ سات بھلے ہیں جو ان لوگوں سے تعلق لگارہنے پر پڑیں گے کہ ظالم، گمراہ ، کافر، جہنمی ہو، آخرت میں خوارہو،خدا کوایذا دے، خدا دونوں جہان میں لعنت کرے۔ ہیھات، ہیھات کو ن کہہ سکتا ہے ۔ کہ یہ سات اچھے ہیں ، کون کہہ سکتا ہے کہ وہ سات چھوڑنے کے ہیں ،مگرجان برادر ! خالی یہ کہہ دینا تو کام نہیں دیتا، وہاں تو امتحان کی ٹھہری ہے ابھی آیت سن چکے الم احسب الناس ،کیا اس بھلاوے میں ہوکہ بس زبان سے کہہ کر چھوٹ جاؤگے امتحان نہ ہوگا ۔ ہاں یہی امتحان کا وقت ہے!دیکھویہ اﷲ واحد قہار کی طرف سے تمہاری جانچ ہے۔ دیکھو! وہ فر ما رہا ہے کہ تمہارے رشتے، علاقے قیامت میں کام نہ آئیں گے ، مجھ سے توڑ کر کس سے جوڑتے ہو۔ دیکھو ! وہ فرمارہاہے کہ میں غافل نہیں،میں بے خبر نہیں ،تمہارے اعمال دیکھ رہا ہوں، تمہارے اقوال سن رہا ہوں تمہارے دلوں کی حالت سے خبردار ہوں، دیکھو !بے پروائی نہ کرو، پرائے پیچھے، اپنی عاقبت نہ بگاڑو ، اﷲ ورسول کے مقابل ضد سے کام نہ لو، دیکھو وہ تمہیں اپنے سخت عذاب سے ڈراتا ہے۔ اس کے عذاب سے کہیں پناہ نہیں ،دیکھو ! وہ تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا ہے ، بے اس کی رحمت کے کہیں نباہ نہیں دیکھو اور گناہ، تو نرے گناہ ہوتے ہیں جن پر عذاب کا استحقاق ہو،مگر ایمان نہیں جاتا،عذاب ہوکر خواہ رب کی رحمت، حبیب کی شفاعت سے ،بے عذاب ہی چھٹکاراہوجائے گا یا ہوسکتاہے ۔مگر یہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم کامقام ہے انکی عظمت، ان کی محبت، مدارایمان ہے، قرآن مجید کی آیتیں سن چکے کہ جو اس معاملہ میں کمی کرے اس پر دونوں جہان میں خدا کی لعنت ہے۔ دیکھو جب ایمان گیا، پھر اصلاً، ابدالآ باد تک کبھی، کسی طرح ہر گز، اصلاً، عذاب شدید سے رہائی نہ ہوگی۔ گستاخی کرنے والے، جن کا تم یہاں کچھ پاس لحاظ کرو، وہاں اپنی بھگت رہے ہونگے تمہیں بچانے نہ آئیں گے اور آئیں تو کیا کرسکتے ہیں ؟ پھر ایسوں کا لحاظ کرکے، اپنی جان کو ہمیشہ ہمیشہ غضب جبارو عذاب نار میں پھنسادینا، کیا عقل کی بات ہے ؟۔ للٰہ للٰہ ذرا دیر کو اﷲ ورسول کے سوا سب ایں وآں سے نظر اٹھاکرآنکھیں بند کرو اور گردن جھکا کر اپنے آپ کو اﷲ واحدقہار کے سامنے حاضر سمجھواور نرے خالص سچے اسلامی دل کے ساتھ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم عظمت ،بلند عزت ،رفیع وجاھت ، جو ان کے رب نے انہیں بخشی اور ان کی تعظیم ، ان کی توقیر پر ایمان و اسلام کی بناء ر کھی اسے دل میں جماکر انصاف و ایمان سے کہو،کیا جس نے کہاکہ شیطان کویہ وسعت، نص سے ثابت ہوئی ، فخرعالم کی وسعت علم کی کونسی نص قطعی ہے۱؂۔

(۱؂البراہین القاطعۃ بحث علم غیب مطبع لے بلا ساڈھور ص۵۱)

اس نے محمد رسول اﷲ کی شان میں گستاخی نہ کی ؟ کیا اس نے ابلیس لعین کے علم کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم اقدس پر نہ بڑھایا ؟کیاوہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی وسعت علم سے کافر ہو کر شیطان کی وسعت علم پر ایمان نہ لایا؟

مسلمانو! خود اس بد گو سے اتنا ہی کہہ دیکھو کہ او علم میں شیطان کے ہمسردیکھو! تو وہ برا مانتا ہے یا نہیں حالانکہ اسے تو علم میں شیطان سے کم بھی نہ کہا بلکہ شیطان کے برابر ہی بتایا، پھر کم کہنا کیا توہین نہ ہوگی ؟ اور اگر وہ اپنی بات پالنے کو اس پر ناگواری ظاہر نہ کرے اگر چہ دل میں قطعًا ناگوار مانے گا، تو اسے چھوڑیئے اور کسی معظم سے کہہ دیجئے اور پورا ہی امتحان مقصود ہوتوکیا کچہری میں جاکر آپ کسی حاکم کو ان ہی لفظوں سے تعبیر کر سکتے ہیں؟دیکھئے ! ابھی ابھی کھلا جاتا ہے کہ توہین ہوئی اور بے شک ہوئی پھرکیا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین کرنا کفر نہیں؟ ضرور ہے اور بالیقین ہے۔ کیا جس نے شیطان کی وسعت علم کو نص سے ثابت مان کرحضور اقدس کے لئے وسعت علم ماننے والے کوکہا__ تمام نصوص کو رد کرکے ایک شرک ثابت کرتا ہے__۲؂۔

(۲؂البراہین القاطعۃ بحث علم غیب مطبع لے بلا ساڈھورص۵۱)

او ر کہا__ شرک نہیں تو کونسا ایمان کا حصہ ہے__ ۳؂۔

(۳؂البراہین القاطعۃ بحث علم غیب مطبع لے بلا ساڈھورص۵۱)

اس نے ابلیس لعین کو خدا کا شریک مانا یانہیں ؟ ضرور مانا، کہ جوبا ت مخلوق میں ایک کے لئے ثابت کرنا شرک ہوگی ، وہ جس کسی کے لئے ثابت کی جائے، قطعاً شرک ہی رہے گی کہ خدا کا شریک کوئی نہیں ہوسکتا ، جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ وسعت علم ماننی شرک ٹھہرائی، جس میں کوئی حصہ ایمان کا نہیں توضرور اتنی وسعت خدا کی وہ خاص صفت ہوئی جس کو خدائی لازم ہے جب تو نبی کے لئے اس کا ماننے والا کا فر مشرک ہوا اور اس نے وہی وسعت ، وہی صفت خود اپنے منہ، ابلیس کے لئے ثابت مانی تو صاف صاف شیطان کو خدا کا شریک ٹھہرایا۔

مسلمانو !کیا یہ اﷲاور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وسلم دونوں کی توہین نہ ہوئی ؟ ضرور ہوئی ، اﷲ کی توہین توظاہر ہے کہ اس کا شریک بنایا اور وہ بھی کسے؟ ابلیس لعین کو اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین یوں ،کہ ابلیس کا مرتبہ اتنا بڑھا دیا، کہ وہ تو خدا کی خاص صفت میں حصہ دار ہے، اور یہ اس سے ایسے محروم، کہ ان کے لئے ثابت مانو، تو مشرک ہوجاؤ۔

مسلمانو ! کیا خدا اور رسول اﷲ کی توہین کرنے والا کافر نہیں ؟ ضرور ہے۔ کیا جس نے کہا کہ__ بعض علوم غیبیہ مرا د ہیں تو اس میں حضور (یعنی نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )کی کیا تخصیص ہے ایسا علم غیب تو زید وعمرو بلکہ ہر صبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے__۱؂۔

(۱؂حفظ الایمان جواب سوال سوم کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سہارنپور بھارت ص۸ )

(حفظ الایمان مع تغییر العنوان جواب سوال سوم محمد عثمان تاجر الکتب فی دریبہ کلاں دہلی ص۷و۱۷)

کیا اس نے محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو صریح گالی نہ دی ؟ کیانبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا ہی علم غیب دیا گیا تھا، جتنا ہر پاگل اور ہرچوپائے کو حاصل ہے؟

مسلمان! مسلمان ! اے محمدرسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ! تجھے اپنے دین و ایمان کا واسطہ ، کیا اس ناپاک و ملعون گالی کے صریح ہونے میں تجھے کچھ شبہ گزرسکتا ہے؟ معاذاﷲ! کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عظمت تیرے دل سے ایسی نکل گئی ہو کہ اس شدید گالی میں بھی ان کی توہین نہ جانے اور اگر اب بھی تجھے اعتبار نہ آئے، توخود ان ہی بدگویوں سے پوچھ دیکھ، کہ آیا تمہیں اور تمہارے استادوں ، پیرجیون کو کہہ سکتے ہیں کہ اے فلاں ! تجھے اتنا ہی علم ہے جتنا سور کو ہے تیرے استاد کو ایسا ہی علم تھا جیسا کتے کو ہے تیرے پیر کو اسی قدرعلم تھاجیسا گدھے کو ہے ،یامختصر طور پراتنا ہی ہوکہ ا و علم میں الو، گدھے ،کتے ،سورکے ہمسرو ! دیکھو تو وہ اس میں اپنی اور اپنے استاد، پیر کی توہین سمجھتے ہیں یا نہیں ؟ قطعاًسمجھیں گے اور قابوپائیں تو سرہوجائیں ، پھرکیا سبب کہ جو کلمہ ان کے حق میں توہین وکسرشان ہو محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین نہ ہو،کیا معاذ اﷲ ان کی عظمت ان سے بھی گئی گزری ہے، کیا اسی کانام ایمان ہے ؟ حاش للٰہ حاشﷲ! کیا جس نے کہا کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے جو دوسرے شخص سے مخفی ہے توچاہیے کہ سب کوعالم الغیب کہاجاوے، پھر اگرزید اسکا التزام کرلے کہ ہاں میں سب کوعالم الغیب کہوں گا توپھر علم غیب کو منجملہ کمالات نبویہ شمارکیوں کیا جاتا ہے ؟ جس امر میں مومن بلکہ انسان کی بھی خصوصیت نہ ہو وہ کمالات نبوت سے کب ہوسکتاہے؟ اور اگر التزام نہ کیا جاوے تو نبی وغیرنبی، میں وجہ فرق بیان کرناضرورہے ۲؂،انتہٰی۔

(۲؂حفظ الایمان جواب سوال سوم کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سہارنپور بھارت ص۸ )
(حفظ الایمان مع تغییر العنوان جواب سوال سوم محمد عثمان تاجر الکتب فی دریبہ کلاں دہلی ص۷و۱۷)

کیارسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور جانوروں، پاگلوں میں فرق نہ جاننے والاحضور کوگالی نہیں دیتا ؟ کیا اس نے اﷲ کے کلام کا صراحۃً ردوابطال نہ کردیا ۔
دیکھو تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : وعلمک مالم تکن تعلم ط وکان فضل اﷲ علیک عظیماً ط۱؂۔ اے نبی !اﷲ نے تم کو سکھایا جوتم نہ جانتے تھے اور اﷲکا فضل تم پر بڑاہے۔

(۱؂القرآن الکریم ۴ /۱۳)

یہاں نامعلوم باتوں کاعلم عطافرمانے کواﷲ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کمالات ومدائح میں شمار فرمایا ۔
اور فرماتاہے : ”وانہ لذوعلم لما علمنٰہ”۲؂۔ اور بے شک یعقوب ہمار ے سکھائے سےعلم والاہے۔

(۲؂القرآن الکریم ۱۲ /۶۸)

اور فرماتا ہے : وبشروہ بغلٰم علیم۳؂۔ ملائکہ نے ابراھیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم کو ایک علم والے لڑکے اسحٰق علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بشارت دی۔

(۳؂القرآن الکریم ۵۱ /۲۸)

اور فرماتاہے : و علمنٰہ من لدنا علمًا”۴؂۔ اورہم نے خضر کو اپنے پاس سے ایک علم سکھایا ۔

(۴؂القرآن الکریم ۱۸ /۶۵)

وغیرہا آیات ، جن میں اﷲتعالٰی نے علم کو کمالات انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام وا لثناء میں گنا ۔اب زید کی جگہ اﷲ عزوجل کا نام پاک لیجئے اور علم غیب کی جگہ مطلق علم جس کاہرچوپائے کو ملنا اور بھی ظاہر ہے اور دیکھئے کہ اس بدگوئے مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تقریر کس طرح کلام اﷲ عزوجل کا رد کررہی ہے یعنی یہ بدگوخدا کے مقابل کھڑا ہوکر کہہ رہا ہے کہ آ پ (یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اور دیگر انبیاء علیہم الصلٰوۃ السلام) کی ذات مقدسہ پر علم کا اطلاق کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہوتو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس علم سے مراد بعض علم ہے یا کل علوم ، اگر بعض علوم مراد ہیں تو اس میں حضور اور دیگر انبیاء علیہم اسلام کی کیا تخصیص ہےایسا علم تو زید و عمرو بلکہ ہرصبی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات وبہائم کے لئے بھی حاصل ہے کیونکہ ہرشخص کوکسی نہ کسی بات کا علم ہوتا ہے توچاہیے کہ سب کو عالم کہاجائے ، پھر اگر زید اس کا التزام کرلے کہ ہاں میں سب کو عالم کہوں گا توپھر علم کو منجملہ کمالات نبویہ شمار کیوں کیا جاتا ہے جس امر میں مومن بلکہ انسان کی بھی خصوصیت نہ ہو وہ کمالات نبوت سے کب ہوسکتا ہے اور اگر التزام نہ کیا جائے تونبی اور غیر نبی میں وجہ فرق بیان کرناضرور ہے، اور اگر تمام علوم غیب مراد ہیں ، اس طرح کہ اس کا ایک فردبھی خارج نہ رہے تو اس کا بطلان دلیل نقلی وعقلی سے ثابت ہے ۱؂۔ انتہٰی ۔ پس ثابت ہوا کہ خدا کے وہ سب اقوال اسکی دلیل سے باطل ہیں ۔

(۱؂حفظ الایمان جواب سوال سوم کتب خانہ اعزازیہ دیوبند سہارنپور بھارت ص۸ )
حفظ الایمان مع تغییر العنوان محمد عثمان تاجر الکتب فی دریبہ کلاں دہلی ص۷و۱۷)

مسلمانو ! دیکھا کہ اس بدگو نے فقط محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہی کوگالی نہ دی بلکہ ان کے رب (جل وعلا )کے کلاموں کو بھی باطل ومردودکردیا ۔

مسلمانو ! جس کی جرات یہاں تک پہنچی کہ رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم غیب کو پاگلوں اور جانوروں کے علم سے ملا دے اور ایمان و اسلام و انسانیت سے آنکھیں بندکرکے صاف کہہ دے کہ نبی اور جانور میں کیا فرق ہے، اس سے کیا تعجب کہ خدا کے کلاموں کو رد کرے باطل بتائے پس پشت ڈالے زیرپاملے بلکہ جو یہ سب کچھ کلام اﷲکے ساتھ کرچکا وہی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اس گالی پر جرأت کرسکے گا مگر ہاں اس سے دریافت کرو کہ آپ کی یہ تقریر خو د آپ اور آپ کے اساتذہ میں جاری ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں توکیوں ؟ اور اگر ہے توکیا جواب ہے ؟ ہاں ان بدگویوں سے کہو! کیا آپ حضرات اپنی تقریرکے طور پر جو آپ نے محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں جاری کی ،خود اپنے آپ سے اسے دریافت کی اجازت دے سکتے ہیں کہ آپ صاحبوں کو عالم ، فاضل، مولوی، ملا، چنیں، چناں فلاں فلاں کیوں کہاجاتا ہے اور حیوانات وبہائم مثلاًکتے سورکوکوئی ان الفاظ سے تعبیر نہیں کرتا ۔
ان مناصب کے باعث آپ کے اتباع و اذناب آپ کی تعظیم ،تکریم، توقیر کیوں کرتے،دست و پا پر بوسہ دیتے ہیں اور جانوروں مثلاًالو، گدھے کے ساتھ کوئی یہ برتاؤنہیں برتتا اس کی وجہ کیا ہے؟ کل علم توقطعاً آپ صاحبوں کوبھی نہیں اور بعض میں آپ کی کیا تخصیص ؟ ایسا علم تو الو،گدھے، کتے،سور سب کوحاصل ہے توچاہیے کہ ان سب کو عالم و فاضل و چنیں و چناں کہا جائے پھر اگر آپ اس کا التزام کریں کہ ہاں ہم سب کو علماء کہیں گے تو ۔۔۔۔۔۔ پھر علم کو آپ کے کمالات میں کیوں شمار کیا جاتاہے جس امر میں مومن بلکہ انسان کی بھی خصوصیت نہ ہو،گدھے، کتے،سور سب کوحاصل ہو وہ آپ کے کمالات سے کیوں ہوا ؟ اور اگر التزام نہ کیا جا ئے تو آپ ہی کے بیان سے آپ میں اور گدھے ،کتے ،سور میں وجہ فرق بیان کرنا ضرور ہے ۔ فقط۔
مسلمانو ! یوں دریافت کرتے ہی بعونہٖ تعالی صاف کھل جائے گا کہ ان بدگویوں نے محمد رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کوکیسی صریح شدیدگالی دی اوران کے رب عزوجل کے قرآن مجید کو جابجاکیساردوباطل کردیا۔
مسلمانو ! خاص اس بدگو اور اس کے ساتھیوں سے پوچھو، ان پر خود ان کے اقرار سے قرآن عظیم کی یہ آیات چسپاں ہو ئیں یانہیں ۔
تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : ولقدذرانا لجھنم کثیرًا من الجن والانس لھم قلوب لا یفقھون بھا ولھم اعین لا یبصرون بھا ولھم اٰذان لا یسمعون بھا ط اولئک کالانعام بل ھم اضل ط اولئک ھم ا لغٰفلون۱؂۔ اور بے شک ضرور ہم نے جہنم کیلئے پھیلارکھے ہیں بہت سے جن اور آدمی ان کے وہ دل ہیں جن سے حق کو نہیں سمجھتے اور وہ آنکھیں جن سے حق کا راستہ نہیں سوجھتے اور وہ کان جن سے حق بات نہیں سنتے ۔ وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کربہکے ہوئے۔ وہی گمر اہ وہی لوگ غفلت میں پڑے ہیں”۔

(۱؂القرآن الکریم۷/۱۷۹)

اور فرماتاہے: ارأیت من اتخذ الٰھہ ھوٰہ ط افانت تکون علیہ وکیلاً ام تحسب ان اکثرھم یسمعون اویعقلون ط ان ھم الا کالانعام بل ھم اضل سبیلاً ۲؂۔ بھلادیکھ تو ،جس نے اپنی خواہش کو اپناخدا بنالیا توکیا تواس کا ذمہ لے گا ،یاتجھے گمان ہے ان میں بہت کچھ سنتے یاعقل رکھتے ہیں سووہ نہیں مگرجیسے چوپائے بلکہ وہ تو ان سے بھی بڑھ کرگمراہ ہیں۔

(۲؂القرآن الکریم ۲۵ /۴۳و۴۴)

ان بدگویوں نے چوپایوں کا علم تو انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام کے علم کے برابرمانا ۔ اب ان سے پوچھئے کیا تمہارا علم انبیاء یا خود حضور سید الانبیاء علیہ و علیہم الصلٰوۃ والثنا ء کے برابر ہے، ظاہر اً اسکا دعوٰی نہ کریں گے اور اگر کہہ بھی دیں کہ جب چوپایوں سے برابر ی کردی، آپ تو دوپائے ہیں برابر ی مانتے کیامشکل ہے ؟ تو یوں پوچھئے تمہارے استادوں ،پیروں ،ملاؤں میں کوئی بھی ایسا گزرا جو تم سے علم میں زیادہ ہو یا سب ایک برابر ہو۔آخر کہیں تو فرق نکالیں گے توان کے وہ استاد وغیرہ تو ان کے اقرار سے علم میں چوپایوں کے برابر ہوئے اور یہ ان سے علم میں کم ہیں ، جب تو انکی شاگردی کی، اور جو ایک مساوی سے کم ہو دوسرے سے بھی ضرور کم ہوگا تو یہ حضرات خود اپنی تقریر کی رو سے چوپایوں سے بڑ ھ کر گمراہ ہوئے اور ان آیتوں کے مصداق ٹھہرے ۔ کذٰلک العذاب ط ولعذا ب الاٰخرۃ اکبر لوکانوا یعلمون۱؂۔ مار ایسی ہوتی ہے او ر بے شک آخرت کی مار سب سے بڑی ،کیا اچھاتھا ا گر وہ جانتے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۶۸ /۳۳)

مسلمانو ! یہ حالتیں تو ان کلمات کی تھیں جن میں انبیائے کرام و حضور پر نورسید الانام علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ہاتھ صاف کئے گئے پھر ا ن عبارات کا کیا پوچھنا جن میں اصالۃً بالقصد رب العزت عز جلالہ کی عزت پر حملہ کیا گیا ہو۔خدارا انصاف ! کیا جس نے کہا ”میں نے کب کہا ہے کہ میں و قوع کذب باری کا قائل نہیں ہوں ۲؂،یعنی وہ شخص اس کا قائل ہے کہ خدا بالفعل جھو ٹا ہے جھوٹ بولا، جھوٹ بولتاہے۔ اس کی نسبت یہ فتوٰی دینے والا کہ” اگر چہ اس نے تاویل آیات میں خطاکی مگر تاہم اس کو کافر یا بدعتی خیال کہنانہیں چاہئے، جس نے کہا کہ” اس کو کوئی سخت کلمہ نہ کہنا چاہیے ۳؂”
جس نے کہا کہ” اس میں تکفیر علمائے سلف کی لازم آتی ہے ۔حنفی، شافعی پر طعن و تضلیل نہیں کرسکتا ”۴؂۔
یعنی خدا کو معاذاﷲ جھوٹا کہنا بہت سے علمائے سلف کا بھی مذہب تھا۔ یہ اختلاف حنفی شافعی کاسا ہے۔
کسی نے ہاتھ ناف سے اوپر باندھے ، کسی نے نیچے ، ایساہی اسے بھی سمجھو کہ کسی نے خدا کو سچا کہاکسی نے جھوٹا ،لہذا ”ایسے کو تضلیل و تفسیق سے مامون کرنا چاہیے ”۵؂۔
یعنی جو خدا کو جھوٹا کہے اسے گمراہ کیا معنی ؟گنہگار نہ کہو ۔

(۲؂)
(۳؂)
(۴؂)

کیا جس نے یہ سب تو اس مکذب خدا کی نسبت بتایا اور یہیں خود اپنی طرف سے باوصف اس بے معنٰی اقرار کہ ” قدرۃ علٰی الکذب مع امتناع الوقوع مسئلہ اتفاقیہ ہے”۱؂۔

صاف صریح کہہ دیاکہ وقوع کذب کے معنٰی درست ہوگئے ۲؂۔

(۱؂) (۲؂امطار الحق رشید احمد گنگوہی کا عقیدہ وقوع کذب باری تعالی مطبع دت پرشاد بمبئی انڈیا ص ۳۱)

یعنی یہ بات ٹھیک ہوگئی کہ خدا سے کذب واقع ہوا، کیا یہ شخص مسلمان رہ سکتاہے ؟ کیا جوایسے کو مسلمان سمجھے خودمسلمان ہوسکتاہے؟

مسلمانو ! خدا را انصاف ، ایمان نام کاہے کا تھا تصدیق الہی کا ، تصدیق کا صریح مخالف کیا ہے ، تکذیب ، تکذیب کے کیا معنی ہیں کسی کی طرف کذب منسوب کرنا ۔ جب صراحۃً خداکو کاذب کہہ کر بھی ایمان باقی رہے تو خدا جانے ایمان کس جانور کا نام ہے ؟خدا جانے مجوس وہنود و نصٰارٰی و یہود کیوں کافر ہوئے ؟ ان میں توکوئی صاف اپنے معبود کو جھوٹا بھی نہیں بتاتا۔ ہاں معبود برحق کی باتوں کویوں نہیں مانتے کہ انہیں اسکی با تیں ہی نہیں جانتے یا تسلیم نہیں کرتے ۔ایسا تو دنیا کے پر دے پرکوئی کافر سا کافربھی شاید نہ نکلے کہ خدا کو خدا مانتا ، اسکے کلام کواسکا کلام جانتا اورپھر بے دھڑک کہتا ہو کہ اس نے جھوٹ کہا، اس سے وقوع کذب کی معنی درست ہوگئے۔غرض کوئی ذی انصاف شک نہیں کرسکتا کہ ان تمام بدگویوں نے منہ بھرکراﷲ ورسول کو گالیاں دی ہیں ، اب یہی وقت امتحان الٰہی ہے، واحد قہار جبار عزجلالہ سے ڈرو اور وہ آیتیں کہ اوپر گزریں، پیش نظر رکھ کر عمل کرو۔آپ تمہارا ایمان تمہارے دلوں میں تمام بدگویوں سے نفرت بھر د ے گا۔ ہرگز اﷲ و رسول اﷲ جل و علا کے مقابل تمہیں انکی حمایت نہ کرنے دے گا۔ تم کو ان سے گھن آئے گی نہ کہ ان کی پچ کرو،اﷲ ورسول کے مقابل انکی گالیوں میں مہمل و بیہودہ تاویل گھڑو ۔
للٰہ انصاف ! اگر کوئی شخص تمہارے ماں ، باپ ،استاد ،پیر کوگالیاں دے اور نہ صرف زبانی بلکہ لکھ لکھ کر چھاپے، شائع کرے۔ کیا تم اس کا ساتھ دوگے یااس کی بات بنانے کو تاویلیں گھڑوگے یا اس کے بکنے سے بے پرواہی کرکے اس سے بدستور صاف رہوگے ؟ نہیں نہیں ! اگر تم میں انسانی غیرت ،انسانی حمیت ، ماں باپ کی عزت حرمت عظمت محبت کانام نشان بھی لگارہ گیا ہے تو اس بدگو دشنامی کی صورت سے نفرت کروگے، اسکے سائے سے دور بھاگوگے،اس کا نام سن کرغیظ لاؤگے جو اس کے لئے بناوٹیں گڑھے ،اسکے بھی دشمن ہوجاؤگے، پھرخدا کے لئے ماں باپ کو ایک پلہ میں رکھو اﷲ واحدقہار و محمد رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عزت و عظمت پر ایمان کودوسرے پلے میں ، اگر مسلمان ہو تو ماں باپ کی عزت کو اﷲ و رسو ل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی عزت سے کچھ نسبت نہ مانوگے ، ماں باپ کی محبت و حمایت کو اﷲ ورسول کی محبت و خدمت کے آگے ناچیز جانو گے۔ تو واجب واجب واجب،لاکھ لاکھ واجب سے بڑھ کر واجب کہ ان بدگو سے وہ نفرت و دوری و غیظ وجدائی ہو کہ ماں باپ کے دشنام دہندہ کے ساتھ اس کا ہزار واں حصہ نہ ہو۔ یہ ہیں وہ لوگ جن کیلئے ان سات نعمتوں کی بشارت ہے۔ مسلمانو! تمہارا یہ ذلیل خیر خواہ امید کرتا ہے ۔کہ اﷲ واحدقہار کی ان آیات اور اس بیان شافی واضح البینا ت کے بعد اس بارے میں آپ سے زیادہ عرض کی حاجت نہ ہوتمہارے ایمان خود ہی ان بدگویوں سے وہی پاک مبارک الفاظ بول اٹھیں گے جو تمہارے رب نے قرآن عظیم میں تمہارے سکھانے کو قوم ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم سے نقل فرمائے۔
تمہارا رب عزوجل فرماتا ہے : قدکانت لکم اسوۃحسنۃ فی ابرٰھیم والذین معہ اذقالوا لقومھم انابرء ؤا منکم ومما تعبدون من دون اﷲ کفرنابکم وبدابینناو بینکم العدا وۃ والبغضآء ابدًا حتٰی تؤمنوا باﷲ و حدہ ۔ (الی قولہٖ تعالٰی) لقدکان لکم فیھم اسوۃحسنۃلمن کان یرجوا اﷲ والیوم الاٰخر ط ومن یتول فان اﷲ ھو الغنی الحمید۱؂ بے شک تمہارے لئے ابراہیم اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں میں اچھی ریس ہے جب وہ اپنی قوم سے بولے بے شک ہم تم سے بیزار ہیں اور ان سب سے جن کو اﷲکے سوا پوجتے ہو۔ ہم تمہارے منکر ہو ئے اورہم میں اور تم میں دشمنی اور عداوت ہمیشہ کو ظاہر ہوگئی جب تک تم ایک اﷲ پر ایمان نہ لاؤ۔بے شک ضروران میں تمہارے لیے عمدہ ریس تھی۔ اس کیلئے جو اﷲ او ر قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور جو منہ پھیرے تو بے شک اﷲ ہی بے پرواہ سراہا گیا ہے ۔

(۱؂القرآن الکریم۶۰ /۴تا۶)

یعنی وہ جوتم سے یہ فرمارہاہے کہ جس طرح میرے خلیل اور ان کے ساتھ والوں نے کیا کہ میرے لئے اپنی قوم کے صاف دشمن ہوگئے او ر تنکا توڑ کر ان سے جدائی کرلی اور کہہ دیا کہ ہم سے تمہارا کچھ علاقہ نہیں ، ہم تم سے قطعی بیزار ہیں ،تمہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے یہ تمہارے بھلے کو تم سے فرمار ہاہے ، مانوتو تمہاری خیر ہے نہ مانو تو اﷲکو تمہاری کچھ پرواہ نہیں جہاں وہ میرے دشمن ہوئے انکے ساتھ تم بھی سہی ، میں تمام جہان سے غنی ہوں اور تمام خوبیوں سے موصوف ، جل و علاو تبارک وتعالٰی۔ یہ قرآن حکیم کے احکام تھے اﷲ تعالٰی جس سے بھلائی چاہے گا ان پر عمل کی توفیق دے گا مگر یہاں دو فرقے ہیں جن کو ان احکام میں عذر پیش آتے ہیں:

فرقہ اول

بے علم نادان،ان کے عذر دو قسم کے ہیں۔

عذراول : فلاں تو ہمارا استاد یا بزرگ یا دوست ہے ، اس کا جواب تو قرآن عظیم کی متعدد آیات سے سن چکے کہ رب عزوجل نے بار بار بتاکرصراحۃً فرمادیا کہ غضب الہٰی سے بچناچاہتے ہو تو اس باب میں اپنے باپ کی بھی رعایت نہ کرو۔

عذر دوم : صاحب یہ بدگو لوگ بھی تو مولوی ہیں ،بھلا مولویوں کو کیوں کرکافریا برا مانیں ، اس کا جواب تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : افرء یت من اتخذ الٰھہ ھوٰہ و اضلہ اللٰہ علٰی علم وختم علٰی سمعہٖ و قلبہٖ وجعل علٰی بصرہ غِشَاوَۃً ط فمن یھد یہ منم بعد اللٰہ ط افلا تذکرون۱؂۔ بھلا دیکھو تو جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدابنا لیا اور اﷲ نے علم ہوتے ساتے ا سے گمراہ کیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پٹی چڑھادی تو کون اسے راہ پر لائے اﷲ کے بعد توکیا تم دھیان نہیں کرتے۔

(۱؂القرآن ۱لکریم ۴۵ /۲۳)

اور فرماتا ہے: مثل الذین حملوا التورٰۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارًا ط بئس مثل القوم الذین کذبوا باٰیٰت اﷲ ط واﷲ لا یھدی القوم الظٰلمین ۲؂۔ وہ جن پر تو ریت کا بوجھ ر کھا گیا پھر انہوں نے اسے نہ اٹھایا ان کا حال اس گدھے کاساہے جس پر کتابیں لدی ہوں ،کیا بری مثال ہے ان کی جنہوں نے خدا کی آیتیں جھٹلائیں اور اﷲظالموں کو ہدایت نہیں کرتا”۔

(۲؂القرآن الکریم۶۲ /۵)

اور فرماتاہے: واتل علیھم نبا الذی اٰتینٰہ اٰیتنا فانسلخ منھا فا تبعہ الشیطٰن فکان من الغٰوینo ولوشئنا لرفعنٰہ بھا ولٰکنہ اخلد الی الارض و اتبع ھوٰہ فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث اوتتر کہ یلھث ط ذٰلک مثل القوم الذ ین کذ بوا باٰیٰتنا فاقصص القصص لعلھم یتفکرون o سآء مثلان القوم الذین کذبوا باٰیٰتنا وانفسھم کانوا یظلمون o من یھداﷲ فھو المھتدی ومن یضلل فاو لٰئک ھم الخٰسرونo۱؂ انہیں پڑھ کر سنا اس کی خبر جسے ہم نے اپنی آیتوں کا علم دیا تھا وہ ان سے صاف نکل گیا تو شیطان اس کے پیچھے لگاکہ گمراہ ہوگیا اور ہم چاہتے تو اس علم کے باعث اسے گرے سے اٹھالیتے مگر وہ تو زمین پکڑ گیا اور اپنی خواہش کا پیرو ہو گیا تواس کا حال کتے کی طرح ہے تو اس پر بوجھ لادے تو زبان نکال کر ہانپے اور چھوڑ دے تو ہانپے یہ انکا حال ہے جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں۔تو ہمارا یہ ارشاد بیان کرو شاید یہ لوگ سوچیں۔ کیا برا حال ہے ان کا جنہوں نے ہماری آیتیں جھٹلائیں وہ اپنی ہی جانوں پر ستم ڈھاتے تھے ۔جسے خدا ہدایت کرے وہی راہ پر ہے اور جسے گمراہ کرے تو وہی سراسر نقصان میں ہیں۔

(۱؂القرآن الکریم۷ / ۱۷۵ تا ۱۷۸)

یعنی ہدایت کچھ علم پر نہیں ،خدا کے اختیار میں ہے ۔ یہ آیتیں ہیں اور حدیثیں جو گمراہ عالموں کی مذمت میں ہیں انکا شمار ہی نہیں یہاں تک کہ ایک حدیث میں ہے۔دوزخ کے فرشتے بت پرستوں سے پہلے انہیں پکڑیں گے ،یہ کہیں گے کیا ہمیں بت پوجنے والوں سے بھی پہلے لیتے ہو؟ جواب ملے گا لیس من یعلم کمن لا یعلم۲؂۔ جاننے (عہ) والے اور انجان برابر نہیں۔

عہ: یہ حدیث طبرانی نے معجم کبیر اورابو نعیم نے حلیہ میں انس رضی اللہ تعالیی عنہ سے روایت کی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ۱۲منہ

(۲؂شعب الایمان حدیث ۱۹۰۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۳۰۹)

بھائیو! عالم کی عزت تو اس بنا پر تھی کہ وہ نبی کا وارث ہے،نبی کا وارث وہ جو ہدایت پرہواو ر جب گمراہی پر ہے تو نبی کا وارث ہوا یا شیطان کا ؟ اس وقت اس کی تعظیم نبی کی تعظیم ہوتی ۔اب اس کی تعظیم شیطا ن کی تعظیم ہوگی۔ یہ اس صورت میں ہے کہ عالم ،کفر سے نیچے کسی گمراہی میں ہو جیسے بدمذہبوں کے علماء پھر اس کوکیا پوچھنا جو خود کفر شدید میں ہو اسے عالم دین جاننا ہی کفر ہے نہ کہ عالم دین جان کر اس کی تعظیم ۔
بھائیو! علم اس وقت نفع دیتا ہے کہ د ین کے ساتھ ہو ورنہ پنڈت یا پادری کیا اپنے یہاں کے عالم نہیں۔ابلیس کتنا بڑا عالم تھا پھرکیا کوئی مسلمان اس کی تعظیم کرے گا؟ اسے تو معلم الملکوت کہتے ہیں یعنی فرشتوں کو علم سکھاتا ۔ جب سے اس نے محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تعظیم سے منہ موڑا۔ حضور(عہ)کا نورکہ پیشانی آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام میں رکھاگیا ، اسے سجدہ نہ کیا ، اس وقت سے لعنت ابدی کاطوق اس کے گلے میں پڑا ، دیکھو جب سے اس کے شاگردان رشید اس کے ساتھ کیا بر تاؤ کرتے ہیں ،ہمیشہ اس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ ہر رمضان میں مہینہ بھر اسے زنجیروں میں جکڑتے ہیں ، قیامت کے دن کھینچ کر جہنم میں دھکیلیں گے۔ یہاں سے علم کا جواب بھی واضح ہوگیا اور استاذی کا بھی ۔

عہ: تفسیر کبیر امام فخر الدین رازی ج۲ص۴۵۵ پر زیر قولہٖ تعالٰی

تلک الرسل فضلنا :

ان الملٰئکۃ امروا بالسجود لاٰدم لاجل ان نور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فی جبھۃ اٰدم۱؂ ۔

(۱؂مفاتیح الغیب (التفسیر الکبیر) تحت الآیۃ ۲/۲۵۳دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶/ ۱۶۹)

تفسیر نیشاپوری ج۲ ص۷:

سجود الملٰئکۃ لاٰدم انما کان لاجل نور محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم الذی کان فی جبھتہ ۲؂۔

(۲؂غرائب القرآن ورغائب الفرقان تحت الایۃ ۲/۲۵۳مصطفی البابی مصر ۳ /۷)

دونوں عبارتوں کا حاصل یہ ہے کہ فرشتوں کا آدم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو سجدہ کرنا اس لئے تھا کہ ان کی پیشانی میں نور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تھا۔۱۲منہ

بھائیو! کروڑ افسوس ہے اس اد عائے مسلمانی پرکہ اﷲ واحدقہار اور محمد رسول اﷲ سید الابر ارصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے زیادہ استاد کی وقعت ہو، اﷲ و رسول سے بڑ ھ کر بھائی یا دوست ، یا دنیا میں کسی کی محبت ہو۔اے رب! ہمیں سچا ایما ن دے صدقہ اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی سچی رحمت کا ،آمین ۔

فرقہ دوم

معاندین و دشمنان دین کہ خودانکار ضروریات دین رکھتے ہیں اور صریح کفر کر کے اپنے او پر سے نام کفر کومٹانے کو اسلام و قرآن و خد ا اور رسول و ایمان کے ساتھ تمسخر کرتے ہیں اور برا ہ اغواء و تلبیس و شیوہ ابلیس وہ باتیں بناتے ہیں کہ کسی طرح ضروریات دین ماننے کی قید اٹھ جائے اسلام فقط طوطے کی طرح زبان سے کلمہ رٹ لینے کانام رہ جائے ، بس کلمہ کا نام لیتا ہوپھر چاہے خدا کو جھوٹا کذاب کہے، چاہے رسو ل کو سڑی سڑی گالیاں دے، اسلام کسی طرح نہ جائے ۔ بل لعنہم اﷲ بکفر ھم فقلیلاً مایؤمنونo ۱؂ ۔ بلکہ اﷲ نے ان پر لعنت فرمادی انکے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے ایمان لاتے ہیں۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۲ /۸۸)

یہ مسلمانوں کے دشمن ، اسلام کے عدو، عوام کو چھلنے او ر خدا ئے واحد قہا ر کا دین بدلنے کے لئے چند شیطانی مکرپیش کرتے ہیں ۔

مکر اول : اسلام نام کلمہ گوئی کا ہے۔ حدیث میں فرمایا : من قال لاالہ الااﷲ دخل الجنۃ ۲؂۔ جس نے لاالٰہ الا اﷲ کہہ لیا جنت میں جائے گا۔

(۲؂المعجم الکبیر حدیث ۶۳۴۸المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت۷/ ۴۸ )
( المستدرک للحاکم کتاب التوبۃ والانابۃ دارالفکر بیروت ۴ /۲۵۱)

پھرکسی قول یا فعل کی وجہ سے کافر کیسے ہوسکتا ہے؟۔ مسلمانو ! ذرا ہوشیار خبردار ،اس مکر ملعون کا حاصل یہ ہے کہ زبان سے لاالہ الا اﷲ کہہ لینا گویا خدا کا بیٹا بن جانا ہے، آدمی کا بیٹا اگر اسے گالیاں دے ، جوتیاں مارے، کچھ کرے اس کے بیٹے ہونے سے نہیں نکل سکتا ، یونہی جس نے لاالہ الا اﷲکہہ لیا اب وہ چاہے خدا کو جھوٹا کذاب کہے ، چاہے رسول کوسڑی سڑی گالیاں دے ، اس کا اسلام نہیں بدل سکتا۔

اس مکر کا جواب اسی آیت کریمہ الم احسب الناس ۳؂ میں گزرا ، کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ نرے ادعائے اسلام پر چھوڑدیئے جائیں گے اور امتحان نہ ہوگا۔

(۳؂القرآن الکریم ۲۹ /۱و۲)

اسلام (عہ)اگر فقط کلمہ گوئی کانام تھاتو وہ بے شک حاصل تھی پھر لوگوں کا گھمنڈ کیوں غلط تھا جسے قرآن عظیم رد فرمارہاہے،

عہ: حضرت شیخ مجدد الف ثانی مکتوبات میں فرماتے ہیں :

مجرد تفوہ بکلمہ شہادت دراسلام کافی نیست تصدیق جمیع ماعلم بالضرورۃ مجیئہ من الدین باید وتبری از کفروکافرنیز باید تا اسلام صورت بندد۲؂ ۱۲

محض زبانی کلمہ شہادت کہنا اسلام میں کافی نہیں بلکہ ان تمام امور کی تصدیق ضروری ہے جن کا ضروریات دین سے ہونا بداہتاً معلوم ہے ۔ کفر اورکافر سے براء ت بھی لازمی ہے تاکہ اسلام کی صحیح صورت تشکیل پائے (ت)

(۲؂مکتوبات مجدد الف ثانی مکتوب دو صدوشصت وششم نولکشور لکھنؤ۱ /۳۲۳)

نیزتمہارا رب عزوجل فرماتاہے : قالت الاعراب اٰمنا ط قل لم تؤمنوا ولٰکن قولوا ا سلمنا ولمایدخل الایمان فی قلوبکم۱؂۔ یہ گنوار کہتے ہیں ہم ایمان لائے ۔تم فرمادو ایمان توتم نہ لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مطیع الاسلام ہوئے اورایمان ابھی تمہارے دلوں میں کہاں داخل ہوا۔

(۱؂القرآن الکریم ۴۹/۱۴)

اور فرماتاہے : اذاجآ ء ک المنٰفقون قالوا نشھد انک لرسول اﷲ واﷲ یعلم انک لرسولہ ط واﷲ یشھد ان المنٰفقین لکٰذبونo ۲؂۔ منافقین جب تمہارے حضور ہوتے ہیں،کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک حضور یقیناً خدا کے رسول ہیں اور اﷲخوب جانتاہے کہ بے شک تم ضروراس کے رسول ہو اور اﷲ گواہی دیتا ہے کہ بے شک یہ منافق ضرور جھوٹے ہیں ۔

(۲؂القرآن الکریم ۶۳ /۱)

دیکھو کیسی لمبی چوڑی کلمہ گوئی ، کیسی کیسی تاکیدوں سے مؤکد ، کیسی کیسی قسموں سے مؤیدہرگز موجب اسلام نہ ہوئی اور اﷲ واحدقہار نے ان کے جھوٹے کذاب ہونے کی گواہی دی تو من قال لا الہ الااﷲ دخل الجنۃ کا یہ مطلب گڑھنا صراحۃً قرآن عظیم کا رد کرنا ہے۔ ہاں جوکلمہ پڑھتا،اپنے آپ کومسلمان کہتا ہو اسے مسلمان جانیں گے جب تک اس سے کوئی کلمہ، کوئی حرکت،کوئی فعل منافی اسلا م صادرنہ ہو ،بعد صدورمنافی ہرگز کلمہ گوئی کام نہ دے گی۔

تمہارا رب عزوجل فرماتاہے: یحلفون باﷲ ما قالوا ط ولقدقالوا کلمۃ الکفر وکفروا بعد اسلامھم۳؂۔ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نبی کی شان میں گستاخی نہ کی اور البتہ ، بے شک وہ یہ کفر کا بول،بولے اور مسلمان ہوکر کافر ہوگئے ۔

(۳؂القرآن الکریم ۹ /۷۴)

ابن جریر و طبرانی و ابوالشیخ وابن مر دویہ عبداﷲبن عباس رضی اﷲتعالٰی عہنما سے روایت کرتے ہیں۔رسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ایک پیڑ کے سایہ میں تشریف فرما تھے ارشاد فرمایا عنقریب ایک شخص آئے گا تمہیں شیطان کی آنکھوں سے دیکھے گا وہ آئے تو اس سے بات نہ کرنا ۔ کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک کرنجی آنکھوں والا سامنے سے گزرا ،رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے بلاکر فرمایا ” تو اور تیرے رفیق کس بات پرمیری شان میں گستاخی کے لفظ بولتے ہیں؟” وہ گیا اور اپنے رفیقوں کو بلالایا۔ سب نے آکر قسمیں کھائیں کہ ہم نے کوئی کلمہ حضورکی شان میں بے ادبی کانہ کہا،اس پر اﷲ وعزجل نے یہ آیت اتاری کہ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے گستاخی نہ کی اور بے شک ضرور ،یہ کفر کا کلمہ بولے اور تیری شان میں بے ادبی کر کے اسلام کے بعد کافر ہوگئے ۱؂۔

(۱؂الدرالمنثور بحوالہ ابن جریر والطبرانی وابن مردویہ تحت آیۃ ۹/۷۴ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۱۹)

دیکھو اﷲ گواہی دیتا ہے کہ نبی کی شان میں بے ادبی کا لفظ ، کلمہ کفر ہے اور اس کا کہنے والا اگر چہ لاکھ مسلمانی کا مدعی کروڑبار کا کلمہ گو ہو، کافر ہوجاتا ہے ۔
اور فرماتاہے۔ ولئن سالتھم لیقولن انما کنانخوض ونلعب طقل اباللٰہ واٰیٰتہ ورسولہٖ کنتم تستھزء ون o لاتعتذروا قد کفرتم بعد ایمانکم ۲؂۔ اوراگر تم ان سے پوچھو تو بے شک ضرور کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرمادوکیااﷲاور اسکی آیتوں اوراسکے رسول سے ٹھٹھا کرتے تھے؟ بہانے نہ بناؤتم کافر ہو چکے اپنے ایمان کے بعد۔

(۲؂القرآن الکریم ۹ /۶۵و۶۶)

ابن ابی شیبہ وابن ابی جریرو ابن المنذروابن حاتم الشیخ امام مجاہد تلمیذ خاص سید نا عبداﷲبن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت فرماتے ہیں : انہ قال فی قولہٖ تعالی ”ولئن سالتھم لیقولن انما کنا نخوض و نلعب” ط قال رجل من المنافقین یحد ثنا محمد ان ناقۃ فلان بوادی کذا وکذا وما یدریہ بالغیب۔ یعنی کسی کی اونٹنی گم ہوگئی ، اس کی تلاش تھی ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا او نٹنی فلاں جنگل میں فلاں جگہ ہے اس پر ایک منافق بولا ” محمد (صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم)بتاتے ہیں کہ اونٹنی فلاں جگہ ہے ، محمد غیب کیا جانیں ؟ ”اس پر اﷲ عزوجل نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ کیا اﷲ ورسول سے ٹھٹھاکرتے ہو ، بہانے نہ بناؤ، تم مسلمان کہلاکر اس لفظ کے کہنے سے کافرہوگئے ۔(دیکھو تفسیر امام ابن جریر مطبع مصر جلد دہم صفحہ ۱۰۵ و تفسیر در منثور۱؂ اما م جلال الدین سیوطی جلد سوم صفحہ ۲۵۴)

(۱؂الدرالمنثور بحوالہ ابن ابی شیبہ وابن منذر وابن ابی حاتم وابی الشیخ عن مجاید تحت آیۃ ۹/ ۶۵ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۲۱۰)
(جامع البیان (تفسیر ابن جریر تحت آیۃ ۹/ ۶۵ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱۰/ ۱۹۶)

مسلمانو! دیکھو محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں اتنی گستاخی کرنے سے کہ وہ غیب کیا جانیں ، کلمہ گوئی کام نہ آئی اور اﷲتعالی (عزوجل) نے صاف فرمادیا کہ بہانے نہ بناؤ، تم اسلام کے بعد کا فر ہوگئے۔ یہاں سے وہ حضرات بھی سبق لیں جورسول اﷲصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علوم غیب سے مطلقاً منکر ہیں۔ دیکھو یہ قول منافق کا ہے اور اس کے قائل کو اﷲ تعالی نے اللہ و قرآن و رسول سے ٹھٹھاکرنے والا بتایا اور صاف صاف کافر مرتد ٹھہرایا اور کیوں نہ ہو، غیب کی بات جاننی شان نبوت ہے جیسا کہ امام حجۃ الاسلام محمد غزالی واحمد قسطلانی ومولانا علی قاری و علا مہ محمد زرقانی وغیرہم اکابرنے تصریح فرمائی جس کی تفصیل رسائل علم غیب میں بفضلہ تعالٰی بروجہ اعلٰی مذکور ہوئی پھر اس کی سخت شامت کمال ضلالت کا کیا پوچھنا جو غیب کی ایک بات بھی، خدا کے بتائے سے بھی، نبی کو معلوم(عہ۱) ہونا محا ل و نا ممکن بتاتا ہے ،

عہ ۱: اس نئے شاخسانے کے رد میں بفضلہٖ تعالٰی چاررسالے ہیں :

اراحۃ جوانح الغیب ، الجلاء الکامل ، ابرار المجنون ، میل الہداۃ ، جن میں پہلا ان شاء اللہ مع ترجمہ عنقریب شائع ہوگا اورباقی تین بھی بعونہٖ تعالٰی اس کے بعد ، وباللہ التوفیق ۱۲کاتب عفی عنہ۔

اس کے نزدیک اﷲ سے سب چیزیں غائب ہیں اور اﷲکو اتنی قدرت نہیں کہ کسی کو ایک غیب کا علم دے سکے، اﷲتعالٰی شیطان کے دھوکوں سے پناہ دے۔ آمین ۔ ہاں بے خدا کے بتائے، کسی کو ذرہ بھر کاعلم ماننا ،ضرورکفر ہے اور جمیع معلوما ت الٰہیہ کو علم مخلوق کا محیط ہونا بھی باطل اور اکثر علماء(عہ۲)کے خلاف ہے ،

عہ۲: اکثر کی قید کا فائدہ رسالہ

”الفیوض المکیۃ لمحب الدولۃ المکیۃ ”

میں ملاحظہ ہوگا ان شاء اللہ تعالٰی ۱۲کاتب عفی عنہ۔

لیکن روز اول سے روز آخر تک کا ماکان وما یکون،اﷲتعالٰی کے معلومات سے وہ نسبت بھی نہیں رکھتا جوایک ذرے کے لاکھویں ،کروڑویں حصے برابر، تری کو، کروڑہاکروڑسمندروں سے ہو بلکہ یہ خود علوم محمد یہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے ، ان تمام امور کی تفصیل ” الدولۃ المکیہ” وغیرہا میں ہے۔ خیر تو یہ جملہ معتر ضہ تھا او ر ان شاء اﷲ العظیم بہت مفید تھا ، اب بحث سابق کی طرف عودکیجئے۔
اس فرقہ باطلہ کا مکر دوم یہ ہے کہ اما م اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کامذہب ہے کہ لا نکفراحدًا من اھل القبلۃ۱؂۔ ہم اہل قبلہ میں سے کسی کو کافر نہیں کہتے۔

(۱؂منح الروض الازھر شرح الفقہ الاکبرعدم جواز تکفیر اہل القبلۃ دارالبشائر الاسلامیۃ بیروت ص۴۲۹)

اور حدیث میں ہے: ” جو ہماری سی نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو منہ کرے او ر ہماراذبیحہ کھائے ،وہ مسلمان۲؂ ہے۔”

(۲؂صحیح البخاری کتاب الصلٰوۃ باب فضل استقبال القبلۃ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۵۶ )
(کنزالعمال حدیث ۳۹۹ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۱ /۹۲)

مسلمانو ! اس مکر خبیث میں ان لوگوں نے نری کلمہ گوئی سے عدول کرکے صرف قبلہ روئی کانام ایمان رکھ دیا یعنی جوقبلہ رو ہوکر نماز پڑھ لے ، مسلمان ہے اگر چہ اﷲ عزوجل کو جھوٹا کہے ، محمدرسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو گالیاں دے ، کسی صورت کسی طرح ایمان نہیں ٹلتا ع
چوں وضوئے محکم بی بی تمیز

(بی بی تمیز کے مضبوط وضو کی طرح ۔ت)

اولاً : ا س مکر کا جو ا ب :
تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق و المغرب ولٰکن البرمن اٰمن باﷲ والیوم الاٰخر والملٰئکۃ والکتٰب والنبیین۳؂۔ اصل نیکی یہ نہیں کہ اپنا منہ نماز میں پورب یا پچھاں کو کروبلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ آدمی ایمان لائے اﷲاور قیامت اور فرشتوں اورقرآن اور تمام انبیاء پر۔

(۳؂القرآن الکریم ۲ /۱۷۷)

دیکھوصاف فرمادیا کہ ضروریات دین پر ایمان لانا ہی اصل کارہے بغیر اس کے نماز میں قبلہ کو منہ کرنا کوئی چیز نہیں ،

اور فرماتاہے: ومامنعہم ان تقبل منھم نفقٰتھم الآ انھم کفروا باﷲ وبرسولہٖ ولایاتون الصلٰوۃ الا وھم کسالٰی ولا ینفقون الا وھم کٰرھون o۱؂۔ اور وہ جو خرچ کرتے ہیں اس کا قبول ہونا بندنہ ہوا مگر اس لئے کہ انہوں نے اﷲ ورسول کے ساتھ کفر کیا اور نماز کونہیں آتے مگر جی ہارے اور خرچ نہیں کرتے مگر برے دل سے ۔

(۱؂القرآن الکریم ۹ /۵۴)

دیکھو ان کا نماز پڑھنا بیان کیا او ر پھر انہیں کافر فرمایا ، کیا وہ قبلہ کونماز نہیں پڑھتے تھے ؟ فقط قبلہ کیسا ، قبلہ دل وجاں ،کعبہ دین وایمان ،سرور عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پیچھے جانب قبلہ نماز پڑھتے تھے۔
اور فرماتاہے: فان تابوا واقاموا الصلٰوۃ واٰتوا الزکٰوۃ فاخوانکم فی الدین ونفصل الاٰیت لقوم یعلمون o وان نکثوآ ایمانہم من بعد عھدھم وطعنوا فی د ینکم فقاتلواائمۃ الکفر انھم لآ ایمان لھم لعلھم ینتھونo ۲؂۔ پھر اگر وہ توبہ کریں او ر نماز برپا رکھیں او ر زکٰوۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں اور ہم پتے کی باتیں صاف بیان کرتے ہیں علم والوں کیلئے اور اگرقول و قرار کرکے پھر اپنی قسمیں توڑیں اور تمہارے دین پر طعن کریں تو کفر کے پیشواؤں سے لڑو، بے شک ان کی قسمیں کچھ نہیں شاید وہ باز آئیں ۔

(۲؂القرآن الکریم ۹/ ۱۱ ۱۲)

دیکھو نماز ، زکٰوۃ والے اگر د ین پر طعنہ کریں تو انہیں کفر کا پیشوا ، کافروں کا سر غنہ فرمایا۔ کیا خدا اور رسول کی شان میں وہ گستاخیاں دین پر طعنہ نہیں ، اس کا بیان بھی سنئے :

تمہارا رب عزوجل فرماتاہے: من الذین ھادوا یحرفون الکلم عن موا ضعہٖ ویقولو ن سمعنا وعصینا و اسمع غیرمسمع وراعنا لیا بالسنتہم وطعنًافی الدین ولوانھم قالوا سمعنا واطعنا واسمع وانظرنا لکا ن خیر ا لھم واقوم ولٰکن لعنھم اﷲ بکفرھم فلا یؤمنون الاقلیلاًo۱؂ کچھ یہودی بات کو اس کی جگہ سے بدلتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے سنا او ر نہ مانا اور سنئے آپ سنائے نہ جائیں اور راعنا کہتے ہیں زبا ن پھیرکر اوردین میں طعنہ کرنے کو اور اگر وہ کہتے ہم نے سنا اور مانااورسنئے اور مہلت دیجئے تو انکے لئے بہتراور بہت ٹھیک ہوتا لیکن ان کے کفر کے سبب اﷲ نے ان پر لعنت کی ہے تو ایمان نہیں لاتے مگر کم ۔

(۱؂القرآن الکریم ۴ /۴۶)

کچھ یہودی جب دربار نبوت میں حاضر آتے اور حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کچھ عرض کرنا چاہتے تویوں کہتے سنئے، آپ سنائے نہ جائیں ، جس سے ظاہر تو دعا ہوتی یعنی حضورکوکوئی ناگوار بات نہ سنائے اور دل میں بددعا کا ارادہ کرتے کہ سنائی نہ دے اور جب حضوراقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کچھ ارشاد فرماتے اور یہ بات سمجھ لینے کے لئے مہلت چاہتے تو راعنا کہتے جس کا ایک پہلو ئے ظاہر یہ کہ ہماری رعایت فرمائیں اور مراد خفی رکھتے،یعنی رعونت والا ، اور بعض زبان دبا کر راعینا کہتے یعنی ہمارا چر واہا۔ جب پہلودار با ت دین میں طعنہ ہوئی، تو صریح و صاف کتنا سخت طعنہ ہوگی بلکہ انصاف کیجئے تو ان باتوں کا صریح بھی ان کلمات کی شناعت کو نہ پہنچتا ۔بہرا ہونے کی دعا یا رعونت یا بکریاں چرانے کی طرف نسبت کو ان الفاظ سے کیا نسبت کہ شیطان سے علم میں کمتر یا پاگلوں چوپایوں سے علم میں ہمسراورخداکی نسبت وہ کہ جھوٹا ہے، جھوٹ بولتا ہے جو اسے جھوٹا بتائے مسلمان سنی صالح ہے ، والعیا ذ باﷲ رب العالمین ۔

ثانیاً : اس وہم شنیع کو مذہب سید نا امام رضی اللہ تعالٰی عنہ بتانا حضرت اما م پر سخت افترا واتہام جبکہ امام رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے عقائد کریمہ کی کتاب مطہر فقہ اکبر میں فرماتے ہیں : صفاتہ تعالٰی فی الازل غیرمحدثۃ ولامخلوقۃفمن قال انھامخلوقۃ اومحدثۃ او وقف فیہا اوشک فیہا فھوکافر باﷲ تعالٰی۔۲؂ اﷲ تعالٰی کی صفتیں قدیم ہیں نہ نوپیدا ہیں نہ کسی کی بنائی ہوئی تو جو انہیں مخلوق یا حادث کہے یا اس با ب میں توقف کرے یا شک لائے وہ کافر ہے اور خدا کا منکر۔

(۲؂الفقہ الاکبر ملک سراج الدین اینڈ سنز کشمیری بازار لاہور ص۵)

نیز امام ہمام رضی ا للہ تعالٰی عنہ کتاب الوصیۃ میں فرماتے ہیں : من قال بان کلام اﷲتعالٰی مخلوق فھو کافرباﷲالعظیم۳؂۔ جو شخص کلام اﷲ کو مخلوق کہے اس نے عظمت والے خدا کے ساتھ کفر کیا ۔

(۳؂کتاب الوصیۃ (وصیت نامہ) فصل تقربان اللہ تعالٰی علی العرش استوی الخ کشمیری بازار لاہور ص۲۸)

شرح فقہ اکبر میں ہے:۔ قال فخر الاسلام قدصح عن ابی یوسف انہ قال ناظرت ابا حنیفۃ فی مسئلۃ خلق القرٰان فا تفق رأیی ورأیہ علٰی ان من قال بخلق القرٰان فھو کافروصح ھٰذا القول ایضًاعن محمدرحمہ اﷲتعالی ۱؂۔ امام فخر الاسلام رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ فرماتے ہیں امام یوسف رحمۃ اللٰہ تعالٰی علیہ سے صحت کے ساتھ ثابت ہے کہ انھوں نے فرمایا میں نے امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مسئلہ خلق قرآن میں مناظرہ کیا ،میری اور ان کی رائے اس پر متفق ہوئی کہ جو قرآن مجید کومخلوق کہے وہ کافر ہے او ریہ قول امام محمد رحمہ اﷲتعالٰی سے بھی بصحت ثبوت کو پہنچا۔

(۱؂منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر القرآن کلام اللہ غیر مخلوق دارالبشائر الاسلامیہ بیروت ص۹۵)

یعنی ہمارے ائمہ ثلاثہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا اجماع و اتفاق ہے کہ قرآن عظیم کو مخلوق کہنے والاکافرہے۔کیا معتزلہ و کرامیہ و روافض کہ قرآن کو مخلوق کہتے ہیں اس قبلہ کی طرف نماز نہیں پڑھتے ، نفس مسئلہ کا جزئیہ لیجئے ۔

امام مذہب حنفی سید نا امام ابو یو سف رضی اللہ تعالٰی عنہ ”کتاب الخراج” میں فرماتے ہیں : ایمارجل مسلم سب رسول اﷲ اوکذ بہ اوعابہ اوتنقصہ فقدکفر باﷲ تعالٰی و بانت منہ زوجتہ۲؂ ۔ جو شخص مسلمان ہوکر رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کودشنام دے یا حضو ر کی طرف جھوٹ کی نسبت کرے یا حضور کوکسی طرح کا عیب لگائے یا کسی وجہ سے حضور کی شان گھٹائے وہ یقینا کافر اور خدا کا منکر ہوگیا اور اس کی جورو اس کے نکاح سے نکل گئی ۔

(۲؂کتاب الخراج للامام ابی یوسف فصل فی الحکم فی المرتد عن الاسلام دارالمعرفۃ بیروت ص۱۸۲)

دیکھو کیسی صاف تصریح ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی تنقیص شان کرنے سے مسلمان کافر ہوجا تا ہے ، اسکی جورو نکاح سے نکل جاتی ہے۔ کیا مسلمان اہل قبلہ نہیں ہوتا یا اہل کلمہ نہیں ہوتا مگر محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے ساتھ نہ قبلہ قبول نہ کلمہ مقبول ، والعیاذباﷲ رب العالمین ۔

ثالثاً : ا صل با ت یہ ہے کہ اصطلاح ائمہ میں اہل قبلہ وہ ہے کہ تمام ضروریات دین پر ایما ن رکھتا ہو، ان میں سے ایک بات کا بھی منکر ہوتوقطعاً یقیناً اجماعاً کافر مرتد ہے ایسا کہ جو اسے کا فر نہ کہے خودکافر ہے ۔

شفاء شریف وبزازیہ ودرروغرروفتا وٰی خیریہ وغیر ہامیں ہے: اجمع المسلمون ان شاتمہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کافر ومن شک فی عذابہٖ وکفرہٖ کفر۱؂۔ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان پاک میں گستاخی کر ے وہ کافر ہے اور جو اس کے معذب یا کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔

(۱؂الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی القسم الرابع الباب الاول المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۲ /۲۰۸)
(الفتاوی الخیریۃ باب المرتدین دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۱۰۳)

مجمع ا لانھرودرمختار میں ہے : واللفظ لہ الکافر بسب نبی من الانبیاء لاتقبل توبتہ مطلقًا و من شک فی عذابہٖ و کفرہٖ کفر۲؂۔ جوکسی نبی کی شان میں گستاخی کے سبب کافر ہوااس کی توبہ کسی طرح قبول نہیں اور جو اسکے عذاب یا کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔

(۲؂الدرالمختارکتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۶ )
( مجمع الانھرکتاب فصل فی احکام الجزیۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۶۷۷)

الحمد ﷲ ! یہ نفیس مسئلہ کاو ہ گراں بہاجزئیہ ہے جس میں ان بدگویوں کے کفرپر اجماع تمام امت کی تصریح ہے اور یہ بھی کہ جو انہیں کافر نہ جانے خود کافر ہے ۔

شرح فقہ اکبر میں ہے: فی المواقف لا یکفر اھل القبلۃ الا فیما فیہ انکار ما علم مجیئہ بالضرورۃ اوالمجمع علیہ کاستحلال المحرمات اھ ولا یخفٰی ان المراد بقول علمائنالا یجوزتکفیر اہل القبلۃ بذنب لیس مجرد التوجہ الٰی القبلۃ فان الغلاۃ من الروافض الذین یدعون ان جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام غلط فی الوحی فان اﷲ تعالٰی ارسلہ الٰی علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ و بعضھم قالوا انہ الٰہ وان صلوا الٰی القبلۃ لیسوا بمؤمنین وھٰذاھوالمراد بقولہٖ من صلی صلٰوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذٰلک مسلم ۱؂ اھ مختصراً ۔ یعنی مواقف میں ہے کہ اہل قبلہ کو کافر نہ کہاجاو ے گا مگر جب ضروریات دین یا اجماعی باتوں سے کسی بات کا انکار کریں جیسے حرام کو حلال جاننا اور مخفی نہیں کہ ہمارے علماء جو فرما تے ہیں کہ کسی گناہ کے باعث اہل قبلہ کی تکفیر روا نہیں اس سے نرا قبلہ کومنہ کرنا مراد نہیں کہ غالی رافضی جوبکتے ہیں کہ جبریل علیہ السلام کووحی میں دھوکا ہوا۔ اﷲتعالٰی نے انہیں مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ کی طرف بھیجا تھا اور بعض تو مولٰی علی کو خدا کہتے ہیں یہ لوگ اگرچہ قبلہ کی طرف نماز پڑھیں ،مسلمان نہیں اور اس حدیث کی بھی یہی مراد ہے جس میں فرمایا کہ جو ہماری سی نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے وہ مسلمان ہے۔

(۱؂منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر مطلب فی ایراد الالفاظ المکفرۃ الخ دارالبشائر اسلامیہ بیروت ص۴۴۶۔۴۴۷)

یعنی جب کہ تمام ضروریات دین پر ایمان رکھتا ہو اور کوئی با ت منافی ایمان نہ کرے۔

اسی میں ہے : اعلم ان المراد باھل القبلۃ الذین اتفقوا علٰی ماھو من ضروریات الدین کحدوث العالم وحشر ا لا جساد وعلم اﷲ تعالٰی بالکلیات والجزئیات وما اشبہ ذٰلک من المسائل المھمات فمن واظب طول عمرہٖ علٰی الطاعات والعبادات مع اعتقاد قدم العالم اونفی الحشر اونفی علمہٖ سبحٰنہ بالجزئیات لایکون من اھل القبلۃ وان المراد بعدم تکفیر احدمن اھل القبلۃ عند اھل السنۃ انہ لایکفر مالم یوجد شیئ من امارات الکفر وعلاماتہٖ ولم یصد رعنہ شیئ من موجباتہٖ۲؂ ۔ یعنی جان لوکہ اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جوتمام ضروریات دین میں موافق ہیں جیسے عالم کا حادث ہونا ، اجسام کاحشر ہونا ، اﷲتعالٰی کاعلم تمام کلیات و جزئیات کو محیط ہونا اور جومہم مسئلے ان کی مانندہیں ، توجوتمام عمرطاعتوں اورعبادتوں میں رہے اسکے ساتھ یہ اعتقاد رکھتا ہوکہ عالم قدیم ہے یا حشر نہ ہوگا یا اﷲتعالی جزئیات کونہیں جانتا وہ اہل قبلہ سے نہیں اور اہل سنت کے نزدیک اہل قبلہ سے کسی کو کافر نہ کہنے سے یہ مراد ہے کہ اسے کافر نہ کہیں گے جب تک اس میں کفر کی کوئی علامت و نشانی نہ پائی جائے اور کوئی بات موجب کفر اس سے صادر نہ ہو۔

(۲؂منح الروض الازہر شرح الفقہ الاکبر عدم جواز تکفیر اہل القبلۃ دارالبشائر اسلامیہ بیروت ص۴۲۹)

امام اجل سید ی عبد العزیز بن احمد بن محمد بخاری حنفی رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ تحقیق شرح اصول حسامی میں فرماتے ہیں :۔ ان غلافیہ (ای فی ھواہ) حتٰی وجب اکفارہ بہٖ لا یعتبر خلافہ ووفاقہ ایضاًلعدم دخولہٖ فی مسمٰی الامۃ المشھودلھا بالعصمۃ وان صلٰی الٰی القبلۃ واعتقد نفسہ مسلمًالان الامۃ لیست عبارۃً من المصلین الٰی القبلۃ بل عن المؤمنین وھو کافر وان کان لا یدری انہ کافر۱؂۔ یعنی بدمذہب اگر اپنی بدمذہبی میں غالی ہو جس کے سبب اسے کافر کہنا واجب ہوتو اجماع میں اس کی مخالفت، موافقت کا کچھ اعتبار نہ ہوگاکہ خطا سے معصوم ہونے کی شہادت تو امت کے لئے آئی ہے اور وہ امت ہی سے نہیں اگر چہ قبلہ کی طرف نماز پڑھتا اور اپنے آپ کو مسلمان اعتقاد کرتا ہواس لئے کہ امت قبلہ کیطرف نماز پڑھنے والوں کانام نہیں بلکہ مسلمان کانام ہے اور یہ شخص کافر ہے اگر چہ اپنی جان کو کافرنہ جانے۔

(۱؂التحقیق شرح السامی باب الاجماع نولکشور لکھنؤ ص۲۰۸)

ردالمحتار میں ہے : لاخلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان من اھل القبلۃ المواظب طول عمرہٖ علٰی الطاعات کمافی شرح التحریر۲؂۔ یعنی ضروریات اسلام سے کسی چیز میں خلاف کرنے والا بالاجماع کافر ہے اگر چہ اہل قبلہ سے ہو اور عمر بھر طاعات میں بسر کرے جیسا کہ شرح تحریر میں امام بن الہمام نے فرمایا ۔

(۲؂ردالمحتارکتاب الصلٰوۃ باب الامامۃ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۳۷۷)

کتب عقائد وفقہ واصول ان تصریحات سے مالامال ہیں ۔

رابعاً : خود مسئلہ بدیہی ہے کیا جو شخص پانچ وقت قبلہ کی طرف نماز پڑ ھتا او ر ایک وقت مہادیو کو سجدہ کرلیتا ہو، کسی عاقل کے نزدیک مسلمان ہوسکتا ہے حالانکہ اﷲ کوجھوٹا کہنا یا محمد رسول اﷲ کی شان اقدس میں گستاخی کرنا ، مہادیو کے سجدے سے کہیں بدترہے اگرچہ کفرہونے میں برابرہے وذٰلک ان الکفر بعضہ اخبث من بعضٍ (اوریہ اس لئے کہ بعض کفر بعض سے خبیث تر ہے ) وجہ یہ کہ بت کو سجدہ علامت تکذیب خدا ہے اور علامت تکذیب میں تکذیب کے برابر نہیں ہو سکتی اور سجدہ میں یہ احتمال بھی نکل سکتا ہے کہ محض تحیت و مجرا مقصود ہو نہ عبادت۔اورمحض (عہ) تحیت فی نفسہٖ کفر نہیں و لہذا اگر مثلاً کسی عالم یا عارف کوتحیۃً سجد ہ کرے ،گنہگار ہوگا، کافر نہ ہوگا امثال بت میں شرع نے مطلقاً حکم کفر بربنائے شعار خاص کفر رکھاہے بخلاف بدگوئی حضورپرنورسیدعالم ، کہ فی نفسہٖ کفر ہے جس میں کوئی احتمال اسلام نہیں۔

عہ: شرح مواقف میں ہے :

سجودہ لھا یدل بظاھرہ انہ لیس بمصدق ونحن نحکم بالظاھر فلذا حکمنا بعدم ایمانہ لالان عدم السجود لغیر اللہ دخل فی حقیقۃ الایمان حتی لو علم انہ لم یسجد لہا علٰی سبیل التعظیم واعتقاد الالٰھیۃ بل سجد لہا وقلبہ مطمئن بالتصدیق لم یحکم بکفرہ فیمابینہ وبین اللہ وان اجری علیہ حکم الکفر فی الظاھر۱؂ ۱۲منہ۔

اس کا سورج کو سجدہ کرنا بظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی تصدیق نہیں کرتا ہے اورہم ظاہر پر حکم لگاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کے عدم ایمان کا حکم لگایاہے ۔ یہ حکم اس وجہ سے نہیں لگایا کہ غیر اللہ کو سجدہ نہ کرنا ایمان کی حقیقت میں داخل ہے یہاں تک کہ اگر معلوم ہوجائے کہ اس نے سورج کو سجدہ بطور تعظیم اوراس کو معبود سمجھ کر نہیں کیا بلکہ اس کو سجدہ کیا درآنحالیکہ اس کا دل تصدیق وایمان کے ساتھ مطمئن تھا تو عنداللہ اس کے کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا اگرچہ بظاہر اس پر کفر کاحکم جاری کیا جائیگا ۔(ت)

(۱؂شرح المواقف المرصد الثالث المقصد الاول منشورات الشریف الرضی قم ایران ۸ /۳۲۹)

او ر میں یہاں اس فرق پر بناء نہیں رکھتاکہ ساجد صنم کی توبہ باجماع امت مقبول ہے مگر سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والے کی توبہ ہزارہاائمہ دین کے نزدیک اصلاً قبول نہیں اور اسی کو ہمارے علماء حنفیہ سے اما م بزازی و امام محقق علی الاطلاق ابن الہما م و علامہ مولٰی خسرو صاحب دررو غرر و علامہ زین بن نجیم صاحب بحر الرائق و اشبا ہ و النظائر و علامہ عمربن نجیم صاحب نہر الفائق و علامہ ابو عبد اﷲ محمد بن عبداﷲ غزی صاحب تنویر الابصار و علا مہ خیر الدین رملی صاحب فتاوٰی خیریہ و علا مہ شیخی زادہ صاحب مجمع الانھروعلامہ مدقق محمد بن علی حصکفی صاحب در مختار وغیرھم عمائد کبار علیہم رحمۃ اﷲ العزیز الغفار نے اختیار فرمایا: بید ان تحقیق المسئلۃ فی الفتاوٰی الرضویہ (علاوہ ازیں مسئلہ کی تحقیق فتاوٰی رضویہ میں ہے ۔ت) اس لئے کہ عدم قبول تو بہ صرف حاکم اسلام کے یہاں ہے کہ وہ اس معاملہ میں بعد توبہ بھی سزائے موت دے ورنہ اگر توبہ صدق دل سے ہے تو عنداﷲ مقبول ہے ، کہیں یہ بدگو، اس مسئلہ کو دستاویز نہ بنالیں کہ آخر توبہ قبول نہیں پھر کیوں تائب ہوں، نہیں نہیں توبہ سے کفر مٹ جائے گا ، مسلمان ہوجاؤگے ، جہنم ابدی سے نجات پاؤگے ، اس قدر پر اجماع ہے۔ کمافی رد المحتار وغیرہ۰ (جیسا کہ ردالمحتار وغیرہ میں ہے۔ت) واﷲتعالی اعلم۔

اس فرقہ بے دین کا مکر سوم یہ ہے کہ فقہ میں لکھا ہے جس میں ننانوے باتیں کفر کی ہوں اور ایک با ت اسلام کی تو اس کو کافرنہ کہنا چاہیے ۔

اولاً : یہ مکر خبیث سب مکروں سے بدتر و ضعیف جس کا حاصل یہ کہ جوشخص دن میں ایک بار اذان دے یا دورکعت نماز پڑھ لے اور ننانوے بار بت پوجے ، سنکھ پھونکے، گھنٹی بجائے وہ مسلمان ہے کہ اس میں ننانوے باتیں کفرکی ہیں تو ایک اسلام کی بھی ہے۔ یہی کافی ہے حالانکہ مومن تو مومن کوئی عاقل اسے مسلمان نہیں کہہ سکتا ۔

ثانیاً : اس کی رو سے سوا دہریے کے کہ سرے سے خدا کے وجود ہی کا منکر ہو، تمام کافر، مشرک مجوس، ہنود و نصاری یہود وغیرہم دنیا بھر کے کفار سب کے سب مسلمان ٹھہر جاتے ہیں کہ اور باتوں کے منکر سہی آخر وجود خدا کے تو قائل ہیں ۔ایک یہی با ت سب سے بڑھ کراسلام کی بات بلکہ تمام اسلامی باتوں کی اصل الاصول ہے خصوصاً کفار فلاسفہ و آر یہ و غیرہم کہ بزعم خود توحید کے بھی قائل ہیں اور یہود و نصارٰی تو بڑے بھاری مسلمان ٹھہریں گے کہ توحید کے ساتھ اﷲ تعالی کے بہت سے کلاموں اور ہزاروں نبیوں اور قیامت و حشروحساب و ثواب و عذاب و جنت ونار وغیرہ بکثرت اسلامی باتوں کے قائل ہیں۔

ثالثاً : اس کے رد میں قرآن عظیم کی وہ آیتیں کہ اوپر گزریں کافی وافی ہیں جن میں باوصف کلمہ گوئی ونماز خوانی صرف ایک ایک بات پر حکم تکفیر فرمادیا کہیں ارشاد ہوا : کفروا بعد اسلا مھم ۱؂۔ وہ مسلمان ہوکر اس کلمے کے سبب کافر ہوگئے۔

(۱؂القرآن الکریم ۹/ ۷۴)

کہیں فرمایا : لا تعتذروا قد کفر تم بعد ایمانکم ۱؂۔ بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے ایمان کے بعد ۔

(۱؂القرآن الکریم ۹ /۶۶)

حالانکہ اس مکر خبیث کی بنا ء پر جب تک ۹۹ سے زیادہ کفر کی باتیں جمع نہ ہو جاتیں ، صرف ایک کلمہ پر حکم کفر صحیح نہ تھا۔ہاں شاید اس کا یہ جواب دیں کہ خدا کی غلطی یا جلد بازی تھی کہ اس نے دائرہ اسلام کو تنگ کردیا، کلمہ گویوں ، اہل قبلہ کودھکے دے دے کر، صرف ایک ایک لفظ پر ،اسلام سے نکالا اور پھر زبردستی یہ کہ لاتعتذروا عذر بھی نہ کرنے دیا نہ عذر سننے کا قصد کیا ۔افسوس کہ خدا نے پیر نیچر یاندویہ لکچر یا ان کے ہم خیال کسی وسیع الا سلام ر یفار مر سے مشور ہ نہ لیا الا لعنۃ اﷲ علی الظٰلمین۲؂۔ (ارے ظالموں پر خدا کی لعنت ۔ت)

(۲؂القرآن الکریم ۱۱ /۱۸)

رابعاً اس مکر کاجو اب : تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : افتؤمنون ببعض الکتٰب وتکفرون ببعض فماجزآء من یفعل ذٰلک منکم الا خزیٌ فی الحٰیوۃ الد نیا ویوم القٰیمۃ یردون الٰی اشدالعذاب ومااﷲ بغافل عماتعملون oاولٰئک الذین اشتروا الحٰیوۃ الد نیا بالاٰخرۃ فلایخفف عنھم العذاب ولا ھم ینصرون o۳؂۔ توکیا اﷲکے کلام کا کچھ حصہ مانتے ہو اور کچھ حصے سے منکر ہو توجوکوئی تم میں سے ایسا کرے اسکا بدلہ نہیں مگر دنیا کی زندگی میں رسوائی اور قیامت کے دن سب سے زیادہ سخت عذاب کی طرف پلٹے جائیں گے اور اﷲ تمہارے کوتکوں سے غافل نہیں یہی لوگ ہیں جنہوں نے عقبٰی بیچ کردنیا خریدی تو ان پر سے کبھی عذاب ہلکا ہو نہ انکو مدد پہنچے ۔

(۳؂القرآن الکریم ۲ /۸۵و۸۶)

کلام الہٰی میں فرض کیجئے اگر ہزار باتیں ہوں تو ان میں سے ہر ایک با ت کا ماننا ایک اسلامی عقیدہ ہے۔اب اگر کوئی شخص ۹۹۹مانے اور صرف ایک نہ مانے تو قرآن عظیم فرمارہا ہے کہ وہ ان ۹۹۹ کے ماننے سے مسلمان نہیں بلکہ صرف اس ایک کے نہ ماننے سے کافر ہے، دنیا میں اس کی رسوائی ہوگی اور آخرت میں اس پر سخت تر عذاب جو ابدالآ باد تک کبھی موقوف ہونا کیا معنی؟ ایک آن کو ہلکا بھی نہ کیا جائے گا نہ کہ ۹۹۹کا انکار کرے اور ایک کو مان لے تو مسلمان ٹھہرے، یہ مسلمانوں کا عقیدہ نہیں بلکہ بشہادت قرآن عظیم خود صریح کفرہے۔

خامساً : اصل بات یہ ہے کہ فقہائے کرام پر ان لوگوں نے جتنا افتراء اٹھایا ، انہوں نے ہرگزکہیں ایسا نہیں فرمایا بلکہ انہوں نے بہ خصلت یہود ”یحرفون الکلم عن موا ضعہ”۱؂ یہودی بات کو اس کے ٹھکانوں سے پھیرتے ہیں۔ تحریف تبدیل کرکے کچھ کا کچھ بنالیا،

(۱؂القرآن الکریم ۴ /۴۶)

فقہا ء نے یہ نہیں فرمایا کہ جس شخص میں ننانوے باتیں کفر کی اور ایک اسلام کی ہو وہ مسلمان ہے۔ حاشاللٰہ ! بلکہ امت کا اجماع ہے کہ جس میں ننانوے ہزار باتیں اسلام کی اور ایک کفر کی ہو وہ یقینًاقطعاًکافرہے۔ ۹۹ قطرے گلاب میں ایک بوند پیشاب کا پڑ جائے ، سب پیشاب ہوجائے گامگر یہ جاہل کہتے ہیں ننانوے قطرے پیشاب میں ایک بوند گلاب کا ڈال دو، سب طیب و طاہر ہوجائے گا۔ حاشا کہ فقہا ء توفقہاء کوئی ادنٰی تمیز والا بھی ایسی جہالت بکے ۔بلکہ فقہاء کرام نے یہ فرمایا ہے کہ” جس مسلمان سے کوئی لفظ ایسا صادر ہو جس میں سو پہلو نکل سکیں ، ان میں ۹۹ پہلو کفر کی طرف جاتے ہوں اور ایک اسلام کی طرف توجب تک ثابت نہ ہوجائے کہ اس نے خاص کوئی پہلوکفر کا مراد رکھا ہے ہم اسے کافر نہ کہیں گے کہ آخر ایک پہلو اسلام بھی تو ہے ،کیا معلوم شایداس نے یہی پہلومراد رکھا ہو” اور ساتھ ہی فرماتے ہیں کہ” اگر واقع میں اس کی مراد کوئی پہلوئے کفر ہے توہماری تاویل سے اسے فائدہ نہ ہوگا۔وہ عنداﷲکافرہی ہوگا ۔ ”اس کی مثال یہ ہے کہ مثلاً زید کہے” عمر وکو علم قطعی یقینی غیب کا ہے” ۔ اس کلام میں اتنے پہلوہیں:
(۱ ) عمر و اپنی ذات سے غیب دان ہے یہ صریح کفر وشرک ہے ۔ قل لا یعلم من فی السمٰوٰات والا رض الغیب الا اللٰہ۲؂۔ تم فرماؤ غیب نہیں جانتے جو کوئی آسمانوں اورزمین میں ہیں مگر اللہ۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۲۷ /۶۵)

(۲ ) عمر و آپ توغیب دان نہیں مگر جو علم غیب رکھتے ہیں ۔ ان کے بتائے سے اسے غیب کا علم یقینی ہوجاتا ہے، یہ بھی کفر ہے ۔ تبینت الجن ان لوکا نوا یعلمون الغیب مالبثوا فی العذاب المھین۳؂۔ جنوں کی حقیقت کھل گئی ، اگر غیب جانتے ہوتے تو اس خواری کے عذاب میں نہ ہوتے ۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۳۴ /۱۴)

(۳ ) عمر و نجومی ہے۔
(۴) رمال ہے۔
(۵ ) سامندرک جانتا، ہاتھ دیکھتا ہے ۔
(۶ )کوے وغیرہ کی آواز ۔
(۷ ) حشرات الارض کے بدن پر گرنے ،
(۸ ) کسی پرندے یا وحشی چرندے کے داہنے یا بائیں نکل کرجانے ،
(۹ ) آنکھ یا دیگر اعضاء کے پھڑ کنے سے شگون لیتا ہے۔
(۱۰ ) پانسہ پھینکتا ہے۔
(۱۱ ) فال دیکھتا ہے ۔
(۱۲ ) حاضرات سے کسی کو معمول بنا کر اس سے احوال پوچھتا ہے ۔
(۱۳ ) مسمر یزم جانتا ہے۔
(۱۴) جادو کی میز،
(۱۵) روحوں کی تختی سے حال دریافت کرتا ہے۔
(۱۶) قیافہ دان ہے۔
(۱۷) علم زایرجہ سے واقف ہے ان ذرائع سے اسے غیب کا علم یقینی قطعی ملتا ہے ، یہ سب بھی کفر ہیں(عہ) ۔

عہ: یعنی جبکہ ان کی وجہ سے غیب کے علم قطعی یقینی کا ادعا کیا جائے جیسا کہ نفس کلام میں مذکور ہے ۱۲منہ۔

رسول اﷲ فرماتے ہیں : من اتٰی عرافًا اوکاھنًافصدقہ بمایقول فقدکفربما انزل علٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم رواہ، احمدوالحاکم بسندٍصحیح عن ابی ھریرۃ رضی ا ﷲ تعالٰی عنہ ولا حمد۱؂ وابی داود عنہ رضی اﷲ تعالی عنہ فقدبرئ مما نزل علٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۱؂۔ جو شخص نجومی اور کاہن کے پاس جائے اوراس کے بیان کو سچا جانے تو اس نے اس کا انکار کیا جو محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ امام حمد وحاکم نے بسند صحیح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔امام احمدوابوداود نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا : تو وہ قرآن اور دین اسلا م سےالگ ہوگیا۔(ت)

(۱؂المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان التشدید فی اتیان الکاہن مکتب المطبوعات الاسلامیہ ۱ /۸ )
( مسند احمد بن حنبل مسند ابی ہریرہ المکتب الاسلامی بیروت۲ /۴۲۹)
(۱؂سنن ابی داود کتاب الکہانت والتطیر باب النھی عن اتیان الکہان آفتاب عالم پریس لاہور۲/ ۱۸۹)

(۱۸) عمرو پر وحی رسالت آتی ہے اس کے سبب غیب کاعلم یقینی پاتاہے جس طرح رسولوں کو ملتا تھا، یہ اشد کفر ہے۔ ولٰکن رسول اﷲ وخاتم النبیین وکان اﷲ بکل شیئ علیمًاo۲؂۔ ہاں (محمد)اللہ کے رسول ہیں اورسب نبیوں میں پچھلے ، اوراللہ سب کچھ جانتاہے ۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۳۳ /۴۰)

(۱۹) وحی تو نہیں آتی مگر بذریعہ الہام جمیع غیوب ا س پر منکشف ہوگئے ہیں ، اس کا علم تمام معلومات الہٰی کو محیط ہوگیا ۔ یہ یوں کفر ہے اس نے عمرو کو علم میں حضور پر نورسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر ترجیح دے دی کہ حضور کا علم بھی جمیع معلومات الہٰی کو محیط نہیں۔ قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ”۳؂۔ تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اورانجان۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۳۹ /۹)

من قال فلان اعلم منہ فقدعابہ فحکمہ حکم الساب نسیم الریاض۴؂۔ جس نے کہا کہ فلاں شخص نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے زیادہ علم والا ہے ، اس نے آپ پر عیب لگایا ، لہذا اس کا حکم شاتم جیسا ہے ۔نسیم الریاض (ت)

(۴؂نسیم الریاض فی شرح الشفاء الباب الاول مرکز اہلسنت گجرات الہند۴ /۳۳۵ )

(۲۰) جمیع کا احاطہ نہ سہی مگر جو علوم غیب اسے الہام سے ملے ان میں ظاہرًا باطنًاکسی طرح کسی رسول انس و ملک کی وساطت وتبعیت نہیں اﷲتعالٰی نے بلاواسطہ رسول اصا لۃً اسے غیوب پر مطلع کیا ، یہ بھی کفر ہے: وما کان اﷲلیطلعکم علی الغیب ولٰکن اللٰہ یجتبی من رسلہٖ من یشآء ۱؂۔ اور اﷲکی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کاعلم دیدے ہاں اﷲ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۳ /۱۷۹)

عٰلم الغیب فلا یظھرعلٰی غیبہ احدًا الامن ارتضٰی من رسولٍ۲؂۔ غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے ۔

(۲؂القرآن الکریم ۷۲ /۲۵ ۲۶)

( ۲۱) عمروکو رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے واسطہ سے سمعاًیاعیناً یا الہاماً بعض غیوب کاعلم قطعی اﷲ عزوجل نے دیا یا دیتا ہے ، یہ احتمال خالص اسلام ہے تو محققین فقہاء اس قائل کو کافر نہ کہیں گے اگر چہ اس کی با ت کے اکیس پہلوؤں میں بیس کفر ہیں مگر ایک اسلام کا بھی ہے احتیاط و تحسین ظن کے سبب اس کا کلام اسی پہلو پر حمل کر یں گے جب تک ثابت نہ ہو کہ اس نے کوئی پہلوئے کفر ہی مراد لیا ، نہ کہ ایک ملعون کلام، تکذیب خدا یا تنقیص شان سید انبیاء علیہ و علیہم الصلٰوۃ والثناء میں صاف ،صریح، ناقابل تاویل و توجیہ ہو،اورپھر بھی حکم کفر نہ ہو ، اب تو اسے کفر نہ کہنا ، کفر کو اسلام ماننا ہوگا، اور جو کفر کو اسلام مانے خود کافر ہے۔اسی شفاء و بزازیہ درر وبحر ونہر و فتاوٰی خیر یہ ومجمع الانھر ودر مختار ودر مختار وغیرہ کتب معتمدہ سے سن چکے کہ جو شخص حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی تنقیص شان کرے،کافرہے اور جو اس کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے مگر یہود منش لوگ فقہائے کرام پر افترائے سخیف اور ان کے کلام میں تبدیل و تحریف کرتے ہیں ۔ و سیعلم الذین ظلموآ ای منـقلب ینـقلبون۳؂۔ اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کس کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔(ت)

(۳؂القرآن الکریم ۲۶ /۲۲۷)

شرح فقہ اکبر میں ہے: قد ذکرو ا ان المسالۃ المتعلقۃ بالکفر اذاکان لھا تسع و تسعو ن احتمالًا للکفرو احتمال واحد فی نفیہٖ فالاولٰی للمفتی والقاضی ان یعمل بالاحتمال النافی ۱؂۔ تحقیق مشائخ نے مسئلہ تکفیر کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اگر اس میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اورایک احتمال نفی کفر کا ہوتو اولٰی یہ ہے مفتی اورقاضی اس کو نفی کفر کے احتمال پر محمول کرے۔(ت)

(۱؂منح الروض الازھر فی شرح فقہ الاکبر مطلب یجب معرفۃ المکفرات الخ دارالبشائر الاسلامیہ ص۴۴۵)

فتاوٰی خلاصہ وجامع الفصولین و محیط و فتاوٰی عالمگیر وغیر ہا میں ہے : اذا کانت فی المسا لۃ وجوہ تو جب التکفیر و وجہ واحدیمنع التکفیر فعلٰی المفتی و القاضی ان یمیل الٰی ذٰلک الوجہ ولا یفتی بکفرہٖ تحسینًا للظن بالمسلم ثم ان کانت نیۃ القائل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم وان لم یکن لاینفعہ حمل المفتی کلامہ علٰی وجہٍ لایوجب التکفیر۲؂۔ اگر مسئلہ میں متعدد وجوہ موجب کفر ہوں اورفقط ایک تکفیر سے مانع ہو تو مفتی وقاضی پر لازم ہے کہ اسی وجہ کی طرف میلان کرے اورمسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے اس کے کفر کا فتوٰی نہ دے ۔ پھر اگر درحقیقت قائل کی نیت میں وہی وجہ ہے جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان ہے ورنہ مفتی وقاضی کا کلام کو اس وجہ پر محمول کرنا جو موجب تکفیر نہیں ہے ، قائل کو کچھ نفع نہ دے گا۔ (ت)

(۲؂خلاصۃ الفتاوی کتاب الالفاظ الکفر الفصل الثانی مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۳۸۲)
(جامع الفصولین الفصل الثامن والثلاثون فی مسائل کلمات الکفر اسلامی کتب خانہ کراچی ۲ /۲۹۸)
( المحیط البرہانی فصل فی مسائل المرتدین واحکامہم داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۵۵۰)
(الفتاوی الھندیۃ کتاب السیر الباب التاسع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۳۰۱)
(ردالمحتار کتاب الجہاد باب المرتد داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/۲۸۵)
(الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الفتاوی الہندیۃ کتاب الفاظ تکون اسلاماً اوکفراً نورانی کتب خانہ پشاور۶ /۳۲۱)
(بحرالرائق کتاب السیر باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۵ /۱۲۵)
(مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر کتاب السیر باب المرتد داراحیاء التراث العربی بیروت۱ /۶۸۸)
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ والاستخفاف بالشریعۃ کفر الخ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱ /۳۰۲)
(الفتاوی التاتارخانیہ کتاب احکام المرتدین ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۵ /۴۵۸)

اسی طرح فتاوٰی بزازیہ وبحر الرائق و مجمع الانہر و حدیقہ ندیہ وغیر ہامیں ہے ، تاتارخانیہ وبحروسل الحسام و تنبیہ الولاۃ وغیر ہا میں ہے: لایکفر بالمحتمل لان الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستد عی نہایۃً فی الجنایۃ ومع الاحتمال لانھایۃ۱؂۔ احتمال کے ہوتے ہوئے تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ کفر انتہائی سزا ہے جو انتہائی جرم کا مقتضی ہے اوراحتمال کی موجودگی میں انتہائی جرم نہ ہوا۔ (ت)

(۱؂الفتاوی التاتارخانیہ کتاب احکام المرتدین ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۵ /۴۵۹)
(سل الحسام الہندی لنصرۃ مولانا خالدالنقشبندی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۲ /۳۱۶)
(تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۳۴۲)
(بحر الرائق کتاب السیر باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کراچی ۵ /۱۲۵)

بحر االرائق و تنویر الابصار و حدیقہ ندیہ وتنبیہ الولاۃ وسل الحسام وغیرہامیں ہے: والذی تحررانہ لایفتٰی بکفرمسلمٍ امکن حمل کلامہٖ علٰی محملٍ حسنٍ۲؂ الخ۔ جس نے ایسے مسلمان کی تکفیر کا فتوٰی دینے سے اجتناب کیا جس کے کلام کی تاویل ممکن ہے ، اس نے اچھا کہا۔(ت)

(۲؂الدرالمختار تنویرالابصار کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۶)
(بحر الرائق کتاب السیر باب احکام المرتدین ایچ ایم سعید کراچی ۵ /۱۲۵)
(تنبیہ الولاۃ والحکام علی احکام شاتم خیر الانام رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۱ /۳۴۲)
(سل الحسام الہندی لنصرۃ مولانا خالدالنقشبندی رسالہ من رسائل ابن عابدین سہیل اکیڈمی لاہور ۲ /۳۱۶)
(الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ والاستخفاف بالشریعۃ کفر الخ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱ /۳۰۲)

دیکھو ایک لفظ کے چند احتمال میں کلام ہے نہ کہ ایک شخص کے چند اقوال میں، مگر یہودی بات کو تحریف کردیتے ہیں ۔

فائدہِ جلیلہ

اس تحقیق سے یہ بھی روشن ہوگیا کہ بعض فتاوے مثل فتاوی قاضی خان وغیرہ میں جو اس شخص پر کہ اﷲ ورسول کی گواہی سے نکا ح کرے یا کہے ارواح مشائخ حاضر وواقف ہیں یاکہے ملائکہ غیب جانتے ہیں بلکہ کہے مجھے غیب معلوم ہے ،حکم کفردیا ، اس سے مراد وہی صورت کفریہ مثل ادعائے علم ذاتی وغیرہ ہے۔ورنہ ان اقوال میں تو ایک چھوڑمتعدد احتمال اسلام کے ہیں کہ یہاں علم غیب قطعی، یقینی کی تصریح نہیں اور علم کا اطلاق ظن پر شائع وذائع ہے تو علم ظنی کی شق بھی پیدا ہوکر اکیس کی جگہ بیالیس احتمال نکلیں گے اور ان میں بہت سے کفر سے جدا ہوں گے کہ غیب کے علم ظنی کا ادعاء کفر نہیں۔
بحر الرائق و ردالمحتار میں ہے : علم من مسائلھم ھنا ان من استحل ما حرمہ اللٰہ تعالٰی علٰی وجہٖ الظن لا یکفر و انما یکفر اذا اعتقد الحرام حلالاً و نظیرہ ما ذکرہ القرطبی فی شرح مسلمٍ ان ظن الغیب جائز کظن المنجم و الرمال بوقوع شیءٍ فی المستقبل بتجربۃ امرٍ عادی فھو ظن صادق والممنوع ادعاء علم الغیب والظاھر ان ادعاء ظن الغیب حرام لا کفر بخلاف ادعاء العلم ۱؂ اھ۔ زاد فی البحر الا ترٰی انھم قالوا فی نکاح المحرم لو ظن الحل لا یحد بالاجماع و یعزر کما فی الظھیریۃ و غیرھا و لم یقل احد انہ یکفر و کذا فی نظائرہ ۲؂اھ ان مسائل سے معلوم ہوگیا کہ جس نے اللہ تعالٰی کے حرام کردہ کو حلال گمان کیا وہ کافر نہ ہو گا کافر توحرام کو حلال اعتقاد کرنے سے ہوگا۔ اس کی نظیر وہ ہے جو قرطبی نے شرح مسلم میں ذکر کیا کہ ظن غیب جائز ہے جیسا نجومی اور رملی کا کسی امر عادی کے تجربہ کی بنیاد پر مستقبل میں کسی امر کے واقع ہونے کا ظن ۔ یہ ظن صادق ہے ۔ اورجو ممنوع ہے وہ علم غیب کا ادعاء ہے ، اورظاہر ہے کہ ظن غیب کا ادعاء حرام ہے کفر نہیں بخلاف علم غیب کے ادعاء کے اھ ۔ بحر میں زائد ہے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ نکاح محرم کے بارے میں مشائخ نے کہا ہے کہ اگر اس کو حلال کا ظن تھا تو بالاجماع حد نہیں لگائی جائیگی بلکہ تعزیر لگائی جائے گی ، جیسا کہ ظہیریہ وغیرہ میں ہے ۔ا س کی تکفیر کا قول کسی نے نہیں کیا، یونہی اس کی نظائر میں ہے ۔(ت)

(۱؂ردالمحتار کتاب الحدود باب الوط ء الذی یوجب الحدود الخ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۱۵۴)
(۲؂ البحر الرائق کتاب الحدود باب الوطء الذی یوجب الحدودالخ داراحیاء التراث العربی بیروت۵/۱۶)

توکیونکر ممکن ہے کہ علماء باوصف ان تصریحات کے کہ ایک احتمال اسلام بھی نافی کفر ہے جہاں بکثرت احتمالات اسلام موجودہیں۔حکم کفر لگائیں لاجرم اس سے مرادہی خاص احتمال کفر ہے مثل ادعائے علم ذاتی وغیرہ ورنہ یہ اقوال آپ ہی باطل اور ائمہ کرام کی اپنی ہی تحقیقات عالیہ کے مخالف ہوکر خود ذاہب و زائل ہوں گے، اس کی تحقیق جامع الفصولین ورد المحتار وحاشیہ علامہ نوح و ملتقط وفتاوٰی حجۃ وتاتار خانیہ مجمع الانھرو حدیقہ ندیہ وسل الحسام وغیر ہا کتب میں ہے ۔نصوص عبارات رسائل علم غیب مثل اللولؤ المکنون وغیرہا میں ملاحظہ ہوں ، وباﷲالتوفیق ،
یہاں صرف حدیقہ ندیہ شریف کے یہ کلمات شریفہ بس ہیں : جمیع ما وقع فی کتب الفتاوٰی من کلماتٍ الکفر التی صرح المصنفون فیھا بالجزم بالکفریکون الکفر فیھا محمولاًعلٰی ارادۃ قائلھامعنیً عللوا بہٖ الکفر و اذا لم تکن ارادۃ قائلھا ذٰلک فلا کفر ۱؂ اھ مختصراً۔ یعنی کتب فتاوٰی میں جتنے الفاظ پر حکم کفر کاجزم کیا ہے ان سے مراد وہ صورت ہے کہ قائل نے ان سے پہلوئے کفر مراد لیا ہوورنہ ہرگز کفر نہیں۔ ”

(۱؂الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ والاستخفاف بالشریعۃ کفر الخ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱ /۳۰۴)

ضروری تنبیہ

احتمال وہ معتبر ہے جس کی گنجائش ہو صریح بات میں تاویل نہیں سنی جاتی ور نہ کوئی بات بھی کفر نہ رہے ۔ مثلاً زید نے کہا خدا دو(۲) ہیں ، اس میں یہ تأویل ہوجائے کہ لفظ خدا سے بحذف مضاف حکم خدا مراد ہے یعنی قضاء دو ہیں ،مبرم و معلق ۔ جیسے قرآن عظیم میں فرمایا : الا ان یاتیھم اﷲ ۲؂ ای امر اللٰہ۔ مگر یہ کہ انکے پاس آئے اللہ تعالٰی یعنی اللہ تعالٰی کا امر ۔(ت)

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۲۱۰)

عمرو کہے میں رسول اﷲ ہوں ، اس میں یہ تاویل گڑھ لی جائے کہ لغوی معنی مراد ہیں یعنی خدا ہی نے اس کی روح بدن میں بھیجی ، ایسی تاویلیں زنہار مسموع نہیں ۔

شفاء شریف میں ہے : ادعاؤہ التاویل فی لفظٍ صراحٍ لا یقبل ۳؂۔ صریح لفظ میں تاویل کا دعوٰی نہیں سنا جاتا۔

(۳؂الشفاء بتعریف حقو ق المصطفی القسم الرابع الباب الاول المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۲ /۲۰۹و۲۱۰)

شرح شفاء قاری میں ہے : ھو مردود عند القواعد الشرعیۃ۴؂۔ ایسا دعوٰی شریعت میں مردو د ہے۔

(۴؂شرح الشفاء لمنلا علی القاری القسم الرابع الباب الاول دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۳۹۶)

نسیم الریاض میں ہے : لایلتفت لمثلہٖ و یعد ھذیانًا۵؂۔ ایسی تاویل کی طرف التفات نہ ہوگااور ہذیان سمجھی جائے گی ۔

(۵؂نسیم الریاض القسم الرابع الباب الاول مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند ۴ /۳۴۳)

فتاوٰی خلاصہ و فصول عمادیہ جامع الفصولین و فتاوٰی ہندیہ وغیر ہا میں ہے : واللفظ للعمادی قال انا رسول اللٰہ او قال بالفارسیۃ من پیغمبرم یرید بہٖ من پیغام می برم یکفر۱؂۔ عمادی کے الفاظ ہیں کوئی شخص کہے ”میں اللہ کا رسول ہوں ”یافارسی میں کہے ”میں پیغمبرہوں”اورمراد یہ لے کہ میں پیغام لے جاتا ہوں قاصد ہوں تو وہ کافر ہوجائے گا۔(ت)

(۱؂الفتاوی الھندیۃ بحوالۃ الفصول العمادیۃ کتاب السیر الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۲۶۳)

یہ تاویل نہ سنی جائے گی فاحفظ (تواسے حفظ کرلیجئے۔)

مکرِچہارم : انکار ، یعنی جس نے ان بدگویوں کی کتابیں نہ دیکھیں اس کے سامنے صاف مکر جاتے ہیں کہ ان لوگوں نے یہ کلمات کہیں نہ کہے اور جو ان کی چھپی ہوئی کتابیں ،تحریریں دکھادیتا ہے۔اگر ذی علم ہوا توناک چڑھاکر منہ بناکر چل دئے یا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بکمال بے حیائی صاف کہہ دیا کہ آپ معقول بھی کر دیجئے تومیں وہی کہے جاؤں گااور بیچارہ بے علم ہوا تو اس سے کہہ دیا ان عبارتوں کا یہ مطلب نہیں اورآخر میں ہے کیا یہ در بطن قائل اس کے جواب کو وہی آیت کریمہ کافی ہےکہ : یحلفون باﷲ ماقالوا ولقد قالوا کلمۃ الکفروکفروابعد اسلامھم ۲؂۔ خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا حالانکہ بے شک ضرور وہ یہ کفر کے بول بو لے اور مسلمان ہوئے پیچھے، کافر ہوگئے۔

(۲؂القرآن الکریم ۹ /۷۴)

ع ———ہوتی آئی ہے کہ انکار کیا کرتے ہیں
ان لوگوں کی وہ کتابیں (عہ۱) جن میں کلمات کفریہ ہیں مدتوں سے انہوں نے خود اپنی زندگی میں چھا پ کر شائع کیں اور ان میں بعض دو دوبار(عہ۲) چھپیں مدتہامدت سے علمائے اہلسنت نے ان کے ردچھاپے ،مواخذے کئے وہ فتوے(عہ۳) جس میں اﷲ تعالی کو صاف صاف کا ذب جھوٹا مانا ہے اور جس کی اصل مہری و دستخطی اس وقت تک محفوظ ہے اور اس کے فوٹو بھی لئے گئے جن میں سے ایک فوٹو کہ علمائے حرمین شریفین کو دکھانے کے لئے مع دیگرکتب دشنامیاں گیا تھا سرکار مدینہ طیبہ میں بھی موجودہے۔

عہ۱: یعنی براہین قاطعہ وحفظ الایمان وتحذیرالناس وکتب قادیانی وغیرہ ۱۲کاتب عفی عنہ
عہ۲:جیسے براہین قاطعہ وحفظ الایمان ۱۲کاتب عفی عنہ
عہ۳ : یعنی فتوائے گنگوہی صاحب ۱۲کاتب عفی عنہ

یہ تکذیب خدا کا ناپاک فتوی اٹھارہ برس ہوئے ربیع الاخر ۱۳۰۸ھ میں رسالہ صیان الناس کے ساتھ مطبع حدیقۃ العلوم میرٹھ میں مع رد کے شائع ہوچکا پھر۱۳۱۸ ھ مطبع گلزار حسنی بمبئی میں اس کا اور مفصل رد چھپا، پھر ۱۳۲۰ ھ میں پٹنہ عظیم آباد مطبع تحفہ حنفیہ میں اس کا اور قاہر رد چھپا اور فتوے دینے والاجمادی الآخر ہ ۱۳۲۳ھ میں مرا،اورمرتے دم تک ساکت ر ہا نہ یہ کہا کہ وہ فتوی میرا نہیں حالانکہ خود چھاپی ہوئی کتابو ں سے فتوی کا انکار کردینا سہل تھانہ یہی بتایا کہ مطلب وہ نہیں جو علمائے اہل سنت بتارہے ہیں بلکہ میرا مطلب یہ ہے ،نہ کفر صریح کی نسبت ،کوئی سہل بات تھی جس پر التفات نہ کیا۔ زید سے اس کا ایک مہری فتوٰی اس کی زندگی و تندرستی میں علانیہ نقل کیا جائے اور وہ قطعاً یقینا صریح کفر ہو اور سالہاسال اس کی اشاعت ہوتی رہے ،لوگ اس کا رد،چھاپا کریں ، زید کو اس کی بنا ء پر کافربتایا کریں ،زید اس کے بعد پندرہ برس جئے اور یہ سب کچھ دیکھے سنے اور اس فتوٰی کی اپنی طرف نسبت سے انکار اصلاً شائع نہ کرے بلکہ دم سادھے رہے یہاں تک کہ دم نکل جائے ،کیا کوئی عاقل گما ن کرسکتا ہے کہ اس نسبت سے اسے انکار تھا یا اس کا مطلب کچھ اور تھا اور ان میں کے جو زندہ ہیں آج کے دم تک ساکت ہیں ، نہ اپنی چھاپی کتابوں سے منکرہوسکتے ہیں نہ اپنی دشناموں کااورمطلب گھڑ سکتے ہیں۔ ۱۳۲۰ھ میں ان کے تمام کفریات کا مجموع یکجائی رد شائع ہوا۔ پھر ان دشنامیوں کے متعلق، کچھ عمائد مسلمین علمی سوالات ان میں (عہ)کے سرغنہ کے پاس لے گئے ،

عہ: یعنی تھانوی صاحب ۱۲کاتب عفی عنہ۔

سوالوں پر جو حالت سراسیمگی بے حد پیدا ہوئی، دیکھنے والوں سے اس کی کیفیت پوچھیئے مگر اس وقت بھی نہ ان تحریرات سے انکار ہوسکا نہ کوئی مطلب گڑھنے پر قدرت پائی بلکہ کہاتو یہ کہ” میں مباحثہ کے واسطے نہیں آیا ، نہ مباحثہ چاہتا ہوں ، میں اس فن میں جاہل ہو ں اور میرے اساتذہ بھی جاہل ہیں معقول بھی کردیجئے میں تو وہی کہے جاؤں گا۔” وہ سوالات اور اس واقعہ کا مفصل ذکر بھی جبھی ۱۵جمادی الآخرۃ۱۳۲۳ھ کوچھاپ کر سرغنہ و اتباع سب کے ہاتھ میں دے دیاگیا،اسے بھی چوتھا سال ہے صدائے برنخاست۔ ان تمام حالات کے بعد وہ انکاری مکر ایسا ہی ہے کہ سرے سے یہی کہہ دیجئے کہ اﷲ ورسول کو یہ دشنام دہندہ لوگ دنیا میں پیدا ہی نہ ہوئے ،یہ سب بناوٹ ہے ۔اس کا علاج کیا ہوسکتاہے ،اﷲتعالی حیادے۔

مکر پنجم : جب حضرات کو کچھ بن نہیں پڑتی ، کسی طرف مفر نظر نہیں آتی اور یہ توفیق اﷲ واحدقہار نہیں دیتا کہ توبہ کریں اﷲ تعالی اور محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں جو گستاخیاں بکیں ، جو گالیاں دیں ، ان سے باز آئیں جیسے گالیاں چھاپیں ان سے رجوع کا بھی اعلان دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں : اذا عملت سیئۃً فاحدث عندھا توبۃ السر بالسر والعلانیۃ بالعلانیۃ۔ رواہ الامام احمد فی الزھد۱؂ والطبرانی فی الکبیر والبیہقی فی الشعب عن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ بسند حسن جید۔ جب توبدی کرے تو فوراً توبہ کر، خفیہ کی خفیہ اور علانیہ کی علانیہ(اس کو امام احمد نے زہد میں ، طبرانی نے کبیر میں اوربیہقی نے شعب میں معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بسند حسن جید روایت کیا۔ت)

(۱؂الزھد لاحمد بن حنبل حدیث ۱۴۱ دارالکتب العربی بیروت ص۴۹)
المعجم الکبیر حدیث ۳۳۱ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۲۰ /۱۵۹)

اور بفحوائے کر یمہ یصد ون عن سبیل اﷲ و یبغونھا عوجّا۲؂ (اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس سے کجی چاہتے ہیں۔ت)

(۲؂القراان الکریم ۷ /۴۵)

راہ خدا سے روکنا ضرور۔نا چار عوام مسلمین کو بھڑ کانے اور د ن دہاڑے ان پر اندھیر ی ڈالنے کو یہ چال چلتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کے فتوائے تکفیر کا کیا اعتبار ؟یہ لوگ ذرہ ذرہ سی با ت پر کافر کہہ دیتے ہیں ،ان کی مشین میں ہمیشہ کفر ہی کے فتوے چھپا کرتے ہیں ۔اسمعیل دہلوی کو کافر کہہ دیا، مولوی اسحٰق صاحب کو کہہ دیا ،مولوی عبدالحی صاحب کو کہہ دیا،،پھرجن کی حیا اور بڑ ھی ہوئی ہے وہ اتنا اور ملاتے ہیں کہ معاذ اﷲ حضرت شاہ عبدالعزیزصاحب کو کہہ دیا ، شاہ ولی اﷲ صاحب کو کہہ دیا،حاجی امداد اﷲصاحب کو کہہ دیا، مولانا شاہ فضل الرحمن صاحب کو کہہ دیا، پھر جو پورے ہی حد حیا سے اونچا گزرگئے وہ یہاں تک بڑھتے ہیں کہ عیاذاﷲ عیاذًاباﷲ حضرت شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ کو کہہ دیا۔ غرض جسے جس کا ز یادہ معتقد پایا اس کے سامنے اسی کا نام لے دیا کہ انہوں نے اسے کافر کہہ دیا یہاں تک کہ ان میں کے بعض بزرگواروں نے مولانا مولوی شاہ محمد حسین صاحب ا لہٰ آبادی مرحوم و مغفور سے جاکر جڑدی کہ معاذ اﷲ معاذ اﷲ معاذ اﷲ حضر ت سید ناشیخ اکبر محی الدین ابن عربی قدس سرہ کو کافر کہہ دیا ۔ مولانا کو اﷲتعالی جنت عالیہ عطافر مائے۔انہوں نے آیت کریمہ ان جآء کم فاسق بنباءٍ فتبینوا ۱؂۔ (اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلائے تو تحقیق کرلو۔ت) پر عمل فرمایا۔

(۱؂القرآن الکریم ۱۲ /۵۲)

خط لکھ کر دریافت کیا جس پر یہاں سے رسالہ انجاء البری عن وسواس المفتری لکھ کر ارسال ہو ا اور مولانا نے مفتری کذاب پر لاحو ل شریف کا تحفہ بھیجا غرض ہمیشہ ایسے ہی افتراء اٹھایاکرتے ہیں جس کا جواب وہ ہے جو تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : انما یفتری الکذب الذ ین لایؤمنون۔۲؂۔ جھوٹے افتراء وہی باندھتے ہیں جو ایمان نہیں رکھتے ۔

(۲؂القرآن الکریم ۱۶ /۱۰۵)

اور فر ماتا ہے: فنجعل لعنت ا ﷲ علی الکٰذبین ۳؂۔ ہم اﷲکی لعنت ڈالیں جھوٹوں پر ۔

(۳؂ القرآن الکریم ۳/ ۶۱)

مسلمانو! اس مکر سخیف وکید ضعیف کا فیصلہ کچھ دشوار نہیں ، ان صاحبو ں سے ثبو ت مانگوکہ کہہ دیا کہہ دیافرماتے ہو، کچھ ثبوت بھی رکھتے ہو ، کہاں کہہ دیا؟ کس کتاب ،کس رسالے،کس فتوے،کس پرچے میں کہہ دیا؟ہاں ہاں ثبوت رکھتے ہو تو کس دن کے لئے اٹھا رکھاہے دکھاؤ اور نہیں دکھاسکتے اور اﷲجانتا ہے کہ نہیں دکھاسکتے تو دیکھو قرآن عظیم تمہارے کذاب ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
مسلمانو! تمہارا رب عزوجل فرماتاہے: فاذ لم یاتو ا بالشھدآء فا و لئک عنداﷲ ھم الکٰذ بون ۴؂۔ جب ثبوت نہ لاسکیں تو اﷲکے نزدیک وہی جھوٹے ہیں ۔

(۴؂القرآن الکریم۲۴ /۱۳)

مسلمانو! آزمائے کو کیا آزمانا ، بارہاہوچکا ان حضرا ت نے بڑے زورو شور سے یہ دعوے کئے اور جب کسی مسلمان نے ثبوت مانگا،فورًا پیٹھ پھیر گئے اور پھرمنہ نہ دکھاسکے مگر حیااتنی ہے کہ وہ رٹ، جو منہ کو لگ گئی ہے، نہیں چھوڑتے ،اور چھوڑیں کیونکر کہ مرتا کیانہ کرتا، اب خدا اور رسول کو گالیاں دینے والوں کے کفرپر پر دہ ڈالنے کا آخری حیلہ یہی رہ گیا ہے کہ کسی طرح عوام بھائیوں کے ذہن میں جم جائے کہ علمائے اہل سنت یونہی بلاوجہ لوگوں کو کافر کہہ دیا کر تے ہیں ایسا ہی ان دشنامیوں کو بھی کہہ دیا ہوگا۔مسلمانو !ان مفتریوں کے پاس ثبوت کہاں سے آیا؟ کہ من گھڑت کا ثبوت ہی کیا ۔ وان اﷲ لایھدی کیدالخآئنینo۱؂ اوراللہ دغابازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔(ت)

(۱؂القرآن الکریم ۱۲ /۵۲)

ان کا ادعائے باطل تو اسی قد ر سے باطل ہوگیا ۔
تمہارا رب عزوجل فرماتاہے : قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صٰدقین۲؂۔ (فرماؤ) لاؤ اپنی برھان اگر سچے ہو۔

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۱۱۱)

اس سے زیادہ کی ہمیں حاجت نہ تھی مگر بفضلہ تعالی ہم ان کی کذابی کا وہ روشن ثبوت دیں کہ ہر مسلمان پران کا مفتری ہونا آفتاب سے زیادہ ظاہر ہوجائے ۔ ثبوت بھی بحمدہ تعالی تحریری ، وہ بھی چھپا ہوا، وہ بھی نہ آج کا ،بلکہ سالہاسال کا، جن جن کی تکفیر کا اتہام علمائے اہل سنت پر رکھا ان میں سب سے زیادہ گنجائش اگر ان صاحبوں کو ملتی تو اسمعیل دہلوی میں کہ بیشک علمائے اہلسنت نے اس کے کلام میں بکثرت کلمات کفریہ ثابت کئے اور شائع فرمائے بایں ہمہ

اولاً سبحان السبوح عن عیب کذبٍ مقبوحٍ (۱۳۰۷ھ) دیکھئے کہ بار اول (۱۳۰۹ھ) میں لکھنؤ مطبع انوار محمدی میں چھپا جس میں بد لا ئل قاہر ہ دہلوی مذکوراور اس کے اتباع پر پچھتر /۷۵ وجہ سے لزوم کفرثابت کرکے صفحہ ۹۰ پر حکم اخیر یہی لکھا کہ علمائے محتاطین انہیں کافر نہ کہیں یہی صواب ہے و ھو الجواب و بہٖ یفتٰی و علیہ الفتوٰی و ھو المذھب و علیہ الاعتماد و فیہ السلامۃ و فیہ السداد۳؂۔ یعنی یہی جواب ہے اور اسی پر فتوی ٰ ہو اور اسی پر فتوٰی ہے اور یہی ہمار ا مذہب اور اسی پر اعتماد اور اسی میں سلامتی اور اسی میں استقامت ۔

(۳؂سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح دارالاشاعت جامعہ گنج بخش داتا دربار لاہور ص۱۰۳)

ثانیاً “الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ(۱۳۱۲ھ) ” دیکھئے جو خاص اسمعیل دہلوی اور اس کے متبعین ہی کے رد میں تصنیف ہوا اوربار اول شعبان ۱۳۱۶ھ میں عظیم آباد مطبع تحفہ حنفیہ میں چھپا۔ جس میں نصوص جلیلہ قرآن مجید واحادیث صحیحہ وتصریحات ائمہ سے بحوالہ صفحات کتب معتمدہ اس پر ستر ۷۰ وجہ بلکہ زائد سے لزوم کفرثابت کیا اور بالآخر یہی لکھا (ص ۶۲) ہمارے نزدیک مقام احتیاط میں اکفار سے کف لسان ماخوذ و مختار ومناسب واللٰہ سبحانہ و تعالٰی اعلم ۴؂۔

(۴؂الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ رضا اکیڈمی بمبئی انڈیاص۶۲)

ثالثاً “سل السیوف الھندیۃ علٰی کفریات بابا النجدیۃ(۱۱ ۱۳ھ)” دیکھئے کہ صفر ۱۳۱۶ھ کو عظیم آباد میں چھپا ، اس میں اسمعیل دہلوی او ر اس کے متبعین پر بوجوہ قاہرہ لزوم کفر کا ثبوت دے کر صفحہ ۲۱، ۲۲ پر لکھا یہ حکم فقہی متعلق بہ کلمات سفہی تھا مگر اﷲ تعالی کی بے شمار رحمتیں، بے حد بر کتیں ،ہمارے علمائے کرام پر کہ یہ کچھ دیکھتے ۔اس طائفہ کے پیر سے ناروا بات پر سچے مسلمانوں کی نسبت حکم کفرو شرک سنتے ہیں، بایں ہمہ نہ شدت غضب دامن احتیاط ان کے ہاتھ سے چھڑاتی ہے ، نہ قوت انتقام حرکت میں آتی ،وہ اب تک یہی تحقیق فرمارہے ہیں کہ لزوم و التزام میں فرق ہے اقوال کاکلمہ کفر ہونا اور بات ،اور قائل کو کافر مان لینا اور بات ، ہم احتیاط برتیں گے ، سکوت کریں گے ،جب تک ضعیف ساضعیف احتمال ملے گا حکم کفر جاری کرتے ڈریں گے ۱؂،اھ مختصرا۔

(۱؂سل السیوف الہندیۃ علی کفریات بابا النجدیۃ رضا اکیڈمی انڈیا ص۲۱و۲۲)

رابعاً “ازالۃ العاربحجر الکرائم عن کلاب النار (۱۳۱۶ھ)” دیکھئے کہ بار اول ۱۳۱۷ھ کو عظیم آباد میں چھپا ، اس میں صفحہ ۱۰ پر لکھا ہم اس با ب میں قول متکلمین اختیار کرتے ہیں ان میں جو کسی ضروری دین کا منکر نہیں نہ ضروری دین کے کسی منکر کو مسلمان کہتاہے اسے کافر نہیں کہتے ۔۲؂

(۲؂ازلۃ العار بحجر الکرائم من کلاب النار رضا اکیڈمی بمبئی انڈیاص۱۸)

خامساً : اسمعیل دہلوی کو بھی جانے دیجئے ، یہی دشنامی لوگ جن کے کفر پر اب فتوی دیا ہے جب تک ان کی صریح دشنامیوں پر اطلاع نہ تھی، مسئلہ امکان کذب کے باعث ان پراٹھتر۷۸ وجہ سے لزوم کفر ثابت کرکے” سبحان السبوح” میں بالآخر صفحہ ۸۰ طبع اول پر یہی لکھا کہ حاشاﷲ حاشاﷲ ہزار ہز ار بار حاش ﷲ میں ہرگز ان کی تکفیر پسند نہیں کرتا ، ان مقتدیوں یعنی مد عیان جدید(عہ) کو تو ابھی تک مسلمان ہی جانتا ہوں اگر چہ ان کی بدعت و ضلالت میں شک نہیں اور امام الطائفہ (اسمعیل دہلوی) کے کفر پر بھی حکم نہیں کرتا کہ ہمیں ہمارے نبی نے اہل لاالہ الا اﷲکی تکفیر سے منع فرمایا ہے جب تک وجہ کفر، آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لئے اصلاً کوئی ضعیف سا ضعیف محمل بھی باقی نہ رہے ۔ فان الاسلام یعلو ولا یعلٰی علیہ۳؂۔ (اس لئے کہ اسلام غالب ہے مغلوب نہیں ہے ۔ ت)

عہ: گنگوہی وانبھٹی اور انکے اذباب دیوبندی ۱۲کاتب عفی عنہ

(۳؂سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح دارالاشاعت جامعہ گنج بخش لاہور ص۹۰ و ۹۱)

مسلمانو ! مسلمانو! تمہیں اپنا دین وایمان اور روز قیامت و حضو ر بارگا ہ رحمن یاددلاکر استفسارہے کہ جس بندہ خدا کی دربارہ تکفیر یہ شدید احتیاط یہ جلیل تصریحات اس پر تکفیر تکفیرکا افتراء کتنی بے حیائی ، کیسا ظلم ،کتنی گھنونی ،ناپاک با ت ،مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں اور وہ جو کچھ فر ماتے ہیں قطعاً حق فرماتے ہیں اذا لم تستحی فاصنع ما شئت ۱؂۔ جب تجھے حیا نہ رہے تو جو چاہے کر : ع ___________ بے حیا باش و آنچہ خواہی کن

(بیحیا ہو جا پھر جو چاہے کر۔ت)

(۱؂المجعم الکبیر حدیث۶۵۸المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۷ /۲۳۷)

مسلمانو یہ روشن ظاہر واضح قاہر عبارات تمہارے پیش نظرہیں جنہیں چھپے ہوئے دس۱۰ دس ۱۰ اور بعض کو ستر ہ۱۷ او ر تصنیف کوا نیس ۱۹ سال ہوئے (اور ان دشنامیوں کی تکفیرتو ا ب چھ سال یعنی ۱۳۲۰ھ سے ہوئی ہے( جب سے المعتمدالمستند چھپی) ان عبارات کو بغورنظر فرماؤ اور اﷲ و رسول کے خوف کو سامنے رکھ کر انصاف کرو یہ عبارتیں فقط ان مفتریوں کا افتراء ہی رد نہیں کرتیں بلکہ صراحۃً صاف صاف شہادت دے رہی ہیں کہ ایسی عظیم احتیاط والے نےہرگز ان دشنامیوں کوکا فر نہ کہا جب تک یقینی ،قطعی ،واضح، روشن، جلی طور سے ان کا صریح کفرآفتاب سے زیادہ ظاہر نہ ہولیا جس میں اصلاً،اصلاً،ہر گز، ہرگزکوئی گنجائش ،کوئی تأویل نہ نکل سکی کہ آخر یہ بندہ خدا وہی توہے جو انکے اکابر پر ستر/ ۷۰،ستر/ ۷۰ وجہ سے لزوم کفر کاثبوت دے کر یہی کہتا ہے کہ ہمیں ہمارے نبی نے اہل لاالہٰ الااﷲکی تکفیر سے منع فر مایا ہے جب تک کہ وجہ کفر آفتاب سے زیادہ روشن نہ ہوجائے اور حکم اسلام کے لئے اصلاً کوئی ضعیف ساضعیف محمل باقی نہ رہے۲؂۔

(۲؂سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح دارالاشاعت جامعہ گنج بخش لاہور ص۹۱)

یہ بندہ خدا وہی تو ہے جوخود ان دشنامیوں کی نسبت (جب تک ان کی دشنامیوں پر اطلاع یقینی نہ ہوئی تھی) اٹھتر ۷۸ وجہ سے بحکم فقہائے کرام لزوم کفر کا ثبوت دے کریہی لکھ چکاتھا کہ ہزار ہزاربار حاشﷲ میں ہر گزانکی تکفیر پسند نہیں کرتا۳؂،

(۳؂سبحٰن السبوح عن عیب کذب مقبوح دارالاشاعت جامعہ گنج بخش لاہور ص۹۰ و ۹۱)

جب کیاان سے کوئی ملاپ تھا اب رنجش ہوگئی ؟جب ان سے جائدادکی کوئی شرکت نہ تھی اب پیدا ہوئی ؟ حاشاﷲ مسلمانوں کا علاقہ محبت و عداوت ،صرف محبت و عداوت خدا ورسول ہے ،جب تک ان دشنام دہوں سے دشنام صادر(عہ۱) نہ ہوئی یا اﷲ ورسول کی جنا ب میں ان کی دشنام (عہ۲) نہ دیکھی سنی تھی، اس وقت تک کلمہ گوئی کا پاس لازم تھا ، غایت احتیاط سے کام لیا حتٰی کہ فقہائے کرام کے حکم سے طرح طرح ان پر کفر لازم تھا مگر احتیاطاً ان کا ساتھ نہ دیا اورمتکلمین عظام کا مسلک اختیار کیا ۔جب صاف صریح انکار ضروریات دین ودشنام دہی رب العلمین وسید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین آنکھ سے دیکھی تو اب بے تکفیر چارہ نہ تھاکہ اکابر ائمہ دین کی تصریحیں سن چکے کہ من شک فی عذابہ وکفرہ فقدکفر۱؂۔ جوایسے کے معذب و کافر ہونے میں شک کرے خود کافر ہے ۔

عہ۱: جیسے تھانوی صاحب کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جناب میں ان کی سخت گالی ۱۳۱۹ھ میں چھپی اس سے پہلے اپنے آپ کو سنی ظاہر کرتے بلکہ ایک وقت وہ تھا کہ مجلس میلاد مبارک وقیام میں شریک اہل اسلام ہوتے ۱۲کاتب عفی عنہ ۔
عہ۲: جیسے گنگوہی صاحب وانبیٹھی صاحب کہ ان کے اتنے قول کی نسبت میرٹھ سے سوال آیا تھا کہ خدا جھوٹا ہوسکتا ہے اس کے بعد معلوم ہوا کہ شیطان کا علم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے زیادہ بتاتے ہیں۔ پھرگنگوہی صاحب کا وہ فتوٰی کہ خدا جھوٹا ہے جو اسے جھوٹا کہے مسلما ن سنی صالح ہے ۔ جب چھپا ہوا نظر سے گزرا کمال احتیاط یہ کہ دوسروں کا چھپوایا ہوا تھا اس پروہ تیقن نہ کیا جس کی بناپرتکفیر ہوجب وہ اصلی فتوی گنگوہی صاحب کا مہری دستخطی خود آنکھ سے دیکھا اوربار بار چھپنے پر بھی گنگوہی صاحب نے سکوت کیا تو اس کے صدق پر اعتبار کافی ہوا۔ یونہی قادیانی دجال کی کتابیں جب تک آپ نہ دیکھیں اس کی تکفیر پر جزم نہ کیا جب تک صرف مہدی یا مثیل مسیح بننے کی خبر سنی تھی جس نے دریافت کیا اتنا ہی کہا کہ کوئی مجنون معلوم ہوتاہے ، پھر جب امرتسر سے ایک فتوٰ ی اس کی تکفیر کا آیا جس میں اس کی کفریہ عبارتیں بحوالہ صفحات منقول تھیں اس پر بھی اتنا لکھا کہ ”اگر یہ اقوال مرزا کی تحریروں میں اسی طرح ہیں تو وہ یقینا کافر۔”دیکھو رسالہ السوء والعقاب علی المسیح الکذاب صفحہ ۱۸، ہاں اب جب اس کی کتابیں بچشم خود دیکھیں اس کے کافر مرتد ہونے کا قطعی حکم دیا۱۲کاتب عفی عنہ

(۱؂درمختارکتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۶)

اپنا اور اپنے دینی بھائیوں عوام اہل اسلام کا ایمان بچانا ضروری تھا لاجرم حکم کفر دیا اور شائع کیا وذٰلک جزاء الظلمین۔ تمہارا رب عزوجل فرماتاہے: قل جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً ۱؂۔ کہدو کہ آ یا حق اورمٹا باطل ، بے شک باطل کوضرور مٹنا ہی تھا۔

(۱؂القرآن الکریم ۱۷ /۸۱)

اور فر ماتاہے : لا اکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی۲؂ دین میں کچھ جبرنہیں ، حق راہ صاف جدا ہوگئی ہے گمراہی سے ۔

(۲؂القرآن الکریم ۲ /۲۵۶)

یہاں چار مرحلے تھے :
(۱) جو کچھ ان دشنامیوں نے لکھا ،چھاپا ضرور وہ اﷲ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین و دشنام تھا۔
( ۲) اﷲ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی توہین کرنےوالا کافرہے ۔
(۳) جو انہیں کافر نہ کہے،جو ان کا پاس لحاظ رکھے جو ان کی استادی یا رشتے یا دوستی کا خیال کرے وہ بھی ان میں سے ہے ، ان ہی کی طرح کافر ہے ، قیامت میں ان کے ساتھ ایک رسی میں باندھا جائے گا۔
(۴) جو عذرومکر ،جہال وضلال یہا ں بیان کرتے ہیں سب باطل و ناروا ا ورپا در ہوا ہیں ۔
یہ چاروں بحمد اﷲتعالی بروجہ اعلٰی واضح روشن ہوگئے جن کے ثبوت قرآن عظیم ہی کی آیات کریمہ نے دیئے ۔اب ایک پہلوپر جنت و سعادت سرمدی ، دوسری طرف شقاوت و جہنم ابدی ہے،جسے جو پسند آئے اختیار کرے مگر اتنا سمجھ لوکہ محمد رسول اﷲ کادامن چھوڑ کر زید و عمر وکا ساتھ دینے والا کبھی فلاح نہ پائے گا ، باقی ہدایت رب العزت کے اختیار میں ہے ۔

بات بحمد اﷲتعالی ہر ذی علم مسلمان کے نزدیک اعلٰی بد یہیات سے تھی مگرہمارے عوام بھائیوں کو مہریں دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ، مہریں علمائے کرام حرمین طیبین سے زائد کہاں کی ہوں گی جہاں سے دین کا آغاز ہوا اور بحکم احادیث صحیحہ کبھی وہاں شیطان کا دور دورہ نہ ہوگا لہذا اپنے عام بھائیوں کی زیادت اطمینان کو مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ کے علمائے کرام و مفتیان عظام کے حضور فتوی ٰپیش ہوا جس خوبی و خوش اسلوبی و جوش دینی سے ان عمائداسلام نے تصدیقیں فرمائیں بحمداﷲتعالٰی کتاب مستطاب ”حسام الحرمین علٰی منحر الکفر و المین(۱۳۲۴ھ)” میں گرامی بھائیوں کے پیش نظر اور ہر صفحہ کے مقابل سیلس اردو میں اس کا تر جمہ “مبین احکام و تصدیقات اعلام(۱۳۲۵ھ)” جلوہ گر۔

الٰہی ! اسلامی بھائیوں کو قبول حق کی توفیق عطافرمااور ضدو نفسانیت یا تیرے اور تیر ے حبیب کے مقابل، زید وعمر و کی حمایت سے بچاصدقہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی وجاہت کا ، آمین، آمین ،آمین ۔ والحمد للٰہ رب العٰلمین وافضل الصلاۃ واکمل السلام علٰی سید نا محمد و اٰلہٖ وصحبہٖ و حزبہٖ اجمعین اٰمین رسالہ
تمہید ایمان بآیات قرآن ختم ہوا