مسئلہ ۲۴ : از میرٹھ لال کُرتی بازار مرسلہ جناب حاجی شیخ علاء الدین صاحب ۲۸ ربیع الآخر شریف ۱۳۳۰ھ
قاعدہ استخراج تقویمات کواکب از المینک
کوکب مطلوب کے صفحات میں سےماہ مطلوبہ کے مقابل کے خانہ اپنرینٹ رایٹ اسینشن یعنی مطالع استواء سے رقم گھنٹہ منٹ سیکنڈ لے کر اس کی تحویل اجزائے محیط میں بموجب جدول پنجم کی دوسرے حصے کے کرلیں بعد تحویل کے جدول نمبردوم یعنی جدول مطالع البروج بخط الاستواء المبتدائن اول الحمل میں دے کر مطالع کی تحویل میں طوالع میں کرلیں جو حاصل ہوگا وہ درجہ تقویمی کوکب یعنی منطقۃ البروج ہوگا ۔ اب اگراس تقویم بروج یونانیہ کو ہندی بروج کی تقویم میں تحویل کرنا ہوتو یونانی تقویم میں سے ۲۲درجہ ۱۰دقیقہ گھٹا دو حقیقی تقویم حاصل ہوجائیگی یعنی مشاہدہ جس برج پر اورجس درجہ میں وہ کوکب ہوگا وہ درجہ ان کا آئے گا اوریہ وہ فرق ہے جو نقطہ حمل کے اپنے مرکز اصلی کے ہٹ جانے سے پیدا ہوگیا ہے ۔
الجواب : یہ قاعدہ محض باطل ہے ۔ واضع نے جزء عاشر کو جزء تقویمی سمجھ لیا ۔ اس عمل سے فلک البروج کا وہ جز حاصل ہوگا کہ ہنگام طلوع کوکب دائرہ نصف النہار پر ہو، یہ عاشر ہے نہ کہ تقویم۔ فقیر غفرلہ نے المنک سے تقویمات کواکب نکالنے کے چار طریق رکھے ہیں ، نیز اس سے استخراج طالع وقت کے چار طریق اوران کے بیان میں رسالہ مسفر المطالع للتقویم والطالع لکھا اس کے طریق سوم کا سب میں پہلا ابتدائی خفیف عمل یہ ہے جس کا نام واضع نے ”قاعدہ استخراج تقویم” رکھا، ہم ا س مقام سے اپنے رسالہ کے چند سطور نقل کریں کہ حال واضح ہو۔ طریق سوم استعلام تقویم کوکب از مطالع ممرد میل او اقول: (۱) ساعات مطالع ممررادرنہ زدہ در جدول مطالع استوائیہ مقوس کنند تاعاشر بدست آید۔ (واضع صاحب کا قاعدہ یہیں ختم ہوگیا، اس کے بعد ملاحظہ ہوکیا کیا درکار ہے کہ تقویم حاصل ہو)(۲) میلش برآرند (۳) پس اگرموافق الجہۃ باشد یا میل کوکب آنگاہ میل عاشر را برتمام میل کوکب افزایند ورنہ کاہند راگردر فزودن ازصہ بیرون رودتمامش تاقف گیرند ارتفاع عاشر باشد(۴) ظل تمامش گرفتہ منحط گردہ محفوظ دارند (۵) یازیر مطالع ممر محلوم ربع در فزودہ مجموع رادرج سوا اعتبار کردہ جیب بعدش از اعتدال اقرب گیرند(۶) ایں جیب رادرجیب میلی کلی منحط زدہ حاصل رادر محفوظ زنندظل تعدیل طالع بدست آید(۷) درجدول ظل مقوس کنند کہ تعدیل است (۸) لیس ہماں درج سواز امر مطالع استوائیہ گیر ند (۹) باز نظر کنند کہ میل کوکب شمالی ست یا جنوبی بحال شمالیت اگرعاشر درنصف جدوی اعنی از اول جدی تا آخر جوزا باشد تعدیل رابریں مطالع استوائیہ افزایند مگر میل عاشر درربع اول منطقہ از یداز میل کوکب باشد واگردرنصف سرطانی اعنی از اول سرطانی تاآخر قوس بودتعدیل رااز مطالع مذکورہ کاہند مگر انکہ عاشر زائد المیل در ربع دو م منطقہ بود بحال جنوبیت اگرعاشردرنصف سرطانی است تعدیل افزایندمگرانکہ زائد المیل درربع سوم باشد واگردرمنطقہ بود بحال نصف جدوی ست ۔ کاہند مگرآنکہ بازیادت میل درربع باشد (۱۰) عمل معلوم حسب حاجت کنند کہ تقویم است۔ تیسرا طریقہ ستاروں کی گزرگارہ اوراس کے میل سے تقویم کوکب (ستارے کے حال)کے معلوم کرنے کا ہے ۔ میں کہتاہوں :(۱)گزرگاہ کے مطالع کی ساعتوں کو نو(۹) سے ضرب دے کر مطالع استوائیہ کے جدول (نقشے) میں تقویس (جیب کے مقابل آنے والی تقویس یعنی دائرے کے حصے کا معلوم )کریں تاکہ عاشر (دسواں حصہ)ہاتھ آئے (واضع صاحب کا قاعدہ یہیں ختم ہوا) اس کے بعد ملاحظہ ہوکیا درکار ہے کہ تقویم حاصل ہو(۲) اس کا میل نکالیں (دائرہ معدّل النہار سے آفتاب کی دوری کو میل اوردوسرے ستاروں کی دوری کو بُعد کہتے ہیں ، اس عبارت میں ستارے کی دوری کو بھی میل کہا گیا ہے )(۳) پھراگر میل ، جہت میں موافق ہو میل کواکب کے تو اس وقت میل عاشر کو تمام میل کوکب پر بڑھائیں گے اوراگرجہت میں موافق نہ ہوتوکم کردینگے ، اگر زیادہ کرنے کی صورت میں صہ (ساٹھ درجوں سے زائد ہوتو تمام میل قف (ایک سو اسی ۱۸۰درجے ) تک لیں ، یہ عاشر کا ارتفاع ہوگا۔ (۴)اس کا ظل تمام لے کر کم کریں اورباقی محفوظ کرلیں۔ (۵) پھرگزرگاہ کے مطلع پر چوتھائی حصے کو زائد کر کے مجموع کا اعتبار کر کے اس کے بعد کا جیب اعتدال سے قریب لیں ۔ (۶)اس جیب کو میل کل سے کم کرکے محفوظ میں ضرب دیں ظل تعدیل طالع حاصل ہوجائے گا ۔ (۷) ظل کے جدول میں اس کی تقویس کریں کہ تعدیل ہے ۔(۸) پس اسی مجموع کو مطالع استوائیہ سے لیں(۹) پھردیکھیں کہ ستارے کا میل شمالی ہے یاجنوبی ، اگرشمالی ہے اورعاشر نصف جدوی یعنی برج جدی کی ابتداء سے جوزاء کے آخر تک ہے تو تعدیل کو ان مطالع استوائیہ پر زیادہ کریں گے ، مگر اس صورت میں کہ عاشر کا میل منطقہ کے ربع اول میں میل کوکب سے زیادہ ہواوراگرنصف سرطانی یعنی برج سرطان کی ابتداء سے لے کر برج قوس کے آخر تک ہوتو تعدیل کو مطالع مذکورہ سے کم کردیں گے مگر اس صورت میں کہ عاشر کا میل منطقہ کے ربع دوم میں زیادہ ہو میل کو کب سے اوراگرستارے کا میل جنوبی ہے اگر عاشر نصف سرطانی میں ہے تو تعدیل کو زیادہ کریں گے مگر اس صورت میں کہ عاشر کا میل کوکب کے میل سے زیادہ ہو۔ اوراگر نصف جدوی میں ہوتو تعدیل کو مطالع مذکورہ سے کم کردیں گے ، مگر اس صورت میں کہ عاشر کامیل کوکب کے میل سے زیادہ ہو۔ اوراگر نصف جدوی میں ہو تو تعدیل کو مطالع مذکورہ سے کم کردیں گے، مگر اس صورت میں کہ میل زیادہ ہواورربع میں ہو(۱۰) عمل معلوم حاجت کے مطابق کریں کہ یہی تقویم ہے ۔ (ت)
زیج بہادر خانی سے مطالع استوائیہ کا ایک جدول بعینہٖ نقل کردیا ہے ۔ ہم نے اپنے محاسبہ خاصہ سے اس کی تجدید کی ہے ،تاہم یہ بھی تقریب کو کافی ہے ۔بروج یونانیہ و ہندیہ میں ۱۰۲۲کا فرق بشدت غلط ہے بلکہ اسی سال کے آغاز یعنی یکم محرم ۱۳۳۰ھ کو مالث م م لومہ فرق تھایعنی ۳۷ً ۴۰َ۴۰ َ۲ْ۲سے کچھ زائد اورروزانہ ترقی پر ہے ۔ یہاں تک دنیا باقی رہی تو رجب ۱۷۹۲ھ میں پورے ایک برج کا تفاوت ہوجائےگا اس الثور سے ہندی سیکھ کی شنکرانت ہوگی۔اس ہندی حساب کو حقیقی تقویم کہنا ٹھیک نہیں ۔حقیقی تقویم یہی ہے جو محل تقاطع سے ہے ، اسی سے حساب فصول ہے ، اسی سے حساب کمی بیشی روزوشب ہے ، اسی سے حساب مطالع ہے ، اسی سے حساب طلوع غروب وسائر اوقات ہے ، ہندی تقویم تقویم صوری ہے کہ صورت پر ستوں نے صورت کواکب پر اس کی بنارکھی ہے ۱۔واللہ تعالٰی اعلم
(۱ مسفر المطالع للتقویم والطالع)