وَعَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِيِّ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – حِينَ أَتَاهُ عُمَرُ فَقَالَ: إِنَّا نسْمَعُ أَحَادِيثَ مِنْ يَهُودَ نُعْجِبُنَا أَفَتَرٰى أَنْ نَكْتُبَ بَعْضَهَا؟ فَقَالَ: “أَمُتَهَوِّكُوْنَ أَنْتُمْ كَمَا تَهَوَّكَتِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارٰى لَقَدْ جِئتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً، وَلَوْ كَانَ مُوسٰى حَيًّا مَا وَسِعَهٗ إِلَّا اتِّبَاعِيْ“. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي “شُعَبِ الْإِيمَانِ“.
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت جابرسے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے راوی جب حضور کی خدمت میں حضرت عمر آئے فرمایا کہ ہم یہود کی کچھ باتیں سنتے ہیں جو ہمیں بھلی لگتی ہیں کیاحضور اجازت دیتے ہیں کہ کچھ لکھ بھی لیا کریں فرمایا کیا تم یہود اور عیسائیوں کی طرح حیران ہو ۱؎ میں تمہارے پاس روشن و صاف شریعت لایا ۲؎ اور اگر حضرت موسیٰ زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۳؎ اسے احمداوربیہقی نے شعب الایمان میں روایت کیا۔
شرح حديث.
۱؎ کہ قرآن و سنت کو اپنے لیئے کافی نہیں سمجھتے اس لیئے دوسروں کے پاس علم وہدایت لینے جاتے ہوجیسے یہودونصاریٰ نے اپنی کتابیں چھوڑکر پادریوں اور جوگیوں کی پیروی شروع کردی۔یہ حدیث دین و ہدایت کے متعلق ہے جو کوئی اسلام کو کافی نہ سمجھے وہ بے ایمان ہے۔دنیاوی چیزیں ہر جگہ سیکھی جاسکتی ہیں۔اس کے لیئے وہ حدیث ہے کہ کلمۂ حکمت مسلمانوں کی گمی دولت ہے جہاں سے ملے لے لو۔لہذا حدیث متعارض نہیں۔اس سے وہ لوگ عبرت پکڑیں جو بے دینوں کے رسالے پڑھتے اور بدمذہبوں کے جلسوں میں جانے سے احتیاط نہیں کرتے۔فاروق اعظم جیسے مؤمن کو اہل کتاب کے علماء کی صحبت سے منع فرمایا دیا۔
۲؎ جس میں نہ کوئی کمی ہے نہ کوئی پوشیدگی پھر اور طرف کیوں جاتے ہو۔
۳؎ کیونکہاللہ تعالٰی نے سارے نبیوں سے حضور کی اتباع کا عہد لے لیا تھا:”لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنۡصُرُنَّہٗ “پھرتم ان کی امت سے میرے ہوتے ہوئے ہدایت لینے کیوں جاتے ہو۔آفتاب کے ہوتے چراغوں سے روشنی نہیں لی جاتی۔آج مسلمان اپنے کو بھول گئے اسی لئے دوسری قوموں کے اخلاق اور امانت داری کی تعریفیں کرتے ہیں۔یہ ہماری جیب کے گرے ہوئے موتی ہیں جو اوروں نے اٹھالئے۔
مأخذ و مراجع.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:177
حدیث نمبر 177
20
May