وَعَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَمَّا خَلَقَ اللَّهُاللّٰهُ آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهٗ فَسَقَطَ عَنْ ظَهْرِهٖ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرَّيَّتِهٖ إِلٰى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُوْرٍ، ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلٰى آدَمَ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هٰؤُلَاءِ؟ قَالَ: ذُرِّيَّتُكَ، فَرَأٰى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهٗ وَبِيْصُ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ قَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هٰذَا؟ قَالَ: دَاوُدُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَهٗ؟ قَالَ: سِتِّيْنَ سَنَةً، قَالَ: رَبِّ زِدْهُ مِنْ عُمْرِيْ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً”، قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “فَلَمَّا انْقَضٰى عُمَرُ آدَمَ إِلَّا أَرْبَعِيْنَ جَاءَهٗ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ آدَمُ: أَوَ لَمْ يَبْقَ مِنْ عُمُرِيْ أَرْبَعُوْنَ سَنَةً؟ قَالَ: أَوَ لَمْ تُعْطِهَا اِبْنَكَ دَاوُدَ؟ قَالَ: فَجَحَدَ آدَمُ، فَجَحَدَتْ ذُرَّيتُهٗ، وَنَسِيَ آدَمُ فَأَكَلَ مِنَ الشَّجَرَةِ فَنَسِيَتْ ذُريَّتُهٗ، وَخَطَأَ آدَمُ وَخَطأَتْ ذُرِّيَّتُهٗ”.رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ .
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب الله نے حضرت آدم کو پیدا کیا تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو ان کی پشت سے تاقیامت ان کی اولاد کی روحیں نکلیں جنہیں الله پیدافرمانے والا ہے اور ان میں سے ہر انسان کی دو آنکھوں کے بیچ نور کی چمک دی ۱؎ پھر انہیں آدم پر پیش فرمایا وہ بولے اے رب یہ کون ہیں فرمایاتمہاری اولاد۲؎ ان میں ایک شخص کو دیکھاتو ان کی آنکھوں کے درمیان کی چمک پسند آئی ۳؎ بولے اے رب یہ کون ہے فرمایا حضرت داؤد بولے اے رب ان کی عمرکتنی مقرر فرمائی ہے فرمایا ساٹھ سال۴؎ عرض کیا مولا میری عمر میں سے چالیس سال انہیں بڑھادے ۵؎ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدم کی عمر ماسوائے چالیس سال پوری ہوئی تو ان کی خدمت میں فرشتہ موت حاضر ہوا ۶؎ آدم بولے کیا ابھی میری عمر کے چالیس سال باقی نہیں فرمایا کہ وہ تم اپنے فرزند داؤد کو نہ دے چکے ۷؎ حضرت آدم انکاری ہوئے اس لئے انکی اولاد انکار کرنے لگی۸؎ حضرت آدم بھول کر درخت سے کھا گئے لہذا ان کی اولاد بھولنے لگی حضرت آدم نے خطا کی تو انکی اولاد خطائیں کرنے لگی ۹؎(ترمذی)
شرح حديث.
۱؎ فطری نوریعنی فطرۃ سلیمہ کا نور چہرے پرنمودار ہوا،خیال رہے کہ سقط یعنی گرا ہوا حمل اس میں داخل نہیں کیونکہ اس میں روح پھونکی ہی نہ گئی،جس بچہ میں روح پھونکی جائے وہ دکھایا گیا،یہ تمام کارروائی حضرت آدم کو مطلع فرمانے کے لئے کی گئی،رب تعالٰی تو ہمیشہ سےعلیم وخبیر ہے۔
۲؎ اس سے معلوم ہوا کہ آدم علیہ ا لسلام نے اپنی ساری اولاد کو دیکھ بھی لیا،پہچان بھی لیا اور ا ن کے انجام سے اطلاع بھی پالی کہ فلاں جنتی ہے فلاں دزوخی ۔
۳؎ اس سے معلوم ہوا کہ ان کی چمکیں مختلف تھیں اور حضرت آدم کو داؤد علیہ السلام کی چمک پسند آنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کی چمک ہمارے حضور کی چمک سے زیادہ یا افضل ہو،حسن واقعی اور چیز ہے۔پسند آنا کچھ اور لیلےٰ سے بڑھ کرحسینہ اورعورتیں موجودگی تھیں مگر عاشق کی آنکھ میں وہی مرغوب تھی۔(اشعۃ اللمعات)
۴؎ معلوم ہوا کہ الله تعالٰی اپنے مقبولوں کو اپنے خاص علوم عطا فرماتا ہے کیونکہ مقدارعمرعلوم خمسہ میں سے ہے جو رب العالمین نےسیدنا آدم کے پوچھنے پر بتادی۔
۵؎ آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزارسال تھی،آپ نے عرض کیا کہ میری عمر نو سو ساٹھ سال کردے اورداؤد علیہ السلام کی عمر پورے سو۱۰۰سال،یہ دعا رب نے قبول فرمالی۔معلوم ہوا کہ نبی کی دعا سے عمریں گھٹ بڑھ جاتی ہیں،ان کی شان تو بہت ارفع ہے شیطان کی دعا سے اس کی عمر بڑھ گئی کہ اُس نے عرض کیا تھا”اَنۡظِرْنِیۡۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ“رب تعالٰی نے اس کی دعا قبول کرتے ہوئے فرمایا:”فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنۡظَرِیۡنَ“الآیہ”فَاِنَّکَ“کیف سےمعلوم ہوتاہے کہ یہ زیادتی عمر اس کی دعا سے ہوئی،رہی وہی آیت کریمہ”اِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ فَلَا یَسْتَاۡخِرُوۡنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوۡنَ“وہ اس حدیث کے خلاف نہیں کیونکہ آیت میں تقدیر مبرم یعنی علمِ الٰہی کا ذکر ہے،اور یہاں تقدیرمعلق کی تحریر کا ذکر یا آیت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اختیار سے اپنی عمر کم و بیش نہیں کرسکتا،اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بندوں کی دعا سے عمریں رب گھٹا بڑھا دیتا ہے۔آخر عیسیٰ علیہ السلام مردوں کو زندہ فرماتے تھے انہیں آپ کی دعا سے نئی عمریں مل جاتی تھیں سچ ہے دعا سے تقدیر پلٹ جاتی ہے۔
۶؎ یعنی جب آپ کے نو سو ساٹھ سال پورے ہوئے تو حضرت عزرائیل نے حاضر ہو کر آپ کو موت کا پیغام سنایا،معلوم ہوا کہ انبیاء کی وفات ہماری طرح جبرًا نہیں ہوتی،بلکہ فرشتۂ موت ظاہر ظہور خدمت میں حاضر ہوتےہیں اور ان کی اجازت سے جان قبض کرتے ہیں ان کی وفات اختیاری ہے۔
۷؎ معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو اپنی عمرمعلوم تھی کہ کل اتنی ہوگی یہ علوم خمسہ میں سے ہے یہ بھی معلوم ہوا انبیائے کرام کی وفات ان کی رضا سےسمجھا بجھا کر ہوتی ہے۔ہم سے ملک الموت کبھی حساب کتاب نہیں کرتے۔
۸؎ یعنی آدم علیہ السلام اپنا یہ عطیہ بھول گئے اس بنا پر کہا کہ مجھے اپنا یہ عطیہ دینا یاد نہیں،یاد کا انکار ہے نہ کہ دینے کا،رب کی خبر کا انکار کفر ہوجاتاہے لہذاحدیث پر کوئی اعتراض نہیں،انبیائے کرام کی بھول بھی رب کی طرف سے ہوتی ہے جس میں ہزارہاحکمتیں ہیں۔
۹؎ یعنی آدم علیہ السلام سے درخت کی تعیین میں اجتہادی خطا ہوئی اورسمجھے کہ رب نے خاص اس درخت کے پھل سے منع فرمایا ہے اور میں دوسرے درخت سے پھل کھارہا ہوں حالانکہ ممانعت جنس درخت سے تھی۔(مرقاۃ)یا وہ سمجھے کہ مجھے کھانے سے منع نہیں کیا گیا بلکہ قریب جانے سے کچھ بھی ہو،ہوا دھوکہ ہی،وہی خطا اورنسیان آج تک انسانوں میں چلی آرہی ہے۔اس حدیث میں یہ نہیں بتایا گیا کہ پھر فیصلہ کیا ہوا ظاہر یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کو بھی ہزار سال عمر دی گئی اور داؤد علیہ السلام کو بھی سو۱۰۰ برس،آپ کی زبان خالی نہ گئی،اگر آدم علیہ السلام ویسے ہی فرمادیتے کہ مجھے ہزار سال دنیا میں اور رہنا ہے تو آپ کی بات مان لی جاتی،جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے واقعہ سے معلوم ہوگا۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:118
حدیث نمبر 118
06
May