وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وُكِّلَ بِهٖ قَرِيْنُهُ مِنَ الْجِنِّ وَقَرِينُهُ مِنَ الْمَلَائِكَةِ. قَالُوا: وَإِيَّاكَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: وَإِيَّايَ وَلَكِنَّ اللهَ أَعَانَنِي عَلَيْهِ فَأَسْلَمَ فَلَا يَأْمُرُنِيْ إِلَّا بِخَيْرٍ . رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ترجمه حديث.
روایت ہے حضرت ابن مسعود سے فرماتے ہیں کہ فرمایانبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تم میں ایسا کوئی نہیں جس پر ایک ساتھی جن اور ایک ساتھی فرشتہ مقرر نہ ہو ۱؎ لوگوں نےپوچھا یارسول اللہ آپ پر بھی فرمایا مجھ پربھی ۲؎ لیکن رب نے مجھے اس پر مدد دی جس سے وہ مسلمان ہوگیا اب وہ مجھے بھلائی ہی کا مشورہ دیتا ہے۳؎
شرح حديث.
۱؎ یعنی ہر عاقل بالغ انسان کے ساتھ وسوسہ دلانے کے لیئے ایک شیطان اور الہام کے لیئے ایک فرشتہ ہر وقت رہتا ہے۔مرقاۃ اور اشعۃ اللمعات میں ہے کہ جب کوئی انسان کا بچہ پیدا ہوتا ہے تو ا س کے ساتھ ہی ابلیس کے ایک شیطان پیدا ہوتا ہے جسے فارسی میں ہمزاد عربی میں وسواس کہتے ہیں۔ظاہر یہ ہے کہ ابلیس کے ہر ہر آن سیکڑوں بچے پیدا ہوتے رہتے ہیں،مطابق تعداد اولاد انسان جیسے مچھلی،ناگن سانپ بیک وقت ہزار ہا انڈے دیتی ہے۔طاغوتی جراثیم ہر آن بچے دیتے رہتے ہیں۔
۲؎ ایک فرشتہ مقررہےملہم اور ایک شیطان۔
۳؎ ظاہر یہ ہے کہ یہاں اسلام سے مراد ایمان ہی ہے نہ کہ اطاعت اور یہ حضور کی اعلٰی درجہ کی خصوصیت ہے کہ آپ کا شیطان جس کی فطرت میں کفر داخل ہے وہ بھی ایمان لے آیا۔معلوم ہوا کہ نگاہِ کرم سے فطرتیں بدل جاتی ہیں۔مرقاۃ میں ہے کہ ہامہ ابن ابلیس نےحضور کی خدمت میں عرض کیا کہ قتل ہابیل کے وقت میں موجود تھا،سارے انبیاء کے ساتھ رہا ہوں آپ مجھے کچھ قرآن سکھایئے آپ نے اسے سورۂواقعہ،مرسلات،نباء،اخلاص،فلق اورناس سیکھائیں۔جنات کا حضور پر ایمان لانا تو قرآن کی سورۂ جن میں مذکور ہے حالانکہ سارے جن ابلیس کی اولاد ہیں ربّ فرماتا ہے:”كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ“لہذا چکڑالوی اس حدیث پر اعتراض نہیں کرسکتے۔
مأخذ.
کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:67
حدیث نمبر 67
27
Apr