وَعَنِ الْمِقْدَادِ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: “لَا يَبْقَى عَلَى ظَهْرِ الأَرْضِ بَيْتُ مَدَرٍ وَلَا وَبَر إِلَّا أَدْخَلَهُ اللّٰهُ كَلِمَةَ الإِسِلَامِ بِعِزِّ عَزِيزٍ وَذُلِّ ذَلِيلٍ، إِمَّا يُعِزُّهُمُ اللّٰهُ فَيَجْعَلُهُمْ مِنْ أَهْلِهَا، أَوْ يُذِلُّهُمْ فَيَدِينُونَ لَهَا”. قُلْتُ: فَيَكُونُ الدِّينُ كلُّهُ للِّٰهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
ترجمه.
روایت ہے حضرت مقداد سے ۱؎ انہوں نے حضور کو فرماتے سنا کہ روئے زمین پر کوئی ادنی خیمہ کچا گھر ۲؎ نہ رہے گا مگر ﷲ اس میں اسلام کا کلمہ پہنچادے گا عزت والوں کی عزت اور ذلیلوں کی ذلت کے ساتھ۳؎ یا تواﷲ انہیں عزت دے گا کہ انہیں کلمہ والا بنادے گا یا انہیں ذلیل کردے گا وہ دین کی اطاعت کریں گے میں نے دل میں کہا کہ پھر تو پیارا دین ﷲ کا ہی ہوگا۔(احمد).
شرح حديث.
۱؎ آپ کا نام مقداد ابن عمر و ابن ثعلبہ کندی ہے مگر مشہور ہیں مقداد بن اسود کے نام سے،اس لئے کہ آپ اسود کی پرورش میں رہے،آپ جلیل القدر صحابی اور چھٹے مؤمن ہیں۔نوّے سال کی عمر پاکر ۷۳ھ میں مدینہ منورہ سے تین میل دور مقام جرف میں وفات پائی،لوگ آپ کی میت شریف کو کندھوں پر اٹھا کر لائے اور جنت البقیع میں دفن کیا۔
۲؎ ظاہر یہ ہے کہ زمین سے مراد عرب کی زمین ہے۔اوفی گھر سے مراد بدویوں کے خیمے ہیں اور کچےگھرسے مراد عام شہریوں کے مکانات یعنی عرب میں کوئی گاؤں یا شہر ایسا نہ رہے گا جہاں اسلام داخل نہ ہوجائے۔خدا کے فضل سے یہ پیش گوئی پوری ہوچکی اور اگر ساری دنیا مراد ہو تو اس حدیث کا ظہور قرب قیامت یعنی حضرت مسیح کے نزول اور امام مہدی کے ظہور پر ہوگا کہ سارے مسلمان ہوجائیں گے۔
۳؎ یعنی بعض لوگ بخوشی مسلمان ہوں گے،وہ عزت پائیں گے اور بعض مجبورًازبان سے کلمہ پڑھیں گے،وہ ذلیل رہیں گے۔یا یہ مطلب ہے کہ بعض لوگ مسلمان ہو کر عزت پائیں گے اور بعض اسلام سے انکار کرکے مسلمانوں کے باجگزار بنیں گے،اس صورت میں پہلی جز کے کچھ اور معنی ہوں گے،اس کی تفسیریں اور بھی کی گئی ہیں۔
مأخذ. کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:42