سیرت بزرگان دین

تذکرہ مجدد الف ثانی

سلسلئۂ عالیہ نقشبندیہ کے عظیم پیشوا حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی نقشبندی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکی ولادت باسعادت (BIRTH) ہِند کے مقام ’’ سرہند ‘‘ میں 971ھ / 1563ء کو ہوئی۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۱۲۷ماخوذاً) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نام مبارک: احمد، کنیت: ابو البرکات اورلقب: بدرالدین ہے۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اولاد میں سے ہیں ۔

حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے پانچویں جَدِّ امجد حضرت سیِّدُنا ا مام رفیع الدین فاروقی سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیحضرت سیِّدُنا مخدوم جہانیاں جہاں گشت سیّد جلال الدین بخاری سہروردیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (وفات: 785ھ) کے خلیفہ تھے۔ جب یہ دونوں حضرات ہند تشریف لائے اورسرہند شریف سے ’’ موضع سرائس ‘‘ پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے درخواست کی کہ ’’ موضع سرائس‘‘ اور ’’ سامانہ‘‘ کا درمیانی راستہ خطرناک ہے، جنگل میں پھاڑ کھانے والے خوفناک جنگلی جانور ہیں ، آپ (وقت کے بادشاہ ) سلطان فیروز شاہ تغلق کو ان دونوں کے درمیان ایک شہر آباد کرنے کا فرمائیں تاکہ لوگوں کوآسانی ہو۔ چنانچہ حضرت سیِّدُنا شیخ امام رفیع الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بڑے بھائی خواجہ فتح اللہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے سلطان فیروز شاہ تغلق کے حکم پر ایک قلعے کی تعمیر شروع کی، لیکن عجیب حادثہ پیش آیا کہ ایک دن میں جتنا قلعہ تعمیر کیا جاتا دوسرے دن وہ سب ٹوٹ پھوٹ کر گر جاتا، حضرت سیِّدُنامخدوم سیّد جلال الدین بُخاری سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو جب اس حادثے کا علم ہوا تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت امام رفیع الدین سہروردی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِیکو لکھا کہ آپ خود جا کر قلعے کی بنیاد رکھیے اور اسی شہر میں سکونت (یعنی مستقل قیام ) فرمائیے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ تشریف لائے قلعہ تعمیر فرمایا اور پھر یہیں سکونت اختیار فرمائی ۔ حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کی ولادت باسعادت اسی شہر میں ہوئی ۔ (زُبْدَۃُ الْمَقامات ص۸۹مُلَخَّصًا)

حضرت سیِّدُنا مجدّدِاَلف ثانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی کے والد ماجد حضرت سیِّدُنا شیخ عبدالاحد فاروقی چشتی قادری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی جید عالم دین اور ولیِ کامل تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایامِ جوانی میں اکتسابِ فیض کے لیے حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی صابری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ( متوفی944 ھ / 1537ء ) کی خدمت میں حاضر ہوئے آستانۂ عالی پر قیام کا ارادہ کیا لیکن حضرت شیخ عبدالقدوس چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے فرمایا: ’’ علومِ دینیہ کی تکمیل کے بعد آنا۔ ‘‘ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب تحصیل علم کے بعد حاضر ہوئے تو حضرتِ شیخ عبدالقدوس چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی وصال فرماچکے تھے اور ان کے شہزادے شیخ رکن الدین چشتی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی (وفات: 983ھ / 1575ء) مسندخلافت پر جلوہ افروز تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت شیخ عبدالاحد فاروقیرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو سلسلئۂ قادریہ اور چشتیہ میں خلافت سے مشرف فرمایا اور فصیح و بلیغ عربی میں اجازت نامہ مرحمت فرمایا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کافی عرصہ سفر میں رہے اور بہت سے اصحابِ معرفت سے ملاقاتیں کیں ، بالآخر سر ہند تشریف لے آئے اور آخر عمر تک یہیں تشریف فرما ہو کر اسلامی کتب کا درس دیتے رہے۔ فقہ واُصول میں بے نظیر تھے، کتب ِصوفیائے کرام: تَعَرُّف، عَوارِفُ المَعارِف اور فُصُوصُ الحِکَم کا درس بھی دیتے تھے، بہت سے مشائخ نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اِستفادہ (یعنی فائدہ حاصل) کیا۔ ’’سکندرے‘‘ کے قریب ’’اٹاوے‘‘ کے ایک نیک گھرانے میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا نکاح ہوا تھا۔ امام ربانی کے والد محترم شیخ عبد الاحد فاروقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے 80 سال کی عمر میں 1007ھ / 1598ء میں وصال فرمایا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا مزار مبارک سر ہند شریف میں شہر کے مغربی جانب واقع ہے۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں کُنوزُ الحَقائِقاوراَسرارُ التَّشَہُّدبھی شامل ہیں ۔ (سیرتِ مجدِّد الفِ ثانی ص ۷۷ تا ۷۹ مُلخّصاً ) اللہُ ربُّ العِزّت عَزَّوَجَلَّ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔
اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم