قوت یقین
SELF CONFIDENCE
قوت یقین وہ چیز ہے جو ہمیں زندگی کے اس زینے تک لے جاتی ہے جہاں سے یہ دنیا ایک حقیر شے نظر آنے لگتی ہے۔ آپ دنیا کے تمام مذاہب کی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ ان میں صرف ایک ہی چیز نظر آئے گی۔ یقین ، یقین اور یقین۔ یہ یقین خواہ اپنی ذات پر ہو یا اس برتر ذات پر جسے آپ اپنے جسم کا مالک تصور کرتے ہیں۔ بات ایک ہی ہے اور نتیجہ بھی ایک ہی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں پھر ایک چھوٹی سی مذہبی بحث میں الجھنے پر مجبور ہوا ۔ میرا مقصد کسی کی دلازاری کرنا نہیں ہے بلکہ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں محض ایک بات
کو سائنسی طور پر پیش کرتا ہے۔خدا نے کہا ہے کہ میں بندے کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ میں تمہارے اندر ہوں۔ تم مجھے پکارو میں سنوں گا ۔ اگر ان تمام باتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ قدرت نے انسان کی اس قوت کی طرف اشارہ کیا ہے جو خود اس کے اندر پوشیدہ ہے جب خدا کے ایک بندے نے”انا الحق” کا نعرہ لگایا تھا تو اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ در حقیقت خدا ہے بلکہ اس نے خدا کی اس قوت کو پالیا تھا جو خدا نے ہر بندے کو بخشی ہے۔ ہمارا مذہب ہی نہیں دنیا کا ہر مذہب کہتا ہے کہ خدا پر اس حد تک یقین رکھو کہ دنیا کی کوئی طاقت تمہارا یقین متزلزل نہ کر سکے۔درحقیقت مذہب نے انسان کی اس قوت کو بروئے کار لانے کا ایک طریقہ بتایا ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ طریقہ بہت ہی مستحسن ہے۔ انسان کی جبلت اس کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ کسی ایسی شخصیت کی اجارہ داری قبول کرے جو تمام کائنات پر حاوی ہو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ انسان جو کام خود نہیں کر سکتا اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسے کسی ایسی قوت سے رجوع کرنا پڑتا ہے جو اس کے خیال میں اس سے برتر ہے۔ ایک طرف مذہب نے انسان کو یہ یقین دلایا کہ تم اپنے پرماتما،اپنے دیوتا اپنے خدا کو خوش کرو۔ اتنا خوش کہ وہ تمہارے حق میں ہو جائے۔پھر تم اس سے جو چاہو گےکروالو گے یعنی جو چاہو گے پالوگے۔
دوسری طرف مذہب نے اس کی کمزوریوں کے پیش نظر اس کو ایک راہ فرار بھی دے دی۔کیونکہ انسان اپنی بعض خواہشات کو پورا نہیں کر سکتا اس لئے اپنی ناکامی کا ذمے دار خود کو نہیں بلکہ اس پر ماتما، اس خدا کو قرار دے لے جس نے اس کی وہ خواہشات پوری نہیں ہونے دیں۔
خود آپ کی زندگی میں ایسے مواقع ہزاروں بار آئے ہوں گے جب آپ نے کوئی منزل سر کی ہوگی اور فورا کہہ اٹھے ہوں گے ” یہ میں نے کیا ہے” میں نے فلاں کام کیا ہے ؟ میں نے امتحان پاس کر لیا ہے “میں نے ہمالہ کی چوٹی سر کرلی ہے۔ لیکن جب آپ کی خواہش تکمیل نہیں پاتی تو آپ کی زبان سے نکل جاتا ہے “قدرت کو یہ منظور نہیں تھا ” اس طرح آپ اپنی ناکامیوں سے فرار حاصل کرنے کے لئے خدا کا سہارا لے لیتے ہیں حالانکہ مذہب اعلانیہ کہتا ہے کہ مجھے اپنی کوتاہیوں کا نشانہ نہ بناؤ۔ تمہارے نتیجے، تمہارے اعمال کی بدولت ہیں۔ یہ کہاں ممکن ہے کہ تم “جو” بو اور آرزو کرو گندم کاٹنے کی۔ ساتھ ہی مذہب نے یہ بھی کہا کہ تم اپنی ہر خواہش پوری نہیں کر سکتے۔ تم وہی کر سکتے ہو جو خدا چاہتا ہے صرف وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ اس طرح مذہب نے ایک طرف تو صاف صاف کہہ دیا کہ تمہارے عمل سے بہتر نتائج پیدا ہوں گے مگر دو سری طرف یہ بھی کہہ دیا کہ بس وہی ہو گا جو خدا چاہے گا۔یہ موضوع کافی زیر بحث رہ چکا ہے کہ کیا انسان مجبور محض ہے؟یا اس کے اندر کچھ طاقت بھی ہے؟میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میرا موضوع دوسری نوعیت کا ہے تاہم ان باتوں کی وضاحت نیاز فتح پوری کی زبانی سنئے۔
یقینا قرآن میں ایسی آیات موجود ہیں جن میں باہم تناقص و تضاد نظر آتا ہے یعنی بعض آیات سے انسان کا مجبور ہونا اور بعض سے خود مختار ہونا ظاہر ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک ذرا غور سے کام لیا جائے تو یہ تضاد باقی نہیں رہتا اور حقیقت واشگاف ہو جاتی ہے اس کے بعد قرآنی آیات سے اس تضاد کا اظہار کرنے کے بعد فرماتے ہیں جس وقت فطرت انسانی پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے انسان جمادات کی طرح ہے حس نہیں ہے بلکہ وہ ارادہ کرتا ہے۔ ارادے کے تحت اپنے حواس سے کام لیتا ہے۔ جس کام کو چاہتا ہے کرتا ہے جس کو چاہتا ہے نہیں کرتا۔ سوال یہ ہے کہ یہ قوت ارادی اسے کس نے عطا کی؟ ظاہر ہے خدا نے اس کی فطرت و پیدائش میں یہ صلاحیت یا قوت رکھ دی ہے اور وہ اس قوت سے کام لے کر کوئی ارادہ کرتا ہے یا اس سے باز رہ سکتا ہے۔ ہر انسان میں دو متضاد خواہشوں کے پیدا ہونے کا مادہ ودیعت کیا گیا ہے اور انہی خواہشوں کی مطابق وہ کبھی اچھے کاموں کی طرف مائل ہوتا ہے اور کبھی برے کاموں کی طرف چنانچہ خدا خود ارشاد فرماتاہے۔ یعنی کامیاب ہوا وہ جس نے نفس کو پاک کیا اور خسارے میں رہا جس نے اسے آلودہ کیا۔چونکہ ان قوتوں کا پیدا کرنے والا خدا ہے اس لئے اگر کوئی شخص تمام درمیانی واسطوں اور اسباب کو قطع نظر کر کے یوں کہے کہ جو کچھ کرتا ہوں میں ہی کرتا ہوں یا بغیر میرے اذن وارادے کے کچھ نہیں ہو سکتا تو یہ غلط ہو گا کیونکہ اگر وہ ہمارے اندر کسی کام کی
قوت نہ پیدا کرتا توہم سے وہ کام کسی طرح بھی نہ ہو سکتا۔ اس مسئلہ میں سب سے بڑی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ تقدیر کے مفہوم پر غور نہیں کیاجاتا عام طور پر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہر کام ہر واقعے ،ہر حادثے اور ہر بات کے لئے جداگانہ مشیت ہوتی ہے یعنی اس وقت ہم کہیں اٹھ کر چلے جائیں تو یہ خدا کی مشیت ہوگی یا یہ کہ خدا نے پہلے ہی معین کر دیا تھا کہ فلاں فلاں وقت فلاں فلاں انسان سے یہ بات سرزد ہوگی۔ لیکن ایسا سمجھنا درست نہیں ہے۔ مشیت ایزدی کا ظہور حقیقتاً اس فطرت سے ہوتا ہے جس پر دیگر موجودات عالم پیش کیے گئے ہیں جس طرح پتھر کا بھاری ہونا مقناطیس کی قوت کشش لوہے کا انجذاب یہ سب مشیت ایزدی ہیں۔اس طرح انسانی ارادہ بھی ایک مشیعت ہے جس کی بنا پر ہم ایک کام کرتے ہیں اور دوسرے سے بچتے ہیں۔ ہاں اللہ کو اس کا علم ضرور ہے کہ اس کے بندوں سے یہ حرکات سرزد ہوں گی لیکن اس کا علم مجبورکرنے والا نہیں۔اس باب میں جناب عبد اللہ بن عمر کا قول قابل ذکر ہے۔ ایک شخص عبداللہ بن عمرؓ کے پاس آیا اور کہا اے عبد اللہ بعض لوگ زنا کرتے ہیں ،شراب پیتے ہیں،چوری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ خدا کے علم میں تھا ،ہم اس پر
مجبور تھے” آپ یہ سن کر برہم ہوئے اور فرمایا ۔”بے شک خدا کے علم میں تھا کہ وہ ایسا کام کریں گے لیکن خدا کے علم نے انہیں ان کاموں کے کرنے پر مجبور تو نہیں کیا تھا اور اس کے بعد متعدد احادیث اس سلسلے میں بطورثبوت پیش کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں۔
کہ آج کل عام طور پر جو عقیدہ مجبوری کا پایا جاتا ہے وہ حد درجہ مخرب امن و انتظام ہے اور وہی لوگ اس کے قائل ہیں جو دنیا میں کاہلی اور مکرو فریب کے سہارے پر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔انسان نظام تمدن کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہے اور اسے عقل و ہوش اسی لئے عطا کیے ہیں کہ وہ سوچ سمجھ کر کام کرے۔اگر ایسا نہ ہوتا سارا نظام درہم برہم ہو جاتا۔”مندرجہ بالا سطور پڑھنے کے بعد، آپ غور کریں گے تو بات وہیں آجائے گی یعنی اس کے باوجود کہ انسان کو مذہب نے اپنے اعمال اور کردار کا مالک اور اس کے نتائج کا بھگتنے والابنایا ہے لیکن ساتھ ہی اس کے لئے راہ فرار بھی پیدا کر دی ہے۔ یعنی خدا کو مالک کلی ظاہر کر کے انسان کو کبھی محض مجبور بھی بنا دیا۔آخر ایسا کیوں ہوا؟ مذہب نے یہ دورخی پالیسی کیوں اختیار کی؟کیا اس طرح ہمیں مذہب کے کمزور ہونے کا احساس نہیں ہوتا؟جی نہیں! اس کی وجہ وہ نفسیاتی حقیقت ہے جس کو عام طور پر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یعنی اگر مذہب اس قسم کی راہ اختیار نہ کرتا تو نفسیاتی طور پر مذہب غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ میں زیادہ طوالت میں جائے بغیر ایک چھوٹی سی مثال سے یہ بات واضح کرنے کی سعی کرتا ہوں۔ فرض کیجئے کہ دو بڑے ہی عبادت گزار انسان ہیں۔ دونوں کا رتبہ مذہب کی نگاہ میں مساوی ہے۔خدا کی نگاہ میں مساوی ہے۔ کسی بنا پر ان دونوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہو جاتا ہے اور نوبت مقدمہ بازی تک آجاتی ہے۔دونوں ہی پروردگار کے حضور میں اس مقدمے کو جیتنے کی استدعا کرتے ہیں۔ دونوں کو یقین ہے ان کا خدا مقدمہ کا فیصلہ ان کے حق میں کردے گا کیونکہ دونوں کو اپنے خدا پر نہ صرف بھروسہ ہے بلکہ اپنی عبادت کی بنا پر یقین بھی ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے۔ ظاہر ہے کہ مقدمہ تو بہر حال ایک ہی فریق کے حق میں ہو گا۔ مقدمے کا فیصلہ ہو جانے کے بعد خدا اور ان عبادت گزاروں کی پوزیشن کیا رہ جاتی ہے؟ کیا وہ فریق جو مقدمہ ہار گیا ہے اپنے خدا کو چھوڑ دے گا؟ اپنے مذہب کو خیر باد کہہ دے گا ؟ محض اس بنا پر کہ اس نے خدا کی بڑی عبادت کی تھی اس کا بڑا ایمان تھا مگر اس کی دعا قبول نہ ہوئی اور فریق مخالف مقدمہ جیت گیا۔ ایسے ہی حالات کے لئے خدا نے کہا ہے کہ میں جو کرتا ہوں اس میں بہتری ہوتی ہے۔ لہذا ہو شخص یہ کہہ کر صبر کر لیتا ہے کہ خدا کی مشیت اس میں ہے اور دوسرا شخص اپنے خدا کی اور زیادہ عبادت میں مصروف ہو جاتا ہے کیونکہ اس نے کامیابی حاصل کی۔اگر مذہب صرف یہ کہتا کہ خدا ہی ہر چیز پر قادر ہے اور تم کچھ نہیں۔ وہی سب کچھ کرتا ہے تمہارا کوئی دخل نہیں۔ تو پھر انسان ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے تاکہ روٹی کے نوالے تک خدا ان کے منہ میں ڈال جائے اور وہ صرف عبادت کرتے رہیں۔ یوں دنیا میں ایک ایسا المناک ٹھہراؤ پیدا جاتا جس کا تصور مشکل ہے۔اگر مذہب یہ کہہ دیتا کہ جو کچھ کرنا ہے تمہی کو کرنا ہے میں کچھ نہیں کر سکتا، مجھ میں کوئی طاقت نہیں تو پھر مذہب سرے سے نابود ہو جاتا خدا اور خدا کی کتاب سب کچھ بے معنی ہو کر رہ جاتی کیونکہ جب خدا کی کوئی طاقت نہ ہوئی تو پھر اس کی عبادت سے کیا حاصل؟مذہب نے اپنے فلسفہ زندگی کو جاری و ساری کرنے کے لئے ایسی راہ اختیار کی ہے جس سے انسان نہ تو قطعی طور پر بے کار ہو کر بیٹھا رہے اور نہ ہی خود کو ہر چیز کا مالک و مختار
سمجھ کر دن بھر شراب ، چوری اور زنا میں ڈوبا رہے کیونکہ اس طرح مذہب کے وہ اخلاقی بندھن ٹوٹ جاتے جن کی وجہ سے آج دنیا حیوانیت سے بچی ہوتی ہے۔ چنانچہ مذہب کا مقصد یہ نہیں کہ انسان کے اپنے اندر کوئی قدرت نہیں ہے بلکہ مذہب نے انسان کی اس پوشیدہ قوت کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے اصول پیش کیے ہیں تاکہ اس کو اپنی ذات پر ایک ایسا یقین ،ایک ایسا ایمان پیدا ہو جائے جو اٹل ہے۔ *اس یقین کو میں سائنسی طور پر آپ کے اندر ابھارنے کا خواہش مند ہوں تاکہ آپ کا ہر قدم اپنے اندر چھپے ہوئے یقین پر بھروسہ کرتا رہے۔*ہم یہ یقین کہ آپ جو کام کریں گے، پورا ہو گا۔*یہ یقین کہ اپ جو کام کریں گے پورا ہوگا
*یہ یقین کہ آپ کی ذات قوی اور روحانی طور پر طاقتور ذات ہے۔ *یہ یقین کہ آپ اپنی چھپی ہوئی روحانی اور مقناطیسی قوتوں کو بروئے کار لا کرنوع انسانی کی خدمت کر سکتے ہیں۔
* یہ یقین کہ آپ اپنے آدرش IDEAL تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دن رات آپ اپنی ذات پر بھروسہ کریں۔ اپنی کمزوریوں کی وجہ سے شرمسار ہونے کے بجائے ان کی اصلاح کرکے قوت اعتماد پیدا کریں اور یہ نہ بھولیں کہ کوئی انسان کمزوریوں سے پاک نہیں۔ اگر آپ وزیر اعظم سے ملنے جا رہے ہیں تو یقین رکھیے وہ بھی آپ ہی طرح کا انسان ہے ممکن ہے اس میں آپ سے کہیں زیادہ کمزوریاں ہوں۔ وہ بھی آپ ہی کی طرح محبت اور نفرت کا پیکر ہے۔ اس لئے اس کی پوزیشن سے خوف زدہ ہونے کے بجائے اپنے اوپر اعتماد رکھ کر اس سے ملاقات کیجئے۔ یقین رکھیے وہ آپ سے اس طرح ملاقات کرے گا جس طرح آپ ملنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ نے اعتماد کھو دیا تو آپ کی زبان لڑکھڑا جائے گی، آپ کا گلا خشک ہو جائے گا اور اپنا مقصد بیان کرنے کے بجائے بھٹک جائیں گے۔ یہ بے یقینی ہر انسان کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے۔ آپ انسانوں سے خوف زدہ ہونے کے بجائے ان پر حکومت کا یقین پیدا کریں۔ ایسی حکومت جس میں خلوص ہو یاد رکھیے آپ کا ہر عضو آپ کے مخفی احساسات کا مظہر ہوتا ہے۔آپ کی آنکھیں آپ کا چہرہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا آپ کی بے اعتمادی یا اعتماد کی چغلی کھاتا ہے۔ اگر آپ کے اندر اعتماد ہے، قوت یقین ہے تو آپ کی تمام حرکتیں، تمام افعال، تمام باتیں بدل جاتی ہیں اور دیکھنے والا فوراً ان سے متاثر ہو جاتا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ مفرور ملزم پولیس والے کو دیکھتے ہی پیلا پڑجاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ مجرم ہے اپنا اعتماد اپنا یقین کھو چکا ہے۔ ایک بغیر ٹکٹ سفر کرنے والے کو ٹکٹ چیکر فورا بھانپ جاتا ہے کیونکہ اس کا چہرہ اس کی آنکھیں ، اس کے فعل کی چغلی کھاتے ہیں کہ اس نے بے ایمانی کی ہے جس کی وجہ سے اس کے اندر بے یقینی اور بے اعتمادی کا پیدا ہونا ضروری ہے۔ اپنی ذات پر بھروسہ اور اعتمادحاصل کرنے کا پہلا زریں اصول بھی یہ ہی ہے کہ آپ اپنے ضمیر کو کسی جرم سے آلودہ نہ ہونے دیں ، مجرم ضمیر کبھی خود اعتمادی پیدا نہیں کر سکتا۔خواہ آپ ماہر تنویم بننا چاہیں یا نہ بنا چاہیں۔ خود اعتمادی زندگی کے ہر دور میں آپ کے لئے راہیں ہموار کرتی ہے اور خود اعتمادی کے لئےضمیر کی صفائی لازمی ہے۔ ایک ماہر تنویم کے لئے اعتماد اور یقین اول چیز ہے۔ اگر آپ بے اعتمادی سے ڈرتے ڈرتے کسی کو ہپنا ٹائز کرنے کی سعی کریں گے تو آپ اپنے تجربے میں ناکام رہیں گے۔ اس لئے یہ اعتماد رکھیےکہ آپ کامیاب ہوں گے اور یقین مانئے آپ واقعی کامیاب ہوں گے۔ ایک عبادت گزار اور مذہبی انسان کو اپنی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے۔اس کا ضمیر پاک ہوتا ہے اس کی روح پاک ہوتی ہے اور اس کو اپنے خدا پر (جو آپ کی ذات کا مالک ہے)اعتماد ہوتا ہے۔ اس طرح اس کو اپنی ذات پر بھروسہ ہوتا ہے۔ کیا کبھی پتھر کے بت بھی کسی کی مرادیں پوری کر سکتے ہیں؟مگر کروڑوں انسان ان ہی مورتیوں کو پوج کر اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔کیوں؟یقین یقین اور ایمان ” ایسا ایمان ایسا یقین کہ ”خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔”
ص:29
قوت یقین
01
Apr