ی۔دینیات, روزہ کا بیان, زکاۃ کا بیان

صدقہ فطر کے واجب ہونے کے احکام

مسئله .صدقہ فطر کس پر واجب اور کس عمر سے شروع ہو جاتا ہے؟
بسم الله الرحمن الرحيم
الجواب بِعَونِ المَلِكِ الوَهَّابُ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِي النُّورَ وَالصَّوَابُ۔
صدقہ فطر ہر مالک نصاب آزاد مسلمان پر واجب ہے اور اس میں زکوۃ کی طرح بالغ ہونا شرط نہیں ۔ جیسا کہ در مختار میں ہے کہ “تجب عَلَى كُلِّ حُرٍ مُسْلِمٍ ذِي نِصَابٍ فَاضِلٍ عَنْ حَاجَتِهِ الْأَصْلِيَّةِ صدقہ فطر ہر مسلمان آزاد مالک نصاب پر جس کا نصاب حاجت اصلیہ سے فارغ ہو واجب ہے۔ الدر المختار، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، ج ۳، ص ۳۶۵۳۶۲.]
اس کے تحت علامہ شامی فرماتے ہیں کہ وَأَمَّا الْعَقْلُ وَالْبُلُوغُ فَلَيْسَا مِنْ شَرَائِطِ الْوُجُوبِ فِي قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةً وَأَبِي يُوسُفَ، حَتَّى تَجِبَ عَلَى الصَّبِيِّ وَالْمَجْنُونِ إِذَا كَانَ لَهُمَا مَالٌ وَيُخْرِجُهَا الْوَلِيُّ مِنْ مَالِهِمَا شیخین کے قول کے مطابق اس میں عاقل و بالغ ہونا ضروری نہیں ۔ صدقہ فطر بچے اور پاگل پر بھی واجب ہوتا ہے جب ان کی ملکیت میں مال ہو ان کا ولی ان کے مال سے ان کا صدقہ فطر ادا کرے گا۔  الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، ج ۳، ص ۳۶۵]
معلوم ہوا کہ اگر بچے یا پاگل کی ملکیت میں مال ہے تو ان کا ولی ان کے مال سے صدقہ فطر ادا کرے گا اور اگر بچے یا پاگل کی ملکت میں مال نہیں تو صدقہ فطر س کے ولی (والد یا اور نہیں تو دادا ) پر واجب ہوگا۔ جیسا کہ ردالمختارمیں ہے کہ فَلَوْ كَانَا فَقِيرَيْنِ لَمْ تَجِبْ عَلَيْهِمَا بَلْ عَلَى مَنْ يَمُونُهُمَا الدر المختار مع رد المحتار، كتاب الزكاة، باب صدقة الفطر، ج ۳، ص ۳۶۵] ایسا ہی بہار شریعت میں ہے کہ مرد مالک نصاب پر اپنی طرف سے اور اپنے چھوٹے بچے کی طرف سے واجب ہے، جبکہ بچہ خود مالک نصاب نہ ہو، ورنہ اس کا صدقہ اسی کے مال سے ادا کیا جائے اور مجنون اولاد اگرچہ بالغ ہو جبکہ غنی نہ ہو تو اُس کا صدقہ اُس کے باپ پر واجب ہے اور غنی ہو تو خود اس کے مال سے ادا کیا جائے ، جنون خواہ اصلی ہو یعنی اسی حالت میں بالغ ہوا یا بعد کو عارض ہوا دونوں کا ایک حکم ہے۔بهار شریعت ج ا حصه ۵ صدقه فطر کا بیان .ص ۹۳۶]
وَاللهُ تَعَالَى أَعْلَمُ وَرَسُولُهُ أَعْلَم عَزَّ وَجَلَّ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلِّم۔
فتاوی یورپ و برطانیہ ص 264۔.