ختم نبوت فورم, قادیانیت

ختم نبوت کیا ہے

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں : قادیانیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ” خاتم النبیین ” ہونے سے مراد یہ ہے کہ ان کے بعد جو بھی نبی (معاذ اللہ) آئیگا وہ نبوت کے اس اعلی مرتبے کو نہ پہنچے گا جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فائز تھے البتہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔
آپ سے گذارش ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلے کو حل فرمائیں ۔ خصوصا کوئی ایسی حدیث بتائیں۔ ، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہو کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ ۔ (معاذ اللہ)
الجواب:
قرآنِ پاک ۔پارہ ومن یقنت 22۔ سورة نمبر 33 الاحزاب آیت نمبر 40۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(40)
ترجمه کنزالایمان
محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔۔
۔ حدیث شریف میں حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال
:
إنَّ مَثَلِي ومَثَلَ الأنْبِياءِ مِن قَبْلِي، كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى بَيْتًا فأحْسَنَهُ وأَجْمَلَهُ، إلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِن زاوِيَةٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ به، ويَعْجَبُونَ له، ويقولونَ: هَلَّا وُضِعَتْ هذِه اللَّبِنَةُ؟ قالَ: فأنا اللَّبِنَةُ، وأنا خاتِمُ النَّبيِّينَ.
الراوي : أبو هريرة | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم: 3535 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اور انبیاء سابقین کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے ایک محل بنایا ۔ پھر اسے سجایا اور آراستہ کیا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ، تو لوگ اس کے گرد گھومنے اور حیرت کرنے لگے اور کہنے لگے : یہ اینٹ کیوں نہ لگائی گئی کہ عمارت اور اس کا حسن مکمل ہو جاتے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں ہی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبین (آخری نبی ) ہوں ۔
امام مسلم بن حجاج القشیری نے حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث روایت کی ہے ۔ اس حدیث کے آخری الفاظ یہ ہیں : فانا موضع اللبنة جئت فختمت الانبياء عليهم السلام (صحیح مسلم ، جلد : دوم ، كتاب الفضائل ، باب ذكر كونه صلى الله عليه وسلم خاتم النبين ) یعنی وہ اینٹ کی جگہ میں ہی ہوں ، میں آیا تو سلسلہ نبوت اختتام پذیر ہو گیا ۔
امام مسلم بن حجاج القشیری نے مسلم شریف میں ایک اور حدیث روایت کی ہے : عن سعد بن ابي وقاص قال خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابن أبي طالب في غزوة تبوك فقال يا رسول الله تخلفني في النساء والصبيان فقال اما ترضى أن تكون مني بمنزلة بارون من موسى غير انه لا نبی بعدی – (مسلم جلد دوم ، كتاب الفضائل ، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی الله تعالى عنها۔
یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب کو (مدینہ میں) اپنا جانشین بنایا تو انہوں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جا رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمھارا مرتبہ میرے نزدیک وہی ہو ، جو حضرت موسی علیہ السلام کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام کا تھا ، بجز اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے

۔ اس آیت قرآنی اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ہر قسم کی نبوت خواہ وہ ظلی ہو یا بروزی ، تشریعی ہو یا غیر تشریعی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکی ہے۔ لہذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی حیثیت سے کسی نبی کے آنے کو ماننے یا ممکن بتانے والا آیات قرآنیہ اور احادیث کا منکر ہے اور قرآن و حدیث کا منکر کافر و مرتد ہے ۔

وقار الفتاویٰ جلد نمبر 1 ص نمبر 43