سوال- ہمارے یہاں ایک حافظ صاحب جو اشرف علی کے مترجم قرآن شریف میں حفظ کیا ہے یہاں وہ امامت کرتے تھے جب لوگوں کو معلوم ہوا لوگوں نے کہا اس قرآن مجید کو دفن کردو انھوں نے دفن نہیں کیا امامت چھوڑ دیئے ہیں،دوسری جگہ قریب ہی امامت کرتے ہیں ابھی بھی قرآن شریف موجود ہے حافظ صاحب تو عالم نہیں صرف حافظ ہیں اگر کبھی کوئی سورت کا ترجمہ دیکھنا پڑتا ہوگا تو اسی میں دیکھتے ہوں گےآخر ان کو ضد کیا ہے قرآن شریف کیوں نہیں بدلتے جبکہ وہ اپنے کو سنی کہتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہی حافظ صاحب ابھی ابھی عرصہ چھ ماہ ہوا اپنے چھوٹے بھائی کی شادی ایک تبلیغی جماعت کا آدمی جوچلہ میں اکثر جایا کرتا ہے تبلیغی جماعت کا ہے اس کی لڑکی کے ساتھ شادی کی ہے کیا ضرورت تھی وہاں کرنے کی دوسری جگہ بھی کر سکتے ہیں ۔کہتے ہیں ہم سنی بنالیں گے۔ مہربانی فرماکر تسلی بخش جواب دیں۔

الجواب:بعض حفاظ ایسے ہوتے ہیں کہ جس قرآن مجید میں وہ حفظ کرتے ہیں اس قرآن مجید کی مدد سے اپنے حفظ کو برقرار رکھتے ہیں اور دوسرے قسم کے مطبوعہ قرآن مجید سے اپنے بھولے ہوئے کو یاد نہیں کر پاتے اگر حافظ مذکور کی ایسی ہی حالت ہے تو اسے اس قرآن مجید کے رکھنے اور پڑھنے میں معذور رکھا جائے گا لیکن اس کا ترجمہ اور تفسیر دیکھنا ہرگز جائز نہیں کہ دین وایمان کے لئے زہر قاتل ہےاوراگرحافظ دوسرے قسم کے مطبوعہ قرآن مجیدسے اپنے حفظ کو برقرار رکھ سکتا ہے اور اپنے بھولے ہوئے کو یاد کر سکتا ہے تو بیشک اسے اس قرآن مجید کو دفن کر دیناچاہئے۔
کہ غیر عالم کے لئے اس کا ترجمہ اور تفسیر فتنہ ہے بلکہ عام علماء کو بھی اس کے ترجمہ اور تفسیر کے مطالعہ کی اجازت نہیں، ۔
اور تبلیغی جماعت اور اس کی لڑکی اگر دیوبندی مولویوں کے عقائد کفریہ مندرجہ حفظ الایمان ص8 تحذیر الناس ص 28٫714٫3اور براہین قاطعہ ص51 پر یقینی اطلاع پاتے ہوئے ان کفری عبارتوں کو حق سمجھتے ہیں تو بمطابق فتوی حسام الحرمین باپ مرتد ہے اس سے رشتہ کرنا جائز نہیں اور لڑکی مرتدہ ہے اس کا نکاح کسی سے منعقد ہی نہیں ہوسکتا۔
جیسا کہ فتاوی عالمگیری جلد اول ص263 میں ہے” مرتد کا نکاح مرتدہ مسلمہ اور کافرہ اصلیہ کسی سے جائز نہیں اور ایسے ہی مرتدہ کا نکاح کسی سے جائز نہیں۔
ایسا ہی مبسوط میں ہے اور اگر دیوبندیوں کے عقائد کفریہ کو باپ اور بیٹی حق نہیں سمجھتے ۔لیکن ان کا طریقہ کار وباہیوں جیسا ہے اور دیوبندیوں کے پیچھے نماز جائز سمجھتے ہیں تو گمراہ ہیں اس صورت میں اگرچہ نکاح منعقد ہو گیا لیکن لڑکی کو توبہ کرانے کے بعد اس کے باپ کے یہاں آمد و رفت رکھنے سے روکنا اور سب کو اس کے تبلیغی باپ سے قطع تعلق رکھنا لازم ہے اگر حافظ مذکور تبلیغی جماعت کے آدمی سے قطع تعلق نہ کرے تو ایسا شخص قابل امامت نہیں۔ وهو سبحانه و تعالى اعلم
بحوالہ:فتاوی فیض الرسول
ص:332

Shopping cart
Facebook Instagram YouTube Pinterest